Islam se Pahle Arab Mumalik me kaisi Hukumat thi?
اسلام سے پہلے عربوں کے حالات
اسلام ایک ضابطہ حیات ہے۔ یہ دین کامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مکمل نظام زندگی بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب نبی پاک حضرت محمد ﷺ نے اسلام کا پرچار شروع کیا تو انہوں نے اپنے آپ کو ایک ایسی قوم میں گھیرا ہوا پایا جو جاہلیت میں لت پت تھی۔
عرب قوم مختلف قبائل میں تقسیم تھی اور ہر قبیلے کا اپنا سردار اور پوجنے کے لئے اپنا الگ بت تھا۔
سر زمین عرب میں کبھی بھی ایک منظم حکومت نہیں رہی تھی بلکہ عرب کے اکثر علاقے یا تو سلطنت روما کا حصے رہے تھے یا پھر سرزمین ایران کا۔
عربوں کی فطرت میں باغیانہ پن تھا جیسے ہی ان کو موقع ملتا وہ بغاوت پر کمر بستہ ہو جاتے ۔ قبیلے کا سردار وہی ہوتا تھا جس کے حامی زیادہ ہوں اور اہل عرب کی قومی خصوصات مثلاًَ بہادری، مہمان نوازی، فیاضی اور دوستی میں دوسروں سے ممتاز ہو۔
اہل عرب بالعموم اور قریش بالخصوص تجارت پیشہ تھے۔ وہ صنعت وحرف میں پسماندہ تھے۔ یہ لوگ اپنے قومی اخلاق، مہمان نوازی، ایفائے عہد، بہادری اور فیاضی کے ساتھ بعض برائیوں میں مبتلا تھے۔ مثلا ًشراب خوری، قمار بازی، دخترکشی اور معمولی جھگڑے پر ایک دوسرے کی گردن قلم کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
اسلام کے تجارتی پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے موجود اقتصادی حالات کا جائزہ لیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ اس معاشرہ کے معاشی نظام میں کون سی خرابیاں تھیں جن کی آپ ﷺ نے اصلاح فرمائی اور وہ کون سی چیزیں تھیں جن کو آپ ﷺ نے برقرار رکھا۔
ان لوگوں کے اندر منافقت پر مبنی انفرادی طرز عمل کو اچھا تصورکیا جاتا تھا، اور ایسے شخص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ لوگ محنت سے سرکشی اختیار کرتے تھے اورغلاموں پر ان کی حیثیت سے زیادہ بوجھ ڈالتے تھے۔ اگر کوئی فرد غلاموں کا ساتھ دیتا تو یہ لوگ اس کے خلاف ہر سطح پر بغاوت کرتے اور وہ مجبور ہو کر غلاموں کا ساتھ چھوڑ دیتا۔
یہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے، ان سے دعائیں کرتے، ان کے سامنے قربانیاں کرتے تھے اور انہیں اللہ تعالیٰ عزوجل کا نعوذ بااللہ شریک مانتے تھے۔ ا س کے علاوہ ان لوگوں میں سے اکثر آگ، پانی، ہوا، سورج، چاند اور ستاروں غیرہ کی عبادت کرتے تھے۔
یہ لوگ عورتوں کو حقیر تصور کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی عزت پامال کرنے میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔اگر ان کے ہاں لڑکی پیدا ہوجاتی تو یہ اس کو بُرا تصور کرتے اور اس کو زندہ دفن کرتے تھے۔ اس معاشرے میں عدل و انصاف کا فقدان تھا۔
امیروں کیلئے کوئی قانون اور کوئی سزا نہیں تھی۔ اس کے برعکس غریبوں کیلئے یہ لوگ قانون بھی خود بناتے اور انہیں سزا بھی خود تجویز کرتے، اور ان کی منشاء کے مطابق کوئی کام نہ ہوتا تو اس قبیلے کو یہ لوگ برباد کردیتے تھے۔
حدود اربعہ:
اسلام سے پہلے عربوں کے حالات سمجھنے کے لئے ضروری ہے پہلے عرب کا پورا نقشہ سمجھ لیا جائے۔
مکہ معظمہ اللہ تعالیٰ کی عزت، عظمت اور شرف کو بلند و بالا کرنے والا شہر ہے۔ اس کی شکل مستطیل نما ہے جس کا ایک بڑا دروازہ اور اختتام ہے۔
مکہ شہر کی حدود ہیرہ نما ہے۔ اس شہر کے چاروں طرف پہاڑوں نے قدرتی دیوار یں کھینچی ہیں۔ یہ بالفعل شرقاًغرباً تقریباً ۳ کلو میٹر لمبا اور جنوباًَ شمالاً تقریباً ایک کلومیٹر چوڑا ہے۔ اس کا طول اشماس سے بازان تک ۵۲ میل ہے جب کہ (جدہ روڈ پر واقع) تنعیم سے باب اقصیٰ (جو مسفلہ کی جانب یمن روڈ پر ہے) تک ۲۱ میل ہے اور شماس (مقام حدیبیہ) شہر سے مغرب میں ۴۱ میل کے فاصلہ پر ہے۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مکہ معظمہ کی آبادی میں سعودی حکومت کے دور میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ورنہ صدیوں سے آبادی جوں کی توں تھی، اس عہد میں ترقی و تمدن نے اس جمود کو توڑ دیا۔
قبائل:
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا قوموں اور قبائل میں ہمیشہ ہی تقسیم رہی ہے۔ قوم قبیلے کی تقسیم خون، رنگ، نسل اور مذہب پر رہی ہے۔ اس ضمن میں قبائل عرب کا اطلاق ان قبیلوں پر ہوتا ہے جو سر زمین عرب یا جزیرہ نما عرب میں پائے جاتے ہیں۔ جزیرہ نما عرب میں بسنے والے لوگ عرب کہلاتے ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے۔
عرب بائدہ:
یعنی وہ قدیم عرب قبائل اور قومیں جو بالکل ناپید ہوگئیں اور ان کے متعلق ضروری تفصیلات بھی دستیاب نہیں۔ مثلاً عاد، ثمود طَسم، جَد یس، عمالِقہ، امییم، جرہم، حضور، وبار، عبیل اور حضرت موت وغیرہ۔
ان کا دور تمام جزیرہ نمائے عرب میں دور دور تک قائم رہا اور ان کے بعض بادشاہوں نے مصر تک کو فتح کیا۔
اُن کے تفصیلی حالات تاریخوں میں نہیں ملتے۔ لیکن نجد واحقاف و حضرموت و یمن وغیرہ میں ان لوگوں کی بعض عمارات اور آثار قدیمہ، بعض پتھروں کے ستون، بعض زیورات، بعض پتھر ایسے ملتے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے زمانہ میں یہ لوگ خوب طاقتور اور صاحب رعب و جلال والے ہوں گے۔ ان قبائل میں عاد سب سے زیادہ مشہور قبیلہ ہے۔
وہ عرب قبائل جو یعرب بن یشجب بن قحطان کی نسل سے ہیں انہیں قحطانی عرب سے پیشتر نوح علیہ السلام تک قحطان کے بزرگوں میں کسی کی زبان عربی نہ تھی۔قحطان کی اولاد نے عربی زبان استعمال کی اور یہ زبان عرب بائدہ سے حاصل کی۔
عرب عاربہ یا قحطانی قبائل میں بعض بڑے بڑے بادشاہ گزرے اور تمام جزیرے نمائے عرب پر یہ لوگ حکومت کرتے رہے۔ یعرب بن قحطان نے عرب بائدہ کی رہی سہی تمام نسلوں اور نشانیوں کا خاتمہ کر دیا۔ قحطانی قبائل کا اصل مقام اور قدیمی وطن یمن سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے ملک یمن کی آبادی و سرسبزی میں خاص طورپر کوششیں کیں۔ ان میں ایک ملکہ بلقیس تھی جو سلمان علیہ السلام کی معاصرہ تھی۔
وہ عرب قبائل جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں انہیں عدنانی عرب کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ ملک عرب میں باہر سے آکر آباد ہوئے۔ اس لئے ان کو عرب مستعربہ یا مخلوط عرب کا خطاب دیا گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مادری زبان عجمی یا فارسی تھی۔ حضرت اسماعیل ؑ کو حضرت ابراہیم ؑ معہ ان کی والدہ ہاجرہ کے جب مکہ معظمہ (ملک حجاز) میں چھوڑ گئے تو انہوں نے قحطان قبیلہ جُرہم جو مکہ معظمہ میں آباد ہو گئے تھے عربی زبان سیکھی اور آئندہ یہی عربی زبان آل ِ اسماعیل ؑ کی زبان ہوئی۔
عدنانی قبائل میں ایاد، ربیعہ اور مضر بہت مشہور ہوئے۔
قبائل مضر کے مشہور کنانہ میں فہر بن مالک تھے جن کو قریش بھی کہتے تھے۔ قریش کی اولاد میں بہت سے قبائل ہوئے جن میں بنی سہم، بنی مخزوم، بنی حمح، بنی عدی، بنی عبد الدار، بنی عبد المناف زیادہ مشہور ہوئے۔
عبد المنا ف کے چار بیٹے تھے، عبدشمس، نوفل، مطلب اور ہاشم۔ آنحضر ت محمد ﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم ہوئے۔ عبد شمس کے بیٹے امیہ تھے جن کی اولاد بنی امیہ کہلاتی ہے۔
مدینہ میں دو مذہب کے لوگ رہتے تھے۔
(۱) مشرک (۲) یہودی۔
اور مشرکوں کے دو خاندان تھے۔
(۱) اوس
(۲) خزرج
اور یہودیوں کے بڑے بڑے تین قبیلے تھے۔ (۱) بنو نضیر، (۲) بنو قینقاع (۳) بنو قریظہ
عرب کا حدود اربعہ:
جزیرۃ العر ب جو ایک وسیع عریض صحرا اور بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس میں آباد ازمنہ قدیم کی تقسیم کو مسیحی مؤرخ جرجی زیدان اس طرح بیان کرتا ہے۔
(۱) القحطانی: جو بلاد ِ یمن میں آباد تھے۔ یہ قحطان بن عابر جس کا سلسلہ نسب ارفشاد کے ذریعہ سام بن نوح سے جا ملتا ہے، کی اولاد تھے۔
(۲) اسماعیلی یا عدنانی: یہ لوگ حجاد نجد او ران کے ملحقہ علاقوں میں آباد تھے۔ یہ اسماعیل ؑ کی اولاد تھے۔ جو ابراہیم ؑ کی بیوی ہاجرہ سے پیدا ہوئے تھے۔
انہیں عدنانی اس لئے کہاجاتا ہے کہ ان کے آبا ؤ اجداد میں ” عدنان ” نامی ایک شخص گزرا ہے۔
۶۱۰کی دہائی میں آثار قدیمہ کی تحقیق بہت کم رہی ہے۔ یہی وجہ ہے جزیرہ نما عرب کے آغاز سے پہلے قبل از اسلام عرب کی زیادہ تفصیل دستیاب نہیں ہے۔
موجودہ عرب سر زمین کا خطہ بہت وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ جس میں موجودہ ریاستیں (قطر، دوبئی، عرب امارات، بحرین، عمان، فلسطین، یمن) اور بحیرہ احمر شامل ہیں۔ عرب کی قدیم روایات کے مطابق جو دراصل یہود کی کتابوں سے لی گئی ہیں ، جزیرہ العرب میں پہلے پہل دو نسلیں آباد ہوئیں.
ایک یقطان جو سام کی اولاد تھی، اور دوسری اسمٰعیل بن ابراہیم ؑ جو ان کی مصری لونڈی ہاجرہ سے تھی۔ ان میں شمال کی طرف بدوی رہتے تھے اور جنوب کی طرف مستوطینن، یمن میں یقطان کی اولاد نے ایک طرف سَبا کی سلطنت قائم کی اور دوسری طرف حِمْیَر کی۔
مشرقی عرب:
قبل از اسلام مشرقی عرب کے لوگ بنیادی طور پر آرامی زبان بولنے والے اور کچھ حد تک فارسی بولنے والے تھے، جبکہ سرائیکی زبان کو لسان القدس کی حیثیت حاصل تھی۔ اسلام سے پہلے کے دور میں مشرقی عرب کی آبادی زراعت پر مشتمل تھی۔
جنوبی عرب:
جنوبی عرب کو صعدہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کا دوسرا نام اہم شہر یتھل ہے ۔
شمالی عرب:
شمالی عرب قبائل میں سب سے منظم چھٹی صدی قبل مسیح میں اپنے اقتدار نے خلیج فارس اور سیناء کے درمیان ایک وسیع و عریض رقبہ حاصل کیا۔
آٹھویں اور چوتھی صدی قبل مسیح کے درمیان ایک بااثر قوت قیدری بادشاہوں کا ذکر سب سے پہلے اسوری سلطنت کے نوشتہ جات میں پایا گیا ہے۔ ابتدائی قیدری حکمران اس سلطنت کے محکوم تھے، جو ساتویں صدی قبل مسیح میں اسور کے خلاف بغاوت میں شامل تھے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دوسری صدی عیسوی میں قدیم قوم کی عظمت میں اضافے کے بعد بالآخر قدیریوں کو نبطی ریاست میں شامل کرلیا گیا۔
وسطی عرب:
منظم ریاستوں کے برعکس وسطی عرب یمن کی کندوں میں مملک کندہ قبیلے کی ایک عرب سلطنت تھی، اس قبیلے کا وجود دوسری صدی قبل مسیح قائم ہوا اور اس نے اپنی سلطنت قائم کی۔ اس کے بادشاہ نے متعدد منسلک قبائل پر اثر و رسوخ استعمال کیا جس میں زبردستی کی بجائے وقار سے زیادہ فائدہ اٹھایا گیا۔ ان کا نجد میں پہلا دار الحکومت قریہ وہات کوہل تھا، جیسے آج قریہ الفا کے نام سے جاناجاتا ہے۔
حجاز مقدس کی اہمیت:
یہ وادی قدس جلالت و عظمت اور اعلیٰ مرتبی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اپنی نزالی اور امتیازی شان میں دنیا جہان کی آبادیوں، شہروں اور قصبوں کی بادشاہ اور ان کی تخلیق کا موجب ہے، اسی لئے اسکا لقب ” اُم القریٰ ” ہے۔
مکہ مکرمہ روئے زمین میں سب جگہوں سے زیادہ عزت اور بزرگی والا شہر ہے، اور آسمان کے نیچے یقینی طور پر سب سے افضل جگہ ہے۔ کیونکہ اسی میں بیت اللہ شریف ہے جس کا حج کیا جاتا ہے، اسی شہر کو اللہ تعالیٰ نے بلد الحرام فرمایا، نزول وحی اور نزول ملائکہ کا مرکز، انبیاء اولیاء کا ٹھکانہ، ہر چیز کی پیدائش کا موجب و سبب اور ہر انعام خداوندی کی یہ بنیاد ہے۔
اس مقدس شہر میں ہر روز جنت سے ہوا جھونکے اور خوشبو آتی ہے۔ ارشاد فرمان نبی ﷺ: ” اگر مجھے ہجرت کا حکم بارگاہ خداوندی قدوس سے نہ ملتا تو میں مکہ مکرمہ کی سکونت ہر گز نہ چھوڑتا۔ میں نے آسمان کو مکہ مکرمہ کی زمین سے زیادہ قریب کہیں بھی نہیں دیکھا، اور نہ ہی میرے دل نے مکہ معظمہ کی سرزمین کے سوا کہیں قرار و سکون حاصل کیا، اور مجھے اس شہر میں چاند بے حد حسین و جمیل دکھائی دیتا ہے۔ روئے زمین کے تمام شہروں پر مکہ معظمہ کی فضلیت کی یہ ایسی روشن اور بین دلیل ہے جس کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ملتی۔
زمانہ گواہ ہے کہ اس حال میں اس قدر لاتعداد مخلوق معمورہ عالم میں مکہ مکرمہ کے سوا کہیں بھی جمع نہیں ہوتی اور انشاء اللہ قیامت تک ہر سال اسی جوش و خروش، جذبہ اور ولولہ کے ساتھ فرزندان توحید یہاں آتے رہیں گے۔
اس مقدس شہر کے قبرستان (جنت المعلاء) سے قیامت کے دن ستر ہزار انسان اٹھائے جائیں گے، جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوجائیں گے اور ان میں سے ہر ایک آدمی ستر ستر ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ ان کے چہرے چودھویں چاند کی ماند چمک رہے ہوں گے۔
دجال کے داخلہ سے یہ شہر محفوظ رہے گا۔ انبیاء کرام میں سے کئی نبی ایسے گزرے ہیں کہ جب ان کی دعوت پر قوم نے لبیک نہ کہی اور انہیں جھٹلایا، تو وہ بے بس ہو کر مکہ مکرمہ میں ہجرت کرکے آگئے۔
یہاں اللہ رب العزت کی عبادت میں مصروف و مشغول رہے۔ حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اسی وجہ سے کعبہ شریف کے اردگرد تین سو انبیاء کرام کی قبریں ہیں۔ اتنی کثیر تعداد میں انبیاء کرام کی قبریں دنیا بھر کے کسی خطہ میں بھی نہیں ہیں اور اہل مکہ نماز میں کعبہ شریف کی طرف چاروں سمت سے رخ کرتے ہیں، جب کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا شہر نہیں جہاں نماز میں چاروں طرف رخ کیا جا سکتا ہو۔
ایک روایت میں ہے کہ جب رسول ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ جارہے تھے تو راستہ میں مکہ مکرمہ کا اشتیاق دل پر غالب آیا تو جبرئیل امین تشریف لائے اور عرض کیا۔
کیا آپ ﷺ کا قلب اطہر مکہ مکرمہ کے اشتیاق میں مبتلا ہو گیا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جی۔ جبرئیل امین نے یہ فرمان خداوندی تلاوت فرمایا: (اِنَّ الَّذِی ْ فَرَ ضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَ آدُّکَ اِلٰی مَعَادِِ)
مکہ مکرمہ:
یہ مقدس، متبرک اور معزز نام اس قابل صد تعظیم و تکریم شہر کا ہے، جس پر دنیا جہاں کی عظمتیں قربان، جن کے چشمہ فیض سے عالم انسانیت مستفیض ہورہا ہے۔
جو خطہ مقدسہ اس کرہَ ارضی کے وجود کا موجب اور باعث تخلیق بنا۔ جو اپنی لطافت، نظافت، شرافت، عظمت وجلالت، شرف ومجد میں یگانہ روزگار ہے اور جس کی توصیف وتحمید سے قرآن مجید، احادیث سید المرسل ﷺ اور تاریخ عالم کے اوراق مزین و معمور ہیں۔
مکہ ایسی جگہ کو بھی کہا جاتا ہے جو اپنی مقناطیسی قوت سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے اور اسے مکہ کہنے کی وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ یہ شہر کرہَ ارضی کے وسط میں واقع ہے اور دنیا بھر کے دریاؤں اور چشموں کے پانی کا منبع بھی ہے۔ اس طرح تمام روئے زمین مکہ مکرمہ کے پانی سے سیراب اور فیض یاب ہورہی ہے۔
امام واحدی ؒ بسیط میں حضرت مجاہد ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کی سرزمین خالق کائنات نے زمین کے دوسرے اجزاء کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے پیدا کی اور اس کے چار رکن یعنی بنیادیں ساتویں زمین تک گہری تھیں۔ پانی کی سطح پر ابھرنے والا وہ خطہ (بیت اللہ شریف) جسے زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل حق تعالیٰ شانہ نے وجود بخشا، وہ مکہ مکرمہ ہی کی سرزمین تھی۔ جو پانی کے اوپر سفید جھاگ کی مانند تھی۔
پھر اسی کے نیچے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے زمین بچھادی۔ یعنی اسے پھیلا کر اطراف واکناف عالم تک پہنچا دیا گیا۔
ایک روایت میں ہے کہ مکہ مکرمہ روئے زمین کے وسط میں واقع ہے اور یہ زمین کی ناف ہے۔ اس لئے اسے اُمُّ القریٰ کہاجاتا ہے۔ اور یہ بیت المعمور کا سایہ ہے۔ مکہ مکرمہ کا محل وقوع دنیا میں سب سے پہلے بطلیموس المتوفی ۳۸۲ق م نے حسب ذیل بیان کیا تھا۔
طول بلند ۸۷درجہ اور عرض بلد ۳درجہ۔(جغرافیہ بطلیموس) لیکن عرب جغرافیہ دانوں کی تحقیقات میں یہ غلط ثابت ہوا۔ انہوں نے اس کی اصلاح کرکے اسے درست کیا۔ چنانچہ علامہ فرید وجدی ؒ جو ایک مشہور عالم اور جغرافیہ دان ہیں لکھتے ہیں:۔
طول بلد۰ ۴ درجہ ۹ دقیقہ عرض بلد ۱۲ درجہ دقیقہ اور سطح سمندر سے اس کی بلندی تقریباً۰ ۳۳ میٹر ہے۔ مکہ مکرمہ کا موسم اور ہوا کا رخ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ مکہ میں ہوا اپنا رخ اکثر تبدیل کرتی رہتی ہے۔
اہالیانِ مکہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ستر قسم کی ہوائیں پیدا کی ہیں۔ ۹۶ صرف مکہ کیلئے اور ایک پوری دنیا کے لئے۔ ہوا پہاڑوں میں بل کھاتے ہوئے اس طرح چلتی ہے جیسے پانی کی سطح پر بھنور ہوتا ہے۔ اسی لئے لوگوں نے مکانات کے اوپر منافذ (روشندان بنا رکھے ہیں، جن سے ہر رخ کی ہوا داخل ہوتی رہتی ہے۔)
خاندان بنو ہاشم کی تاریخ۔
عمرو نام اور ہاشم لقب تھا، عربی میں ” ہاشم ” روٹی کا چورا بنانے کو کہاجاتا ہے۔ اس کا اسم فاعل ” ہاشم “ہے۔ یعنی روٹی کا چورا کرنے والا۔ باپ کے وصال کے بعد رفادہ اور سقایہ کا انہیں متولی بنایا گیا۔ اس خطا ب کے ملنے کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سخت قحط کا شکار ہو گیا۔
لوگ بالکل نادار ہوگئے۔ غربت اور بھوک نے ان کا برا حال کردیا۔ انہیں کہیں سے بھی خوراک میسر نہ آتی تھی۔ عمرو کو قریش کی حالت زار پر ترس آیا اور اپنی دولت ساتھ لے کر شام کا سفر کیا۔ وہاں سے بہت بڑی تعداد میں روٹیاں خریدی، بوریوں اور تھیلیوں میں بھر کر اونٹوں پر لاد کر مکہ مکرمہ لے آیا۔ یہاں پہنچ کر تمام لوگوں کی دعوت کی۔
روٹیوں کا چورا بنایا اور وہی اونٹ جن پر روٹیاں لائی گئی تھی انہیں ذبح کرکے بڑی بڑی دیگوں میں پکایا۔اور دیگیں بڑی بڑی پراتوں میں اُلٹ دیں، اور روٹیوں کا چورا ان میں ڈال کر ثرید بنایا اور مکہ مکرمہ والوں کو خوب پیٹ بھر کر کھانا کھلایا۔
قحط کی جان لیوا مصیبت کے بعد پہلی بار فراوانی اور ارزانی سے انہیں کھانا نصیب ہوا۔ اسی سبب سے ان کا نام ہاشم مشہور ہوگیا۔ ہاشم بڑے زیرک اور مدبر تھے۔ اپنے فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے۔ حجاج کو نہایت سیر چشمی سے کھانا کھلاتے۔ انہوں نے منیٰ میں چرمی حوض بناکر پانی کی سبیل لگائی۔
اپنی دانائی اور حسن معاملات کی بدولت انہوں نے قریش کی تجارت کو چار چاند لگا دیئے۔ قیصر روم سے مراسلت کرکے یہ فرمان جاری کرایا کہ جب قریش کا مال تجارت اس کے ملک میں آئے تو اس پر ٹیکس نہ لگایا جائے۔ شاہ حبشہ سے بھی اسی قسم کا حکم نامہ حاصل کیا۔ چنانچہ جب قریش کا کاروان تجارت انقرہ داخل ہوتا تو قیصر بڑی عزت و حرمت سے اس کا خیر مقدم کرتا۔ عرب میں قزانی اور رہزنی کے باعث راستے محفوظ نہیں تھے۔ مگر ہاشم نے مختلف قبائل کا دورہ کرکے ان سے معاہدہ کرلیا وہ قریش کے کاروانِ تجارت کو ضرر نہیں پہنچائیں گے۔
ہاشم پہلے شخص ہیں جنہوں نے قریش کیلئے سال میں دو تجارتی سفر رائج کئے۔ ایک جاڑ ے میں (یعنی سردی) اور دوسرا گرمی کا اور دونوں کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ قریش میں بیان ہوا ہے۔ زندگی کے آخری ایام میں آپ شام کے سفر پر روانہ ہوئے مگر غزہ کے مقام پر بیمار ہو گئے، وہاں ہی ان کا وصال ہوا اور اسی جگہ دفن کردیئے گئے۔
ہاشم کے چار بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں۔ (شیبہ الحمد، صیفی، اسد اور نضلہ)
حضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ:
” اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے اسماعیل ؑ کو برگزیدہ بنایا۔ پھر اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو چن لیا۔ پھر بنو کنانہ میں سے قریش کو بزرگی عطا فرمائی۔ پھر قریش میں سے بنو ہاشم کو فضیلت عنایت کی اور بنو ہاشم میں سے مجھے ممتاز بنایا ” ۔
ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
” بیشک اللہ تعالیٰ نے کنانہ کو اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے چن لیا اور قریش کو بنوکنانہ میں سے پسند فرمالیا۔اور ہاشم کو قریش میں فضیلت دی اور مجھے بنی ہاشم میں سے منتخب فرمالیا”۔
مکہ پر ابرہہ کا حملہ:
ہوا یوں کہ نجاشی شاہ حبشہ نے ابو صحم اریاط کو چار ہزار کا لشکر جرار دے کر یمن فتح کرنے کو بھیجا۔ اس نے یمن فتح کرنے کے بعد وہاں کے باشندوں پر سخت ظلم وتشدد کیا۔ بادشاہوں کو محتاج اور غربا کو بہت ذلیل کیا۔
ان مظالم کو دیکھ کر حبشہ کا ایک شخص ابو یکسوم ابرہہ الاشرم نے اہل یمن کو اتحاد کی دعوت دی۔ چنانچہ سب نے متحد ہو کر اریاط کو قتل کردیا اور ابرہہ یمن کا حکمران بن گیا۔ اس کی ناک کٹی ہوئی تھی ا سلئے اسے اشرم کہاجاتا تھا۔ اس نے ایک عالیشان محل سرخ وسفید زرد سیاہ پتھروں کا بنایا، جو سونے چاندی سے مجلیٰ اور جواہرات سے مرصع تھا۔ دروازوں پر سونے کے پترے اور کیل لگائے۔
دیواروں پر اتنی زیادہ کستوری ملی گئی کہ دیواریں سیاہ ہوگئیں اور اس کے اندر ایک بہت بڑا یا قوت نصب کیا، اور یہ اعلان کیا کہ آئندہ مکہ میں کعبہ کا حج کرنے کوئی نہیں جاسکتا بلکہ ہمارے کعبہ کا حج کیا جائے۔ اس وقت تک عرب قبائل کے دل میں کعبہ شریف کی عزت و تکریم قائم تھی۔ وہ کعبہ کے مقابلہ میں کسی محل کو ترجیح نہیں دے سکتے تھے۔
چنانچہ ایک دن رات کے اندھیر ے میں ایک شخص موقع پاکر اس محل میں گھسا اور اس میں خوب نجاست (گندگی) مل دی۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ایک عرب قبیلہ وہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ان کے آگ جلانے سے محل میں بھی آگ لگ گئی اور وہ جل کر خاکستر ہوگیا۔
جب ابرہہ کو اطلاع ملی تو وہ آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے قسم کھائی کہ جب تک وہ عربوں کے کعبہ (نعوذ باللہ) تہس نہس نہیں کرتا چین سے نہیں ٰؓبیٹھے گا۔ وہ تین سو کوہ قامت ہاتھی اور ایک لشکر جرار لے کر مکہ کو روانہ ہو گیا۔
اس نے یہ مذموم منصوبہ بنایا تھا کہ کعبہ شریف کے ستونوں میں لمبی اور مضبوط زنجیریں باندھ کر ہاتھیوں کے گلے سے باندھی جائیں اور پھر یک بار گی ہاتھیوں کو ہنکا کر کعبہ کو منہدم کردیا جائے۔ اثناء راہ میں متعدد عرب قبائل بڑھ چڑھ کر اس کی فوج پر حملہ آور ہوئے مگر ہزیمت اُٹھا کر پسپا ہو گئے۔
بالآخر وہ مکہ معظمہ کے قریب پہنچ گیا اور اپنی فوج کو حکم دیا کہ مکہ والوں کی بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ جو کچھ نظر آئے اس پر قبضہ کرلو۔
چنانچہ رئیس قریش عبدالمطلب کے دو اونٹ بھی گرفتار کرلئے گئے۔ جب عبدالمطلب کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ ابرہہ کے پاس گئے۔ اس نے ان کا وجہہہ چہرہ دیکھا تو تعظیم سے کھڑا ہو گیا اور تخت سے اُ تر کر نیچے ان کے برابر بیٹھ گیا۔ جب عبدالمطلب نے اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو وہ برا فروختہ ہو کر کہنے لگا۔
جب آپ کو میں نے آتے دیکھا تو میرے دل میں آپ کی عزت پیدا ہوئی، مگر آپ کے انتہائی کمزور سے مطالبہ نے اس کو ختم کر دیا ۔ میں تو تمہارے دین کے کعبہ کو نیست و نابود کرنے آیا ہوں اور تمہیں اس کی تو فکر نہیں اور اپنے اونٹوں کی پڑی ہوئی ہے۔
عبدالمطلب نے جواب دیا کہ اونٹ میرے ہیں اس لئے مجھے ان کی فکر ہے اور جس کا کعبہ ہے وہ خود اس کی حفاظت کرسکتا ہے۔
کہنے لگا تمہارا خدا کعبہ کو میرے ہاتھ سے نہیں بچا سکتا۔ عبدالمطلب نے کہا پھر تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔
عبدالمطلب نے واپس آکر ایک بڑی جماعت کے ساتھ کعبہ شریف کا پردہ پکڑ کر آہ زاری سے دعا کی کہ پروردگار تو اپنے گھر کی حفاظت کا خود انتظام فرما ہم تو بے بس ہیں۔
اس کے بعد اپنی قوم کو ساتھ لے کر پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ انہیں یقین تھا کہ اس خطا کار قو م پر ضرور عذاب خداوندی نازل ہوگا۔ ادھر ابرہہ نے بیت اللہ پر حملہ کی تیاریاں مکمل کر لیں۔
سب سے بڑا ہاتھی جس کا نام ” محمود ” تھا آگے چلنے کیلئے تیار کیا تو نفیل بن حبیب جسے راستہ سے گرفتار کرکے لائے تھے۔
اس نے ہاتھی کا کان پکڑ کر کہا تو جہاں سے آیا ہے وہیں صحت و سلامتی سے واپس لوٹ جا، کیونکہ تو اللہ تعالیٰ کے ” بلد امین ” (محفوظ شہر) میں ہے۔
یہ سنتے ہی ہاتھی فوراً بیٹھ گیا۔ فیل بانوں نے اسے اٹھانے کی انتہائی کوشش کی، آہنی گرز مارے ناک میں لوہے کا آنکڑ ا ڈال کر کھنچا، مگر وہ اپنی جگہ سے سر بھی نہیں ہلا۔
جب لوگوں نے اسے یمن کی طرف چلانا چاہا تو فوراً کھڑا ہوگیا۔ پھر شام کی طرف ذرہ برابر بھی آگے نہیں بڑھا۔ اسی اثناء میں دریا کی طرف سے پرندوں کے غول آتے دکھائی دیئے ہر ایک پرندہ کے پاس چنے یا مسور کے برابر تین کنکریاں تھیں۔ ایک ایک کنکری ان کی چونچ میں اور دو پنجوں میں تھیں۔ پرندے فوراً,ابرہہ کے لشکر پر چھاگئے، اور اس پر کنکریوں کی بارش کردی۔
جس پر کنکری پڑتی اسے تباہ کر دیتی۔ انہوں نے لوگوں کے بدن چھلنی کردیئے۔ آن واحد میں تمام لشکر کھائے ہوئے گھاس بھوس کی طرح ہو گیا، لشکر کے سرغنہ ابرہہ کو اس سے بھی زیادہ عبرتناک سزا دینا مقصود تھا اس لئے وہ وہاں میدان میں نہ مرا بلکہ واپس یمن کو چل دیا۔
مگر اس کے جسم میں کنکریوں سے کچھ ایسا زہر سرایت کرگیا تھا اس کا ایک ایک جوڑ گل کر بدن سے علیحدہ ہونے لگا۔ اسی حالت میں وہ اپنے دارالحکومت صنعاء میں پہنچا کہ اس کا سارا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر گیا اور وہ واصل جہنم ہو ا۔
اس کے بعد قدرت خدا وندی نے ایک ایسی طوفانی بارش نازل کی جس کے ریلے میں یہ تمام منحوس لاشیں بہہ کر سمندر میں غرق ہوگئیں، اور تمام علاقہ صاف ستھرا ہوگیا۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے پچاس روز پہلے کا ہے۔
خانہ کعبہ کی تاریخ:
یہ وہ مقدس خطہ ہے جو تمام روئے زمین کی پیدائش کا سبب بنا۔ اور جسے زمین و آسمان کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے وجود بخشا گیا۔ حضرت کعب بن اخبارؓ سے روایت ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے چالیس برس پہلے کعبہ شریف کی سرزمین پانی پر قائم تھی۔
پھر اس سے زمین کو پھیلا دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف والی جگہ زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے پیدا فرمائی اور اس کی بنیادیں ساتویں زمین تک گہری تھیں۔ وہ مقدس گھر جس کی نسبت تشریفی اللہ جل شانہ کی طرف ہے۔ اپنے شرف و مجد اور عزت و تکریم کے باعث ” کعبہ ” کے نام سے موسوم ہوا۔ کعب کسی چیز کی سربلندی اور شرافت کیلئے استعمال ہوتا ہے، اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اس فرش خاکی پر یہ گھر انتہا معزز و مکرم، اشرف وامجد اور افخم ہے۔ جو پیدائش میں بھی سب سے قدیم اور جس کی فضیلت ہر ایک چیز پر حاوی اور اغلب ہے۔ اسی وجہ سے کعبہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔
سیدنا آدم ؑ کی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ بیت المعمور کی مانند زمین میں میرا گھر بناؤ۔ جب وہ گھر تیار ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو حکم دیا کہ تم اس کا طواف اسی طرح کرو جس طرح آسمان والے بیت المعمور کا کرتے ہیں۔
دنیا میں سب سے پہلا عبادت خانہ کعبہ ہے، اس کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا کے سب گھروں میں پہلا گھر عبادت ہی کیلئے بنایاگیا ہو، اس سے پہلے نہ کوئی عبادت خانہ ہو، نہ دولت خانہ۔بعض روایات میں ہے کہ حضرت آدم ؑ کی پیدائش سے دوہزار سال پہلے ملائکہ نے کعبہ شریف تعمیر کیا اور اس کا حج بھی کرتے تھے۔
مکہ معظمہ روئے زمین کے وسط میں ہونے کی وجہ سے ساری دنیا کے مسلمانوں کا قبلہ بھی بیت اللہ شریف مقرر کیا گیا جس کی طرف ہر حصہ کی جانب سے مسلمان نماز میں اپنا رخ کرتے ہیں۔
روئے زمین پر اس سے زیادہ قدیم اور کہنہ عمارت اور کوئی نہیں ہے۔ اور رب ذولجلال کی کی شان پر سوجان سے قربان جائیں کہ اس انتہائی سادہ سی عمارت کو چار ہزار سال کے طویل عرصہ میں صرف چند بار بنانے اور تعمیر کرنے کی نوبت آئی ہے۔
بعض روایات میں پانچ مرتبہ، بعض میں دس مرتبہ اور بعض میں گیا رہ بار تعمیر کرنے کا ذکر آتا ہے۔
عرب کا سیاسی اور معاشی اور معاشرتی نظام:
مکہ معظمہ کے غیر مہذب اور غیر تعلیم یافتہ باشندے معاشی اور سیاسی استحکام کے حصول کی غرض سے جزیرہ نما عرب کے معاشی وفاق سے منسلک تھے، جو وہاں کے سالانہ میلے اور تجارتی قافلوں کا انتہائی ترقی یافتہ نظام تھا۔
پورے عرب میں ایک زبان بولنا، ایک طرز سے فال دیکھنا، مختلف بتوں اور دیوتاؤں کی مشترک طور پر عبادت کرنا اور ان کے رسم و رواج میں یکسانیت کا پایاجانا، یہ تمام چیزیں ان کے سیاسی اتحاد اور ملی یگانگت کا مظہر تھیں۔
مکہ مکرمہ کے باشندوں نے اسلام سے بہت زمانہ پہلے ایک ایسا ترقی یافتہ قانون مرتب کیا تھا جس پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف مکہ بلکہ ایشیا، افریقہ، اور یورپ تینوں براعظموں کا نظم ونسق چلا سکتے تھے۔ مکہ مکرمہ پر پہلی حکومت جرہم کی قائم ہوئی جو پانچ سو سال تک رہی۔ ان کے بعد خزاعہ نے تین سو سال حکومت کی۔
سماجی حالت:
زمانہ جاہلیت میں عربوں کے قومی اخلاق میں سخاوت وفیاضی، شجاعت، عزت نفس، خاندانی، وقار جذبہ، حریت، وفاداری اور ایفائے عہد کے اوصاف بڑے نمایاں ہیں۔ جغرافیائی حالات نے عربوں میں سخاوت اور فیاضی کوٹ کوٹ کر بھردی تھی۔
اہل ثروت اور دولت مند طبقہ کا اخلاق اور قومی فرض ہوتا تھا کہ مہمانوں کی خاطر تواضع کرے۔
عربوں کی وفاداری بھی ضرب المثل تھی۔ وہ اپنے خاندان قبیلے کے بڑے وفادار تھے۔ آپس میں کتناہی اختلاف کیوں نہ ہو، عرب ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑتے۔ اگر مصیبت کے وقت اکثر یت غلط کر لیتی تو دانش مند لوگ سردار ان قبیلہ وفاداری کی خاطر قوم کا ساتھ دیتے، خواہ جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ عرب وعدے کے بڑے پکے تھے۔
سیاسی حالت:
ظہور اسلام کے وقت جزیرہ عرب میں مروجہ طرز کا کوئی نظام باقاعدہ نظام حکومت نہ تھا جھگڑوں کے فیصلے کیلئے کوئی عدالت نہ تھی۔ امن قائم رکھنے کیلئے پولیس کا محکمہ نہ تھا اور بیرونی حملوں کی روک تھام کیلئے کوئی فوج بھی نہ تھی۔ عربوں کی ہاں اپنا کوئی سکہ اور ٹکسال بھی موجود نہ تھا۔
جزیرہ عرب کے باشندے مختلف قبیلوں میں منقسم تھے ہر ایک قبیلے کا اپنا اپنا سردار ہوتا تھا سردار کا انتخاب کرتے وقت اس کی عمر، اثر و رسوخ، شخصی وقار احترام، دولت کی کثرت اور ذاتی اقتدار وجاہت کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔ سردار کی وفات پر سب قبیلہ مل کر اپنا نیا سردار منتخب کر لیتا تھا۔
معاشی حالت:
عرب ایک بے آب و گیاہ اور لق صحرا پر مشتمل علاقہ ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی سرزمین عرب میں کچھ ہی علاقے ایسے تھے جہاں زراعت ہوتی تھی۔
صحرا کی وجہ سے زیادہ تر لوگ مال مویشی جس میں بھیڑ،بکری، گھوڑا اور اونٹ خاص طور پر شامل تھے،پالتے تھے۔
لوگوں زراعت اور گلہ بانی کے ساتھ ساتھ تجارت سے وابستہ تھے۔ مکہ کے قریش تجارت میں خاص طور پر مشہور تھے جن کے قافلے سامان تجارت کے ساتھ یمن، شام، بحرین اور فلسطین تک جاتے تھے۔
دشوار گزار صحرا اور گرمی کی وجہ سے عرب کی آبادی بہت کم تھی۔ حضورﷺ کی بعثت کے وقت بھی عرب کے قبائل زیادہ تر غریب ہی تھے۔ اس کی بنیادی وجہ مقامی زمین میں سرسبزے کا فقدان تھا اور بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے سالوں تک قحط سالی قائم رہتی تھی۔
خلاصہ:
اسلامی تاریخ کے موضوع پر مسلمانوں میں بہت شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ انکی بڑی وجہ تاریخی کتابوں میں مکس قسم کی روایات ہیں جو اک لمحہ میں کسی کو ولی اور دوسرے لمحے میں اسے ظالم، چور، منافق اور خائن بنادیتی ہیں۔ ان روایات کی حقیقت کیا ہے؟
انکو روایت کرنے والے کون ہیں؟
انہوں نے ایسی روایات کیوں پیش کیں اور پھر یہ روایات کیسے تاریخ کی امہات کتابوں میں شامل ہو گئیں، انکی پہچان اور معیار رد و قبول کیا ہونا چاہیے؟
یہ سوال تاریخ اسلامی سے دلچسپی رکھنے والے تقریباََ ہرقاری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔
انہیں سوالات کے جوابات میں اسلامی تاریخ کے موضوع پر تحقیق کا اک سلسلہ شروع کیا گیاہے تاکہ تاریخ کو سمجھنے اور کسی بھی تاریخی واقعہ کو پرکھنے میں مدد مل سکے۔
Copied