find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Hadeeth. Show all posts
Showing posts with label Hadeeth. Show all posts

Kya Zalim Hukmaran Zalim Awam par Musallat kar di jayegi, Jaisi Awam waisi Hukmaran.

Tum jaise hoge Waise hi tumhare upar Hukmaran musallat kar di jayegi?

Jaisi Awam hogi waisi hi Hukmaran.

بِسْــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــلاَم عَلَيــْــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه

زبان زد عام پر  ایک من گھڑت جملہ گھڑا جاتا ہے
" جیسی عوام ہوتی ہے ویسے ان پر حکمرآن مسلط کر دیے جاتے ہیں "
اور اسے نبی علیہ السلام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔
یہ حدیث دو طرق سے کتب میں موجود ہے .

❶ ایک القضاعي في مسند الشهاب میں
❷ دوسرا الديلمي في مسند الفردوس ، والبيهقي في " الشعب میں

اس کے دونوں طرق ہی ضعیف ہیں۔

جیسے عوام ویسے حکمرآن کا تذکرہ آج بھی سننے کو ملتا ہے بلکہ بڑے بڑے دانشوروں نے اس پر صفحوں کے صفحے سیاہ کر دیے اور انھیں توفیق نہیں ہوئی کہ اسکی تحقیق تو کرلیں آیا یہ حدیث ہے بھی یا نہیں ۔ اور اصل عبارت کا بھی شائد انھیں علم نہ ہو ۔

اصل میں ظالم اور جابر حکمرآنوں کی حکومت کا جواز پیدا کرنے کے لئیے غالبا بنو امیہ کے دور میں یہ حدیث گڑھی گئی جب اس وقت لوگ صدائے احتجاج بلند کرتے تھے تو درباری ملاں گڑھی ہوئی حدیث سنا کر کہتے تھے کہ احتجاج نہ کرو جیسے تم لوگ ہو ویسے ہی تم پر حاکم مسلط کیے گئے ہیں ۔

اس کے بارے میں فتوی کمیٹی کہتی ہے
یہ حدیث دو مختلف طرق« روى القضاعي في مسند الشهاب (1/336) من طريق الكرماني بن عمرو ، ثنا المبارك بن فضالة ، عن الحسن ، عن أبي بكرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ثم كما تكونون يولى أو يؤمر عليكم . اور رواها الديلمي في مسند الفردوس ، والبيهقي في " الشعب "كما رمز له السيوطي في الجامع الصغير ، وذكر سنده المناوي في فيض القدير (5/47) فقال : » سے آتی ہے ،جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔ۛ

« كَـمَـا تَـكُـونُـوا يُـولَّـى عَـلَـيْـكُـم »
جیسے تم خود ہوگے ویسے تم پر حکمران بنا دئے جائیں گے۔

لیکن اس کے دونوں طرق ہی ضعیف ہیں۔

یہ حدیث اگرچہ سندا ضعیف ہے لیکن معنی صحیح اور قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کے موافق ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔

﴿ وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا ﴾ [ الأنعام : 129 ]
ہم ظالموں میں سے بعض کو بعض پر والی ﴿حکمران﴾بنا دیتے ہیں۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّـــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ
وَبَرَكـَـــــــــاتُه

Share:

What is the Ruling on the Person who Denies the Sunnah with the Claim that the Quran is enough?

 What is the Ruling on the Person who Denies the Sunnah with the Claim that the Quran is enough?

Q. You spoke about the obligation of adhering to the Quran and Sunnah. There is a group referred to as the Quranis. What is our stance in relation to them?

بسم الله الرحمن الرحيم

A. As has preceded, they are not Quranis (i.e., followers of the Quran). Rather, they are persistent liars, enemies to the Quran because the Quran orders to (follow) the Sunnah and to obey the Messenger ﷺ. Whoever denies the Sunnah, denies the Quran. And whoever disobeys the Messenger, disobeys (what is in) the Quran.

Hence, they are not followers of the Quran. They are completely opposite to the Quran, heretics and misguided. They are disbelievers by consensus of the People of Knowledge.

Whoever denies the Sunnah and does not implement it and claims that he only follows the Quran is a liar; he is not following the Quran. He is astray and is misleading others, a disbeliever by consensus of the people of knowledge. I wrote a treatise about this which has been printed called The Obligation of Following the Sunnah.

👤Imam Ibn Baz

📄Arabic Text:

س : تكلمتَ عن وجوب الأخذ بالكتاب والسنة، ووجد جماعةٌ يُقال لهم: القرآنيون، فما موقفنا منهم؟

ج : مثلما تقدَّم، ليسوا قرآنيين، ولكنَّهم كذَّابون، أعداء للقرآن؛ لأنَّ القرآن أمر بالسنة، وأمر بطاعة الرسول ﷺ، ومَن أنكر السنة فقد أنكر القرآن، ومَنْ×ن عصى الرسول فقد عصى القرآن، فليسوا قرآنيين، ولكنَّهم ضد القرآن، وملاحدة، وضالُّون، بل كفَّار بإجماع أهل العلم


مَن أنكر السنة ولم يعمل بها وزعم أنَّه لا يعمل إلا بالقرآن؛ فهو كاذبٌ، لم يعمل بالقرآن، وضالٌّ مُضِلٌّ، كافرٌ بإجماع أهل العلم، وقد كتبتُ في هذا رسالةً مطبوعةً سميتُها: وجوب العمل بالسنة

🔗https://binbaz.org.sa/fatwas/21087/ما-حكم-من-ينكر-السنة-بزعم-الاكتفاء-بالقران

Share:

Imam Hussain razillahu anahu kitni shadiya ki thi?

imam Hussain razillahu anahu ne kitni shadiya ki thi.
Imam Husain razillahu anahu ne kitni shadiya ki thi?
السلام علیکم!
سوال :میرا یہ سوال ہے کہ حضرت امام حسن ابنِ علی رضی اللہ عنہ نے کتنی شادیاں کیں اور انکی کتنی اولادیں ہوئیں ؟
والسلام، جزاک اللہ

*جواب تحریری
الحمد للہ.
متعدد اہل علم نے یہ بات ذکر کی ہے کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے کافی زیادہ شادیاں کی تھیں اور بہت زیادہ طلاقیں بھی دی تھیں۔

چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[مؤرخین] کا کہنا ہے کہ: حسن بن علی نے بہت زیادہ شادیاں کی تھی اور آپ کے عقد میں ہر وقت چار آزاد عورتیں  ہوتی تھیں، آپ کثرت سے طلاق دیتے اور حق مہر ادا کرتے تھے، یہاں تک کہا گیا ہے کہ آپ نے ستر خواتین کو اپنے عقد میں جگہ دی" ختم شد
"البداية والنهاية" (8/42)

مزید کے لیے آپ امام ذہبی رحمہ اللہ کی "سير أعلام النبلاء" (3 /253) اور اسی طرح : "تاريخ دمشق" از: ابن عساکر (13 /251)  نیز "تاريخ الإسلام" از ذہبی  (4 /37)  اور راغب اصفہانی کی "محاضرات الأدباء" (1 /408)  بھی دیکھیں۔

تاہم ہمیں یہ بات یہاں یاد رکھنی چاہیے کہ بہت سی تاریخی روایات ثابت نہیں ہوتیں اس لیے ایسی روایات کے بارے میں احتیاط برتنی چاہیے خصوصاً اگر کوئی روایت نامور شخصیات اور مسلم سربراہان کے بارے میں ہو۔

چنانچہ حافظ عراقی "ألفية السيرة" (ص 1)  میں کہتے ہیں:
"وليعلمِ الطالبُ أنَّ السّيَرَا تَجمَعُ ما صحَّ وما قدْ أُنْكرَا"
ترجمہ: طالب علم یہ بات جان لے کہ سیرت کی کتابوں میں صحیح اور غلط سب جمع ہے۔

اسی لیے شیخ عبدالرحمن معلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث کی بہ نسبت تاریخی روایات کو بیان کرنے والوں کو پرکھنے  کی ضرورت زیادہ ہے؛ کیونکہ تاریخی روایات میں جھوٹ اور نا پختگی  زیادہ ہے" انتہی
"علم الرجال وأهميته" (ص 24)

اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے ستر  یا نوّے سے زیادہ عورتوں سے شادی کی یا اسی طرح کی دیگر روایات تو ان میں سے کوئی ایک بھی ہمیں ایسی نہیں ملی کہ جس کی سند قابل حجت ہو، اس لیے ایسی روایات کو قبول کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے اور ان پر اعتماد کرنے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر علی محمد صلابی اپنی کتاب : حسن بن علی رضی اللہ عنہ صفحہ 27 میں لکھتے ہیں:
"مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ آپ کی بیویوں میں فزاری قبیلے کی خولہ ، جعدہ بنت اشعث، خثعمی قبیلے کی عائشہ ، ام اسحاق بنت طلحہ بنت عبید اللہ تمیمی، ام بشیر بنت ابو مسعود انصاری، ہند بنت  عبدالرحمن بن ابو بکر، ام عبداللہ بنت شلیل بن عبداللہ  جو کہ جریر بجلی کے بھائی ہیں، بنو ثقیف کی ایک عورت، بنی عمرہ بن اہیم منقری میں سے ایک خاتون  اور بنی شیبان  آل ہمام بن مرہ سے ایک خاتون  شامل ہیں، ممکن ہے کہ ان میں کچھ اضافہ بھی ہو جائے لیکن پھر بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی بیویوں کی اس وقت کے عرف کے مطابق بھی اتنی بڑی تعداد نہیں ہے جیسے کہ ان کی بیویوں کے بارے میں کہا جاتا ہے۔

جبکہ تاریخی روایات میں جو ملتا ہے کہ آپ نے ستر شادیاں کیں، کچھ میں نوّے کا ذکر ہے اور کچھ میں تو 250 کا ہے بلکہ کسی میں تو 300 کا بھی ذکر ہے ، اس کے علاوہ بھی روایات موجود ہیں  تو یہ سب کی سب شاذ روایات ہیں بلکہ اتنی بڑی تعداد اور عدد خود ساختہ اور من گھڑت معلوم ہوتا ہے، ان روایات کی تفصیل یہ ہے:۔۔۔" پھر انہوں نے ان تمام روایات کی تفصیل ، ضعف، اور کمزوری ذکر کی ہے، آپ تفصیلات کے لیے پہلے بیان شدہ ان کی کتاب کا صفحہ نمبر: 28 تا 31 کا مطالعہ کریں۔

پھر اس کے بعد آپ صفحہ 31 پر کہتے ہیں:
"حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی شادیوں کے بارے میں تخیلاتی تعداد ذکر کرنے والی کوئی ایک روایت بھی سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہوتی، اس لیے ان روایات پر  اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے ؛ کیونکہ ان میں شبہات اور نقائص پائے جاتے ہیں"

اسی طرح پھر آگے چل کر کہتے ہیں:
"یہاں سے جرح و تعدیل کے علم  اور روایات پر حکم کی اہمیت بھی عیاں ہوتی ہے کہ علمائے حدیث نے جھوٹی روایات  کو صحیح روایات سے ممتاز کرنے کے لیے جو کردار ادا کیا وہ بھی یہاں روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے۔

اس لیے ہم ابتدائے اسلام کے متعلق تاریخ تلاش کرنے والوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس قسم کی روایات کو لازمی طور پر پرکھیں تا کہ صحیح اور ضعیف روایات کو الگ الگ کر سکیں اور امت کے لیے  اچھا کام کر کے جائیں تا کہ وہ کسی ایسی غلطی میں ملوّث نہ ہوں جن میں ہمارے بعض اسلاف سے تسامح ہوا، نیز اس تسامح کی وجہ سے ہم ان کی نیتوں پر شک نہیں کرتے  کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں ضعیف اور موضوع روایات بیان کیں" ختم شد

عین ممکن ہے کہ حافظ ابن کثیر  رحمہ اللہ نے اس بارے میں نقل کی جانے والی روایات کے ضعیف ہونے کی جانب اشارہ بھی کیا ہو؛ کیونکہ آپ نے لکھا ہے کہ: " کہا گیا ہے کہ آپ نے ستر خواتین کو اپنے عقد میں جگہ دی " اب حافظ ابن کثیر نے "کہا گیا" سے تعبیر کیا ہے تو یہ تعبیر ایسی روایات کے ثابت شدہ نہ ہونے کی جانب اشارہ ہوتا ہے یا کم از کم اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ  اس بات کی انہیں قابل اعتماد سند نہیں ملی۔

پھر

واللہ اعلم.

Share:

Mujhe Dar nahi hai ke Mere Bad Meri Ummat Shirk karegi.

Mujhe Is bat ka khauf nahi hai ke Mere Bad Meri ummat Shirk karegi.
Bukhari me riwayat hai ke Aap ﷺ ne Farmaya ke Mujhe is bat ka dar nahi mere bad meri ummat Shirk Karegi.
Ise Barelawi Hazrat yah Dalil bnakar Pesh karte hai ke Nabi to pahle Hi farma chuke hai ke meri Ummat Shirk karegi hi nahi fir Tum kaise kah sakte ho ke mai jo kar raha hoo (Mazar pe jana, Dargah pe mannat aur murade mangna, Qabar pe chadare chadhana wagairah wagairah) wah Shirk hai ya Fir tum is Hadees Ka inkar karte ho?

بخاری میں احادیث ہے کہ نبی پاکؐ نے فرمایا کہ مجھ اس بات کا ڈر نہیں میرے بعد میری اُمت شرک کرے گی
اس کو بریلوی دلیل بناتے ہیں مدلل جواب دیں؟

عن عقبة أن النبي صلی الله عليه وسلم خرج يوما فصلی علی أهل أحد صلاته علی الميت ثم انصرف إلی المنبر فقال إني فرط لکم وأنا شهيد عليکم وإني لأنظر إلی حوضي الآن وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض وإني والله ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي ولکني أخاف عليکم أن تنافسوا فيها (صحیح بخاری)
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن احد کی طرف گئے اور شہداء احد پر مثل نماز جنازہ نماز پڑھی پھر منبر پر آکر فرمایا بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔میں حوض کو دیکھ رہا ہوں مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں یا یہ فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئیں اور اللہ کی قسم ! مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔

اس حدیث کو لیکر امت میں شرک کرنے والی جماعت لوگوں کو یہ بتلاتی ہے کہ دیکھو نبی ﷺ نے فرمایا: "مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے۔"

دراصل اہل شرک کو شرک پہ اڑے رہنے کی دلیل چاہئے اس وجہ سے احادیث کا معنی مطلب بگاڑ کر پیش کرتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان: ’’ اللہ کی قسم ! مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے ‘‘ ۔

حدیث کے اس ٹکڑے کا صحیح مفہوم کیا ہے اس کے لئے دوسری احادیث اور اہل علم کے اقوال دیکھتے ہیں۔

چنانچہ قرآن کی بہت سی آیات اور بہت ساری احادیث اس بات پہ دلالت کرتی ہیں کہ امت محمدیہ بھی شرک کرے گی ۔

مثال کے طور پہ ایک آیت اور ایک حدیث دیکھتے ہیں:

(1)قرآن : وَما يُؤمِنُ أَكثَرُ‌هُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِ‌كونَ ۔ (سورة يوسف:106)
ترجمہ: اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔

اس آیت کی روشنی میں بریلوی کی اکثریت اللہ پہ ایمان لانے کے باوجود شرک میں واقع ہے ۔

(2)حدیث :«لولا تقومُ الساعةُ حتى تَلحقَ قبائلُ من أُمتي بالمشركينَ ، وحتى تعبدَ قبائلُ من أمتي الأوثانِ »(صحیح ابوداؤد:4252)
ترجمہ : قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری اُمّت کے قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت نہ کریں۔

اب یہ بات صاف ہوگئی کہ اس امت میں بھی شرک کا وجود رہے گا۔ اب اوپر والی حدیث کا ٹکڑا "وإني والله ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي" دیکھتے ہیں ۔
چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رقم طراز ہیں:
قوله «ما أخاف علیکم أن تشرکوا» أی على مجموعکم لأن ذلك قد وقع البعض أعاذنا الله تعالىٰ(فتح الباری:2؍271)
ترجمہ : "ما أخاف علیکم أن تشرکوا" کے قول سے مراد مسلمانوں کا مجموعہ، اس لئے کہ بعض لوگوں سے شرک واقع ہوچکا ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے ۔
گویا حدیث کا مطلب ہواکہ سارے مسلمان یعنی مسلمانوں کا مجموعہ شرک میں واقع نہیں ہوگا مگر مسلمان کے بعض افراد شرک میں واقع ہوں گے ۔
یہی معنی علامہ عینی حنفی اور ملاعلی قاری حنفی نے بھی بتلایا ہے۔ اور بریلوی عالم غلام رسول سعیدی نے بھی ایسا ہی معنی بیان کیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
''آپﷺ نے فرمایا: ''مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم مجموعی طور پر مشرک ہوجاؤ گے، اگرچہ بعض مسلمان مشرک ہوگئے،العیاذ بالله۔(نعمۃ الباری:3؍514)
آخر میں ہم وہی دعا کرتے ہیں جو نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو چھوٹے بڑے تمام قسم کے شرک سے محفوظ رہنے کے لئے سکھائی ہے ۔
اللهم إني أعوذ بك أن أشرك بك و أنا أعلم ، و استغفرك لما لا أعلم۔
٭ اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔(صحیح الادب المفرد:551)

Share:

Kya Abu Sayyad Dajjal tha?

Assalam O Alaikum Wa Rehmatullah hi wabarakatukh
I hope that you are good with the blessing of Allah
Sir ibne sayyad ne apne bachpan me Nabi (S.A.W) se batmeezi ki thi is ka hadees no Aap bata sakte hai please....  yah hadees kaunse book me aur kitna number hai iska?

جواب تحریری
الحمدللہ

ابن صیاد کا نام صافی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبداللہ بن صیاد یا صائد ہے ۔

یہ مدینہ کے یہودیوں میں سے تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انصار میں سے تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو یہ چھوٹا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان ہو گیا تھا ۔

ابن صیاد دجال تھا اور بعض اوقات کہانت کرتا تو جھوٹ اور سچ بولتا رہتا تھا اس کی خبر لوگوں میں پھیل گئي اور یہ مشہور ہو گیا کہ یہ دجال ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا کہ اس کے حالات کی خبر لیں تا کہ اس کے معاملے کی وضاحت ہو جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھپ کر اس کی طرف گۓ تا کہ اس کی کوئی بات سن سکیں اور اس پر کچھ سوال کرتے تھے جن سے ان کی حقیقت منکشف ہوتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہا اور حرہ کی لڑائی والے دن غائب ہو گیا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابن صیاد کے ساتھ قصہ :

امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عبدان نے عبداللہ سے حدیث بیان کی وہ یونس سے اور یونس زہری سے بیان کرتے ہیں اور زہری بیان کرتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے مجھے بتایا کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گروپ میں ابن صیاد کی طرف گۓ تو اسے بنو غلم کے قلعہ کے پاس بچوں میں کھیلتے ہوئے پایا اور ابن صیاد بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا کچھ پتہ نہ چلا حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ سے مارا پھر ابن صیاد کو کہنے لگے کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو ابن صیاد نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں تو ابن صیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے لگا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور رفض کر دیا اور کہنے لگے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ تو کیا دیکھتا ہے ابن صیاد کہنے لگا میرے پاس سچا اور جھوٹا آتا ہے.

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر معاملہ الٹ پلٹ ہو گیا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا میں تیرے لۓ ایک چھپانے والی چیز چھپائی ہے تو ابن صیاد کہنے لگا وہ الداخ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ذلیل ہو جا تیری قدر بڑھ نہیں سکتی تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اتار دوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ رہنے والا ہے تو تو اس پر مسلط نہیں ہو سکتا اور اگر نہیں تو اس کے قتل میں آپ کی کوئی بھلائی نہیں اور سالم کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہہ رہے تھے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کھجوروں کے باغ میں گۓ جہاں ابن صیاد موجود تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بہت زیادہ کوشش تھی کہ ابن صیاد کے دیکھنے سے قبل ان کی چوری چھپے بات سنی جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی چھو درا چادر میں لپٹا ہوا تھا اور اس کی نہ سمجھ آنے والی آواز تھی جس سے اس کے ہونٹ ہل رہے تھے تو ابن صیاد کی ماں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کہ کھجور کے تنوں کے پیچھے پیچھے چھپ چھپ کر چل رہے تھے دیکھ کر ابن صیاد کو کہا اے صاف جو کہ ابن صیاد کا نام ہے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو ابن صیاد کود کر اٹھ بیٹھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اگر وہ اسے چھوڑ دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر 1255

قولہ اطم : دونوں کے ضمہ کے ساتھ قلعہ کی طرح عمارت کو کہتے ہیں ۔

ان کا یہ قول : مغالۃ: انصار میں ایک قبیلہ

اور ان کا یہ قول : فرفضہ : یعنی اسے چھوڑ دیا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ تھا کہ اس کے علم کے بغیر اس کی کلام سن سکیں ۔

اور یہ قول کہ : ( لہ فیہا رمزۃ او زمرۃ ) اور ایک روایت میں زمزمۃ کے لفظ ہیں ۔

پوشیدہ اور دھیمی آواز کے معنی میں ، یا بات کرنے میں ہونٹوں کا حرکت کرنا ، یا بے معنی کلام ۔

مندرجہ بالا حدیث کی شرح کے لۓ صحیح بخاری کی شرح فتح الباری کتاب الجنائز دیکھیں۔

کیا ابن صیاد ہی دجال اکبر ہے ؟

مندرجہ بالا حدیث جس میں ابن صیاد کے بعض حالات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے امتحان میں ڈالنا مذکور ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد کے معاملے میں توقف اختیار کۓ ہوئے تھے کیونکہ ان کی طرف یہ وحی نہیں کی گئي تھی کہ وہ دجال اکبر وغیرہ ہے ۔

اور صحابہ میں اکثر کا خیال تھا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اور عمر بن خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی موجودگی میں حلفا کہا کرتے تھے کہ وہ دجال ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا ۔

محمد بن منکدر کی حدیث میں موجود ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ اللہ کی قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے تو میں نے کہا کہ آپ اللہ کی قسم اٹھاتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم اٹھا رہے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا ۔

صحیح بخاری شریف حدیث نمبر ( 6808)

اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ابن صائد کے ساتھ ایک عجیب قصہ پیش آیا جو کہ صحیح مسلم میں موجود ہے :

نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ابن صائد کو مدینہ کے کسی راستے میں ملے تو اسے ایسی بات کہی جس سے وہ غصہ میں آ گیا اور اس کی رگیں پھول گئیں حتی کہ گلی ( لوگوں سے) بھر گئي تو ابن عمر رضی اللہ عنہما حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گۓ تو انہیں یہ خبر پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگیں اللہ تجھ پر رحم کرے ابن صیاد سے تو کیا چاہتا ہے کیا تجھے اس کا علم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس غصہ کی بنا پر نکلے گا جو اسے غصہ دلآئے گا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر (2932)

تو اس کی باوجود ابن صیاد جب بڑا ہوا تو اس نے اپنے دفاع کی کوشش کی اور اس کا انکار کرنے لگا کہ وہ دجال ہے اور اس تہمت سے اسے تنگی محسوس ہونے لگی کہ وہ دجال ہے اور اس میں وہ دلیل یہ لیتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دجال کی صفات بتائیں ہیں وہ اس میں نہیں پائی جاتیں ۔

اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ :

وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حج یا عمرے کے لۓ نکلے تو ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا تو ابو سعید رضي اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو سب لوگ بکھر گۓ تو میں اور وہ باقی رہے تو مجھے اس سے اس وجہ کی بنا پر جو کچھ اس کے متعلق کہا جاتا تھا بہت زیادہ وحشت ہونے لگی ۔

ابو سعید ( رضي اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ اس نے اپنا سامان لا کر میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا تو میں نے کہا : گرمی بہت سخت ہے اگر تو اس درخت کے نیچے رکھ دیتا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس نے ایسا ہی کیا ، ابو سعید رضي اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک بکری لائی گئي تو وہ ایک بڑا پیالہ لایا اور کہنے لگا اے ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) پیو میں نے کیا کہ گرمی بہت سخت ہے اور دودھ گرم ہے میں تو صرف اس کے ہاتھ سے لے کر پینا اور پکڑنا نا پسند کرتا تھا تو وہ کہنے لگا : اے ابو سعید ( رضي اللہ عنہ ) لوگ جو کچھ مجھے کہتے ہیں اس کی بنا پر میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ رسی لے کر درخت کے ساتھ باندھوں اور اس سے لٹک کر پھانسی لے لوں ۔

اے ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) کون ہے جس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پوشیدہ ہو اے انصار کی جماعت تم پر تو پوشیدہ نہیں کیا آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو زیادہ نہیں جانتے؟ کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہو گا اور میں مسلمان ہوں؟ کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اس بانجھ اور اس کی کوئی اولاد نہیں ہوگی اور میں تو اپنا بیٹا مدینہ چھوڑ کے آرہا ہوں ؟

کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا اور میں مدینہ سے آرہا اور مکے کا ارادہ ہے ؟

ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ قریب ہے کہ میں اسے معذور سمجھتا پھر وہ کہنے لگا اللہ کی قسم میں اسے جانتا ہوں اور اس کی پیدائش کو بھی اور وہ اس وقت کہاں ہے اس کا بھی مجھے علم ہے ۔

ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ میں نے اسے کہا ساری عمر تیری تباہی ہو ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر (4211)

اور ایک روایت میں ہے کہ : ابن صیاد نے کہا : اللہ کی قسم مجھے یہ علم ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور اس کے ماں اور باپ کو بھی جانتا ہوں اور اسے یہ کہا گیا تجھے یہ پسند ہے کہ وہ آدمی تو ہی ہو ؟ تو وہ کہنے لگا اگر مجھ پر یہ پیش کیا گیا تو میں نا پسند نہیں کروں گا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر (5210)

ابن صیاد کے متعلق جو کچھ آیا ہے وہ علماء پر خلط ملط اور اس کے معاملے میں انہیں اشکال ہے ۔

کچھ تو کہتے ہیں کہ وہ دجال ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ دجال نہیں اور ہر ایک فریق کے پاس دلیل ہے تو ان کے اقوال آپس میں بہت مختلف ہیں اور ابن جحر رحمہ اللہ نے ان اقوال کے درمیان جمع کرنے کی کوشش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ :

تمیم الداری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں جو کچھ ہے وہ اور یہ کہ ابن صیاد ہی دجال ہے کے درمیان جمع اس طرح ہے کہ تمیم الدارمی رضي اللہ عنہ نے جسے دیکھا ہے بعینہ دجال تو وہی ہے اور ابن صیاد شیطان ہے جو کہ دجال کی شکل میں اس مدت کے درمیان ظاہر ہوا یہاں تک کہ وہ اصبہان کی طرف جا نکلا اور وہاں اپنے قرین کے ساتھ جا چھپا یہاں تک کہ اللہ تعالی وہ وقت لے آئے جس میں اس کا خروج ہو گا ۔

فتح الباری ( 13 / 328)

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : ابن صیاد دجالوں میں سے ایک دجال ہے وہ دجال اکبر نہیں ۔

واللہ اعلم

Share:

Quran ko Allah ka kalam manna mager Hadees Se inkar kar Dena.

kya Kabhi Kisi Musalman ne yah Kaha ke Jab tak mere Dimag me Yah Quran ki aayat Fit nahi baith jati tab tak mai Nahi manunga?
Quran ki aayato ko Allah ka kalam manna jabke Hadees Ka inkar Kar dena.
Kuchh Log Quran Ki aayato ko mante hai mager Hadees pe shak karte hai ke isme Galat bhi ho sakta hai kyu?
تدوین حدیث؛ انسانی کاوش؟
حافظ ابو یحیٰی نورپوری

بعض لوگ حدیث رسول کو انسانی کاوش کہہ کر رد کر رہے ہوتے ہیں، ان کا اشکال یہ ہوتا ہے کہ قرآن تو اللہ کا کلام ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں، جب کہ حدیث انسانوں نے جمع کی ہے. اس میں شبہ ہو سکتا ہے.
اس قبیل کے لوگ ادنی سا بھی شعور نہیں رکھتے، کیوں کہ جس طرح قرآن اللہ کا کلام اور لاریب ہے، اسی طرح حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل وتقریر ہے اور لاریب ہے.
قرآن کیسے جمع ہوا؟ کیا تدوینِ قرآن انسانی کاوش نہیں؟
اور آپ کو بتاؤں کہ قرآن کریم کی سند غریب ہے. حیران نہ ہوں، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو موجودہ صورت میں لانے کے لیے، ایک صحابی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ذمہ دار بنایا. سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قرآنِ کریم پر اعتماد کرنے کے لیے ہمارے سامنے واحد سورس ہیں.
البتہ حدیث کی تدوین کے لیے بہت سے صحابہ کرام نے زندگیاں وقف کیں.
ہر دور کی طرح آج بھی دنیا میں شاذ قراءات موجود ہیں، انہیں ہم کلام اللہ نہیں مانتے، بالکل اسی طرح ضعیف روایات کو ہم سنت نبوی تسلیم نہیں کرتے.
جس طرح قرآنِ کریم کی بعض آیات کسی کی سمجھ سے بالا ہو جاتی ہیں، بعینہ بعض احادیث بھی کسی کے فہم سے ورا ہو سکتی ہیں، ظاہری تعارض وتضاد کی وجہ سے نہ قرآن کی کسی آیت کو ٹھکرایا جا سکتا ہے، نہ کسی صحیح حدیث کو رد کیا جا سکتا ہے.

کبھی کسی مسلمان نے کہا ہے کہ جب تک میرے دماغ میں کوئی آیت فٹ نہ بیٹھے، میں اسے کلام اللہ نہیں مانوں گا؟ نہیں نا، تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ناطق وحی تھے، ان کے فرمان کو تسلیم کرنے کے لیے یہ شرط کیوں کہ جب تک سمجھ میں نہ آئے اور جب تک اشکال ختم نہ ہوں، نہیں مانوں گا؟
"انسانی کاوش" والے پروپیگنڈے کا توڑ بالکل آسان ہے، تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجیے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے چلے جانے کے فوری بعد مسلمان ہوتے ہیں، آپ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سناتے ہیں، کیا آپ یہ کہہ کر انہیں ٹھکرا دیں گے کہ چونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ انسان تھے، ان کا مجھے حدیث سنانا انسانی کاوش ہے، لہذا مشکوک ہے؟
پھر تصور کیجیے کہ آپ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد پیدا ہوتے ہیں، آپ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد سید التابعين، سعید بن مسیب رحمہ اللہ اپنے استاذ گرامی کے واسطے سے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سناتے ہیں، تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ دو انسانوں کا واسطہ آنے کی بنا پر حدیث رسول مشکوک ہو گئی؟
اسی طرح تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجیے کہ آپ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی وفات کے بعد پیدا ہوتے ہیں، ان کے ایک ہونہار شاگرد، جنہیں ان کے دور کے علماء وفقہاء نے علم وفضل، ورع وتقوی اور حافظہ وضبط کو چانچ پرکھ کر قابل اعتماد بتایا ہو، وہ بیان کریں، تو کیا آپ اسے انسانی کاوش کہہ کر ٹھو کر مار دیں گے؟
اگر اب بھی آپ کا جواب ہاں میں ہے، تو تف ہے آپ کی عقل پر، اللہ غارت کرے ایسی سوچ فکر کو.

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS