find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Batil Aqeeda. Show all posts
Showing posts with label Batil Aqeeda. Show all posts

Iraq: Wah Sar jamin Jahan se Fitne paida honge aur Sari Duniya me failenge? Nazad aur Nazdi Kya hai.

Nazad aur Nazdi kya hai?

Mashriq se Fitne kaise Paida honge?
Iraq ke bare Me Hadees me Fitno ka Sarjamin kyo kaha gaya hai?
Sari Buraiyaan Mashriq (East) se Niklegi aur Iraq me Fitne janam lenge.
Sawal: Kaun Sa Nazad Fitno ki sarjamin hai? Aur yaha se Nikalne wale fitne kaun se hai? Wazahat kare.


“سلسلہ سوال و جواب نمبر-342”
سوال-کونسا نجد فتنوں کی سرزمین ہے؟اور اس میں پھوٹنے والے فتنے کون سے ہیں؟ صحیح احادیث سے وضاحت کریں!
غزہ پر قیامت ٹوٹنے کی گھڑی میں جنھوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہیں وہ تاحیات اور بعد الممات بھی ذلت اور عار کے ساتھی ہیں.

Published Date: 19-6-2020

جواب:
الحمدللہ:

*ہمارے ہاں نجد سے متعلق عجیب و غریب باتیں سنائی دیتی ہیں۔ بعض لوگ نجد عراق کے بارے میں مروی صحیح احادیث کی مراد میں تلبیس سے کام لیتے ہوئے انہیں نجد حجاز پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی توحید پر مبنی اصلاحی تحریک کو نجد کا فتنہ قرار دیتے ہیں*

*ان صحیح احادیث کی حقیقی مراد کیا ہے ؟ پرفتن نجد کون سا ہے ؟ اس میں پھوٹنے والے فتنے کون سے ہیں ؟ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے بارے میں مذکورہ لاف زنی کی کیا حقیقت ہے ؟ اس مضمون میں غیرجانبداری سے ان امور کا جائزہ لیا جائے گا*

*اس تحقیقی مضمون کاخاکہ کچھ یوں ہے کہ سب سے پہلے نجد کے پرفتن ہونے کے بارے میں مروی وہ احادیث مع ترجمہ ذکر کی جائیں گی جو محدثین کے اصول کے مطابق بالکل صحیح ہیں۔ پھر کچھ صحیح احادیث ہی کے ذریعے ان صحیح احادیث کی تفسیر و تشریح کی جائے گی۔ آخر میں مسلمہ فقہائے کرام، معروف شراحِ حدیث اور نامور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں اس تحقیق کی تائید پیش کی جائے گی*

*آئیے سب سے پہلے نجد کے بارے میں صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں :*

حدیث ①
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا “. قَالُوا : وَفِي نَجْدِنَا. قَالَ : ” اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا “. قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِي نَجْدِنَا. فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ : ” هُنَاكَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ “.
’’ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول ! اور ہمارے نجد میں ؟ فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت دے۔ صحابہ کرام نے پھر عرض کی : اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں بھی ؟ میرے خیال میں تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے۔ شیطان کا سینگ بھی وہیں طلوع ہو گا۔ ‘‘
(صحيح البخاری حدیث : 7094)
( سنن ترمذی حدیث - 3953)
( مسند الإمام أحمد:118/2،ح5987)

حدیث ②
 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَقْبِلٌ الْمَشْرِقَ يَقُولُ : ” أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ”
”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے فرما رہے تھے : آگاہ رہو، فتنہ یہیں سے رونما ہو گا، یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔“
(صحيح بخاری حدیث : 7093)
( صحيح مسلم : حدیث -2905)

حدیث ③
 سالم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں
أَنَّهُ قَامَ إِلَى جَنْبِ الْمِنْبَرِ فَقَالَ : ” الْفِتْنَةُ هَاهُنَا، الْفِتْنَةُ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُقَرْنُ الشَّيْطَانِ “. أَوْ قَالَ : ” قَرْنُ الشَّمْسِ ”
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی ایک جانب کھڑے ہوئے اور فرمایا : فتنہ یہیں سے ابھرے گا، فتنہ یہیں سے ابھرے گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
(صحيح بخاری حدیث : 7092)

 صحیح مسلم کی روایت میں ابن عمر سے مروی روائیت کے الفاظ یہ ہیں :
أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَقْبِلُ الْمَشْرِقِ يَقُولُ : ” أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے فرمایا : خبردار! فتنے یہاں سے رونما ہوں گے اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔“
(صحیح مسلم حدیث -2905)

حدیث ④
 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ إِلَى الْمَشْرِقِ، وَيَقُولُ : ” هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یاد رکھو! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔“
(المؤطا للإمام مالك :2794٫2795)
(صحيح بخاری:حدیث -3279 )

حدیت ⑤
 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ : ” هَاهُنَا الْفِتْنَةُ، هَاهُنَا الْفِتْنَةُ، حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ “.
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے یہ فرماتے ہوئے سنا : فتنے یہیں سے نمودار ہوں گے اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
(مسند احمد،حدیث 5905حسن)

حدیت ⑥
 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت سے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
رَأْسُ الْكُفْرِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ
”کفر کا منبع مشرق کی جانب ہے۔“
(صحيح بخارى حدیث -3301)
(صحيح مسلم حدیث -52)

*صحیح احادیث کی تفسیر صحیح احادیث سے*
قارئین کرام! آپ نے ان چھ صحیح احادیث کا مطالعہ کر لیا ہے۔ اب ان میں نجد مشرق سے کیا مراد ہے ؟ ہم یہ مراد بھی صحیح احادیث ہی سے واضح کرتے ہیں

حدیت ①
 سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِيَدِهِ، يَؤُمُّ الْعِرَاقَ : ” هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا ” ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ” مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ”

”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے : خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
(مسند احمد,143/2،ح:6302 صحيح)

حدیث ②
 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اللَّهمَّ بارِكْ لنا في مدينتِنا،وبارِكْ لنا في مكَّتِنا، وبارِكْ لنا في شامِنا، وبارِكْ لنا في يَمَنِنا،وبارِكْ لنا في صاعِنا ومُدِّنا، فقال رجُلٌ: يا رسولَ اللَّهِ، وفي عِراقِنا، فأعرَضَ عنه، فقال: فيه الزلزال والفتنُ، وبها يطلُعُ قَرْنُ الشَّيطانِ.

’’ یا اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو با برکت بنا دے، ہمارے لیے ہمارے مکہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے، ہمارے صاع (قریبا 2.099 کلوگرام کا پیمانہ) اور مد (قریبا 524.88 گرام کاپیمانہ) میں برکت دے۔ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے عراق کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف التفات نہ کرتے ہوئے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے بپا ہوں گے۔ وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
[مسند الشاميين للطبراني : 1276، المعرفة والتاريخ للحافظ يعقوب بن سفيان الفسوي : 747/2، 748،)
( المخلصيات : 196/2، ح : 1341،)
( حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني : 133/6،)
( تاريخ ابن عساكر : |131/1، و سندهٔ صحيح]
(شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج سير أعلام النبلاء ١٥/٢٨٧ • إسناده صحيح)
(الهيثمي (٨٠٧ هـ)، مجمع الزوائد ٣/٣٠٨ • رجاله ثقات •)

حدیت ③
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى صاعنا ومدّنا، فرددها ثلاث مرّات، فقال رجل : يا رسول الله ! ولعراقنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بها الزلازل والفتن، ومنها يطلع قرن الشيطان .
”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے صاع اور مد میں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ ایک شخص نے کہا : ہمارے عراق کے لیے بھی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
[المعجم الكبير للطبراني : 384/12، ح : 13422، المعرفة والتاريخ للفسوي : 747/2، مسند البزار : 5881، حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني : 133/6، و سندهٔ صحيح]

حدیث ④
 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
صلى النبى صلى الله عليه وسلّم صلاة الفجر، فأقبل على القوم، فقال : اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، وبارك لنا فى مدّنا وصاعنا، اللهم ! بارك لنا فى شأمنا ويمينا، فقال رجل : والعراق يا رسول الله ! فسك ثم قال : اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، وبارك لنا فى مدّنا وصاعنا، اللَّهُمُ ! بارك لنا فى حرمنا، وبارك لنا فى شأمنا ويمينا،فقال رجل : والعراق يا رسول الله ! قال : من ثم يطلع قرن الشيطان، وتهيج الفتن.

”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں کی طرف رخ مبارک کیا اور فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے، ہمارے شام اور یمن کو بابرکت بنا۔ ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول ! عراق کے لیے بھی دعا کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے، اے اللہ! ہمارے حرم کو برکت والا بنا اور شام اور یمن کو بھی بابرکت بنا۔ ایک آدمی نے پھر کہا : اللہ کے رسول ! عراق کے لیے بھی دعا کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں سے تو شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور فتنے رونما ہوں گے۔“
[المعجم الأوسط للطبراني : 4098،)
(فضائل الشأم و دمشق لأبي الحسن الربعي، ص : 11، ح : 20،)
(تاريخ الرقة لأبي على القشيري، ص : 95، ح : 145،)
(تاريخ دمشق لابن عساكر : 132/1، و سندهٔ حسن]

اس حدیث کے راویوں کے بارے میں :

 حافظ ہیثمی (735-807 ھ ) فرماتے ہے :رجاله ثقات . ”اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔“
[ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 305/3]

 اس کے راوی زیاد بن بیان کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) نے ”صدوق عابد“ قرار دیا ہے۔
[ تقريب التهذيب : 2057]

 اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673- 748ھ) فرماتے ہیں :
صدوق، قانِت . ”یہ سچا اور نیک شخص ہے۔“ [ الكاشف : 275/1، الرقم : 1687]

 امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے :
ليس به باس . ”اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [ ميزان الاعتدال للذهبي : 87/2، تهذيب التهذيب لابن حجر : 256/3]

 امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ”الثقات (247/8)“ میں ذکر کر کے فرمایا ہے :
كانَ شَيْخًاصَالحًا. ”یہ نیک شیخ تھا۔ ‘‘

 شیخ ابوملیح حسن بن عمر رقی نے ان کی تعریف کی ہے۔ [ التاريخ الكبير للبخاري : 346/3، و سندهٔ صحيح]

 علامہ ابن خلفون نے اسے اپنی کتاب ”الثقات“ میں ذکر کیا ہے۔
[إكمال تهذيب الكمال للمغلطائيي : 97/5]

ایسے راوی کی روایت ”حسن“ درجے سے کم نہیں ہوتی۔

حدیث ⑤
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى شأمنا، اللهم ! بارك لنا فى يمينا فقالھا مرارا، فلما كان فى الثالثة او الرابعة، قالوا: يا رسول الله! وفي عراقنا، قال ان بها الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان

”اے اللہ ! ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اللہ ! ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی مرتبہ فرمائی۔ جب تیسری یا چوتھی مرتبہ ہوئی تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول ! ہمارے عراق کے لیے بھی دعا فرمایئے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عراق تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے۔ یہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
(المعجم الكبير للطبراني : 293/12، ح : 13422،)
( مسند البزار : 5880، و سندهٔ حسن]

حدیث ⑥
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَيَمَنِنَا “. مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ رَجُلٌ : وَفِي مَشْرِقِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مِنْ هُنَالِكَ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ، وَبِهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ “.
’’ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے اللہ ! ہمارے شام اور یمن میں خیر و برکت فرما۔ یہ دعا آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمائی۔ ایک نے عرض کی : اللہ کے رسول ! ہمارے مشرق کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور دنیا کا نوے فى صد شر وہیں پر ہے۔“
[مسند احمد حدیث-5642 و سندهٔ حسن]

اس کے راوی عبید اللہ بن میمون کے بارے میں :

 امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
معروف الحديث. ”اس کی حدیث معروف ہے۔“ [التاريخ الكبير : 388/3، ت : 1247]

امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صالح الحديث . ”اس کی حدیث حسن ہے۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 322/5]

حدیت ⑦
نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یوں دعا فرمائی :
اللهم ! بارك لنا فى شامنا ويميننا، قال : قالوا : وفي نجدنا، فقال : قال : اللهم ؛ بارك لنا فى شامنا وفي يمين، قال : قالوا : وفي نجدنا، قال : قال : هناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان .

”اے اللہ ! : ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما۔ کچھ لوگوں نے کہا: ہمارے نجد کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا : اے اللہ ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما۔ لوگوں نے پھر کہا: ہمارے نجد کے بارے میں بھی دعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ [صحيح البخاري : 141/1، ح : 1037]

صحیح بخاری کی ایک حدیث ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ الفاظ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں۔ اس روایت میں اگرچہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، لیکن یہ بھی حکماً مر فوع ہے۔ اس بارے میں :

 شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) لکھتے ہیں :
هكذا وقع فى هذه الروايات التى اتصلت لنا بصورة المؤقوف عن ابن عمر، قال : اللهم بارك . . .، لم يذكر النبى صلى الله عليه وسلم، وقال القابسي : سقط ذكر النبى صلى الله عليه وسلم من النسخة، ولا بد منه، لان مثلهٔ لايقال بالرأي

”جو روایات ہمارے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف صورت میں پہنچی ہیں، ان میں اسی طرح ہے کہ انہوں نے خود یہ دعا کی ہے، اس میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔ قابسی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر صحیح بخاری کے نسخے سے گر گیا ہے۔ یہاں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر ضروری ہے، کیونکہ ایسی بات کوئی صحابی اپنے قیاس سے نہیں کہہ سکتا۔“
[فتح الباري : 522/2]

حدیت ⑧
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے سالم رحمہ اللہ نے عراق والوں کو مخاطب کر کے فرمایا :
يا أهل العراق ! ما أسألكم عن الصغيرة وأركبكم للكبيرة ! سمعت أبى عبد الله بن عمر يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إن الفتنة تجيء من ههنا، وأؤما بيده نحو المشرق، من حيث يطلع قرنا الشيطان .

”عراق کے باشندو ! تعجب خیز بات ہے کہ ایک طرف تم چھوٹے چھوٹے مسائل بہت پوچھتے ہو اور دوسری طرف کی کبیرہ گناہوں کے ارتکاب میں اتنے دلیر ہو ! میں نے اپنے والد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : فتنہ یہاں سے آئے گا اور یہیں سے شیطان کے سینگ طلوع ہوں گے، ساتھ ہی آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔“
[صحيح مسلم : 394/2، ح : 2905، 50]

حدیت ⑨
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من بيت عائشة، فقال : رأس الكفر من ههنا، من حيث يطلع قرن الشيطان، يعني المشرق .
”اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے گھر سے نکلے تو فرمایا : مشرق کفر کا سرچشمہ ہے، وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
[صحيح مسلم : 394/2، ح : 2905، 48]

حدیت ⑩
بدری صحابی سیدنا ابومسعود رضى اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
من ههنا جاءت الفتن، نخو المشرق .
”فتنے مشرق ہی کی طرف سے آئیں گے۔“
[صحيح البخاري : 496/1، ح : 3498]

یہ پوری دس دلیلیں ہیں،

*صحیح احادیث کی تفسیر اہل علم سے
لغوی طور پر ”نجد“ بلند علاقے کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا میں بہت سارے ”نجد“ ہیں لیکن مذکورہ احادیث میں ”نجد“ کی تشریح ”مشرق“ اور ”عراق“ سے ہوئی ہے۔ ثابت ہوا کہ جو ”نجد“ فتنوں کی آماجگاہ ہے اور جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا، وہ مشرق کی سمت ہے اور اس سے مراد عراق ہی ہے۔ صحیح احادیث نبویہ پکار پکار کر یہی بتا رہی ہیں۔ صحابہ و تابعین کا بھی یہی خیال تھا*

اسی بارے میں :

 مشہور لغوی ابن منظور افریقی (630-711ھ) لکھتے ہیں :
ما ارتفع من تهامة إلى أرض العراق، فهو نجد .
”تہامہ کی حدود سے لے کر عراق تک جو بلند جگہ ہے، وہ نجد ہے۔
[ لسان العرب : 413/3 ]

 احادیث نبویہ کا لغوی حل کرنے والے مشہور لغوی ابن اثیر (544-606 ھ) لکھتے ہیں :
والنجد : ما ارتفع من الأرض، وهو اسم خاص لما دون الحجاز، مما يلي العراق .
”نجد بلند زمین کو کہتے ہیں۔ یہ حجاز کے باہر عراق سے ملحقہ علاقے کا خاص نام ہے۔“
[النهاية فى غريب الحديث والاثر : 19/5]

علامہ خطابی رحمہ اللہ (319-388 ھ) ’’ نجد“ کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، والغور ما انخفض منها، وتهامة كلّها من الغور، ومنها مكة، والفتنة تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدّجال، فى أكثر ما يروى من الأخبار.
”مدینہ والوں کا نجد عراق اور اس کے نواح کا علاقہ ہے۔ یہ مدینہ والوں کے مشرق میں واقع ہے۔ نجد کا اصلی معنیٰ بلند زمین ہے۔ نشیبی علاقے کو غور کہتے ہیں۔ تہامہ کا سارا علاقہ غور ہے۔ مکہ بھی اسی غور میں واقع ہے۔ اکثر روایات کے مطابق فتنے کا ظہور مشرق سے ہو گا، اسی جانب سے یاجوج ماجوج نکلیں گے اور یہیں سے دجال رونما ہو گا۔“
[ إعلام الحديث للخطابي : 4/2 127- ط – المغربية ]

 امام اندلس حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ( 368 – 463ھ) لکھتے ہیں :
اشارة رسول الله صلى الله عليه وسلم – والله اعلم – الي ناحية المشرق بالفتنة لأن الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين، هي قتل عثمان بن عفان رضى الله عنه، وهى كانت سبب وقعة الجمل، وحروب صفين، كانت فى ناحية المشرقي، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق .

”واللہ اعلم ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنے کے حوالے سے اشارہ مشرق کی طرف اس لیے تھا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، یہی واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا۔ یہ سارے معاملات مشرق کی جانب سے رونما ہوئے۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد کی زمین یعنی عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔“
[ الاستذكار : 519/8 ]

علامہ ابوالحسن علی بن خلف عبدالملک العروف بہ ابن بطال (م : 449 ھ) لکھتے ہیں :
قال الخطابي : القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا یحمد من الأمور، كقوله صلى الله عليه وسلم فى الفتنة وطلوعها من ناحية المشرق : ومنه يطلع قرن الشيطان، وقال فى الشمس : إنها تطلع بين قرني الشيطان، والقرن : الأمة من الناس یحدثون بعد فناء آخرين، قال الشاعر : مضى القرن الذى أنت منهم . . . . وخلفت فى قرن فأنت غريب وقال غيره : كان أهل المشرق يؤمئذ أهل كفر، فأخبره صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت الفتنة الكبرى التي كانت مفتاح فساد ذات البين، وهى مقتل عثمان رضى الله عنه، وكانت سبب وقعة الجمل وصفين، ثم ظهور الخوارج في ارض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق، ومعلوم أن البدع إنما ابتدأت من المشرق، وإن الذين اقتتلوا بالجمل وصفين، بينهم كثير من أهل الشام والحجاز، فإن الفتنة وقعت فى ناحية المشرق، وكان سببا إلى افتراق كلمة المسلمين، وفساد نيات كثير منهم إلى يؤم القيامة، وكان رسول الله يحذر من ذلك ويعلمه قبل وقوعه، وذلك دليل على نبوته.

حیوان کے سینگ کی مثال قبیح امور میں دی جاتی ہے جیسا کہ مشرق کی جانب سے فتنے کے رونما ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسی طرف سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ سینگ سے مراد لوگوں کی وہ جماعت ہے جو ایک نسل کے گزر جانے کے بعد آتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ جب تیرے ہم عصر لوگ فوت ہو جائیں اور تو رہ جائے تو اس وقت تو اجنبی ہے۔ ایک اہل علم کا کہنا ہے کہ مشرق والے اس دور میں کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ فتنہ اسی سمت سے اٹھے گا۔ بالکل ایسے ہی ہوا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا باعث بنا، وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والا واقعہ تھا ! یہی واقعہ بعد میں جنگ جمل اور صفین کا باعث بنا۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد، عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔ یہ سارے علاقے مشرق میں ہیں۔ سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ بدعات کا آغاز بھی مشرق ہی سے ہوا۔ جنگ جمل اور صفین میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی، ان کی بڑی تعداد شام اور حجاز سے تھی، لہذا یہ فتنہ بھی مشرق ہی میں رونما ہوا۔ یہ سانحات قیامت تک مسلمانوں کے افتراق اور ان کے ایک بڑے گروہ کے نفاق کا باعث بن گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے وقوع سے پہلے ہی اس بارے میں آگاہی دے کر اس سے متنبہ کر دیا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔“
[ شرح صحيح البخاري : 44/10 ]

 حافظ ابن الجوزی (508- 597 ھ) لکھتے ہیں :
أما تخصيص الفتن بالمشرق، فلان الدجال يخرج من تلك الناحية، وكذلك يأجوج ومأجوج، وأما ذكر قرن الشيطان، فعلى سبيل المثل، كأن إبليس يطلع رأسه بالفتن من تلك النواحي.

”مشرق کے ساتھ فتنوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور اسی سمت سے ہو گا۔ رہی بات شیطان کے سینگ کی تو یہ بطور مثال ہے، گویا کہ شیطان فتنوں کی صورت میں اس سمت سے اپنا سر اٹھائے گا۔“
[ كشف المشكل على الصحيحين : 493/2 ]

 شارح بخاری، علامہ کرمانی ”نجد“ اور ’’ غور“ کا معنی واضع کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ومن كان بالمدينة الطيبة – صلى الله على ساكنها – كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، ولعل المراد من الزلازل والاضطرابات التى بين الناس من البلايا، ليناسب الفتن مع احتمال إرادة حقيقتها، قيل : إن أهل المشرق كانوا حينئذ أهل الكفر، فأخبر أن الفتنة تكون من ناحيتهم، كما أن وقعة الجمل وصفين وظهور الخوارج من أهل نجد والعراق وما والأها كانت من المشرق، وكذلك يكون خروج الدجال ويأجوج ومأجوج منها، وقيل : القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا يحمد من الأمور.

”مدینہ طیبہ کے باسیوں کا نجد، عراق اور اس کا نواحی علاقہ ہے۔ یہی اہل مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔ عراق میں زلزلوں اور فسادات سے مراد شاید وہ جنگیں ہیں جو لوگوں کے درمیان ہوئیں۔ یہی بات فتنوں کے حسب حال ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقیقی زلزلے مراد ہوں۔ ایک قول یہ ہے کہ اہل مشرق اس وقت کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اسی طرف سے کھڑے ہوں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ جنگ جمل اور صفین اور خوارج کے ظہور والے واقعات نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقے کے لوگوں کے سبب ہی پیش آئے۔ یہ تمام مشرقی علاقے ہیں۔ اسی طرح دجال اور یاجوج و ماجوج کا ظہور بھی اسی علاقے سے ہو گا۔ اس حدیث میں مذکور سینگ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جانور کا سینگ بطور مثال قبیح امور کے لئے مستعمل ہے۔“
[ شرح الكرماني للبخاري : 168/24 ]

 شارح بخاری، علامہ عینی حنفی (762-859 ھ ) امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب باب قول النبى صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق کے تحت لکھتے ہیں :

مطابقته للترجمة فى قوله : ”وهناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان“، وأشار بقوله : ”هناك“ نجد، ونجد من المشرق، قال الخطابي : نجد من جهة المشرق، ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهل المدينة، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، وهو خلاف الغور، فإنه ما انخفض منها، وتهامة كلها من الغور، ومكة من تهامة اليمن، والفتن تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدجال، وقال كعب : بها الداء العضال، وهو الهلاك فى الدين، وقال المهلب : إنما ترك الدعاء لأهل المشرق، ليضعفوا عن الشر الذى هو موضوع فى جهتهم لاستيلاء الشيطان بالفتن.

”اس حدیث کی امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں زلزے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کہہ کر نجد کی طرف اشارہ فرمایا اور نجد مشرق ہی میں واقع ہے۔ فتنوں کا آغاز مشرق ہی سے ہوتا ہے۔ اسی طرف سے یاجوج و ماجوج اور دجال کا ظہور ہو گا۔ کعب کہتے ہیں : مشرق میں مہلک بیماری ہو گی اور وہ بیماری دین سے بیزاری ہے۔ مہلب کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لئے دعا اس لیے نہیں کی کہ وہ اس شر سے باز آ جائیں جو شیطان کے فتنوں کی صورت میں ان کی سمت میں موجود ہے۔“
[ عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري : 200/24 ]

 نیز لکھتے ہیں :
وإنما أشار إلى المشرق لأن أهله يؤمئذ كانوا أهل كفر، فأخبر أن الفئة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت، وهى وقعة الجمل ووقعة صفين، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما ورائها من المشرق، وكانت الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين قتل عثمان رضي الله تعالى عنه، وكان يحذر من ذلك ويعلم به قبل وقوعه، وذلك من دلالات نبوته .

”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ اس لیے فرمایا کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اس طرف سے سر اٹھائیں گے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ جنگ جمل و صفین اور خوارج کا ظہور نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقوں ہی میں ہوا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی صورت میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ بھی اسی سمت سے آیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان فتنوں کے واقع ہونے سے قبل ہی اس سمت سے خبردار اور متنبہ فرماتے تھے۔ یہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک بہت بڑی نشانی تھی۔“
[ عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري : 199/24 ]

 شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرماتے ہیں :
وقال غيره : كان أهل المشرق يومئذ أهل كفر، فأخبر صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، فكان كما أخبر، وأول الفتن كان من قبل المشرق، فكان ذلك سببا للفرقة بين المسلمين، وذلك مما يحبه الشيطان ويفرح به، وكذلك البدع نشأت من تلك الجهة.
”علامہ خطابی کے علاوہ دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دے دی کہ فتنے اسی سمت سے پیدا ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے عین مطابق سب سے پہلا فتنہ جو مسلمانوں میں دائمی اختلاف و افتراق کا باعث بنا، وہ مشرق ہی سے نمودار ہوا۔ اختلاف کو شیطان پسند کرتا ہے اور اس پر بہت خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح بدعات نے بھی اسی علاقے میں پرورش پائی۔
“ [ فتح الباري : 47/13 ]

*تمام گمراہ اور ظالم فرقے، مثلاً رافضی، جہمی، قدریہ، وغیرہ مشرق کی پیداوار ہیں۔ تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ فتنہ دجال بھی یہیں سے ظاہر ہو گا*

 شارح ترمذی، علامہ محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م : 1353ھ) اس حدیث کے الفاظ يخرج قرن الشيطان کی شرح میں فرماتے ہیں :

يخرج قرن الشيطان، اي حزبه واهل وقته وزمانه واعوانه، ذكره السيوطي، وقيل : يحتمل أن يريد بالقرن قوة الشيطان، وما يستعين به على الإضلال.
”علامہ سیوطی کے بقول شیطان کے سینگ سے مراد اس کا گروہ، اس کا دور اور اس کے معاونین ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ سینگ سے مراد شیطان کی قوت اور اس کے گمراہ کن حربے ہیں۔ “
( تحفة الاحوذي : 381/4 )

 رأس الكفر نحو المشرق کا معنی بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م : 1014 ھ) لکھتے ہیں :
رأس الكفر، أى معظمه، ذكره السيوطي، والأظهر أن يقال : منشأة نحو المشرق.
”سیوطی نے ذکر کیا ہے کہ کفر کے سر سے مراد کفر کا بڑا حصہ ہے۔ زیادہ بہتر یہ معنی ہے کہ کفر کا سرچشمہ مشرق کی سمت ہے۔“ [ مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح 8626 4039/9 ]

 نیز لکھتے ہیں :
وقال النووي : المراد باختصاص المشرق به مزيد تسلط الشيطان على أهل المشرق، وكان ذلك فى عهده – صلى الله عليه وسلم – ويكون حين يخرج الدجال من المشرق، فإنه منشأ الفتن العظيمة ومثار الكفر.
”علامہ نووی فرماتے ہیں کہ فتنوں کو مشرق کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل مشرق پر شیطان کا غلبہ زیادہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسا تھا اور دجال بھی مشرق ہی سے نمودار ہو گا۔ یوں مشرق بڑے بڑے فتنوں کا منبع اور کفر کا سرچشمہ ہے۔“
[ مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح : 4037/9، ح : 6268 ]

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا :
هل ترون ما أرى ؟ قالوا : لا، قال : فإني لأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كوقع القطر .
”جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تمہیں نظر آ رہا ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : نہیں اللہ کے رسول !، فرمایا : بلاشبہ میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کی طرح داخل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔“
[صحيح البخاري : 1046/2، ح : 7060 صحيح مسلم : 389/1، ح 389/1]

اس حدیث نبوی اور مذکورہ بالا احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے :

شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرما تے ہیں :
وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.
”اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ ( خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے ) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔ “
[ فتح الباري : 13/13 ]

*لہذا احادیث نبویہ میں مذکور فتنوں کی آماجگاہ نجد سے مراد عراق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں واضح طور پر عراق کا نام موجود ہے۔ علمائے کرام اور فقہائے عظام کی تصریحات بھی یہی ہیں۔ حق وہی ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہو جائے۔ اس کے باوجود بعض لوگ ان صحیح احادیث کو چھپاتے ہوئے اہل حق پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے*

[ماخذ توحید ڈاٹ کام]

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!


 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Islam 360 Application Gumrahiyo ka Majmu, Daur-E-Jadeed ka fitna.

Islam ke Nam par Failaye ja rahe Jhoothi Hadees.

*Islam360 Nami Application Gumraahiyon Ka Majmua'*

Urdu me padhne ke liye Yahan Click kare. 

اس قسم  کا نعرہ لگا کر سلفیوں کو اہل بدعت کی کتاب پڑھنے اور ان کی تقریریں سننے کی ترغیب دینا بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شہد میں زہر ملا کر دے

Aaj Kal aam taur par log apni dawat waghaira ka aaghaz Kitab wa Sunnat se karte hain, shuru mein khalis Salafiyyat aur Ahle Hadeesiyat ke naam par apna parchar karte hain, Ahle Hadees ke bade Ulama e Keram ka taqarrub hasil karte hain, apne kaam ko aalami aur world level ka bata kar un ulama ka aitemad hasil karte hain, un se apne kaam ke liye tazkiyyah hasil karte hain, Ahle Hadees awaam apne Ulama e Keram ki naseehat par chalte huye aise logon ki  dawat ya application par aitemad kar lete hain aur us se istefadah karne lagte hain, lekin aise log bahut zyada der Salafi Manhaj par qayam nahi reh paate, kyunki Salafiyyat Nabi e Kareem Sallallahu Alayhi Wasallam ke nahaj par galat ko galat bolna aur us se dur rehna aur saheeh ko saheeh bolna aur us ka saath dene ka naam hai, apni khwahishon ke khilaf chalne ka naam hai, lekin is qism ke logon ko jab Ulama e Ahle Hadees ke tazkiyye ki buniyad par shohrat aur pazeerayi mil jaati hai toh yeh deobandi, barelwi, jama'at e Islami, munkireen e hadees waghaira se ittehad ke naam par haath mila lete hain, phir Salafiyyat ke naam par barelwi, munkireen e hadees, deobandi aur jama'at e Islami ke afkaar ko Ahle Hadees awaam ke darmiyan nashr karne lagte hain, jab unhein toka jata hai toh kehte hain: humara kaam har aalim ki baat ko awaam ke saamne rakh dena hai, log khud hi galat aur saheeh ki pehchaan kar lenge, yeh toh wohi baat huyi ke ek shakhs ne sone ki dukaan khol rakhi hai jis mein asli sona, jaali sona aur thode se peetal ka karobar chalate hain, bas mushkil yeh hai ke woh dono qism ke sona aur peetal ko ek saath mila kar logon ke saamne rakh dete hain, ab log usey sona hi samajh kar us ka bhao karte hain, jab koi un par aiteraaz karta hai ke bhai aisa lag raha hai ke is mein milawat hai, toh is qism ke dukaan daar kehte hain ke bhai jo asli sona hai woh le lo aur jo naqli sona ya peetal hai usey chhodh do, ab bechara kharidar is shash o panj mein mubtala hai ke mujhe jab asli sone ki parakh nahi toh main jaali sona aur peetal ki pehchaan kaise karoon?

Is qism ka na'ara laga kar Salafiyon ko Ahle Bid'at ki kitab padhne aur un ki taqreerein sunne ki targheeb dena bilkul waise hi jaise koi shahad mein zeher mila kar de aur kahe ke Allah Rabbul Aalameen ne shahad mein shifa rakhi hai, tum ko shahad se matlab hona chahiye zeher se nahin....

Islam360 nami application walon ne bhi apne application ki shuruwat Ahle Hadeesiyat ke naam par ki, Ulama e Ahle Hadees se apne application ke liye tazkiyyah ikhaththa karke Ahle Hadees awaam ko samjhane mein kamiyab ho gaye ke Ulama e Ahle Hadees ne hum par aitemad kar liya hai is liye aap awaam ko bhi aitemad karna chahiye, jab Ahle Hadees awaam is application se faidah uthane lagi toh is application ki intezaamiya ne application ka poora format hi change karke rakh diya, dheere dheere Ulama e Ahle Hadees ki tafseer ko nikalna shuru kiya aur un ki jagah:
*Sahaba e Keram ko gali dene wala munkir e sunnat engineer Ali mirza jehlami rafzi ki tafseer ko rakh diya*

*Shirk wa qabr parasti ko farogh dene wale tahir ul qadri ka tarjuma e Qur'aan bhi is application mein maujood hai*
Deobandi Ulama, neej maulana maudoodi, maulana waheeduddin Khan, maulana ameen ahsan islahi, nouman Ali khan aur in jaise deegar Ahle Bid'at aur munkireen e Sunnat ki tafaseer ko is application mein jagah de di gayi hai, yani Ahle Hadeesiyat ke naam par Rafziyat, Kharjiyat, Aitejaal, Ash'ariyat, Wahdatul wujood, inkaar e Sunnat, qabr parasti aur Shirk wa Bid'at ko khule aam farogh diya ja raha hai, balki is qism ke Ahle Bid'at se Ahle Hadees awaam ka rabta joda ja raha hai.....

Hind wa Pak ke kibar Ahle Hadees Ulama e Keram se moaddabana guzarish hai ke is fitney ki khabar lein, kyunki yaumiya is application par 5 lakh log jaate hain, yani itni kaseer ta'adad ko rozana ke hisab se Shirk wa Bid'at aur Rafz wa inkaar e Sunnat ka zeher dheere dheere diya jata hai, itne bade paimane par zalalat wa gumrahi ka karobar chal raha hai, agar waqt rehte is fitney ka tadaruk nahin kiya gaya toh khatra hai ke Ahle Hadees awaam un ke fitney mein mubtala ho jaye.

Muhtaram qarieen: Mufazzal bin Muhalhal farmate hain ke: agar kisi bid'ati ki majlis mein baithoge toh woh shuru se hi apni Bid'at ko bayan nahi karega, kyunki agar woh Bid'at se hi majlis ki shuruwat karega toh tum un ki majlis se uth kar chale jaoge, is liye woh majlis ki ibtida' un Ahadees se karta hai jo azmat e Sunnat par dalalat karti ho, phir us ke baad dauran e guftagu apni Bid'at ko qadre chalaki se pesh karega, agar woh Bid'at Sunnat ke naam par tumhare dil mein jagah bana le toh phir kaise bahir niklegi?

[Al-ibaanah li ibn Battah (Safa 140, Raqam al-Athar 394)]

Misaal ke taur par maulana maudoodi ki kitab "Khilafat wa Mulookiyat" ko le Lein, shuru ke safahat Qur'aani Ayat aur us ke tarjume se muzayyan hain, Ahadeeson ka anbaar hai, lekin baad mein ja kar unhone jo gul khilaya hai woh kisi sahib e aql wa khurd par posidah nahi hai, khas taur se jinhone unki is kitab ka muta'ala kiya hai.

Shaykh ibn Uthaymeen Rahimahullah farmate hain ke: Ahle Bid'at ki kitabon se dur rehna chahiye, kahin aisa na ho ke is kitab ke muta'ale ki wajah se fitnah mein mubtala ho jaye, aur bid'atiyon ke kitabon ki logon ke darmiyan tarweej wa isha'at bhi na ki jaye, un ki kitabon mein gumrahi hoti hai aur gumrahi ki jagahon se dur rehna wajib hai jaisa ke Nabi Sallallahu Alayhi Wasallam ne dajjal ke baare mein batate huye farmaya:

((من سمع به فلينأ عنه فوالله إن الرجل ليأتيه وهو يحسب أنه مؤمن فيتبعه مما يبعث به من الشبهات))
رواه أبو داود قال الألباني: وإسناده صحيح

Mafhoom e Hadees: Jo dajjal ke aane ki khabar sune woh us se dur rahe, us ke qareeb na jaye, Allah ki qasam ek aadmi apne aap ko momin samjhega aur us ke paas muqabla karne ke liye jayega, lekin dajjal us ko apne shubuhaat mein aisa uljahyega ke woh usi ki pairokar ban kar reh jayega.

[Majmoo' Fatawa wa Rasail Fazilat Ash-Shaykh Muhammad bin Saalih al-Uthaymeen Rahimahullah (5/89)]

Is liye jin kitabon mein Bid'at wa zalalat hai, us se dur rehna chahiye, kahin aisa na ho ke koi apne aap ko bada daqqaq samajh kar un kitabon ka muta'ala karna shuru kare aur kahe ke main toh خز ما صفا ودع ماكدر par amal karoonga, aur baad mein pata chale ke woh is fikr se aisa mutassir huwa ke khud us ko bhi pata nahi chala.

Khulasa e kalam yeh ke: Islam360 nami application zalalat wa gumrahi ka majmua' hai, apne imaan wa  aqeedah ki hifazat ke liye is se duri ikhtiyaar karein, apne apne ilaqey ke Ahle Hadees Ulama e Keram se rabte mein rahein, kisi application ya site ki baat par us waqt tak yaqeen na karein jab tak Ahle Hadees Ulama se us ke talluq se poochh kar mutmayeen na ho jayein, yeh aap ke Deen wa imaan aur aqeedah wa manhaj ka mas'ala hai, is ki hifazat ke liye pehrah dena aap ka kaam hai, aap ki thodi si ghaflat aap ke aqeedah wa imaan ke fasad ka ba'is ho sakti hai, is liye khud bhi is se bachein aur apne azeez wa aqarib ko bhi is se bachane ki koshish karein.

Wallahu Aalam bis-Sawab

Abu Ahmed Kalimuddin Yusuf
Jamiah Islamiyyah Madinah Munawwarah

Roman Urdu: Abu Aaminah Abdullah

Share:

Islam 360 Application Ahlehadees (Salafi) manhaz Ko badalne ka App.

Islam 360 Nam ka Application Gum rahiyo ka Mazmuaa.

Ahle hadees aur Kitab o Sunnat ke nam par Salafi bhaiyo ko Dhoka dene ki Sajish.
Islam 360 Application ka pardafash.

Roman Urdu Me yahan se padhe. 


اس قسم  کا نعرہ لگا کر سلفیوں کو اہل بدعت کی کتاب پڑھنے اور ان کی تقریریں سننے کی ترغیب دینا بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شہد میں زہر ملا کر دے

السلام علیکم
کاپی

*اسلام 360 نامی ایپلیکیشن گمراہیوں کا مجموعہ*.

آج کل عام طور پر لوگ اپنی دعوت وغیرہ کا آغاز کتاب و سنت سے کرتے ہیں، شروع میں خالص سلفیت اور اہل حدیثیت کے نام پر اپنا پرچار کرتے ہیں، اہل حدیث کے بڑے علمائے کرام کا تقرب حاصل کرتے ہیں، اپنے کام کو عالمی اور ورلڈ لیول کا بتا کر ان علما کا اعتماد حاصل کرتے ہیں، ان سے اپنے کام کیلئے تزکیہ حاصل کرتے ہیں، اہل حدیث عوام اپنے علمائے کرام کی نصیحت پر چلتے ہوئے ایسے لوگوں کی دعوت یا ایپلیکیشن پر اعتماد کرلیتے ہیں اور اس سے استفادہ کرنے لگتے ہیں، لیکن ایسے لوگ بہت زیادہ دیر سلفی منہج پر قائم نہیں رہ پاتے، کیونکہ سلفیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے نہج پر غلط کو غلط بولنا اور اس سے دور رہنا اور صحیح کو صحیح بولنا اور اس کا ساتھ دینے کا نام ہے، اپنی خواہشوں کے خلاف چلنے کا نام ہے، لیکن اس قسم کے لوگوں کو جب علمائے اہل حدیث کے تزکیہ کے بنیاد پر شہرت اور پذیرائی مل جاتی ہے تو یہ دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی، منکرین حدیث وغیرہ سے اتحاد کے نام پر ہاتھ ملا لیتے ہیں، پھر سلفیت کے نام پر بریلوی، منکرین حدیث، دیوبندی اور جماعت اسلامی کے افکار کو اہل حدیث عوام کے درمیان نشر کرنے لگتے ہیں،

جب انہیں ٹوکا جاتا ہے تو کہتے ہیں: ہمارا کام ہر عالم کی بات کو عوام کے سامنے رکھ دینا ہے، لوگ خود ہی غلط اور صحیح کی پہچان کر لیں گے، یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک شخص نے سونے کی دکان کھول رکھی ہے جس میں اصلی سونا، جعلی سونا اور تھوڑے  سے پیتل کا کاروبار چلاتے ہیں، بس مشکل یہ ہے کہ وہ دونوں قسم کے سونا اور پیتل کو ایک ساتھ ملا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں، اب لوگ اسے سونا ہی سمجھ کر اس کا بھاؤ کرتے ہیں، جب کوئی ان پر اعتراض کرتا ہے کہ بھائی ایسا لگ رہا ہے کہ اس میں ملاوٹ ہے ، تو اس قسم کے دوکاندار کہتے ہیں کہ بھائی جو اصلی سونا ہے وہ لے لو اور جو نقلی سونا یا پیتل ہے اسے چھوڑ دو، اب بیچارا خریدار اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ مجھے جب اصلی  سونے کی پرکھ نہیں تو میں جعلی سونا اور پیتل کی پہچان کیسے کروں؟

اس قسم  کا نعرہ لگا کر سلفیوں کو اہل بدعت کی کتاب پڑھنے اور ان کی تقریریں سننے کی ترغیب دینا بالکل ویسے ہی جیسے کوئی شہد میں زہر ملا کر دے اور کہے کہ اللہ رب العالمین نے شہد میں شفا رکھی ہے، تم کو شہد سے مطلب ہونا چاہیے زہر سے نہیں...

اسلام 360 نامی ایپلیکیشن والوں نے بھی اپنے اپلیکیشن کی شروعات اہل حدیثیت کے نام پر کی، علمائے اہل حدیث سے اپنے اپلیکیشن کیلئے تزکیہ اکٹھا کرکے اہل حدیث عوام کو سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ علمائے اہل حدیث نے ہم پر اعتماد کر لیا ہے اس لئے آپ عوام کو بھی اعتماد کرنا چاہیے، جب اہل حدیث عوام اس ایپلیکیشن سے فائدہ اٹھانے لگی تو اس ایپلیکیشن کی انتظامیہ نے ایپلیکیشن کا پورا فارمیٹ ہی چینج کر کے رکھ دیا، دھیرے دھیرے علمائے اہل حدیث کی تفسیر کو نکالنا شروع کیا اور

ان کی جگہ:

*صحابہ کرام کو گالی دینے والا منکر سنت انجینئر علی مرزا جہلمی رافضی کی تفسیر کو رکھ دیا.

*شرک و قبر پرستی کو فروغ دینے والے طاہر القادری کا ترجمہ قرآن بھی اس ایپلیکیشن میں موجود ہے.

دیوبندی علما، نیز مولانا مودودی، مولانا وحید الدین خان، مولانا امین احسن اصلاحی، نعمان علی خان اور ان جیسے دیگر اہل بدعت اور منکرین سنت کی تفاسیر کو اس ایپلیکیشن میں جگہ دے دی گئی ہے، یعنی اہل حدیثیت کے نام پر رافضیت، خارجیت، اعتزال، اشعریت، وحدت الوجود، انکار سنت، قبر پرستی اور شرک و بدعت کو کھلے عام فروغ دیا جا رہا ہے، بلکہ اس قسم کے اہل بدعت سے اہل حدیث عوام کا رابطہ جوڑا جا رہا ہے.....

ہند و پاک کے کبار اہل حدیث علمائے کرام سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ اس فتنہ کی خبر لیں، کیونکہ یومیہ اس ایپلیکیشن پر پانچ لاکھ لوگ جاتے ہیں، یعنی اتنی کثیر تعداد کو روزانہ کے حساب سے شرک و بدعات اور رفض و انکار سنت کا زہر دھیرے دھیرے دیا جاتا ہے، اتنے بڑے پیمانے پر ضلالت و گمراہی کا کاروبار چل رہا ہے، اگر وقت رہتے اس فتنہ کا تدارک نہیں کیا گیا تو خطرہ ہے کہ اہل حدیث عوام ان کے فتنے میں مبتلا ہو جائے.

محترم قارئین: مفضل بن مہلہل فرماتے ہیں کہ: اگر کسی بدعتی کی مجلس میں بیٹھوگے تو وہ شروع سے ہی اپنی بدعت کو بیان نہیں کرے گا، کیوں کہ اگر وہ بدعت سے ہی مجلس کی شروعات کرےگا تو تم ان کی مجلس سے اٹھ کر چلے جاؤگے، اس لئے وہ مجلس کی ابتدا ان احادیث سے کرتا ہے جو عظمتِ سنت پر دلالت کرتی ہوں، پھر اس کے بعد دوران گفتگو اپنی بدعات کو قدرے چالاکی سے پیش کرے گا، اگر وہ بدعت سنت کے نام پر تمہارے دل میں جگہ بنا لے تو پھر کیسے باہر نکلے گی؟

[ الابانۃ لابن بطہ (ص140، رقم الاثر 394)]

مثال کے طور پر مولانا مودودی کی کتاب "خلافت وملوکیت" کو لے لیں، شروع کے صفحات قرآنی آیات اور اس کے ترجمہ سے مزین ہیں، احادیثوں کا انبار ہے، لیکن بعد میں جاکر انہوں نے جو گل کھلایا ہے وہ کسی صاحب عقل و خرد پر پوشیدہ نہیں ہے، خاص طور سے جنہوں نے ان کی اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اہل بدعت کی کتابوں سے دور رہنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کتاب کے مطالعہ کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہو جائے، اور بدعتیوں کے کتابوں کی لوگوں کے درمیان ترویج و اشاعت بھی نہ کی جائے، ان کتابوں میں گمراہی ہوتی اور گمراہی کی جگہوں سے دور رہنا واجب ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا: (( من سمع به فلينأ عنه فوالله إن الرجل ليأتيه وهو يحسب أنه مؤمن فيتبعه مما يبعث به من الشبهات )) رواه أبو داود قال الألباني: وإسناده صحيح.
مفہومِ حدیث: جو دجال کے آنے کی خبر سنے وہ اس سے دور رہے، اس کے قریب نہ جائے، اللہ کی قسم ایک آدمی اپنے آپ کو مؤمن سمجھے گا اور اس کے پاس مقابلہ کرنے کے لیے جائے گا، لیکن دجال اس کو اپنے شبہات میں ایسا الجھائے گا کہ وہ اسی کا پیروکار بن کر رہ جائے گا۔
[مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله ( 5/89 )]

اس لئے جن کتابوں میں بدعت وضلالت ہے اس سے دور رہنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اپنے آپ کو بڑا دقاق سمجھ کر ان کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کرے اور کہے کہ میں تو خذ ما صفا ودع ماکدر پر عمل کروں گا، اور بعد میں پتہ چلے کہ وہ اس فکر سے ایسا متاثر ہوا کہ خود اس کو بھی پتہ نہیں چلا.

خلاصہ کلام یہ کہ: اسلام 360 نامی ایپلیکیشن ضلالت و گمراہی کا مجموعہ ہے، اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کیلئے اس سے دوری اختیار کریں، اپنے اپنے علاقے کے اہل حدیث علمائے کرام سے رابطے میں رہیں، کسی ایپلیکیشن یا سائٹ کی بات پر اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک اہل حدیث علما سے اس کے تعلق سے پوچھ کر مطمئن نہ ہو جائیں، یہ آپ کے دین و ایمان اور عقیدہ و منہج کا مسئلہ ہے، اس کی حفاظت کیلئے پہرہ دینا آپ کا کام ہے، آپ کی تھوڑی سی غفلت آپ عقیدہ و ایمان کے فساد کا باعث ہو سکتی ہے، اس لئے خود بھی اس سے بچیں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کریں.

واللہ اعلم بالصواب

ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

Share:

Kya Aadam Alaihe Salam ki Dua Mohammad Sallahu Alaihe wasallam ke waseele se Qubool hui?

Kya Aadam Alaihe Salam ki tauba Allah ke aakhiri Nabi Ke waseele se Qubool hui thi?

سلسلہ سوال و جواب -185″
سوال_کیا آدم علیہ السلام کی توبہ محمد ﷺ کے وسیلے سے قبول ہوئی تھی؟

Published Date:8-1-2019
جواب:
الحمدللہ:

*کچھ جھوٹ لوگوں نے ایسے گھڑ رکھیں ہیں اور ان جھوٹوں کو اس قدر گھڑ گھڑ کے سچ بنا کے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ لوگوں میں سچ بن کر سرائیت کر جاتا ہے،یہی کچھ حال آدم علیہ السلام کی توبہ والے قصے کا ہے،کہ نام نہاد کم علم لوگوں نے من گھڑت اور جھوٹے قصے مشہور کر کر کے یہ بات لوگوں میں سچ بنا کر مشہور کر دی ہے کہ آدم علیہ السلام کی توبہ محمدﷺ کے وسیلے سے قبول ہوئی تھی،جب کہ یہ بات سفید جھوٹ اور سرا سر قرآن کے خلاف ہے*

*آدم علیہ السلام کی توبہ کیسے قبول ہوئی*

سیدنا آدم و حواء علیہا السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کے ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ شیطان کے بہکاوے میں آ کر دونوں نے وہ پھل کھا لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور انہیں جنت سے نکال دیا۔ دونوں اپنے اس کیے پر بہت نادم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کو ان پر ترس آیا اور انہیں وہ کلمات سکھا دیے جنہیں پڑھنے پر ان کی توبہ قبول ہوئی،

*اس قصے کی تفصیل قرآن خود بیان کرتا ہے،ملاحظہ فرمائیں سورہ البقرہ آئیت نمبر 34 سے 37 تک!!*

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

🌹وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓٮِٕكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡٓا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ اَبٰى وَاسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ الۡكٰفِرِيۡنَ،(34)
ترجمہ:
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں سے ہوگیا۔

🌹وَقُلۡنَا يٰٓـاٰدَمُ اسۡكُنۡ اَنۡتَ وَزَوۡجُكَ الۡجَـنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ(35)
ترجمہ:
اور ہم نے کہا اے آدم ! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور دونوں اس میں سے کھلا کھاؤ جہاں چاہو اور تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم دونوں ظالموں سے ہوجاؤ گے۔

🌹فَاَزَلَّهُمَا الشَّيۡطٰنُ عَنۡهَا فَاَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيۡهِ‌ وَقُلۡنَا اهۡبِطُوۡا بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَلَـكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيۡنٍ(36)
ترجمہ:
تو شیطان نے دونوں کو اس سے پھسلا دیا، پس انھیں اس سے نکال دیا جس میں وہ دونوں تھے اور ہم نے کہا اتر جاؤ، تمہارا بعض بعض کا دشمن ہے اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے

🌹فَتَلَقّٰٓى اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏(37)
ترجمہ:
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اس نے اس کی توبہ قبول کرلی، یقینا وہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ “
یہ کلمات کیا تھے؟

🌹اس آئیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں،

اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن جو کلمات حضرت آدم نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے ۔
( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ )
( الاعراف:23 )
یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقینا ہم نقصان والے ہو جائیں گے،

امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے،
(تفسیر ابن کثیر)

🌹نیز مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے باسند صحیح یوں ثابت ہے :
﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ قال : أي رب ! ألم تخلقني بيدك ؟ قال : بلى، قال : أي رب ! ألم تنفخ في من روحك ؟ قال : بلى , قال : أي رب ! ألم تسكني جنتك ؟ قال : بلى، قال : أي رب ! ألم تسبق رحمتك غضبك ؟ قال : بلى، قال : أرأيت إن أنا تبت وأصلحت، أراجعي أنت إلى الجنة ؟ قال : بلى، قال : فهو قوله : ﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ (سورة البقرة أية 37)
”آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی“۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : میرے رب ! کیا تو نے مجھ میں اپنی طرف سے روح نہیں پھونکی ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : اے رب ! کیا تو نے مجھے جنت میں نہیں بسایا تھا ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : میرے رب ! کیا تیری رحمت تیرے غضب پر غالب نہیں ہے ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : اگر میں توبہ کروں اور نیک بن جاؤں تو کیا تو مجھے دوبارہ جنت میں جگہ دے گا ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔۔۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : یہی اس آیت کی تفسیر ہے۔“ . (المستدرك علي الصحيحين للحاكم: 594/2، ح:4002 وسنده صحيح)

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا حديث صحيح الإسناد. ’’ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔“

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔

🌹اس آیت کریمہ کی یہی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد، مشہور تابعی امام اسماعیل بن عبدالرحمٰن سدی (م : ۱۲۷ھ) نے بھی کی ہے۔
(التفسير من سنن سعيد بن منصور:186، وسنده صحيح)

*صحابی رسول کی اس صحیح و ثابت تفسیر کو چھوڑ کر من گھڑت، باطل اور ضعیف روایات سے آیت کریمہ کی تفسیر کرنا قرآن کریم کی معنوی تحریف کے مترادف ہے*

*یعنی آدم و حواء علیہا السلام نے اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت مغفرت و رحمت کا واسطہ دیا جس سے انکی توبہ قبول ہوئی یہ تو تھا قرآن کریم کا بیان،*

________&_______

*لیکن بعض لوگ اس قرآنی بیان کے خلاف جھوٹی اور نامعلوم و مجہول لوگوں کی بیان کردہ نامعقول اور باہم متصادم داستانیں بیان کرتے اور ان پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے نظر آتے ہیں۔ کسی داستان میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دیا، کسی میں ہے کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کا واسطہ دیا اور کسی میں مذکور ہے کہ ان کو سیدنا علی و سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم کے طفیل معافی ملی*

یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت کی شان میں غلوّ ہے، جو کہ سخت منع ہے۔

یہی بات نصاریٰ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی غلطی عیسیٰ علیہ السلام کے طفیل معاف ہوئی۔

🚫علامہ ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شہرستانی (م : ۵۴۸ھ) نصاریٰ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والمسيح عليه السلام درجته فوق ذلك، لأنه الإبن الوحيد، فلا نظير له، ولا قياس له إلی غيره من الأنبياء، وھو الذي به غفرت زلة آدم عليه السلام.
’’مسیح علیہ السلام کا مقام و مرتبہ اس سے بہت بلند ہے، کیونکہ وہ اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کی کوئی مثال نہیں، نہ انہیں دیگر انبیائے کرام پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ انہی کی بدولت آدم علیہ السلام کی خطا معاف ہوئی تھی۔ “ (الملل والنحل:62/2، وفي نسخة:524/1)

*آدم علیہ السلام کے وسیلے پر بہت سی من گھڑت روایات پیش کی جاتی ہیں،اختصار کے باعث ان میں سے مشہور ایک دو روایات کا ہم جائزہ یہاں پہش کرتے ہیں،*

تجزیہ دلیل _1

🚫سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (اے اللہ !) میں بحق محمد تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : محمد کون ہیں ؟ سیدنا آدم نے عرض کی : (اے اللہ !) تیرا نام پاک ہے۔ جب تو نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تھا۔ وہاں میں نے لا إله الا الله محمد رسول الله لکھا ہوا دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ اے آدم ! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل میں سے آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔ “
(المعجم الصغير للطبراني:182/2، ح:992، وفي نسخة:82/2، المعجم الأوسط للطبراني:6502)

تبصرہ: اگر یہ روایت ثابت ہوتی تو واقعی نیک لوگوں کی ذات اور شخصیت کے وسیلے پر دلیل بنتی اور فوت شدگان اولیا و صالحین کا وسیلہ بالکل مشروع ہو جاتا لیکن کیا کریں کہ یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے، اسی لیے بعض لوگوں کے حصے میں آ گئی ہے۔

(۱) اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف و متروک“ ہے،
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں :
قال الذھبي: ضعفه الجمھور. ’’علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (البدرالمنير:449/1)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والأكثر علي تضعيفه. ’’جمہور اس کو ضعیف کہتے ہیں۔ “ (مجمع الزوائد:21/2)

حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (خلاصة البدر المنير:11/1)

اسے امام احمد بن حنبل، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام یحییٰ بن معین، امام نسائی، امام دارقطنی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابوزرعہ الرازی، امام ابن سعد، امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام ساجی، امام طحاوی حنفی، امام جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہم نے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔

امام بزار رحمہ اللہ (م : ۲۹۲ھ) فرماتے ہیں :
وعبدالرحمن بن زيد قد أجمع أھل العلم بالنقل علي تضعيف أخباره التي رواھا…
’’فن حدیث کے ماہر ائمہ کا عبدالرحمٰن بن زید کی بیان کردہ روایات کو ضعیف قرار دینے پر اتفاق ہے۔ “ (مسند البزار:8763)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
أجمعوا على ضعفه. ’’اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔ “ (تھذيب التھذيب لابن حجر:178،179/6)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :
ضعيف باتفاقھم، يغلط كثيرا. ’’باتفاقِ محدثین ضعیف ہے، بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔ “ (التوسل والوسيلة:167)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
عبدالرحمن، متفق على تضعيفه. ’’عبدالرحمٰن بن زید کو ضعیف قرار دینے پر اہل علم کا اجماع ہے۔ “ (اتحاف المھرة: 97/12، ح15163)

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روي عن أبيه أحاديث موضوعة. ’’اس نے اپنے باپ سے منسوب کر کے موضوع (من گھڑت) احادیث روایت کی ہیں۔
(المدخل الي كتاب الا كليل:154)

امام ابونعیم الاصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدث عن أبيه، لا شيىء. ’’اس نے اپنے والد سے روایات بیان کی ہیں۔ یہ چنداں قابل اعتبار نہیں۔ “ (الضعفاء:122)

عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے یہ حدیث بھی چونکہ اپنے باپ ہی سے روایت کی ہے، لہٰذا یہ بھی موضوع (من گھڑت) ہے۔

(۲) امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ محمد بن داود بن عثمان صدفی مصری کی توثیق مطلوب ہے۔
(۳) اس کے راوی احمد بن سعید مدنی فہری کی بھی توثیق چاہیے۔

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل:
تجزیہ دلیل _2

🚫سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دعائیہ کلمات کے بارے میں پوچھا، جو سیدنا آدم علیہ السلام کو ربّ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سأل بحق محمد وعلي و فاطمة والحسن والحسين، إلا تبت علي، فتاب عليه.
’’آدم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے وسیلے سے دعا کر کے اللہ سے عرض کی کہ میری توبہ قبول کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کر لی۔ “
(الموضوعات لابن الجوزي:398/1، الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة للشوكاني، ص:395،394)

تبصره: یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے اور عمرو بن ثابت بن ہرمز ابوثابت کوفی راوی کی گھڑنت ہے۔ یہ راوی کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہو سکتا، جیسا کہ :

(۱) علی بن شقیق کہتے ہیں :
سمعت عبدالله بن المبارك، يقول على رؤوس الناس: دعوا حديث عمرو بن ثابت، فإنه كان يسب السلف.
’’میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو سرعام یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمرو بن ثابت کی بیان کردہ روایات کو چھوڑ دو، کیونکہ وہ اسلاف امت کو گالیاں بکتا تھا۔ “ (مقدمة صحيح مسلم، ص:11، طبع دارالسلام)

(۲) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بثقة ولا مأمون. ’’یہ قابل اعتبار راوی نہیں۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:223/6، وسنده حسن)

نیز انہوں نے اسے ’’ضعیف“ بھی کہا ہے۔ (تاريخ يحيی بن معين:1624)

(۳) امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بالقوي عندھم. ’’یہ راوی محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتبار نہیں۔ “ (كتاب الضعفاء والمتروكين، ص:87)

(۴) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف و متروک راویوں میں شمار کیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:401)

(۵) امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث، يكتب حديثه، كان رديىء الرأي، شديد التشيع.
’’اس کی حدیث ضعیف ہے، اسے (متابعات و شواہد میں) لکھا جا سکتا ہے۔ یہ برے عقائد کا حامل کٹر شیعہ تھا۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:233/6)

(۶) امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث. ’’اس کی حدیث ضعیف ہے۔ “ (الجرح و التعديل:323/6)

(۷) امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک الحدیث“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:45)

(۸) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان ممن يروي الموضوعات، لا يحل ذكره إلا علي سبيل الاعتبار.
’’یہ من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔ اس کی حدیث کو صرف (متابعات و شواہد) میں ذکر کرنا جائز ہے۔ “ (كتاب المجروحين:76/2)

(۹) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والضعف علي رواياته بين. ’’اس کی روایات میں کمزوری واضح ہے۔ “ (الكامل في ضعفاء الرجال:132/5)
_________&______

*یہ دونوں جھوٹی روایتیں قرآن کریم کے بھی خلاف ہے۔ ديكھيں :
(سورة الاعراف:23)

*ان روایات کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا قرآن کریم کے خلاف ان من گھڑت روایات پر اعتماد کرنا کسی مسلمان کو زیب دیتا ہے؟*

اللہ تعالیٰ صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،
آمین

(مآخذ:  توحید ڈاٹ کام)
(از ابو عبداللہ صارم)

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS