find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Seerat un nabi Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam. Part 15

Wadi-E-Nakhla me Jinnat ka islam Qubool karna.

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 15...
وادی نخلہ میں جنات کا قبول اسلام..
__________________________
طائف سے واپس ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند روز مقام نخلہ میں قیام فرمایا جو مکہ سے ایک رات کی مسافت پر واقع ہے.. دوران قیام ایک رات نماز تہجد میں آپ نے پہلی رکعت میں سورۂ رحمٰن اور دوسری میں سورۂ جن تلاوت فرمائی.. اتفاق سے ملک شام کے مقام نصیبین (بروایت دیگر نینویٰ) کے سات جنوں کا ادھر سے گذر ہوا.. وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرأت سن کر ٹھہر گئے اور غور سے سننے لگے.. روایت ہے کہ جِن نماز کے بعد ظاہر ہوئے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں ایمان کی دعوت دی اور انھوں نے قبول کرلی.. آپ نے انھیں اسلام کی دعوت کو عام کرنے کی تلقین کی..

روایت ہے کہ جِنّات کی قوم یہودی مسلک پر تھی لیکن اِن جِنوں کے اسلام قبول کرنے کے بعد بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا.. جنات کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کا ذکر قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے.. ایک سورۃ الاحقاف میں اور دوسرے سورہ ٔجن میں.. سورۃ الاحقاف کی آیات میں فرمایا گیا..

"اور جب کہ ہم نے آپ کی طرف جنوں کے ایک گروہ کو پھیرا کہ وہ قرآن سنیں تو جب وہ (تلاوت ) قرآن کی جگہ پہنچے تو انھوں نے آپس میں کہا کہ چپ ہوجاؤ.. پھر جب اس کی تلاوت پوری کی جاچکی تو وہ اپنی قوم کی طرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے بن کر پلٹے.. انھوں نے کہا.. "اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے.. اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے.. حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے.. اے ہماری قوم ! ﷲ کے داعی کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ.. ﷲ تمھارے گناہ بخش دے گا اور تمھیں دردناک عذاب سے بچائے گا.."

(الاحقاف :۲۹۔ ۳۱)

سورۂ جن کی آیات میں فرمایا گیا..

"(اے پیغمبر) لوگوں سے کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں میں سے ایک جماعت نے اس کتاب کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو بھلائی کا راستہ بتاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے.."

(سورہ جن :۱ - ۲)

جنوں کی آمد اور قبولِ اسلام کا واقعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسری مدد تھی جو اس نے اپنے غیب ِ مکنون کے خزانے سے اپنے اس لشکر کے ذریعے فرمائی تھی جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں.. پھر اس واقعے کے تعلق سے جو آیات نازل ہوئیں ان کے بیچ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی کامیابی کی بشارتیں بھی ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی کہ کائنات کی کوئی بھی طاقت اس دعوت کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی.. چنانچہ ارشاد ہے..

''جو اللہ کے داعی کی دعوت قبول نہ کرے وہ زمین میں (اللہ کو ) بے بس نہیں کر سکتا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی کار ساز ہے بھی نہیں اور ایسے لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں.."

(۴۶: ۳۲)

اس نصرت اور ان بشارتوں کے سامنے غم والم اور حزن و مایوسی کے وہ سارے بادل چھٹ گئے جو طائف سے نکلتے وقت گالیاں اور تالیاں سننے اور پتھر کھانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر چھائے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عزم مصمم فرما لیا کہ اب مکہ پلٹنا ہے اور نئے سرے سے دعوتِ اسلام اور تبلیغ ِ رسالت کے کام میں چستی اور گرمجوشی کے ساتھ لگ جانا ہے.. یہی موقع تھا جب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کی کہ آپ مکہ کیسے جائیں گے جبکہ وہاں کے باشندوں یعنی قریش نے آپ کو نکال دیا ہے..؟

جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اے زید ! تم جو حالت دیکھ رہے ہو , اللہ تعالیٰ اس سے کشادگی اور نجات کی کوئی راہ ضرور بنائے گا.. اللہ یقینا اپنے دین کی مدد کرے گا اور اپنے نبی کو غالب فرمائے گا.."

نخلہ سے روانہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ حرا پر تشریف لائے اور یہاں مقیم ہو کر آپ نے بعض سردارانِ قریش کے نام پیغام بھیجا مگر کوئی شخص آپ کو اپنی ضمانت اور پناہ میں لینے کے لئے تیار نہ ہوا.. مطعم بن عدی کے پاس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچا تو وہ بھی اگرچہ مشرک اور کافر تھا مگر عربی شرافت اور قوی حمیت کے جذبہ سے متاثر ہو کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سیدھا کوہ حرا پر پہنچ کر اور آپ کو اپنے ہمراہ لے کر مکہ میں آیا.. مطعم کے بیٹے ننگی تلواریں لے کر خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے.. آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا.. اس کے بعد مطعم اور اس کے بیٹوں نے ننگی تلواروں کے سائے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھر تک پہنچادیا..

قریش نے مطعم سے پوچھا کہ تم کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا واسطہ ہے..؟ مطعم نے جواب دیا کہ مجھ کو واسطہ تو کچھ نہیں لیکن میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حمایتی ہوں.. جب تک وہ میری حمایت میں ہیں , کوئی نظر بھر کر ان کو نہیں دیکھ سکتا.. مطعم کی یہ ہمت اور حمایت دیکھ کر قریش کچھ خاموش سے ہو کر رہ گئے..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مطعم بن عدی کے اس حسنِ سلوک کو کبھی فراموش نہ فرمایا.. چنانچہ بدر میں جب کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد قید ہو کر آئی اور بعض قیدیوں کی رہائی کے لیے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا..

''اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا , پھر مجھ سے ان بدبودار لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا..''

(صحیح بخاری , ۲/۵۷۳)

حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آنے کی فضیلت حاصل ہوئی.. حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چونکہ قریب قریب ایک ہی زمانہ میں ہوا تھا اس لئے مورخین میں اختلاف ہے کہ کس کو تقدم حاصل ہے.. ابن اسحٰق کی روایت ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو تقدم حاصل ہے جبکہ علامہ ابن کثیر نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لکھا ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی سب سے پہلے نکاح کیا.. تاہم جمہور کے مطابق ازواجِ مطہرات میں یہ فضیلت حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو حاصل ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد سب سے پہلے وہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں..

حضرت سودہ قبیلہ عامر بن لوئی سے تھیں جس کا سلسلہ مدینہ کے خاندان بنو نجّار سے ملتا ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردادا ہاشم نے شادی کی تھی.. وہ ابتدائے نبوت میں مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں.. ان کی شادی پہلے حضرت سکران بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی.. حضرت سودہ رضی اللہ عنہا انہی کے ساتھ اسلام لائیں اور ان کے ساتھ حبشہ جانے والی دوسری جماعت کے ساتھ ہجرت کی.. وہاں کئی برس رہ کر مکہ آئیں.. کچھ دنوں بعد حضرت سکران رضی اللہ عنہ نے وفات پائی.. ان سے ایک بیٹے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے جنگ جلولا (ایران ) میں شہادت پائی..

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غمگین رہا کرتے تھے.. کم سن بچیوں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہ تھا.. یہ دیکھ کر حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک مونس و رفیق کی ضرورت ہے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایماء سے وہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے والد کے پاس گئیں اور جاہلیت کے طریقہ پر سلام کیا , پھر نکاح کا پیغام پہنچایا..

انہوں نے کہا.. "ہاں ! محمّد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شریف کفو ہیں لیکن سودہ سے بھی تو دریافت کرو.." غرض سب مراحل طے ہوگئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے.. ان کے والد نے نکاح پڑھایا اور چار سو درہم مہر قرار پایا..

نکاح کے وقت حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی عمر تقریباََ پچاس سال تھی.. ان کی ماں کا نام سموس بنت قیس تھا.. شوال 10 نبوت میں نکاح ہوا..

سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بلند قامت اور فربہ اندام تھیں.. سخاوت و فیاضی ان کے اوصاف کے نمایاں پہلو تھے.. فطرتا ً اور طبیعتاً ایک صالح , حق پسند اور دور اندیش خاتون تھیں.. بزرگوں کی اطاعت , بچوں سے محبت اور سب کی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.. آپ رضی اللہ عنہا سنجیدہ مزاج تھیں اور قبول اسلام سے قبل بھی زمانہ جاہلیت کے رسوم و رواج کو پسند نہیں کرتی تھیں.. یہی وجہ ہے کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحید ورسالت کا اعلان فرمایا تو آپ رضی اللہ عنہا نے اس پیغام کو فوراً قبول فرما لیا اور دعوت توحید کے تین سالہ دور میں جن 133 افراد نے اسلام قبول کیا ان میں آپ رضی اللہ عنہا کا نام بھی نمایاں طور پر شامل ہے..

آپ رضی اللہ عنہا اپنے قبیلے بنی لوی میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئیں اور آپ رضی اللہ عنہا کی کوششوں سے آپ رضی اللہ عنہا کے شوہر , میکے اور سسرال کے خاندانوں کے بہت سے افراد نے بھی اسلام قبول کیا..

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی.. آپ کا انتقال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری زمانہ میں 22 ہجری میں ہوا..

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی تھیں.. والدہ کا نام زینب بنت عویمر رضی اللہ عنہا اور کنیت اُمّ رومان تھی.. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی نسبت سے اُم عبداللہ کنیت کرتی تھیں.. آپ رضی اللہ عنہا پہلے جبیر بن مطعم کے صاحبزادے سے منسوب تھیں.. (سیرت احمد مجتبیٰ میں مطعم بن عدی کا بیٹا لکھا گیا ہے)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کی تحریک کی.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رضامندی ظاہر کی.. خولہ رضی اللہ عنہا نے ام رومان رضی اللہ عنہا سے کہا تو انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا.. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جبیر بن مطعم سے وعدہ کرچکا ہوں اور میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی لیکن مطعم نے خود اس بناء پر انکار کردیا کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے گھر آگئیں تو گھر میں اسلام کا قدم آجائے گا.. اس طرح وہ بات ختم ہوگئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح کردیا.. چار سو درہم مہر قرار پایا لیکن مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم ہوتا تھا..

عقد کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے متعلق علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے.. جمہور کے مطابق نکاح کے وقت عمر 6 سال اور رخصتی کے وقت 9 سال تھی جبکہ کچھ علماء اس سے سخت اختلاف کرتے ہیں اور ان کے نزدیک نکاح کے وقت عمر 15 یا 16 سال اور رخصتی کے وقت 19 سال تھی.. واللہ اعلم..

حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے والدین کا گھر تو پہلے ہی نور اسلام سے منور تھا , کم عمری ہی میں انہیں کاشانہٴ نبوت تک پہنچا دیا گیا تاکہ ان کی سادہ لوح دل پر اسلامی تعلیم کا گہرا نقش مرتسم ہوجائے.. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی.. اسوہ حسنہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا.. حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (2210) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں..

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی ذہین خاتون کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح ہونے میں منشائے ربّانی یہ تھا کہ وہ کمی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ہونے میں عام خواتین کو مانع تھی وہ اس ذاتِ مقدس سے پوری ہو جائے.. یہی وجہ تھی کہ خواتین زیادہ تر اپنے مسائل آپ رضی اللہ عنہا ہی کے توسط سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش گذار کرتی تھیں یا پھر وہ نمائندہ بن کر مخصوص مسائل کے بارے میں کُرید کُرید کر سوالات کرتی تھیں.. یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی ذات سے اُمت کو ایک تہائی علم فقہ ملا..

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بے شمار فضیلتیں ہیں.. اس کے علاوہ اُمت کو ان کے ذریعہ بے شمار سعادتیں ملیں.. تیمّم کی سہولت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے ملی.. حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ کو دوبار سلام کیا اور جبریل علیہ السلام کو دو بار ان کی اصلی حالت میں دیکھا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس بات کی خوش خبری دی کہ وہ جنت میں بھی ان کی زوجہ ہوں گی..

آپ رضی اللہ عنہا سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.. 66 سال کی عمر میں 17 رمضان 57 ہجری کو مدینہ میں وفات پائی.. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور رات کے وقت جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی..

طائف سے مکہ واپس ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افراد اور قبائل کو پھر سے اسلام کی دعوت دینی شروع کردی.. حج کے زمانے میں عرب کے مختلف قبائل مکہ میں جمع ہوتے.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ ایک ایک قبیلہ والوں کے پاس جاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے..

عرب میں مختلف مقامات پر میلے لگتے تھے جن میں دور دور کے قبائل آتے تھے.. مورخین نے ان میلوں میں عکاظ , مجنّہ اور ذوالمجاز کا نام خاص طور پر لیا ہے.. حج کا بڑا میلہ منیٰ میں ہوتا.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میلوں میں جاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے.. قبائل عرب میں سے بنو عامر , بنو محارب , بنو سُلیم , حارث بن کعب , فزارہ , غسّان , مرّہ , حنیفہ , بنو عبس , بنو نضر , کندہ , کلب , عذرہ , حضارمہ (حضرموت کے رہنے والے) مشہور قبائل ہیں.. آپ ان سب قبائل کے پاس تشریف لے گئے لیکن ابو لہب ہر جگہ ساتھ ساتھ جاتا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مجمع کو مخاطب کرتے تو برابر سے کہتا.. "دین سے پھر گیا ہے اور جھوٹ کہتا ہے.."

بنی حنیفہ یمامہ میں آباد تھے.. جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کے پاس گئے تو انھوں نے نہایت تلخی سے جواب دیا.. "مسیلمہ کذّاب" جس نے آگے چل کر نبوت کا دعویٰ کیا , اسی قبیلہ کا رئیس تھا..

آپ نے بازار ِعکاظ میں بنو عامر کے سامنے اسلام پیش کیا تو ان میں سے ایک شخص "بحیرہ بن فراس قشیری" نامی نے کہا.. "اگر ہم مسلمان ہوجائیں اور آپ کو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو تو کیا آپ اپنے بعد ہم کو اپنا خلیفہ بناؤ گے..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یہ کام تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.. وہ جس کو چاہے گا وہی میرا خلیفہ ہوجائے گا.."

یہ سُن کر اس شخص نے کہا.. "کیا خوب ! اس وقت تو ہم آپ کے مطیع وحامی بن کر اپنی گردنیں کٹوائیں اور جب آپ کامیاب ہوجاؤ تو دوسرے لوگ حکومت کا مزا اُڑائیں ___ جاؤ ! ہم کو تمہاری ضرورت نہیں.." پھر اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر کہا.. "جائیے اور اپنی قوم سے مل جائیے.. اگر آپ میری قوم کے پاس نہ ہوتے تو میں آپ کا سر تن سے جدا کر دیتا.."

یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے.. بحیرہ نے اونٹنی کے پیٹ پر زور سے ڈنڈا مارا جس سے وہ اچھل پڑی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نیچے گرا دیا..

اتفاق سے بنی عامر کی ایک خاتون "ضباعہ عامر بن قرط" رضی اللہ عنہا وہاں موجود تھیں جنہوں نے مکہ میں حضور کے ہاتھ پر ایمان قبول کر لیا تھا.. انہوں نے فوراً اپنے چچا زاد بھائیوں کو للکارا.. "اے آل عامر ! اب میرا تم سے کوئی تعلق نہیں.. تمہارے سامنے یہ بد سلوکی ہو رہی ہے اور تم میں سے کوئی انہیں نہیں بچاتا.." ان کے بھائیوں میں سے تین شخص اُٹھے اور بد سلوکی کرنے والوں کی خوب مار پیٹ کی.. اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی اور بعد میں وہ ایمان لائے..

جب قبیلہ بنو عامر اپنے علاقے میں واپس گیا تو اپنے ایک بوڑھے آدمی کو جو کبر سنی کے باعث حج میں شریک نہ ہوسکا تھا , سارا ماجرا سنایا اور بتایا کہ ہمارے پاس قبیلۂ قریش کے خاندان بنوعبد المطلب کا ایک جوان آیا تھا جس کا خیال تھا کہ وہ نبی ہے.. اس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اس کی حفاظت کریں , اس کا ساتھ دیں اور اپنے علاقے میں لے آئیں..

یہ سن کر اس بڈھے نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا اور بولا.. "اے بنو عامر ! کیا اب اس کی تلافی کی کوئی سبیل ہے..؟ اور کیا اس ازدست رفتہ کو ڈھونڈھا جاسکتا ہے..؟ اللہ کی قسم ! کسی اسماعیلی نے کبھی اس (نبوت) کا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا.. یہ یقینا حق ہے.. آخر تمہاری عقل کہاں چلی گئی تھی..؟"

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبیلہ بنو ذہل بن شیبان کے پاس گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے.. وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ان کے سردار مفروق بن عمرو اور ہانی بن قبیصہ سے ہوئی.. حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا.. "میرے ساتھ اللہ کے آخری نبی آئے ہیں.." مفروق نے کہا.. "میں نے آپ کا تذکرہ سنا ہے.." پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہا.. "اے برادر قریش ! آپ کی دعوت کیا ہے..؟"

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اللہ ایک ہے اور میں اس کا پیغمبر ہوں.." پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ ٔانعام کی آ یت ۱۵۱ پڑھ کر سنائی.. اس قبیلہ کے روساء مفروق ، مثنیٰ اور ہانی نے کلام اللہ کی تحسین کی اور کہا.. "بے شک یہ کلام زمین والوں کا نہیں ہو سکتا.."

واضح رہے کہ ان ذکر کردہ سارے قبائل پر ایک ہی سال یا ایک ہی موسم حج میں اسلام پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ نبوت کے چوتھے سال سے ہجرت سے پہلے کے آخری موسم حج تک دس سالہ مدت کے دوران پیش کیا گیا تھا البتہ بیشتر قبائل کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دسویں سال تشریف لے گئے...

جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبائل اور وفود پر اسلام پیش کیا , اسی طرح افراد اور اشخاص کو بھی اسلام کی دعوت دی اور بعض نے اچھا جواب بھی دیا.. پھر اس موسم حج کے کچھ ہی عرصے بعد کئی افراد نے اسلام قبول کیا.. ذیل میں ان کی مختصر روداد پیش کی جارہی ہے..

سوید بن صامت رضی اللہ عنہ..
_______________________

یہ شاعر تھے.. گہری سوجھ بوجھ کے حامل اور یثرب کے باشندے تھے.. ان کی پختگی , شعر گوئی اور شرف ونسب کی وجہ سے ان کی قوم نے انہیں کامل کا خطاب دے رکھا تھا.. یہ حج یا عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی.. کہنے لگے.. "غالباً آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا میرے پاس ہے.."

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "تمہارے پاس کیا ہے..؟" سوید (رضی اللہ عنہ) نے کہا.. "حکمتِ لقمان.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "پیش کرو.." انہوں نے پیش کیا..

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "یہ کلام یقینا اچھا ہے لیکن میرے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے بھی اچھا ہے.. وہ قرآن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کیا ہے.. وہ ہدایت اور نور ہے.." اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی.. سوید (رضی اللہ عنہ) بولے.. "یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے.." اور اسلام قبول کرلیا..

اس کے بعد وہ مدینہ پلٹ کر آئے ہی تھے کہ جنگ بُعاث سے قبل اوس وخزرج کی ایک جنگ میں قتل کر دیئے گئے.. اغلب یہ ہے کہ انہوں نے 11 نبو ی کے آغاز میں اسلام قبول کیا تھا..

ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ..
_____________________

یہ بھی یثرب کے باشندے تھے اور نوخیز جوان تھے.. 11 نبوت میں "جنگ بُعاث" سے کچھ پہلے اوس کا ایک وفد خزرج کے خلاف قریش سے حلف وتعاون کی تلاش میں مکہ آیا تھا.. آپ بھی اسی کے ہمراہ تشریف لائے تھے.. اس وقت یثرب میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان عداوت کی آگ بھڑک رہی تھی اور اوس کی تعداد خزرج سے کم تھی..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفد کی آمد کا علم ہوا تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے درمیان بیٹھ کو یوں خطاب فرمایا.. "آپ لوگ جس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں کیا اس سے بہتر چیز قبول کرسکتے ہیں..؟" ان سب کہا.. "وہ کیا چیز ہے..؟" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "میں اللہ کا رسول ہوں.. اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس اس بات کی دعوت دینے کے لیے بھیجا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں.. اللہ نے مجھ پر کتاب بھی اتاری ہے.." پھر آپ نے اسلام کا ذکر کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی..

ایاس بن معاذ (رضی اللہ عنہ) بولے.. "اے قوم ! اللہ کی قسم ! یہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے آپ لوگ یہاں تشریف لائے ہیں.." لیکن وفد کے ایک رکن ابوالحسیر انس بن رافع نے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ایاس کے منہ پر دے ماری اور بولا.. "چپ رہو.. ہم کسی اور کام کے لئے آئے ہیں.." چنانچہ ایاس (رضی اللہ عنہ) خاموش ہوگئے اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے.. وفد قریش کے ساتھ حلف و تعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور یوں ہی ناکام مدینہ واپس ہوگیا..

مدینہ پلٹنے کے تھوڑے ہی دن بعد ایاس (رضی اللہ عنہ) انتقال کر گئے.. وہ اپنی وفات کے وقت تہلیل وتکبیر اور حمد وتسبیح کر رہے تھے اس لیے لوگوں کو یقین ہے کہ ان کی وفات اسلام پر ہوئی..

ضماد ازدی رضی اللہ عنہ..
___________________

یہ یمن کے باشندے تھے اور قبیلہ ازد کے ایک فرد تھے.. جھاڑ پھونک کرنا اور آسیب اتارنا ان کا کام تھا.. مکہ آئے تو وہاں کے احمقوں سے سنا کہ (نعوذ باللہ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاگل ہیں.. سوچا کیوں نہ اس شخص کے پاس چلوں.. ہوسکتا ہے اللہ میرے ہی ہاتھوں سے اسے شفا دے دے.. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی اور کہا.. "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں آسیب اتارنے کے لیے جھاڑ پھونک کیا کرتا ہوں.. کیا آپ کو بھی اس کی ضرورت ہے..؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا.. "یقینا ساری تعریف اللہ کے لیے ہے.. ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں.. جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ بھٹکا دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا.. اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.. وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں.. اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں.."

ضماد (رضی اللہ عنہ) نے کہا.. "ذرا اپنے یہ کلمات مجھے پھر سنا دیجیے.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار دہرایا.. اس کے بعد ضماد (رضی اللہ عنہ) نے کہا.. "میں کاہنوں , جادوگروں اور شاعروں کی بات سن چکا ہوں لیکن میں نے آپ کے ان جیسے کلمات کہیں نہیں سنے.. یہ تو سمندر کی اتھاہ گہرائی کو پہنچے ہوئے ہیں.. لائیے ! اپنا ہاتھ بڑھایئے ! آپ سے اسلام پر بیعت کروں.." اور اس کے بعد انہوں نے بیعت کرلی..

===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری...

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS