Kya Kisi Shakhs Ke Dar Se MAsjid Me Nahi Jakar Ghar Pe NAmaj Padh Sakte HAi?
بہنا میرا سوال ہے محلے کی مسجد میرے گھر کے بہت نزدیک ہے مگر ایک بندا زاتی دشمنی کے تحت مجھے مسجد میں نماز پڑھنے نہیں دیتا کیا میری نماز گھر میں ہوگی جواب فرمادیں جزاک اللہ خیرا
__________________________۔
پنجگانہ نمازیں مسجد میں با جماعت پڑھنا واجب ہے۔ ایک عقلمند مرد کے لئے مسجد میں باجماعت نماز چهوڑنے کے عذروں میں سے یہ ہے کہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسجد تک جانا دشوار ہے، یا کہ کسی کو اپنی جان پر خطرہ ہے کہ اگر وہ مسجد میں نماز پڑهنا جائے گا تو کوئی اس کو راستے میں یا مسجد میں قتل کردے گا، یا اس کو پکڑے گا اور ظلم وزبردستی اس کو جیل میں ڈالے گا، یا کہ ایسا مریض شخص کی عیادت کرے اگر وہ اس مریض کو چهوڑ کر نماز باجماعت ادا کرنے نکلے گا تو یہ مریض ہلاک ہو جائے گا یا اس کو مزید زخم پہنچے گا
اسی طرح کیچڑ یا بارش وغیرہ کے خوف کے پیش نظر سواری پر کهڑے یا چلتے ہوئے نماز پڑهنا درست ہے؛ اس لئے کہ حضرت یعلی بن مرۃ رضی الله عنه نے فرمایا کہ:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تنگ وادی تک پہنچے تو آپ اپنی سواری پر تھے، آسمان ان کے اوپر اور ان کے پاؤں کے نیچے گیلی زمین تھی اور نماز کا وقت ہوگیا، آپ نے مؤذن کو اذان کا حکم دیا اس نے اذان دی اور اقامت کہی تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے اور نماز پڑھائی؛ یعنی اشارے کے ساتھـ، سجدے رکوع سے ذرا جھک کر کرتے تھے-
مسند أحمد 4 / 174، سنن ترمذي 2 / 266-267 حدیث نمبر (411)، اوردارقطني 1 / 380-381.
اس حدیث کو امام احمد، اور ترمذی نے روايت كيا ہے، اور انہوں نے کہا ہے کہ: اہل علم کے پاس اس پر عمل ہے ۔
اسی طرح اگر سواری سے اترنے پر اپنے ساتهیوں سے چهوڑنے کا خوف ہے، یا دشمن سے اپنی جان پر خوف ہوتا ہے، یا سواری سے اترنے کے بعد چڑهنے ميں مشکل ہے تووه سواری پر فرض نماز ادا کرنا درست ہے، اور حتی المقدور قبلہ كا رخ استقبال ہونے کی کوشش کرے، رکوع اور سجدہ کرے، اور سجدے میں رکوع سے زیادہ جهکے،
جیساکہ حدیث كے لئے ذكر كيا ہے، اور اس لئے کہ اللہ تعالى کےعموم قول ہے:
ﭘﺲ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻚ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﻮﺳﻜﮯ ﺍس ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨو
لہٰذا درج بالا رعایات کے تناظر میں اگر آپکو اپنی جان کا خطرہ ہے کہ آپ کو راستے میں قتل کر دیا جائے گا ، یا مسجد میں آپکی جان جانے کا ڈر آپکو ہمہ گیر ہے تو آپ پہلے اسکے بچاو کے ہر ممکنہ راستے اختیار کیجیے ۔ مثلاً
➖ آپ اپنے اور فریق کی جانب سے باشعور اور غیر جانبدار منصف مزاج لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھیے اور ان سب کو باجماعت نماز کی اہمیت بتائیے کیونکہ حاضر و موجود شخص وہ سب کچھـ دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھـ سکتا ہے۔ نیز انہیں بتائیے کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں جہاں صرف اسی کی عبادت کی جاتی ہے اقامتِ نماز اور تلاوتِ قرآن، ذکرو اذکار، دعا التجا کے لئے اور وہاں فضول باتیں شور و غل، لہو و لعب کرنا حرام ہے ۔ اور یہ کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے عبادت گاہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ کے وہ گھر ہیں جہاں اس کی عبادت سے کسی مسلمان کو روکنا ظلم ہے اس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ومن اظلم ممن منع مسجداللہ ان یذکرفیھا اسمہ وسعی فی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدخلوھا الاخائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃعذاب عظیم(البقرہ ۲:۱۱۴)
اس شخص سے بڑھ کر ظالم کو ن ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کو شش کرے ، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہئے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب ہے
سابقہ امم میں بھی ایسے ظالم لوگ گزرے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے گھروں میں اس کی عبادت کرنے سے روکا کرتے تھے خود مکہ کے کفار و مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو کعبۃ اللہ مسجد حرام سے اللہ کی عبادت کرنے سے روکتے تھے تو انہیں سب سے بڑا ظالم کہا گیا ہے۔
لہٰذا آپ لوگ فریق کو سمجھائیے اور ایسا راستہ نکالیے جو مجھے مسجد جانے میں سنسان اور تاریکی میں بھی اس شخص کے شر سے امان کا احساس دے سکے ۔
والله ولي التوفيق
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
__________________________۔
پنجگانہ نمازیں مسجد میں با جماعت پڑھنا واجب ہے۔ ایک عقلمند مرد کے لئے مسجد میں باجماعت نماز چهوڑنے کے عذروں میں سے یہ ہے کہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسجد تک جانا دشوار ہے، یا کہ کسی کو اپنی جان پر خطرہ ہے کہ اگر وہ مسجد میں نماز پڑهنا جائے گا تو کوئی اس کو راستے میں یا مسجد میں قتل کردے گا، یا اس کو پکڑے گا اور ظلم وزبردستی اس کو جیل میں ڈالے گا، یا کہ ایسا مریض شخص کی عیادت کرے اگر وہ اس مریض کو چهوڑ کر نماز باجماعت ادا کرنے نکلے گا تو یہ مریض ہلاک ہو جائے گا یا اس کو مزید زخم پہنچے گا
اسی طرح کیچڑ یا بارش وغیرہ کے خوف کے پیش نظر سواری پر کهڑے یا چلتے ہوئے نماز پڑهنا درست ہے؛ اس لئے کہ حضرت یعلی بن مرۃ رضی الله عنه نے فرمایا کہ:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تنگ وادی تک پہنچے تو آپ اپنی سواری پر تھے، آسمان ان کے اوپر اور ان کے پاؤں کے نیچے گیلی زمین تھی اور نماز کا وقت ہوگیا، آپ نے مؤذن کو اذان کا حکم دیا اس نے اذان دی اور اقامت کہی تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے اور نماز پڑھائی؛ یعنی اشارے کے ساتھـ، سجدے رکوع سے ذرا جھک کر کرتے تھے-
مسند أحمد 4 / 174، سنن ترمذي 2 / 266-267 حدیث نمبر (411)، اوردارقطني 1 / 380-381.
اس حدیث کو امام احمد، اور ترمذی نے روايت كيا ہے، اور انہوں نے کہا ہے کہ: اہل علم کے پاس اس پر عمل ہے ۔
اسی طرح اگر سواری سے اترنے پر اپنے ساتهیوں سے چهوڑنے کا خوف ہے، یا دشمن سے اپنی جان پر خوف ہوتا ہے، یا سواری سے اترنے کے بعد چڑهنے ميں مشکل ہے تووه سواری پر فرض نماز ادا کرنا درست ہے، اور حتی المقدور قبلہ كا رخ استقبال ہونے کی کوشش کرے، رکوع اور سجدہ کرے، اور سجدے میں رکوع سے زیادہ جهکے،
جیساکہ حدیث كے لئے ذكر كيا ہے، اور اس لئے کہ اللہ تعالى کےعموم قول ہے:
ﭘﺲ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻚ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﻮﺳﻜﮯ ﺍس ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨو
لہٰذا درج بالا رعایات کے تناظر میں اگر آپکو اپنی جان کا خطرہ ہے کہ آپ کو راستے میں قتل کر دیا جائے گا ، یا مسجد میں آپکی جان جانے کا ڈر آپکو ہمہ گیر ہے تو آپ پہلے اسکے بچاو کے ہر ممکنہ راستے اختیار کیجیے ۔ مثلاً
➖ آپ اپنے اور فریق کی جانب سے باشعور اور غیر جانبدار منصف مزاج لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھیے اور ان سب کو باجماعت نماز کی اہمیت بتائیے کیونکہ حاضر و موجود شخص وہ سب کچھـ دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھـ سکتا ہے۔ نیز انہیں بتائیے کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں جہاں صرف اسی کی عبادت کی جاتی ہے اقامتِ نماز اور تلاوتِ قرآن، ذکرو اذکار، دعا التجا کے لئے اور وہاں فضول باتیں شور و غل، لہو و لعب کرنا حرام ہے ۔ اور یہ کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے عبادت گاہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ کے وہ گھر ہیں جہاں اس کی عبادت سے کسی مسلمان کو روکنا ظلم ہے اس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ومن اظلم ممن منع مسجداللہ ان یذکرفیھا اسمہ وسعی فی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدخلوھا الاخائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃعذاب عظیم(البقرہ ۲:۱۱۴)
اس شخص سے بڑھ کر ظالم کو ن ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کو شش کرے ، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہئے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب ہے
سابقہ امم میں بھی ایسے ظالم لوگ گزرے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے گھروں میں اس کی عبادت کرنے سے روکا کرتے تھے خود مکہ کے کفار و مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو کعبۃ اللہ مسجد حرام سے اللہ کی عبادت کرنے سے روکتے تھے تو انہیں سب سے بڑا ظالم کہا گیا ہے۔
لہٰذا آپ لوگ فریق کو سمجھائیے اور ایسا راستہ نکالیے جو مجھے مسجد جانے میں سنسان اور تاریکی میں بھی اس شخص کے شر سے امان کا احساس دے سکے ۔
والله ولي التوفيق
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
No comments:
Post a Comment