Jab Zibril Alaihe Salam ne Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam ko Basharat ki khushkhabri sunayi.
Aap Allah ke Rasool aur mai Zibril hoo.
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 9...
قمری سال کے حساب سے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی عمر چالیس سال ایک دن ہوئی (اور یہی سن کمال ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی پیغمبروں کی بعثت کی عمر ہے) تو آثار نبوت چمکنا اور جگمگانا شروع ہوئے.. اس حالت پر چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا.. جب حراء میں خلوت نشینی کا تیسرا سال آیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا.. بیشتر سیرت نگار کے مطابق 9 ربیع الاول 41 میلادی مطابق 12 فروری 610ء پیر کی شام غار حرا میں روح الامین (حضرت جبریل علیہ السلام) ظاہر ہوئے اور فرمایا..
"اے محّمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بشارت قبول ہو.. آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں.."
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا.. تحقیق کے مطابق یہ واقعہ رمضان المبارک کی 21 تاریخ کو دوشنبہ کی رات میں پیش آیا.. اس روز اگست کی 10 تاریخ تھی اور 610ء تھا.. یہی قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے.. شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ (۲/۱۸۵) ''رمضان کا مہینہ ہی وہ (بابرکت مہینہ ہے ) جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا.." اور ہم اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دیکھتے ہیں.. إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (۹۷/۱) یعنی ''ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا..'' معلوم ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہےاور صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پڑتی ہے اور انھی طاق راتوں میں منتقل بھی ہوتی رہتی ہے..
آیئے اب ذرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی اس واقعے کی تفصیلات سنیں جو نبوت کا نقطۂ آغاز تھا اور جس سے کفر وضلالت کی تاریکیاں چھٹتی چلی گئیں.. یہاں تک کہ زندگی کی رفتار بدل گئی اور تاریخ کا رُخ پلٹ گیا..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا.. "پڑھو.." آپ نے فرمایا.. "میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس پر اس نے مجھے پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری قوت نچوڑ دی.. پھر چھوڑ کر کہا.. "پڑھو.." میں نے کہا.. "میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.." اس نے دوبارہ پکڑ کر زور سے دبایا , پھر چھوڑ کر کہا.. "پڑھو.." میں نے پھر کہا.. "میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.."
اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا , پھر چھوڑ کر کہا..
(۱) اِقْرَأْ بِاسْم رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (۲) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (۳) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (۴) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ (۵) الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
"پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا.. اُس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے.. پڑھو اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے.. جس نے قلم سے تعلیم دی.. انسان کو اُس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا.. (سورہ علق , ا تا ۵)
اس غیر متوقع واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبرا گئے.. اس لئے کہ آپ کے گمان میں بھی نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی بنائے جانے والے ہیں.. مارے ہیبت کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لرزتے اور کانپتے غارِ حرا سے نکلے اور پہاڑ سے اترنے لگے.. درمیان میں پہنچے تو پھر آواز آئی.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبریل ہوں.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اُٹھا کر دیکھا تو جبریل علیہ السلام آسمان کے کنارے ایک آدمی کی شکل میں کھڑے ہیں.. اس اعلان کے بعد جبریل علیہ السلام نظروں سے اوجھل ہو گئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی ڈری , سہمی حالت میں سیدھے گھر پہنچے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا..
"مجھے چادر اوڑھا دو ___ مجھے چادر اڑھا دو.."
انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چادر اوڑھا دی.. یہاں تک کہ خوف جاتا رہا.. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو واقعے کی اطلاع دی اور فرمایا.. "یہ مجھے کیا ہوگیا ہے..؟ مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے.."
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا.. "قطعاً نہیں.. واللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ رسوا نہ کرے گا.. آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلہ رحمی کرتے ہیں , درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں , تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں , مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں.."
پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی اور عیسائی عالم "ورقہ بن نوفل" کے پاس لے گئیں جو توریت اور انجیل کے عالم تھے اور انجیل کی عربی میں کتابت کرتے تھے.. وہ دور جاہلیت میں بُت پرستی سے بیزار ہوکر عیسائی بن گئے تھے.. ان کی عمر زیادہ ہو چکی تھی اور بینائی بھی جواب دے چکی تھی.. ان سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا.. "بھائی جان ! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں.."
ورقہ نے کہا.. "بھتیجے ! تم کیا دیکھتے ہو..؟"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا بیان فرمادیا.. اس پر ورقہ نے آپ سے کہا.. "یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا.. کاش ! میں اس وقت توانا ہوتا.. کاش ! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم آپ کو نکال دے گی.."
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اچھا ! تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے..؟"
ورقہ نے کہا.. "ہاں ! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا آپ لائے ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے آپ کا زمانہ پالیا تو آپ کی زبردست مدد کروںگا.."
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورقہ بن نوفل سے رخصت ہونے لگے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ اقدس کو بوسہ دیا.. اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی کا سلسلہ بھی کچھ عرصے کے لیے رک گیا..
پہلی وحی کے نزول کے ساتھ ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے منصب اور مقام کا علم ہو چکا تھا.. جناب ورقہ بن نوفل کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تشریف لے جانا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خواہش کے احترام کے ساتھ ساتھ تبلیغ کے آغاز کا مرحلہ بھی تھا جس کے لئے قدرت نے جناب ورقہ بن نوفل کو ابتدائی کڑی بنایا.. منصب نبوت کے علم کے بعد تصدیق کرنے والوں کی ضرورت تھی.. یہ سعادت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور جناب ورقہ کے حصہ میں آئی..
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر لوٹے اور نزول وحی کا ذکر کیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے دلجوئی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق عالیہ بیان کئے.. تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر آفت سے محفوظ رکھے گا.. مزید کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کی جان ہے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک اللہ کے نبی ہیں.. بشارت ہو کہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے خیر کے اور کچھ نہیں کرے گا.. جو منصب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا ہے وہ حق ہے.. یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسولِ برحق ہیں..
جناب ورقہ بن نوفل نے تصدیق بھی کی اور جذبۂ نصرت کی آرزو بھی.. اس کے چند دنوں بعد جناب ورقہ کی وفات ہو گئی.. چونکہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق بھی کی اور جذبۂ نصرت کی آرزو بھی , اس لئے اکثر سیرت نگار آپ کو صحابی کے مرتبہ پر فائز سمجھتے ہیں..
اللہ کے آخری رسول پر ایمان لانے والی پہلی خاتون آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں.. بعثت کے فوراً بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور چارو ں صاحبزادیاں ایمان لے آئیں.. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا روئے زمین کی پہلی مومنہ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیرہ سالہ مکی زندگی میں دس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہ صرف مونس و غمگسار بلکہ مشیر و شریک کار رہیں..
بعثت کے دوسرے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے..؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یہ اللہ کا دین ہے.. یہی دین لے کر پیغمبر دنیا میں آئے ہیں.. میں تم کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں.. اسی کی عبادت کرو.."
رات گزری اور دوسرے دن صبح وہ ایمان لے آئے.. اس وقت ان کی عمر آٹھ اور دس سال کے درمیان تھی..
خانوادۂ نبوت کے تیسرے فرد جنھیں آزاد کردہ غلاموں میں اول المسلمین ہونے کا اعزاز حاصل ہوا , وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں جو قبیلہ بنوقضاعہ کے سردار حارثہ ابن شراجیل کے بیٹے تھے.. سفر کے دوران ڈاکوؤں نے اغوا کرکے عکّاظ کے بازار میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو فروخت کردیا تھا.. انہیں نے اپنی پھوپھی کے حوالے کیا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے لئے مامور کیا.. بعد میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کے باپ کو ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہ انہیں لینے آیا مگر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے اور اپنا بیٹا کہا کرتے تھے اور وہ "زید بن محمد" کہلاتے تھے تاآنکہ سورۂ احزاب میں حکم نازل ہوا کہ "لوگوں کو اپنے باپوں کے ناموں سے پکارا کرو" ان کی پہلی شادی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیز اُم ایمن رضی اللہ عنہا سے ہوئی جن سے حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے.. ان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا لیکن تفاوت مزاج کی بنا پر طلاق ہو گئی.. حضرت زید رضی اللہ عنہ سریہ موتہ(۸ ہجری) میں شہید ہوئے.. آپ رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے..
آزاد مردوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگری دوست حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ کو اول المسلمین ہونے کا شرف حاصل ہے.. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مکہ کے دولت مند تاجر , ماہر انساب , صائب الرائے اور فیاض فرد تھے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جس کسی پر اسلام پیش کیا وہ اس سے کچھ نہ کچھ جھجکا بجز ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے.. انہوں نے اسلام قبول کرنے میں ذرہ برابر توقف نہیں کیا.. ابن سعد نے لکھا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے.. انہوں نے اپنا سارا سرمایہ تبلیغ اسلام کے لئے وقف کردیا.. ہر نازک لمحہ میں رفاقت کا حق ادا کیا.. معراج کی صبح کفار کے پوچھنے پر بلا پس و پیش اس محیر العقول واقعہ کی تصدیق کی.. ہجرت کے خطرناک سفر اور غار ثور میں ساتھ رہنے کی بدولت "ثانی اثنین" کہلائے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو "صدیق" کے لقب سے نوازا..
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تبلیغ سے عشرہ مبشرہ میں سے پانچ صحابی یعنی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ , حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ , حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ , حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا..
پہلی وحی نازل ہونے کے کئی مہینوں بعد تک کوئی اور وحی نازل نہیں ہوئی.. یہ دور "فترت وحی" یا انقطاع وحی کہلاتا ہے.. فترۃ وحی کی مدت میں محدثین کا اختلاف ہے.. کم سے کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ تین سال بتلائی جاتی ہے..
وحی کی اس بندش کے عرصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حزین وغمگین رہے اور آپ پر حیرت واستعجاب طاری رہا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوچنے لگے کہ کہیں میرا رب مجھ سے ناراض تو نہیں ہو گیا..
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ (یعنی وحی کی بندش ) اس لیے تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو خوف طاری ہوگیا تھا وہ رخصت ہوجائے اور دوبارہ وحی کی آمد کا شوق وانتظار پیدا ہوجائے.. (فتح الباری ۱/۲۷)
چنانچہ جب یہ بات حاصل ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی کی آمد کے منتظر رہنے لگے تو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوبارہ وحی سے مشرف کیا..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہے کہ.. "میں نے حراء میں ایک مہینہ اعتکاف کیا.. جب میرا عتکاف پورا ہوگیا تو میں اترا.. جب بطن وادی میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا.. میں نے دائیں دیکھا کچھ نظر نہ آیا , بائیں دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا , آگے دیکھا کچھ نظر نہ آیا , پیچھے دیکھا کچھ نظر نہ آیا.. پھر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو ایک چیز نظر آئی.. کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس حِراء میں آیا تھا , آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے.. (اس وقت وہ اپنی اصلی شکل میں نمودار ہوا تھا.. حضرت جبریل علیہ السلام کو اس حالت میں دیکھ کر) میں اس سے خوف زدہ ہوکر زمین کی طرف جا جھکا (اور لرزہ طاری ہو گیا).. پھر میں نے (اسی حالت میں گھر) خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس آ کر کہا.. "مجھے چادر اوڑھا دو ___ مجھے چادر اوڑھادو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈال دو.." انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالا.. اس کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں..
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ O قُمْ فَأَنذِرْ O وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ O وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ O وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ O
"اے کپڑے میں لپٹنے والے ! اُٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو اور گندگی سے کنارہ کرلو اور کوئی احسان اس نیت سے نہ کرو کہ زیادہ وصول کرسکو اور اپنے پرووردگار کی خاطر صبر سے کام لو.." (المدثر:۱تا ۵)
یہ نماز فرض ہونے سے پہلے کی بات ہے.. اس کے بعد وحی میں گرمی آگئی اور وہ متواتر نازل ہونے لگی..
(صحیح بخاری , کتاب التفسیر , تفسیر سورۂ مدثر)
یہی آیات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا نقطۂ آغاز ہیں.. سورہ علق سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت کا منصب عطا ہوا تھا اور سورہ مدثر (قُمْ فَأَنذِرْ) سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسالت کے مرتبہ پر فائز ہوئے.. ان آیات کا مطلع اللہ بزرگ وبرتر کی آواز میں ایک آسمانی نداء پر مشتمل ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس عظیم وجلیل کام کے لیے اٹھنے اور نیند کی چادر پوشی اور بستر کی گرمی سے نکل کر جہاد وکفاح اور سعی مشقت کے میدان میں آنے کے لیے کہا گیا ہے..
"اے چادر پوش ! اٹھ اور ڈرا "
گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جسے اپنے لیے جینا ہے وہ تو راحت کی زندگی گزار سکتا ہے لیکن آپ جو اس زبردست بوجھ کو اٹھا رہے ہیں تو آپ کو نیند سے کیا تعلق..؟
آپ کو راحت سے کیا سروکار..؟
آپ کو گرم بستر سے کیا مطلب..؟
یہ سکون زندگی سے کیا نسبت..؟
راحت بخش سازوسامان سے کیا واسطہ..؟
آپ اٹھ جایئے ! اس کار عظیم کے لیے جو آپ کا منتظر ہے.. اس بار گراں کے لیے جو آپ کی خاطر تیار ہے..
اٹھ جایئے ! جہد ومشقت کے لیے , تکان اور محنت کے لیے..
اٹھ جایئے ! کہ اب نیند اور راحت کا وقت گزر چکا.. اب آج سے پیہم بیداری ہے اور طویل اور پرمشقت جہاد ہے..
اٹھ جایئے ! اور اس کام کے لیے مستعد اور تیار ہوجایئے..
یہ بڑا عظیم اور پر ہیبت کلمہ ہے.. اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پرسکون گھر , گرم آغوش اور نرم بستر سے کھینچ کر تند طوفانوں اور تیز جھکڑوں کے درمیان اتھاہ سمندر میں اتار دیا اور لوگوں کے ضمیر اور زندگی کے حقائق کی کشاکش کے منجدھار میں لاکھڑا کیا..
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم___ اٹھ گئے اور بیس سال سے زیادہ عرصہ تک اٹھے رہے.. راحت وسکون تج دیا.. زندگی اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے نہ رہی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے تو اٹھے ہی رہے.. کام اللہ کی دعوت دینا تھا , آپ نے یہ کمر توڑ بارگراں اپنے شانے پر کسی دباؤ کے بغیر اٹھا لیا.. یہ بوجھ تھا اس روئے زمین پر امانت کبریٰ کا بوجھ , ساری انسانیت کا بوجھ , سارے عقیدے کا بوجھ اور مختلف میدانوں میں جہاد ودفاع کا بوجھ !!
اس پورے عرصے میں یعنی جب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ آسمانی ندائے جلیل سنی اور یہ گراں بار ذمہ داری پائی , آپ نے پیہم اور ہمہ گیر معرکہ آرائی میں زندگی بسر کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ایک حالت دوسری حالت سے غافل نہ کرسکی.. اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری طرف سے اور ساری انسانیت کی طرف سے بہترین جزا دے.. آمین..
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی.. صحیح بخاری کی ایک حدیث میں مروی ہے..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے..؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے.. پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے تو جو کچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے.. اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آجاتا ہے پھر مجھ سے بات کرتا ہے.. جو کچھ وہ کہتا ہے میں اس کو یاد کرلیتا ہوں.."
حضرت عایشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.. "میں نے سخت سردی کے دن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے.. (ایسی سردی میں بھی) جب وحی کا سلسلہ ختم ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی مبارک پسینہ سے شرابور ہوچکی ہوتی تھی.."
(بخاری , باب بدءالوحی , حدیث نمبر:۲)
ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ کا سانس رکنے لگتا , چہرۂ انور متغیرہو کر کھجور کی شاخ کی طرح زرد پڑجاتا , سامنے کے دانت سردی سے کپکپانے لگتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے..
(الطبقات الکبری لابن سعد , ۸/۳۷۹)
وحی کی اس کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدت پیدا ہوجاتی کہ "اگر وحی اس حالت میں آتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اونٹی پر سوار ہوتے تو وحی کے بوجھ سے اونٹنی بیٹھ جاتی.."
(فتح الباری , ۱/۳)
ایک بار اس طرح وحی آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ران پر تھی تو ان پر اس قدر گراںبار ہوئی کہ معلوم ہوتا تھا کہ ران کچل جائے گی..
بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی محسوس ہوتی تھی.. حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی..
(بیہقی , ابواب کیفیۃ نزول الوحی , حدیث نمبر:۲۹۸۳)
وحی کی دوسری صورت یہ تھی کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالی کا پیغام پہنچا دیتا تھا.. ایسے مواقع پر عموما" حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے..
(مصنف بن ابی شیبہ , ماذکر فی عائشۃ رضی اللہ عنہا , حدیث نمبر:۳۲۹۴۵)
وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسانی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصل صورت میں دکھائی دیتے تھے لیکن ایسا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام عمر میں صرف تین مرتبہ ہوا ہے.. ایک مرتبہ اس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی.. دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اَجیاد پر.. پہلے دو واقعات تو صحیح سند سے ثابت ہیں البتہ یہ آخری واقعہ سندا" کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے..
(فتح الباری , ۱/۱۸،۱۹)
وحی کی چوتھی صورت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نزول قرآن سے قبل سچے خواب نظر آیا کرتے تھے.. جو کچھ خواب میں دیکھتے بیداری میں ویسا ہی ہوجاتا.. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء نیند کی حالت میں سچے خوابوں سے ہوئی.. اس وقت جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا نکلتا..
(بخاری , باب بدءالوحی , حدیث نمبر:۳)
وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک میں کوئی بات القاء فرما دیتے تھے.. اسے اصطلاح میں "نفث فی الروع" کہتے ہیں.. جیسے حدیث پاک میں ہے.. "جبریل علیہ السلام نے میرے دل میں بات ڈالی ہے کہ کوئی نفس مرتا نہیں یہاں تک کہ اس کا رزق مکمل ہوجائے.. لہٰذا تلاش رزق میں اعتدال اختیار کرو.."
(شعب الایمان , حدیث نمبر:۱۱۹۰)
وحی کی چھٹی صورت فرشتے کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست گفتگو جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو فرمائی تھی.. وحی کی یہ صورت موسیٰ علیہ السلام کے لیے نص قرآنی سے قطعی طور پر ثابت ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اس کا ثبوت (قرآن کی بجائے) معراج کی حدیث میں ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر معراج کی رات نماز کی فرضیت وغیرہ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت وحی فرمائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں کے اُوپر تھے..
(زاد المعاد ۱/۱۸.. امام ابن قیم)
بعض لوگوں نے ایک ساتویں شکل کا بھی اضافہ کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ رُو در رُو بغیر حجاب کے گفتگو کرے لیکن یہ ایسی صورت ہے جس کے بارے میں سلف سے لے کر خلف تک اختلاف چلا آیا ہے..
سورۂ مدثر کی گزشتہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھے.. آپ کی قوم چونکہ جفاکار تھی.. بت پرستی اور درگاہ پرستی اس کا دین تھا.. باپ دادا کی روش اس کی دلیل تھی.. غرور وتکبر اور حمیت وانکار اس کا اخلاق تھا.. اس کے علاوہ وہ جزیرۃ العرب میں دینی پیشوائی کے صدر نشین تھے.. اس کے اصل مرکز پر قابض اور اس کے وجود کے نگہبان تھے.. اس لیے اس کیفیت کے پیش نظر حکمت کا تقاضا تھا کہ پہلے پہل دعوت وتبلیغ کا کام پس پردہ انجام دیا جائے تاکہ اہل مکہ کے سامنے اچانک ایک ہیجان خیز صورت حال نہ آجائے..
بعثت کے بعد تین سال تک خفیہ دعوت کا سلسلہ جاری رہا.. پہلی وحی کے نزول کے بعد اگرچہ کہ دعوت و تبلیغ کا علانیہ حکم نہیں آیا تھا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو چپکے چپکے بُت پرستی سے منع کرتے اور سمجھاتے رہے کہ اللہ ایک ہے , اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے.. ابتدا میں ایمان لانے والوں کو مومن یا مسلم کے بجائے مُصدّق کہتے تھے یعنی وہ جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی تصدیق کرتے تھے.. دعوت کیا تھی..
۱.. توحید یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں..
۲.. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ان کی رسالت کی گواہی دینا..
۳.. جو لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر ایمان لائیں وہ دوسروں کو شرک کی تاریکی سے نکالیں..
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو سخت مشکلیں پیش نظر تھیں.. اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرض اسی قدر ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح صرف تبلیغ دعوت پر اکتفا فرمائیں یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکل جائیں تو مشکل نہ تھی لیکن خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام خود سلامت رہ کر عرب اور نہ صرف عرب بلکہ تمام عالم کو فروغِ اسلام سے منور کردینا تھا اس لئے نہایت تدبیر اور تدریج سے کام لینا پڑا..
سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ پُرخطر راز پہلے کس کے سامنے پیش کیا جائے.. اس کے لئے صرف وہ لوگ انتخاب کئے جا سکتے تھے جو فیض یاب صحبت رہ چکے تھے.. جن کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و عادات اور حرکات و سکنات کا تجربہ ہو چکا تھا.. جو پچھلے تجربوں کی بنأ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدق دعویٰ کا قطعی فیصلہ کر سکتے تھے..
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرم محترم تھیں.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش تربیت میں پلے تھے.. زید رضی اللہ عنہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگری دوست ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے جو برسوں سے فیض یاب خدمت تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے انہیں دعوت دی.. یہ سب کے سب سنتے ہی ایمان لے آئے..
اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام کی تبلیغ میں سرگرم ہوگئے.. وہ بڑے ہردلعزیز , نرم خُو , پسندیدہ خصال کے حامل , بااخلاق اور دریادل تھے.. ان کے پاس ان کی مروت , دور اندیشی , تجارت اور حسن صحبت کی وجہ سے لوگوں کی آمد ورفت لگی رہتی تھی.. چنانچہ انہوں نے اپنے پاس آنے والوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے جس کو قابلِ اعتماد پایا اسے اب اسلام کی دعوت دینی شروع کردی.. ان کی کوشش سے حضرت عثمان , حضرت زبیر , حضرت عبد الرحمن بن عوف , حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے.. یہ بزرگ اسلام کا ہر اوَل دستہ تھے..
ان کے بعد امینِ امت حضرت ابوعبیدہ عامر بن جراح , ابوسلمہ بن عبد الاسد مخزومی , ان کی بیوی ام سلمہ , حضرت عباس بن عبد المطلب کی بیوی أم الفضل لبابہ الکبریٰ بنت حارث ہلالیہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی حضرت اسماء , ارقم بن ابی الارقم مخزومی , عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی قدامہ اور عبداللہ , اور عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبدمناف , سعید بن زید عدوی اور ان کی بیوی یعنی حضرت عمر کی بہن فاطمہ بنت خطاب عدویہ اور خباب بن اَرت تمیمی , جعفر بن ابی طالب اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس , خالد بن سعید بن عاص اموی ، ان کی بیوی امینہ بنت خلف، اور ان کے بھائی عمرو بن سعید بن عاص , حاطب بن حارث جحمی , ان کی بیوی فاطمہ بنت مجلل اور ان کے بھائی حطاب بن حارث اور ان کی بیوی فکیہہ بنت یسار اور ان کے ایک اور بھائی معمر بن حارث , مطلب بن ازہر زہری اور ان کی بیوی رملہ بنت ابی عوف اور نعیم بن عبد اللہ بن نحام عدوی رضی اللہ عنہم مسلمان ہوئے.. یہ سب قبیلہ قریش کے مختلف خاندانوں اور شاخوں سے تعلق رکھتے تھے..
قریش کے باہر سے جو لوگ پہلے پہل اسلام لائے ان میں سر فہرست یہ ہیں.. أم ایمن برکۃ حبشیہ , ابو ذر غفاری , عبداللہ بن مسعود ہذلی , مسعود بن ربیعہ قاری , عبد اللہ بن جحش اسدی , ان کے بھائی احمد بن جحش , بلال بن رباح حبشی , صہیب بن سنان رومی , عمار بن یاسر عنسی , ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہم..
خفیہ تین سالہ تبلیغ کے دوران جن لوگوں نے اپنے اسلام کو ظاہر کیا وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت بلال بن رباح , حضرت خباب بن ارت , حضرت یاسر بن عامر , حضرت عمار بن یاسر , حضرت صہیب بن سنان اور حضرت سمیّہ بنت سلم رضی اللہ عنہم شامل ہیں..
یہ سب سابقین اولین کے لقب سے معروف ہیں.. تلاش وجستجو سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ اسلام کی طرف سبقت کرنے کے وصف سے موصوف کیے گئے ہیں ان کی تعداد مردوں اور عورتوں کو ملا کر ایک سو تیس تک پہنچ جاتی ہے لیکن یہ بات پورے تیقن کے ساتھ نہیں معلوم ہوسکی کہ یہ سب کھلی دعوت وتبلیغ سے پہلے اسلام لائے یا بعض لوگ اس سے متاخر بھی ہوئے تھے..
اس تین سالہ دور میں نماز بھی مسلمان کسی گھاٹی میں چھپ کر ادا کرتے.. ان ہی ایام میں ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک درّہ میں نماز پڑھ رہے تھے.. اتفاقا" ابو طالب وہاں آئے اور نماز ختم ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یہ کیا دین ہے اور یہ کیسی عبادت ہے..؟ اس وقت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے والدین پر اپنے اسلام قبول کرنے کا ذکر نہیں کیا تھا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ یہی اللہ کا دین ہے اور اسی کی طرف بلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بنایا ہے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چچا ابو طالب کو اس دین کو قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انھوں نے کہا کہ وہ اپنا آبائی دین نہیں چھوڑ سکتے.. حضرت ابوطالب نے یہ بھی کہا کہ جب تک وہ زندہ ہیں انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اپنے فرزند حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاساتھ دینے کی تلقین کی..
دعوت و تبلیغ کا سلسلہ خفیہ طور پر جاری رہا.. تقریبا ً ڈھائی سال کا عرصہ گزرا تھا کہ ایک دن کچھ مسلمان جن میں حضرت عمار بن یاسر , حضرت عبداللہ بن مسعود , حضرت سعد بن ابی وقاص , حضرت خباب بن ارت اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہم شامل تھے , مکہ سے کچھ دور ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ کچھ کافر وہاں پہنچے اور ان سب کو نماز پڑھتے دیکھ کر مذاق اُڑانے لگے.. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ انیس (۱۹) سالہ نوجوان تھے جنھوں نے کافروں کے مذاق سے تنگ آ کر سامنے پڑے اونٹ کے ڈھانچے کی ایک ہڈی اٹھائی اور بنی تیم کے عبداللہ بن خطل کے سر پر اپنی پوری طاقت سے دے مارا جو کہ سب سے آگے تھا.. اس کے ساتھ ہی اس کافر کا خاتمہ ہو گیا.. یہ اسلام کی حمایت میں پہلی ضرب تھی.. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بعد کو فاتح ایران بنے..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری...
No comments:
Post a Comment