بکری کی استطاعت رکھنے والوں کا مرغیوں سے ولیمہ کرنا
__________________________
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ بخیر ہوں گے!!
ایک آدمی نے ایک سوال پوچھا ہے وہ یہ کہ عقیقہ اور قربانی کا جانور کیا اور کیسا ہو بتا دیا گیا ہے۔ اسی طرح ولیمہ کے سلسلے میں آیا ہے: "اولم ولو بشاۃ" (ولیمہ کرو گرچہ ایک بکری سےکیوں نہ ہو)جس سے لگتا ہے کہ ولیمہ میں کم سے کم ایک بکری ہو۔ آج لوگ مرغیاں ذبح کر کے ولیمہ کرتے ہیں ۔ تو کیا ایسا کرناجائز ہے؟ عدم استطاعت بکری کی صورت میں کسی بھی کھانے کی چیز سے جائز بعض علماء نے کہا ہےمگر استطاعت کے باوجود کیا پولٹری مرغی سے ولیمہ کرنا صحیح ہوگا؟؟ تحقیقی جواب دے کر مشکور فرمائیں گے!!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ !
عقیقہ اور قربانی کا مقصد خون بہانا ہے جیساکہ نص سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے اور ولیمہ کا مقصد محض دعوت کرنا ہے خواہ کسی چیز سے ہو، اس میں استطاعت یا عدم استطاعت کی کوئی قید نہیں ہے ۔ عقیقہ وقربانی سے متعلق نصوص پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔
عقیقہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:معَ الغُلامِ عقيقةٌ فأَهريقوا عنهُ دَمًا وأميطوا عنهُ الأذَى(صحيح الترمذي:1515)
ترجمہ: لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ ہے، لہذا جانور ذبح کرکےاس کی طرف سے خون بہاؤ اوراس سے گندگی دورکرو۔
قربانی سے متعلق فرمان الہی اور فرمان نبوی پہ غور فرمائیں :
اللہ تعالی کا فرمان ہے : لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ(الحج :37) '
ترجمہ: اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت یا خون ہر گز نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :إذا رأيتم هلالَ ذي الحجةِ ، وأراد أحدكم أن يُضحِّي ، فليُمسك عن شعرِهِ وأظفارِهِ(صحيح مسلم:1977)
ترجمہ: جب ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
پہلے نص میں خون بہانے کا ذکر ہے ، دوسرے نص میں گوشت اور خون کا ذکر ہے اور تیسرے نص میں قربانی کا ذکر ہے ، ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ عقیقہ اور قربانی میں جانور ذبح کرنا ہے تبھی خون بہانے کا مقصد پورا ہوگا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ عقیقہ اور قربانی کے جانور کی بھی تخصیص کردی گئی ہے ۔
جہاں تک مسئلہ ولیمہ کی دعوت کا ہے تو اس سے مقصد یہ ہے کہ شادی کے بعد خوشی اور شکر باری تعالی کے طور پر لوگوں کو دعوت کھلائی جائے، یہ محض مسنون ہے ، اس کے ترک سے شادی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ اب دعوت کی نوعیت اپنی چاہت پہ منحصر ہے نہ کہ استطاعت پر۔ کسی کو گوشت کھلانا ہو اور کسی کو سبزی ترکاری پہ اکتفا کرنا ہو اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ رأى عبدَ الرحمنِ بنِ عوفٍ أثرَ صُفرةٍ، قال :ما هذا؟ . قال : إني تزوجت امرأةً على وزنِ نواةٍ من ذهبٍ، قال :بارك لك اللهُ، أولمْ ولو بشاةٍ .(صحيح البخاري:5155)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے مہر پر نکاح کیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے دعوت ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کی ہو ۔
نبی ﷺ کے اس فرمان "ولیمہ کرو گرچہ ایک بکری سے ہو" کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولیمہ کی کم ازکم حد بکری ذبح کرنا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اپنی مرضی سے جو کھلانا چاہتے ہو کھلاؤ مگر ولیمہ کروخواہ بکری ہو یا اور کچھ ۔ اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ کے ولیمہ کے پس منظر میں دیکھیں گے تو بات واضح ہوجائے گی۔
رسول اللہ ﷺنےخیبر سے واپسی پر صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور سفر میں ہی ولیمہ کی دعوت کی ، صحیح بخاری میں اس نکاح کے ولیمہ سے متعلق الفاظ ہیں :
فدعوت المسلمين إلى وليمته ، فما كان فيها من خبز ولا لحم ، امر بالانطاع فالقي فيها من التمر والاقط والسمن ، فكانت وليمته(صحیح البخاری:5159)
ترجمہ:راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ولیمہ پر بلایا لیکن اس دعوت میں روٹی اور گوشت نہیں تھا۔ آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور اس پر کھجور، پنیر اور گھی رکھ دیا گیا اور یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ولیمہ کا ذکر ہے کہ اس میں گوشت اور روٹی نہیں تھی یعنی کوئی جانور ذبح نہیں کیا گیا تھا بلکہ بغیر گوشت کے کھجور، پنیر اور گھی پہ اکتفا کیاگیا ، یہی رسول اللہ کا ولیمہ تھا حتی کہ یہ ولیمہ بھی نبی کریم ﷺنے صحابہ کے تعاون سے کیا تھاچنانچہ دلہا بننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن كان عندَه شيءٌ فلْيَجِئْ به ، وبسَطَ نِطْعًا ، فجَعَلَ الرجلُ يِجيءُ بالتمرِ ، وجعَلَ الرجلُ يِجيءُ بالسَّمْنِ ، قال : وأَحْسَبُه قد ذَكَرَ السَّويقَ ، قال : فحاسوا حَيْسًا ، فكانت وليمةَ رسولِ الله صلى الله عليه وسلم .(صحيح البخاري:371)
ترجمہ: جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو تو یہاں لائے، آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا، بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی، عبدالعزیز نے کہا کہ میرا خیال ہے انس رضی اللہ عنہ نے ستو کا بھی ذکر کیاپھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
آپ ﷺولیمہ کھلانے کی استطاعت رکھتے تھے ، اکیلے بھی کھلاسکتے تھے اور ولیمہ میں گوشت کا بھی انتطام کرسکتے تھے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اور ایسا بھی نہیں کہ ولیمہ کا یہ عمل نبی ﷺ کے ساتھ خاص ہے ، خصوصیت کی دلیل چاہئے ۔ اس وجہ سے ولیمہ کی دعوت کھلانے میں نہ تقریب کا اتعقاد ہے، نہ ہی اس کے لئے استطاعت شرط ہے اور نہ ہی کم ازکم بکری ذبح کرنا مقصد ہے بلکہ جو میسر ہو لوگوں کو کھلادینا کافی ہے حتی کہ گھر میں چند لوگوں کو بلاکر خاطر ومدارات کردی جائے تب بھی ولیمہ کا مقصد پورا ہوجائے گا۔نبی ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح پر گوشت کا بھی ولیمہ کیا تھا اس لئے کوئی بڑے کا گوشت کھلائے ، بکری کھلائے، مرغی کھلائے ، چاول سبزی کھلائے ان سب صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ) سعودی عرب
No comments:
Post a Comment