find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Majmoon. Show all posts
Showing posts with label Majmoon. Show all posts

Roman urdu se Jaan Chhuraye aur Urdu Rasm ul khat ko apnaye.

Ek aisi Qaum jo Soyi to Padhi likhi thi magar Uthi to Anpadh thi.

तुर्की के सदर आर्दोआन ने ऐसा क्यों कहा " दुनिया में मुझे ऐसी कोई कौम बता दें जो अपनी तारीख और तहजीब के असली नुस्खों ही को पढ़ने से महरूम हो? "

तुर्को के तहजीब और तमद्दुन के साथ अंग्रेजो ने कैसा खिलवाड़ किया कमाल पाशा के जरिए।

किसी भी कौम का राब्ता ( संपर्क ) अगर अपने माजी (अतीत) से टूट जाए तो उस कौम का नाम ओ निशां तक बाकी नही रहता, उम्मत ए मुसलेमा की तारीख कयामत तक आने वाले मुसलमानो के लिए एक अजीम सरमाया है।

रोमन उर्दू से जान छुड़ाए और उर्दू रसमुलखत को अपनाए।

ایک ایسی قوم جو رات کو پڑهی لکھی سوئی مگر اٹھی تو ان پڑھ تھی۔
دنیا میں مجھے ایسی کوئی قوم بتا دیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو؟"
-------------------
*رومن اردو سے جان چھڑائیے اور اردو رسم الخط کو اپنائے۔
تحریر:  محبوب علی پرکانی

رومن اردو سے مراد اردو الفاظ کو انگریزی حروف تہجی کی مدد سے لکھنا ہے مثلا کتاب کو Kitaab اور دوست کو Dost لکھنا۔

اس طرزِ تحریر کو دشمنِ اردو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
اگر قارئین اس بات کو نہیں سمجھے کہ رومن اردو سے اردو رسم الخط کو کیا خطرہ لاحق ہے تو اس کو سمجھنے کے لیے ترکوں کی مثال دی جا سکتی۔

ایک ایسی قوم جو رات کو سوئی تو پڑھی لکھی تھی مگر صبح اٹھی تو ان پڑھ تھی۔

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد 1928ء میں سیکولر ذہنیت کے حامل کمال اتا ترک نے کئی طریقوں سے اسلام سے اپنی نفرت کا اظہار کیا جیسے کہ اذان پر پابندی، حج و عمرہ کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا، آیا صوفیہ جیسی عظیم الشان مسجد کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا اور یہاں تک کہ ہجری کیلنڈر کی جگہ عیسوی کلینڈر  کو نافذ کیا گیا۔

کمال اتا ترک نے اسلام دشمنی کا ایک اور ثبوت دیا اور ترکی زبان جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی اسے بدل کر رومن حروف میں لکھنے کا حکم دے دیا۔
جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس سے شرحِ خواندگی اوپر آئے گی لیکن اس اقدام کا اصل مقصد آنے والی ترک نسل کو اسلامی کتب جو عربی رسم الخط میں تھیں ان سے دور کرنا تھا۔
اس بات کا واضح ثبوت ترکی کے پہلے وزیر اعظم عصمت انونو کے ان الفاظ سے ہوتا ہےکہ " حرف انقلاب کا مقصد نئی نسل کا ماضی سے رابطہ منقطع کرنا اور ترک معاشرے پر مذہب اسلام کی چھاپ اور اثر و رسوخ کو کمزور بنانا ہے۔"
(یا داشتِ عصمت انونو، جلد دوئم، ص،223)

یہ اسلام دشمن  منصوبہ کامیاب رہا اور آنے والی نسل دیگر کتب تو دور کی بات قرآن مجید پڑھنے میں بھی دشواری کا سامنا کر رہی تھی کیونکہ قرآن مجید بھی عربی رسم الخط میں ہے۔

نتیجے کے طور پر سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں لکھی جانے والی بیش بہا کتب کا خزانہ تو موجود تھا لیکن  ترک ان کتابوں کو پڑھنے سے قاصر تھے اور کسی نے ان حالات کا کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ " ترک قوم رات کو سوئی تو پڑھی لکھی لیکن صبح اٹھی تو ان پڑھ ہو چکی تھی " کیونکہ ان کا واسطہ ایک ایسے رسم الخط سے پڑا تھا جس سے وہ نابلد تھے۔

ترک اس حادثے کو اب تک نہیں بولے اور اسی حوالے سے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا تھا ’’دنیا میں مجھے ایسی کوئی قوم بتا دیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو؟"

افسوس کہ ہماری قوم بھی ہر گزرتے دن اپنے رسم الخط کو فرماموش کرتی جا رہی ہے اور ہم بھی یہی غلطی دہرا رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے رفاہ عامہ کے لیے جاری ہونے والے پیغامات ہوں یا پھر موبائل کمپنیوں کی جانب سے موصول ہونے والے اشتہارات اب ہر جگہ رومن اردو نے پیر جمع لیے ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ رومن اردو کا آغاز کب ہوا لیکن اسے "عروج" سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور وٹس ایپ نے بخشا۔

ابتدائی ایام میں جب موبائل فونز میں اردو کی بورڈ (Keyboard) میسر نہ تھا تو رومن اردو لکھنا سب کی مجبوری تھی لیکن یہ مجبوری ہماری عادت اور سستی بن گئی اور اب اردو کی بورڈ موجود ہونے کے باوجود ہم رومن اردو کو چھوڑنے پر راضی نہیں

(اگر آپ کے موبائل فون میں اردو کی بورڈ میسر نہیں تو پلے اسٹور سے باآسانی ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں)

کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اردو کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے اردو لکھنا مشکل اور وقت طلب کام ہے تو ان کے لیے عرض ہے کہ جاپانی اور چینی انٹرنیٹ بلکہ کسی بھی جگہ رومن رسم الخط کا استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے رسوم الخط کو ترجیح دیتے ہیں۔

کیا اردو اب جاپانی اور چینی زبان سے بھی مشکل ہو گئی ہے جو ہم اس سے دور ہو رہے ہیں؟
اسی طرح کچھ احباب اردو رسم الخط سے اس لیے بھاگتے ہیں کہ املا کی غلطی کے باعث کوئی ان کا مذاق نہ اڑائے جیسے کہ اگر لفظ "کام" کو رومن اردو میں لکھنا ہو تو یوں لکھا جا سکتا ہے Kaam یا kam بلکہ Km لکھنے سے بھی کام بن جائے گا کیونکہ اس کے لکھنے کا کوئی اصول نہیں لیکن اگر اردو رسم الخط کا استعمال کرتے ہوئے کام کو "قام" لکھ دیا تو غلطی پکڑی جا سکتی ہے لیکن اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے اگر کوئی ہمارے املا کی تصحیح کردے تو ہمیں اس کے لیے ان کا شکرگزار ہونا چائیے۔

رومن اردو کی جانب ہمارے جھکاؤ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بحیثیت قوم انگریزی زبان سے بے حد مرعوب ہیں کیونکہ ہمارے ہاں انگریزی بولنے اور لکھنے کو نوکری حاصل کرنے کے لیے لازم خیال کیا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مقابلے کا کوئی بھی امتحان ہو انگریزی اس میں لازم ہوتی ہے یعنی انگریزی بطور مضمون ہی لازم ہوتی تو ٹھیک لیکن یہاں مطالعہ برے صغیر ، حالات حاضرہ اور بیسیوں مضامین انگریزی میں لازم قرار دیے گئے ہیں۔

جب لوگ انگریزی کو ہی سب کچھ سمجھیں گے تو وہ اردو کی جانب کیونکر آئیں گے اور اردو رسم الخط کو کیوں ترجیح دیں گے؟
اس کا حل یہی ہے کہ مقابلے کے امتحانات میں انگریزی کی جگہ اردو مضمون نویسی کو لازم قرار دیا جائے تو نہ صرف عوام کو اس کی اہمیت کا احساس ہو گا بلکہ وہ خود اردو رسم الخط کی جانب راغب ہوں گے۔

ہمیں اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگانی چائیے کہ کسی بھی زبان کو بننے اور بگڑنے میں وقت لگتا ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ آنے والی نسلیں زبان کی صورت بناتے یا بگاڑتے ہیں اور ہمارے ہاں ایک نسل تو رومن اردو لکھتے بڑی ہوگئی اور اگر اب بھی رومن اردو کا راستہ نہ روکا گیا تو حالات  وہی ہو جائیں گے کہ اردو تحریر دیکھ کر لوگوں کو سمجھ ہی نہ آئے گی کہ لکھا کیا ہے اور اس بات پر سارے متفق ہیں کہ جس زبان کا رسم الخط نہ رہے تو اس کے دامن میں موجود ادب کا بیش بہا سرمایہ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔

وقت کی ضرورت ہے کہ عوام الناس میں آگاہی پھیلائی جائے اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں خصوصی لیکچرز کا انعقاد کر کے نوجوانوں میں اردو رسم الخط کو استعمال کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے اور سوشل میڈیا پر رومن اردو کے خلاف تحریک چلائی جائے، صحافی حضرات بھی ٹاک شوز میں اس موضوع کو زیر بحث لائیں تبھی ہم اپنے رسم الخط کے دفاع کا حق ادا کر پائیں گے۔

======================

Share:

Rom ka wah Shahar jaha Fahashi ki wajah se Allah ka Azab aaya.

Jab Rom Saltnat ke ek Shahar ko Samundar me Daba diya gaya.

रोम सल्तनत का एक पुराना शहर जिसपे अल्लाह का अजाब आया और समुंदर में डूबा दिया गया।
रोमन साम्राज्य का वह पुराना शहर जहां फहाशी आम था ।
रोम का वह पुराना शहर जिसपे अजाब ए इलाही आया और समुंदर में डूबा दिया गया।
रोम का वह शहर जो  बदफेली के वजह से मशहूर था।

جب ماہرین نے  سلطنت روم کے ایک پرانے شہر کی دریافت کہ تو انکو معلوم نہیں تھا کے یہ کونسا شہر ہے۔سمندر کے نیچھے یہ شہر کیا کر رہا ہے اور یہ شہر کیسے بنا ہوا ہے۔
پہلے پہلے تو یہ ایک معمہ رہا بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کے یہ روم کا بہت ہی پورنا شہر پومپائی  شہر ہے اس کی تبائی  ایک زلزلے اور آتش فشاں پہاڑ کے پٹنے سے ہوہی ماہرین نے اس کی جاچ پڑتال کی تو معلوم ہوا کے یہ شہر بدفعلیوں  کے لیے مشہور تھا یہاں جسم فروشی عام تھی۔
لوگ اخلاق کے دائرے سے گر چکے تھے۔
اور ان میں جائز اور نا جائز کا تصور ہی نہیں تھا۔
یہاں جسم فروشی کے اڈے عام چلتے اور دور دور سے لوگ یہاں آتے۔

جب اس سے کچھ آثار  ملے تو اسکو جدید  ریسرچ سنٹرز بھیجا گیا یہ آثار یہاں کے دیواروں اور دیگر عمارتوں کے حصے تھے اس پر قدیم روم کے زبان میں لکھائی ہوہی تھی۔ جب اس کی لکھائی کا ترجمہ کیا گیا تو معلوم ہوا کے ان پر بے ہودہ اشعار لکھے گئے ہیں جن سے اس قوم کی اخلاقیات ، تہذیب اور ثقافت کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔
سلطنتِ روم کا شہر پومپائی بھی لوط علیہ سلام کی قوم جیسی بدفعلیوں کا شکار تھا اور ان کا انجام بھی لوط علیہ سلام کی قوم جیسا ہوا۔ اِس شہر کی تباہی بھی ایک آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے سے ہوئی اور اس سے نکلنے والے لاوے نے شہر کو مکینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ تباہی اتنی شدید اور اچانک تھی کہ عین دن کے وقت زندگی اس کی لپیٹ میں آ گئی اور آج بھی اس کے آثار اسی طرح موجود ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے دھارے کو منجمد کر دیا گیا ہے۔
ذیل میں دی گئی تصویریں کسی مجسمہ ساز کا فن نہیں بلکہ پومپائی شہر کے وہ باسی ہیں جو آتش فشاں کا شور سن کر بھی فرار نا ہو سکے۔ شہر کی کھدائی کے دوران ایک ایسا خاندان بھی دریافت کیا گیا جو کھانا کھا رہا تھا اور اسی حالت میں انہیں عذاب نے آ گھیرا اور ان کے ساتھ ان کا کھانا اور کھانے کے برتن بھی پتھر میں تبدیل ہو گئے۔۔ کھدائی سے نکلنے والے اکثر چہرے صحیع اور سالم ہیں اور ان کے چہرے پہ بوکھلاہٹ، خوف اور پریشانی عیاں ہے۔۔۔

Share:

Musalmano ke Bache kaha padhne jate hai Schoolon me ya Madarse me?

Batao Musalmano ke bache Kaha padhne jate hai Madarsa me ya School me?
School me Padhne wale sare Bache hamare hai.

ईसाई पॉप का सवाल , बताओ मुसलमानों के बच्चे ज्यादातर स्कूलों खासकर इंग्लिश मीडियम स्कूलों में पढ़ते है या मदरसे में?
मुसलमान स्टूडेंट्स का किस तरह कम उम्र में ही मॉडर्न और लिबरल के नाम पर उसका ब्रेन वाश किया जाता है।
मुस्लिम लड़कियों के लिए यह LM और HM क्या है?
मुस्लिम बहनों होशियार रहो एक दज्जाली फितना से।
सलाहुद्दीन अय्युबी के बारे में आप क्या जानते है?

یہ بچے ہمارے ہیں
بقلم: مدثر احمد

1990 کے ٹائمز میں یہ خبر چھپی کہ ۲۰ یا ۵۰ سال کے بعد پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو گا۔ انگلینڈ وغیرہ کے 'ماہرین' اکٹھے ہوئے۔ کافی غور و فکر کے بعد کچھ سمجھ نہ آیا۔ آخر کار روم میں جان پال پوپ سیکنڈ کے پاس مسئلہ لے کر گئے تو اس نے ایک سوال کیا کہ یہ بتاؤ کہ مسلمانوں کے بچے زیادہ تر اسکولوں اور خاص طور پر انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں یا مدرسے میں؟
تو ماہرین نے کہا کہ ۸۰ فیصد سے زیادہ بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور بہت کم بچے مدارس دینیہ میں پڑھتے ہیں تو پوپ نے ایک فقرہ کہا۔۔۔ '' کانوں میں روئی ڈال کر سوجاؤ۔ فکر نہ کرو، یہ بچے ہمارے ہیں۔ مسلمانوں کے نہیں۔ (حوالہ: محاسن اسلام مارچ 2017 صفحہ نمبر ۵۸)''
دراصل یہ متن پڑھنے کے لئے نہایت خوشنما اور سادہ ہے لیکن اس مضمون میں جو فکر مسلمانوں کیلئے ہے وہ، نہایت فکر آمیز اور تشویش کا سبب ہے ۔

آج مسلمانوں میں تعلیم کو لیکر جو نظریہ قائم ہوا ہے وہ ایک طرح سے مسلمانوں اور مستقبل کیلئے خطرناک بن رہا ہے اور تعلیم کے نام پر اپنے بچوں کو مغربیت اور ملحدوں کی فکر میں ڈھال رہے ہیں، غیروں کے تعلیمی اداروں کو جس طرح سے اہمیت دیتے ہوئے اپنے بچوں کو داخلے دلوارہے ہیں اس سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ ہم مسلمانوں کو ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جس میں کم از کم دینداری کی بھی ضرورت نہیں ہے اور دینی تعلیمات اور مسلمانوں کے درمیان رہ کر حاصل کی جانے والی تعلیم کو ہم گھسا پیٹا تعلیمی نظام قرار دے رہے ہیں۔

ہم اس سلسلے میں کچھ ایسے لوگوں کی مثال دینا چاہیں گے کہ جو آج بظاہر مسلمان ہیں لیکن وہ ملحد و کافر بن چکے ہیں، دنیا میں تو انکا اونچا مقام اور بڑا نام ہے لیکن جب اسلامی نظریات اور آخرت کے تعلق سے انکا جائزہ لیا جائے تو وہ اپنے آپ کو خسارے میں ڈالے ہوئے ہیں۔

طارق فتح، سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین جیسے لوگوں کو تو ہم جانتے ہی ہیں انکے علاوہ سینکڑوں ایسے لوگ بھی ہمارے درمیان ہیں جن کا نام ،تعلق اور ماں باپ اسلام سے جڑا ہوا ہے لیکن انہوں نے اسلام کا مذاق بنایا ہوا ہے۔ ہمارے ایک صحافی دوست ہیں جن کا نام صحابی رسول اللہ ﷺ سے ملتاہے انکا کہنا ہے کہ رمضان میں آ پ بھی روزے رکھتے ہو ؟. جب کہ آپ کماتے پیٹ کی خاطر اور اسی پیٹ کو کیوں تڑپاتے ہو؟ یہ ایسے صحافی ہیں جنہیں کنڑ کی ادبی و صحافتی دنیا میں کافی شہرت حاصل ہے،  انکی تعلیم و تربیت غیروں کے اداروں میں ہوئی اور انکا اٹھنا بیٹھنا بھی غیروں کے درمیان ہی جس کا اثر آج دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسی طرح ہمارے ایک پروفیسر دوست بھی ہیں اور وہ مسلمانوں کے یہاں ہی پیدا ہوئے البتہ انکی تعلیم غیروں کے ادارے میں ہوئی اور آج وہ سوائے عیدین کے اور کوئی نماز نہیں ادا کرتے ،انہوں نے جس خاتون سے شادی کی ہے وہ برہمن تھی اور برہمن ہے جب دیوالی کا موقع آتا ہے تو باقاعدہ دونوں مل کر پوجا پاٹھ انجام دیتے ہیں، انکا ماننا ہے کہ مذہب کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ محبت اور انسانیت ہی سب کچھ ہے اور میں کبھی یہ نہیں چاہونگا کہ اسلام کے نام پر لوگ ہمیں جانیں بلکل انسان کے نام پر ہماری شناخت ہو۔ ان لوگو کا ماننا ہے کہ جس طرح خون کا رنگ لال ہے اسمِ کوئی فرق نہیں تو پھر ہم سب انسان ہے اور ہم سب میں کوئی فرق نہیں، انہیں  خودکو مسلمان کہنے میں شرم آتی ہے، یہ خود  کو اپنا مذہب  انسانیت بتاکر ماڈرن، لبرل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

غیروں کے تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے تمام طلباء ایسے ہی ہوں یہ ضروری نہیں لیکن کل کے دن کیا پتہ ہمارے بچوں کو ایسا ماحول ملنے کی وجہ سے ان پر بھی یہی اثر پڑے اور وہ بھی نعوذباللہ ملحد بن جائیں۔

دراصل آج ہمارے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا بیحد ضروری ہے لیکن تعلیم کی آڑ میں بچوں کو جان بوجھ کر گمراہ کرنا یقیناً ہماری نسلوں کو بگاڑنے کے برابر ہے۔ حالانکہ بچوں کا بہترین مدرسہ ماں کی گود ہے اور اسی گود میں بچے کی تربیت ہوتی ہے ایسے میں ماں باپ دونوں ہی صرف اپنی جھوٹی شان کیلئے اپنے بچوں کو غیروں کے درمیان دھکیل رہے ہیں۔
اکثر ہم دیکھ رہے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو جھوٹی شان کیلئے ہی بڑی بڑی اسکولوں کا حصہ بنارہے ہیں اور انکی نظر میں بڑی اسکول وہ ہے جہاں پر انگریزی میں بات کی جائے، مہنگی کتابیں اور مہنگے کپڑے دئے جائیں ورنہ ان اسکولوں میں اور کیا سکھایا جاتا۔ نہ انسانیت نہ اخلاق۔ مارل ایجوکیشن کے نام پر پوجا پاٹھ، گرو وندنا ،والدین کی پوجا۔ وہیں جب مسلم تعلیمی ادارے چار دعائیں سکھاتے ہیں کھانے پینے کے آداب سے آگاہ کرتے ہیں تو یہ تعلیمی نظام والدین کو اچھا نہیں لگتا۔ کچھ والدین کی سوچ ہے کہ ہمارے اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنا ہے تو اعلیٰ میعار کے اسکول و کالج میں ہی تعلیم دلوانا چاہیے تبھی جاکر وہ کامیاب ہوسکتے ہیں، لیکن کیا لاکھوں روپے لیکر تعلیم دینے کا دعویٰ کرنے والے یہ ادارے کبھی آپ کو یہ اگریمنٹ کرکے دینگے کہ آپ کے بچے کو ڈاکٹر، انجینئر یا آئی اے ایس آفیسرس بناکر ہی رہینگے۔ نہیں نا۔ تو پھر کیوں اپنے بچوں کی تعلیم کا سودا غیروں کے پاس کئے جارہے ہیں جن کا مقصد اور پس پردہ منشاء ہی مسلمانوں کا صفایا کرنا ہے، مسلمانوں کے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے بجائے بگاڑنا ہے۔

ہمارے پاس کئی لوگ یہ شکایت لیکر آتے ہیں کہ غیر مسلم تعلیمی اداروں میں ان کے بچے کو ٹوپی پہننے نہیں دی جارہی ہے، حجاب پہننے نہیں دیا جاتا ہے، نقاب پے پابندی ہے، نماز پڑھنے سے روکا جاتا ہے۔

جب انکے اپنے اداروں میں یونیفارم اور ڈیسپلین کے نام پر مذہبی عقائد کو انجام دینے سے روکا جاتا ہے تو انکے دلوں میں کتنا تعصب ہوگا اندازہ لگائیے۔

ہماری نسلوں کو صرف تعلیم ہی نہیں تربیت کی بھی ضرورت ہے اور یہ تربیت انکی دنیا و آخرت کے لیے ہے اور جو لوگ دنیا وآخرت میں کامیابی چاہتے ہیں وہی کامیاب ہیں ورنہ دنیا کی کامیابی عارضی کامیابی ہے۔
(نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

Share:

Wah Ladki jo roj Ek Gareeb ladke ke liye rotiyan chori karti thi.

Ehsas Kise kahte hai?
Kisi Gareeb ki madad karna hamara farz hai?
Gareeb Bache apna Shauk kaha se puri karte hai?
एहसास किसे कहते है, इस वाकया से समझे?
गरीब के बच्चे कैसे अपनी ज़िन्दगी गुजारते है?
वह लड़की जो रोज़ घर से रोटियां छुपा कर एक गरीब लड़के को खिलाने  जाती थी।

                   *احساس*
وہ ناشتہ کر رھی تھی. مگر اس کی نظر امی پر جمی ھوئی تھی. ادھر امی ذرا سی غافل ھوئی. ادھر اس نے ایک روٹی لپٹ کر اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی. وہ سمجھتی تھی کہ امی کو خبر نہیں ھوئی. مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ ماؤں کو ہر بات کی خبر ھوتی ھے. وہ سکول جانے کے لئے گھر سے باہر نکلی .اور پھر تعاقب شروع ھو گیا. تعاقب کرنے والا ایک آدمی تھا. وہ اپنے تعاقب سے بے خبر کندھوں پر سکول بیگ لٹکائے اچھلتی کودتی چلی جا رھی تھی. جب وہ سکول پہنچی تو,, دعا,,شروع ھو چکی تھی. وہ بھاگ کر دعا میں شامل ھو گئی. بھاگنے کی وجہ سے روٹی سرک کر اس کی جیب میں سے باہر جھانکنے لگی. اس کی سہیلیاں یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگیں. مگر وہ اپنا سر جھکائے، آنکھیں بند کیے پورےانہماک سے جانے کس کے لئے دعا مانگ رھی تھی. تعاقب کرنے والا اوٹ میں چھپا اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ھوئے تھا .دعا کے بعد وہ اپنی کلاس میں آ گئی .باقی وقت پڑھنے لکھنے میں گزرا .مگر اس نے روٹی نہیں کھائی. گھنٹی بجنے کے ساتھ ھی سکول سے چھٹی کا اعلان ھوا. تمام بچے باہر کی طرف لپکے. اب وہ بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی. مگر اس بار اس نے اپنا راستہ بدل لیا تھا. تعاقب کرنے والا اب بھی تعاقب جاری رکھے ھوئے تھا .پھر اس نے دیکھا .وہ بچی ایک جھونپڑی کے سامنے رکی .جھونپڑی کے باہر ایک بچہ منتظر نگاھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا. اس بچی نے اپنی پتلون کی جیب میں سے روٹی نکال کر اس بچے کے حوالے کر دی. بچے کی آنکھیں جگمگانے لگیں .اب وہ بے صبری سے نوالے چبا رہا تھا. بچی آگے بڑھ گئی. مگر تعاقب کرنے والے کے پاؤں پتھر ھو چکے تھے.وہ آوازوں کی باز گشت سن رہا تھا
جو کے اس کے بیوی نے صبح اس کو کھا تھا.
,,لگتا ھے کہ اپنی,, منی,,بیمار ھے...,,
,,کیوں...کیا ھوا ؟؟؟
,,اس کے پیٹ میں کیڑے ھیں...ناشتہ کرنے کے باوجود ایک روٹی اپنے ساتھ سکول لے کر جاتی ھے. وہ بھی چوری سے....,, یہ اس کی بیوی تھی.
,,کیا آپ کی بیٹی گھر سے کھانا کھا کر نہیں آتی؟؟
,,کیوں...کیا ھوا؟؟
,,روزانہ اس کی جیب میں ایک روٹی ھوتی ھے یہ کلاس ٹیچر تھی
وہ جب اپنے گھر میں داخل ھوا. تو اس کا سر فخر سے بلند تھا
اسے اپنی منی پر پیار آ رھا تھا
اتنی سے عمر میں اتنی بڑی سوچ غریب بچوں کے لئی احساس
,,ابو جی... ابو جی...,, کہتے ھوئے منی اس کی گود میں سوار ھو گئی.
,,کچھ پتا چلا...,, اس کی بیوی نے پوچھا.
ھاں....پیٹ میں کیڑا نہیں ھے.
درد دل کا مرض ھے
ابو کا دل بھر آیا .منی کچھ سمجھ نہیں پائی تھی...

اللہ ہم سب کو بھی احساس کرنے والا دل دے آمین....

Share:

Kya surat banane wala hi asal badsurat hai?

Kisi Kale Shakhs (Black) Ko dekh kar Use Zalil kya kisi Musalman ko zeb deta hai?
Kisi Ki Surat ka majak banana aur use badsurat (ugly) kah dena kya isi me hamari aqalmandi hai?
Dusro ke Chehre ka majak banana aur use ruswa karna.
🔷خدا دیکھ رہا ہے....*

📛دوسروں کے ظاہر پر مسخره کرنا،
یعنی
فعل خدا کے ساتھ مسخرہ (نعوذبالله)

❌ایک شخص کو کہا کہ کتنے بدصورت ہو.
👌 مسکرا دیا اور کہا: صورت سے مسئلہ ہے یا صورت بنانے والے سے👌⁉️

💟 هوَالَّذي يُصَوِّرُکُمْ فِي‌الْأَرْحامِ کَيْفَ يَشاءُ

☝️وہی ذات ہے کہ جو [ماؤں] کے رحموں میں جیسے چاہے تمہاری شکل و صورت بناتا ہے.
📖آل‌عمران آیه 6

✅یعنی کیا میں ماں کے رحم میں ظاہری صورت کے انتخاب کا حق رکھتا تھا؟
پس مجھ پر اعتراض یا مسخرہ بازی کیوں!

✅کبھی کبھی اگر اپنے بعض الفاظ پر غور کریں تو ہمارے لئے بہت برے ثابت ہوں گے

جیسے اسی طرح کے مسخرے یعنی صورت بنانے والے(خدا) پر اعتراض
یعنی (خدا) کو یہ حق نہیں تھا کہ اسے اس طرح خلق کرے

(اب یہاں ہم کہیں گے بھائی جان ہمارا مقصد یہ نہیں تھا لیکن اگر ہم اپنے الفاظ کو کھولتے ہیں تو کتنے غلط معنی دیتے ہیں)

یعنی  👇👇
⬅️گونگا انسان
⬅️بہرا انسان
⬅️توتلا انسان
⬅️چھوٹے قد والا انسان
⬅️کالا انسان
👈 ان سب کا خالق بھی خدا ہے فقط ہماری شکلیں فرق کرتی ہیں نہ کہ ہم ان سے بہتر ہیں ....کیونکہ👇👇
☘سوره حجرات آیه 13:

إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقٰكُم
 تم میں سے خدا کے نزدیک  باعزت ترین شخص وہ ہے جو زیادہ تقوی اختیار کرے؛

Share:

Insan ki Zindagi me Musibat kyu aati hai?

Insan ke upar musibat kyu aati hai?

इंसान के ऊपर परेशानी और मुसीबत क्यों आती है?, उस इस आलम में क्या करना चाहिए? , नेक लोगो के ऊपर मुसीबतों का पहाड़ क्यों टूटता है?
नेक, बा अखलाक और बा किरदार लोगो पे मुसीबत क्यों आती है?

مصیبتیں کیوں آتی ہیں؟

جب ہم اپنے گرد و نواح پہ نگاہ ڈالتے ہیں تو مختلف انسانوں کو مختلف طرح کی مصیبتوں میں مبتلا دیکھتے ہیں۔
مشاہدے اور تجربے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مصیبتوں کی زدّ میں آنے والے لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بسا اوقات مصیبتوں کا نشانہ بننے والے لوگ بہت زیادہ نیکوکار اور اسی طرح بعض حدِ اعتدال سے بڑھ جانے والے، ظلم اور زیادتیاں کرنے والے ہیں۔ نیکوکاروں کو مصیبتوں میں مبتلا دیکھ کر لوگ بالعموم دکھ اور غم کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ سے ان نیکوکاروں کے لیے رحمت کے طلبگار بن جاتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس مجرموں اور متکبروں کو برے انجام سے دوچار ہوتا دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔
مصیبتوں اور تکالیف کے اسباب پر جب قرآن وسنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مختلف لوگوں پر آنے والی مصیبتوں کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ مصیبتوں کے اسباب پر جب غور کیا جائے تو درج ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں:

1۔ آزمائش: اللہ تبارک وتعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندے جب مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ان کا امتحان اور آزمائش ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 255، 256 اور 257 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور البتہ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے، اورمالوں، جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو، وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں اور وہی لوگ ہیں (کہ) ان کے رب کی طرف سے ان پر عنایات ہیں اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔ تاریخِ انبیاء علیہم السلام
کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں مختلف طرح کی مشکلات اور تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو برس تک اپنی بستی والوں کی عداوت، شقاوت، مخالفت، طعن و تشنیع، سب و شتم اور سنگ باری کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بستی والوں کی شقاوت کو سہنا پڑا اور بادشاہِ وقت نے بھی آپؑ سے عدوات کا اظہار کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو توحید باری تعالیٰ سے پختہ تعلق کی وجہ سے جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؑ کو محفوظ و مامون فرما لیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی وجہ سے بہت سی مصیبتوں کو سہنا پڑا۔ آپؑ نے فرعون کی رعونت، ہامان کے منصب، شداد کی جاگیر، قارون کے سرمائے کا مقابلہ کیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ اپنی کامل وابستگی کا طوالت اور تسلسل سے اظہار کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی بستی والوں کی مخالفت کو سہنا پڑا۔

نبی کریمﷺ کی زندگی میں بھی بہت سی تکلیفیں، مشکلات اور آزمائشیں آئیں۔ آپﷺ پر بھی ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، آپﷺ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا، آپﷺ کو سرزمین مکہ کو خیرباد کہنا پڑا، طائف کی وادی میں آپﷺ کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔ اس موقع پر جبرئیل امین پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ آئے تو نبی مہربان حضرت رسول اللہﷺ نے فرمایا ''اے اللہ! انہیں ہدایت دیدے‘ بے شک یہ نہیں جانتے‘‘۔ نبی کریمﷺ کے تلامذہ اور آپﷺ کے قریبی رفقاء کو بھی دین سے تعلق کی پاداش میں مختلف طرح کی اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا۔ حضرت بلالؓ، حضرت خبابؓ، حضرت زنیرہؓ اور حضرت سمیہؓ نے تاریخی تکالیف کو برداشت کیا لیکن ایمان اور استقامت کے ساتھ پیش آنے والی مصیبتوں پر کماحقہٗ صبر کیا۔

2۔ تنبیہ: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ تکالیف گناہگاروں کے لیے ایک تنبیہ ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 50 میں ارشاد فرماتے ہیں ''خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے، تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے انہیں بعض (اس کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں‘‘۔ اسی طرح سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا‘‘۔ اسی طرح سورہ الٓم سجدہ کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوا ''اور بلاشبہ ہم ضرور چکھائیں گے انہیں قریب ترین عذاب، سب سے بڑے عذاب سے پہلے، تاکہ وہ پلٹ آئیں‘‘۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ گناہگاروں کو ان کی سیئات کی مناسبت سے مختلف طرح کی تکالیف میں مبتلا کرتے ہیں۔ بعض لوگ ان تکالیف کے آ جانے کے بعد بھی گناہوں پر اصرار کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کے حق دار بن جاتے ہیں۔ اس کے مدمقابل بہت سے لوگ تکالیف کے آ جانے کے بعد اصلاح کرتے اور سیدھے راستے پر گامزن ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان سے راضی ہونے کے سبب ان کی تکالیف کو دور فر ما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک بستی کی مثال دی ہے جس کے پاس امن اور اطمینان تھا اور ان کا رزق اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہر سمت سے بکثرت آرہا تھا۔ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا شکار بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اس طرح کی تکالیف کے بعد انسان کو توبہ، استغفار کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگر انسان سچے دل سے توبہ کرے تو خواہ کتنے ہی بڑے گناہوں کا مرتکب کیوں نہ رہ چکا ہو‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی جملہ خطائوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان میں شرک، قتل اور زنا کا ذکر کیا اور ان کے مرتکب کوجہنم کی خبر سنائی لیکن جو لوگ توبہ، ایمان اور عمل صالح کے راستے کو اختیار کرتے ہیں‘ ان کو بشارت دی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف ہی نہیں کرے گا بلکہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل فرما دے گا۔ سورہ نوح میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوحؑ کے اس قول کا ذکر کیاکہ بخشش مانگو اپنے رب سے، بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے کا تم پر بارش موسلا دھار اور مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ کر دے گا تمہارے لیے باغات اور نہریں۔ گویا کہ توبہ اور استغفار کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے عذابوں کو ٹال دیتے ہیں۔ چنانچہ جب قوم یونسؑ نے اجتماعی توبہ کی اور ایمان کے راستے کو اختیار کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے عذاب کو ان سے دور کر لیا۔

3۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کئی حادثات اور اچانک تکالیف مجرموں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب ہوتی ہیں۔ چنانچہ قوم عاد کو جو گھمنڈ تھا کہ ہم سے بڑا طاقتور کوئی نہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر ہوائوں کے عذاب کو مسلط کرکے انہیں زمین پہ یوں بکھیرا جیسے کھجور کے کٹے ہوئے تنے ہوں۔ قوم ثمود اور قوم مدین کے لوگوں پر چنگھاڑ کو مسلط کیا گیا اور وہ تباہی اور بربادی کا نشانہ بن گئے۔ قوم ثمود نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اونٹنی اور اس کے بچے کو قتل کیا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر عذاب کو مسلط کر دیا۔ قوم مدین کے لوگ کاروباری بے اعتدالیوں پر اصرار کرتے رہے چنانچہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے۔ اسی طرح قوم سدوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمان اور زمین کے درمیان اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور پتھروں کے ذریعے ان کے وجودوں کو مسل دیا۔ ان کو ان سزائوں کا سامنا اپنی نافرمانی کی وجہ سے کرنا پڑا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں ان نافرمانوں کا ذکر کیا جنہوں نے ہفتے والے دن مکاری سے اللہ کی نافرمانی کی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں کہا: ہو جا ذلیل بندر تو وہ ذلیل بندروں کی شکل میں تبدیل کر دیے گئے۔ فرعون زمین پر اپنے آپ کو رب کا درجہ دیتا تھا۔ اللہ نے مختلف تنبیہات کے ذریعے اس کو ڈرایا۔ ٹڈیوں، جوئوں، مینڈکوں، خون اور طوفان کو اس پر مسلط کیا گیا۔ وہ ہر عذاب کے ٹل جانے کے بعد دوبارہ سرکشی پر آمادہ و تیار ہو جاتا۔ چنانچہ اللہ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو ان کے قبیلے کے ہمراہ فرعونیوں کے علاقے سے نکلنے کا حکم دیا تو فرعون نے اپنی فوجوں کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کیا۔ اللہ نے سمندر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کے لیے کھول دیا اور ان کے گزر جانے کے بعد فرعون کو اس کے لشکر سمیت سمندر کی لہروں میں غرق کر دیا۔ ایسے عالم میں اس نے اللہ کی ذات پر ایمان لانے اور اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کیا لیکن اللہ نے اس موقع پر اس کے بیان کو مسترد کر دیا اور اس کی لاش کو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔

درحقیقت اس قسم کی تکالیف اور حادثات میں بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے بے نیاز ہونے کی بجائے اس کی تابعداری کے راستے پر کاربند رہیں اور ہمیشہ دعا گو رہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس قسم کے رویوں اور طرزِ عمل سے محفوظ رکھے۔ آمین!

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS