Saudi Arab Me Maa ki ahamiyat aur hamara Muashera.
Aaj Ham apne Waldain ko Old house me rakh kar chale aate hai jabki Saudi Arabia me Do bete Ne apni Maa ko sath rakhne ke liye Adalat me mukadma lada.
मै अपनी जन्नत की खिदमत करूंगा , सऊदी अरब में एक दिलचस्प वाकया पेश आया।
सऊदी अरबिया में जब एक अस्सी और साठ साल के बेटे ने अपनी जईफ मां को अपने साथ रखने के लिए अदालत का दरवाजा खटखटाया।
🔘 *اولاد ایسی بھی ہوتی ہے* 🔘
میری جنت میرے ساتھ رہیگی میں خدمت کرونگا۔
*جب کہ ہمارا معاشرہ بد بخت ہے کےبوڑھے والدین کی خدمت کرنے کی جگہ انہیں اولڈ ہاوس بھجوا دےتے ہیں*...👇
بڑا مشہور واقعہ ہے مشہور ہی اتنا ہوا سعودیہ ریاض کے ہائی کورٹ میں کیس چلا۔اخبار نے سرخیاں لگائی ۔کیس کیا ہے۔کوئی جائداد کا جھگڑا ہے کوئی مال کا تنازعہ ہے، نہیں۔کیس یہ ہے کہ ایک اسی نوے سال کا بوڑھا ہےاور ایک ساٹھ ستر سال کا بوڑھا ہے ۔ دونوں بوڑھے ہیں کیس بھی عجیب و غریب نوعیت کا ہے۔کیس لگا ہوا ہے عدالت میں۔ کیس یہ ہے کے جو اسی نوے سال کا بوڑھا ہے اس کے پاس اس کی ایک سو دس سال کی ماں موجود ہے۔ چھو ٹے بیٹے نے کیس کیا ہوا ہے اس نے ساری زندگی والدہ کی خدمت کی ہے
اب یہ بوڑھا ہوگیا ہےاب یہ والدہ کی خدمت اچھے سے نہیں کر سکتا۔ میں یہ کیس کرتا ہوں چھوٹے بھائی کی عمر بھی ساٹھ ستر سال ہے کے والدہ میرے حوالے کر دی جائے۔
لوگ مال و دولت کیلئے کیس کرتے ہیں کچھ لوگوں کو اللہ نے ایسی تربیت میسر کر دی ہوتی ہیں والدین ان کو میسر ہوتے ہیں وہ کیس کر رہے ہوتے ہیں والدہ کو لینے کے لئے۔عدالت کا جج پریشان ہے وہ جود لکھتا ہے اپنی داستان اخبار میں کے میں نے ان کا بیچ اپ کروانے کی کوشش کی کہ پندرہ دن تم رکھ لو پندرہ دن دوسرے کے پاس۔ بڑا بیٹا کہتا ہے ماں تمام عمر میرے پاس رہی ہے اب میں نے چھوڑنا نہیں ہے اگر میری والدہ ایک دن بھی میری شکایت کرے تو انہیں میرے چھوٹے بھائی کو دے دینا۔چھوٹا کہتا ہے یہ اکیلا ہی جنت کمانے لگا ہوا ہے میرا کوئی حق نہیں میری والدہ پر۔اس نے بہت خدمت کر لی ہے۔
اب میرا بھی حق ہے والدہ کی خدمت کا۔بیچ اپ کروانے کی کوشش کی گئی۔لیکن کوشش کامیاب نہیں ہو ئی۔عدالت کا جج خود لکھ رہا ہے "دونوں بھائیوں کو بلوایا گیا اللہ کا واسطہ ہے کیا تماشہ لگایا ہوا ہے اخباروں میں خبرے چھپ رہی ہیں۔سرنڈر کر لو کوئی بھائی ماننے کو تیا نہیں"۔جج نے اخری حل یہ نکالا کے والدہ سے پوچھ لیتے ہیں۔جس کے پاس والدہ رہنا چاہتی ہے اس کے سپرد کر دوں گا۔والدہ کو بلوایا گیا ۔والدہ و ہیل چیئر پر ائی ۔کہتے ہیں کوئی تیس کلو والدہ کا وزن ہو گا۔جج نے کہا یہ کیسی تربیت کی ہے تو نے ، تیرے بیٹے تیرے لئے جھگڑ رہے ہیں ۔میرے پاس مال ودولت کے کیس اتے ہیں جائیداد اور پراپڑٹی کے کیس اتے ہیں ۔تو کس کے پاس رہنا چاہتی ہے۔والدہ اس عمر رو رہی ہے ۔کہتی ہے" میں دونوں سے پیار کرتی ہوں میں دونوں میں کوئی فرق نہیں کرسکتی۔اپ جج ہے میں اپ کو اختیار دیتی ہوجو اپ فیصلہ کرے گئے وہ منظور ہو گا۔ میں دونوں میں سے ایک کا انتحاب کر کیس ایک کا دل نہیں توڑنا چاہتی"۔عدالت کے جج نے فیصلہ لکھا شے سرخیاں چھپی۔اس بزرگ نے چا لیس سال اپنی والدہ کی خدمت کی ہے ۔اس کی عمر اسی سال ہو گئی ہے اب یہ کمزور ہو چکا ہےیہ اچھے سے والدہ کی خدمت نہیں کر سکتا، اب دوسرے کا حق بنتا ہے کہ وا لدہ کی خدمت کرے۔میں تمام تر والدہ کی ذمہ داریاں اسے سپرد کرتا ہوں۔جب یہ فیصلہ ہوا وہ بوڑھا زارو قطار رو پڑا ۔اس نے کہا ہائے افسوس میرے پڑھاپے نے مجھے والدہ سے دور کیا۔
لوگوں یہ ہے تربیت ہےیہ انداز ہے کے اسی سال کا بوڑھا رو رہا ہے کہ مجھ سے میری جنت چھین گئی۔
جب کہ ہمارا معاشرہ بد بخت ہے کےبوڑھے والدین کی خدمت کرنے کی جگہ انہیں اولڈ ہاوس بھجوا دیتے ہیں...