Ammi aap log kya janane gaye is mobile me hai kya?
Pahle apne gharwalo ko jo waqt diya karte they wah ab Mobile ko diya karte hai.
hamare maa baap aaj daur ke mutabik jahil hai to ham bhi 20 saal ke bad jahil ho jayenge.
*اماں موباٸل کے خلاف نہ تھی اور نہ آج ہے*
*اماں
*اماں تمھیں نہیں معلوم یہ موباٸل کتنا قیمتی ہے۔*
تمہارے دور میں تو لوگ خط لکھتے تھے جو مہینے بعد ملتا تھا ۔ یہ ہمارا زمانہ ہے اس لیے میرے حال پر مہربانی کرو مجھے آٸیندہ اس بارے میں کچھ نہیں کہنا ۔
بیٹے کی یہ بات سن کر اماں نے خاموشی اختیار کی اور کہا *ادھر آ میرا بیٹا میرے پاس بیٹھ جا ۔*
اچھا بیٹا تم نے ٹھیک کہا واقعی تمہاری اماں کو اس بجلی بھری ڈبی کے بارے میں نہیں پتہ یہ کیا ہے اور وہ جو تم بیگ میں بڑا سا بجلی کا ٹی وی لے کر جاتا ہے اس کا بھی نہیں پتہ ۔ یہ عجیب چیزیں ہیں ۔
لیکن ایک سوال پوچھوں میرا بیٹا کیا تمہیں اپنی ان پڑھ اماں کے ہاتھ کا بنا ساگ اور مکھن کھانا پسند ہے ؟
جی جی اماں بہت پسند ہے ۔
*اچھا وہ جو پچھلی سردیوں میں تیری ان پڑھ اماں نے تیرے لیے سویٹر بنایا تھا وہ پسند آیا ؟*
ہاں ہاں اماں لیکن تو یہ کیوں پوچھ رہی ہے ۔
اور بیٹا ایسے ہی ذرا دیکھ لوں ہم ان پڑھ لوگوں کے کوٸی کام چنگے بھی ہیں کہ نہیں ۔
اچھا بیٹا یہ بتا تو نے کبھی چرخہ چلایا ہے وہ سامنے جو مشین ہے جس سے دھگا بنتا ہے،
۔نہیں اماں ۔
اچھا جب تو باہر جاتا ہے تو لوگوں نے کبھی کہا کہ تیرے کپڑے صحیح دھلے نہیں یا تیری اماں کو کپڑے دھونے نہیں آتے ۔
نہیں اماں لوگ بھلا ایسا کیوں کہیں گے تو تو بہت اچھے کپڑے دھوتی ہے ۔
اچھا مطلب کہ تیرے بچپن سے لے کر اب تک تجھے اپنی ان پڑھ اماں کی وجہ سے شرمندگی نہیں اٹھانی پڑتی ۔
ہاں اماں یہ بات تو ہے
لیکن بیٹا مجھے ہر لمحہ تیری وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑی لیکن میں نے ہمیشہ ایک ہی بات کہی وقت کے ساتھ ساتھ میرا بیٹا سیکھ جاۓ گا ۔
پتہ ہے بچپن میں جب تو لڑ کر آتا تھا تو لوگوں کے سامنے ۔
جب تیرے کلاس میں نمبر تھوڑے آتے تو بھی خاندان میں ۔
جب تو کپڑے گندے کرتا تو بھی ۔
پھر جب تو بڑا ہوا تو تو اونچا بولنے لگا اپنی اماں کو بہرا بنا دیا تو بھی
اور
آج جب تو نوکری کرتا ہے تو بھی ۔ کہتا ہے اماں تو ان پڑھ ہے ۔
دوستوں میں بیٹھ کر تو اور تیرا دوست اپنے ماں باپ کو جاہل کہتے ہیں۔
بیٹا تجھے وہ کام نہیں آتے جو مجھے آتے ہیں اور مجھے وہ کام نہیں آتے جو تم کرتے ہو ۔
ہر زمانے کی اپنی ساٸنس اور اپنا علم ہے ۔ علم تو وہ کافی ہے جس سے پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں اور تیری اماں کے پاس ساگ پکانے کا مکھن بنانے کا سلاٸی کڑھاٸی کا علم تھا تیری اماں کے پاس کپڑے اچھے دھونے کا علم ہے، جس دن میں مر گٸی اس دن تجھے سمجھ آۓ گی اماں کی ساٸنس کیا تھی ۔
لیکن بیٹا علی اگر کوٸی علم تمہیں دوسروں کو جاہل کہنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا ہے کوٸی علم تمہیں دوسروں کو حقیر سمجھاتا ہے تو وہ علم نوری نہیں ابلیسی ہوا۔
بیٹا زندگی میں تیری وجہ سے اگر کسی کو شرمندہ ہونا پڑے تو یاد رکھ ایسے علم سے تیری اماں کے چولہے کی سوا بہتر ہے۔
علی کو تو اماں کی ساٸنس بہت دیر بعد سمجھ آٸی جب اماں گزر گٸی ۔ روز روٹی کپڑا اور پیار ہر وقت کون دیتا؟
اب باہر جانے سے پہلے دعاٸیں دینے والا کوٸی نہیں تھا اب گھر داخل ہوتے ہی پورا دن علی پر کیا بیتا اس کیمسٹری کو پڑھنے والا کوٸی نہیں تھا
کہاں سے لاۓ سر چومنے والی اماں۔
آج ہمارے اردگرد کتنے ہی لوگ ہیں جو ماں باپ کو ان پڑھ سمجھتے ہیں کٸی طلبا تو بحث و مباحثہ میں جاہل کا لفظ تک استعمال کر دیتے ہیں ۔ لیکن یاد رکھیں اماں نے درست کہا تھا ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں انہیں پچھلے دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔ نہ ہی کرنا چاہیے۔
آپ کے اور میرے ماں باپ نے اپنے دور کی ساٸنس کے مطابق زندگی گزاری اور ہمیں پڑھایا لکھایا ہمیں اپنے دور کی ساٸنس کے مطابق جینا اور اپنی اولاد کو سکھانا ہے ۔
*اماں موباٸل کے خلاف نہ تھی اور نہ آج ہے ۔اماں کو اس کلموۓ کے زیادہ استعمال کے خلاف ہے جس نے اس سے اس کا علی چھین لیا۔*
اب وہ بڑا ہو گیا ۔پہلے اماں کو سکول سے آکر سکول کی ساری باتیں سناتا تھا اب اس کے پاس آفس کے بعد وقت ہی نہیں ۔ساری دنیا کو گروپ بنا کر تحریری پیغام بھیجتا ہے لیکن اماں سے بات نہیں کرتا ۔
اماں تو آج بھی اس کو تیار کرتی ہے اپنی ڈیوٹی کرتی ہے لیکن وہ جو اماں کا وقت تھا وہ یہ موباٸل کھا گیا اماں کے حقوق موباٸل نے کھا لیے ۔اس لیے اماں غصہ ہوتی ہے
کہیں آپ بھی ایسا تو نہیں کر رہے سوچئے گا۔ لمحہ فکریہ ہے۔
ماں ہماری جنت ہے اور جنت ناراض ہو گٸی تو زندگی بے سکون ہو جاۓ گی ۔
یاد رکھیے گا ماں باپ کبھی ان پڑھ نہیں ہوتے ۔
گھر میں بیٹھی بوڑھی اماں میرے کچھ بولے بنا میرا دل پڑھ لیتی ہے۔
اپنے ماں باپ کو وقت دیجیے ورنہ آپ کی اولاد کے دور میں تو ٹیکنالوجی اس سے بھی فاسٹ ہو گی پھر آج کی تمہاری لکھی کہانی تم پر دہراٸی جاۓ گی شکوہ نہ کرنا۔
کاش کہ یہ بات تیرے دل میں اتر جائیں
خواہش صرف اتنی ہے کہ کچھ الفاظ لکھوں جس سے کوئی گمراہی کے راستے پر جاتے جاتے رک جائے نہ بھی رکے تو سوچ میں ضرور پَڑ جائے۔
ہزار خواہشیں ایسی ہے کے ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان پھر بھی کم نکلے۔
No comments:
Post a Comment