Aazab-E-Qaber KA Tazkera Quran MAjeed Me
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 عذاب القبر کا تذکرہ قرآن مجید میں
قرآن میں عذاب قبر سے متعلق روایات کی تصدیق موجود ہے
⚪ (۱) اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ ٰاٰیتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ (الانعام:۹۳)
’’کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جبکہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائیگا جو تم اللہ پر تہمت لگا کر ناحق بکا کرتے تھے اور اسکی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔
موت کے بعد سے قیامت کے دن تک جو عذاب اللہ کے نافرمان بندوں کو دیا جائے گا اسی کا نام عذاب القبر ہے۔ مرنے کے بعد میت کو عموماً زمین میں ہی گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا ہے اور پھر قیامت کے قائم ہونے تک نافرمانوں کو قبر کے اندر عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لہٰذا اسی مناسبت سے اس عذاب کو عذاب القبر کا نام دیا گیا ہے۔
حالانکہ عذاب کا یہ سلسلہ حالت نزع ہی سے جب کہ میت ابھی چارپائی پر ہوتی ہے شروع ہو جاتا ہے اور فرشتے اس کے چہرے اور پیٹھ پر ضربیں لگانی شروع کر دیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ اس عذاب کا کوئی حصہ دنیا والوں پر ظاہر کر دیتا تو پھر چارپائی نظر آتی اور نہ ہی اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ دکھائی دیتے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس عذاب کا تعلق غیب کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ زندہ انسانوں کے سامنے ابھی اسے ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا عموم بلوہ کی وجہ سے اس عذاب کا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر رکھا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص ہسپتال میں لوگوں کا علاج کرتا ہے تو لوگ اسے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اب یہی شخص نماز پڑھے تو لوگ کہتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر صاحب نماز پڑھ رہے ہیں‘‘ حالانکہ نماز پڑھتے ہوئے یہ شخص ڈاکٹری کا کوئی کام نہیں کر رہا ہوتا۔ اب تو اسے نمازی صاحب کہنا زیادہ مناسب تھا لیکن اس شخص کو کوئی عمل کرتے ہوئے کوئی شخص بھی دیکھے گا تو وہ بے ساختہ یہی کہے گا کہ ڈاکٹر صاحب فلاں کام کر رہے ہیں۔ اس مثال سے واضح ہوا کہ اس شخص کا نام ’’ڈاکٹر‘‘ عموم بلوہ کی وجہ سے پڑ گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین کرام s نے بھی یہ اور اس طرح کی دیگر آیات کو عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ عذاب قبر کا باب یوں قائم کرتے ہیں:
باب ما جاء فی عذاب القبر و قولہ تعالیٰ …… وہ (آیات و احادیث) جو عذاب قبر کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اسی آیت کو عذاب قبر کے سلسلہ میں بیان کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا خاص طور پر ذکر ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ موصوف کا دعویٰ ہے کہ وہ امام بخاری و امام ابوحنیفہ کے ساتھ ہیں جبکہ دلائل سے ثابت ہو گا کہ موصوف امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کیا کسی بھی محدث کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ موجودہ دور میں انہوں نے باطل فرقوں کے بوسیدہ دلائل میں پھر سے جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
⚪ (۲) دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ (الانفال:۵۰)
’’کاش تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے کافروں کی روحیں قبض کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کے چہروں اور ان کے کولہوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’’لو اب جلنے کی سزا بھگو‘‘۔
⚪ (۳) اسی طرح کا مضمون سورۃ محمد میں بھی ہے:
فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ (محمد:۲۷)
’’پھر اس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے‘‘۔
⚪ (۴) ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْآ ٰالَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (المؤمن:۴۵، ۴۶)
’’اور آل فرعون خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے جہنم کی آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت قائم ہو جائے گی تو حکم ہو گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کر دو‘‘۔
⚪ (۵) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے۔ فرعون جس کی لاش اللہ تعالیٰ نے عبرت کے لئے محفوظ فرما دی ہے:
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ ٰاٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ (یونس:۹۲)
’’پس آج ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لئے نشانی بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو عبرت کے لئے محفوظ فرما دیا جیسا کہ مرتد کاتب وحی جسے زمین نے اپنے اندر جگہ نہیں دی اور دفن کے بعد زمین نے اسے باہر اُگل دیا تھا (صحیح بخاری)۔
اب اگرچہ ان لاشوں پر عذاب کے کوئی اثرات ہمیں نظر نہیں آتے جیسا کہ قبض روح کے وقت مرنے والے پر عذاب یا پٹائی کا کوئی اثر ہم نہیں دیکھتے اور عذاب قبر کی واضح احادیث جن میں دفن کے بعد میت کے مبتلائے عذاب ہونے کا ذکر موجود ہے (اور جن کا بیان تفصیل سے عنقریب کیا جائے گا ان شاء اللہ العزیز) لیکن ان تمام معاملات کا تعلق پردہ غیب سے ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ اس آیت میں آل فرعون صبح و شام جس آگ پر پیش کئے جا رہے ہیں وہی عذاب قبر ہے جس میں اجسام (میتوں) کو آگ پر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ روحیں اول دن سے جہنم میں داخل ہو کر سزا بھگت رہی ہیں۔ اور قیامت کے دن وہ جس اشد العذاب میں داخل ہوں گے اس سے جہنم کا عذاب مراد ہے جس میں وہ روح و جسم دنوں کے ساتھ داخل ہوں گے۔ کیونکہ قیامت کے دن عذاب قبر ختم ہو جائے گا اور صرف عذاب جہنم باقی رہ جائے گا۔
سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ (التوبۃ:۱۰۱)
عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے، پھر انہیں بڑے عذاب کے لئے (جہنم کی طرف) لوٹایا جائے گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے اس آیت میں دوہرے عذاب سے دنیا اور پھر قبر کا عذاب مراد ہے۔ اور عذاب عظیم سے قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے۔
⚪ (۶) قوم نوح کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مِمَّا خَطِیْئٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا
’’اپنے گناہوں کے سبب سے وہ غرق کر دیئے گئے پھر (جہنم کی) آگ میں داخل کر دیئے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا انہوں نے اپنے لئے کوئی بھی مددگار نہ پایا‘‘۔ (نوح:۲۵)
اس آیت سے واضح ہوا کہ قوم نوح غرق ہوتے ہی جہنم کی آگ میں داخل ہو گئی اور عذاب کا سلسلہ ان پر جاری ہو گیا۔
⚪ (۷) سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں نے ان پیغمبروں کی بات نہ مانی اور کفر پر مر گئیں۔ چنانچہ موت کے وقت ان سے کہا گیا: وَ قِیْلَ ادْخُلِ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ
اور ان سے کہا گیا کہ تم دونوں جہنم میں داخل ہو جاؤ داخل ہونے والوں کے ساتھ (التحریم:۱۰)
⚪ (۸) اہل السنۃ والجماعۃ کا عذاب قبر کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ عذاب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد روح جنت یا جہنم میں داخل کر دی جاتی ہے جبکہ جسم اپنی قبر میں عذاب یا ثواب سے ہمکنار ہوتا رہتا ہے اور یہی عقیدہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اس لئے کہ اگر روح جسم میں واپس آجائے تو پھر یہ عذاب مردہ کو نہیں بلکہ زندہ کو ہوا جبکہ احادیث صحیحہ وضاحت کرتی ہیں کہ عذاب قبر میت (مردہ) کو ہوتا ہے۔ البتہ سوال و جواب کے لئے میت کی طرف روح کو کچھ دیر کے لئے لوٹایا جاتا ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور روح کے لوٹ جانے کی وہ کیفیت نہیں ہوتی جو دنیا میں تھی بلکہ یہ اعادہ دنیا کے اعادہ کی طرح نہیں ہوتا جیسا کہ عقیدہ طحاویہ کے شارح نے ذکر فرمایا ہے۔
سورۃ نوح کی آیت ۲۵ سے معلوم ہوا کہ پانی میں جسم غرق ہوئے اور جہنم میں جسموں کو نہیں بلکہ ان کی روحوں کو داخل کیا گیا۔ البتہ جسم بھی روح کے ساتھ عذاب میں شریک ہیں۔ جیسا کہ عذاب قبر کی احادیث سے یہ مسئلہ واضح ہے اور ہمارے لئے عذاب کے ان اثرات کو دیکھنا اور محسوس کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ غیب کا معاملہ ہے جسے حواس محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔
راحت قبر کے متعلق بھی چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:۲۷۔۳۰)۔
’’اے نفس مطمئن: چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔
احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ میت سے اس طرح کا خطاب موت کے وقت کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: (مسند احمد (۲/۳۶۴)، سنن النسائی کتاب الجنائز:۱۸۳۳، صحیح ابن حبان رقم ۳۰۰۳، مستدرک لامام حاکم (۱/۳۵۲، ۳۵۳)،
⚪ (۹) سورۃ یٰسین میں ایک مرد مؤمن کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس نے پیغمبروں کی حمایت کی اور اپنی قوم کے سامنے اپنے ایمان کا برملا اظہار کیا اور جس کی پاداش میں اسے شہید کر دیا گیا۔ آگے ارشاد ہوتا ہے:
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ ٰیلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ (یٰسین:۲۷۔۲۸)
’’اُس شخص سے کہا گیا کہ ’’جنت میں داخل ہو جاؤ‘‘ اس نے کہا کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے باعزت لوگوں میں کر دیا‘‘ ۔
⚪ (۱۰) الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (سورئہ النحل:۳۲)
وہ پاک (صالح) لوگ کہ جن کی روحیں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں سلام علیکم (تم پر سلام ہو) تم جو عمل کرتے رہے ہو ان کے بدلے میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قبض ارواح کے بعد ہی ارواح کو جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ تلک عشرۃ کاملہ۔
قرآن کریم کی ان آیات کو سلف صالحین نے ثواب و عذاب قبر کے سلسلہ میں پیش فرمایا ہے۔
🌏 عذاب القبر کا ذکر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں
عذاب قبر کی واضح اور مکمل تفصیلات احادیث صحیحہ میں بیان کی گئی ہیں۔
عذاب قبر کے سلسلہ میں بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں سے ہم صرف چند ہی احادیث کا یہاں ذکر کرتے ہیں ۔
⚪1 پہلی حدیث: سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت:
یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔ (ابراہیم:۲۷)۔
کے متعلق فرمایا کہ
یہ آیت عذاب القبر کے بارے میں نازل ہوئی۔ (قبر میں میت سے) کہا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔
(صحیح مسلم کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و اھلھا باب عرض المقعد علی المیت و عذاب القبر نیز ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب اثبات عذاب القبر)۔
صحیح بخاری میں جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب مومن کو اس کی قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں پھر وہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے
پس یہی مطلب ہے آیت: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِکا۔ (بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ مسلم سے جب قبر میں سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دیتا ہے اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ
’’اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھتا ہے اہل ایمان کو قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔
(بخاری کتاب التفسیر باب: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ۴۶۹۹)
اس حدیث سے واضح ہوا کہ عذاب القبر کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے اور سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ۲۷ عذاب القبر ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور قبر میں میت کو اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے (جیسا کہ صحیح بخاری کی اسی حدیث میں یہ بات موجود ہے) اور اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ قبر کاسوال و جواب حق ہے اور اہل اسلام میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ تمام اہل ایمان قبر کے سوال و جواب پر ایمان رکھتے ہیں۔ سوال و جواب کے وقت روح کو بھی قبر کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ اور قبر کے مسئلے کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے اس لئے اسے دنیا کی زندگی پر قیاس کرنا گمراہی اور جہالت ہے کیونکہ میت کی دنیاوی زندگی ختم ہو چکی ہے اوراب وہ آخرت کے مراحل سے گذر رہی ہے۔
منکرین عذاب القبر احادیث کے انکار میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ وہ حدیث پر تنقید کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بھی ارتکاب کر جاتے ہیں اور یہ تک نہیں سمجھتے کہ ان کے قلم نے کیا لکھ مارا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر عثمانی صاحب کا ایک انتہائی اندھا مقلد اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاہے:
’’اسی طرح یہ فرقہ پرست اور قبر پرست قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے ارضی قبر کی زندگی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں … اللہ تعالیٰ ایمان داروں کو دنیا میں بھی ثابت قدم رکھے گا اور آخرت میں بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ایمانداروں کی مدد کرے گا۔ چونکہ اس آیت کا ذکر بخاری کی حدیث میں عذاب القبر کے ساتھ کیا گیا ہے اس لئے بعض جاہل اور گمراہ بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے عقیدے (مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے) (حالانکہ کسی کا بھی یہ عقیدہ نہیں ۔ ابوجابر) کا ثبوت قرآن کی یہ آیت ہے‘‘۔ (دعوت قرآن اور یہ فرقہ پرستی ص۶۷)
یہ ہے ابوانور گدون کی ’’دعوت قرآن‘‘ اور ان کا ’’ایمان خالص‘‘۔ اس آیت کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ اس کا تعلق عذاب القبر کے ساتھ ہے لیکن موصوف نے فتویٰ لگایا ہے ’’فرقہ پرست‘‘ ’’قبر پرست‘‘ ’’جاہل‘‘ ’’گمراہ‘‘ ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر توہین کرنے والا کبھی مومن نہیں ہو سکتا اور ایسے شخص کی موت کفر کے علاوہ کسی اور چیز پر نہیں ہو سکتی۔ اور شیطان رُشدی جیسے لوگوں کا انجام اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ و ذالک جزاء الظالمین۔ تفصیل کے لئے ہماری کتاب ’’دعوت قرآن کے نام سے قرآن و حدیث سے انحراف‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
⚪ (2)۔ دوسری حدیث: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں اور وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبز و شادابی سے بھر دیا جاتا ہے۔ پھر سیدنا قتادہ رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف پلٹے یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بقیہ حدیث بیان کی۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: اور منافق یا کافر سے کہا جاتا ہے کہ تو اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ میں وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے۔ پس اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ قرآن پڑھا (اور اس سے رہنمائی حاصل کی) یہ کہہ کر اُسے لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں‘‘۔
(صحیح بخاری کتاب الجنائز۔ باب ما جاء فی عذاب القبر۔ صحیح مسلم کتاب الجنۃ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا قول صحیح مسلم میں ہے)۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اسے قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور اس سے سوال و جواب ہوتاہے۔ مومن کو قبر میں راحت و آرام ملتا ہے جبکہ منافق و کافر کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ اس حدیث میںیہ بھی ہے کہ میت دفن کر کے واپس جانے والے ساتھیوں کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ میت یہ جان لے کہ جس اہل و عیال کے لئے اس نے آخرت کو فراموش کر رکھا تھا آج وہ اسے تنہا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور قبر میں ایمان اور نیک اعمال کے سوا کوئی چیز اسے نجات نہیں دلا سکتی۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس حصہ کوخلاف قرآن قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ حدیث خلاف قرآن نہیں بلکہ ایک استثنائی صورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے مردار کی مثال پچھلے اوراق میں بیان کی تھی۔ نیز قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ ’’آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ یعنی مردوں کو سنانا آپ کے اختیار میں نہیں ہے لیکن جوتوں کی چاپ مردوں کو اللہ تعالیٰ سناتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
ان اللّٰہ یسمع من یشآء
بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا دے۔
گویا اللہ تعالیٰ اگر کسی مردے کو کچھ سنانا چاہے تو وہ اس بات پر قادر ہے جیسا کہ وہ مردوں کو دفن کے بعد جوتوں کی آواز سناتا ہے لہٰذا اس حدیث پر منکرین کا اعتراض سرے سے غلط ہے۔ میت کے جوتیوں کی آواز سننے کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے اور یہ صحیح ترین احادیث ہیں لہٰذا ان احادیث کا انکار گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔
عثمانی فرقہ کے بانی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے بھی اس حدیث کو صحیح مانا ہے لیکن اس کی تاویل کی ہے۔ اس کا پہلے یہ کہنا تھا کہ اس حدیث میں حقیقت نہیں بلکہ مجاز بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جوتیوں کی آواز سنی جا سکتی ہے کہ میت کے پاس فرشتے آجاتے ہیں اور یہ تأویل اس نے بعض دیوبندی علماء کی کتابوں سے اخذ کی ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اس حدیث کی دوسری تأویل یہ پیش کی کہ میت فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتی ہے۔ لیکن (اول) تو اس حدیث کا سیاق و سباق ہی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ (دوم) اس کے بعد والی صحیح بخاری کی حدیث اس حدیث کی مزید وضاحت و تشریح بیان کرتی ہے۔ اور (سوم) صحیح مسلم کی مختصر حدیث اس بات کی تأویل کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان المیت اذا وضع فی قبرہ انہ لیسمع خفق نعالھم اذا انصرفوا
’’بے شک جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے جبکہ وہ (اسے دفنا کر) واپس لوٹتے ہیں‘‘۔
(صحیح مسلم کتاب الجنتہ)۔
اس حدیث میں فرشتوں کے آنے کا ذکر ہی نہیں ہے اور صرف دفن کر کے واپس لوٹنے والوں کا ذکر ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے وہ باطل مفروضہ پاش پاش ہو جاتا ہے مگر افسوس کہ جو لوگ قرآن و حدیث کے بجائے ڈاکٹر موصوف پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ ڈاکٹر موصوف کی اس باطل تأویل کو درست مانتے ہیں اور صحیح حدیث کو رَدّ کر دیتے ہیں۔ قل بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کنتم مومنین۔
⏪قبر کا حقیقی مفہوم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
قرآن کریم کی طرح احادیث میں بھی قبر کا لفظ اسی ارضی قبر کے لئے استعمال کیا گیا ہے اگر ہم صرف صحاح ستہ ہی کی احادیث نقل کریں تو مضمون کافی طویل ہو جائے گا لہٰذا ہم عثمانی صاحب کی کتاب ’’یہ قبریں یہ آستانے‘‘ ہی سے چند احادیث نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں
⚪ (3)۔ تیسری حدیث:عن جندب رضی اللہ عنہ قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول الا وان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیائھم و صالحیھم مساجد الا فلا تتخذوا القبور مساجد انی انھاکم عن ذالک (مشکوۃ ص:۶۹ (رواہ مسلم)
جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں، انہوں نے اپنے انبیاء اور اپنے اولیاء کی قبروں کو عبادت گاہ اور سجدہ گاہ بنایا تھا۔ سنو! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں اس فعل سے تم کو منع کرتا ہوں۔
⚪ (4)۔ چوتھی حدیث:عن جابر رضی اللہ عنہ قال نھی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یجصص القبر و ان یبنی علیہ وان یقعد علیہ (رواہ مسلم۔ مشکوۃ ص:۱۴۸)
جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے سے منع فرمایا اور اس سے بھی کہ قبر کے اوپر کوئی عمارت بنائی جائے یا قبر پر بیٹھا جائے۔ (مسلم)۔
⚪ (5)۔ پانچویں حدیث: عن ثمامۃ بن شفی قال کنا مع فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ بارض روم برودس فتوفی صاحب لنا فامر فضالۃ بقبرہ فسوی ثم قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یامر بتسویتھا (مسلم)
ثمامہ بن شفی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ ارضِ روم کے جزیرہ رودس میں تھے کہ ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہو گیا۔ فضالہ رضی اللہ عنہ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم ان کی قبر کو برابر کر دیں پھر فرمایا کہ میں نے نبی کو ایسا ہی حکم دیتے ہوئے سنا ہے۔ (مسلم جلد ص۳۵ مصری)۔
⚪ (6)۔ چھٹی حدیث: عن ابی الھیاج الاسدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ (رواہ مسلم)
ابو الہیاج اسدی روایت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ اے ابو الہیاج کیا میں تم کو اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا اور وہ کام یہ ہے کہ جاؤ اور جو تصویر تم کو نظر آئے اس کو مٹا دو اور جو قبر اونچی ملے اسے برابر کر دو۔ (مشکوۃ ص ۱۴۸، مسلم)۔
(بحوالہ یہ قبریں آستانے ص۲، ۵،۶)
ان احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ قبروں سے مراد یہی ارضی قبریں ہیں اور کتاب کا نام ’’یہ قبریں یہ آستانے‘‘ بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ’’یہ قبریں‘‘ میں یہ اسم اشارہ قریب کے لئے ہے جو انہیں ارضی قبروں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ موصوف نے یہ کتابچہ بھی قبر پرستی کے خلاف ہی لکھا ہے۔ عوام انہی قبروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں اور وہاں جا جا کر نذر ونیاز اور چڑھاوتے چڑھاتے ہیں، کوئی شخص بھی کسی برزخی قبر پر یہ سب کچھ کرنے کے لئے نہیں جاتا۔
🌏 عذاب القبر کا تذکرہ قرآن مجید میں
قرآن میں عذاب قبر سے متعلق روایات کی تصدیق موجود ہے
⚪ (۱) اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ ٰاٰیتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ (الانعام:۹۳)
’’کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جبکہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائیگا جو تم اللہ پر تہمت لگا کر ناحق بکا کرتے تھے اور اسکی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔
موت کے بعد سے قیامت کے دن تک جو عذاب اللہ کے نافرمان بندوں کو دیا جائے گا اسی کا نام عذاب القبر ہے۔ مرنے کے بعد میت کو عموماً زمین میں ہی گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا ہے اور پھر قیامت کے قائم ہونے تک نافرمانوں کو قبر کے اندر عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لہٰذا اسی مناسبت سے اس عذاب کو عذاب القبر کا نام دیا گیا ہے۔
حالانکہ عذاب کا یہ سلسلہ حالت نزع ہی سے جب کہ میت ابھی چارپائی پر ہوتی ہے شروع ہو جاتا ہے اور فرشتے اس کے چہرے اور پیٹھ پر ضربیں لگانی شروع کر دیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ اس عذاب کا کوئی حصہ دنیا والوں پر ظاہر کر دیتا تو پھر چارپائی نظر آتی اور نہ ہی اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ دکھائی دیتے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس عذاب کا تعلق غیب کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ زندہ انسانوں کے سامنے ابھی اسے ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا عموم بلوہ کی وجہ سے اس عذاب کا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر رکھا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص ہسپتال میں لوگوں کا علاج کرتا ہے تو لوگ اسے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اب یہی شخص نماز پڑھے تو لوگ کہتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر صاحب نماز پڑھ رہے ہیں‘‘ حالانکہ نماز پڑھتے ہوئے یہ شخص ڈاکٹری کا کوئی کام نہیں کر رہا ہوتا۔ اب تو اسے نمازی صاحب کہنا زیادہ مناسب تھا لیکن اس شخص کو کوئی عمل کرتے ہوئے کوئی شخص بھی دیکھے گا تو وہ بے ساختہ یہی کہے گا کہ ڈاکٹر صاحب فلاں کام کر رہے ہیں۔ اس مثال سے واضح ہوا کہ اس شخص کا نام ’’ڈاکٹر‘‘ عموم بلوہ کی وجہ سے پڑ گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین کرام s نے بھی یہ اور اس طرح کی دیگر آیات کو عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ عذاب قبر کا باب یوں قائم کرتے ہیں:
باب ما جاء فی عذاب القبر و قولہ تعالیٰ …… وہ (آیات و احادیث) جو عذاب قبر کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اسی آیت کو عذاب قبر کے سلسلہ میں بیان کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا خاص طور پر ذکر ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ موصوف کا دعویٰ ہے کہ وہ امام بخاری و امام ابوحنیفہ کے ساتھ ہیں جبکہ دلائل سے ثابت ہو گا کہ موصوف امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کیا کسی بھی محدث کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ موجودہ دور میں انہوں نے باطل فرقوں کے بوسیدہ دلائل میں پھر سے جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
⚪ (۲) دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ (الانفال:۵۰)
’’کاش تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے کافروں کی روحیں قبض کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کے چہروں اور ان کے کولہوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’’لو اب جلنے کی سزا بھگو‘‘۔
⚪ (۳) اسی طرح کا مضمون سورۃ محمد میں بھی ہے:
فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ (محمد:۲۷)
’’پھر اس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے‘‘۔
⚪ (۴) ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْآ ٰالَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (المؤمن:۴۵، ۴۶)
’’اور آل فرعون خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے جہنم کی آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت قائم ہو جائے گی تو حکم ہو گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کر دو‘‘۔
⚪ (۵) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے۔ فرعون جس کی لاش اللہ تعالیٰ نے عبرت کے لئے محفوظ فرما دی ہے:
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ ٰاٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ (یونس:۹۲)
’’پس آج ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لئے نشانی بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو عبرت کے لئے محفوظ فرما دیا جیسا کہ مرتد کاتب وحی جسے زمین نے اپنے اندر جگہ نہیں دی اور دفن کے بعد زمین نے اسے باہر اُگل دیا تھا (صحیح بخاری)۔
اب اگرچہ ان لاشوں پر عذاب کے کوئی اثرات ہمیں نظر نہیں آتے جیسا کہ قبض روح کے وقت مرنے والے پر عذاب یا پٹائی کا کوئی اثر ہم نہیں دیکھتے اور عذاب قبر کی واضح احادیث جن میں دفن کے بعد میت کے مبتلائے عذاب ہونے کا ذکر موجود ہے (اور جن کا بیان تفصیل سے عنقریب کیا جائے گا ان شاء اللہ العزیز) لیکن ان تمام معاملات کا تعلق پردہ غیب سے ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ اس آیت میں آل فرعون صبح و شام جس آگ پر پیش کئے جا رہے ہیں وہی عذاب قبر ہے جس میں اجسام (میتوں) کو آگ پر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ روحیں اول دن سے جہنم میں داخل ہو کر سزا بھگت رہی ہیں۔ اور قیامت کے دن وہ جس اشد العذاب میں داخل ہوں گے اس سے جہنم کا عذاب مراد ہے جس میں وہ روح و جسم دنوں کے ساتھ داخل ہوں گے۔ کیونکہ قیامت کے دن عذاب قبر ختم ہو جائے گا اور صرف عذاب جہنم باقی رہ جائے گا۔
سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ (التوبۃ:۱۰۱)
عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے، پھر انہیں بڑے عذاب کے لئے (جہنم کی طرف) لوٹایا جائے گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے اس آیت میں دوہرے عذاب سے دنیا اور پھر قبر کا عذاب مراد ہے۔ اور عذاب عظیم سے قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے۔
⚪ (۶) قوم نوح کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مِمَّا خَطِیْئٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا
’’اپنے گناہوں کے سبب سے وہ غرق کر دیئے گئے پھر (جہنم کی) آگ میں داخل کر دیئے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا انہوں نے اپنے لئے کوئی بھی مددگار نہ پایا‘‘۔ (نوح:۲۵)
اس آیت سے واضح ہوا کہ قوم نوح غرق ہوتے ہی جہنم کی آگ میں داخل ہو گئی اور عذاب کا سلسلہ ان پر جاری ہو گیا۔
⚪ (۷) سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں نے ان پیغمبروں کی بات نہ مانی اور کفر پر مر گئیں۔ چنانچہ موت کے وقت ان سے کہا گیا: وَ قِیْلَ ادْخُلِ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ
اور ان سے کہا گیا کہ تم دونوں جہنم میں داخل ہو جاؤ داخل ہونے والوں کے ساتھ (التحریم:۱۰)
⚪ (۸) اہل السنۃ والجماعۃ کا عذاب قبر کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ عذاب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد روح جنت یا جہنم میں داخل کر دی جاتی ہے جبکہ جسم اپنی قبر میں عذاب یا ثواب سے ہمکنار ہوتا رہتا ہے اور یہی عقیدہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اس لئے کہ اگر روح جسم میں واپس آجائے تو پھر یہ عذاب مردہ کو نہیں بلکہ زندہ کو ہوا جبکہ احادیث صحیحہ وضاحت کرتی ہیں کہ عذاب قبر میت (مردہ) کو ہوتا ہے۔ البتہ سوال و جواب کے لئے میت کی طرف روح کو کچھ دیر کے لئے لوٹایا جاتا ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور روح کے لوٹ جانے کی وہ کیفیت نہیں ہوتی جو دنیا میں تھی بلکہ یہ اعادہ دنیا کے اعادہ کی طرح نہیں ہوتا جیسا کہ عقیدہ طحاویہ کے شارح نے ذکر فرمایا ہے۔
سورۃ نوح کی آیت ۲۵ سے معلوم ہوا کہ پانی میں جسم غرق ہوئے اور جہنم میں جسموں کو نہیں بلکہ ان کی روحوں کو داخل کیا گیا۔ البتہ جسم بھی روح کے ساتھ عذاب میں شریک ہیں۔ جیسا کہ عذاب قبر کی احادیث سے یہ مسئلہ واضح ہے اور ہمارے لئے عذاب کے ان اثرات کو دیکھنا اور محسوس کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ غیب کا معاملہ ہے جسے حواس محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔
راحت قبر کے متعلق بھی چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:۲۷۔۳۰)۔
’’اے نفس مطمئن: چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔
احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ میت سے اس طرح کا خطاب موت کے وقت کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: (مسند احمد (۲/۳۶۴)، سنن النسائی کتاب الجنائز:۱۸۳۳، صحیح ابن حبان رقم ۳۰۰۳، مستدرک لامام حاکم (۱/۳۵۲، ۳۵۳)،
⚪ (۹) سورۃ یٰسین میں ایک مرد مؤمن کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس نے پیغمبروں کی حمایت کی اور اپنی قوم کے سامنے اپنے ایمان کا برملا اظہار کیا اور جس کی پاداش میں اسے شہید کر دیا گیا۔ آگے ارشاد ہوتا ہے:
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ ٰیلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ (یٰسین:۲۷۔۲۸)
’’اُس شخص سے کہا گیا کہ ’’جنت میں داخل ہو جاؤ‘‘ اس نے کہا کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے باعزت لوگوں میں کر دیا‘‘ ۔
⚪ (۱۰) الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (سورئہ النحل:۳۲)
وہ پاک (صالح) لوگ کہ جن کی روحیں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں سلام علیکم (تم پر سلام ہو) تم جو عمل کرتے رہے ہو ان کے بدلے میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قبض ارواح کے بعد ہی ارواح کو جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ تلک عشرۃ کاملہ۔
قرآن کریم کی ان آیات کو سلف صالحین نے ثواب و عذاب قبر کے سلسلہ میں پیش فرمایا ہے۔
🌏 عذاب القبر کا ذکر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں
عذاب قبر کی واضح اور مکمل تفصیلات احادیث صحیحہ میں بیان کی گئی ہیں۔
عذاب قبر کے سلسلہ میں بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں سے ہم صرف چند ہی احادیث کا یہاں ذکر کرتے ہیں ۔
⚪1 پہلی حدیث: سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت:
یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔ (ابراہیم:۲۷)۔
کے متعلق فرمایا کہ
یہ آیت عذاب القبر کے بارے میں نازل ہوئی۔ (قبر میں میت سے) کہا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔
(صحیح مسلم کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و اھلھا باب عرض المقعد علی المیت و عذاب القبر نیز ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب اثبات عذاب القبر)۔
صحیح بخاری میں جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب مومن کو اس کی قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں پھر وہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے
پس یہی مطلب ہے آیت: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِکا۔ (بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ مسلم سے جب قبر میں سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دیتا ہے اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ
’’اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھتا ہے اہل ایمان کو قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔
(بخاری کتاب التفسیر باب: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ۴۶۹۹)
اس حدیث سے واضح ہوا کہ عذاب القبر کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے اور سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ۲۷ عذاب القبر ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور قبر میں میت کو اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے (جیسا کہ صحیح بخاری کی اسی حدیث میں یہ بات موجود ہے) اور اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ قبر کاسوال و جواب حق ہے اور اہل اسلام میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ تمام اہل ایمان قبر کے سوال و جواب پر ایمان رکھتے ہیں۔ سوال و جواب کے وقت روح کو بھی قبر کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ اور قبر کے مسئلے کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے اس لئے اسے دنیا کی زندگی پر قیاس کرنا گمراہی اور جہالت ہے کیونکہ میت کی دنیاوی زندگی ختم ہو چکی ہے اوراب وہ آخرت کے مراحل سے گذر رہی ہے۔
منکرین عذاب القبر احادیث کے انکار میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ وہ حدیث پر تنقید کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بھی ارتکاب کر جاتے ہیں اور یہ تک نہیں سمجھتے کہ ان کے قلم نے کیا لکھ مارا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر عثمانی صاحب کا ایک انتہائی اندھا مقلد اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاہے:
’’اسی طرح یہ فرقہ پرست اور قبر پرست قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے ارضی قبر کی زندگی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں … اللہ تعالیٰ ایمان داروں کو دنیا میں بھی ثابت قدم رکھے گا اور آخرت میں بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ایمانداروں کی مدد کرے گا۔ چونکہ اس آیت کا ذکر بخاری کی حدیث میں عذاب القبر کے ساتھ کیا گیا ہے اس لئے بعض جاہل اور گمراہ بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے عقیدے (مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے) (حالانکہ کسی کا بھی یہ عقیدہ نہیں ۔ ابوجابر) کا ثبوت قرآن کی یہ آیت ہے‘‘۔ (دعوت قرآن اور یہ فرقہ پرستی ص۶۷)
یہ ہے ابوانور گدون کی ’’دعوت قرآن‘‘ اور ان کا ’’ایمان خالص‘‘۔ اس آیت کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ اس کا تعلق عذاب القبر کے ساتھ ہے لیکن موصوف نے فتویٰ لگایا ہے ’’فرقہ پرست‘‘ ’’قبر پرست‘‘ ’’جاہل‘‘ ’’گمراہ‘‘ ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر توہین کرنے والا کبھی مومن نہیں ہو سکتا اور ایسے شخص کی موت کفر کے علاوہ کسی اور چیز پر نہیں ہو سکتی۔ اور شیطان رُشدی جیسے لوگوں کا انجام اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ و ذالک جزاء الظالمین۔ تفصیل کے لئے ہماری کتاب ’’دعوت قرآن کے نام سے قرآن و حدیث سے انحراف‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
⚪ (2)۔ دوسری حدیث: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں اور وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبز و شادابی سے بھر دیا جاتا ہے۔ پھر سیدنا قتادہ رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف پلٹے یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بقیہ حدیث بیان کی۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: اور منافق یا کافر سے کہا جاتا ہے کہ تو اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ میں وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے۔ پس اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ قرآن پڑھا (اور اس سے رہنمائی حاصل کی) یہ کہہ کر اُسے لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں‘‘۔
(صحیح بخاری کتاب الجنائز۔ باب ما جاء فی عذاب القبر۔ صحیح مسلم کتاب الجنۃ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا قول صحیح مسلم میں ہے)۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اسے قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور اس سے سوال و جواب ہوتاہے۔ مومن کو قبر میں راحت و آرام ملتا ہے جبکہ منافق و کافر کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ اس حدیث میںیہ بھی ہے کہ میت دفن کر کے واپس جانے والے ساتھیوں کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ میت یہ جان لے کہ جس اہل و عیال کے لئے اس نے آخرت کو فراموش کر رکھا تھا آج وہ اسے تنہا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور قبر میں ایمان اور نیک اعمال کے سوا کوئی چیز اسے نجات نہیں دلا سکتی۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس حصہ کوخلاف قرآن قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ حدیث خلاف قرآن نہیں بلکہ ایک استثنائی صورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے مردار کی مثال پچھلے اوراق میں بیان کی تھی۔ نیز قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ ’’آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ یعنی مردوں کو سنانا آپ کے اختیار میں نہیں ہے لیکن جوتوں کی چاپ مردوں کو اللہ تعالیٰ سناتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
ان اللّٰہ یسمع من یشآء
بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا دے۔
گویا اللہ تعالیٰ اگر کسی مردے کو کچھ سنانا چاہے تو وہ اس بات پر قادر ہے جیسا کہ وہ مردوں کو دفن کے بعد جوتوں کی آواز سناتا ہے لہٰذا اس حدیث پر منکرین کا اعتراض سرے سے غلط ہے۔ میت کے جوتیوں کی آواز سننے کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے اور یہ صحیح ترین احادیث ہیں لہٰذا ان احادیث کا انکار گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔
عثمانی فرقہ کے بانی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے بھی اس حدیث کو صحیح مانا ہے لیکن اس کی تاویل کی ہے۔ اس کا پہلے یہ کہنا تھا کہ اس حدیث میں حقیقت نہیں بلکہ مجاز بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جوتیوں کی آواز سنی جا سکتی ہے کہ میت کے پاس فرشتے آجاتے ہیں اور یہ تأویل اس نے بعض دیوبندی علماء کی کتابوں سے اخذ کی ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اس حدیث کی دوسری تأویل یہ پیش کی کہ میت فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتی ہے۔ لیکن (اول) تو اس حدیث کا سیاق و سباق ہی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ (دوم) اس کے بعد والی صحیح بخاری کی حدیث اس حدیث کی مزید وضاحت و تشریح بیان کرتی ہے۔ اور (سوم) صحیح مسلم کی مختصر حدیث اس بات کی تأویل کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان المیت اذا وضع فی قبرہ انہ لیسمع خفق نعالھم اذا انصرفوا
’’بے شک جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے جبکہ وہ (اسے دفنا کر) واپس لوٹتے ہیں‘‘۔
(صحیح مسلم کتاب الجنتہ)۔
اس حدیث میں فرشتوں کے آنے کا ذکر ہی نہیں ہے اور صرف دفن کر کے واپس لوٹنے والوں کا ذکر ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے وہ باطل مفروضہ پاش پاش ہو جاتا ہے مگر افسوس کہ جو لوگ قرآن و حدیث کے بجائے ڈاکٹر موصوف پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ ڈاکٹر موصوف کی اس باطل تأویل کو درست مانتے ہیں اور صحیح حدیث کو رَدّ کر دیتے ہیں۔ قل بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کنتم مومنین۔
⏪قبر کا حقیقی مفہوم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
قرآن کریم کی طرح احادیث میں بھی قبر کا لفظ اسی ارضی قبر کے لئے استعمال کیا گیا ہے اگر ہم صرف صحاح ستہ ہی کی احادیث نقل کریں تو مضمون کافی طویل ہو جائے گا لہٰذا ہم عثمانی صاحب کی کتاب ’’یہ قبریں یہ آستانے‘‘ ہی سے چند احادیث نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں
⚪ (3)۔ تیسری حدیث:عن جندب رضی اللہ عنہ قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول الا وان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیائھم و صالحیھم مساجد الا فلا تتخذوا القبور مساجد انی انھاکم عن ذالک (مشکوۃ ص:۶۹ (رواہ مسلم)
جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں، انہوں نے اپنے انبیاء اور اپنے اولیاء کی قبروں کو عبادت گاہ اور سجدہ گاہ بنایا تھا۔ سنو! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں اس فعل سے تم کو منع کرتا ہوں۔
⚪ (4)۔ چوتھی حدیث:عن جابر رضی اللہ عنہ قال نھی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یجصص القبر و ان یبنی علیہ وان یقعد علیہ (رواہ مسلم۔ مشکوۃ ص:۱۴۸)
جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے سے منع فرمایا اور اس سے بھی کہ قبر کے اوپر کوئی عمارت بنائی جائے یا قبر پر بیٹھا جائے۔ (مسلم)۔
⚪ (5)۔ پانچویں حدیث: عن ثمامۃ بن شفی قال کنا مع فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ بارض روم برودس فتوفی صاحب لنا فامر فضالۃ بقبرہ فسوی ثم قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یامر بتسویتھا (مسلم)
ثمامہ بن شفی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ ارضِ روم کے جزیرہ رودس میں تھے کہ ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہو گیا۔ فضالہ رضی اللہ عنہ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم ان کی قبر کو برابر کر دیں پھر فرمایا کہ میں نے نبی کو ایسا ہی حکم دیتے ہوئے سنا ہے۔ (مسلم جلد ص۳۵ مصری)۔
⚪ (6)۔ چھٹی حدیث: عن ابی الھیاج الاسدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ (رواہ مسلم)
ابو الہیاج اسدی روایت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ اے ابو الہیاج کیا میں تم کو اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا اور وہ کام یہ ہے کہ جاؤ اور جو تصویر تم کو نظر آئے اس کو مٹا دو اور جو قبر اونچی ملے اسے برابر کر دو۔ (مشکوۃ ص ۱۴۸، مسلم)۔
(بحوالہ یہ قبریں آستانے ص۲، ۵،۶)
ان احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ قبروں سے مراد یہی ارضی قبریں ہیں اور کتاب کا نام ’’یہ قبریں یہ آستانے‘‘ بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ’’یہ قبریں‘‘ میں یہ اسم اشارہ قریب کے لئے ہے جو انہیں ارضی قبروں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ موصوف نے یہ کتابچہ بھی قبر پرستی کے خلاف ہی لکھا ہے۔ عوام انہی قبروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں اور وہاں جا جا کر نذر ونیاز اور چڑھاوتے چڑھاتے ہیں، کوئی شخص بھی کسی برزخی قبر پر یہ سب کچھ کرنے کے لئے نہیں جاتا۔
No comments:
Post a Comment