find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label namaj. Show all posts
Showing posts with label namaj. Show all posts

Quran o Hadees ki Raushani me Aurat ka Ghar ki namaj me Chehre ka Parda karna kaisa hai?

Kya Aurat Masjid me Namaj padhne ja sakti hai?
Namaj ke Dauran Khawateen chehre ke alawa kin hisso ki Parda karegi?
Ghar me Agar Na mehram ho to Aurat kaise Namaj Padhegi?
Shariyat ki raushani se Aurat ka Ghar ki Namaj me Chehare ka Parda.

السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه

شریعت کی رُو سے عورت کا گھر کی نماز میں چہرے کا ستر
۔┄┅════════════════┅┄
🖋: مسز انصاری

صحیح احادیث کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ نے عورت کی خیر و عافیت اور عفت و عصمت  کی حفاظت اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے مساجد کے مقابلہ میں گھر میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا ۔ اور گھر میں نماز کے لیے بھی عورت گھر کا پوشیدہ حصہ یا اندرونی کوٹھری کو ترجیح دے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صلاةُ المرأةِ في بيتِها أفضلُ من صلاتِها في حجرتِها وصلاتُها في مَخدعِها أفضلُ من صلاتِها في بيتِها
(صحيح أبي داود : ۵٧٠)

عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے ( اندرونی ) کوٹھری میں زیادہ افضل ہے ۔

گھر میں نماز ادا کرنا عورت کو نماز کا وہی اجر وثواب دے گا جو وہ کسی مسجد میں باجماعت ادا کرے ۔ یاد رہے مسجد میں باجماعت نماز ادا نا کرنے سے عورت اس فضیلت سے محروم نہیں ہوتی جو فضیلت مردوں کو باجماعت نماز کی ادائیگی سے حاصل ہوتی ہے سوائے دو مساجد مسجد حرام یا مسجد نبویﷺ کے ، اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: ما صلّت المرأۃ فی مکان خیر لھا من بیتھا الّا أن تکون المسجد الحرام أو مسجد النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم الّا امرأۃ تخرج فی منقلیھا یعنی خفّیھا۔

‘‘ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، عورت کے لیے نماز کی کوئی بھی جگہ اپنے گھر سے بہتر نہیں، ہاں! اگر مسجد حرام یا مسجد نبوی ﷺ ہو اور عورت موزے پہن کر نکلے( تو بہترہے)۔’’

(المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۹۳/۹)

تاہم عورت کا مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں صحابیات جمعةالمبارک کی نماز میں بھی شریک ہوتی تھیں ، صحیح احادیث کی روشنی میں پیارے نبیﷺ نے عورت کو مسجد جانے کی اجازت فرمائی ہے تاہم گھر کی نماز کو افضل قرار دیا ہے ، آپﷺ نے فرمایا :
لا تمنعوا نساءَكمُ المساجدَ وبيوتُهنَّ خيرٌ لَهنَّ
(صحيح أبي داود: ۵٦٧)
اپنی عورتوں کو مساجد سے مت روکو ، مگر ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں ۔

رہی بات گھروں میں نماز پڑھنے کے لیے عورت کے ستر کی تو نا محرم کے لیے عورت پوری کی پوری واجب الستر ہے ، اور نامحرم کی غیر موجودگی میں عورت کا چہرہ واجب الستر نہیں ، جیسے اپنے گھر میں اپنے محرموں کے سامنےعورت بغیر اوڑھنی کے بھی رہ سکتی ہے ، تاہم گھر میں نامحرم کی موجودگی میں وہ مکمل ستر کے ساتھ رہے گی ۔

نماز کے لیے اگر عورت تنہا ہے یا صرف اس کے محرم ہی موجود ہیں تو اس صورت میں چہرے کے علاوہ پورے بدن کا ستر عورت کے لیے واجب ہے ، بصورتِ دیگر اگر وہ گھر میں نماز ادا کر رہی ہے اور نامحرم بھی گھر میں موجود ہیں تو اس صورت میں عورت کے لیے پورے بدن کے ستر کے ساتھ چہرہ بھی واجب الستر ہوگا ۔

اس بارے میں الشیخ ابن جبرین فرماتے ہیں :
نماز کے دوران عورت کے لئے پورے بدن کو ڈھکنا ضروری ہے۔ چہرے کے علاوہ اس کا پورا جسم واجب الستر ہے۔ اگر اس کے پاس محرم موجود ہوں یا وہ تنہا نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دوران چہرے پر پردہ نہیں کرے گی۔
اگر وہ غیر محرم مردوں کی موجودگی میں نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دوران اور نماز علاوہ بھی چہرے کا پردہ کرے گی۔ کیونکہ چہر ہ واجب الستر ہے۔
[ دیکھیے : خواتین کی نماز اور چند مسائل ]

دورانِ نماز عورت کا دستانے پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں الشیخ ابن جبرین کہتے ہیں

دستانہ ہاتھ کی جراب ہے لہٰذا اگر عورت احرام کی حالت میں ہوتو اس کے لئے اسے پہننا ناجائز ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

’’لاتنتقب المرأۃ ولا تلبس القفازین‘‘۔

’’عورت نقاب بھی نہ لے اوردستانے بھی نہ پہنے ‘‘۔ المعجم الأوسط لطبرانی (5/10) حدیث : (6420) اسنادہ ضعیف ، فیہ عمر بن صہبان ، ضعیف ، (التقریب ) وانظر مجمع الزوائد (3/222) قلت فی الصحیح بعضہ ، ابو داود (1825) (صحیح ) صحیح البخاری ، حدیث : (1838) جزء من الحدیث۔

لہٰذا احرام کے دوران عورت کے لئے دستانے پہنناحرام ہے۔

البتہ اگر عورت احرام کی حالت میں نہ ہو اورنمازپڑھ رہی ہو اور اس کے نزدیک غیر محرم مرد بھی نہ ہوں تو اس کے لئے بہتر اورافضل یہ ہے کہ وہ دستانے کو ہاتھ سے اتارکر نمازپڑھے تاکہ اس کے ہاتھ جائے نماز کوبراہ راست لگیں۔ اسی طرح اگر اس کے آس پاس غیر محرم مردموجود ہوں اور اس نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوتو اسے سجدہ کرتے وقت اپنے چہرے سے کپڑا ہٹالینا چاہیئے کیونکہ جسم پر پہنے ہوئے کسی کپڑے مثلاً :رومال ، دوپٹہ ، لباس وغیرہ پرسجدہ مجبوری کے بغیر کرنا مکروہ ہے۔ اس کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ :

’’ہم نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گرمی کے موسم میں نماز پڑھاکرتے تھے۔ اگر کسی شخص کے لئے زمین پرپیشانی کولگانا ممکن نہ ہوتا تو وہ کپڑا بچھا کر اس کے اوپرسجدہ کرلیتا‘‘۔ --- سنن ابوداود، کتاب الصلاۃ ، باب الرجل یسجد علی ثوبہ ، حدیث : (660) (صحیح ) ---

اس میں پیشانی پر کپڑا لگنے کوعدم استطاعت کے ساتھ مشروط قراردیاگیاہے۔
[ دیکھیے : خواتین کی نماز اور چند مسائل ]

دورانِ نماز پاوں ڈھانپنے کے بارے میں علماء کی دو رائے ہیں ، افضل اور راجح یہی ہے کہ پاوں کو بھی ڈھانپا جائے ۔ اس بارے میں الشیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں

" ہاتھوں اور پائوں کو نماز کے دوران ہرصورت میں ڈھکنا ضروری ہے خواہ غیر محرم مرد موجود ہوں یا نہ ہوں۔ کیونکہ نماز کے دوران چہرے کے علاوہ عورت کاپورا جسم واجب الستر ہے ۔"

اس بارے میں علامہ محمد بن صالح العثیمینؒ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :

اگر نماز میں عورت کے دونوں ہاتھ اور پاؤں ننگے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے ۔جب کہ وہاں کوئی نہ ہو اور عورت اپنے گھر میں نماز ادا کررہی ہو؟

الجواب ــــــــــــــــــــــ​

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حنابلہ ۔کے مذہب میں مشہور قول یہ ہے کہ نماز میں آزاد اور بالغ عورت کا چہرے کے سوا سارا جسم پردہ ہے۔ لہذا اس کے لئے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگاکرنا جائز نہیں لیکن بہت سے اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ عورت کے لئے نماز میں ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا رکھنا جائز ہے۔جب کہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن فرض کیا کہ اگر عورت نے نماز میں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا کرلیا اور پھر وہ اس سلسلے میں فتویٰ طلب کرے تو کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی نماز کو دوہرائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ/جلد : ١ /صفحہ : ٣٨١

والله ولي التوفيق
وَالسَّــــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه

Share:

Kya Namaj me Kalin par Sajda karna jaruri hai? Kya Zamin par Namaz padhna Jaruri hai?

Kya Namaz me Zamin par Sajda karna jaruri hai ya kalin par Namaj padh sakte hai?
Kya Lakri ke bane mej, rooui ke bane gadde ya kalin wagairah par Namaj padh sakte hai?
Aajkal bahut sare Masajid me aur Gharo me aeise Kaleen ya Gadde rakhe hote hai jo mote aur Narm (Soft) hote hai kya unpar Namaj padhna Durust hai.?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر -384"
سوال_  کیا نماز میں زمین پر سجدہ کرنا ضروری ہے؟ اور لکڑی کے تختے/ روئی کے گدے یا قالین وغیرہ پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ آجکل بہت سی مساجد اور گھروں میں ایسے قالین یا گدے بچھائے ہوتے ہیں جو موٹے اور نرم ہوتے ہیں کیا ان پر نماز پڑھنا درست ہے؟ برائے مہربانی مدلل جواب دیں.!

Published Date: 6-1-2024

جواب .!
الحمدللہ..!

*رسول اللہﷺ سے لکڑی کے تختے ، روئی کی چٹائیوں، بستروں اور کھجوروں کے پتوں کی صفوں پر نماز پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے،*

*چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ان کے جواز پر الگ الگ باب باندھے ہیں، اور ان میں احادیث لائے ہیں،*

احادیث ملاحظہ فرمائیں..!

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
18. بَابُ الصَّلاَةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ:
18. باب: چھت، منبر اور لکڑی پر نماز پڑھنے کے بارے میں۔

قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَلَمْ يَرَ الْحَسَنُ بَأْسًا أَنْ يُصَلَّى عَلَى الْجُمْدِ وَالْقَنَاطِرِ وَإِنْ جَرَى تَحْتَهَا بَوْلٌ أَوْ فَوْقَهَا أَوْ أَمَامَهَا إِذَا كَانَ بَيْنَهُمَا سُتْرَةٌ، وَصَلَّى أَبُو هُرَيْرَةَ عَلَى سَقْفِ الْمَسْجِدِ بِصَلَاةِ الْإِمَامِ، وَصَلَّى ابْنُ عُمَرَ عَلَى الثَّلْجِ.
‏‏‏‏ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا کہ امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتداء میں نماز پڑھی (اور وہ نیچے تھا) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے برف پر نماز پڑھی۔ 
[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/قبل الحدیث:377]

📚حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ الْمِنْبَرُ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي، هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ، عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ خَلْفَهُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ، فَهَذَا شَأْنُهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ، قَالَ: لَا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا۔ کہا کہ لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی سے پوچھا کہ منبرنبوی کس چیز کا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب (دنیائے اسلام میں) اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا ہے۔ منبر غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا۔ فلاں عورت کے غلام فلاں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ تیار کر کے (مسجد میں) رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور آپ نے قبلہ کی طرف اپنا منہ کیا اور تکبیر کہی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھیں اور رکوع کیا۔ آپ کے پیچھے تمام لوگ بھی رکوع میں چلے گئے۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر اسی حالت میں آپ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ پھر زمین پر سجدہ کیا۔ پھر منبر پر دوبارہ تشریف لائے اور قرآت رکوع کی، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قبلہ ہی کی طرف رخ کئے ہوئے پیچھے لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ یہ ہے منبر کا قصہ۔
[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 377]

*منبر پر سجدہ کی جگہ نہیں تھی لہذا آپ نے نیچے اتر کر سجدہ کیا،*

📚حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ، فَجُحِشَتْ سَاقُهُ أَوْ كَتِفُهُ وَآلَى مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، فَجَلَسَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ دَرَجَتُهَا مِنْ جُذُوعٍ، فَأَتَاهُ أَصْحَابُهُ يَعُودُونَهُ، فَصَلَّى بِهِمْ جَالِسًا وَهُمْ قِيَامٌ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَنَزَلَ لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ آلَيْتَ شَهْرًا، فَقَالَ: إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ"

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا کہ کہا ہم سے یزید بن ہارون نے، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (5 ھ میں) اپنے گھوڑے سے گر گئے تھے۔ جس سے آپ کی پنڈلی یا کندھا زخمی ہو گئے اور آپ نے ایک مہینے تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی۔ آپ اپنے بالاخانہ پر بیٹھ گئے۔ جس کے زینے کھجور کے تنوں سے بنائے گئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم مزاج پرسی کو آئے۔ آپ نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور وہ کھڑے تھے۔۔۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتیس دن بعد نیچے تشریف لائے، تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ نے تو ایک مہینہ کے لیے قسم کھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔
(صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 378)

*یہاں ثابت ہوا کہ لکڑی کے تختے یا درختوں جھاڑیوں کی چھت وغیرہ پر نماز پڑھ سکتے،*

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
22. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الْفِرَاشِ:
22. باب: بچھونے پر نماز پڑھنا (جائز ہے)۔

وَصَلَّى أَنَسٌ عَلَى فِرَاشِهِ، وَقَالَ أَنَسٌ: كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْجُدُ أَحَدُنَا عَلَى ثَوْبِهِ.
‏‏‏‏ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے بچھونے پر نماز پڑھی اور فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے پھر ہم میں سے کوئی اپنے کپڑے پر سجدہ کر لیتا تھا۔ 
[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/قبل الحدیث382]

📚حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ عِرَاكٍ، عَنْ عُرْوَةَ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَعَائِشَةُ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ عَلَى الْفِرَاشِ الَّذِي يَنَامَانِ عَلَيْهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے حدیث بیان کی یزید سے، انہوں نے عراک سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچھونے پر نماز پڑھتے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ رضی اللہ عنہا سوتے اور عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان اس بستر پر لیٹی رہتیں۔
 [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 384]

*اس حدیث سے ثابت ہوا کہ روئی دھاگے وغیرہ کے بستر پر نماز پڑھ سکتے ہیں*

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
23. بَابُ السُّجُودِ عَلَى الثَّوْبِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ:
23. باب: سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنا (جائز ہے)۔

وَقَالَ الْحَسَنُ: كَانَ الْقَوْمُ يَسْجُدُونَ عَلَى الْعِمَامَةِ وَالْقَلَنْسُوَةِ وَيَدَاهُ فِي كُمِّهِ.
‏‏‏‏ اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ عمامہ اور کنٹوپ پر سجدہ کیا کرتے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ آستینوں میں ہوتے۔
 [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: قبل الحدیث 385]

📚حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنِي غَالِبٌ الْقَطَّانُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ،
کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ پھر سخت گرمی کی وجہ سے کوئی کوئی ہم میں سے اپنے کپڑے کا کنارہ سجدے کی جگہ رکھ لیتا۔
 [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 385]

*اس سے پتہ چلا کہ کپڑے ،چادر وغیرہ پر سجدہ کر سکتے ہیں کوئی حرج نہیں*

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
20. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الْحَصِيرِ:
20. باب: بورئیے پر نماز پڑھنے کا بیان۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ لَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: «قُومُوا فَلِأُصَلِّ لَكُمْ» قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا، قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْتُ وَاليَتِيمَ وَرَاءَهُ، وَالعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری نانی ملیکہ نے نبیﷺ کو کھانے کی دعوت پر بلایا۔ آپ جب کھانا تناول فرما چکے تو فرمایا چلو میں تم کو نفل نماز پڑھا دوں۔ ہمارا بوریہ (چٹائی) کثرت استعمال کی وجہ سے میلی ہوچکی تھی، میں نے اسے پانی کے چھینٹے لگا دیے۔ آپ اس پر کھڑے ہو گئے، میں اور یتیم (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور بڑی بی (ملیکہ رضی اللہ عنہا) ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور یوں آپ نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی۔‘‘
(صحیح بخاری _380)

*امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح مسلم میں اس حدیث نمبر 658 اور 660 پر باب باندھا ہے کہ  نفلی نماز کی جماعت کا جواز اور چٹائی پر نماز کے جائز ہونے کا بیان،*

📙امام نووی ؒ اس حدیث سے مسائل کی تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فِيهِ جَوَازُ الصَّلَاةِ عَلَى الْحَصِيرِ وَسَائِرِ مَا تُنْبِتُهُ الْأَرْضُ وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ وَمَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ خِلَافِ هَذَا مَحْمُولٌ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّوَاضُعِ بِمُبَاشَرَةِ نَفْسِ الْأَرْضِ۔ (نووی: ص۲۳۴ج۱)
’’اس حدیث میں چٹائی پر اور ہر اس چیز پر نماز پڑھنے کا جواز ہے جسے زمین اگاتی ہے اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہے اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے مٹی پر سجدہ کو ضروری قرار دینے کی بات تواضع اور عاجزی پر محمول ہے۔‘‘

*شریعت کے ماہرین پر یہ بات مخفی نہیں کہ گدا روئی اور کپڑے کے مجموعہ سے بنتا ہے۔
تاہم دونوں اپنی اصلیت کے لحاظ سے زمین ہی کی پیداوار ہیں۔ جب زمین سے اگنے والی دوسری تمام چیزوں پر نماز جائز ہے تو پھر گدے پرکیوں نماز جائز نہ ہوگی۔*

📚عَن عبداللہ بن شداد عَن میمونة قالت کان النبیﷺ یصلی علی الخمرة۔
(صحیح بخاری:381)
’’ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔‘‘

📔حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَالْخُمْرَةُ بِضَمِّ الْخَاءِ الْمُعْجَمَةِ وَسُكُونِ الْمِيمِ قَالَ الطَّبَرِيُّ هُوَ مُصَلًّى صَغِيرٌ يُعْمَلُ مِنْ سَعَفِ النَّخْلِ سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِسَتْرِهَا الْوَجْهَ وَالْكَفَّيْنِ مِنْ حَرِّ الْأَرْضِ وَبَرْدِهَا فَإِنْ كَانَتْ كَبِيرَةً سُمِّيَتْ حَصِيرًا۔
(تحفة الاحوذی: ص۲۷۲ج۱، فتح الباری: ص۳۲۴ج۱)
’’خمرہ خا پر پیش اور میم ساکن کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ طبری لکھتے ہیں یہ کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ہے، چونکہ یہ چہرے اور ہتھیلیوں کو زمین کی گرمی اور سردی سے ڈھانپتی اور بچاتی ہے۔ اس لیے اس کو خمرہ (کڑی) کہتے ہیں۔ اگر یہ بڑی ہو تو حصیر کہلاتی ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ چٹائی پر نماز پڑھنے کی علت زمین کی گرمی اور سردی سے بچاؤ ہے اور مسجدوں میں سردیوں کے موسم میں گرم قالین اور گدے صرف اس لیے بچھائے جاتے ہیں کہ زمین کی سردی سے بچا جائے، لہٰزا ان پر نماز جائز ہے کیونکہ کھجور کی چٹائی اور گدے کی علت غائی ایک ہی ہے۔

*اگرچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابراہیم نخعی، امام اسود اور ان کے اصحاب، طنافس (روئی دار چٹائیوں جو کہ فلالین اور تولیہ جیسی ہوتی ہیں) پر نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے ہیں اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بھی ان کے ہمنوا ہیں*

*تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نہ صرف کپڑوں پر سجدہ کرنا ثابت ہے بلکہ ان سے عمامہ پگڑیوں اور ٹوپیوں پر بھی سجدہ کرنا ثابت ہے*

📚جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
باب السجود علی الثوب وقال الحسن کان القوم یسجدون عَلَی الْعَمَامَةِ وَالْقَلَنسوة وَیَدَاہُ فِی کُمه (ص۵۶ج۱)
کپڑے پر سجدہ کرنے کا بیان اور حسن بصریؒ کہتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پگڑی اور ٹوپی پر سجدہ کر لیتے تھے اور ہاتھ آستین میں ہوتے۔
اسکے بعد امام بخاری یہ حدیث لائے ہیں:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:
«كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّة الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ» (صحیح بخاری_385)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم میں سے ہر آدمی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے کے دامن پر سجدہ کرتا۔‘‘

📔حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ اسْتِعْمَالِ الثِّيَابِ وَكَذَا غَيْرُهَا فِي الْحَيْلُولَةِ بَيْنَ الْمُصَلِّي وَبَيْنَ الْأَرْضِ لِاتِّقَاءِ حَرِّهَا وَكَذَا بَرْدُهَا وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ مُبَاشَرَةَ الْأَرْضِ عِنْد السُّجُود هُوَ الأَصْل لِأَنَّهُ عَلَّقَ بَسْطَ الثَّوْبِ بِعَدَمِ الِاسْتِطَاعَةِ۔ (فتح الباری: ص۴۱۴ج۱، طبع جدید ص۶۵۰ج۱)
’’اس حدیث کے مطابق زمین کی گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے کپڑے اور اسی طرح کسی اور چیز پر سجدہ کرنا جائز ہے، تاہم اس حدیث میں یہ بھی اشارہ ہے کہ سجدے کا اصل حکم یہ ہے کہ بلا کسی حائل کے زمین کی دھوڑی پر سجدہ کیا جائے ورنہ جملہ (من شدۃ الحر یعنی گرمی کیوجہ سے) کا کوئی مفاد نہیں رہتا۔

📚 وعن أبی الدرداء قال أبالی لوصلیت علی خمس طنافس۔
رواہ البخاری فی تاریخه و رواہ ابن ابی شیبة عنه بلفظ ست طنافس بعضھا فوق بعض۔
(نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں پانچ یا چھ روئیں وار (فلالین اور تولیہ کی قسم کی) چادروں کے تھان پر نماز پڑھ لوں تو میری نماز پھر بھی ادا ہوجائے گی۔

📚وَرَوَی ابن ابی شیبه عَن ابن عباس أَنه صَلّیٰ عَلیٰ طَنْفُسة۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روئی دار چادر پر نماز پڑھی تھی۔ اسی طرح حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ، حسن بصریؒ، مرۃ الہمدانیؒ اور قیس بن عبادہ وغیرہ سے مروی ہے۔ ((نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲))

📔امام شوکانی فرماتے ہیں:
وَإِلَى جَوَازِ الصَّلَاةِ عَلَى الطَّنَافِسِ ذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ وَالْفُقَهَاءُ كَمَا تَقَدَّمَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْبُسُطِ۔(نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۱)
’’جمہور علماء اور فقہاء طنافس (روئی دار چادروں) پر نماز کے جواز کی طرف گئے ہیں۔‘‘

*جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث اور حضرت ابوالدرداء، حضرت ابن عباس، حضرت ابو وائل اور حضرت حسن بصریؒ کے فتویٰ کے مطابق کپڑوں، فلالین اور تولیہ کی قبیل کی چادروں اور پھر مرہ ہمدانی اور قیس بن عباد کے مطابق روئی کے نمدوں پر نماز جائز ہے تو روئی کے گدے پر بھی جائز ہوگی۔ کیونکہ روئی دار گدا اپنی علت غائی کے لحاظ سے روئی دار چادروں کے تھان کے حکم میں ہے،*
*یعنی جس طرح روئیں دار چادروں کا تھان نرم اور آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ زمین کی سردی سے بچاتا ہے، روئی کا گدا بھی نرم اور آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ سردی سے بچاتا ہے۔ اور روئی کے نمدے اور گدے کا تو یکجان دو قالب والا معاملہ ہے۔ لہٰذا ان آثار کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ روئی کے گدے پر بھی نماز جائز ہے۔*

_____&______

*رہی بات جامع ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے:*

📚جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں پھونکیں مارنا مکروہ ہے
حدیث نمبر: 381
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، أَخْبَرَنَا مَيْمُونٌ أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا لَنَا يُقَالُ لَهُ أَفْلَحُ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا سَجَدَ نَفَخَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  يَا أَفْلَحُ تَرِّبْ وَجْهَكَ 
ترجمہ:
ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے ہمارے  (گھر کے)  ایک لڑکے کو دیکھا جسے افلح کہا جاتا تھا کہ جب وہ سجدہ کرتا تو پھونک مارتا ہے، تو آپ نے فرمایا:  افلح! اپنے چہرے کو گرد آلودہ کر،
(یعنی زمین پر سجدہ کرو،)

🚫تو اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ اس کا راوی میمون ابو حمزہ الاعور ہے جسے امام بخاری نے لیس بالقوی، امام احمد بن حنبلؒ نے متروک، امام نسائی نے لیس بثقۃ اور امام دار قطنی نے ضعیف کہا ہے۔ کذا فی المیزان والتقریب، ص۳۵۴
(تحفة الاحوذی: ص۲۹۷جلد۱)
اور دوسرا راوی ابو صالح ہے جو متکلم فیہ ہے۔
لہٰذا یہ روائیت ہی ضعیف ہے،
قال الشيخ الألباني:  ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 193)، المشکاة (1002)، الضعيفة (5485) // ضعيف الجامع الصغير (6378)

📔دوسرا جواب یہ ہے:
قَالَ الْعِرَاقِيُّ: وَالْجَوَابُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمْ يَأْمُرْهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى التُّرَابِ وَإِنَّمَا أَرَادَ بِهِ تَمْكِينَ الْجَبْهَةِ مِنْ الْأَرْضِ، وَكَأَنَّهُ رَآهُ يُصَلِّي وَلَا يُمَكِّنُ جَبْهَتَهُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَرَهُ بِذَلِكَ، لَا أَنَّهُ رَآهُ يُصَلِّي عَلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَرَهُ بِنَزْعِهِ۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ نبیﷺ نے اس کو مٹی پر سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ پیشانی کو اچھی طرح زمین پر رکھو۔ گویا آپ نے دیکھا کہ وہ اپنی پیشانی کو اچھی طرح زمین پر نہیں رکھتا تھا، تو آپﷺ نے اس کو یہ ہدایت فرمائی تھی، آپ کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ جس چیز پر نماز پڑھ رہا ہے اسے نیچے سے نکال دے۔‘‘

*خلاصہ کلام یہ کہ اگرچہ تواضع کے طور پر زمین کی دھوڑی پر سجدہ کرنا افضل ہے، تاہم سردی سے بچنے کے لیے روئی کے ہلکے پھلکے گدے پر نماز پڑھنا اور اس پر سجدہ کرنا جائز ہے۔*

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
(مآخذ فتاویٰ محمدیہ/ج1ص387)
محدث فتویٰ

__________&________

ایک اور فتویٰ ملاحظہ فرمائیں!

📔سوال-
میں نے ایک حدیث میں پڑھا تھا کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دفعہ کسی صحابی کی تیمارداری کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے تودیکھا کہ وہ تکیے پرسجدہ کررہے تھے آپ نے تکیہ دورپھینک دیا فرمایا: ’’سجدہ زمین پر کرنا چاہیے‘‘ اس حدیث کی روشنی میں میرا سوال ہے کہ تخت پوش پرنماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

📚الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ میں قائم کیاہے ’’چھت ،منبر اور لکڑی پرنماز پڑھنے کا بیان‘‘  اس عنوان کے تحت امام بخاری  رحمہ اللہ نے بہت سے اہم مسائل کی طرف اشارات کئے ہیں ،چنانچہ چھت اور منبر کے ذکر سے اونچی جگہ پرنماز پڑھنے اور پڑھانے کاجواز ثابت کیا ہے، یعنی اگر امام یا مقتدی عام لوگوں سے اونچا ہو تو ان کی نماز ہوجائے گی اسی طرح لکڑی پرنماز پڑھنے کی وضاحت سے یہ ثابت کیا ہے کہ جس طرح مٹی پرنماز پڑھی جاتی ہے اورسجدہ کیا جاتاہے ،اسی طرح لکڑی (تخت پوش) وغیرہ پر بھی نماز ہوسکتی ہیں اور ان پرسجد ہ بھی کیاجاسکتا ہے ۔امام بخاری  رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا  ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ برف پرنماز پڑھی تھی ،اس سے معلوم ہوا کہ ہر اس چیز پرسجدہ کیاجاسکتا ہے جہاں پیشانی اچھی طرح ٹک جائے اور اس کی سختی محسوس ہو کیونکہ سجدہ میں پوری طرح سر کو جائے سجدہ پرڈال دینا شرط ہے ،ہمارے نزدیک فوم کے گدے پربھی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔اسی طرح مسجد میں کارپٹ پرنماز پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، ہاں ایسی جگہ جس پر پیشانی اچھی طرح نہ جم سکے اور اس کی سختی محسوس نہ ہو، اس پرسجدہ کرناصحیح نہیں ہے ۔امام بخاری  رحمہ اللہ نے بستر پرنماز پڑھنے کاعنوان بھی قائم کیا ہے اورحضرت انس  رضی اللہ عنہ  کے متعلق روایت ذکر کی ہے کہ وہ اپنے بچھونے پرنماز پڑھ لیا کرتے تھے۔سخت گرمی کے دنوں میں اپنے کپڑوں پرسجدہ کرنے کاذکر بھی احادیث میں ملتا ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ نمازپڑھتے تھے ہم میں سے کچھ لوگ گرمی کی شدت کی بنا پر سجدہ کی جگہ پراپنے کپڑے بچھالیتے تھے ۔[صحیح بخاری ،حدیث نمبر:۳۸۵]

سوال میں ذکر کردہ حدیث کامطلب یہ ہے کہ بیمار آدمی تکیہ اٹھاکر اپنے سر کے قریب کرتااور اس پر سر رکھ کرسجدہ کرتا تھا، اس لئے آپ   نے اسے منع فرمایا اور زمین پرسجدہ کرنے کی تلقین فرمائی ۔     [و اللہ اعلم]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد:2 صفحہ:118)

__________&________

*اوپر فتویٰ میں جس حدیث کے متعلق پوچھا گیا ہے ہم اسکو یہاں مکمل بیان کرتے ہیں،*

📚عاد ﷺ مريضًا فرآه يصلي على وسادةٍ، فأخذها فرمى بها، فأخذ عودًا ليصلي عليه، فأخذه فرمى به، وقال: صلِّ على الأرضِ إن استطعت، وإلا فأوم إيماءً، واجعل سجودَك أخفضَ من ركوعِك،
أخرجه البزار كما في ((مجمع الزوائد)) للهيثمي (٢/١٥١)، وأبو يعلى (١٨١١)، والبيهقي (٣٨١٩) 
( الألباني، صفة الصلاة (٧٨) • إسناده صحيح)

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مریض کی عیادت کے لیے آئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ تکیے پر نماز پڑھ رہا ہے، آپﷺ نے وہ تکیہ لیا اور اس کو پھینک دیا، اس نے لکڑی پکڑی تاکہ اس پر نماز پڑھے۔ آپ ﷺ نے اس کو بھی لیا اور پھینک دیا اور فرمایا: اگر استطاعت ہے تو زمین پر نماز پڑھو ورنہ اشارے سے پڑھ لو اور سجدے میں رکوع کی نسبت زیادہ جھکو۔ 

وضاحت:
اس حدیث میں مریض کی نماز کی ادائیگی کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے کہ مریض شخص زمین پر جھک نہیں سکتا تھا تو وہ سجدے رکوع میں خود جھکنے کی بجائے تکیہ اٹھا کر اسکو پیشانی پر لگا لیتا کہ سجدہ ہو گیا، جب آپ نے تکیہ پھینک دیا تو اس نے سوچا شائید یہ نرم چیز ہے اس لیے آپ نے پھینکا تو اس نے لکڑی اٹھا کہ اسکو پیشانی پر لگا لیا کہ سجدہ ہو جائیگا تو آپ نے وہ بھی پھینک دی، اور فرمایا کہ اگر کوئی پیشانی کو زمین پر رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا جو کہ نماز میں حسبِ استطاعت زمین پر رکھنی واجب ہے تو وہ رکوع اور سجود میں اشارے سے کام لے، نا کہ کوئی چیز اٹھا کر پیشانی پر لگائے،
اور جب سجدہ میں جائے تو رکوع کی نسبت جھکاؤ زیادہ ہونا چاہیے،

اس مکمل حدیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اس روایت میں نرم چیز پر سجدہ کرنے کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ مریض کیلئے طریقہ بتلانا مقصود تھا کہ وہ اگر زمین پر مکمل جھک کر سجدہ زمین پر نہیں کر سکتا تو بس اشارے سے تھوڑا جھک جائے ، کوئی چیز اٹھا کر پیشانی پر لگانے کی ضرورت نہیں ،

*لہٰذا اوپر ذکر کردہ تمام دلائل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مساجد کے قالین , صاف بستر،  روئی کے گدے ، موٹے قالین، یا لکڑی کے تختے وغیرہ پر نماز پڑھنا جائز ہے،*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

📓سلسلہ کے باقی تمام سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں، آفیشل واٹس ایپ چینل جوائن کریں،
یا ہمارا آفیشل فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل واٹس ایپ چینل//
https://whatsapp.com/channel/0029VaDnmps7T8bQ5k02LT0e

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS