Ek aisi Qaum jo Soyi to Padhi likhi thi magar Uthi to Anpadh thi.
तुर्की के सदर आर्दोआन ने ऐसा क्यों कहा " दुनिया में मुझे ऐसी कोई कौम बता दें जो अपनी तारीख और तहजीब के असली नुस्खों ही को पढ़ने से महरूम हो? "
तुर्को के तहजीब और तमद्दुन के साथ अंग्रेजो ने कैसा खिलवाड़ किया कमाल पाशा के जरिए।
किसी भी कौम का राब्ता ( संपर्क ) अगर अपने माजी (अतीत) से टूट जाए तो उस कौम का नाम ओ निशां तक बाकी नही रहता, उम्मत ए मुसलेमा की तारीख कयामत तक आने वाले मुसलमानो के लिए एक अजीम सरमाया है।
रोमन उर्दू से जान छुड़ाए और उर्दू रसमुलखत को अपनाए।
ایک ایسی قوم جو رات کو پڑهی لکھی سوئی مگر اٹھی تو ان پڑھ تھی۔
دنیا میں مجھے ایسی کوئی قوم بتا دیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو؟"
-------------------
*رومن اردو سے جان چھڑائیے اور اردو رسم الخط کو اپنائے۔
تحریر: محبوب علی پرکانی
رومن اردو سے مراد اردو الفاظ کو انگریزی حروف تہجی کی مدد سے لکھنا ہے مثلا کتاب کو Kitaab اور دوست کو Dost لکھنا۔
اس طرزِ تحریر کو دشمنِ اردو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
اگر قارئین اس بات کو نہیں سمجھے کہ رومن اردو سے اردو رسم الخط کو کیا خطرہ لاحق ہے تو اس کو سمجھنے کے لیے ترکوں کی مثال دی جا سکتی۔
ایک ایسی قوم جو رات کو سوئی تو پڑھی لکھی تھی مگر صبح اٹھی تو ان پڑھ تھی۔
سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد 1928ء میں سیکولر ذہنیت کے حامل کمال اتا ترک نے کئی طریقوں سے اسلام سے اپنی نفرت کا اظہار کیا جیسے کہ اذان پر پابندی، حج و عمرہ کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا، آیا صوفیہ جیسی عظیم الشان مسجد کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا اور یہاں تک کہ ہجری کیلنڈر کی جگہ عیسوی کلینڈر کو نافذ کیا گیا۔
کمال اتا ترک نے اسلام دشمنی کا ایک اور ثبوت دیا اور ترکی زبان جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی اسے بدل کر رومن حروف میں لکھنے کا حکم دے دیا۔
جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس سے شرحِ خواندگی اوپر آئے گی لیکن اس اقدام کا اصل مقصد آنے والی ترک نسل کو اسلامی کتب جو عربی رسم الخط میں تھیں ان سے دور کرنا تھا۔
اس بات کا واضح ثبوت ترکی کے پہلے وزیر اعظم عصمت انونو کے ان الفاظ سے ہوتا ہےکہ " حرف انقلاب کا مقصد نئی نسل کا ماضی سے رابطہ منقطع کرنا اور ترک معاشرے پر مذہب اسلام کی چھاپ اور اثر و رسوخ کو کمزور بنانا ہے۔"
(یا داشتِ عصمت انونو، جلد دوئم، ص،223)
یہ اسلام دشمن منصوبہ کامیاب رہا اور آنے والی نسل دیگر کتب تو دور کی بات قرآن مجید پڑھنے میں بھی دشواری کا سامنا کر رہی تھی کیونکہ قرآن مجید بھی عربی رسم الخط میں ہے۔
نتیجے کے طور پر سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں لکھی جانے والی بیش بہا کتب کا خزانہ تو موجود تھا لیکن ترک ان کتابوں کو پڑھنے سے قاصر تھے اور کسی نے ان حالات کا کیا خوب تجزیہ کیا ہے کہ " ترک قوم رات کو سوئی تو پڑھی لکھی لیکن صبح اٹھی تو ان پڑھ ہو چکی تھی " کیونکہ ان کا واسطہ ایک ایسے رسم الخط سے پڑا تھا جس سے وہ نابلد تھے۔
ترک اس حادثے کو اب تک نہیں بولے اور اسی حوالے سے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا تھا ’’دنیا میں مجھے ایسی کوئی قوم بتا دیں جو اپنی تاریخ اور تہذیب کے اصلی نسخوں ہی کو پڑھنے سے محروم ہو؟"
افسوس کہ ہماری قوم بھی ہر گزرتے دن اپنے رسم الخط کو فرماموش کرتی جا رہی ہے اور ہم بھی یہی غلطی دہرا رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے رفاہ عامہ کے لیے جاری ہونے والے پیغامات ہوں یا پھر موبائل کمپنیوں کی جانب سے موصول ہونے والے اشتہارات اب ہر جگہ رومن اردو نے پیر جمع لیے ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ رومن اردو کا آغاز کب ہوا لیکن اسے "عروج" سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک، ٹوئٹر اور وٹس ایپ نے بخشا۔
ابتدائی ایام میں جب موبائل فونز میں اردو کی بورڈ (Keyboard) میسر نہ تھا تو رومن اردو لکھنا سب کی مجبوری تھی لیکن یہ مجبوری ہماری عادت اور سستی بن گئی اور اب اردو کی بورڈ موجود ہونے کے باوجود ہم رومن اردو کو چھوڑنے پر راضی نہیں
(اگر آپ کے موبائل فون میں اردو کی بورڈ میسر نہیں تو پلے اسٹور سے باآسانی ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں)
کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اردو کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے اردو لکھنا مشکل اور وقت طلب کام ہے تو ان کے لیے عرض ہے کہ جاپانی اور چینی انٹرنیٹ بلکہ کسی بھی جگہ رومن رسم الخط کا استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے رسوم الخط کو ترجیح دیتے ہیں۔
کیا اردو اب جاپانی اور چینی زبان سے بھی مشکل ہو گئی ہے جو ہم اس سے دور ہو رہے ہیں؟
اسی طرح کچھ احباب اردو رسم الخط سے اس لیے بھاگتے ہیں کہ املا کی غلطی کے باعث کوئی ان کا مذاق نہ اڑائے جیسے کہ اگر لفظ "کام" کو رومن اردو میں لکھنا ہو تو یوں لکھا جا سکتا ہے Kaam یا kam بلکہ Km لکھنے سے بھی کام بن جائے گا کیونکہ اس کے لکھنے کا کوئی اصول نہیں لیکن اگر اردو رسم الخط کا استعمال کرتے ہوئے کام کو "قام" لکھ دیا تو غلطی پکڑی جا سکتی ہے لیکن اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے اگر کوئی ہمارے املا کی تصحیح کردے تو ہمیں اس کے لیے ان کا شکرگزار ہونا چائیے۔
رومن اردو کی جانب ہمارے جھکاؤ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بحیثیت قوم انگریزی زبان سے بے حد مرعوب ہیں کیونکہ ہمارے ہاں انگریزی بولنے اور لکھنے کو نوکری حاصل کرنے کے لیے لازم خیال کیا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مقابلے کا کوئی بھی امتحان ہو انگریزی اس میں لازم ہوتی ہے یعنی انگریزی بطور مضمون ہی لازم ہوتی تو ٹھیک لیکن یہاں مطالعہ برے صغیر ، حالات حاضرہ اور بیسیوں مضامین انگریزی میں لازم قرار دیے گئے ہیں۔
جب لوگ انگریزی کو ہی سب کچھ سمجھیں گے تو وہ اردو کی جانب کیونکر آئیں گے اور اردو رسم الخط کو کیوں ترجیح دیں گے؟
اس کا حل یہی ہے کہ مقابلے کے امتحانات میں انگریزی کی جگہ اردو مضمون نویسی کو لازم قرار دیا جائے تو نہ صرف عوام کو اس کی اہمیت کا احساس ہو گا بلکہ وہ خود اردو رسم الخط کی جانب راغب ہوں گے۔
ہمیں اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگانی چائیے کہ کسی بھی زبان کو بننے اور بگڑنے میں وقت لگتا ہے یا پھر یوں کہا جائے کہ آنے والی نسلیں زبان کی صورت بناتے یا بگاڑتے ہیں اور ہمارے ہاں ایک نسل تو رومن اردو لکھتے بڑی ہوگئی اور اگر اب بھی رومن اردو کا راستہ نہ روکا گیا تو حالات وہی ہو جائیں گے کہ اردو تحریر دیکھ کر لوگوں کو سمجھ ہی نہ آئے گی کہ لکھا کیا ہے اور اس بات پر سارے متفق ہیں کہ جس زبان کا رسم الخط نہ رہے تو اس کے دامن میں موجود ادب کا بیش بہا سرمایہ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ عوام الناس میں آگاہی پھیلائی جائے اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں خصوصی لیکچرز کا انعقاد کر کے نوجوانوں میں اردو رسم الخط کو استعمال کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے اور سوشل میڈیا پر رومن اردو کے خلاف تحریک چلائی جائے، صحافی حضرات بھی ٹاک شوز میں اس موضوع کو زیر بحث لائیں تبھی ہم اپنے رسم الخط کے دفاع کا حق ادا کر پائیں گے۔
======================
No comments:
Post a Comment