find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Maa-Baap. Show all posts
Showing posts with label Maa-Baap. Show all posts

Mai Apni Jannat ko Apne Sath rakhunga aur Khidmat karunga.

Saudi Arab Me Maa ki ahamiyat aur hamara Muashera.
Aaj Ham apne Waldain ko Old house me rakh kar chale aate hai jabki Saudi Arabia me Do bete Ne apni Maa ko sath rakhne ke liye Adalat me mukadma lada.

मै अपनी जन्नत की खिदमत करूंगा , सऊदी अरब में एक दिलचस्प वाकया पेश आया।
सऊदी अरबिया में जब एक अस्सी और साठ साल के बेटे ने अपनी जईफ मां को अपने साथ रखने के लिए अदालत का दरवाजा खटखटाया।

🔘 *اولاد ایسی بھی ہوتی ہے* 🔘

میری جنت میرے ساتھ رہیگی میں خدمت کرونگا۔
*جب کہ ہمارا معاشرہ بد بخت ہے کےبوڑھے والدین کی خدمت کرنے کی جگہ انہیں اولڈ ہاوس بھجوا دےتے ہیں*...👇

بڑا مشہور واقعہ ہے مشہور ہی اتنا ہوا سعودیہ ریاض کے ہائی کورٹ میں کیس چلا۔اخبار نے سرخیاں لگائی ۔کیس کیا ہے۔کوئی جائداد کا جھگڑا ہے کوئی مال کا تنازعہ ہے، نہیں۔کیس یہ ہے کہ ایک اسی نوے سال کا بوڑھا ہےاور ایک ساٹھ ستر سال کا بوڑھا ہے ۔ دونوں بوڑھے ہیں کیس بھی عجیب و غریب نوعیت کا ہے۔کیس لگا ہوا ہے عدالت میں۔ کیس یہ ہے کے جو اسی نوے سال کا بوڑھا ہے اس کے پاس اس کی ایک سو دس سال کی ماں موجود ہے۔ چھو ٹے بیٹے نے کیس کیا ہوا ہے اس نے ساری زندگی والدہ کی خدمت کی ہے
اب یہ بوڑھا ہوگیا ہےاب یہ والدہ کی خدمت اچھے سے نہیں کر سکتا۔ میں یہ کیس کرتا ہوں چھوٹے بھائی کی عمر بھی ساٹھ ستر سال ہے کے والدہ میرے حوالے کر دی جائے۔

لوگ مال و دولت کیلئے کیس کرتے ہیں کچھ لوگوں کو اللہ نے ایسی  تربیت میسر کر دی ہوتی ہیں والدین ان کو میسر ہوتے ہیں وہ کیس کر رہے ہوتے ہیں والدہ کو لینے کے لئے۔عدالت کا جج پریشان ہے وہ جود لکھتا ہے اپنی داستان اخبار میں کے میں نے ان کا بیچ اپ کروانے کی کوشش کی کہ پندرہ دن تم رکھ لو پندرہ دن دوسرے کے پاس۔ بڑا بیٹا کہتا ہے ماں تمام عمر میرے پاس رہی ہے اب میں نے چھوڑنا نہیں ہے اگر میری والدہ ایک دن بھی میری شکایت کرے تو انہیں میرے چھوٹے بھائی کو دے دینا۔چھوٹا کہتا ہے یہ اکیلا ہی جنت کمانے لگا ہوا ہے میرا کوئی حق نہیں میری والدہ پر۔اس نے بہت خدمت کر لی ہے۔
اب میرا بھی حق ہے والدہ کی خدمت کا۔بیچ اپ کروانے کی کوشش کی گئی۔لیکن  کوشش کامیاب نہیں ہو ئی۔عدالت کا جج خود لکھ رہا ہے "دونوں بھائیوں کو بلوایا گیا اللہ کا واسطہ ہے کیا تماشہ لگایا ہوا ہے اخباروں میں خبرے چھپ رہی ہیں۔سرنڈر کر لو کوئی بھائی ماننے کو تیا نہیں"۔جج نے اخری حل یہ نکالا کے والدہ سے پوچھ لیتے ہیں۔جس کے پاس والدہ رہنا چاہتی ہے اس کے سپرد کر دوں گا۔والدہ کو بلوایا گیا ۔والدہ و ہیل چیئر پر ائی ۔کہتے ہیں کوئی تیس کلو والدہ کا وزن ہو گا۔جج نے کہا یہ کیسی تربیت کی ہے تو نے ، تیرے بیٹے تیرے لئے جھگڑ رہے ہیں ۔میرے پاس مال ودولت کے کیس اتے ہیں جائیداد اور پراپڑٹی کے کیس اتے ہیں ۔تو کس کے پاس رہنا چاہتی ہے۔والدہ اس عمر رو رہی ہے ۔کہتی ہے" میں دونوں سے پیار کرتی ہوں میں دونوں میں کوئی فرق نہیں کرسکتی۔اپ جج ہے میں اپ کو اختیار دیتی ہوجو اپ فیصلہ کرے گئے وہ منظور ہو گا۔ میں دونوں میں سے ایک کا انتحاب کر کیس ایک کا دل نہیں توڑنا چاہتی"۔عدالت کے جج نے فیصلہ لکھا شے سرخیاں چھپی۔اس بزرگ نے چا لیس سال اپنی والدہ کی خدمت کی ہے ۔اس کی عمر اسی سال ہو گئی ہے اب یہ کمزور ہو چکا ہےیہ اچھے سے والدہ کی خدمت نہیں کر سکتا، اب دوسرے کا حق بنتا ہے کہ  وا لدہ کی خدمت کرے۔میں تمام تر والدہ کی ذمہ داریاں اسے سپرد کرتا ہوں۔جب یہ فیصلہ ہوا وہ بوڑھا زارو قطار رو پڑا ۔اس نے کہا ہائے افسوس میرے پڑھاپے نے مجھے والدہ سے دور کیا۔
لوگوں یہ ہے تربیت ہےیہ انداز ہے کے اسی سال کا بوڑھا رو رہا ہے کہ مجھ سے میری جنت چھین گئی۔
جب کہ ہمارا معاشرہ بد بخت ہے کےبوڑھے والدین کی خدمت کرنے کی جگہ انہیں اولڈ ہاوس بھجوا دیتے ہیں...

Share:

Maa Baap Dawa (Medicine) se thik nahi hote.

Maa Baap Dawa se kaha thik hote hai?
Maa ko Ki Medical Hospital ki Dawa ki jarurat nahi hoti bas apne Aulad ke hamdardi ki jarurat hoti hai.
Maa Baap Dawa Se thik nahi hote.
Salahuddin Ayyubi ki Maa unki kaisi tarbiyat ki thi?

Kya ab hame Aisi Maayein Mil sakti hai?

Jismani Tallukat qayem karne ke bad Pyar khatam Kyu Ho jata hai? a silent messages for desi liberals.
Islam me Sabse Pahle Shaheed hone wali Khatoon?
"My body My Choice" walo ko ek Behan ka paigam.

#ماں_باپ_دوا_سے_ٹھیک_نہیں_ہوتے۔

میری نئی نئی شادی ہوئی تھی میں بہت خوش تھا ۔۔۔۔اللہ نے ویسی  ہی ہمسفر عطا کی تھی جیسںی چاہتا تھا۔۔۔۔پیاری سی ۔۔۔دوستانہ سی۔۔۔۔سمجھنے والی ۔ نیک اور فرمانبردار ۔۔۔۔۔۔۔

ہم۔دو بھائی ہیں بڑا بھائی اپنی فیملی کے ساتھ الگ رہتا یے۔۔۔اور امی میرے ساتھ رہتی تھی ۔۔۔۔
ابو دو سال پہلے دنیا سے چل بسے تھے۔۔۔۔۔
اب میری فیملی میں ہم۔ 3 لوگ تھے۔۔ میں میری بیوی اور امی۔۔۔
میرا سارا وقت بیوی کے ساتھ گزرتا۔۔۔۔۔
آفس جاتا تو ۔۔وہاں سے بھی فون کرتا اپنی بیوی کو ۔۔۔
حال پوچھتا ۔۔۔۔نیا سفر تھا ہمسفر کے بنا اداس ہو جاتا تھا ۔۔۔۔صبح جب آفس جاتا تو امی اپنے کمرے میں بیٹھی قرآن مجید کی تلاوت کر رہی ہوتی تھیں ۔۔۔۔۔
رات کو آتا تو امی کو سلام کر کے سیدھا اپنے  کمرے میں آفرین کے پاس چلا جاتا۔۔ آفرین میری شریک حیات کا نام ہے۔۔۔۔
میرے صبح شام ایسے ہی گزرنے لگے۔۔۔۔۔۔
امی سے ملنا امی کے پاس بیٹھنے کا وقت ہی کہاں ملا کرتا تھا۔۔۔ میں کھانا بھی اپنے کمرے میں کھایا کرتا تھا ۔۔ 
ایک دن امی مجھے کہنے لگی ۔۔۔۔اوئے میرے لال ۔۔اپنی ماں کا حال بھی پوچھ لیا کر۔۔۔ہفتہ ہفتہ مجھ سے بات بھی نہیں کرتا توں۔۔۔۔۔میں ہلکا سا مسکرایا امی آپ کو تو پتہ ہی ہے ۔۔
آفس میں بہت کام ہوتا ہے کیسے آتا یوں تھک جاتا ہوں بہت ۔۔۔
امی نے سر پی ہاتھ پھیرا دعا دینے لگی ۔۔اچھا اللہ میرے بیٹے کو سرد ہوا نہ لگے ۔۔۔
جا اب سو جا ۔جا کر آفرین بیچاری انتظار کر رہی ہو گی تمہارا۔۔۔۔۔۔
میں کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔
امی کے گھٹنے میں بہت درد تھا اس دن شاید وہ کہنا چاہتی تھیں مجھے ڈاکٹر پاس لے جاو ۔۔۔۔لیکن جب میں نے کہا ۔۔۔میں تھک گیا ہوں تو۔۔۔امی نے مجھے آرام کرنے کا کہا۔۔۔۔۔
میری بیوی کہنے لگی۔۔۔۔یار دل کر رہا ہے برگر کھانے کو۔۔۔۔۔جاو نا لا دو ۔۔۔۔۔
میں نے گھڑی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ ٹائم دیکھ 10 بج رہے ہیں ۔۔۔ آفرین مسکرا کر بولی ۔۔۔۔تو کیا ہوا جاو لے کر آو  ۔۔  میں جب کمرے سے باہر آیا تو۔۔ ۔دیکھا امی خود ہی اپنی گھٹنہ دبا رہی تھیں ۔۔۔شاید ان کو بہت درد تھا۔۔۔میں نظرانداز کر کے بائیک اسٹارٹ کی ۔۔۔امی نے پوچھا کہاں جا رہے ہو اس ٹائم میرے بچے۔۔۔۔
میں بولا امی وہ آفرین کے سر میں درد ہے اس نے کھانا نہیں کھایا بس اس کے لیئے برگر لانے جا رہا ہوں ۔۔۔۔
امی نے ٹھنڈی آہ بھری۔۔۔۔تو اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا نا۔۔۔۔جب میں جانے لگا تو امی نے کہا اچھا میرے گھٹنے میں درد ہے آتے وقت کوئی دوا لیتے انا۔۔۔۔
میں بازار چلا گیا۔۔۔۔برگر کی دکان پہ کافی بھیڑ  تھی ۔۔۔۔وہاں ایک دوست مل گیا اس کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا۔۔۔۔اتنے میں برگر تیار ہو گیا۔۔۔۔برگر لے کر گھر آ گیا۔۔۔۔
امی نے لنگڑاتے ہوئے دروازہ کھولا۔۔۔۔۔

میں نے بائیک کھڑی کی کمرے میں جانے لگا تو امی نے پوچھا بیٹا میری دوا نہیں لایا۔۔۔۔
میں نے سر پہ ہاتھ رکھا  اف  امی بھول گیا تھا۔۔۔۔ابھی لے آتا ہوں ۔۔۔۔امی مسکرائی۔۔نہیں بچے تم۔آرام کرو کل لے انا۔۔۔۔
آفرین برگر کھانے لگی میں موبائل پہ گیم کھیلنے لگا۔۔۔۔۔
امی شاید اس رات درد سے تڑپتی رہی ۔۔۔لیکن میں بے خبر رہا۔۔۔ مجھے اُن کے درد کا احساس ہی نہیں ہوا۔

دن گزرنے لگے۔۔۔ میں امی سے دور ہوتا چلا گیا۔۔۔۔۔ہفتے میں ایک بار کبھی امی کا حال پوچھ لینا۔۔۔۔
ورنہ امی کے کمرے میں کب جاتا تھا میں ۔۔۔
اور بڑا بھائی وہ تو امی سے ملنے بھی نہیں  آتا تھا۔۔۔۔
جبکہ گھر بلکل پاس تھا بھائی کا بھی۔۔۔۔

وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش تھا۔۔۔۔اکثر امی  مجھ سے پوچھا کرتی تھی ۔۔۔وقاص  بیٹے تیرے بھائی کا کیا حال ہے۔۔۔وہ بیچارہ  پتہ نہیں کن مصیبتوں میں پڑا ہوا ہے۔۔۔۔
امی افسردہ لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔کل۔دیکھا تھا اسے۔۔۔ اس کی داڑھی بڑی ہوئی۔۔۔بال۔بکھرے ہوئے۔۔۔۔وقاص پتر اپنے بھائی سے پوچھنا سب خیر ہے نا۔۔۔۔
امی تڑپنے لگئ۔۔۔ اللہ میرے بچوں کی مشکلیں آسان فرما۔۔۔۔
میں نے تھوڑے سخت لہجے میں کہا ۔۔۔امی اس کو آپ کی تو پرواہ ہے نہیں آپ بس اس کے گیت گاتی رہتی ہو۔۔۔

ماں مسکرائی۔۔۔۔ہائے ۔۔میرے بچے بہت سیدھا سادہ سا ہے وہ ۔۔بس فکر کرتی ہوں اس کی۔۔۔۔وہ خود پریشان ہو گا اسلیئے نہیں آتا ہو گا میرے پاس۔۔۔۔

میں غصے سے بولا پریشان نہیں ہے اپنے سالے کو نئی بائیک لے کر دی ہے اس نے ڈیڑھ لاکھ کی پریشان کہاں سے۔۔۔۔ماں چپ ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
میں محسوس تو نہیں کر پایا ۔۔۔لیکن امی ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔
خیر ۔۔دن گزرتے گئے۔۔۔۔جس کمپنی میں میری جاب تھی انھوں نے مجھے دوسرے شہر بیجھنے کا پلان بنایا۔۔۔  مجھے وہاں نیا گھر دیا۔۔۔۔
میں بہت خوش تھا ۔۔۔ آفرین کو بتایا ۔۔۔ آفرین خوشی سے جھومنے لگی۔۔۔۔امی آہستہ سے چلتے ہوئے ہمارے پاس آئی ۔۔۔۔پوچھنے لگئ۔۔۔کیا ہوا شور کس  بات کا ہے۔۔۔۔
میں مسکرا کر بولا امی کپمنی کی طرف سے مجھے گھر ملا ہے گاڑی بھی دیں گے.۔۔دوسرے شہر میں۔۔۔5
دن بعد ہم۔کو جانا ہے۔۔۔ماں مسکرانے لگی۔۔اچھا میرے لال: اللہ خیر کرے گا۔۔۔
امی آہستہ سے بولی آفرین میری بچی میرے بھی کپڑے پیک  کر دینا۔۔۔۔
میں امی کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔امی آپ نہیں جا رہی ساتھ ۔۔ابھی صرف میں اور آفرین جا رہے ہیں ۔۔۔بعد میں آپ کو بلوا لیں گے۔۔۔
آپ تب تک بھائی کے پاس رہیں ۔۔۔۔۔
امی کے چہرے پہ ایک اداسی چھا گئی۔۔۔اچھا  بیٹا کوئی بات نہیں ۔۔۔مجھے پھر  اپنے بھائی کے گھر چھوڑ آ ۔۔۔۔

میں کب محسوس کر پایا تھا امی کا کانپتا جسم۔۔تڑپتا دل اور بے بس لہجہ۔۔۔۔
میں امی کو بولا اچھا شام کو چھوڑ آوں  گا۔۔۔۔
امی نے اس دن کھانا نہیں کھائی تھی۔۔۔
امی شاید  بہت روئی تھی۔۔۔۔۔
شام کو بھائی کے گھر گیا۔۔۔۔امی بھی ساتھ تھی۔۔۔۔سلام کیا ۔۔۔۔بھائی کھانا کھا رہا تھا ۔۔۔۔۔بھائی ہم کو دیکھ کر ۔۔۔تھوڑا سا مسکرایا۔۔۔۔۔۔
کہنے لگا کھانا کھا لو ۔۔۔۔میں نے شکریہ کا بولا۔۔۔۔
پھر بھائی کی طرف دیکھ کر بتایا۔۔۔بھائی امی آج سے آپ کے پاس رہیں گی۔۔۔۔
بھائی چپ رہا ۔۔۔۔۔پھر بولا۔۔۔۔کیوں بھئی۔۔۔تم تھک گئے ہو کیا۔۔۔۔
میں پیار سے بولا ۔۔نہیں بھائی اصل میں مجھے جاب کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑ گیا ہے۔۔۔۔
کچھ مہینے بعد میں لے جاوں گا امی کو۔۔۔۔۔
بھائی امی کی طرف دیکھ کر۔۔طنز کرنے لگا۔۔۔ہاں ہاں اب مجھ پہ بوجھ ڈال جا ۔ ۔میں تو خود بہت تنگ ہوں ۔۔۔بھئی توں لے جا/ساتھ ہی۔۔۔
۔بھابھی بھی غصے سے بولی کیوں تیری بیوی نہیں سنبھال سکتی ۔۔۔ہم تو خود دو وقت کی روٹی سے تنگ ہیں۔۔۔۔میں بھائی سے کہنے لگا۔۔۔بھائی میں امی کے لیئے خرچہ بیجھ دیا کروں گا ۔۔۔
بھائی غصے سے بولا ۔۔۔ہاں مجھے تو نکال دیا تھا ۔۔۔گھر تم نے اہنے نام کروا لیا ۔۔۔اب بھاگ رہا ہے مطلب نکل گیا تو۔۔۔امی کرسی پہ بیٹھ گئی۔۔۔۔مسکرانے لگی۔۔۔میرے بچو ۔۔۔کیوں جھگڑتے ہو میری وجہ سے۔۔۔ایسا کرو۔۔۔مجھے اولڈ ہوم سینٹر چھوڑ آو۔۔۔۔میری باقی ہے ہی کتنی عمر۔۔۔تھوڑا سا سفر رہ گیا ہے میرا۔۔۔امی اٹھ کر جانے لگی۔۔۔اچانک امی زمیں پہ گر گئی بے ہوش ہو گئی۔۔۔۔۔۔
ہم جلدی سے امی کو ہسپتال لے گئے۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے معائنہ کیا ۔۔۔بتایا۔ان کو یہ دوسرا ہارٹ اٹیک آیا ہے.۔ کیا کوئی پریشانی ہے گھر میں کچھ ٹینشن لی ہے انھوں نے۔۔۔۔میں نظر چرا کر بولا ڈاکٹر صاحب بس گھر میں چھوٹی موٹی باتیں ہوتی ہی رہتی۔۔۔
امی بے ہوش پڑی تھی۔۔۔۔۔
میں بھی پاس کھڑا تھا ۔۔۔جب امی کو ہوش آیا تو امی سے کچھ بولا نہ جا رہا تھا شاید فالج کا اٹیک بھی ہوا تھا۔۔۔۔امی جیسے سب سے بے خبر ہو گئی تھی۔۔۔۔

امی نے کھانا پینا سب چھوڑ دیا۔۔۔۔۔
ایک ہسپتال سے انکار ہوا دوسرے ہسپتال لے گئے علاج کے لیے ۔۔۔ لیکن ڈاکٹرز جواب دے دہتے۔۔۔امی پہ کوئی دوا اثر نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔
میں بہت پریشان ہو گیا۔۔۔بھائی بھی پاس کھڑا تھا۔۔۔امی کی حالت دیکھ کر دل تڑپنے لگا تھا ۔۔۔۔ڈاکٹر نے کہا ان کو گھر لے جائیں ان کی خدمت کریں ۔۔۔۔
امی کو گھر لے گئے۔۔۔امی بلکل خاموش ہو گئی تھیں۔ جیسے بستر مرگ پہ تھیں۔۔۔
نہ کچھ کھاتی تھیں نہ کسی سے کوئی بات کرتی تھیں ۔۔۔
ایک دن مجھے ایک دوست  نے بتایا ۔۔ایک بابا مرشد ہیں ان کو بتاو اپنی پریشانی شاید تمہاری ماں وہاں سے ٹھیک ہو جائے۔۔۔
میں بابا مرشد کے پاس پہنچا ایک بزرگ سفید داڑھی رکھی ہوئی میرے چہرے کی طرف دیکھ کر بولے۔۔۔۔
آ بیٹا ادھر میرے پاس بیٹھ ۔۔۔۔میں پریشانی میں بولا ۔۔بابا جی میری امی بیمار ہے۔۔۔ان کا بہت علاج کروایا ہے ۔۔۔ کوئی دوا اثر ہی نہیں کرتی ان پہ۔۔۔
ہر بڑے ڈاکٹر کو دکھایا ہے ۔۔
امی نہ کچھ کھاتی ہے نہ کچھ بولتی ہے۔۔۔۔
بابا مرشد مسکرائے۔۔۔۔بیٹا یہ تو بہت چھوٹا مسلئہ ہے۔۔۔۔
ماں کو کون سنبھالتا ہے۔۔۔میں آہستہ سے بولا ۔۔میری بیوی ہی دوا وغیرہ دیتی ہے۔۔۔۔
بابا مرشد بولے جا بازار سے ایک کھیر کا ڈبہ لے کر آ۔

میں  حیران ہوا.۔۔۔میں کھیر کا ڈبہ لے آیا ۔۔۔۔
بابا مرشد نے اس ڈبے پہ ایک دو پھونک ماری ایک بوتل میں پانی بھرا اس پہ بھی پھونک ماری۔۔۔
کہنے لگے ۔۔ گھر جا کر سب سے پہلے امی  کے پاس بیٹھنا ۔۔ان سے کہنا ۔۔امی آپ پریشان نہ ہوں آپ ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔۔ کھیر بنا کر اپنے ہاتھوں سے کھلانا اور یہ دم کیا ہوا پانی اپنے بھائی سے کہنا وہ پلائے اہنے ہاتھ سے امی کو۔۔۔
یاد رہے۔ کھیر تمہیں کھلانی ہے اور پانی بھائی پلائے گا ۔۔اور کل آ کر مجھے ضرور بتانا۔۔۔۔
میں گھر آیا۔۔۔ آفرین سے کہا کھیر بنا دو جلدی سے۔۔۔۔
امی سوئی ہوئی تھی۔ میں پاس گیا ۔۔۔آہستہ سے امی کو آواز دی ۔۔۔۔
امی جان ۔۔۔امی نے آنکھ کھولی ۔۔۔میں نے سر پہ ہاتھ رکھا  ۔امی کو سہارا دے کر بٹھایا۔۔۔
امی کا ہاتھ تھاما ۔۔پیار سے بولا امی جان ۔۔آپ بلکل ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔۔
میں آج آپ کو اہنے ہاتھ سے کھانا کھلاوں گا۔۔۔۔
آفرین کھیر  بنا کے لائی۔۔۔
بھائی پاس بیٹھے تھے۔۔۔
میں اپنے ہاتھ سے  امی کو کھلانے لگا۔۔۔
امی نے آج کھانے سے انکار بھی نہیں کیا تھا۔۔۔
ایک پلیٹ  ختم ہوئئ پانی مانگا بھائی نے پانی کا گلاس امی کے منہ سے لگایا ۔۔۔ میں حیران تھا امی نے سارا پانی کا گلاس پی لیا۔۔۔
میں نے پوچھا امی اور  کھانی ہے۔۔امی نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔امی نے اس دن دو پلیٹ کھیر  کھا لی۔۔۔۔
میرے دل کو ایک سکون سا محسوس ہونے لگا۔۔۔امی کا ہاتھ حرکت کرتا تھا  ۔۔امی نے وہ ہاتھ میرے سر پہ رکھا۔۔۔۔
میں بہت رویا ۔۔بابا مرشد بہت پہنچے ہوئے ہین۔۔جب ڈاکٹرز نے لا علاج بتا دیا۔۔۔بابا مرشد کے ایک دم سے امی کھانے پینے لگی۔۔۔۔
دوسرے دن میں مٹھائی کا ڈبہ لیئے۔۔ بابا جی کے پاس گیا۔ ۔۔۔بابا جی میرے چہرے کو دیکھ کر سمجھ گئے تھے۔۔۔
میں سلام کیا بڑے ادب سے بولا۔۔بابا جی آج یہ اور کھیر لایا ہوں یہ بھی دم کر دیں امی نے پہلے والی ساری کھیر کھا لی تھی ۔۔۔
بابا جی بولے تم۔نے اپنے ہاتھوں سے کھلائی تھی نا میں نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔
بابا جی نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔ایک لمبی سانس لی بولے فرزند ۔۔۔سچ بتاوں تو نہ پانی پہ میں نے کچھ پڑھ کر پھونک ماری تھی نہ کھیر  پہ۔۔۔۔
بیٹا جب تم نے بتایا تھا نا امی اتنی بیمار ہے اور دوا تمہاری بیوی دیتی ہے میں سمجھ گیا تھا ۔۔۔
ماں کو اپنے بیٹوں کی محبت چاہیے تھی۔۔
ماں کب پوری کائنات مانگتی ہے۔۔۔جب اس کا بیٹا مسکرا کر ماں سے پوچھتا ہے نا امی ۔۔آپ کیسی ہیں .خدا کی قسم ماں جتنی بھی بیمار ہو تندرست ہو جاتی ہے۔۔

بیٹا ماں دوا سے کبھی ٹھیک نہیں ہوتی۔۔۔۔اولاد کے محبت بھرے چند الفاظ ہی ماں کی شفا بن جاتے ہیں ۔۔۔بیٹا کاش تم۔پہلے ہی ایک بار ماں کو اپنے ہاتھ سے دوا دیتے یا کھانا کھلاتے تو تمہاری ماں بیمار ہوتی ہی نا ۔۔۔
بیٹا ایک بات پوچھوں ۔۔کیا تم۔دو بھائیوں پہ وہ ماں بوجھ بن گئی جس کے آنچل تلے تم پروان چڑھے۔۔۔۔

میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔بابا مرشد میں بھٹک گیا تھا۔۔۔میں امی جان کا درد محسوس ہی نہیں کر پایا۔۔۔
بابا مرشد مسکرائے۔۔۔بیٹا مائیں اولاد سے ناراض نہیں ہوا کرتیں بس۔۔۔جینا چھوڑ دیتی ہیں ۔۔جا اپنی جنت کو جا کر سینے سے لگا لے۔۔۔ان سے پوچھ ماں کا مقام ۔۔جن کی مائیں قبروں میں جا سوئی ہیں ۔۔۔ماں کے بنا دنیا ایک قبرستان ہے۔۔۔۔بیٹا ماں کو دوا کی نہیں، تمہاری ضرورت ہے۔۔
میں تڑپ اٹھا ۔۔۔۔مجھے آفس سے کال آئی آپ کب جا رہے ہیں دوسرے شہر  ۔۔میں نے انکار کر دیا۔۔مجھے اب امی کے ساتھ رہنا تھا۔۔۔
میں اور  بھائی امی کے ساتھ رہنے لگے۔۔دو سال گزر گئے تھے ۔۔امی اب بلکل ٹھیک ہیں۔۔ہم۔بہت خوش ہیں نیا گھر بھی بنا لیا۔۔۔
اپنے ماں باپ۔کی قدر کریں ۔۔۔وہ کب اولاد سے پورا جہاں مانگتے ہیں ۔۔۔وہ تو بس محبت و احساس کے طلبگار ہوتے ہیں۔۔۔اگر کوئی اپنے ماں باپ سے ناراض ہے تو خدارا جائیں اور راضی کر لیں ان کو۔۔خدا کی قسم ماں کو سینے لگا کر تو دیکھیں آپ کی دنیا بدل جائے گی۔۔ہر دکھ ۔۔خوشیوں میں بدل جائے گا۔۔خدا کرے کسی کے دل میں اتر جائے یہ ماں کی محبت
از قلم ۔۔۔#شہزادہ_فارس

Share:

Tum Mujhe Achi Mayein (Mothers) do mai tumhe achi Qaum dunga.

Bacho ki tarbiyat kaise kare take wah Pakka Sacha momin ban sake?
Bacho ko Shararti banane ke bajaye use Deen pe chalne wala banaye.

اپنی اولاد اگر نافرمانی کرے تو اسے فرمابردار کیسے بنائے؟
میری دوست مجھے بتا رہی تھی ۔
ایک خاتون کافی شکوہ کر رہیں تھی ۔ میرا بچے کھاتے نہیں ہیں ۔

میں نے پوچھا ۔ آپ دعا کرتی ہیں ۔؟
انتہائی حیرت سے بولیں ۔
دعا !!! مجھے تو کبھی خیال ہی نہیں آیا ۔ کہ اس چیز کے لیے بھی دعا کرنی ہے !

میں نے کہا ، یہیں پر تو ہم کمی کرتے ہیں ۔
دعا مانگیں کہ اللہ بچوں کو قوی مومن بنائیں ۔ اچھی غذا کھائیں ۔ دین کی خدمت کرنے والا بنا دیں ۔ دعا کو معمول بنائیں آپ بھول جائیں گی کہ کبھی میرے بچوں کو ساتھ نہ کھانے کا بھی مسئلہ ہوتا تھا ۔
ان شاءاللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تمہیں ہدایت دے
اللہ ہی ہدایت دے ۔
یہی ان کا تکیہ کلام تھا ۔
ان کی ننھی شرارتی بہن نے زمین آسمان سر پہ اٹھائے ہوتے ۔
وہ سر پکڑ لیتیں اور بس یہی کہتیں ، اللہ تمہیں ہدایت دے ۔

ایک اور شرارت پھر اچھلتی کودتی انہیں منہ چڑاتی ۔
وہ فقط گھور کہ رہ جاتیں ۔

باز تو نہیں آتیں تم !

اسی لیے کہ آپ دعاؤں سے باز نہ آئیں ۔

چہکتا ہوا جملہ انہیں مسکرانے پہ مجبور کر دیتا ۔
پھر زیر لب کہتیں ۔
اللہ ، اس کو ہدایت دے دیں نا !۔

دعائیں بڑی تاثیر رکھتی ہیں ۔ بندے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں ۔

پھر کچھ عرصہ گذارا ۔
ان کی شرارتی بہن ’’انسان‘‘ بن گئی ۔

بے اختیار انہیں اپنا تکیہ کلام یاد آیا اور وہ مسکراتے ہوئے بے اختیار کہ اٹھیں ۔
اللہ تعالی ! آپ کا بہت بہت شکریہ !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث بڑی شاندار ہے ۔

تم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ اوہ اپنی تمام حاجتیں اپنے پروردگار سے مانگے

( تمام حاجتیں ، تمام ! ایک ایک رب کی بارگاہ میں رکھے ، اس سے تعلق باللہ مظبوط ہوتا ہے ، اللہ سے دوستی پختہ ہوجاتی ہیں اور تمام معاملات اللہ وحدہ لا شریک کے سپرد ہوجاتے ہیں )
یہاں تک کہ اگر اس کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو اسے بھی اللہ سے مانگو۔
(جامع الترمذی)

مجھے ان ماؤں پہ تعجب ہوتا ہے جو بچوں کا رونا روتی ہیں مگر ان کے لیے دعا نہیں کرتیں ۔

پھر مجھے شیخ سدیس کا وہ واقعہ بھی یاد آتاہے جب وہ بچپن میں شرارت کرکے بھی ماں سے یہ دعا وصول کررہے تھے ،۔
’’اللہ اسے کعبہ کا امام بنا‘‘
اور آج وہ زمین کے سینے پر کعبۃ اللہ کے بڑے امام ہیں ۔

نبی نے کہا ،
کہ جوتے کا تسمہ بھی ربِ تعالی سے مانگو ۔

ہم ان کی بات پر زیادہ کان نہیں دھرتے، پھر روتے ہیں ۔
میری اچھی ماؤں سے گذارش ہے ، کہ وہ بچوں کو گالم گلوچ ، واویلا شکوہ کرنے کے بجائے فقط دعائیں دیں ۔

ماؤں کا تکیہ کلام
یہی دعائیں ہونی چاھئیں ۔

ذرا مسئلہ ہوا نہیں اور دربار الہی میں پہنچا نہیں !

فورا معاملہ اللہ کے پاس رکھیں ۔ دعائیں دل لگا کہ مانگی ہوں اور پھر یہ نسل نہ سدھرے ، ناممکن ہے ۔

مجھے ایک بزرگ خاتون کی وہ دعا نہیں بھولتی ۔ بڑی متاثر کرتی ہے ۔ جو وہ ہمیشہ رو رو کہ کرتی تھیں ۔

’’اللہ قیامت تک میری نسلوں کو کتاب و سنت کا پابند بنانا ‘‘

اور آج ان کی نسلیں کتاب وسنت کی ترویج ، نشر و اشاعت، درس و تدریس میں مصروف ہیں ۔

اللہ نے انہیں دین و دنیا کی کامیابیوں سے نوازا ہے ۔ قابل رشک بنایا ہے ۔

ظاہر کو نہ دیکھئے ، مانگئے ، کھلے دل سے مانگئے، جتنا دل چاھتا ہے اتنا مانگئے ۔ نتائج سے بے پروا ہوکہ مانگئے ۔، صدق دل سے مانگئے ۔ یقین واخلاص سے مانگئے ۔

کیونکہ آپ کے رب کو خالی ہاتھ لوٹاتے شرم آجاتی ہے ،
کیونکہ آپ کا رب اس بندے سے راضی ہوتا ہے جو مانگتا ہے ،اور ناراض ہوتا ہے اس پر ۔۔ جو نہیں مانگتا ۔

وقت نکالیں
بچوں کے لیے ڈھیر ڈھیر دعاؤں کو اپنے ’’معولات‘‘ میں ’’شامل‘‘ کریں ۔

کتنا بھی بگڑا ، نخریلا بچہ ہے ، وہ اللہ کا بندہ بن جائے گا ۔ ان شاءاللہ !

صبر ، حوصلہ اور یقین شرط ہے ۔
حالات اور ماحول کے دھارے پر بچوں کو بہنے دینے والی مائیں آخر کار روتی ہیں ۔

ماؤں کی دعا تو ضرب المثل ہے ۔

ان کی ہدایت پر فوکس کریں ۔ معاشرہ سدھر جائے گا.
ان شاءاللہ

نپولین یہی تو کہتا تھا
’’تم اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا‘‘

تو میرا خیال ہے ماؤں کو بچوں کا شکوہ کرتے وقت غور کرنا چاھئے، آخر کو وہ انہی کے تربیت یافتہ بچے ہوتے ہیں ۔ ۔

اور مجھے اپنی ایک میڈم نہیں بھولتیں جو ہر اس موقع پر جب کلاس ڈسپلن سے بے نیاز ہوتی دکھائی دیتی تھی ، کہا کرتی تھیں،
"آپ میں سے ہر ایک اپنے والدین کی تربیت کا نمونہ ہے ، آپ اپنے والدین کی شخصیت کے نمائندہ ہیں ۔‘‘

اور بس ۔۔۔۔۔۔۔ !
پوری کلاس تیر کی مانند سیدھی ہو جایا کرتی تھی ۔
انگریزوں کا یہ فقرہ کبھی نہیں بھولے، اگر اسلام اور مسلمانوں کو سکست دینا ہے تو مسلم  خواتین کو زنا اور فحاشی کے لیے اُکساؤں۔

Share:

Aaj Ke Modern Maa baap apne bacho ko kaise tarbiyat de rahe hai?

Aaj ki nasal jab Waldain banegi to apne bacho ki parwarish kaise karenge?
Aaj ke Modern Maa baap apne bacho ki parwarish kaise kar rahe hai?

👩‍🎤 آج کی مارڈن ماں __!!!!!

آج کی ماں سالن روٹی میں نہیں بلکہ ٹک ٹوک، رانجھا رانجھا کر دی، کہیں دیپ جلے اور میرے پاس تم ہو ٹی وی سیریل میں کھو چکی ہے وہ یوٹیوب کی دیوانی ہو چکی ہے
آج کی ماں بھی اس دور کی طرح جدید ہے
بچی نے شسرٹس پہنی ہیں تو کوئی بات نہیں، tights پہنی ہیں تو کوئی بات نہیں، شرٹ چھوٹی ہے تو کوئی بات نہیں، ٹک ٹوک پر بیٹھی ہے تو کوئی بات نہیں، گھنٹوں موبائل پر لگی ہے تو کوئی بات نہیں، الگ کمرے میں بیٹھی ہے تو کوئی بات نہیں، فیس بک پر تصویر اپلوڈ کر رہی ہے تو کوئی بات نہیں، ٹک ٹوک پر ویڈیو بنا کر ڈال رہی ہے کوئی بات نہیں
بیٹا رات کو دیر سے گھر آتا ہے تو کوئی بات نہیں، بیٹا کزن کے ساتھ اٹیچ ہے تو کوئی بات نہیں، بیٹا گھنٹوں فون پر کسی سے باتیں کرتا ہے تو کوئی بات نہیں کیونکہ جدید دور ہے۔
یہ سب تو آج کل کا فیشن ہے تو اتنا تو چلتا ہی رہتا ہے
آج کی ماں اور آج کا باپ خود اپنا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں تو کوئی بات نہیں
فیشن، سٹیٹس کو اور یہ ماڈرنیزم ہماری تربیت اور اخلاقیات کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں
پھر یہ سب تو ہونا ہی ہے اور ہوتا ہی رہے گا
ہم اخلاقی پستی اور تربیت کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں، ہم حرام اور حلال کا فرق ختم کر چکے ہیں، کچھ نہیں ہوتا، کچھ نہیں ہوتا، کچھ نہیں ہوتا، کچھ نہیں ہوتا کہتے کہتے "بہت کچھ" اور پھر "سب کچھ" ہو جاتا ہے.
پھر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، ناک رگڑتے ہیں اور اپنی قسمت کو کوستے رہتے ہیں، ماتم کرتے ہیں اور اسی طرح غلطی پر غلطی کرتے کرتے زندگی تمام ہو جاتی ہے.
میں سوچتا ہوں کہ آج کی نسل جب والدین بنیں گے تو کیسے پرورش کریں گے اپنی اولاد کی جب خود ہی ہر قسم کی برائی میں ملوث ہوں گے تو اپنی اولاد کی تربیت کیسے کریں گے؟

Share:

Maa Baap na mobile ke khilaf they aur na hai?

Ammi aap log kya janane gaye is mobile me hai kya?
Pahle apne gharwalo ko jo waqt diya karte they wah ab Mobile ko diya karte hai.
hamare maa baap aaj daur ke mutabik jahil hai to ham bhi 20 saal ke bad jahil ho jayenge.

*اماں موباٸل کے خلاف نہ تھی اور نہ آج ہے*

*اماں

*اماں تمھیں نہیں معلوم یہ موباٸل کتنا قیمتی ہے۔*

تمہارے دور میں تو لوگ خط لکھتے تھے جو مہینے بعد ملتا تھا ۔ یہ ہمارا زمانہ ہے اس لیے میرے حال پر مہربانی کرو مجھے آٸیندہ اس بارے میں کچھ نہیں کہنا ۔

بیٹے کی یہ بات سن کر اماں نے خاموشی اختیار کی اور کہا *ادھر آ میرا بیٹا میرے پاس بیٹھ جا  ۔*
اچھا بیٹا تم نے ٹھیک کہا واقعی تمہاری اماں کو اس بجلی بھری ڈبی کے بارے میں نہیں پتہ یہ کیا ہے اور وہ جو تم بیگ میں بڑا سا بجلی کا ٹی وی لے کر جاتا ہے اس کا بھی نہیں پتہ ۔ یہ عجیب چیزیں ہیں ۔
لیکن ایک سوال پوچھوں میرا بیٹا کیا تمہیں اپنی ان پڑھ اماں کے ہاتھ کا بنا ساگ اور مکھن کھانا  پسند ہے ؟

جی جی اماں بہت پسند ہے ۔

*اچھا وہ جو پچھلی سردیوں میں تیری ان پڑھ اماں نے تیرے لیے سویٹر بنایا تھا وہ پسند آیا ؟*

ہاں ہاں اماں لیکن تو یہ کیوں پوچھ رہی ہے ۔

اور بیٹا ایسے ہی ذرا دیکھ لوں ہم ان پڑھ لوگوں کے کوٸی کام چنگے بھی ہیں کہ نہیں ۔
اچھا بیٹا یہ بتا تو نے کبھی چرخہ چلایا ہے وہ سامنے جو مشین ہے جس سے دھگا بنتا ہے،

۔نہیں اماں ۔

اچھا جب تو باہر جاتا ہے تو لوگوں نے کبھی کہا کہ تیرے کپڑے صحیح دھلے نہیں یا تیری اماں کو کپڑے دھونے نہیں آتے ۔

نہیں اماں لوگ بھلا ایسا کیوں کہیں گے تو تو بہت اچھے کپڑے دھوتی ہے ۔

اچھا مطلب کہ تیرے بچپن سے لے کر اب تک تجھے اپنی ان پڑھ اماں کی وجہ سے شرمندگی نہیں اٹھانی پڑتی ۔

ہاں اماں یہ بات تو ہے

لیکن بیٹا مجھے ہر لمحہ تیری وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑی لیکن میں نے ہمیشہ ایک ہی بات کہی وقت کے ساتھ ساتھ میرا بیٹا سیکھ جاۓ گا ۔
پتہ ہے بچپن میں جب تو لڑ کر آتا تھا  تو لوگوں کے سامنے ۔
جب تیرے کلاس میں نمبر تھوڑے آتے تو بھی خاندان میں ۔
جب تو کپڑے گندے کرتا تو بھی ۔
پھر جب تو بڑا ہوا تو تو اونچا بولنے لگا اپنی اماں کو بہرا بنا دیا تو بھی
اور
آج جب تو نوکری کرتا ہے تو بھی ۔ کہتا ہے اماں تو ان پڑھ ہے ۔
دوستوں میں بیٹھ کر تو اور تیرا دوست اپنے ماں باپ کو جاہل کہتے ہیں۔
بیٹا تجھے وہ کام نہیں آتے جو مجھے آتے ہیں اور مجھے وہ کام نہیں آتے جو تم کرتے ہو ۔
ہر زمانے کی اپنی ساٸنس اور اپنا علم ہے ۔ علم تو وہ کافی ہے جس سے پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں اور تیری اماں کے پاس ساگ پکانے کا مکھن بنانے کا سلاٸی کڑھاٸی کا علم تھا تیری اماں کے پاس کپڑے اچھے دھونے کا علم ہے، جس دن میں مر گٸی اس دن تجھے سمجھ آۓ گی اماں کی ساٸنس کیا تھی ۔

لیکن بیٹا علی اگر کوٸی علم تمہیں دوسروں کو جاہل کہنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا ہے کوٸی علم تمہیں دوسروں کو حقیر سمجھاتا ہے تو وہ علم نوری نہیں ابلیسی ہوا۔

بیٹا زندگی میں تیری وجہ سے اگر کسی کو شرمندہ ہونا پڑے تو یاد رکھ ایسے علم سے تیری اماں کے چولہے کی سوا بہتر ہے۔

علی کو تو اماں کی ساٸنس بہت دیر بعد سمجھ آٸی جب اماں گزر گٸی ۔ روز روٹی کپڑا اور پیار ہر وقت کون دیتا؟
اب باہر جانے سے پہلے دعاٸیں دینے والا کوٸی نہیں تھا اب گھر داخل ہوتے ہی پورا دن علی پر کیا بیتا اس کیمسٹری کو پڑھنے والا کوٸی نہیں تھا

کہاں سے لاۓ سر چومنے والی اماں۔ 

آج ہمارے اردگرد کتنے ہی لوگ ہیں جو ماں باپ کو ان پڑھ سمجھتے ہیں کٸی طلبا تو بحث و مباحثہ میں جاہل کا لفظ تک استعمال کر دیتے ہیں ۔ لیکن یاد رکھیں اماں نے درست کہا تھا ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں انہیں پچھلے دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔ نہ ہی کرنا چاہیے۔

آپ کے اور میرے ماں باپ نے اپنے دور کی ساٸنس کے مطابق زندگی گزاری اور ہمیں پڑھایا لکھایا ہمیں اپنے دور کی ساٸنس کے مطابق جینا اور اپنی اولاد کو سکھانا ہے ۔

*اماں موباٸل کے خلاف نہ تھی اور نہ آج ہے ۔اماں کو اس کلموۓ کے زیادہ استعمال کے خلاف ہے جس نے اس سے اس کا علی چھین لیا۔*
اب وہ بڑا ہو گیا ۔پہلے اماں کو سکول سے آکر سکول کی ساری باتیں سناتا تھا اب اس کے پاس آفس کے بعد وقت ہی نہیں ۔ساری دنیا کو گروپ بنا کر تحریری پیغام بھیجتا ہے لیکن اماں سے بات نہیں کرتا ۔

اماں تو آج بھی اس کو تیار کرتی ہے اپنی ڈیوٹی کرتی ہے لیکن وہ جو اماں کا وقت تھا وہ یہ موباٸل کھا گیا اماں کے حقوق موباٸل نے کھا لیے ۔اس لیے اماں غصہ ہوتی ہے

کہیں آپ بھی ایسا تو نہیں کر رہے سوچئے گا۔ لمحہ فکریہ ہے۔

ماں ہماری جنت ہے اور جنت ناراض ہو گٸی تو زندگی بے سکون ہو جاۓ گی ۔
یاد رکھیے گا ماں باپ کبھی ان پڑھ نہیں ہوتے ۔
گھر میں بیٹھی بوڑھی اماں میرے کچھ بولے بنا میرا دل پڑھ لیتی ہے۔

اپنے ماں باپ کو وقت دیجیے ورنہ آپ کی اولاد کے دور میں تو ٹیکنالوجی اس سے بھی فاسٹ ہو گی پھر آج کی تمہاری لکھی کہانی تم پر دہراٸی جاۓ گی شکوہ نہ کرنا۔

کاش کہ  یہ بات تیرے دل میں اتر جائیں
خواہش صرف اتنی ہے کہ کچھ الفاظ لکھوں جس سے کوئی گمراہی کے راستے پر جاتے جاتے رک جائے نہ بھی رکے تو سوچ میں ضرور پَڑ جائے۔

ہزار خواہشیں ایسی ہے کے ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان پھر بھی کم نکلے۔

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS