Aeisa muajeza Jiski gawahi Quran Majeed me di gayi hai.
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 14...
معجزۂ شق القمر..
______________
شق القمر ایک ایسا معجزہ تھا جس کی گواہی خود قران کریم میں دی گئی ہے اور صحیح احادیث سے اس عظیم الشان معجزے کا ثبوت ملتا ہے.. اس پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے..
شعب ابی طالب میں محصوری کے دن اسی طرح گزر رہے تھے.. مقاطعہ کا دوسرا سال تھا اور حج کے دن تھے.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض صحابہ کے ساتھ مِنیٰ میں تھے.. آسمان پر بدر کامل تھا.. ایسے میں کفّار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو اس چاند کے دو ٹکڑے کرکے دکھائیے.. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اس مطالبہ کو پورا کرنے کی دعا فرمائی اور چاند کی طرف انگلی سے اشارہ کیا تو چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے.. ایک کوہ حرا کے اوپر اور دوسرا اس کے دامن میں تھا.. جب سب لوگوں نے صاف طور پر یہ معجزہ دیکھ لیا تو یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے..
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت چاند کے دو ٹکڑے ہوۓ تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منیٰ کے میدان میں موجود تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو ! گواہ رہنا اور چاند کا ایک ٹکڑا دوسرے سے الگ ہو کر پہاڑ کی طرف چلا گیا تھا.."
(صحیح بخاری , حدیث 3869)
چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا یہ معجزہ بہت صاف تھا.. قریش نے اسے بڑی وضاحت سے کافی دیر تک دیکھا اور آنکھ مل مل کر اور صاف کر کرکے دیکھا اور ششدر رہ گئے لیکن پھر بھی ایمان نہیں لائے بلکہ کہا کہ "یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور حقیقت یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری آنکھوں پر جادو کردیا ہے.." اس پر بحث و مباحثہ بھی کیا.. کہنے والوں نے کہا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم پر جادو کیا ہے تو وہ سارے لوگوں پر تو جادو نہیں کر سکتے.. باہر والوں کو آنے دو ___ دیکھو کیا خبر لے کر آتے ہیں.. بعد میں کچھ لوگ سفر سے واپس آئے اور تصدیق کی کہ ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا ہے لیکن پھر بھی کفار ایمان نہیں لائے اور اپنی ڈگر پر چلتے رہے.. صحابہ کرام میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ , حضرت حُذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ اس کے عینی شاہد ہیں..
قرآن مجید میں سورۂ قمر کی ابتدائی آیات میں شق القمر کا ذکر ہے..
"قیامت قریب آپہنچی اور چاند شق ہوگیا اور اگر کافر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے.. (سورہ قمر.. 1,2)
اس عظیم الشان معجزے پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں ہونا چاہیے تھا اور تاریخ کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا.. حالانکہ اس معجزے کے وقت کا اندازہ کیا جائے تو چاند کا پوری دنیا میں دیکھا جانا ناممکنات میں سے تھا کیونکہ اس وقت چاند صرف عرب اور اس کے مشرقی ممالک میں نکلا ہوا تھا.. پھر اس معجزے کا وقت بھی طویل نا تھا اور اس سے روایت کے مطابق کوئی دھماکہ یا تیز روشنی کا اخراج بھی نہیں ہوا اور نا ہی اس کے اثرات زمین پر کسی قسم کے پڑے.. ظاہر ہے کہ یہ ایک متوقع معجزہ نہیں تھا کہ تمام دنیا کی نظریں چند پر ہوتیں.. اسی لئے یہ معجزہ صرف انہی لوگوں نے دیکھا جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا تھا..
تاہم ہندوستان کی مشہور مستند "تاریخ فرشتہ" ( مصنف محمد قاسم فرشتہ.. ۱۰۱۵ ہجری) میں اس کا ذکر موجود ہے جو انھوں نے بحوالہ کتاب "تحفۃ المجاہدین" میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت عرب سے قدم گاہ حضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کے لئے سراندیپ (لنکا) کو آتے ہوئے ساحلِ مالا بار (ہند) پر اتری.. ان بزرگوں نے وہاں کے راجہ "چرآمن پیرومل" سے ملاقات کی اور معجزۂ شق القمر کا ذکر کیا.. راجہ نے اپنے منجموں کو پرانے رجسٹرات کی جانچ پڑتال کا حکم دیا.. چنانچہ منجموں نے بتلایا کہ فلاں تاریخ کو چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا.. اس تحقیق کے بعد راجہ نے اسلام قبول کرلیا.. ہندوستان کے بعض شہروں میں اس کی تاریخ محفوظ کی گئی اور ایک عمارت تعمیر کرکے اس کی تاریخ "شب انشقاق قمر" کے نام سے مقرر کی گئی..
اس ضمن میں ایک دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب ناسا کے خلانوردوں نے چاند کی ایک تصویر شایع کی جو چاند کی سطح پر ایک فالٹ لائن کو ظاہر کررہی ہے جس کے بارے میں یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے کہ یہ شاید لاوا کے بہنے سے لاکھوں سال پہلے بنی ہے.. یہ صرف ایک نظریہ ہے اور اس کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ کسی وقت میں لاکھوں سال قبل چاند زمین یا مریخ کا حصّہ رہا ہوگا اور کسی فلکیاتی حادثہ کی وجہ سے ٹوٹ کر زمین کے قریب آگیا ہوگا.. اس نظریہ کا صحیح یا غلط ہونا چاند کی سطع پر انسانی موجودگی اور مزید سائنسی تجربات سے مشروط ہے.. اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ چاند کبھی بھی زمین یا مریخ کا حصّہ نہیں رہا تو اس فالٹ لائن کی اہمیت اس معجزے کے حوالے سے نہایت اہم رخ اختیار کر لے گی..
شق قمر کی یہ نشانی شاید اس بات کی بھی تمہید رہی ہو کہ آئندہ اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آئے تو ذہن اس کے امکان کو قبول کرسکیں.. واللہ اعلم
قریش نے بنی ہاشم کا مقاطعہ غیر معیّنہ مدت کے لئے کیا تھا لیکن وہ تین سال سے زیادہ برقرار نہ رہ سکا.. محرم 10 نبوت میں صحیفہ چاک کیے جانے اور اس ظالمانہ عہدو پیمان کو ختم کیے جانے کا واقعہ پیش آیا.. اس کی وجہ یہ تھی کہ شروع ہی سے قریش کے کچھ لوگ اگر اس عہد و پیمان سے راضی تھے تو کچھ ناراض بھی تھے اور انہی ناراض لوگوں نے اس صحیفے کو چاک کرنے کی تگ و دو کی..
اس کا اصل محرک قبیلہ بنو عامر بن لوئی کا "ہشام بن عمرو" نامی ایک شخص تھا.. یہ رات کی تاریکی میں چپکے چپکے شعب ابی طالب کے اندر غلہ بھیج کر بنو ہاشم کی مدد بھی کیا کرتا تھا.. یہ "زہیر بن ابی امیہ مخزومی" کے پاس پہنچا (زہیر کی ماں عاتکہ حضرت عبدالمطلب کی صاحبزادی یعنی حضرت ابو طالب کی بہن تھیں) اور اس سے کہا.. "کیوں زہیر ! کیا تم کو یہ پسند ہے کہ تم کھاؤ پیو , آزادی سے پھرو اور تمہارے ننھیالی رشتہ دار ہر راحت سے محروم رہیں اور انھیں کھانے کو کچھ نہ مل سکے..؟"
زہیر نے کہا.. "افسوس ! میں تن تنہا کیا کر سکتا ہوں.. ہاں ___ اگر میرے ساتھ کوئی اور آدمی ہوتا تو میں اس صحیفے کو پھاڑنے کے لیے یقینا" اٹھ پڑتا.."
ہشام نے کہا.. "اچھا ___ تو ایک آدمی اور موجود ہے.." پوچھا.. "کون ہے..؟" ہشام نے کہا.. "میں ہوں.." زہیر نے کہا.. "اچھا تو اب تیسرا آدمی تلاش کرو.."
اس پر ہشام "مُطعم بن عدی" کے پاس گیا اور بنو ہاشم اور بنو مطلب سے جو کہ عبدمناف کی اولاد تھے , مطعم کے قریبی نسبی تعلق کا ذکر کرکے اسے ملامت کی کہ اس نے اس ظلم پر قریش کی ہم نوائی کیونکر کی..؟ یاد رہے کہ مطعم بھی عبدمناف ہی کی نسل سے تھا.. مطعم نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا..
اس کے بعد ہشام بن عمرو "ابو البختری بن ہشام" کے پاس گیا اور اس سے بھی اسی طرح کی گفتگو کی جیسی زہیر اور مطعم سے کی تھی.. اس نے کہا.. "بھلا کوئی اس کی تائید بھی کرنے والا ہے..؟" ہشام نے کہا.. "ہاں ___ زہیر بن ابی امیہ , مطعم بن عدی اور میں.." یہ سن کر ابو البختری نے بھی ساتھ دینے کی حامی بھرلی..
اس کے بعد ہشام "زمعہ بن اسود بن مطلب بن اسد" کے پاس گیا اور اس سے گفتگو کرتے ہوئے بنو ہاشم کی قرابت اور ان کے حقوق یاد دلائے.. اس نے کہا.. "بھلا جس کام کے لیے مجھے بلا رہے ہو اس سے کوئی اور بھی متفق ہے..؟" ہشام نے اثبات میں جواب دیا اور سب کے نام بتلائے.. اس کے بعد ان لوگوں نے حجون کے پاس جمع ہو کر آپس میں یہ عہد وپیمان کیا کہ صحیفہ چاک کرنا ہے.. زہیر نے کہا.. "میں ابتدا کروں گا یعنی سب سے پہلے میں ہی زبان کھولوں گا.."
صبح ہوئی تو سب لوگ حسب معمول اپنی اپنی محفلوں میں پہنچے.. زہیر بھی ایک جوڑا زیب تن کیے ہوئے پہنچا.. پہلے بیت اللہ کے سات چکر لگائے , پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر بولا.. "مکے والو ! کیا ہم کھانا کھائیں , کپڑے پہنیں اور بنو ہاشم تباہ وبرباد ہوں....... نہ ان کے ہاتھ کچھ بیچا جائے نہ ان سے کچھ خریدا جائے...... اللہ کی قسم ! میں بیٹھ نہیں سکتا , یہاں تک کہ اس ظالمانہ اور قرابت شکن صحیفے کو چاک کردیا جائے.."
ابو جہل جو مسجد حرام کے ایک گوشے میں موجود تھا , بولا.. "تم غلط کہتے ہو.. اللہ کی قسم ! اسے پھاڑا نہیں جاسکتا.."
اس پر زمعہ بن اسود نے کہا.. "واللہ ! تم زیادہ غلط کہتے ہو.. جب یہ صحیفہ لکھا گیا تھا تب بھی ہم اس سے راضی نہ تھے.."
اس پر ابو البختری نے گرہ لگائی.. "زمعہ ٹھیک کہہ رہا ہے.. اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے نہ ہم راضی ہیں نہ اسے ماننے کو تیار ہیں.."
اس کے بعد مطعم بن عدی نے کہا.. "تم دونوں ٹھیک کہتے ہو اور جو اس کے خلاف کہتا ہے غلط کہتا ہے.. ہم اس صحیفہ سے اور اس میں جو کچھ لکھا ہوا ہے اس سے اللہ کے حضور براءت کا اظہار کرتے ہیں.." پھر ہشام بن عمرو نے بھی اسی طرح کی بات کہی..
یہ ماجرا دیکھ کر ابوجہل نے کہا.. "ہونہہ ! یہ بات رات میں طے کی گئی ہے اور اس کا مشورہ یہاں کے بجائے کہیں اور کیا گیا ہے.."
ان لوگوں میں یہ بحث و تکرار ہو رہی تھی کہ حضرت ابو طالب حرم میں آئے اور کہا.. "میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے کہا ہے کہ اس عہد نامہ کی ساری تحریر سوائے لفظ اللہ کے دیمک چاٹ گئی ہے.. خدا کی قسم ! اس نے کبھی جھوٹ نہیں کہا.. اس لئے تم اس معاہدہ کو منگوا کر دیکھو.. یہ صحیح ہے تو اسے چاک کردو اور اگر غلط ہو تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے حوالے کرنے کو تیار ہوں.."
سب نے حضرت ابو طالب کی بات سے اتفاق کیا اور عہد نامہ منگوا کر کھولا گیا تو کفار قریش نے حیرت سے دیکھا کہ اس میں سوائے "باسمک اللّہم" کے ساری تحریر دیمک کھا گئی تھی.. مطعم بن عدی نے عہد نامہ کو چاک کردیا.. اس کے بعد وہ پانچوں سردار ہتھیار باندھ کر بنو ہاشم کے پاس گئے اور بنو ہاشم کو شعب سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لئے کہا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بقیہ تمام حضرات شعب ابی طالب سے نکل آئے اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی ایک عظیم الشان نشانی دیکھی لیکن ان کا رویہ وہی رہا جس کا ذکر اس آیت میں ہے..
''اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو رخ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا پھرتا جادو ہے.."
چنانچہ مشرکین نے اس نشانی سے بھی رخ پھیر لیا اور اپنے کفر کی راہ میں چند قدم اور آگے بڑھ گئے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد پھر حسبِ معمول دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا اور اب مشرکین نے اگرچہ بائیکاٹ ختم کردیا تھا لیکن وہ بھی حسب معمول مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے.. جہاں تک حضرت ابو طالب کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی دیرینہ روایت کے مطابق پوری جاں سپاری کے ساتھ اپنے بھتیجے کی حمایت وحفاظت میں لگے ہوئے تھے لیکن اب عمر اَسّی سال سے متجاوز ہوچلی تھی.. کئی سال سے پے در پے سنگین آلام و حوادث نے خصوصا" محصوری نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا.. ان کے قویٰ مضمحل ہوگئے تھے اور کمر ٹوٹ چکی تھی.. چنانچہ گھاٹی سے نکلنے کے بعد چند ہی مہینے گزرے تھے کہ انہیں سخت بیماری نے آن پکڑا..
اس موقع پر مشرکین نے سوچا کہ اگر ابوطالب کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد ہم نے اس کے بھتیجے پر کوئی زیادتی کی تو عرب ہمیں طعنہ دیں گے.. کہیں گے کہ انہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑے رکھا اور اس کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہ کی لیکن جب اس کا چچا مر گیا تو اس پر چڑھ دوڑے.. اس لیے ابوطالب کے سامنے ہی نبی سے کوئی معاملہ طے کرلینا چاہیے.. اس سلسلے میں وہ بعض ایسی رعائتیں بھی دینے کے لیے تیار ہوگئے جس پر اب تک راضی نہ تھے.. چنانچہ ان کا ایک وفد حضرت ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ ان کا آخری وفد تھا.. وفد کے ارکان قریش کے معزز ترین افراد تھے یعنی ابوجہل بن ہشام , امیہ بن خلف , ابو سفیان بن حرب اور دیگر اشرافِ قریش جن کی کل تعداد تقریبا ً پچیس تھی..
حضرت ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلوایا.. آپ تشریف لائے تو کہا.. "بھتیجے ! یہ تمہاری قوم کے معزز لوگ ہیں.. تمہارے ہی لیے جمع ہوئے ہیں.. یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں کچھ عہد وپیمان دے دیں اور تم بھی انہیں کچھ عہد وپیمان دے دو.." اس کے بعد حضرت ابوطالب نے ان کی یہ پیشکش ذکر کی کہ کوئی بھی فریق دوسرے سے تعرض نہ کرے..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "چچا جان ! آپ کیوں نہ انہیں ایک ایسی بات کی طرف بلائیں جو ان کے حق میں بہتر ہے.."
انہوں نے کہا.. "تم انہیں کس بات کی طرف بلانا چاہتے ہو..؟"
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "میں ایک ایسی بات کی طرف بلانا چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے اور عجم پر ان کی بادشاہت ہوجائے.."
جب یہ بات آپ نے کہی تو وہ لوگ کسی قدر توقف میں پڑ گئے اور سٹپٹا سے گئے.. وہ حیران تھے کہ صرف ایک بات جو اس قدر مفید ہے اسے مسترد کیسے کر دیں.. آخرکار ابوجہل نے کہا.. "اچھا بتاؤ تو وہ بات کیا ہے..؟ تمہارے باپ کی قسم ! ایسی ایک بات کیا دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں.."
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "آپ لوگ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں.."
اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر اور تالیاں بجا بجا کر کہا.. "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو..؟ واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے.." پھر آپس میں ایک دوسر ے سے بولے.. "اللہ کی قسم ! یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہیں.. لہٰذا چلو اور اپنے آباء واجداد کے دین پر ڈٹ جاؤ.. یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ فرمادے.." اس کے بعد انہوں نے اپنی اپنی راہ لی..
حضرت ابو طالب کا مرض بڑھتا گیا اور بالآخر وہ انتقال کرگئے.. ان کی وفات شعب ابی طالب کی محصوری کے خاتمے کے چھ ماہ بعد رجب 10 نبوی میں ہوئی.. صحیح بخاری میں حضرت مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے.. وہاں ابوجہل بھی موجود تھا.. آپ نے فرمایا.. "چچا جان ! آپ لا الٰہ الا اللہ کہہ دیجیے.. بس ایک کلمہ جس کے ذریعے میں اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کرسکوں گا.."
ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا.. "ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کی ملت سے رخ پھیر لو گے..؟" پھر یہ دونوں برابر ان سے بات کرتے رہے.. یہاں تک کہ آخری بات جو حضرت ابو طالب نے لوگوں سے کہی , یہ تھی کہ ''عبد المطلب کی ملت پر..'' پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر کہا.. "میں وہ کلمہ کہہ دیتا لیکن قریش کہیں گے کہ موت سے ڈر گیا.."
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "میں جب تک آپ سے روک نہ دیا جاؤں آپ کے لیے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا.." اس پر یہ آیت نازل ہوئی..
''نبی اور اہل ایمان کے لیے درست نہیں کہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں.. اگرچہ وہ قربت دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان پر واضح ہوچکا ہے کہ وہ لوگ جہنمی ہیں.." ﴿١١٤﴾ (۹: ۱۱۳)
اور یہ آیت بھی نازل ہوئی..
''آپ جسے پسند کریں ہدایت نہیں دے سکتے..'' (۲۸: ۵۶)
(صحیح بخاری , باب قصۃ ابی طالب ۱/۵۴۸)
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ حضرت ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کس قدر حمایت وحفاظت کی تھی.. وہ درحقیقت مکے کے بڑوں اور احمقوں کے حملوں سے اسلامی دعوت کے بچاؤ کے لیے ایک قلعہ تھے لیکن وہ بذاتِ خود اپنے بزرگ آباء و اجداد کی ملت پر قائم رہے اس لیے مکمل کامیابی نہ پاسکے.. چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ اپنے چچا کے کیا کام آسکے..؟ کیونکہ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لیے (دوسروں پر ) بگڑتے (اور ان سے لڑائی مول لیتے ) تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "وہ جہنم کی ایک چھچھلی جگہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے گہرے کھڈ میں ہوتے.."
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آپ کے چچا کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا.. "ممکن ہے قیامت کے دن انہیں میری شفاعت فائدہ پہنچا دے اور انہیں جہنم کی ایک اوتھلی جگہ میں رکھ دیا جائے جو صرف ان کے دونوں ٹخنوں تک پہنچ سکے.."
(،صحیح بخاری )
حضرت ابو طالب کی وفات کے تین دن بعد اور ایک اور روایت کے بموجب 35 دن بعد رفیقہ حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی وفات پائی.. ان کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ہوئی.. اس وقت وہ 65 برس کی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عمر کی پچاسویں منزل میں تھے.. یوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں مددگار اور غمگسار اٹھ گئے.. یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بڑا سخت صدمہ تھا..
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی گرانقدر نعمت تھیں.. وہ ایک چوتھائی صدی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت میں رہیں اور اس دوران رنج وقلق کا وقت آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تڑپ اٹھتیں.. سنگین اور مشکل ترین حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قوت پہنچاتیں.. تبلیغ ِ رسالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرتیں اور اس تلخ ترین جہاد کی سختیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک کار رہتیں اور اپنی جان ومال سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیر خواہی وغمگساری کرتیں..
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یاد کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل سے محو نہ ہوئی.. اکثر یاد فرمایا کرتے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے..
"جس وقت لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا وہ مجھ پر ایمان لائیں.. جس وقت لوگوں نے مجھے جھٹلایا انہوں نے میری تصدیق کی.. جس وقت لوگوں نے مجھے محروم کیا انہوں نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور اللہ نے مجھے ان سے اولاد دی اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد نہ دی.."
(مسند احمد , 6/118)
صحیح بخاری میں سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا.. "اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ خدیجہ رضی اللہ عنہ تشریف لا رہی ہیں، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا کوئی مشروب ہے.. جب وہ آپ کے پاس آپہنچیں تو آپ انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور وشغب ہوگا نہ درماندگی وتکان.."
(صحیح بخاری , باب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحوالہ الرحیق المختوم)
پچیس سال تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مددگار و مشیر رہیں.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ (جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے) ان ہی سے ہوئی.. ان کی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں کیا.. تاریخِ وفات 11 رمضان 10 نبوت ہے.. اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے.. انھیں مقام جحون میں دفن کیا گیا..
حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے یہ دونوں الم انگیز حادثے صرف چند دنوں کے دوران پیش آئے جس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں غم والم کے احساسات موجزن ہوگئے اور اس کے بعد قوم کی طرف سے بھی مصائب کا طومار بندھ گیا کیونکہ حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد ان کی جسارت بڑھ گئی اور وہ کھل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت اور تکلیف پہنچانے لگے.. اسی طرح کے پے در پے آلام ومصائب کی بنا پر اس سال کو ''عام الحزن'' یعنی غم کا سال قرار دیا گیا اور یہ سال اسی نام سے تاریخ میں مشہور ہوگیا..
حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد ابولہب کو سردار قبیلہ بنایا گیا.. اس کا اصل نام عبد العزیٰ تھا..
حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد قریش کو کس کا پاس تھا.. اب وہ نہایت بے رحمی اور بے باکی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ستانے لگے.. اہل مکہ سے مایوس ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر 27 شوال 10 نبوت (619ء) پاپیا دہ طائف روانہ ہوئے جو مکہ سے تقریباََ 50 میل کے فاصلہ پر بہ جانب مشرق ایک پہاڑی علاقہ اور سر سبز و شاداب مقام ہے..
وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام دس روز رہا.. بعض نے بیس روز اور ایک مہینہ بھی لکھا ہے.. اس زمانہ میں طائف بنو ثقیف کے قبضہ میں تھا.. مکہ کے سرداروں کے وہاں باغات تھے.. وہ لات کے پرستار تھے اور اسے خدا کی بیٹی مانتے تھے.. ان دنوں عمرو بن عمیر بن عوف کے تین لڑکے عبد یالیل , مسعود اور حبیب بنی ثقیف کے سردار تھے.. ان میں سے ایک کی بیوی صفیہ بنت معّمر تھی جس کا تعلق قریش کے قبیلہ بنی جمح سے تھا.. چونکہ بنی سعد کا قبیلہ طائف کے قریب تھا اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایام رضاعت گذارے تھے اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہل طائف سے خیر کی امید تھی.. چنانچہ طائف جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راستہ کے تمام قبائل میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہے..
طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ بالا تینوں سرداروں سے ملاقات کی اور انھیں اسلام کی دعوت دی اور اپنی مدد کی درخواست کی لیکن ان تینوں نے نہایت گستاخانہ جواب دیا.. ایک نے کہا.. "تمہارے سوا اللہ کو اور کوئی نہ ملا جسے نبی بناتا..؟" دوسرے نے کہا.. "کعبۃ اللہ کی اس سے بڑی اور کیا توہین ہوگی کہ تم سا شخص پیغمبر ہو.." تیسرا بولا.. "میں تم سے ہرگز بات نہ کروں گا.. اگر تم سچے ہو تو تم سے گفتگو خلافِ ادب ہے اور اگر جھوٹے ہو تو گفتگو کے قابل نہیں.."
ان بدبختوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا اور طائف کے بازاریوں اور اوباشوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے لگا دیا کہ وہ آپ کا مذاق اڑائیں.. چنانچہ انھوں نے راستہ سے گذرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پتھر مارنے شروع کردئے.. حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ان پتھروں کے لئے سپر بن جاتے.. یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم لہو لہان ہوگیا اور آپ کی جوتیاں خون سے بھر گئیں.. جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخموں سے چور ہوکر بیٹھ جاتے تو بازو تھام کر کھڑا کردیتے اور پھر آپ جب چلنے لگتے تو پتھر برساتے.. ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور تالیاں بجاتے.. پتھروں کے برسانے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت چوٹیں آئیں اور آپ زخموں سے بے ہوش ہوکر گر پڑے..
حضرت زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر آبادی سے باہر لے آئے.. (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی پیٹھ پر بٹھانے کی سعادت سب سے پہلے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی.. بعد میں سفرِ ہجرت کے دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی پیٹھ پر بٹھایا.. جنگ اُحد میں زخمی ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چٹان پر چڑھنا چاہا لیکن زخموں کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے.. اس وقت حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی پیٹھ پر اٹھایا تھا) اس کے بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ نے پانی سے زخموں کو دھویا اور آپ کچھ افاقہ محسوس کرنے لگے تو زبان ِ مبارک سے دعا نکلی.. "اے اللہ ! میں اپنی کمزوری اور بے بسی کی تجھ سے شکایت کرتا ہوں.. اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں.."
اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چل پڑے اور کچھ دور جانے کے بعد آپ نے نظر اُٹھائی تو ایک ابر سایہ کئے ہوئے دکھائی دیا.. اس میں سے حضرت جبریل علیہ السلام نے آواز دی.. "اللہ نے وہ سب کچھ سن لیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم نے آپ سے کہا ہے.. اس وقت پہاڑوں کا فرشتہ آپ کے سامنے حاضر ہے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں تو انھیں دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل کر رکھ دوں.."
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "نہیں.. مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے.."
صحیحین کی حدیث ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ جنگ احد کے دن سے (جس دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے تھے اور خود کی کڑیاں چہرے مبارک میں چبھ گئی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک خندق میں گر گئے تھے) کبھی زیادہ تکلیف آپ کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "ہاں ! اس دن جس دن میں نے عبدیالیل پر اسلام پیش کرکے اس کی دعوت دی تھی اور اس نے رد کردی تھی.. جب وہاں سے پلٹے تو قرن ثعارب تک ( یہ مکہ اور طائف کے درمیا ن ایک پہاڑ کا نام ہے) بے ہوشی کے عالم میں آئے.. احد کے دن سے زیادہ تکلیف مجھ کو اس روز پہنچی تھی.. آخر میں آپ شہر سے دور ایک باغ میں انگور کی بیل کے نیچے جاکر ٹھہرے جو رئیس مکہ ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کا تھا جو باوجود کفر کے شریف الطبع اور نیک نفس تھے..
اس باغ میں بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی جو "دعائے مستضعفین" کے نام سے مشہور ہے.. اس دعا کے ایک ایک فقرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ طائف کے لوگوں نے آپ سے جو بدسلوکی کی اور کوئی بھی ایمان نہ لایا اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس قدر مغموم اور رنجیدہ تھے.. آپ نے فرمایا..
"پروردگار ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں.. یا ارحم الراحمین ! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا رب ہے.. تو مجھے کس کے حوالہ کر رہا ہے..؟ کیا کسی بے گانہ کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے..؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ کشادہ ہے.. میں تیرے چہرہ کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو.. تیری رضا مطلوب ہے , یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے.. اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں.."
جب عتبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا تو اپنے غلام کے ذریعہ جس کا نام "عدّاس" تھا , ایک انگور کا خوشہ آپ کے پاس بھجوایا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہہ کر اپنے منہ میں رکھا.. عدّاس (رضی اللہ عنہ) حیرت سے آپ کی صورت دیکھنے لگا اور خیال کیا کہ یہ تو ایسی بات ہے جو کافرانہ شعار سے جدا ہے.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا.. "تم کہاں کے ہو اور تمھارا دین کیا ہے..؟" اس نے کہا کہ وہ عیسائی ہے اور نینویٰ کا رہنے والا ہے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "کیا تم اس صالح انسان کی بستی کے ہو جن کا نام یونس (علیہ السلام) بن متی تھا.."
عدّاس (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا.. "آپ کس طرح انھیں جانتے ہیں..؟" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا.. "وہ میرے بھائی ہیں.. وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں.." عدّاس (رضی اللہ عنہ) نے آپ کا نام پوچھا تو آپ نے فرمایا.. "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)"
تب عدّاس (رضی اللہ عنہ) نے کہا.. "میں نے توریت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ مبارک دیکھا ہے اور آپ کے اوصاف بھی پڑھے ہیں.." پھر اس نے کہا.. "اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہل ِمکہ میں مبعوث فرمائے گا اور اہلِ مکہ آپ کی اطاعت سے انکار کریں گے لیکن آخر میں فتح آپ ہی کی ہوگی اور یہ دین تمام دنیا میں پھیل جائے گا.."اس کے بعد اس نے کہا.. "میں ایک عرصہ سے یہاں آپ کے انتظار میں ہوں.. مجھے اسلام کی تعلیم دیجئے.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسلام پیش فرمانے پر وہ فوری مسلمان ہوگیا اور جھک کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر , ہاتھ اور پاؤں چومنے لگا..
واپس آکر اس نے کہا.. "انھوں نے مجھے ایسی بات بتائی جسے نبی کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا.." عتبہ اور شیبہ نے کہا.. "کمبخت کہیں وہ تجھے تیرے دین سے برگشتہ نہ کردے.. تیرا دین تو اس کے دین سے بہتر ہے.."
طائف کے سفر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین قسم کے لوگوں سے سابقہ پڑا.. پہلے سردار بنو ثقیف کے تین بیٹوں عبد یالیل , مسعود اور حبیب نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اوباشوں کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سنگ باری کروائی.. دوسرے رئیس مکہ کے بیٹے عتبہ اور شیبہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پریشانی کے عالم میں دیکھا تو اپنے باغ میں انگور کھانے کے لئے بھیجے.. تیسرے شخص عدّاس رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے نہ صرف حق کو پہچانا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لائے..
===========>جاری ھے..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
No comments:
Post a Comment