find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Firqe Ki Sharai Taarif (Part 5)

Kya Hanafi, Maliki, Shafi’i, Hambali Firqe hai?

Part 5
Ahle ilm ke mutabik, ye 4 Imamo ki 4 Fiqh, ye Firqa-parsti nahi hai. Isko Ahle Sunnat wal Jamaat ke andar ka apsi ikhtelaaf mana gaya hai. Ab jis Imam ki daleel pukhta hai us Imam ke baato ko mana jayega lekin izzat 4 ki bhi ki jayegi.
Lekin in Imamo ke naam par jo firqe banaye gaye ye hakikat me “gumrah firqe” hai. Aap jante ho, apne aap ko “Hanafi” kahne wale “100% Hanafi” nahi hai. Actually is firqe ka naam “Maturidi” hona chahiye tha lekin inke Ulamao ne is hakikat ko awaam se chhupaya hai. Awwam ko sirf masala-masail me fasa kar rakha gaya. Ye “Hanafi Firqa” mixture hai “Maturidiyat + Sufiyat + Hanafiyat” ka. Inone ne Imam Abu Hanifa ke popularity ka fayda uthaya aur apne aapko “Hanafi” kahne lage lekin andruni ye log “Maturidi+Sufi” hai. Jaisa ke ye log sirf “Fiqh” me Imam Abu Hanifa ke pairokar hai lekin Aqeede me “Imam Muhammad bin Muhammad Maturidi” ke pairokar hai aur “Tariqekaar” me “Sufi” ke  4 silsile (Qadari, Chisti, Nakshbandi, Suharwardi) ke pairokar hai.
Imam Muhammad bin Muhammad Maturidi ke naam se bana huwa “Maturidi” firqa Allah ke “Tawheed-e-Asma wa Sifaat” me gumrah hai. Ye log Allah ke sirf 7 Sifaat ko mante hai aur baaki ke saare sifato me taawil karte hai lekin “Ahle Sunnat wal Jamaat” Allah ke saare Sifato ko waise hi mante hai jaise Allah aur Rasool ne un sifato ke bareme bataya hai.
To Be Continued...
Firqe Ki Sharai Taarif (Part 1)                     Firqe Ki Sharai Taarif (Part 2)
Share:

Bujurg Musalman Ki Izzat Karna Kaisa Hai?

Hadith : Buzurg Musalman ki ezzat karna Allah subhanhu ki tazeem ka ek hissa hai
Hazrat Abu Musa Ashari Radi Allahu Anhu se rivayat hai ki Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi wasallam ne farmaya Allah subhanahu ki tazeem ka hissa ye bhi hai ki safed baalo wale musaman (yani Buzurg) ki ezzat ki jaye, aur Quran karim ke hamil yani Hafiz aur Aalim ki bhi ezzat ki jaye siwaye usmein gulu aur kamee karne walo ke aur aadil baadshah ki bhi ezzat ki jaye
Sunan Abu Dawud, Jild 3,1415-Sahih
----------------
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سبحانه کی تعظیم  کا حصّہ یہ بھی ہے کی سفید بالوں والے مسلمان کی عزت کی جائے اور قرآن کریم کے حامل یعنی قرآن کے حافظ اور عالم کی بھی عزت کی جائے  سواۓ اس میں غلو کرنے والے کے اور اس سے دور ہونے والے کے اور عادل بادشاہ کی بھی عزت کی جائے 
سنن ابو داوود ، جلد ٣ ، ١٤١٥-صحیح
----------------
Narrated AbuMusa al-Ash'ari Radi Allahu Anhu  The Prophet ﷺ said: showing honour to a grey-haired Muslim and to one who can expound the Qur'an, but not to one who acts extravagantly regarding it, or turns away from it, and showing honour to a just ruler is the part of the Glorifying Allah
Sunan Abu Dawud, Book 42, 4825-Sahih

Aye imaan waalo Allah ki itaat karo aur uske Rasool ki itaat karo aur apne Amalo ko Baatil na karo
Jo Bhi Hadis Aapko Kam Samjh Me Aaye Aap Kisi  Hadis Talibe Aaalim Se Rabta Kare
JazakAllah  Khaira Kaseera

Share:

Nabi Ki Tasweer (Picture) Nahi Hone Ki Wajah Kya Hai?

Nabi-E-Akram Sallahu Alaihe Wasallam ki Tasweer Kyu Nahi Hai?

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ⚘
نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى تصوير نہ ہونے كا سبب
سوال
دنيا ميں كسى بھى جگہ پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تصوير كيوں نہيں پائى جاتى ؟
جواب کا متن
الحمد للہ:
شريعت نے ہر وہ دروازہ بند كيا ہے جو شرك كا ذريعہ ہو اور شرك كى طرف لے جائے، اور ان وسائل ميں تصوير بھى شامل ہے، چنانچہ شريعت اسلاميہ نے تصوير حرام كى ہے، اور تصوير بنانے والے پر لعنت كى ہے، بلكہ ايسا كرنے والے كے ليے بہت سخت وعيد آئى ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ام حبيبہ اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہما نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے حبشہ ميں ديكھے ہوئے ايك چرچ كا ذكر كيا جس ميں تصاوير تھيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ وہ لوگ ہيں جب ان ميں كوئى نيك و صالح شخص فوت ہو جاتا تو وہ اس كى قبر پر مسجد بنا ليتے، اور يہ تصاوير اس ميں بنا كر ركھ ديتے، تو يہ روز قيامت اللہ كے ہاں مخلوق ميں سب سے برے لوگ ہونگے "
صحيح بخارى كتاب الصلاۃ حديث نمبر ( 409 ).
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر سے واپس تشريف لائے تو ميں نے اپنے طاقچہ جس ميں ميرے كھلونے ركھے تھے پر پردہ لگا ركھا تھا جس پر مجسموں كى تصاوير تھيں، چنانچہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ديكھا ت واسے پھاڑ ديا، اور فرمايا:
" روز قيامت سب سے زيادہ عذاب ان لوگوں كو ہو گا جو اللہ تعالى كى مخلوق پيدا كرنے كا مقابلہ كرتے ہيں، تو ميں نے اس پردہ كا ايك يا دو تكيے بنا ليے "
صحيح بخارى كتاب اللباس حديث نمبر ( 5498 ).
اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" روز قيامت اللہ تعالى كے ہاں سب سے زياہ عذاب مصوروں كو ہو گا "
صحيح بخارى كتاب اللباس حديث نمبر ( 5494 ).
تو پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى تصوير بنانے اجازت كيسے دے سكتے تھے، اور اسى ليے كسى صحابى نے بھى آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى تصوير بنانے كى جرات بھى نہيں كى، كيونكہ صحابہ تصوير حرام ہونے كا حكم جانتے تھے.
اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے غلو سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
اے اہل كتاب تم اپنے دين ميں غلو مت كرو النساء ( 171 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے متعلق ہر اس كام سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا جس ميں غلو ہو:
" تم ميرے متعلق غلو سے كام مت لو جس طرح عيسائيوں نے عيسى بن مريم كے متعلق غلو سے كام ليا، ميں تو صرف اللہ كا بندہ ہوں، تو تم اللہ كا بندہ اور اس كا رسول ہى كہو "
صحيح بخارى احاديث الانبياء حديث نمبر ( 3189 ).
امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے:
" بنى آدم كے كفر كا سبب صالحين اور نيك لوگوں كے متعلق غلو كرنے كے متعلق وارد شدہ احاديث "
وہ كہتے ہيں صحيح بخارى ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ اللہ تعالى كے فرمان:
اور انہوں نےكہا كہ ہرگز اپنے معبودوں كو  نہ چھوڑنا، اور نہ ود اور سواع اور يغوث اور يعوق اور نسر كو چھوڑنا نوح ( 23 ).
كى تفسير ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا:
" يہ نوح عليہ السلام كى قوم كے نيك و صالح آدميوں كے نام ہيں، اور جب يہ لوگ فوت ہو گئے تو شيطان نے ان كى قوم كے دلوں ميں ڈالا كہ وہ ان كى تصاوير اپنى بيٹھنى والى جگہوں ميں لگائيں جہاں ان كے بڑے لوگ بيٹھتے تھے، اور انہوں نے ان كو نام بھى انہى كے ديں، تو انہوں نے ايسا ہى كيا ليكن ان كى عبادت نہيں كى جاتى تھى، ليكن جب يہ لوگ فوت ہو گئے اور علم ختم ہو گيا تو ان كى عبادت كى جانے لگى "
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" كئى ايك سلف رحمہم اللہ نے كہا ہے:
جب يہ لوگ مر گئے تو وہ ان كى قبروں پر اعتكاف كرنے لگے پھر انہوں نے ان كى تصاوير بنا ليں، اور جب زيادہ مدت بيت گئى تو ان كى عبادت كى جانے لگى "
ديكھيں: فتح المجيد شرح كتاب التوحيد تاليف عبد الرحمن بن حسن صفحہ نمبر ( 219 ).
اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كوئى تصوير نہيں پائى جاتى، كيونكہ اس اجتناب كرنے كا كہا گيا اس ليے كہ يہ شرك كى طرف لے جاتى ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى رسالت كى گواہى دينے كا تقاضا يہ ہے كہ ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر ايمان لائيں، اور آپ جو لائے ہيں اس پر ايمان ركھيں، چاہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كوئى بھى تصوير نہ پائى جائے، اور پھر مومن لوگوں كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى اور اتباع كرنے كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى تصوير كى كوئى ضرورت بھى نہيں.
پھر يہ بات بھى ہے كہ صحيح روايات ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صفات اور وصف بيان كيا گيا ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تصوير سے مستغنى كر ديتا ہے، ذيل ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ  كے اوصاف درج كيے جاتے ہيں:
1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا چہرہ سب سے زيادہ خوبصورت تھا.
2 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كندھوں كا درميانى حصہ عرض اور چوڑا تھا.
3 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نہ تو زيادہ لمبے تھے، اور نہ ہى چھوٹے قد كے مالك تھے.
4 - نبى كريم صلى اللہ عليہ كا چہرہ مبارك گول اور سرخى مائل يعنى گلابى تھا.
5 - نبى كريم صلى اللہ عليہ كى آنكھيں شديد سياہ تھيں، يعنى سرمگى آنكھوں كے مالك تھے.
6 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم لمبى پلكوں كے مالك تھے.
7 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خاتم النبيين سب لوگوں سے زيادہ سخى، اور سب سے زيادہ شرح صدر والے، اور لہجے ميں سب سے زيادہ سچائى اختيار كرنے والے، اور سب سے زيادہ نرم دل، اور سب سے زيادہ حسن معاشرت كرنے والے تھے، جو شخص آپ كو اچانك ديكھ ليتا آپ سے ہيبت كھا جاتا، اور جو شخص آپ كے ساتھ ملتا اور آپ كے تعلق قائم كر ليتا وہ آپ سے محبت كرنے لگتا، آپ كى صفت بيان كرنے والا كہتا ہے: ميں نے آپ سے قبل اور آپ كے بعد آپ جيسا كوئى شخص نہيں ديكھا.
بلاشک و شبہ ہر مومن شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ملاقات كى خواہش ركھتا ہے، اسى ليے حديث ميں وارد ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميرى امت ميں سے ميرے ساتھ سب سے زيادہ محبت كرنے والے وہ لوگ ہيں جو ميرے بعد ہونگے، ان ميں ايك چاہے گا كہ كاش وہ اپنے اہل و عيال اور اپنے مال كے بدلے مجھے ديكھ لے "
صحيح مسلم بال الجنۃ و صفۃ نعيمہا حديث نمبر ( 5060 ).
بلاشك و شبہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى يہ دونوں چيزيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ جنت ميں اكٹھے ہونے كا سبب ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كى نشانى يہ بھى ہے كہ خواب ميں آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا ديدار ہو، اور آپ كو انہى صفات ميں ديكھا جائے جو صحيح احاديث ميں ثابت ہيں:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے:
" جس نے مجھے نيند ميں خواب ميں ديكھا تو وہ مجھے بيدارى ميں بھى ديكھےگا، اور شيطان ميرى شكل نہيں بن سكتا "
ابو عبد اللہ كہتے ہيں: ابن سيرين رحمہ اللہ كا قول ہے: جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ان كى صورت و شكل ميں ديكھے "
صحيح بخارى كتاب التعبير ( 6478 ).
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
( الشیخ محمد صالح المنجند )
Share:

Musalman Ko Kis Tarah Dua Karni Chahiye?

🍂🍃ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِﺍﻟﺮَّﺣْﻤَﻦِﺍلرَّﺣِﻴﻢ🍂🍃

🌺حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    دَعْوَةُ ذِي النُّونِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ _*لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ،*_ *فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ.
Nabi kareem ﷺ ne farmaya: ( Yunus alaihe salaam ) ki dua jo unho ne machhli ke pait mein rehne ke douraan ki thi woh yeh thi : _« Lā ilāha illā anta subḥānaka innī kuntu minaẓ-ẓālimīn »*_ "tere siwa koi mabood barhaq nahi, tu paak hai, mein hi zalim ( khatakaar ) hon", *kyun ke yeh aisi dua hai ke jab bhi koi musalman shakhs usay parh kar dua karega to Allah taala iski dua qubool farmayega".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ( یونس علیہ السلام ) کی دعا جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے دوران کی تھی وہ یہ تھی: *_«لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين»_* ”تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو پاک ہے، میں ہی ظالم ( خطاکار ) ہوں“، *کیونکہ یہ ایسی دعا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان شخص اسے پڑھ کر دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا“۔

the Messenger of Allah (ﷺ) said: “The supplication of Dhun-Nun (Prophet Yunus AS) when he supplicated, while in the belly of the whale was: _*Lā ilāha illā anta subḥānaka innī kuntu minaẓ-ẓālimīn*_’ ‘There is none worthy of worship except You, Glory to You, Indeed, I have been of the transgressors. *So indeed, no Muslim man supplicates with it for anything, ever, except Allah responds to him.”
📚Jame at Tirmidhi: jild 6, kitab Al dua 48, hadith no. 3505
*Grade Sahih.

Share:

Musalman Jab Kisi Takleef Me Rahta Hai Tab ALLAH uske Gunaho ka kya Karta Hai?

Jab Musalman Kisi Pareshani Me Mubtila Hota Hai To Uska Ajer Kya Milta Hai?

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :    مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ ، وَلَا وَصَبٍ ، وَلَا هَمٍّ ، وَلَا حُزْنٍ ، وَلَا أَذًى ، وَلَا غَمٍّ ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا ، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ.
Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam ne farmaya: ke Musalman jab bhi kisi pareshani, bemari, ranj-o-malaal, takleef aur gham mein mubtela ho jata hai yahan tak ke agar usay koi kanta bhi chubh jaye to Allah taala usay iske gunaho ka kaffara bana deta hai.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ 
The Prophet ﷺ said, No fatigue, nor disease, nor sorrow, nor sadness , nor hurt, nor distress befalls a Muslim, even if it were the prick he receives from a thorn, but that Allah expiates some of his sins for that.
Bukhari sharif: jild 7, kitab Al-Marz 75, hadith no. 5641
Share:

Deen Ki Batein Sahi Daleelo Ke Sath Kyu Jaruri Hai?

DEEN KI DAWAT AUTHENTICITY(sahi dalilo) KE SATH KYU ZARURI HAI?

♻Bismillahhirrahmanirrahim ♻

Tamam Insaniyat ko Islam ki Dawat dene ki zaroorat
Allah Rabbul izzat ka farman hai
📚Surah Aal-e-Imran
📖Surah no.3
📝Aayat no.110
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭمِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ

" Tum behtareen ummat ho jo logon ke liye paida ki gaee ho ke tum nek baaton ka hukum kerte ho aur buri baaton se rokte ho aur Allah Taalaa per eman rakhte ho agar ehal-e-kitab bhi eman late to unn ke liye behtar hota unn mein eman wale bhi hain lekin aksar to fasiq hain."

📌 Islam ki Dawat chahe Musalmano ki islah ho ya ghair muslimo me tableegh me ye authentic references k saath isliye zaroori hai Taake

1 Dawat me Transparency(shaffafiyat) rahe..

2 Gumrahi ka koi chance na ho.

3 Hamko Dawat dene wala shakhs Haq ki dawat deraha hai ya mehez suni sunai bato ko forward kar raha hai yeh b clear hojaye.

🔴DALEEL mangne ki zaroorat
Allah ka farman hai :-

📚Surah Baqarah
📖Surah no.2
📝Aayat no.111

وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى ۭ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ

" Yeh kehte hain ke jannat mein yahud-o-nasaaraa ke siwa aur koi na jayega yeh sirf inn ki aarzooyen hain inn say kaho agar tum sachche ho to koi daleel to paish karo."

Iss aayat se yeh bhi maloom hua k jo Haq par hoga woh apni bat ki sahi daleel b dega.
Yad rakhiye bhaiyo aaj ka daur fitno ka daur hai iss daur me kaun fasiq(disobedient) hai hum nahi jaante isliye jab hume koi shakhs khas taur se Deen k bare me koi bat batay to uski tehqiq (verification) kar lena chahiye.

Allah ne apni kitab me ye usool dete hue farmaya hai
📚Surah Hujrat
📖Surah no.49
📝Ayat no.6

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ

Aey iman walo ! Agar tumhen koi fasiq khabar dey to tum uss ki achi tarah tehqeeq kerlia karo aisa na ho kay nadaani mein kisi qaum ko iza phoncha do phir apne kiye per pasheymani uthao.

Deen k bare me bina daleel bat karne se darna chahiye kahin aesa na ho k unki baat ghalat nikle or woh seedhe jahannum me ja paden

📌Authentic baat pohoch jaane k baad b Haq baat ka inkar karne walo ka anjaam
📚Surah Nisa
📖Surah no.4
📝Ayat no.115

وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا

Jo shaks ba wajood raah-e-hidayat ke wazeh ho jane ke bhi Rasool’Allah sallallaho alaihi ke khilaf kare aur tamam mominon ki raah chhod ker chale hum usey udhar hi mutawajja ker denge jidhar woh khud mutawajja ho aur dozakh mein daal denge woh phonchney ki boht hi buri jagah hai.

🔴Deen ki baat bina daleel/refrence jaane bayan karne wala?
✔☘Rasool’Allah sallallaho alyehi wasallam ne farmaya
" kisi shaks ke jhoota hone ke liye itna hi kafi hai ke wo har suni sunai bat ko aage bayan karde."
Sahi Muslim, Muqaddama Hadees no. 9

✔☘Rasool’Allah sallallaho alyehi wasallam ne farmaya
"jisne mere upar
jhoot bandha usne apna thikana jahannum me bana liya."
📚Sahi Bukhari hadees no. 108

Share:

Aurat Aur Mard Ke Mutaaliq Hadees

درس حدیث برائے خواتین
وقال اللہ تعالٰی فی القرآن المجید
واللہ لا یستحی من الحق....
(سورۃ الاحزاب آیت 53)
"اور اللہ حق بات بیان کرنے میں شرم نہیں کرتا"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اسی پر عمل رہا ہے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  میاں بیوی کے باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لئے اس قدر جامع اور حکیمانہ احکام صادر فرمائے ہیں کہ ان پر عمل کر کے آپس کی بد گمانیوں اور بہت ساری پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے.
لیکن  لبرل اور بیدین قسم کے لوگ اپنی جہالت کی بنیاد پر ان احکام کو دقیانوسی اور ناقابل عمل کہہ کر فطرت سے آمادہ جنگ ہیں.
اسی لئے زندگیاں تلخ ہیں.
اکثر لوگ ازدواجی زندگی کو اپنے لئے مصیبت تصور کرتے ہیں.
اور بیحیائی کی انتہا یہ ہے کہ میاں بیوی کی آپس کی باتیں اب لطیفوں کے طور پر بیان کی جاتی ہیں.
فیملی کورٹس میں مقدمات کی شرح بڑھ گئی ہے.
نئے ملکی قوانین کی رو سے بیوی اپنے شوہر کے خلاف ایف آئی آر درج کرا  کے اسے جعل بھیج سکتی ہے.
یہ سب شریعت  سے بیزاری کا نتیجہ ہے.
یہ صورت حال اس بات کی مقتضی ہے کہ خواتین کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے تاکہ خانگی زندگی میں قرون اولی جیسی خوشیاں لوٹ آئیں.
میری اس کاوش یہی مقصد ہے.
اللہ تعالٰی سے امید واثق ہے کہ وہ اسے شرف قبولیت عطا فرمائے گا.
1. خاوند کی ناشکری بھی ایک طرح کا کفر ہے.
صحیح البخاری میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث منقول ہوئی ہے.
اس کے آخر میں یہ مضمون ہے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جہنم کو دیکھا اور میں نے اس سے خوفناک منظر آج تک نہیں دیکھا،
میں نے دیکھا کہ اس میں عورتیں بہت ہیں.
لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اس کی وجہ؟
آپ نے فرمایا ان کے کفر کی وجہ سے،
پوچھا گیا کہ کیا اللہ کا کفر (کرتی ہیں؟ )
آپ نے فرمایا خاوند کا کفر، اور خاوند کا احسان نہ ماننا.
عورت کا حال یہ ہے کہ اگر تم ساری عمر اس کے ساتھ احسان کرتے رہو پھر تجھ سے ایک چیز(اپنی مرضی کے خلاف دیکھے گی) تو کہے گی
"ما رایت منک خیرا قط"
یعنی میں نے تجھ سے کبھی بھلائی نہیں پائی"
(صحیح البخاری کتاب  النکاح باب کفران العشیر ملخصا)
2. عورت سے اس کے گھر اور بال بچوں کے حقوق کے  بارے میں پوچھا جائے گا.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
وہ بیان کرتے ہیں کہ
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اپنی رعایا کا جوابدار ہے.
بادشاہ اپنی رعایا کا حاکم ہے
مرد اپنے گھر والوں کا حاکم یے
عورت اپنے شوہر کے گھر اور اولاد پر حاکم ہے
الغرض تم سے ہر شخص حاکم ہے اور وہ اپنی رعایا کا جوابدار ہے"
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب المراۃ راعیۃ فی بیت زوجھا، ملخصا)
3. مردوں کے لئے سب سے بڑی آزمائش عورتیں ہیں.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے بعد عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا جو مردوں کے لئے ضرر رساں ہو"
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب ما یتقی من شوم المراۃ، ملخصا)
4. عورت اپنے خاوند کو دوسری شادی سے نہیں روک سکتی.
ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر سے مطالبہ کرے کہ وہ اس کی بہن (سوکن) کو طلاق دے تاکہ اس کے حصے کا پیالہ خود انڈیل لے،
جتنا اس کے مقدر میں ہے اتنا ہی اسے ملے گا"
5. خاوند کی اجازت کے بغیر عورت نفلی صوم (روزہ) نہیں رکھ سکتی.
ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ
" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب عورت کا خاوند اس کے پاس موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر نفلی صوم (روزہ) نہ رکھے "
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب صوم المراۃ باذن زوجھا تطوعا، ملخصا )
6. عورت اپنے خاوند کا بستر چھوڑ کر الگ نہیں سو سکتی.
ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے تو تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں"
7. عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ خاوند کی مرضی کے بغیر کسی کو اس کے گھر آنے کی اجازت دے.
ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عورت کو جائز نہیں ہے کہ جب اس کا خاوند موجود ہو تو اس کی اجازت کے بغیر صوم(نفلی) رکھے،
اور کسی عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کسی کو اس کے گھر میں آنے کی اجازت دے (البتہ) اگر عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ مال ( فی سبیل اللہ) خرچ کرے گی تو خاوند کو بھی آدھا (ثواب) ملے گا"
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب لا تاذن المراۃ فی بیت زوجھا لاحد الا باذنہ ، ملخصا )
8. حرام کاری کسی کو جائز نہیں، نہ مرد کو نہ عورت کو.
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے محمد کی امت کے لوگو!
اللہ سے بڑھ کر کسی میں غیرت نہیں ہے
اس کو بڑی غیرت آتی ہے جب وہ اپنے غلام یا باندی کو حرام کاری کرتے دیکھتا ہے اور اللہ سے بڑھ کر کسی کی تعریف کرنا پسند نہیں"
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب الغیرۃ ، ملخصا)
9. نامحرم مرد عورت سے تنہائی میں نہیں مل سکتا.
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی  نامحرم مرد عورت سے تنہائی نہ کرے
اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا
اے اللہ کے رسول! میری بیوی حج کے لئے نکلی ہے اور میرا نام فلانی فلانی لڑائی میں لکھا گیا ہے (مجھے ان لڑائیوں کے لئے جانا ہے)
آپ نے فرمایا تو لوٹ جا اپنی بیوی کو حج کرا "
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب لا یخلون رجل بامراۃ الا ذو محرم والدخول علی المغیبۃ، ملخصا )
10. عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح درست نہیں ہے.
ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیوہ عورت کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے اسی طرح کنواری کا نکاح بھی اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے،
لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ (کنواری) کیونکر اذن دے گی؟
آپ نے فرمایا اس کا اذن یہی ہے کہ وہ سن کر  چپ ہو جائے"
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب لا ینکح الاب وغیرہ البکر والثیب الا برضاھا، ملخصا )
نوٹ:
درج بالا بعض احادیث میں صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو "یا رسول اللہ"
یعنی اے اللہ کے رسول کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں.
جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ انہی احادیث کو بنیاد بنا کر عوام کو " یا رسول اللہ" کے نعرے لگانے پر اکساتے ہیں.
یہ حدیث کا بالکل غلط مفہوم ہے.
اصل بات یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ موجود تھے تو صحابہ کرام آپ کو متوجہ کرنے کے لئے یا رسول اللہ کے ندائیہ الفاظ استعمال کرتے تھے اور کسی بھی زندہ انسان کو اے فلانے کہہ کر مخاطب کرنا شرک نہیں ہے بشرطیکہ  وہ سامنے موجود ہو.
لیکن اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود نہیں ہیں بلکہ آپ کو فوت ہوئے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے اب "یا" کے صیغہ سے آپ کو پکارنا کھلا شرک ہے. البتہ صلوٰۃ کے اندر جو درود و سلام پڑھا جاتا ہے اس کا پڑھنا ضروری ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود امت کو اس کی تعلیم دی ہے فقط.
Share:

Dua-E-Noor (Chehre Pe Nor Hasil Karne Ki Dua)

Dua e Noor - Dil mein aur Jism mein noor hasil karne ki dua

Rasool-Allah Sal-Alalahu Alaihi Wasallam apni dua mein ye farmaya karte they
اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا
وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا
وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا
وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا
وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا
وَاجْعَلْ لِي نُورًا ‏

دل میں اور بدن میں نور حاصل کرنے کی دعا
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں یہ فرمایا کرتے تھے
اے اللہ ! میرے دل میں نور پیدا کر ،
میری نظر میں نور پیدا کر
میرے کان میں نور پیدا کر
میرے دائیں طرف نور پیدا کر
میرے بائیں طرف نور پیدا کر
میرے اوپر نور پیدا کر
میرے نیچے نور پیدا کر
میرے آگے نور پیدا کر
میرے پیچھے نور پیدا کر
اور مجھے نور عطا فرما
Sahih Bukhari Jild 7, 6316

Allahumma Ajal fi qalbi noora,
wa fi basari noora,
wa fi samii noora,
wa an yamini noora,
wa an yasari noora,
wa fawqi noora,
wa tahti noora,
wa amami noora,
wa khalfi noora,
waj'al li noora.
  Tarjuma : Eh Allah , mere DIL mein Noor  paida kar,
meri NAZAR mein Noor paida kar,
mere kaan mein Noor paida kar,
mere dayeen taraf (right side) Noor  paida kar,
meri bayeen taraf (left side) Noor  paida kar,
mere upar Noor  paida kar,
mere neeche Noor  paida kar,
mere aage Noor  paida kar,
mere peeche Noor  paida kar,
aur mujhe noor ata farma
Sahih Bukhari Jild 7, 6316

 Aye imaan waalo Allah ki itaat karo aur uske Rasool ki itaat karo aur apne Amalo ko Baatil na karo                     Jo Bhi Hadis Aapko Kam Samjh Me Aaye Aap Kisi  Hadis Talibe Aaalim Se Rabta Kare. JazakAllah  Khaira Kaseera
Share:

Qyamat ke Din Kafiron ko Jahannum Ki Gotah Diya Jayega.

Muhammad Sallallahu álayhi wa sallam ne farmaya!
Qyamat ke din kafiron me se wo shaksh laya jayega,jisne dunya me bahot aiysh kiya hoga,aur kaha jayega: isko  jahañnam me ek gotah (dubki) do,isko Ek gotah jahañnam me diya jayega,phir us se puucha jayega,Aye falaan! Kya tum ne kabhi rahat bhi deyhki hai? Wo kahega: nahi,maine kabhi koe rahat nahi deykhi. aur momino me se ek aise momin ko laya jayega,jo sakht takleef aur musibat me raha hoga,usko jañnat ka ek gotah diya jayega,phir us se puucha jayega: kya tum ne kabhi koe takleef ya pareshani deykhi? Wo kahega: muhje kabhi koe musibat ya takleef nahi ponchi.
*English
Messenger of Allah (ﷺ) said:
“On the Day of Resurrection the disbeliever who lived the most luxurious will be brought, and it will be said: ‘Dip him once in Hell.’ So he will be dipped in it, then it will be said to him: ‘O so- and-so, have you every enjoyed any pleasure?’ He will say: ‘No, I have never enjoyed any pleasure.’ Then the believer who suffered the most hardship and trouble will be brought and it will be said: ‘Dip him once in Paradise.’ So he will be dipped in it and it will be said to him: ‘O so-and-so, have you ever suffered any hardship or trouble?’ He will say: ‘I have never suffered any hardship or trouble.’”
Grade: Sahih (Darussalam)
[ Sunan Ibn Majah: 4321 ]
------------------------------------

Share:

10 Jannati Sahaba Ka Nam

DUS (10) JANNATI SAHABA KE NAAM
Abdurrahman bin awf Raziyallahu anhu se riwayat hai ke Allah ke Rasool ne farmaya:
1⃣ AbuBakr (raziyallahu anhum),
2⃣ Umar (raziyallahu anhum),
3⃣ Usman (raziyallahu anhum),
4⃣ Ali (raziyallahu anhum),
5⃣ Talha (raziyallahu anhum),
6⃣ Zubair (raziyallahu anhum),
7⃣ Abdurrahman bin awf (raziyallahu anhum),
8⃣ Sa'ad (raziyallahu anhum),
9⃣ Sa'eed (raziyallahu anhum)
🔟 aur Abu Ubaida bin Jarrah (raziyallahu anhum)  jannat me hain (jannati hain) .
TIRMIZI: 3747 📚.  SAHEEH HADEES

Share:

Haiz (Periods) Kitne Din Ka Hota Hai?

HAIZ(Periods/Menses) KITNE DINO KA HOTA HAI?


Jawab


Bismillahhirrahmanirraheem
Hamare Muashare me deen ki kam ilmi ki wajah se Aurato me ek bat kasrat se phaili hui hai ke *haiz/mensturation* ki napaki 7 din ki hoti hai,Jabki haiz ki koi ek muddat islamic sharia me nahi batai gayi hai.Kisi aurat ko zada din haiz ata hai to kisi ko kam din.To aaiye is masle ko *Quran aur Hadees* ki roshni me samjha jaye.

✔Jab aurat ko haiz aye, chahe zyada ho ya kam to uski muddat tab khatam hoti hai jab wo khun ruk jaye,Aur bahut se fuqaha ka kahna hai ki haiz ki kamaskam muddat, ek raat aur ek din, aur zyada se zyada 15 din hai.

Sheikh ul islam ibn Taymiyah (r) ne kaha
Haiz ki koi muddat muqarrar nahi,balki jab bhi haiz ki mukammal sifaat ke sath khun aaye to wo haiz shumar hoga,chahe kam din ho ya zyada.


*✔Sheik ul islam kahte hain.
Kitab ullah aur sunnat e Rasool Allah me Allah Ta’ala ne haiz ke kai ehkaam
bataye hain.Aur uski kamaskam aur zyada se zyada muddat muqarrar nahi ki hai.
(Majmoo’ al-Fataawaa, 19/237)

HADEES no.1


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ زُهَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلاَةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي ‏”‏‏.‏
✔Aisha (r.a) riwayat karti hain
*Rasool(saw)*ne farmaya,
“jab tumhe haiz shuru ho jaye to namaz chhod do aur jab khatam ho jaye to ghusl karo aur namaz shuru kardo.”
*Sahih al-Bukhari 331
HADEES no.2


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ كُنَّا لاَ نَعُدُّ الْكُدْرَةَ وَالصُّفْرَةَ شَيْئًا‏.‏

✔Umm ‘Atiya (r.a) farmati hai”ham log gande pani ko (yellow aur brownish discharge) ko haiz me shumar nahi karte the .
*Bukhari 326,Abu Dawood,307

lekin ye paani najis hai to iska dhona aur fir wazu karna wajib hai.
Upar di gayi hadeeso se ye sabit hota hai k hame janbujh kar 7 din ka intezar nahi karna hai,jo ke ham aamtaur par dekhte hain ke auratein 7 din tak paak hone ka intezar kiya karti hai.Balki jaise hi haiz khatam ho hme Rasool(saw) ke hukm ke mutabiq ghusl karke namaz aur Roza shuru kar dena hai.

Share:

Firqe Ki Sharai Taaruf (Part 1)

"Firqa” kise kahte hai

Part : 1
BismillahirRahmanNirRaheem
Jawab :
Firqe 2 tarah ke hote hai. Haq aur Baatil jaisa ke 73 Firqo me se 72 gumrah Firqe honge aur 1 hidayat yafta Firqa hoga. Jo “1 Hidayat Yafta” Firqa hoga wo “Khalis Islam” par hoga jiska naam “Ahle Sunnat wal Jammat” hai jiske mukhtalif naam hai jaisa ke “Ahle Hadees, As’haabul Hadees, Ahle Athar, Tayfa Mansoora, Firqe Najiya, Muhammadi” hai. Lekin dusare 72 gumrah Firqo ke muqabale me is “1 Hidayat Yafta Giroh” ko bhi Firqa kaha gaya hai kyune Firqa 1 aam lafz hai jaisa ke “Insaan” 1 aam lafz hai isme “Muslim” bhi hote hai aur “Mushrik”, “Munafiq”, “Kaafir” bhi hote hai.
“Firqa” yaani  “Giroh” ya “Group” jisko aam Zuban me “Jamaat” kaha jata hai lekin Jamaat chhoti hoti hai Firqa bada hota hai. 1 Firqe me kai Jamatein ho sakti hai. Jaisa ke “Sufi” ye 1 Firqa hai jisme 4 chhote chhote mashoor silesile hai jisko  “Qadari”, “Chisti”, “Nakshbandi” aur “Suharwardi” kaha jata hai. Inke alaawa “Sufism” me sekdo chhote chhote Jamatein paayi jaati hai.
To Be Continued
Share:

Firqe Ki Sharai Taarif (Part 2)

FIRQE ki SHARAI Taarif
Part 2
Firqe ki sharai taarif malum karne ke liye niche Quran ki 2 ayatein aur 1 Hadees pesh kar rahe hai.
“Agar wo “TUM” jaisa imaan laaye to HIDAYAT paayenge, aur agar muh mod liya to wo sarih (khule) ikhtelaaf mein hai, Allah ta’ala un se anqareeb aap ki kifaayath karega, aur wo khoob sunne aur jaanne wala hai.
📙(Surah 02 Baqrah : Ayat 137)

↘Yaha ” TUM” se murad “Nabi aur SAHABA” hai kyune jab ye Quran ki ayat nazil horahi thi us waqt Nabi aur unke Sahaaba hi Imaanwale the aur Is ayat se malum hota hai ke jis kisika Imaan (Aqeeda) Sahaba ke Imaan (Aqeede) ke jaisa hoga wo HIDAYAT par hoga.
“Jo shakhs ba-wajood raahe hidaayat ke waazeh ho jaane ke bhi Rasool ke khilaaf kare aur MOMINO ki RAAH chhod kar chale, hum ose udhar hee mutawajje kar denge jidhar wo khud mutawajje ho aur dozakh mein daal denge,wo pahonchne ki bahuth hee buri jagah hai”.

📙(Surah 04 Nisa’a : Ayat 115)

↘Is ayat me ”MOMINO” se murad “Nabi aur SAHABA”  hai aur inke  Naksh-e-kadam par chalne wale tamam MOMININ jo qiyamat tak paida honge.
yahi baat is HADEES se saabit hoti hai.
To Be Continued

Share:

Kya Allah Apne Gunahgaar Bande ki Dua Nahi Sunta?

Kya Allah apne Gunahgaar Bando ki Dua nahi Sunta?
📗Banda chahe gunahgaar ho ya nek Allah zarur apne har ek bande ki dua ko sunta hai aur jo manga gaya wo ataa bhi karta hai.
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا۟ لِى وَلْيُؤْمِنُوا۟ بِى لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

“Jab mere bande mere baare me aap se sawaal kare (to aap kehde ke) Mai bahut hi qareeb hoon har pukaarne wale ki pukaar ko jab kabhi wo mujhe pukaare qubool kaarta hoon isliye logo ko bhi chaahiye ke wo meri baat maan liya kare (yaani Allah ki farmabardari kare) aur mujh par imaan rakhe, yahi unki bhalaayi ka baayes hai”.

📗(Surah 02 Baqrah : Ayat 186)

Kya ham Shaitan Iblees se bhi zyada Gunahgaar hai?
Log kahte hai ke ham gunahgaar hai Allah hamari kaha sunega isliye ham Awliya ke Wasile se Dua karte hai.

Iska matlab apke Awliya Allah se zyada Raham karne wale hai. Lekin Khud Allah ne kaha ke wo Ar Rahman hai, Al Gafur hai.
Aap Allah se dua nahi mang rahe iska matlab ye hota hai ke aap Allah ko Ar Rahamn nahi samjte ho. Lekin Ye to kufr hai.
Iblees se zyada koi gunahgaar nahi ho sakta lekin usne kisi Farishte ya Adam (Alaihiwassalm) ke wasile ke bagair direct Allah se dua ki thi. Aur Allah uski dua ko qubul bhi kiya tha.

Aaj ke Musalmano se behtar Shaitan ka Aqeeda tha ke usko ye pata tha ke Allah ke alawa koi dusra nahi hai jo uske dua ko qubul kar sake.Usko ye bhi pata tha ke Allah se dua ke liye kisi Wasile ki zarurat nahi hai.

Shaitan ki Allah se Direct Dua is tarah thi.

“(Iblees) kahne laga ke : Aye mere Rab mujhe us din tak ki dheel (mauka) de ke log dubara utha khade kiye jaaye (yani Qayamat tak) ? (Allah ne kaha) ke achha tu un me se hai jinhe muhullat mili hai. Roze muqarrar tak ke waqt ki (yani Qayamat tak)”.

📙(Surah 15 Hijr : Ayat 36,37,38)

Dusri taraf ham sab ke Abbajan Adam aur Ammijan Hawwa (Alaihiwassalam) ne bhi unse Jannat me khata hojaane ke baad jab unko Jannat se nikal diya tha tab unone direct Allah se hi dua ki thi. Aur Allah ne unke tawba ko qubul bhi kiya tha.
Adam aur Hawwa (Alaihiwasslam) ne is tarah Tawba ki thi :

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ
تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ

“Dono ne kaha: Aye hamaare Rab! Hamne apna bada nuqsaan kiya aur agar tu hamaari maghfirat na karega aur hum par rahem na karega to waqayi hum nuqsaan paane waalo me se ho jayenge".
📗(Surah 7 Araaf : Ayat 23)
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
Allahu Aalam Sawab.

Share:

Firqe Ki Sharai Taarif (Part 4) Kuchh Gumrah Firqo Ke Nam

Kuchh GUMRAH FIRQO ke naam

Part 4
1.Khawarij (Aqeeda + Manhaj me gumrahi)
2.Shia (Pure Deen me gumrahi)
3.Sufi (Aqeeda + Manhaj + Tawheed me gumrahi)4.Murjiya (Arkaane Iman me gumrahi)
4.Qadriya (Taqdeer me gumrahi)
5.Jabriya (Taqdeer me gumrahi)
6.Jahmiya (“Tawheed-e-Asma wa Sifaat” me gumrahi)
6.Motezila (“Tawheed-e-Asma wa Sifaat” me gumrahi)
7.Maaturidi (“Tawheed-e-Asma wa Sifaat” me gumrahi)
9.Aashari (“Tawheed-e-Asma wa Sifaat” me gumrahi)
To Be Continued
Share:

Firqe Ki Sharai Taarif (Part 3)

FIRQE ki SHARAI Taarif
Part 3
Abdullah bin Amr (R) farmate hai ke Rasoolullah s ne farmaya
“Meri Ummat 73 Firqo (groups) me bategi, saare ke saare Firqe JAHANNAM me jayenge siwaay 1 FIRQE ke. Sahaba R ne sawaal kiya ke  : Ya Rasolullah! wah kaunsa Firqa hoga (jo jannat me jaayega …?)
Aap s ne farmaya : “Wah Firqa jo uski pairawi karega jiski pairawi aaj Mai aur mere SAHABA  kar rahe hai”.

📙(Tirmizi – 2641, Is Hadees ko “Sahih Timizi” me Al-Albaani  (Rh) ne HASAN kaha hai)
🔎🔎In 2 ayato aur 1 Hadees ke roshni me :
🔹Gumrah Firqa us “giroh” ko kaha jayega jisme niche batayi hui koi 1 ya saari sifatein paayi jaati ho …

1⃣  iska AQEEDA, Nabi aur Sahaba jaisa na ho.

2⃣  Jiska MANHAJ (Tariqekaar), Nabi aur Sahaba jaisa na ho.

🔻In 2 gumrahiya ke natije me aur bhi kai aur gumrahiya paida ho jaati hai. Jaisa ke…
1⃣.Jo Quran wa Sunnat ke hote huye, apni Aqal, Mantiq aur Raay par chalne wala hoga.

2⃣.Jo Quran wa Sunnat se sahih fahem hasil karne me Manhaj-e-Sahaba (Salaf) ko nazar andaaz karega.
Kynke aisa Firqa ya to kisi 1 Khaas Imam ke faham (samaj) ke mutabik pure DEEN ko samajega ya fir DEEN ko samjne ke liye apne aqqal ko paymana banayega.

1⃣.Allah ki ibadat gair-Sunnat Rasool par karne ke wajah se ya to Biddate ijaad karega ya fir Allah ke Tawheed me SHIRK karega.
2⃣.Rasool ki azmat ko na samaj paane se, Nabi ki rahenumaai hote huye kisi Ummati ko apna Rahenuma banayega.
To Be Continued

Share:

Christians (ईसाई) Jahannum Me Jayenge

CHRISTIANS JAHANNAM ME JAYENGE
Abu sa'eed khudri Raziyallahu anhu se riwayat hai ke Allah ke Rasool ne farmaya: (Qiyamat ke din) Nasara (christians) ko bulaya jayega aur un se pucha jayega tum kis ki ibadat karte the, woh kahenge hum Allah ke bete maseeh (Eisa alihissalam ki) ibadat karte the, unhe kaha jayega:tum logo ne jhut kaha Allah ne kisi ko apna shareek aur beta nahi banaya hai,phir un se pucha jayega tum log kya chahte ho, woh kahenge: aye hamare Rab hum pyase ho gye hain, hume pani pila de,,unhe ishare se kaha jayega kya tum dariya se pani nahi piyoge, aur unhe jahannam ki taraf lejaya jayega jo sarab (pani ke river ) ki tarah nazar aa rahi hogi,uska kuch hissa dusre hisse ko kha raha hoga, phir woh jahannam me girne lagenge.

📖 MUSLIM: 302 📚.  SAHEEH HADEES

Share:

Kya NAbi Qaber Me Jinda HAi?

Nabi-E-Akram Sallahu Alaihe Wasallam Qaber Me Jinda Hai

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم :
سوال : اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخروی و برزخی زندگی ہے یا دنیاوی زندگی ہے ؟ ادلئہ اربعہ سے جواب دیں، جزاکم اللہ خیرا [ایک سائل 26ربیع الثانی 1426ھ]
جواب : از شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ :
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد :
اول : اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ دنیا کی زندگی گزار کر فوت ہو گئے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : انك ميت و انهم ميتون ”بے شک تم وفات پانے والے ہو اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔“ [الزمر : 30]
❀ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ألامن كان يعبد محمدا فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قدمات
’’ الخ سن لو ! جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔ [صحيح البخاري : 3668]
↰ اس موقع پر سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل الخ [آل عمران : 144] والی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ ان سے یہ آیت سن کر (تمام) صحابہ کرام نے یہ آیت پڑھنی شروع کر دی۔ [البخاري : 1241، 1242] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ [دیکھئے صحیح البخاری 4454]
↰ معلوم ہوا کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔
❀ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
مات النبى صلى الله عليه وسلم الخ
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے“ [صحيح البخاري : 4446]
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا :
ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة
’’ جو نبی بھی بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے۔“ [صحيح البخاري 4586، صحيح مسلم : 2444]
↰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے بدلے آخرت کو اختیار کر لیا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی زندگی اخروی زندگی ہے جسے بعض علماء برزخی زندگی بھی کہتے ہیں۔
❀ ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كنت أسمع أنه لايموت نبي حتي يخير بين الدنيا والآخرة
’’ میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) سنتی تھی کہ کوئی نبی بھی وفات نہیں پاتا یہاں تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دے دیا جاتا ہے۔“ [البخاري : 4435و مسلم : 2444]
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں کہ :
فجمع الله بين ريقي و ريقه فى آخر يوم من الدنيا و أول يوم من الآخرة
’’ پس اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرے اور آپ کے لعاب دہن کو (مسواک کے ذریعے) جمع (اکٹھا) کر دیا۔ [صحيح البخاري : 4451]
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ :
لقد مات رسول الله صلى الله عليه وسلم الخ
’’ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔“ [صحيح مسلم : 29؍2974و ترقيم دارالسلام : 7453]
↰ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔ ان صحیح و متواتر دلائل سے معلوم ہوا کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فداہ ابی و امی و روحی، فوت ہو گئے ہیں۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نمازکے بارے میں فرماتے تھے کہ :
إن كانت هذه لصلاته حتي فارق الدنيا
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا سے چلے گئے۔ [صحيح البخاري : 803]
❀ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا :
حتي فارق الدنيا ’’ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔“ [صحيح مسلم : 33؍2976و دارالسلام : 7458]
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ :
خرج رسول الله من الدنيا الخ
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔“ [صحيح البخاري : 5414]
↰ ان ادلہ قطعیہ کے مقابلے میں :
◈ فرقہ دیوبندیہ کے بانی محمد قاسم نانوتوی (متوفی 1297ھ) لکھتے ہیں کہ :
”ارواح انبیاء کرام علیہم السلام کا اخراج نہیں ہوتا فقط مثل نور چراغ اطراف و جوانب سے قبض کر لیتے ہیں یعنی سمیٹ لیتے ہیں اور سوا ان کے اور وں کی ارواح کو خارج کر دیتے ہیں۔۔۔“ [جمال قاسمي ص 15]
تنبیہ : میر محمد کتب خانہ باغ کراچی کے مطبوعہ رسالے ”جمال قاسمی“ میں غلطی سے ”ارواح“ کی بجائے ”ازواج“ چھپ گیا ہے۔ اس غلطی کی اصلاح کے لئے دیکھئے سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب ”تسکین الصدور“ [ص 216] محمد حسین نیلوی مماتی دیوبندی کی کتاب ”ندائے حق“ [ج 1ص572 و ص 635]
نانوتوی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ :
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اس میں انقطاع یا تبدل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ہو جانا واقع نہیں ہوا۔“ [آب حيات ص 27]
”انبیاء بدستور زندہ ہیں۔۔“ [آب حيات ص 36]
↰ نانوتوی صاحب کے اس خود ساختہ نظریے کے بارے میں :
◈ نیلوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں کہ :
”لیکن سیدنا نانوتوی کا یہ نظریہ صریح خلاف ہے اس حدیث کے جو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں نقل فرمایا ہے۔۔“ [ندائے حق جلد اول ص636]
◈ نیلوی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ :
”مگر انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں مولانا نانوتوی قرآن و حدیث کی نصوص و اشارات کے خلاف جمال قاسمی ص 15 میں فرماتے ہیں : ارواح انبیاء کرام علیہم السلام کا اخراج نہیں ہوتا۔“ [ندائے حق جلد اول ص 721]
لطیفہ : نانوتوی صاحب کی عبارات مذکورہ پر تبصرہ کرتے ہوئے :
محمد عباس بریلوی لکھتا ہے کہ : ”اور اس کے برعکس امام اہل سنت مجدد دین و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خان صاحب وفات (آنی) ماننے کے باوجود قابل گردن زنی ہیں۔“ [والله آپ زندي هيں ص 124]
↰ یعنی بقول رضوی بریلوی، احمد رضا خان بریلوی کا وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ عقیدہ نہیں جو محمد قاسم نانوتوی کا ہے۔
دوئم : اس میں کوئی شک نہیں کہ وفات کے بعد، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں زندہ ہیں۔
❀ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں آیا ہے کہ فرشتوں (جبریل و میکائیل علیہما السلام) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
إنه بقي لك عمر لم تستكمله، فلو استكملت أتيت منزلك
’’ بے شک آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے (ابھی تک) پورا نہیں کیا۔ جب آپ یہ عمر پوری کر لیں گے تو اپنے (جنتی) محل میں آ جائیں گے۔ [صحيح البخاري1؍185ح1386]
↰ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی عمر گزار کر جنت میں اپنے محل میں پہنچ گئے ہیں۔
❀ شہداء کرام کے بارے میں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
أرواحهم فى جوف طير خضر، لها قناديل معلقه بالعرش، تسرح من الجنة حيث شاءت، ثم تأوي إلى تلك القناديل
’’ ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں، ان کے لئے عرش کے نیچے قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ (روحیں) جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں پھر واپس ان قندیلوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ [صحيح مسلم : 121؍1887ودار السلام : 4885]
↰ جب شہداء کرام کی روحیں جنت میں ہیں تو انبیاء کرام ان سے بدرجہ ہا اعلیٰ جنت کے اعلیٰ و افضل ترین مقامات و محلات میں ہیں شہداء کی یہ حیات جنتی، اخروی و برزخی ہے، اسی طرح انبیاء کرام کی یہ حیات جنتی، اخروی و برزخی ہے۔
◈ حافظ ذہبی (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں کہ :
وهو حي فى لحده حياة مثله فى البرزخ
’’ اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی قبر میں برزخی طور پر زندہ ہیں۔“ [سير اعلام النبلاء9/161]
◈ پھر آگے وہ یہ فلسفہ لکھتے ہیں کہ یہ زندگی نہ تو ہر لحاظ سے دنیاوی ہے اور نہ ہر لحاظ سے جنتی ہے بلکہ اصحاب کہف کی زندگی سے مشابہ ہے۔ [ايضا ص161]
↰ حالانکہ اصحاب کہف دنیاوی زندہ تھے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہ اعتراف حافظ ذہبی وفات آ چکی ہے لہذا صحیح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر لحاظ سے جنتی زندگی ہے۔ یاد رہے کہ حافظ ذہبی بصراحت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دنیاوی زندگی کے عقیدے کے مخالف ہیں۔
◈ حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں :
لأنه بعد موته و إن كان حيا فهي حياة اخروية لا تشبه الحياة الدنيا، والله اعلم
’’ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد اگرچہ زندہ ہیں لیکن یہ اخروی زندگی ہے دنیاوی زندگی کے مشابہ نہیں ہے، واللہ اعلم“ [فتح الباري ج7ص349تحت ح4042]
↰ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اخروی و برزخی ہے، دنیاوی نہیں ہے۔
اس کے برعکس :
علمائے دیوبند کا یہ عقیدہ ہے کہ :
وحيوته صلى الله عليه وسلم دنيوية من غير تكليف وهى مختصة به صلى الله عليه وسلم وبجميع الأنبياء صلو ات الله عليهم والشهداء لابرزخية۔۔۔
”ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک سیدنا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلا مکلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت اور تمام ا نبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ برزخی نہیں ہے جو تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو۔۔۔“ [المهند على المفند فى عقائد ديوبند ص 221پانچواں سوال : جواب]
محمد قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اس میں انقطاع یا تبدیل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ہو جانا واقع نہیں ہوا۔ [آب حيات ص 67، اور يهي مضمون]
دیوبندیوں کا یہ عقیدہ سابقہ نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
◈ سعودی عرب کے جلیل القدر شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں کہ :
الذى يقول : إن حياته فى البرزخ مثل حياته فى الدنيا كاذب وهذه مقالة الخرافيين
’’ جو شخص یہ کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی زندگی دنیا کی طرح ہے وہ شخص جھوٹا ہے۔ یہ من گھڑت باتیں کرنے والوں کا کلام ہے۔“ [التعليق المختصر على القصيد ة النونيه، ج 2ص684]
◈ حافظ ابن قیم نے بھی ایسے لوگوں کی تردید کی ہے جو برزخی حیات کے بجائے دنیاوی حیات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ [النونيه، فصل فى الكلام فى حياة الأنبياء فى قبور هم2؍154، 155]
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ (برزخی) ردا رواح کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں کہ :
فهم أحياء عند ربهم كالشهداء
’’ پس وہ (انبیاء علیہم السلام) اپنے رب کے پاس، شہداء کی طرح زندہ ہیں۔ [رساله : حيات الأنبياء للبيهقي ص 20]
↰ یہ عام صحیح العقیدہ آدمی کو بھی معلوم ہے کہ شہداء کی زندگی اخروی و برزخی ہے، دنیاوی نہیں ہے۔ عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حیاتی و مماتی دیوبندیوں کی طرف سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں مثلا مقام حیات، آب حیات، حیات انبیاکرام، ندائے حق اور اقامۃ البرھان علی ابطال و ساوس ھدایۃ لحیران، وغیرہ.اس سلسلے میں بہترین کتاب مشہور اہلحدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ”مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ ہے جو یہاں یونیکوڈ میں موجود ہے۔
سوئم : بعض لوگ کہتے ہیں کہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اپنی قبر مبارک پر لوگوں کا پڑھا ہوا درود بنفس نفیس سنتے ہیں اور بطور دلیل من صلى على عند قبري سمعته والی روایت پیش کرتے ہیں۔
عرض ہے کہ یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔ اس کی دو سندیں بیان کی جاتی ہیں۔
① محمد بن مروان السدي عن الأعمش عن أبى صالح عن أبى هريرة۔۔۔ إلخ [الضعفاء للعقيلي 4؍136، 137 وقال : لا اصل له من حديث اعمش و ليس بمحفوظ الخ و تاريخ3؍292ت377 و كتاب الموضوعات لا بن الجوزي 1؍303 وقال : هذا حديث لا يصح الخ]
↰ اس کا راوی محمد بن مروان السدی : متروک الحدیث (یعنی سخت مجروح) ہے۔ [كتاب الضعفاء للنسائي : 538]
اس پر شدید جروح کے لئے دیکھئے امام بخاری کی کتاب الضعفاء [350] مع تحقیقی : تحفۃ الاقویاء [ص102] و کتب اسماء الرجال۔
② حافظ ابن القیم نے اس روایت کی ایک اور سند بھی دریافت کر لی ہے۔
عبدالرحمن بن احمد الاعرج : حدثنا الحسن بن الصباح : حد ثنا ابومعاوية : حد ثنا الاعمش عن ابي صالح عن ابي هريره ’’ الخ [جلاء الافھام ص 54بحوالہ کتاب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی الشیخ الاصبہانی]
↰ اس کا راوی عبدالرحمن بن احمد الاعرج غیر موثق (یعنی مجہول الحال) ہے۔
سلیمان بن مہران الاعمش مدلس ہیں۔ [طبقات المدلسين : 55؍2والتلخيص الحبير 3؍48ح1181و صحيح ابن حبان، الاحسان طبعه جديده 1؍161و عام كتب اسماء الرجال]
اگر کوئی کہے کہ :
حافظ ذہبی نے یہ لکھا ہے کہ اعمش کی ابوصالح سے معنعن روایت سماع پر محمول ہے۔ [دیکھئے میزان الاعتدال 2؍224]
↰ تو عرض ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے۔
امام احمد نے اعمش کی ابوصالح سے (معنعن) روایت پر جرح کی ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی [207بتحقیقی]
↰ اس مسئلے میں ہمارے شیخ ابوالقاسم محب اللہ شاہ الراشدی رحمہ اللہ کو بھی وہم ہوا تھا۔ صحیح یہی ہے کہ اعمش طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں اور غیر صحیحین میں ان کی معنعن روایات، عدم تصریح و عدم متابعت کی صورت میں، ضعیف ہیں، لہذا ابوالشیخ والی یہ سند بھی ضعیف و مردود ہے۔
↰ یہ روایت من صلى على عند قبري سمعته اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ :
إن لله فى الارض ملائكة سياحين يبلغوني من أمتي السلام
’’ بےشک زمین میں اللہ کے فرشتے سیر کرتے رہتے ہیں۔ وہ مجھے میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔ [كتاب فضل الصلوة على النبى صلى الله عليه وسلم للإمام إسماعيل بن إسحاق القاضي : 21 و سنده صحيح، والنسائي 3؍43ح 1283، الثوري صرح بالسماع]
↰ اس حدیث کو ابن حبان [موارد : 2392] و ابن القیم [جلاء الافہام ص 60] وغیرہما نے صحیح قرار دیا ہے۔
خلاصۃ التحقیق : اس ساری تحقیق کا یہ خلاصہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں، وفات کے بعد آپ جنت میں زندہ ہیں۔ آپ کی یہ زندگی اخروی ہے جسے برزخی زندگی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے۔ وما علينا إلا البلاغ
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
الشیخ حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Kya Kisi Shakhs Ke Dar Se MAsjid Me Nahi Jakar Ghar Pe NAmaj Padh Sakte HAi?

Kya Kisi Shakhs Ke Dar Se MAsjid Me Nahi Jakar Ghar Pe NAmaj Padh Sakte HAi?

بہنا میرا سوال ہے محلے کی مسجد میرے گھر کے بہت نزدیک ہے مگر ایک بندا زاتی دشمنی کے تحت مجھے مسجد میں نماز پڑھنے نہیں دیتا کیا میری نماز گھر میں ہوگی جواب فرمادیں جزاک اللہ خیرا
__________________________۔
پنجگانہ نمازیں مسجد میں با جماعت پڑھنا واجب ہے۔ ایک عقلمند مرد کے لئے مسجد میں باجماعت نماز چهوڑنے کے عذروں میں سے یہ ہے کہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسجد تک جانا دشوار ہے، یا کہ کسی کو اپنی جان پر خطرہ ہے کہ اگر وہ مسجد میں نماز پڑهنا جائے گا تو کوئی اس کو راستے میں یا مسجد میں قتل کردے گا، یا اس کو پکڑے گا اور ظلم وزبردستی اس کو جیل میں ڈالے گا، یا کہ ایسا مریض شخص کی عیادت کرے اگر وہ اس مریض کو چهوڑ کر نماز باجماعت ادا کرنے نکلے گا تو یہ مریض ہلاک ہو جائے گا یا اس کو مزید زخم پہنچے گا
اسی طرح کیچڑ یا بارش وغیرہ کے خوف کے پیش نظر سواری پر کهڑے یا چلتے ہوئے نماز پڑهنا درست ہے؛ اس لئے کہ حضرت یعلی بن مرۃ رضی الله عنه نے فرمایا کہ:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تنگ وادی تک پہنچے تو آپ اپنی سواری پر تھے، آسمان ان کے اوپر اور ان کے پاؤں کے نیچے گیلی زمین تھی اور نماز کا وقت ہوگیا، آپ نے مؤذن کو اذان کا حکم دیا اس نے اذان دی اور اقامت کہی تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے اور نماز پڑھائی؛ یعنی اشارے کے ساتھـ، سجدے رکوع سے ذرا جھک کر کرتے تھے-
مسند أحمد 4 / 174، سنن ترمذي 2 / 266-267 حدیث نمبر (411)، اوردارقطني 1 / 380-381.
اس حدیث کو امام احمد، اور ترمذی نے روايت كيا ہے، اور انہوں نے کہا ہے کہ: اہل علم کے پاس اس پر عمل ہے ۔
اسی طرح اگر سواری سے اترنے پر اپنے ساتهیوں سے چهوڑنے کا خوف ہے، یا دشمن سے اپنی جان پر خوف ہوتا ہے، یا سواری سے اترنے کے بعد چڑهنے ميں مشکل ہے تووه سواری پر فرض نماز ادا کرنا درست ہے، اور حتی المقدور قبلہ كا رخ استقبال ہونے کی کوشش کرے، رکوع اور سجدہ کرے، اور سجدے میں رکوع سے زیادہ جهکے،
جیساکہ حدیث كے لئے ذكر كيا ہے، اور اس لئے کہ اللہ تعالى کےعموم قول ہے:
ﭘﺲ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻚ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﻮﺳﻜﮯ ﺍس ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨو
لہٰذا درج بالا رعایات کے تناظر میں اگر آپکو اپنی جان کا خطرہ ہے کہ آپ کو راستے میں قتل کر دیا جائے گا ، یا مسجد میں آپکی جان جانے کا ڈر آپکو ہمہ گیر ہے تو آپ پہلے اسکے بچاو کے ہر ممکنہ راستے اختیار کیجیے ۔ مثلاً
➖ آپ اپنے اور فریق کی جانب سے باشعور اور غیر جانبدار منصف مزاج لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھیے اور ان سب کو باجماعت نماز کی اہمیت بتائیے کیونکہ حاضر و موجود شخص وہ سب کچھـ دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھـ سکتا ہے۔ نیز انہیں بتائیے کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں جہاں صرف اسی کی عبادت کی جاتی ہے اقامتِ نماز اور تلاوتِ قرآن، ذکرو اذکار، دعا التجا کے لئے اور وہاں فضول باتیں شور و غل، لہو و لعب کرنا حرام ہے ۔ اور یہ کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے عبادت گاہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ کے وہ گھر ہیں جہاں اس کی عبادت سے کسی مسلمان کو روکنا ظلم ہے اس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ومن اظلم ممن منع مسجداللہ ان یذکرفیھا اسمہ وسعی فی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدخلوھا الاخائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃعذاب عظیم(البقرہ ۲:۱۱۴)
اس شخص سے بڑھ کر ظالم کو ن ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کو شش کرے ، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہئے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب ہے
سابقہ امم میں بھی ایسے ظالم لوگ گزرے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے گھروں میں اس کی عبادت کرنے سے روکا کرتے تھے خود مکہ کے کفار و مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو کعبۃ اللہ مسجد حرام سے اللہ کی عبادت کرنے سے روکتے تھے تو انہیں سب سے بڑا ظالم کہا گیا ہے۔
لہٰذا آپ لوگ فریق کو سمجھائیے اور ایسا راستہ نکالیے جو مجھے مسجد جانے میں سنسان اور تاریکی میں بھی اس شخص کے شر سے امان کا احساس دے سکے ۔
والله ولي التوفيق
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Share:

​​​​​​​​​​​​​​​​​​​Aazab-E-Qaber KA Tazkera Quran MAjeed Me.

​​​​​​​​​​​​​​​​​​​Aazab-E-Qaber KA Tazkera Quran MAjeed Me

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 عذاب القبر کا تذکرہ قرآن مجید میں
قرآن میں عذاب قبر سے متعلق روایات کی تصدیق موجود ہے
⚪ (۱) اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ ٰاٰیتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ (الانعام:۹۳)
’’کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جبکہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائیگا جو تم اللہ پر تہمت لگا کر ناحق بکا کرتے تھے اور اسکی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔
موت کے بعد سے قیامت کے دن تک جو عذاب اللہ کے نافرمان بندوں کو دیا جائے گا اسی کا نام عذاب القبر ہے۔ مرنے کے بعد میت کو عموماً زمین میں ہی گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا ہے اور پھر قیامت کے قائم ہونے تک نافرمانوں کو قبر کے اندر عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لہٰذا اسی مناسبت سے اس عذاب کو عذاب القبر کا نام دیا گیا ہے۔
حالانکہ عذاب کا یہ سلسلہ حالت نزع ہی سے جب کہ میت ابھی چارپائی پر ہوتی ہے شروع ہو جاتا ہے اور فرشتے اس کے چہرے اور پیٹھ پر ضربیں لگانی شروع کر دیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ اس عذاب کا کوئی حصہ دنیا والوں پر ظاہر کر دیتا تو پھر چارپائی نظر آتی اور نہ ہی اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ دکھائی دیتے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس عذاب کا تعلق غیب کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ زندہ انسانوں کے سامنے ابھی اسے ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا عموم بلوہ کی وجہ سے اس عذاب کا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر رکھا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص ہسپتال میں لوگوں کا علاج کرتا ہے تو لوگ اسے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اب یہی شخص نماز پڑھے تو لوگ کہتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر صاحب نماز پڑھ رہے ہیں‘‘ حالانکہ نماز پڑھتے ہوئے یہ شخص ڈاکٹری کا کوئی کام نہیں کر رہا ہوتا۔ اب تو اسے نمازی صاحب کہنا زیادہ مناسب تھا لیکن اس شخص کو کوئی عمل کرتے ہوئے کوئی شخص بھی دیکھے گا تو وہ بے ساختہ یہی کہے گا کہ ڈاکٹر صاحب فلاں کام کر رہے ہیں۔ اس مثال سے واضح ہوا کہ اس شخص کا نام ’’ڈاکٹر‘‘ عموم بلوہ کی وجہ سے پڑ گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین کرام s نے بھی یہ اور اس طرح کی دیگر آیات کو عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ عذاب قبر کا باب یوں قائم کرتے ہیں:
باب ما جاء فی عذاب القبر و قولہ تعالیٰ …… وہ (آیات و احادیث) جو عذاب قبر کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اسی آیت کو عذاب قبر کے سلسلہ میں بیان کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا خاص طور پر ذکر ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ موصوف کا دعویٰ ہے کہ وہ امام بخاری و امام ابوحنیفہ کے ساتھ ہیں جبکہ دلائل سے ثابت ہو گا کہ موصوف امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کیا کسی بھی محدث کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ موجودہ دور میں انہوں نے باطل فرقوں کے بوسیدہ دلائل میں پھر سے جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
⚪ (۲) دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ (الانفال:۵۰)
’’کاش تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے کافروں کی روحیں قبض کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کے چہروں اور ان کے کولہوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’’لو اب جلنے کی سزا بھگو‘‘۔
⚪ (۳) اسی طرح کا مضمون سورۃ محمد میں بھی ہے:
فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ (محمد:۲۷)
’’پھر اس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے‘‘۔
⚪ (۴) ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْآ ٰالَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (المؤمن:۴۵، ۴۶)
’’اور آل فرعون خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے جہنم کی آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت قائم ہو جائے گی تو حکم ہو گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کر دو‘‘۔
⚪ (۵) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے۔ فرعون جس کی لاش اللہ تعالیٰ نے عبرت کے لئے محفوظ فرما دی ہے:
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ ٰاٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ (یونس:۹۲)
’’پس آج ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لئے نشانی بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو عبرت کے لئے محفوظ فرما دیا جیسا کہ مرتد کاتب وحی جسے زمین نے اپنے اندر جگہ نہیں دی اور دفن کے بعد زمین نے اسے باہر اُگل دیا تھا (صحیح بخاری)۔
اب اگرچہ ان لاشوں پر عذاب کے کوئی اثرات ہمیں نظر نہیں آتے جیسا کہ قبض روح کے وقت مرنے والے پر عذاب یا پٹائی کا کوئی اثر ہم نہیں دیکھتے اور عذاب قبر کی واضح احادیث جن میں دفن کے بعد میت کے مبتلائے عذاب ہونے کا ذکر موجود ہے (اور جن کا بیان تفصیل سے عنقریب کیا جائے گا ان شاء اللہ العزیز) لیکن ان تمام معاملات کا تعلق پردہ غیب سے ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ اس آیت میں آل فرعون صبح و شام جس آگ پر پیش کئے جا رہے ہیں وہی عذاب قبر ہے جس میں اجسام (میتوں) کو آگ پر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ روحیں اول دن سے جہنم میں داخل ہو کر سزا بھگت رہی ہیں۔ اور قیامت کے دن وہ جس اشد العذاب میں داخل ہوں گے اس سے جہنم کا عذاب مراد ہے جس میں وہ روح و جسم دنوں کے ساتھ داخل ہوں گے۔ کیونکہ قیامت کے دن عذاب قبر ختم ہو جائے گا اور صرف عذاب جہنم باقی رہ جائے گا۔
سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ (التوبۃ:۱۰۱)
عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے، پھر انہیں بڑے عذاب کے لئے (جہنم کی طرف) لوٹایا جائے گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے اس آیت میں دوہرے عذاب سے دنیا اور پھر قبر کا عذاب مراد ہے۔ اور عذاب عظیم سے قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے۔
⚪ (۶) قوم نوح کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مِمَّا خَطِیْئٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا
’’اپنے گناہوں کے سبب سے وہ غرق کر دیئے گئے پھر (جہنم کی) آگ میں داخل کر دیئے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا انہوں نے اپنے لئے کوئی بھی مددگار نہ پایا‘‘۔ (نوح:۲۵)
اس آیت سے واضح ہوا کہ قوم نوح غرق ہوتے ہی جہنم کی آگ میں داخل ہو گئی اور عذاب کا سلسلہ ان پر جاری ہو گیا۔
⚪ (۷) سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں نے ان پیغمبروں کی بات نہ مانی اور کفر پر مر گئیں۔ چنانچہ موت کے وقت ان سے کہا گیا: وَ قِیْلَ ادْخُلِ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ
اور ان سے کہا گیا کہ تم دونوں جہنم میں داخل ہو جاؤ داخل ہونے والوں کے ساتھ (التحریم:۱۰)
⚪ (۸) اہل السنۃ والجماعۃ کا عذاب قبر کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ عذاب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد روح جنت یا جہنم میں داخل کر دی جاتی ہے جبکہ جسم اپنی قبر میں عذاب یا ثواب سے ہمکنار ہوتا رہتا ہے اور یہی عقیدہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اس لئے کہ اگر روح جسم میں واپس آجائے تو پھر یہ عذاب مردہ کو نہیں بلکہ زندہ کو ہوا جبکہ احادیث صحیحہ وضاحت کرتی ہیں کہ عذاب قبر میت (مردہ) کو ہوتا ہے۔ البتہ سوال و جواب کے لئے میت کی طرف روح کو کچھ دیر کے لئے لوٹایا جاتا ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور روح کے لوٹ جانے کی وہ کیفیت نہیں ہوتی جو دنیا میں تھی بلکہ یہ اعادہ دنیا کے اعادہ کی طرح نہیں ہوتا جیسا کہ عقیدہ طحاویہ کے شارح نے ذکر فرمایا ہے۔
سورۃ نوح کی آیت ۲۵ سے معلوم ہوا کہ پانی میں جسم غرق ہوئے اور جہنم میں جسموں کو نہیں بلکہ ان کی روحوں کو داخل کیا گیا۔ البتہ جسم بھی روح کے ساتھ عذاب میں شریک ہیں۔ جیسا کہ عذاب قبر کی احادیث سے یہ مسئلہ واضح ہے اور ہمارے لئے عذاب کے ان اثرات کو دیکھنا اور محسوس کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ غیب کا معاملہ ہے جسے حواس محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔
راحت قبر کے متعلق بھی چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:۲۷۔۳۰)۔
’’اے نفس مطمئن: چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔
احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ میت سے اس طرح کا خطاب موت کے وقت کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: (مسند احمد (۲/۳۶۴)، سنن النسائی کتاب الجنائز:۱۸۳۳، صحیح ابن حبان رقم ۳۰۰۳، مستدرک لامام حاکم (۱/۳۵۲، ۳۵۳)،
⚪ (۹) سورۃ یٰسین میں ایک مرد مؤمن کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس نے پیغمبروں کی حمایت کی اور اپنی قوم کے سامنے اپنے ایمان کا برملا اظہار کیا اور جس کی پاداش میں اسے شہید کر دیا گیا۔ آگے ارشاد ہوتا ہے:
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ ٰیلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ (یٰسین:۲۷۔۲۸)
’’اُس شخص سے کہا گیا کہ ’’جنت میں داخل ہو جاؤ‘‘ اس نے کہا کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے باعزت لوگوں میں کر دیا‘‘ ۔
⚪ (۱۰) الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (سورئہ النحل:۳۲)
وہ پاک (صالح) لوگ کہ جن کی روحیں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں سلام علیکم (تم پر سلام ہو) تم جو عمل کرتے رہے ہو ان کے بدلے میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قبض ارواح کے بعد ہی ارواح کو جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ تلک عشرۃ کاملہ۔
قرآن کریم کی ان آیات کو سلف صالحین نے ثواب و عذاب قبر کے سلسلہ میں پیش فرمایا ہے۔
🌏 عذاب القبر کا ذکر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں
عذاب قبر کی واضح اور مکمل تفصیلات احادیث صحیحہ میں بیان کی گئی ہیں۔
عذاب قبر کے سلسلہ میں بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں سے ہم صرف چند ہی احادیث کا یہاں ذکر کرتے ہیں ۔
⚪1 پہلی حدیث: سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت:
یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔ (ابراہیم:۲۷)۔
کے متعلق فرمایا کہ
یہ آیت عذاب القبر کے بارے میں نازل ہوئی۔ (قبر میں میت سے) کہا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔
(صحیح مسلم کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و اھلھا باب عرض المقعد علی المیت و عذاب القبر نیز ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب اثبات عذاب القبر)۔
صحیح بخاری میں جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب مومن کو اس کی قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں پھر وہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے
پس یہی مطلب ہے آیت: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِکا۔ (بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ مسلم سے جب قبر میں سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دیتا ہے اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ
’’اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھتا ہے اہل ایمان کو قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔
(بخاری کتاب التفسیر باب: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ۴۶۹۹)
اس حدیث سے واضح ہوا کہ عذاب القبر کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے اور سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ۲۷ عذاب القبر ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور قبر میں میت کو اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے (جیسا کہ صحیح بخاری کی اسی حدیث میں یہ بات موجود ہے) اور اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ قبر کاسوال و جواب حق ہے اور اہل اسلام میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ تمام اہل ایمان قبر کے سوال و جواب پر ایمان رکھتے ہیں۔ سوال و جواب کے وقت روح کو بھی قبر کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ اور قبر کے مسئلے کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے اس لئے اسے دنیا کی زندگی پر قیاس کرنا گمراہی اور جہالت ہے کیونکہ میت کی دنیاوی زندگی ختم ہو چکی ہے اوراب وہ آخرت کے مراحل سے گذر رہی ہے۔
منکرین عذاب القبر احادیث کے انکار میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ وہ حدیث پر تنقید کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بھی ارتکاب کر جاتے ہیں اور یہ تک نہیں سمجھتے کہ ان کے قلم نے کیا لکھ مارا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر عثمانی صاحب کا ایک انتہائی اندھا مقلد اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاہے:
’’اسی طرح یہ فرقہ پرست اور قبر پرست قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے ارضی قبر کی زندگی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں … اللہ تعالیٰ ایمان داروں کو دنیا میں بھی ثابت قدم رکھے گا اور آخرت میں بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ایمانداروں کی مدد کرے گا۔ چونکہ اس آیت کا ذکر بخاری کی حدیث میں عذاب القبر کے ساتھ کیا گیا ہے اس لئے بعض جاہل اور گمراہ بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے عقیدے (مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے) (حالانکہ کسی کا بھی یہ عقیدہ نہیں ۔ ابوجابر) کا ثبوت قرآن کی یہ آیت ہے‘‘۔ (دعوت قرآن اور یہ فرقہ پرستی ص۶۷)
یہ ہے ابوانور گدون کی ’’دعوت قرآن‘‘ اور ان کا ’’ایمان خالص‘‘۔ اس آیت کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ اس کا تعلق عذاب القبر کے ساتھ ہے لیکن موصوف نے فتویٰ لگایا ہے ’’فرقہ پرست‘‘ ’’قبر پرست‘‘ ’’جاہل‘‘ ’’گمراہ‘‘ ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر توہین کرنے والا کبھی مومن نہیں ہو سکتا اور ایسے شخص کی موت کفر کے علاوہ کسی اور چیز پر نہیں ہو سکتی۔ اور شیطان رُشدی جیسے لوگوں کا انجام اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ و ذالک جزاء الظالمین۔ تفصیل کے لئے ہماری کتاب ’’دعوت قرآن کے نام سے قرآن و حدیث سے انحراف‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
⚪ (2)۔ دوسری حدیث: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں اور وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبز و شادابی سے بھر دیا جاتا ہے۔ پھر سیدنا قتادہ رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف پلٹے یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بقیہ حدیث بیان کی۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: اور منافق یا کافر سے کہا جاتا ہے کہ تو اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ میں وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے۔ پس اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ قرآن پڑھا (اور اس سے رہنمائی حاصل کی) یہ کہہ کر اُسے لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں‘‘۔
(صحیح بخاری کتاب الجنائز۔ باب ما جاء فی عذاب القبر۔ صحیح مسلم کتاب الجنۃ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا قول صحیح مسلم میں ہے)۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اسے قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور اس سے سوال و جواب ہوتاہے۔ مومن کو قبر میں راحت و آرام ملتا ہے جبکہ منافق و کافر کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ اس حدیث میںیہ بھی ہے کہ میت دفن کر کے واپس جانے والے ساتھیوں کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ میت یہ جان لے کہ جس اہل و عیال کے لئے اس نے آخرت کو فراموش کر رکھا تھا آج وہ اسے تنہا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور قبر میں ایمان اور نیک اعمال کے سوا کوئی چیز اسے نجات نہیں دلا سکتی۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس حصہ کوخلاف قرآن قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ حدیث خلاف قرآن نہیں بلکہ ایک استثنائی صورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے مردار کی مثال پچھلے اوراق میں بیان کی تھی۔ نیز قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ ’’آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ یعنی مردوں کو سنانا آپ کے اختیار میں نہیں ہے لیکن جوتوں کی چاپ مردوں کو اللہ تعالیٰ سناتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
ان اللّٰہ یسمع من یشآء
بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا دے۔
گویا اللہ تعالیٰ اگر کسی مردے کو کچھ سنانا چاہے تو وہ اس بات پر قادر ہے جیسا کہ وہ مردوں کو دفن کے بعد جوتوں کی آواز سناتا ہے لہٰذا اس حدیث پر منکرین کا اعتراض سرے سے غلط ہے۔ میت کے جوتیوں کی آواز سننے کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے اور یہ صحیح ترین احادیث ہیں لہٰذا ان احادیث کا انکار گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔
عثمانی فرقہ کے بانی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے بھی اس حدیث کو صحیح مانا ہے لیکن اس کی تاویل کی ہے۔ اس کا پہلے یہ کہنا تھا کہ اس حدیث میں حقیقت نہیں بلکہ مجاز بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جوتیوں کی آواز سنی جا سکتی ہے کہ میت کے پاس فرشتے آجاتے ہیں اور یہ تأویل اس نے بعض دیوبندی علماء کی کتابوں سے اخذ کی ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اس حدیث کی دوسری تأویل یہ پیش کی کہ میت فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتی ہے۔ لیکن (اول) تو اس حدیث کا سیاق و سباق ہی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ (دوم) اس کے بعد والی صحیح بخاری کی حدیث اس حدیث کی مزید وضاحت و تشریح بیان کرتی ہے۔ اور (سوم) صحیح مسلم کی مختصر حدیث اس بات کی تأویل کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان المیت اذا وضع فی قبرہ انہ لیسمع خفق نعالھم اذا انصرفوا
’’بے شک جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے جبکہ وہ (اسے دفنا کر) واپس لوٹتے ہیں‘‘۔
(صحیح مسلم کتاب الجنتہ)۔
اس حدیث میں فرشتوں کے آنے کا ذکر ہی نہیں ہے اور صرف دفن کر کے واپس لوٹنے والوں کا ذکر ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے وہ باطل مفروضہ پاش پاش ہو جاتا ہے مگر افسوس کہ جو لوگ قرآن و حدیث کے بجائے ڈاکٹر موصوف پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ ڈاکٹر موصوف کی اس باطل تأویل کو درست مانتے ہیں اور صحیح حدیث کو رَدّ کر دیتے ہیں۔ قل بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کنتم مومنین۔
⏪قبر کا حقیقی مفہوم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
قرآن کریم کی طرح احادیث میں بھی قبر کا لفظ اسی ارضی قبر کے لئے استعمال کیا گیا ہے اگر ہم صرف صحاح ستہ ہی کی احادیث نقل کریں تو مضمون کافی طویل ہو جائے گا لہٰذا ہم عثمانی صاحب کی کتاب ’’یہ قبریں یہ آستانے‘‘ ہی سے چند احادیث نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں
⚪ (3)۔ تیسری حدیث:عن جندب رضی اللہ عنہ قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول الا وان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیائھم و صالحیھم مساجد الا فلا تتخذوا القبور مساجد انی انھاکم عن ذالک (مشکوۃ ص:۶۹ (رواہ مسلم)
جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں، انہوں نے اپنے انبیاء اور اپنے اولیاء کی قبروں کو عبادت گاہ اور سجدہ گاہ بنایا تھا۔ سنو! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں اس فعل سے تم کو منع کرتا ہوں۔
⚪ (4)۔ چوتھی حدیث:عن جابر رضی اللہ عنہ قال نھی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یجصص القبر و ان یبنی علیہ وان یقعد علیہ (رواہ مسلم۔ مشکوۃ ص:۱۴۸)
جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے سے منع فرمایا اور اس سے بھی کہ قبر کے اوپر کوئی عمارت بنائی جائے یا قبر پر بیٹھا جائے۔ (مسلم)۔
⚪ (5)۔ پانچویں حدیث: عن ثمامۃ بن شفی قال کنا مع فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ بارض روم برودس فتوفی صاحب لنا فامر فضالۃ بقبرہ فسوی ثم قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یامر بتسویتھا (مسلم)
ثمامہ بن شفی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ ارضِ روم کے جزیرہ رودس میں تھے کہ ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہو گیا۔ فضالہ رضی اللہ عنہ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم ان کی قبر کو برابر کر دیں پھر فرمایا کہ میں نے نبی کو ایسا ہی حکم دیتے ہوئے سنا ہے۔ (مسلم جلد ص۳۵ مصری)۔
⚪ (6)۔ چھٹی حدیث: عن ابی الھیاج الاسدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ (رواہ مسلم)
ابو الہیاج اسدی روایت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ اے ابو الہیاج کیا میں تم کو اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا اور وہ کام یہ ہے کہ جاؤ اور جو تصویر تم کو نظر آئے اس کو مٹا دو اور جو قبر اونچی ملے اسے برابر کر دو۔ (مشکوۃ ص ۱۴۸، مسلم)۔
(بحوالہ یہ قبریں آستانے ص۲، ۵،۶)
ان احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ قبروں سے مراد یہی ارضی قبریں ہیں اور کتاب کا نام ’’یہ قبریں یہ آستانے‘‘ بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ’’یہ قبریں‘‘ میں یہ اسم اشارہ قریب کے لئے ہے جو انہیں ارضی قبروں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ موصوف نے یہ کتابچہ بھی قبر پرستی کے خلاف ہی لکھا ہے۔ عوام انہی قبروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں اور وہاں جا جا کر نذر ونیاز اور چڑھاوتے چڑھاتے ہیں، کوئی شخص بھی کسی برزخی قبر پر یہ سب کچھ کرنے کے لئے نہیں جاتا۔
Share:

Aazab-E-Qaber Haque Hai (Part 2)

Aazab_E_Qaber HAque HAi  (Part 2)

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُهعذاب ِقبر حق ہے ┈┈┈• پارٹ2  
 Aazab-E-Qaber Haque Hai (Part 1)
”ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ کا یہ نظریہ کہ قبر میں صرف روح کو سوال ہو گا، درست نہیں۔ ان کا نظریہ تو اور بھی برا ہے، جو کہتے ہیں کہ عذاب صرف جسم کو ہو گا روح کو نہیں۔ احادیث صحیحہ سے دونوں نظریات کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذاب قبر روح اور بدن دونوں کو ہو گا، جزا و سزا روح کو الگ سے بھی ملے گی اور جب بدن کے ساتھ ہو گی تب بھی۔ یاد رکھئے ! کہ عذاب قبر ہی عذاب برزخ ہے، ہر مستحق عذاب مرنے کے بعد اپنی سزا پا لے گا، اسے قبر میںدفنایا جائے، درندوں کی خوراک بن جائے، جل جائے، مٹی بن جائے، ہوا میںبکھر جائے یا پانیوں میں غرق ہو جائے، اس کی روح اور بدن کو وہ عذاب پہنچتا رہے گا جو قبر میں ہونا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر بلا کمی بیشی ایمان لے آئیے، آپ کی حدیث میں بے وجہ احتمالات نہ پیدا کیجئے، اس کے ہدایت پر مبنی مفہوم میں جھول نہ لائیے، اللہ ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں کی تعداد کیا ہے ، جو حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنا کر جادہ حق سے بھٹک گئے، یاد رکھئے! الٹا فہم ہی ہر بدعت و ضلالت کی ما ں ہے ، یہ ہر خطا کی اصل ِاصول ہے، گو کہ برا ارادہ بھی ان برائیوں کا موجب ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جہان تین ہیں، دنیا، جہان ِبرزخ اور جہان ِقرار، ہر جہان کے احکام اس کے ساتھ ہی خاص ہیں، انسان بدن و روح کا مرکب ہے، تو احکام دنیا، بدن و روح پر لاگو ہوں گے، احکام برزخ بھی بدن و روح پر لاگو ہیں، جب حشر کا دن ہو گا ، تو عذا ب و ثواب بدن اور روح دونوں پر ہو گا، آپ جان چکے ہیں کہ قبر کا باغیچہ جنت ہونا یا پاتال جہنم ہونا عقل کے عین موافق ہے، حق ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں، اسی سے مومن و غیر مومن کی تمییز ہو تی ہے، لازما جا ن لیجئے! کہ قبر کی جزاء و سزاء دنیا کی جزاء و سزاء سے الگ ہیں، ممکن ہے کہ اللہ قبر کی مٹی اور پتھروں ہی کو مرنے والے کے لئے اتنا گرم کر دے کہ وہ انگارے سے زیادہ تکلیف دہ ہو، جب کہ زندہ اسے ہاتھ لگائیں تو انہیں محسوس بھی نہ ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ساتھ لیٹے دو شخص ایک نار جہنم میں ہو دوسرا باغ جنت میں۔ اس کو پڑوس سے جہنم کی آگ نہ لپیٹے، جہنم والے کو پڑوسی کی جنت سے مس نہ ہو، اللہ کی قدرت اس سے بھی بلند اور بالا ہے، لیکن مصیبت ہے کہ انسان ان چیزوں کا انکاری ہو جاتا ہے جو اس کی عقل میں سما نہ پائیں، حالاں کہ اللہ نے ہمیں اس دنیا میں ہی ایسے عجائب دکھا رکھے ہیں جو عذاب قبر سے بھی زیادہ تعجب خیز ہیں، جب اللہ چاہتا ہے اپنے بندوں پر بعض چیزیں ظاہر کر دیتا ہے، اگر اللہ ہر بندے پر یہ چیزیں ظاہر کردے تو مکلف بنانے اور ایمان بالغیب کی حکمت باقی نہ رہتی، لوگ مردوںکو دفنانا چھوڑ دیتے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ آپ مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ آپ کو قبر میں عذاب دئیے جانے والوں کی آواز سنا دیتا۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ٤٠٠، ٤٠١)
( مفسر قرآن، مورخ اسلام، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٧٤ھ) لکھتے ہیں:
وَہٰذِہِ الْآیَۃُ أَصْلٌ کَبِیرٌ فِي اسْتِدْلَالِ أَہْلِ السُّنَّۃِ عَلٰی عَذَابِ الْبَرْزَخِ فِي الْقُبُورِ، وَہِيَ قَوْلُہ، : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) .
”قبر میں برزخی عذاب کے اثبات پر یہ آیت اہل سنت کی عظیم دلیل ہے : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (وہ صبح و شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔)”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/١٤٦)
) علامہ مفسر قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) لکھتے ہیں:
فَتَضَمَّنَتِ السُّورَۃُ الْقَوْلَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَقَدْ ذَکَرْنَا فِي کِتَابِ التَّذْکِرَۃِ أَنَّ الْإِیمَانَ بِہٖ وَاجِبٌ، وَالتَّصْدِیقَ بِہٖ لَازِمٌ، حَسْبَمَا أَخْبَرَ بِہِ الصَّادِقُ، وَأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحْيِ الْعَبْدَ الْمُکَلَّفَ فِي قَبْرِہٖ، بِرَدِّ الْحَیَاۃِ إِلَیْہِ، وَیَجْعَلُ لَہ، مِنَ الْعَقْلِ فِي مِثْلِ الْوَصْفِ الَّذِي عَاشَ عَلَیْہِ، لِیَعْقِلَ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ، وَمَا یُجِیبُ بِہٖ، وَیَفْہَمَ مَا أَتَاہُ مِنْ رَبِّہٖ، وَمَا أَعَدَّ لَہ، فِي قَبْرِہٖ، مِنْ کَرَامَۃٍ وَّہَوَانٍ، وَہٰذَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَالَّذِي عَلَیْہِ الْجَمَاعَۃُ مِنْ أَہْلِ الْمِلَّۃِ .
”سورۃ عذاب قبر پر دال ہے۔ ہم اپنی کتاب ”التذکرۃ ” میں بیان کر چکے ہیں کہ اس پر ایمان واجب اور اس کی تصدیق لازم ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اللہ مکلف بندے کو قبر میں زندہ کرے گا، اس کی طرف زندگی لوٹائے گا۔ اسے دنیا جیسی عقل دی جائے گی، تا کہ سوال و جواب سمجھ پائے، اللہ کی عطاؤں کا شعور ہو، اس کی تکریم یا عذاب، جو قبر میں اس کے لئے رکھا گیا ہے ، سمجھ سکے ، یہ اہل سنت کا مذہب ہے، اسی موقف پر اہل ملت کی ایک جماعت ہے۔”
(تفسیر قرطبي :٢٠/١٧٣)
نیز فرماتے ہیں:
أَنْکَرَتِ الْمُلْحِدَۃُ مَنْ تَمَذْہَبَ مِنَ الْـإِسْلَامِیِّینَ بِمَذْہَبِ الْفَلَاسِفَۃِ عَذَابَ الْقَبْرِ وَأَنَّہ، لَیْسَ لَہ، حَقِیقَۃٌ .
”بے دین ملحد فلسفیوں نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔”
(التذکرۃ بأحوال المَوْتٰی وأمورالأخرۃ، ص : ٣٧١)
(٢١) علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (٦٣٥۔٧٠٢ھ) لکھتے ہیں:
تَصْرِیحُہ، بِإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ .
”انہوں نے مذہب اہل سنت کے مطابق عذاب قبر کے اثبات کی تصریح کی ہے۔ اس بارے میں احادیث مشہور ہیں۔”
(أحکام الأفہام شرح عمدۃ الأحکام : ١/٢٣٢)
(٢٢) علامہ فاکہانی (٦٥٤۔٧٣٤ھ) لکھتے ہیں:
نَصٌّ صَرِیحٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ أَجَارَنَا اللّٰہُ مِنْہُ کَمَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَقَدِ اشْتَہَرَتِ الْـأَخْبَارُ بِذٰلِکَ .
”عذاب قبر کے اثبات پر صریح نص موجود ہے۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ ر کھے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے اور اس بارے احادیث بہت مشہور ہیں۔”
(ریاض الأفہام شرح عمد ۃ الأحکام : ١/٢٣٢)
(٢٣) علامہ ابن العطار رحمہ اللہ (٦٥٤۔٧٢٤ھ) فرماتے ہیں:
دَلِیلٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ؛ وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَہُوَ مِمَّا یَجِبُ اعْتِقَادُ حَقِیقَتِہٖ، وَہُوَ مِمَّا نَقَلَتْہُ الْـأُمَّۃُ مُتَواتِرًا؛ فَمَنْ أَنْکَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ، أَوْ نَعِیمَہ،، فَہُوَ کَافرٌ؛ لِـأَنَّہ، کَذَّبَ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَرَسُولَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ فِي خَبَرِہِمَا .
”یہ عذاب قبر کے اثبات پر دلیل ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ اس پر اعتقاد واجب ہے۔ اسے امت نے تواتر کے ساتھ بیان کیا ہے، جس نے عذاب قبر کا انکار کیا، وہ کافر ہے کیوں کہ اس نے اللہ اور رسول کو جھٹلا دیا ہے۔”
(العدۃ في شر ح العمدۃ في أحادیث الأحکام : ١/١٣٩، ١٤٠)
(٢٤) علامہ ابن سید الناس رحمہ اللہ (٦٧١۔٧٣٤ھ) لکھتے ہیں:
فِیہِ التَّصْرِیحٌ بِّإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ، مِنْہَا قَوْلُہ، : عَلَیْہِ السَّلَامُ لَوْلَا أَنْ تُدَافِنُوا لَدَعَوْتُ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ .
”اس میں تصریح ہے کہ عذاب قبر ثابت ہے، اہل سنت کے ہاں یہی معروف ہے، اس کے بارے میں احادیث مشہور ہیں، ان میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے: ‘اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ آپ مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ آپ کو ان کی آواز سنائے، جنہیں قبر میں عذاب دیا جا رہاہے۔”
(النَّفْح الشَّذِي شرح جامع الترمذي : ٢/١٨٢)
(٢٥) شارح بخاری علا مہ کرمانی (٧١٧۔٧٨٦ھ) لکھتے ہیں:
مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، لِـأَنَّ الْعَقْلَ لَا یَمْنَعُہ، وَالشَّرْعُ وَرَدَ بِہٖ فَوَجَبَ قُبُولُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْہُ تَفَرُّقَ الْـأَجْزَاءِ فَإِنْ قِیلَ نَحْنُ نُشَاہِدُ الْمَیِّتَ عَلٰی حَالِہٖ فَکَیْفَ یُسْأَلُ وَیُقْعَدُ وَیُضْرَبُ؟ فَالْجَوَابُ أَنَّہ، غَیْرُ مُمْتَنِعٌ کَالنَّائِمِ فَإِنَّہ، یَجِدُ أَلَمًا وَّلَذَّۃً، وَنَحْنُ لَا نُحِسُّہ، وَکَذَا کَانَ جِبْرِیلُ یُکَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُدْرِکْہُ الْحَاضِرُونَ .
”اہل سنت کا مذہب عذاب قبر کا اثبات ہے۔ اس پر شریعت کی نصوص موجود ہیں اور یہ عقلا محال بھی نہیں، سو اسے قبول کرنا واجب ہے، اعضائے جسمانی کا مختلف ٹکڑوں میں ہونا بھی عذاب قبر کو مانع نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ میت ویسے ہی پڑی رہتی ہے، اسے کب بٹھایا جاتا ہے، سوال کیا جاتا ہے یا مارا جاتا ہے ، کبھی مشاہدہ نہیں ہوا؟ تو جو اب یہ ہے کہ مشاہدے کے بغیر ایسا ہو جانا ممکن ہے۔ آپ سوئے ہوئے شخص کو نہیں دیکھتے، وہ تکلیف بھی محسوس کرتا ہے، لذت محسوس کرتا ہے، مگر ہم نہیں دیکھ پاتے، اسی طرح جبریلu نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کیا کرتے تھے، مگر حاضرین سن یا دیکھ نہیںپاتے تھے۔”
(الکوکب الدراري في شرح صحیح البخاري : ٧/١١٨)
(٢٦) علامہ مغلطائی حنفی(٦٨٩۔٧٦٢ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ وَغَیْرِہَا إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ .
”ان اور دیگر احادیث میں عذاب قبر کا اثبات ہے، جیسا کہ اہل سنت کے ہاں معروف ہے اور اس کے بارے میں روایات مشہور ہیں۔”
(شرح ابن ماجۃ : ١/١٥٩)
علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م : ٧٩٠ھ) لکھتے ہیں:
مَسْأَلَۃُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہِيَ أَسْہَلُ وَلَا بُعْدَ وَلَا نَکِیرَ فِي کَوْنِ الْمَیِّتِ یُعَذَّبُ بِرَدِّ الرُّوحِ إِلَیْہِ عَارِیَۃً ثُمَّ تَعْذِیبُہ، عَلٰی وَجْہٍ لَّا یَقْدِرُ الْبَشَرُعَلٰی رُؤْیَتِہٖ کَذٰلِکَ وَلَا سَمَاعِہٖ، فَنَحْنُ نَرٰی الْمَیِّتَ یُعَالِجُ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ وَیُخْبِرُ بِآلَامٍ لَّا مَزِیدَ عَلَیْہَا وَلَا نَرٰی عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ أَثَرًا وَّکَذٰلِکَ أَہْلُ الْـأَمْرَاضِ الْمُؤْلِمَۃِ، وَأَشْبَاہُ ذٰلِکَ مِمَّا نَحْنُ فِیہِ مِثْلُہَا، فَلِمَاذَا یُجْعَلُ اسْتِبْعَادُ الْعَقْلِ صَادًّا فِي وَجْہِ التَّصْدِیقِ بِأَقْوَالِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟
”عذاب قبر کا مسئلہ عام فہم ہے، بعد از عقل نہیں ہے۔ اس میں کوئی نکارت نہیںکہ عاریۃ روح لوٹا کر ایسی صورت میں عذاب دیا جائے کہ انسان اسے دیکھنے، سننے پر قادر نہ ہوئے۔ ہم قریب المرگ لوگوں کو دیکھتے ہیں، سکرات موت کی حالت میں ہوتا ہے، وہ صرف تکلیف کی خبر دیتا ہے، نہ ہم اس کا اثر اس پر دیکھتے ہیں۔ یہی صورت حال تکلیف میں مبتلا مریضوں کی ہے، ہم دیکھ نہیں پاتے، تو پھر کیوں عقل کو اخبار رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٹھکرانے کا ذریعہ بنائیں؟”
(الاعتصام : ٢/٨٤٢۔٨٤٣)
(٢٧) علامہ عراقی رحمہ اللہ (٧٢٥۔٨٠٦ھ) لکھتے ہیں:
وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ أَدِلَّۃُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَلَا یَمْتَنِعُ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ وَیُعَذِّبَہ،، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ بِہٖ الشَّرْعُ وَجَبَ قَبُولُہ،، وَقَدْ خَالَفَ فِي ذٰلِکَ الْخَوَارِجُ وَمُعْظَمُ الْمُعْتَزِلَۃِ وَبَعْضُ الْمُرْجِئَۃِ وَنَفَوْا ذٰلِکَ .
”یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ اس بارے میں قرآن و سنت کے دلائل واضح ہیں۔ عقل اس بات کا انکار نہیں کرتی کہ اللہ تعالی جسم کے کسی جزو میںز ندگی لوٹا دے اور اسے عذاب دے۔ اس پر قرآن و سنت کے دلائل اور عقل کی موافقت موجود ہے، لہٰذا اسے تسلیم کرنا واجب ہے۔ خوارج، اکثرمعتزلہ اوربعض مرجیہ اس کا انکار کرتے ہیں۔”
(طَرْ ح التقریب في شرح التثریب : ٣/٣٠٦)
(٢٨) علامہ طیبی (م :٧٤٣ھ) لکھتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا)الْـآیَۃَ، وَأَمَّا الْـأَحَادِیثُ فَلَا تُحْصٰی کَثْرَۃً، وَلَا مَانِعَ فِي الْعَقْلِ أَنْ یَّخْلُقَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیٰوۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ أَوْ فِي جَمِیعِہٖ عَلَی الْخِلَافِ بَیْنَ الْـأَصْحَابِ فَیُثِیبُہ، وَیُعَذِّبُہ،، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ الشَّرْعُ بِہٖ وَجَبَ قُبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، کَمَا یُشَاہَدُ فِي الْعَادَۃِ، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِِ، کَمَا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُعِیدُہ، لِلْمَحْشَرِ، وَہُوَ سُبْحَانَہ، قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ .
”اہل سنت کا مذہب عذاب قبر کا اثبات ہے۔ اس پر کتا ب و سنت کے دلائل واضح ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (وہ صبح وشام جہنم پر پیش کئے جاتے ہیں۔) اس پر احادیث تو بے شمار ہیں۔ عقل اس کی انکاری نہیں کہ اللہ جسم کے جزو یا کل جسم میں زندگی پیدا کر کے اسے جزا و سزا دے۔ عقل مانع نہیںاور شرعی دلائل موجود ہیں، سو یہ بات ماننا اور اس کے مطابق اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ میت کے اجزا بکھرے ہوں، درند، پرند ، چرند اسے کھا گئے ہوں، پھر بھی اللہ اسے اسی طرح واپس لا ئے گا، جس طرح روز محشر لائے گا اور اللہ اس پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔”
(شرح الطِیْبِي : ٢/٥٨٩)
علامہ محمد بن ابی بکر دمامینی (م: ٨٢٨ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ کَثُرَتِ الْـأَحَادِیثُ فِیہِ حَتّٰی قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ إِنَّہَا مُتَوَاتِرَۃٌ لَّا یَصِحُّ عَلَیْہَا التَّوَاطُؤُ وَإِنْ لَّمْ یَصِحَّ مِثْلُہَا لَمْ یَصِحَّ شَيْءٌ مِّنْ أَمْرِ الدِّینِ .
”اس کے بارے میں بکثرت احادیث موجود ہیں، کئی علماء نے ان کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے، جن میں جھوٹ پر متفق ہونا محال ہے۔ اگر ایسی مسائل ثابت نہیں، تو دین کا کوئی مسئلہ صحیح نہیں ہو سکتا۔”
(فیض القدیر للمناوي : ٢/٣٩٧)
(٢٩) علامہ ابن وزیر (٧٧٥۔٨٤٠ھ) لکھتے ہیں:
وَذَکَرَ إِجْمَاعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ أَنَّہ، یَجُوزُ وُقُوعُ الِامْتِحَانِ فِي الْبَرْزَخِ کَمَا یَقَعُ فِي الدُّنْیَا .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ برزخ میں اسی طرح امتحان ہو سکتاہے، جس طرح دنیا میں ہوتا ہے۔”
(العواصِم والقواصِم في الذبّ عن سنۃ أبي القاسم : ٥/٣٤٧)
(٣٠) علامہ برمادی (٧٦٣۔٨٣١) لکھتے ہیں:
ثُبُوتُ عَذَابِ الْقَبْرِ کَمَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ .
”عذاب قبر کا ثبوت اہل سنت کا مذہب ہے۔”
(اللامع الصبیح بشرح الجامع الصبیح : ٥/٢٤٧)
(٣١) علامہ محمد بن خلیفہ (م:٨٢٧ھ) لکھتے ہیں:
تَوَاتَرَتِ الْـأَحَادِیثُ بِإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ .
”عذاب قبر کے اثبات پر احادیث متواتر ہیں ۔”
(إکمال إکمال المعلم شرح صحیح مسلم : ٣/٣٢٥)
(٣٢) شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) لکھتے ہیں :
وَاکْتَفٰی بِإِثْبَاتِ وُجُودِہٖ خِلَافًا لِّمَنْ نَّفَاہُ مُطْلَقًا مِّنَ الْخَوَارِجِ وَبَعْضِ الْمُعْتَزِلَۃِ کَضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو وَبِشْرٍ الْمَرِیسِيِّ وَمَنْ وَّافَقَہُمَا وَخَالَفَہُمْ فِي ذٰلِکَ أَکْثَرُ الْمُعْتَزِلَۃِ وَجَمِیعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَغَیْرِہِمْ .
”عذاب قبر کا وجود کا اثبات موجود ہے، خوارج، بعض ضرار بن عمرو اور بشر مریسی جیسے معتزلہ اور ان کے موافقین نے اس کا انکار کیا ہے، جب کہ اکثر معتزلہ اور جمیع اہل سنت اثبات کے قائل ہیں۔”
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : ٣/٢٣٣)
شارح صحیح بخاری علامہ عینی حنفی (٧٢٦۔٨٥٥ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ الْمُلْحِدَۃَ وَمَنْ یَّذْہَبُ مَذْہَبَ الْفَلَاسِفَۃِ انْکَرُوہُ أَیْضًا، وَالْإِیمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ لَّازِمٌ حَسْبَ مَا أَخْبَرَ بِہِ الصَّادِقُ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ اللّٰہَ یُحْيِ الْعَبْدَ وَیَرُدُّ الْحَیَاۃَ وَالْعَقْلَ، وَہٰذَا نَطَقَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃ، وَکَذٰلِکَ یُکْمِلُ الْعَقْلَ لِلصِّغَارِ لِیَعْلَمُوا مَنْزِلَتَہُمْ وَسَعَادَتَہُمْ، وَقَدْ جَاءَ أَنَّ الْقَبْرَ یَنْضَمُّ عَلَیْہِ کَالْکَبِیرِ .
”ملحدین اور فلاسفہ نے بھی اس کا انکار کیا ہے۔ اس پر ایمان واجب اور لازم ہے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔ اللہ بندے کو زندہ کرے گا، اس کی عقل واپس لائے گا۔ احادیث یہی بتاتی ہیں، یہ اہل سنت کا مذہب ہے، اسی طرح بچوں کو اتنی عقل دی جائے گی کہ اپنی منزل و سعادت پہچان لیں، یہ بھی آیا ہے کہ قبر اسے بڑے کی طرح جھٹکا دے گی۔”
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : ٣/١١٨)
نیز فرماتے ہیں:
فِیہِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، وَأَنْکَرَ ذٰلِکَ ضِرَارُ بْنُ عَمْرٍو وَّبِشْرُ الْمَرِّیسِيُّ وَأکْثَرُ الْمُتَأَخِّرینَ مِنَ الْمُعْتَزلَۃِ .
”اس میں عذاب قبر کا اثبات ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے، ضرار بن عمرو اور بشر مریسی نے اس کا انکار کیا ہے۔”
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : ٨/١٤٥)
(٣٤) شارح صحیح بخاری، علامہ احمد قسطلانی رحمہ اللہ (٨٥١۔٩٢٣ھ) لکھتے ہیں:
قَدْ تَّظَاہَرَتِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی ثُبُوتِہٖ، وَأَجْمَعَ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ، وَلَامَانِعَ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ، أَوْ فِي جَمِیعِہٖ عَلَی الْخِلَافِ الْمَعْرُوفِ، فَیُثِیبُہ، وَیُعَذِّبُہ، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ بِہِ الشَّرْعُ وَجَبَ قُبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، کَمَا یُشَاہَدُ فِي الْعَادَۃِ، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِ کَمَا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُعِیدُہ، لِلْحَشْرِ، وَہُوَ سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی، قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ، فَلَا یُسْتَبْعَدُ تَعَلُّقُ رُوحِ الشَّخْصِ الْوَاحِدِ فِي آنٍ وَّاحِدٍ بِّکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْ أَجْزَائِہِ الْمُتَفَرِّقَۃِ فِي الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ فِإِنَّ تَعَلُّقَہ، لَیْسَ عَلٰی سَبِیلِ الْحُلُولِ حَتّٰی یَمْنَعَہُ الْحُلُولُ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْحُلُولِ فِي غَیْرِہٖ، قَالَ فِي مَصَابِیحِ الْجَامِعِ وَقَدْ کَثُرَتِ الْـأَحَادِیثُ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ .
”کتاب و سنت کے دلائل عذاب قبر کے ثبوت پر واضح ہیں، اہل سنت کا اس پر اجماع ہے، عقل اس بات کا بالکل انکار نہیں کرتی کہ اللہ جسم کے حصے میں یا تمام جسم میں زندگی پیدا کر کے عذاب و ثواب کا معاملہ کرے، عقل اس کو قبول کرتی اور شریعت کی نصوص اسے بیان کرتی ہیں، لہٰذا عذاب قبر کا اثبات واجب ہے، میت کے اجزاء بکھر جائیں، درندے کھا لیں، یا پرندے کھا لیں اللہ اسی طرح زندہ کر سکتا ہے ، جس طرح حشر میں زندہ کرے گا، ایک ہی شخص کی روح کا اس کے مشرق و مغرب میں بکرے اجزاء سے تعلق نا ممکن نہیں، ہاں روح جسم میں حلول نہیں کرے گی، صاحب مصابیح الجامع کہتے ہیں : عذاب قبر کی احادیث بہت زیادہ ہیں، بہت سے علماء نے ان کے متواتر ہونے کا دعوی کیا ہے ۔”
(إرشاد الساري شرح صحیح البخاري : ٢/٤٦٠)
(٣٥) شارح صحیح بخاری، علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ (٧٢٣۔٨٠٤ھ) لکھتے ہیں:
وَفِیہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَفِیْہِ الْمَسْئَلَۃُ فِي الْقَبْرِ قَالَ أَبُو الْمَعَالِي : تَوَاتَرَتِ الْـأَخْبَارُ وَلَمْ یَزَلْ ذٰلِکَ مُسْتَفِیضًا قَبْلَ ظُہُورِ أَہْلِ الْبِدَعِ، والسُّؤَالُ یَقَعُ عَلٰی أَجْزَاءِ یَعْلَمُہَا اللّٰہُ تَعَالٰی مِنَ الْقَلْبِ وَغَیْرِہٖ یُحْیِیہَا اللّٰہُ تَعَالٰی ویُوَجِّہُ السُّؤَالَ عَلَیْہَا .
”اس میں عذاب قبر کے اثبات کی دلیل ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ قبر میں سوال جواب کا ثبو ت بھی ہے۔ علامہ ابو المعالی کہتے ہیں : اس مسئلے میں متواتر حادیث موجود ہیں۔ اہل بدعت کے ظہور سے پہلے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کرتا تھا۔ سوال کے لئے دل کو یا جسے اللہ چاہے گا، اس عضو کو زندہ کیا جائے گا اور اس سے سوال ہوں گے۔”
(التوضیح لشرح الجامع الصحیح : ٣/٤٣٤)
(٣٦) علامہ ابو یحییٰ زکریا انصاری (٨٢٣۔٩٢٦ھ)لکھتے ہیں:
بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ أَيْ مِنَ الْـآیَاتِ وَالْـأَحَادِیثِ، وَلَا مَانِعَ مِنْ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ، أَوْ فِي جَمِیعِہٖ فَیُثِیبُہ،، أَوْ یُعَذِّبُہ،، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِ، کَمَا أَنَّہ، یُعِیدُہ، لِلْحَشْرِ، وَہُوَ تَعَالٰی قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ، فَلَا یُسْتَبْعَدُ تَعَلُّقُ رُوحِ الشَّخْصِ الْوَاحِدِ فِي آنٍ وَّاحِدٍ بِّکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْ أَجْزَائِہِ الْمُتَفَرِّقَۃِ فِي الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ، فَإِنَّ تَعَلُّقَہ، لَیْسَ عَلٰی سَبِیلِ الْحُلُولِ حتّٰی یَمْنَعَہُ الْحُلُولُ فِي جُزْءٍ آخَرَ، بَلْ ہُوَعَلٰی سَبِیلِ التَّدْبِیرِ .
”عذاب قبر کے بارے میں احادیث و آیات کا بیان، یہ بات عقلا محال نہیں کہ اللہ جسم کے ایک جزء یا تمام جسم میں زندگی پیدا کر کے اسے عذا ب و ثواب دے، میت کے اجزاء بکھر چکے ہوں، درند، پرنداور سمند ر کی مچھلیاں کھا چکی ہوں، اللہ اسے زندہ کرکے عذاب دینے پر قادر ہے، ایک ہی شخص کی روح کا اس کے تمام مشارق و مغارب میں بکھرے اجزاء سے تعلق نا ممکن نہیں، روح اجزاء جسم میں حلول نہیں کرتی بل کہ یہ تعلق اللہ کی طرف سے ایک خاص ہیت میں ہوتا ہے۔”
(مِنْحَۃ الباري بشرح صحیح البخاري : ٣/٤٩٩)
(٣٧) علامہ ،ابن المبرد (٨٤٠۔٩٠٩ھ) کہتے ہیں:
وَجَحَدُوا عَذَابَ الْقَبْرِ، وَأَنَّ الْکُفَّارَ فِي قُبُورِہِمْ یُعَذَّبُونَ، وَقَدْ أَجْمَعَ عَلٰی ذٰلِکَ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ .
”اہل بدعت نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ کفار اپنی قبروں میں عذاب دئیے جائیں گے، اس پر صحابہ و تابعین کا اجماع ہے۔”
(جمع الجیوش، ص : ١٤٤)
(٣٨) علامہ ابن حجر ہیتمی(٩٠٩۔٩٧٤ھ) لکھتے ہیں:
ذَہَبَ أَہْلُ السُّنَّۃِ إِلٰی أَنَّ اللّٰہَ یُحْيِ الْمُکَلَّفَ فِي قَبْرِہٖ وَیَجْعَلُ لَہ، مِنَ الْعَقْلِ مِثْلَ مَا عَاشَ عَلَیْہِ لِیَعْقِلَ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ وَیُجِیبَ عَنْہُ وَمَا یَفْہَمُ بِہٖ مَا أَتَاہُ مِنْ رَّبِّہٖ وَمَا أُعِدَّ لَہ، فِي قَبْرِہٖ مِنْ کَرَامَۃٍ وَّہَوَانٍ وَبِہٰذَا نَطَقَتِ الْـأَخْبَارُ وَالْـأَصَحُّ أَنَّ الْعَذَابَ عَلَی الرُّوحِ وَالْجَسَدِ .
”اہل سنت کا مذہب ہے کہ اللہ، مکلف کو قبر میں زندہ کر کے اسے دنیا کی عقل جیسی عقل عطا کرے گا تا کہ سوالات سمجھ کر ان کے جوابات دے سکے۔ جو اللہ اسے دے اسے سمجھ سکے۔ اس کی قبر میں کی جانے والی تعظیم یا رسوائی کی پہچان ہو۔ احادیث یہی بتاتی ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ عذاب روح اور جسد دونوں کو ہو گا۔”
(الفتاوٰی الفقہیۃ الکبرٰي : ٢/٩)
(٣٩) علامہ عبد الروف مناوی (٩٥٢۔١٠٣١ھ) لکھتے ہیں:
فَعَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَہُوَ مَا نُقِلَ مُتَوَاتِرًا فَیَجِبُ اعْتِقَادُہ، وَیُکَفَّرُ مُنْکِرُہ، .
”اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر حق ہے۔ اس کے متعلق روایات متواتر ہیں۔ اس پر اعتقاد واجب اور اس کامنکر کافر ہے۔”
(فیض القدیر : ٢/٨٠)
نیز فرماتے ہیں:
وَقَدْ تَّظَاہَرَتِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی ثُبُوتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَجْمَعَ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ .
”کتاب و سنت کے دلائل ظاہر ہیں کہ عذاب قبر ثابت ہے۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔”
(فیض القدیر : ٢/٣٩٧)
(٤٠) حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔٩١١ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ الْعُلَمَاءُ : عَذَابُ الْقَبْرِ ہُوَ عَذَابُ الْبَرْزَخِ أُضِیفَ إِلَی الْقَبْرِ لِـأَنَّہُ الْغَالِبُ وَإِلَّا فَکُلُّ مَیِّتٍ وَّإِذَا أَرَادَ اللّٰہُ تَعَالٰی تَعْذِیبَہ، نَالَہ، مَا أَرَادَ بِہٖ قُبِرَ أَوْ لَمْ یَقْبُرْ وَلَوْ صُلِبَ أَوْ غَرِقَ فِي الْبَحْرِ أَوْ أَکَلَتْہُ الدَّوَابُّ أَوْ حُرِّقَ حَتّٰی صَارَ رَمَادًا أَوْ ذُرِّيَ فِي الرّیحِ وَمَحَلُّہُ الرُّوحُ وَالْبَدَنُ جَمِیعًا بِّاتِّفَاقِ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَکَذَا القَوْلُ فِي النَّعِیمِ .
”علماء کہتے ہیں کہ عذاب قبر ہی عذاب برزخ ہے۔ اس کی نسبت قبر کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ یہ اکثر قبر ہی میں ہوتا ہے۔ میت قبر میں ہو یا نہ ہو، غرق ہو جائے، درندے کھا لیں، جل کرراکھ ہو جائے یا ہوا میں اڑا دیاجائے، جب اللہ چاہے گا اسے عذاب دے گا۔ عذاب روح اور بدن دونوں کو دیا جائے گا۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے، یہی معاملہ نعمتوں کا ہے۔”
(شرح الصُّدور بشرح حال المَوتٰی، ص : ٨١)
(٤١) ملا علی قاری حنفی (١٠١٩ھ) لکھتے ہیں:
وَالْـأَحَادِیثُ فِي ذٰلِکَ کَثِیرَۃٌ فِي الْمَبْنٰی، وَقَدْ تَّوَاتَرَتْ بِحَسْبِ الْمَعْنٰی، وَأَجْمَعُوا عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ، خِلَافاً لِّبَعْضِ أَہْلِ الْبِدْعَۃِ .
”اس کے بارے میں بہت ساری احادیث موجود ہیں، جو تواتر معنوی کے درجے کی ہیں۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے، جب کہ اہل بدعت اس کے منکر ہیں۔”
(شرح مسند أبي حنیفۃ، ص : ٣٦٨)
(٤٢) علامہ ابن عابدین شامی حنفی (١١٩٨۔١٢٥٢ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ وَّسُؤَالُ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ وَّضَغْطَۃُ الْقَبْرِ حَقٌّ لٰکِنْ إِنْ کَانَ کَافِرًا فَعَذَابُہ، یَدُومُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَیُرْفَعُ عَنْہُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَشَہْرَ رَمَضَانَ فَیُعَذَّبُ اللَّحْمُ مُتَّصِلًا بِّالرُّوحِ وَالرُّوحُ مُتَّصِلًا بِّالْجِسْمِ فَیَتَأَلَّمُ الرُّوحُ مَعَ الْجَسَدِ، وَإِنْ کَانَ خَارِجًا عَنْہُ، وَالْمُؤْمِنُ الْمُطِیعُ لَا یُعَذَّبُ بَلْ لَّہ، ضَغْطَۃٌ یَّجِدُ ہَوْلَ ذٰلِکَ وَخَوْفَہ، وَالْعَاصِي یُعَذَّبُ .
”اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر، منکر نکیر کے سوال اور قبر کا جھٹکا حق ہے، لیکن کافر کو دائمی عذاب ہو گا۔ جمعہ اور رمضان میں بہر حال اٹھا لیا جاتا ہے (یہ بے دلیل بات ہے از ناقل)، جسم اور روح دونوں کو عذاب دیا جاتا ہے۔ جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی تکلیف محسوس کرتی ہے، اگرچہ روح جسم میں موجود نہ ہو۔ فرمانبردار مومن کو عذاب نہیںدیا جائے گا۔ اسے صرف جھٹکا دیا جائے گا، اس کا ڈر اور خوف اسے رہے گا، جب کہ گنہگار عذاب دیا جائے گا۔”
(رد المُحتار علی در المُخْتار المعروف بہٖ فتاوٰی شامي : ٢/١٦٥)
یہ عبارت علامہ ابو المعین نسفی حنفی (٤١٨۔٥٠٨ھ) کی ہے، جسے علامہ طحاوی نے ”حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح : ١/٥٢٤) اور علامہ حموی حنفی نے ”غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر ۔”میں ذکر کیا ہے۔
فقہ حنفی کی معتبر کتاب، جسے پانچ سو حنفی علما ء نے مرتب کیا ہے، میں ہے :
کُفِّرَ بِإِنْکَارِ رُؤْیَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَزَّ وَجَلَّ بَعْدَ دُخُولِ الْجَنَّۃِ وَبِإِنْکَارِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَبِإِنْکَارِ حَشْرِ بَنِي آدَمَ لَا غَیْرُہِمْ وَلَا بِقَوْلِہٖ أَنَّ الْمُثَابَ وَالْمُعَاقَبَ الرُّوحُ فَقَطْ کَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ .
”جنت میںرویت الٰہی ،عذاب قبر اور حشر کا منکر کافر ہے، لیکن جو کہتا ہے کہ عذاب ثواب صرف روح کو ہو گا وہ کافر نہیں۔ بحر الرائق میں اسی طرح لکھا ہے۔”
(فتاوٰی عالمگیري : ٢/٢٧٤)
(٤٣) علامہ صنع اللہ حنفی (١١٢٠ھ) لکھتے ہیں:
فَإِنْ قِیلَ : عَذَابُ الْقَبْرِ وَثَوَابُہ، ثَابِتٌ لِّلرُّوحِ وَالْبَدَنِ، فَیَلْزَمُ الْإِتِّصَالُ بَیْنَھُمَا بَعْدَ الْمَوْتِ؟ قُلْنَا : ذَالِکَ حَقٌّ، وَالْإِیمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ، وَہُوَ مِنَ الْغَیْبِ، وَاتِّصَالُ ذَالِکَ لَا یَعْلَمُ کَیْفِیَّتَہ، إِلَّا الْعَلِیمُ الْخَبِیرُ . وَمَنْ تَأَمَّلَ قُدْرَۃَ اللّٰہِ وَعَجِائِبَ تَدْبِیرِہٖ، وَغَرَائِبَ صُنْعِہٖ لَمْ یَسْتَنْکِفْ عَنْ قُبُولِ الْإِیمَانِ بِہٖ .
”کوئی کہے کہ عذاب قبر کا روح اور جسم کو ماننے سے لازم آتا ہے کہ موت کے بعد بھی ان میں اتصال ہوتا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ یہ حق ہے۔ اس پر ایمان واجب ہے۔ یہ غیبی امور میں سے ہے اور اس کے اتصال کی کیفیت علیم اور خبیر ذات ہی جانتی ہے۔ جو اللہ کی قدرت، اس کے تدبیری عجائبات اور قدرت کے کرشموں میں تدبر کرے، وہ اس پر ایمان لانے سے انکار نہیں کر سکتا۔”
(سیف اللّٰہ علی من کذب علی أولیاء اللّٰہ، ص ٤٥)
(٤٤) حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٧٩ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ دَّلَّ ہٰذَا الْحَدِیثُ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْإِیمَانَ بِعَذَابِ الْقَبْرِ وَاجِبٌ لِّلْـأَحَادِیثِ الْوَارِدَۃِ فِیہِ، وَہُوَ مَذْکُورٌ فِي الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ أَبِي أَیُّوبَ، وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَۃَ، وَأُمِّ خَالِدٍ .
”یہ حدیث عذاب قبر پر دلالت کرتی ہے۔ ذہن نشین رکھئے کہ عذاب قبر پر احادیث نبویہ کی بنا پر ایمان واجب ہے، اس بارہ میں سیدنا ابوایوب ا نصا ر ی ، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا جابر، سیدہ عائشہ اور سیدہ ام خالدy سے احادیث بیان ہوئی ہیں۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین : ٢/٨٥)
(٤٥) ابو الوفا بن عقیل (٤٣١۔٥١٣ھ) منکرین عذاب قبر کے شبہات کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الْإِیمَانُ وَاجِبٌ بِّالتَّعْذِیبِ مِنْ غَیْرِ تَفْصِیلٍ .
”عذاب قبر پر بغیر تفصیل پوچھے ایمان واجب ہے۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین لابن الجوزی : ٢/٨٥)
(٤٦) کورانی حنفی (٨١٣۔٨٩٣ھ) کہتے ہیں:
وَفِي الْحَدِیثُ دَلَالَۃٌ صَرِیحَۃٌ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ وَالرُّوحِ عِنْدَ أَہْلِ الْحَقِّ .
”اس حدیث میں عذاب قبر اور روح پر صریح دلالت ہے۔”
(الکوثر الجاري إلی ریاض أحادیث البخاري : ٣/٣٤٨)
(٤٧) حافظ خطابی رحمہ اللہ (٣١٩۔٣٨٨) لکھتے ہیں:
وَفِیہِ إِثْبَاتٌ عَذَابُ الْقَبْرِ .
”اس حدیث میں عذاب قبر کا اثبات ہے۔”
(معالم السنن : ١/١٩)
(٤٨) امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ (٢٦٠۔٣٢٤ھ) اہل بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَجَحَدُوا عَذَابَ الْقَبْرِ، وَأَنَّ الْکُفَّارَ فِي قُبُورِہِمْ یُعَذَّبُونَ، وَقَدْ أَجْمَعَ عَلٰی ذٰلِکَ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ .
”گمراہوں نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے، نیز کہ کفار اپنی قبروں میں عذاب دئیے جائیں گے، جب کہ اس پر صحابہ اور تابعین کا اجماع ہے۔”
(الإبانۃ عن أصول الدیانۃ، ص : ١٥)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَجْمَعُوا عَلٰی أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَإِنَّ النَّاسَ یُفْتَنُونَ فِي قُبُورِہِمْ بَعْدَ أَنْ یُّحْیَوْنَ فِیھَا وَیُسْأَلُونَ، فَیُثَبِّتُ اللّٰہُ مَنْ أَحَبَّ تَثْبِیتَہ، .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔ لوگوں کو قبروں میں زندہ کیا جائے گا اور آزمایا جائے گا، اللہ جسے چاہے گا ثابت قدم رکھے گا۔”
(رسالۃ إلی أہل الثغر، ص : ٦٢)
(٤٩) علامہ شاطبی (م :٧٩٠) لکھتے ہیں:
فَرَدُّوا الْـأَحَادِیثَ الْمُتَوَاتِرَۃَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَتِہٖ .
”اہل بدعت نے عذاب قبر اور فتنہ قبر کے بارے میں متواتر احادیث کا انکار کر دیا ہے۔”
(الاعتصام : ٢/٨٤٩)
(٥٠) امام اہل سنت ابو بکر بن ابی داو د (م :٣١٦ھ) اپنے قصیدہ میں فرماتے ہیں:
وَقُلْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ حَقٌّ مُوضِحٌ .
”یہ عقیدہ رکھیں کہ عذاب قبر واضح حق ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٥/٢٥٦٢، وسندہ، صحیحٌ)
اس قصیدہ کے بارے میں امام ابوبکر بن ابی دواد فرماتے ہیں:
ہٰذَا قَوْلِي وَقَوْلُ أَبِي وَقَوْلُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَّقَوْلُ مَنْ أَدْرَکْنَا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَمَنْ لَّمْ نُدْرِکْ مِمَّنْ بَّلَغَنَا عَنْہُ، فَمَنْ قَالَ عَلَیَّ غَیْرَ ہٰذَا، فَہُوَ کَذَّابٌ .
”میرا، میرے والد محترم امام ابوداود، امام احمد بن حنبل، ان اہل علم کا ہے، جن سے ہماری ملاقات ہوئی اور جن سے ملاقات نہیں ہو سکی، صرف ان کے عقیدے پر اطلاع ملی ان سب کا یہی عقیدہ ہے۔ جو اس کے خلاف کوئی عقیدہ میرے متعلق بیان کرے، وہ جھوٹا ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٥/٢٥٦٢، وسندہ، صحیحٌ)
(٥١) امام ابو الحسین آجری رحمہ اللہ (م : ٣٦٠ھ) فرماتے ہیں:
مَا أَسْوَأَ حَالَ مَنْ کَذَّبَ بِہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ لَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَّعِیدًا وَّخَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِینًا .
”ان احادیث کا انکار ی کتنا برا شخص ہے۔ وہ گمراہی کی گہری کھائی میں جا گرا ہے اور واضح خسارے کا سودا گر ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٣/١٢٨٥)
مسئلہ عذاب قبر اہل سنت کے عقائد میں سے ہے، جس پر بہت ساری قرآنی آیات اور احادیث متواترہ دلالت کرتی ہیں۔ اس کے حق ہونے پر اہل حدیث کا اجماع و اتفاق ہے، جس نے اہل سنت کا اتفاقی فہم نظر انداز کیا وہ ذلیل اور گمراہ ہے، اس کی رائے بدعت اور گم راہی ہے، فہم و منہج سلف صالحین کو ترک کرنا در حقیقت قرآن و حدیث سے دشمنی ہے ، جس نے قرآن و حدیث کی من پسند تعبیر کی وہ راہ ہدایت سے بھٹک گیا، دنیا میں جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے سب نے قرآن و حدیث کو نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھایا، محدثین کے دشمنوں نے قرآن و سنت پر عقلی اعتراضات وارد کئے ہیں، ایسا کوئی مسلمان کر سکتا ہے بھلا؟ جو اپنی نارسا عقل سے وحی کو جھٹلا دے، اگر اسلامی عقائد و اعمال کی بنیاد عقل پر ہوتی، تو بعثت انبیا ئے کرام کا مقصد فوت ہو جاتا۔ صحابہ کرام اور ائمہ عظام کے بارے میں علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م:٧٩٠ھ) لکھتے ہیں:
وَالرَّأْيُ إِذَا عَارَضَ السُّنَّۃَ فَہُوَ بِدْعَۃٌ وَّضَلَالَۃٌ فَالْحَاصِلُ مِنْ مَّجْمُوعِ مَا تَقَدَّمَ أَنَّ الصَّحَابَۃَ وَمَنْ بَّعْدَہُمْ لَمْ یُعَارِضُوا مَا جَاءَ فِي السُّنَنِ بِآرَائِہِمْ، عَلِمُوا مَعْنَاہُ أَوْ جَہِلُوہُ، جَرٰی لَہُمْ عَلٰی مَعْہُودِہِمْ أَوْ لَا، وَہُوَ الْمَطْلُوبُ مِنْ نَقْلِہٖ، وَلْیَعْتَبِرْ فِیہِ مَنْ قَدَّمَ النَّاقِصَ وَہُوَ الْعَقْلُ عَلَی الْکَامِلِ وَہُوَ الشَّرْعُ .
”رائے اور سنت کا تصادم ہو جائے، تو رائے بدعت اور گمراہی کہلائے گی۔ ہماری گزشتہ نگارشات کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ و تابعین، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کامعنی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، عقل میں آئے یا نہ آئے، حدیث سے عقلیں نہیں لڑاتے تھے۔ یہی مطلوب شریعت ہے۔ شریعت و عقل کے تصادم میں ناقص پر کامل کو مقدم کیا جائے اور کامل شریعت ہی ہے۔”
(الاعتصام : ٢/٨٥٠)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ) لکھتے ہیں:
وَلَیْسَ ہٰذَا بِأَوَّلِ خَبَرٍ یَّجِبُ عَلَیْنَا الْإِیمَانُ بِہٖ وَإِنْ جَہِلْنَا مَعْنَاہُ، فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ وَسُؤَالِ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ فِیہِ حَقٌّ، وَلَا یُطَّلَعُ عَلٰی حَقِیقَۃِ ذٰلِکَ، وَمَتٰی ضَاقَتِ الْحِیَلُ فِي کَشْفِ الْمُشْکِلَاتِ لِلْـإِحْسَاسِ لَمْ یَبْقَ إِلَّا فَرْضُ التَّسْلِیمِ .
”یہ کوئی پہلی حدیث تو نہیں کہ جس کے معنی سے عدم واقفیت کے با وجود ہم اسے تسلیم کرتے ہیں، قبر میں جزا و سزا اور منکر نکیر کے سوال جواب حق ہیں، اس کی حقیقت کا ہمیں علم نہیں، جب مشکلات شریعت حد عقل سے ما وراء ہیں، تو سوائے تسلیم و رضا کے کوئی چارہ ہی نہیں۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین : ٣/٣٨٣)
عذاب قبر کا انکار بشر بن غیاث مریسی (م : ٢١٨ھ) جیسے زندیق، بدعتی اور گم راہوں نے کیا ہے، اس کے عقائد کفریہ تھے ، قرآن کو مخلوق کہتا تھا، محدثین نے اس کی تکفیر کر رکھی تھی، امام عثمان بن سعید، دارمی نے اس کے رد میں”الرد علی بشر المریسی فیما ابتدعہ من التاویل لمذہب الجہمیہ”نامی کتا ب لکھی ہے۔ امام اسحاق بن اہویہ (١٦٦۔٢٣٨ھ) فرماتے ہیں:
دَخَلَ حُمَیْدٌ الْطُّوسِيُّ عَلٰی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، وَعِنْدَہ، بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ، فَقَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ لِحُمَیْدٌ أَتَدْرِي مَنْ ہٰذَا یَا أَبَا غَانِمٍ؟ قَالَ لَا، قَالَ ہٰذَا بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ، فَقَالَ حُمَیْدٌ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، ہٰذَا سَیِّدُ الْفُقَہَاءِ ، ہٰذَا قَدْ رَفَعَ عَذَابَ الْقَبْرِ وَمَسْأَلَۃَ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ، وَالْمِیزَانَ، والصِّرَاطَ، أُنْظُرْ ہَلْ یَقْدِرُ أَنْ یَّرْفَعَ الْمَوْتَ، ثُمَّ نَظَرَ إِلٰی بِشْرٍ، فَقَالَ : لَوْ رَفَعْتَ الْمَوْتَ کُنْتَ سَیِّدُ الْفُقَہَاءِ حَقًّا .
”حمید طوسی رحمہ اللہ امیرالمومنین کے ہاں گئے، ان کے پاس بشر مریسی کھڑا تھا۔ امیر المومنین کہنے لگے : حمید جانتے ہو، یہ کون ہیں؟ کہا : نہیں۔ امیر المومنین کہنے لگے : یہ بشر مریسی ہے، تو حمید کہنے لگے : یہ تو فقہا کے سردار ہیں، جناب نے عذاب ِقبر ختم کر دیا اور منکر نکیر، میزان، پل صراط وغیرہ بھی اسلام بدر کر دئیے ہیں۔ دیکھئے ا ب موت ہی بچی ہے، قریب ہے کہ اس کا بھی انکار ہو جائے، پھر بشر سے کہنے لگے، ارے آپ تو فقہاء کے سردار ہوئے، موت کو بھی اسلام سے نکال دیجئے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب بغدادي : ٧/٦٠، المنتظم لابن الجوزي : ١١/٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
آخر میں علامہ، عبد السلام بن عبد الرحمن بن ابی الرجال ، ابو الحکم المعروف ابن برجان (م : ٥٣٦ھ) کا واقعہ ملاحظہ ہو:
أَنَّہُمْ دَفَنُوا مَیِّتًا بِّقَرْیَتِہِمْ فِي شَرَفِ أَشْبِیلِیَّۃَ فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ دَفْنِہٖ قَعَدُوا نَاحِیَۃً یَتَحَدَّثُونَ وَدَابَّۃٌ تَرْعٰی قَرِیبًا مِّنْہُم فَإِذَا بِالدَّابَّۃِ قَدْ أَقْبَلَتْ مُسْرِعَۃً إِلَی الْقَبْرِ فَجَعَلَتْ أُذُنَہَا عَلَیْہِ کَأَنَّہَا تَسْمَعُ ثُمَّ وَلَّتْ فَارَّۃً ثُمَّ عَادَتْ إِلَی الْقَبْر فَجَعَلَتْ أُذُنَہَا عَلَیْہِ کَأَنَّہَا تَسْمَعُ ثُمَّ وَلَّتْ فَارَّۃً فَعَلَتْ ذٰلِکَ مَرَّۃً بَّعْدَ أُخْرٰی
قَالَ أَبُو الْحَکَمِ فَذَکَرْتُ عَذَابَ الْقَبْرِ وَقَوْلِ النَّبِيِّ أَنَّہُمْ لَیُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُہُ الْبَہَائِمُ .
”انہوں نے اشبیلیہ کی ایک بستی میں ایک میت کی تدفین کی، تدفین سے فارغ ہو کر قریب ہی باتیں کرنے بیٹھ گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جانور جو پاس ہی چر رہا تھا، تیزی سے اس قبر کے پاس آیا اور کان لگا کے کچھ سننے لگا، پھر اچانک وہاں سے بھاگ گیا، پھر اس ایساکئی بار کیا۔ ابوالحکم کہتے ہیں : یہ منظر دیکھا، تو میرا ذہن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا گیا کہ انہیں عذاب دیا جاتا ہے ، جسے چوپائے سنتے ہیں۔”
(الروح لابن القیم، ص : ٥٣، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْـأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْیَا وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.
”الٰہی! ہمارے تمام معاملات سنوار دے، ہمیں دنیا کی رسوائیوں اور عذاب قبر سے بچا ۔”
(تاریخ ابن عساکر : ٥٢/٤٣٠، وسندہ، صحیحٌ)
✧------------------✦✦✦------------------✧✧------------------
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلةالشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS