Mayyat Ke Roza Ka Byan
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 میت کے روزوں کے احکام :
میت کی طرف سے رمضان کے چھوٹےہوئے روزوں کی قضا
تحریر: مقبول احمد سلفی
میت کے روزوں کی چند اقسام ہیں ۔
🌟 پہلی قسم : ایسی میت جس نے قصدا رمضان کا کوئی روزہ ہی نہیں رکھا اور وہ نہ نماز کا پابند رہاہے اور نہ ہی روزوں کا ۔ ایسے مریض کے چھوٹے ہوئے روزوں کی کوئی قضا اور کوئی فدیہ نہیں ہے کیونکہ وہ تارک صلاۃ اور تارک صوم ہے جس کا حکم کافرکا ہے ۔
🌟 دوسری قسم : ایسی میت جو نمازوروزہ کی پابند ہو(فرضیت صوم وصلاۃ کا قائل ہو) مگر غفلت وسستی کی وجہ سے اس نے رمضان کے چند روزے عمداچھوڑا ہو صحیح قول کے مطابق اس کے روزوں کی قضا وارثین کے ذمہ ہے ۔
🌟 تیسری قسم : ایسا میت جو دائمی بیمارہو یا کبر سنی کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو ہر روزہ کے بدلے اسے زندگی میں ہی فدیہ دینا چاہئے تھا مگر اس وقت کسی وجہ سے نہیں دے سکا تو وفات کے بعد اس کے وارثین میت کے مال میں سے ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو نصف صاع اناج صدقہ کرے ۔
🌟 چوتھی قسم : ایسا میت جسے وفات سے پہلے اچانک رمضان میں مرض لاحق ہوگیا اوراسی مرض میں مبتلا ہوکر وفات پاگیا اسے روزہ قضا کرنے کی مہلت نہیں ملی تو ایسے مریض کی جانب سے وارثین پر نہ روزہ ہے ، نہ فدیہ کیونکہ میت معذور ہے خواہ میت سے رمضان کے پورے روزے چھوٹے ہوں یا آخر کے چند ۔ یہی حکم حیض ونفاس کی حالت میں چھوٹے روزے اور بعد میں اس کی مہلت نہ پانے کا بھی ہے یعنی قضا کی مہلت نصیب نہ ہوئی وفات ہوگئی۔
🌟 پانچویں قسم : ایسا میت جس نے رمضان میں سفر یا بیماری یا حیض یا نفاس یا حمل یا رضاعت یا کسی اور عذر کی وجہ سے چند روزہ چھوڑا ہواور رمضان کے بعد اس کی ادائیگی کی مہلت ملی مگر کسی وجہ سے قضا نہیں کرسکا تو وفات کے بعد میت کے وارثین میں سے کوئی ایک یا چاہیں تو سبھی مل کر میت کے چھوٹے ہوئے روزے رکھ لیں یہ جائز ومشروع ہےتاہم یہ بات بھی علم میں رہے کہ اگر فدیہ بھی دے دیا جائے تو کفایت کرجائے گا۔ اسی طرح یہ بھی حکم ہے کہ اگرمیت کے رشتہ داروں میں سے کوئی روزہ نہ رکھ سکتا ہو یا روزہ رکھنے والا کوئی موجود نہ ہو تو بھی فدیہ دے دیا جائے گا۔
🌟 چھٹی قسم : میت کے ذمہ کفارات کے روزے ہوں تو اس کی بھی قضا کی جائے گی۔
🌟 ساتویں قسم : میت کے ذمہ نذر کے روزے ہوں تو بلااختلاف اس کی قضا دینی ہوگی ۔
🌟 آٹھویں قسم : میت کی طرف سے عام نفلی روزے نہیں رکھے جائیں گے یعنی میت کے ایصال ثواب کے لئے نفلی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے ۔
🌟 نویں قسم : ایسا آدمی جس نے رمضان کا چند دن پایا ان میں روزہ رکھا اور پھر درمیان میں فوت ہوگیا تو فوت ہونے کے وقت سے لیکر رمضان کے اخیر تک جو روزہ میت نہیں رکھ سکا اس کی قضا نہیں ہے کیونکہ میت کے رمضان کے یہ دن پائے ہی نہیں اور رمضان کا روزہ اس کے لئے ہے جو رمضان پائے ۔
اوپر آپ نے میت کے روزوں کی نو اقسام کا علم حاصل کیا ان میں سے بعض اقسام ایسی ہیں جن میں میت کی طرف سے روزوں کی قضا ہے اور بعض اقسام میں روزوں کی قضا نہیں ہے ۔ اب یہاں یہ بات جان لیں کہ میت کی طرف سے رمضان کے چھوٹے روزوں کی قضا سے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے ، بعض کے نزدیک میت کی طرف سے چھوٹے ہوئے رمضان کے روزوں کی قضا کرنی ہے جبکہ بعض اہل علم نے روزوں کے بجائے فدیہ دینے کی بات کہی ہے ۔
دلائل کی روشنی میں میت کی طرف سے چھوٹے ہوئے فرض روزوں کی قضا کا جواز اور اس کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے لہذا چند دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
(البقرۃ:184)
ترجمہ : اورجوکوئی مریض ہو یا پھر مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔
یہ آیت بتلاتی ہے کہ جب آدمی کو چھوٹے روزے کی مہلت (ایام اخر) ملے تو قضا کرے اور مہلت ملنے کی باجود قضا نہ کرسکا تو میت کا ولی قضا کرے ۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس میت کو اپنے روزوں کی قضا کی مہلت نہیں ملی اس کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا یا فدیہ وارث پہ نہیں ہے ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من مات وعليه صيامٌ, صام عنه وليُّه.
( صحيح البخاري:1952، صحيح مسلم:1147)
ترجمہ: جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔
یہاں ولی سے مرادسرپرست ووارث یعنی باپ ، بھائی ، بیٹا، چچا زاد بھائی یا قریبی رشتہ دارمیں سے کوئی بھی ہے۔ یہ حدیث اپنے معنی ومفہوم میں عام ہے جو نذر اور فرض روزوں کو شامل ہے ۔ اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ میت کے ذمہ اگر نذر کے روزے ہوں تو اس کا وارث قضا کرے گا اختلاف صرف اس میں ہے کہ میت کے فرض روزے جو رمضان کے ہیں اس کی قضا کرے گا کہ نہیں ؟۔
مذکورہ حدیث کی صحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ بخاری ومسلم کی ہے ۔ اسی طرح صحیحین کی یہ روایت بھی دلیل ہے :
جاء رجلٌ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! إنَّ أمي ماتت
وعليها صومُ شهرٍ . أفأقضيهِ عنها ؟ فقال " لو كان على أمكَ دَيْنٌ ، أكنتَ
قاضيهِ عنها ؟ " قال : نعم . قال " فدَيْنُ اللهِ أحقُّ أن يُقضى "
(صحيح مسلم:114
ترجمہ:ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ کے پاس آ کر کہا: اے اللہ کے رسول! میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے ہیں، کیا میں اس کی طرف سے قضا کروں؟ تو آپﷺ نے فرمایا:اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا اس کی طرف سے تو ادا نہ کرتا، کہاں ہاں ۔ تو نبی نے کہا کہ اللہ کاقرض قضا کئے جانے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
شھر کے لفظ سے غالب گمان یہی ہے کہ سائل نے اپنی ماں کے چھوٹے ہوئےرمضان کے روزے کی بابت ہی سوال کیا ہو کیونکہ رمضان کا روزہ ایک مہینہ کا ہوتا ہے جس کی یہاں صوم شھر سے تعبیر کی گئی ہے۔ ان احادیث کے علاوہ مسند احمد کی ایک روایت میں صاف لفظ رمضان کے روزوں کی قضا کا ذکر ہے ۔
أتتهُ امرأةٌ فقالت : إنَّ أمي ماتت وعليها صومُ شهرِ رمضانَ أَفَأَقْضِيهِ عنها قال :
أرأيتُكِ لو كان عليها دَيْنٌ كنتِ تقضيهِ قالت : نعم قال : فَدَيْنُ اللهِ عزَّ وجلَّ أَحَقُّ أن يُقْضَى
( مسند أحمد)
ترجمہ: ایک عورت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی، میری امی فوت ہوگئی ہیں ، ان پررمضان کے ایک مہینے کے روزے ہیں ، کیا میں ان کی طرف سے قضاکروں ؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتی؟ تو انہوں نے کہا ۔ہاں ۔ آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
بعض محدثین نے رمضان کا لفظ نقل کرنے والوں کی خطا قرار دیا ہے مگر علامہ احمد شاکرنے مسند احمد کی تحقیق میں اس لفظ کو ثابت مانا ہے اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔
دیکھیں المسند ،تحقیق احمد شاکر: 5/141)
یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی وارد میں ہے مگر وہاں رمضان کا لفظ نہیں ہےصوم شھر آیا ہے اور پہلے بتلا چکا ہوں کہ صوم شھر سے بظاہر رمضان ہی مراد ہے۔ اس حدیث سے ظاہر ا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعہ ہوگا ایک مرتبہ عورت نےرسول اللہ ﷺ سے سوال ہو اور دوسری مرتبہ مرد نے سوال کیا ہو۔اگر رمضان کا لفظ ثابت مان لیا جائے جیساکہ بعض نسخون میں ہے تو پھر اختلاف کی گنجائش ہی نہیں رہتی ،مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ میت کے چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزے قضا کئے جائیں گے ۔ متقدمین ومتاخرین علماء میں سے بہت سے اسے موقف کے قائل ہیں مگر بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ میت کی طرف سے رمضان کے روزوں کی قضا کے قائل نہ تھے بلکہ فدیہ دینے کے قائل تھے ۔ نیچے ان ادلہ کا جواب دیا جارہاہے جن سے استدلال کرتے ہوئے میت کی طرف سے فرض روزوں کی قضا کا انکار کیا جاتا ہے ۔
🖊فضیلةالشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
میت کے فرض روزے رہتے ہوں خواہ وہ رمضان المبارک کے ہوں نذر کے ہوں یا کفارہ کے میت کے اولیاء اسکی طرف سے روزے ہی رکھیں گے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ»
جو شخص فوت ہو جائے اور اسکے ذمہ روزہ ہو تو اسکا ولی اسکی طرف سے روزہ رکھے۔
صحیح البخاری: 1952
یہ روایت عام ہے اس میں ہر قسم کے فرض روزے داخل و شامل ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ روایت عام نہیں ہے بلکہ نذر کے روزوں کے ساتھ ہے اور اسکے لیے وہ بطور دلیل یہ روایت پیش کرتے ہیں: نذر کے روزوں کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ:
«أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: «فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ»
ایک عورت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اسکے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے ۔ تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟ کہنے لگی جی ہاں! آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اللہ کا قرض ادا کیے جانے کا زیادہ حقدار ہے۔
صحیح مسلم: 1148
صحیح البخاری میں وضاحت ہے :
إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اس پر نذر کے روزے ہیں۔
صحیح البخاری: 1953
لیکن اس روایت سے صحیح بخاری کی پہلی عام روایت کو خاص کرنا درست نہیں کیونکہ
🌟 اولا:
علم اصول کا مسلمہ قاعدہ ہے : اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے سبب کے خصوص کا نہیں اور دوسرا قاعدہ ہے: عام کے افراد میں سے کسی ایک فرد کا ذکر اس عام کے عموم کو ختم نہیں کرتا ۔ اور حدیث " من مات وعلیہ صیام میں عموم کا ذکر ہے ۔اور نذر والی حدیث میں اس عام کے ایک فرد کا تذکرہ ہے ۔لہذا اسے نذر کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں !
🌟 ثانیا:
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ، وَإِنَّهَا مَاتَتْ، قَالَ: فَقَالَ: «وَجَبَ أَجْرُكِ، وَرَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ: «صُومِي عَنْهَا» قَالَتْ: إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: «حُجِّي عَنْهَا»
میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی والدہ پر ایک لونڈی صدقہ کی تھی اور میری والدہ اب فوت ہوگئی ہے تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اجر مل گیا اور وراثت میں وہ لونڈی پھر تجھے مل گئی۔ اس نے کہ اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے تو کیا میں اسکی طرف سے روزے رکھوں؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی طرف سے روزے رکھ۔ کہنے لگی کہ اس نے کبھی حج نہیں کیا تھا تو کیا میں انکی طرف سے حج کروں؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انکی طرف سے حج کر۔
صحیح مسلم: 1149
یہی روایت ابو عوانہ میں وضاحت کے ساتھ ہے:
وَعَلَيْهَا صَوْمٌ مِنْ رَمَضَانَ انکے ذمہ رمضان کے روزے ہیں۔
مستخرج أبی عوانۃ : 2906
اس روایت سے واضح ہوگیا کہ رمضان کے روزے بھی میت کی طرف رکھے جائیں گے ولی پہ لازم ہے کہ انکی قضائی دے۔
🌟 ثالثا:
فدیہ کا حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں اللہ تعالى نے اسے منسوخ فرما دیا۔
ابن ابی لیلى فرماتے ہیں:
حدثنا أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم نزل رمضان فشق عليهم فكان من أطعم كل يوم مسكينا ترك الصوم ممن يطيقه ورخص لهم في ذلك فنسختها وأن تصوموا خير لكم فأمروا بالصوم
کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہمیں بتایا کہ جب رمضان کے روزوں کی فرضیت نازل ہوئی تو جس پر روزہ گراں گزرتا , اگر اسکے پاس طاقت ہوتی تو وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور روزہ چھوڑ دیتا , اور انہیں اس بات کی رخصت تھی , پھر اس رخصت کو وأن تصوموا خير لكم نے منسوخ کر دیا اور انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
صحیح البخاری:
قبل حدیث 1949 نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے
(فِدْيَةُ طَعَامِ مَسَاكِينَ)
کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:
«هِيَ مَنْسُوخَةٌ» یہ منسوخ ہے
صحیح البخاری: 1949
🖊فضیلةالشیخ ابوعبدالرحمٰن رفیق طاہرحفظہ اللہ
خلاصہ کلام اور راحج قول یہ ہے کہ میت کی طرف چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزے قضا کئے جائیں گے ،یہ مسئلہ منصوص اور جائزو مشروع ہے ۔ نبی ﷺ نے اسے میت کا قرض قرار دیا ہے اور قرض کی ادائیگی اسی شکل میں ادا کرنا اولی ہے جس شکل کا قرض ہے یعنی میت کے ذمہ روزہ کا قرض باقی ہے تو اس کے وارثین روزہ کی قضا دے کر اس قرض کو اتارے ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اضافہ کرتا ہوں اگر میت کے وارثین میں سے کوئی روزہ نہ رکھ سکےیا نہ رکھنا چاہے یا روزہ رکھنے والا کوئی موجود ہی نہ ہو تو فدیہ ادا کردیا جائے۔آخری بات یہ جان لیں کہ ایسی کوئی مرفوع حدیث نہیں جس میں کہا گیا ہو کہ رمضان کے روزوں کی قضا نہیں ہے البتہ صحیح مرفوع احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میت کے چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزوں کی قضا ہے ۔ اس مسئلہ کے ساتھ سب سے اوپربیان کردہ میت کے روزوں کی اقسام کی بھی دھیان رہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 میت کے روزوں کے احکام :
میت کی طرف سے رمضان کے چھوٹےہوئے روزوں کی قضا
تحریر: مقبول احمد سلفی
میت کے روزوں کی چند اقسام ہیں ۔
🌟 پہلی قسم : ایسی میت جس نے قصدا رمضان کا کوئی روزہ ہی نہیں رکھا اور وہ نہ نماز کا پابند رہاہے اور نہ ہی روزوں کا ۔ ایسے مریض کے چھوٹے ہوئے روزوں کی کوئی قضا اور کوئی فدیہ نہیں ہے کیونکہ وہ تارک صلاۃ اور تارک صوم ہے جس کا حکم کافرکا ہے ۔
🌟 دوسری قسم : ایسی میت جو نمازوروزہ کی پابند ہو(فرضیت صوم وصلاۃ کا قائل ہو) مگر غفلت وسستی کی وجہ سے اس نے رمضان کے چند روزے عمداچھوڑا ہو صحیح قول کے مطابق اس کے روزوں کی قضا وارثین کے ذمہ ہے ۔
🌟 تیسری قسم : ایسا میت جو دائمی بیمارہو یا کبر سنی کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو تو ہر روزہ کے بدلے اسے زندگی میں ہی فدیہ دینا چاہئے تھا مگر اس وقت کسی وجہ سے نہیں دے سکا تو وفات کے بعد اس کے وارثین میت کے مال میں سے ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو نصف صاع اناج صدقہ کرے ۔
🌟 چوتھی قسم : ایسا میت جسے وفات سے پہلے اچانک رمضان میں مرض لاحق ہوگیا اوراسی مرض میں مبتلا ہوکر وفات پاگیا اسے روزہ قضا کرنے کی مہلت نہیں ملی تو ایسے مریض کی جانب سے وارثین پر نہ روزہ ہے ، نہ فدیہ کیونکہ میت معذور ہے خواہ میت سے رمضان کے پورے روزے چھوٹے ہوں یا آخر کے چند ۔ یہی حکم حیض ونفاس کی حالت میں چھوٹے روزے اور بعد میں اس کی مہلت نہ پانے کا بھی ہے یعنی قضا کی مہلت نصیب نہ ہوئی وفات ہوگئی۔
🌟 پانچویں قسم : ایسا میت جس نے رمضان میں سفر یا بیماری یا حیض یا نفاس یا حمل یا رضاعت یا کسی اور عذر کی وجہ سے چند روزہ چھوڑا ہواور رمضان کے بعد اس کی ادائیگی کی مہلت ملی مگر کسی وجہ سے قضا نہیں کرسکا تو وفات کے بعد میت کے وارثین میں سے کوئی ایک یا چاہیں تو سبھی مل کر میت کے چھوٹے ہوئے روزے رکھ لیں یہ جائز ومشروع ہےتاہم یہ بات بھی علم میں رہے کہ اگر فدیہ بھی دے دیا جائے تو کفایت کرجائے گا۔ اسی طرح یہ بھی حکم ہے کہ اگرمیت کے رشتہ داروں میں سے کوئی روزہ نہ رکھ سکتا ہو یا روزہ رکھنے والا کوئی موجود نہ ہو تو بھی فدیہ دے دیا جائے گا۔
🌟 چھٹی قسم : میت کے ذمہ کفارات کے روزے ہوں تو اس کی بھی قضا کی جائے گی۔
🌟 ساتویں قسم : میت کے ذمہ نذر کے روزے ہوں تو بلااختلاف اس کی قضا دینی ہوگی ۔
🌟 آٹھویں قسم : میت کی طرف سے عام نفلی روزے نہیں رکھے جائیں گے یعنی میت کے ایصال ثواب کے لئے نفلی روزہ رکھنا جائز نہیں ہے ۔
🌟 نویں قسم : ایسا آدمی جس نے رمضان کا چند دن پایا ان میں روزہ رکھا اور پھر درمیان میں فوت ہوگیا تو فوت ہونے کے وقت سے لیکر رمضان کے اخیر تک جو روزہ میت نہیں رکھ سکا اس کی قضا نہیں ہے کیونکہ میت کے رمضان کے یہ دن پائے ہی نہیں اور رمضان کا روزہ اس کے لئے ہے جو رمضان پائے ۔
اوپر آپ نے میت کے روزوں کی نو اقسام کا علم حاصل کیا ان میں سے بعض اقسام ایسی ہیں جن میں میت کی طرف سے روزوں کی قضا ہے اور بعض اقسام میں روزوں کی قضا نہیں ہے ۔ اب یہاں یہ بات جان لیں کہ میت کی طرف سے رمضان کے چھوٹے روزوں کی قضا سے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے ، بعض کے نزدیک میت کی طرف سے چھوٹے ہوئے رمضان کے روزوں کی قضا کرنی ہے جبکہ بعض اہل علم نے روزوں کے بجائے فدیہ دینے کی بات کہی ہے ۔
دلائل کی روشنی میں میت کی طرف سے چھوٹے ہوئے فرض روزوں کی قضا کا جواز اور اس کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے لہذا چند دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
(البقرۃ:184)
ترجمہ : اورجوکوئی مریض ہو یا پھر مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔
یہ آیت بتلاتی ہے کہ جب آدمی کو چھوٹے روزے کی مہلت (ایام اخر) ملے تو قضا کرے اور مہلت ملنے کی باجود قضا نہ کرسکا تو میت کا ولی قضا کرے ۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس میت کو اپنے روزوں کی قضا کی مہلت نہیں ملی اس کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا یا فدیہ وارث پہ نہیں ہے ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من مات وعليه صيامٌ, صام عنه وليُّه.
( صحيح البخاري:1952، صحيح مسلم:1147)
ترجمہ: جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔
یہاں ولی سے مرادسرپرست ووارث یعنی باپ ، بھائی ، بیٹا، چچا زاد بھائی یا قریبی رشتہ دارمیں سے کوئی بھی ہے۔ یہ حدیث اپنے معنی ومفہوم میں عام ہے جو نذر اور فرض روزوں کو شامل ہے ۔ اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ میت کے ذمہ اگر نذر کے روزے ہوں تو اس کا وارث قضا کرے گا اختلاف صرف اس میں ہے کہ میت کے فرض روزے جو رمضان کے ہیں اس کی قضا کرے گا کہ نہیں ؟۔
مذکورہ حدیث کی صحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ بخاری ومسلم کی ہے ۔ اسی طرح صحیحین کی یہ روایت بھی دلیل ہے :
جاء رجلٌ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! إنَّ أمي ماتت
وعليها صومُ شهرٍ . أفأقضيهِ عنها ؟ فقال " لو كان على أمكَ دَيْنٌ ، أكنتَ
قاضيهِ عنها ؟ " قال : نعم . قال " فدَيْنُ اللهِ أحقُّ أن يُقضى "
(صحيح مسلم:114
ترجمہ:ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ کے پاس آ کر کہا: اے اللہ کے رسول! میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمے ایک ماہ کے روزے ہیں، کیا میں اس کی طرف سے قضا کروں؟ تو آپﷺ نے فرمایا:اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا اس کی طرف سے تو ادا نہ کرتا، کہاں ہاں ۔ تو نبی نے کہا کہ اللہ کاقرض قضا کئے جانے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
شھر کے لفظ سے غالب گمان یہی ہے کہ سائل نے اپنی ماں کے چھوٹے ہوئےرمضان کے روزے کی بابت ہی سوال کیا ہو کیونکہ رمضان کا روزہ ایک مہینہ کا ہوتا ہے جس کی یہاں صوم شھر سے تعبیر کی گئی ہے۔ ان احادیث کے علاوہ مسند احمد کی ایک روایت میں صاف لفظ رمضان کے روزوں کی قضا کا ذکر ہے ۔
أتتهُ امرأةٌ فقالت : إنَّ أمي ماتت وعليها صومُ شهرِ رمضانَ أَفَأَقْضِيهِ عنها قال :
أرأيتُكِ لو كان عليها دَيْنٌ كنتِ تقضيهِ قالت : نعم قال : فَدَيْنُ اللهِ عزَّ وجلَّ أَحَقُّ أن يُقْضَى
( مسند أحمد)
ترجمہ: ایک عورت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی، میری امی فوت ہوگئی ہیں ، ان پررمضان کے ایک مہینے کے روزے ہیں ، کیا میں ان کی طرف سے قضاکروں ؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتی؟ تو انہوں نے کہا ۔ہاں ۔ آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
بعض محدثین نے رمضان کا لفظ نقل کرنے والوں کی خطا قرار دیا ہے مگر علامہ احمد شاکرنے مسند احمد کی تحقیق میں اس لفظ کو ثابت مانا ہے اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔
دیکھیں المسند ،تحقیق احمد شاکر: 5/141)
یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی وارد میں ہے مگر وہاں رمضان کا لفظ نہیں ہےصوم شھر آیا ہے اور پہلے بتلا چکا ہوں کہ صوم شھر سے بظاہر رمضان ہی مراد ہے۔ اس حدیث سے ظاہر ا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعہ ہوگا ایک مرتبہ عورت نےرسول اللہ ﷺ سے سوال ہو اور دوسری مرتبہ مرد نے سوال کیا ہو۔اگر رمضان کا لفظ ثابت مان لیا جائے جیساکہ بعض نسخون میں ہے تو پھر اختلاف کی گنجائش ہی نہیں رہتی ،مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ میت کے چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزے قضا کئے جائیں گے ۔ متقدمین ومتاخرین علماء میں سے بہت سے اسے موقف کے قائل ہیں مگر بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ میت کی طرف سے رمضان کے روزوں کی قضا کے قائل نہ تھے بلکہ فدیہ دینے کے قائل تھے ۔ نیچے ان ادلہ کا جواب دیا جارہاہے جن سے استدلال کرتے ہوئے میت کی طرف سے فرض روزوں کی قضا کا انکار کیا جاتا ہے ۔
🖊فضیلةالشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
میت کے فرض روزے رہتے ہوں خواہ وہ رمضان المبارک کے ہوں نذر کے ہوں یا کفارہ کے میت کے اولیاء اسکی طرف سے روزے ہی رکھیں گے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ»
جو شخص فوت ہو جائے اور اسکے ذمہ روزہ ہو تو اسکا ولی اسکی طرف سے روزہ رکھے۔
صحیح البخاری: 1952
یہ روایت عام ہے اس میں ہر قسم کے فرض روزے داخل و شامل ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ روایت عام نہیں ہے بلکہ نذر کے روزوں کے ساتھ ہے اور اسکے لیے وہ بطور دلیل یہ روایت پیش کرتے ہیں: نذر کے روزوں کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ:
«أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: «فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ»
ایک عورت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اسکے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے ۔ تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟ کہنے لگی جی ہاں! آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اللہ کا قرض ادا کیے جانے کا زیادہ حقدار ہے۔
صحیح مسلم: 1148
صحیح البخاری میں وضاحت ہے :
إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اس پر نذر کے روزے ہیں۔
صحیح البخاری: 1953
لیکن اس روایت سے صحیح بخاری کی پہلی عام روایت کو خاص کرنا درست نہیں کیونکہ
🌟 اولا:
علم اصول کا مسلمہ قاعدہ ہے : اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے سبب کے خصوص کا نہیں اور دوسرا قاعدہ ہے: عام کے افراد میں سے کسی ایک فرد کا ذکر اس عام کے عموم کو ختم نہیں کرتا ۔ اور حدیث " من مات وعلیہ صیام میں عموم کا ذکر ہے ۔اور نذر والی حدیث میں اس عام کے ایک فرد کا تذکرہ ہے ۔لہذا اسے نذر کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں !
🌟 ثانیا:
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ، وَإِنَّهَا مَاتَتْ، قَالَ: فَقَالَ: «وَجَبَ أَجْرُكِ، وَرَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ: «صُومِي عَنْهَا» قَالَتْ: إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: «حُجِّي عَنْهَا»
میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی والدہ پر ایک لونڈی صدقہ کی تھی اور میری والدہ اب فوت ہوگئی ہے تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اجر مل گیا اور وراثت میں وہ لونڈی پھر تجھے مل گئی۔ اس نے کہ اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے تو کیا میں اسکی طرف سے روزے رکھوں؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی طرف سے روزے رکھ۔ کہنے لگی کہ اس نے کبھی حج نہیں کیا تھا تو کیا میں انکی طرف سے حج کروں؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انکی طرف سے حج کر۔
صحیح مسلم: 1149
یہی روایت ابو عوانہ میں وضاحت کے ساتھ ہے:
وَعَلَيْهَا صَوْمٌ مِنْ رَمَضَانَ انکے ذمہ رمضان کے روزے ہیں۔
مستخرج أبی عوانۃ : 2906
اس روایت سے واضح ہوگیا کہ رمضان کے روزے بھی میت کی طرف رکھے جائیں گے ولی پہ لازم ہے کہ انکی قضائی دے۔
🌟 ثالثا:
فدیہ کا حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں اللہ تعالى نے اسے منسوخ فرما دیا۔
ابن ابی لیلى فرماتے ہیں:
حدثنا أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم نزل رمضان فشق عليهم فكان من أطعم كل يوم مسكينا ترك الصوم ممن يطيقه ورخص لهم في ذلك فنسختها وأن تصوموا خير لكم فأمروا بالصوم
کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہمیں بتایا کہ جب رمضان کے روزوں کی فرضیت نازل ہوئی تو جس پر روزہ گراں گزرتا , اگر اسکے پاس طاقت ہوتی تو وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور روزہ چھوڑ دیتا , اور انہیں اس بات کی رخصت تھی , پھر اس رخصت کو وأن تصوموا خير لكم نے منسوخ کر دیا اور انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
صحیح البخاری:
قبل حدیث 1949 نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے
(فِدْيَةُ طَعَامِ مَسَاكِينَ)
کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:
«هِيَ مَنْسُوخَةٌ» یہ منسوخ ہے
صحیح البخاری: 1949
🖊فضیلةالشیخ ابوعبدالرحمٰن رفیق طاہرحفظہ اللہ
خلاصہ کلام اور راحج قول یہ ہے کہ میت کی طرف چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزے قضا کئے جائیں گے ،یہ مسئلہ منصوص اور جائزو مشروع ہے ۔ نبی ﷺ نے اسے میت کا قرض قرار دیا ہے اور قرض کی ادائیگی اسی شکل میں ادا کرنا اولی ہے جس شکل کا قرض ہے یعنی میت کے ذمہ روزہ کا قرض باقی ہے تو اس کے وارثین روزہ کی قضا دے کر اس قرض کو اتارے ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اضافہ کرتا ہوں اگر میت کے وارثین میں سے کوئی روزہ نہ رکھ سکےیا نہ رکھنا چاہے یا روزہ رکھنے والا کوئی موجود ہی نہ ہو تو فدیہ ادا کردیا جائے۔آخری بات یہ جان لیں کہ ایسی کوئی مرفوع حدیث نہیں جس میں کہا گیا ہو کہ رمضان کے روزوں کی قضا نہیں ہے البتہ صحیح مرفوع احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میت کے چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزوں کی قضا ہے ۔ اس مسئلہ کے ساتھ سب سے اوپربیان کردہ میت کے روزوں کی اقسام کی بھی دھیان رہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
- Bachon Ki Achi Tarbiyat Kaise KAre?
- Hmare Husn-E-Suluk Pe Sabse Jyada Kiska Haque HAi?
- Maa-Baap, Saas Sasur Ka Haque Kya HAi?
- Shauahr Ke Huqooq Kya HAi?
- biwi Ke nafil Roze Rakhne Se Pahle Shauhar se Ejajat Lena.
- Biwi ke Gharwalo Se KAisa Suluk Kiya Jaye?
- Nek Biwi Ghar Ki Khusiyo Ki wajah Hoti Hai?
- islam Me Auraton ne KAun KAun Se Karname Anjaam Diye HAI?
- Biwi Ke Huqooq Kya Hai? wives Right In Islam (Part 03)
- Kya Maa-Baap Ke Kahne Pe Biwi Ko Talaq De Sakte Hai?
- Aap Ki Biwi Aap ki Jannat.
- Dahej Ki Tabaah Kari (Part 01)
- Jahaiz Ki Tabah Kariyaan. (Part 02)
- Jahaiz Ki tabaah Kariyaan. (Part 03)
- Jahaiz Ki Tabaah Kariyan. (Part 04)
No comments:
Post a Comment