*وضو میں گردن پر مسح ثابت نہیں*
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل مرفوع روایت میں یہ لفظ ہیں : "آپ ﷺ نے اپنی گردن کا مسح کیا" (کشف الأستار للبزار:140/1)
اور طلحہ بن مصرف رضی اللہ عنہ عن ابیہ عن جدہ سے مروی ایک روایت میں بھی نبی ﷺ سے گردن کےمسح کا ذکر ہے۔(طبرانی کبیر:180/19)
*ضعیف : پہلی روایت تین راویوں کی بنا پر ضعیف ہے :۱-محمد بن حجر : امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے محل نظر کہا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کیلئے منا کیر ہیں۔(میزان الإعتدال:511/3)*
*۲-سعید بن عبد الجبار: امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے غیر قوی کہا ہے۔ (میزان الإعتدال:147/2)*
*۳-اُم عبد الجبار: ابن ترکمانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس کے حال اور نام کا کچھ علم نہیں۔("الجوھر النقی" ذیل السنن الکبری للبیھقی:30/2)*
*جبکہ دوسری روایت بھی تین راویوں کی بنا پر ضعیف ہے :۱ ابو سلمۃ کندی عثمان بن مقسم البری: امام جوزجانی رحمہ اللہ نے اسے کذاب اور امام نسائی رحمہ اللہ و دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے متروک کہا ہے۔(میزان الإعتدال:56/3)*
*۲-لیث بن أبی سلیم: صدوق ہے لیکن اسے اختلاط ہوگیا تھا اور اس کی حدیث متمیز نہیں ہے لہٰذا اسے چھوڑ دیا گیا۔(تقریب التھذیب:138/2)*
*۳-طلحہ بن مصرف: یہ مجہول ہے۔(تقریب التھذیب:380/1)*
ایک روایت میں ہے"گردن کا مسح خیانت سے امان (کا باعث) ہے "
*امام ابن صلاح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ خبر نبی ﷺ سے تو معروف نہیں البتہ بعض سلف کا قول ہے۔ (نیل الأوطار 254/1)، امام نووی رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ (المجموع: 489/2)*
*فائدہ : ابن تیمیہ فرماتے ہیں: نبی ﷺ سے وضو میں گردن کے مسح کے متعلق کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں (مجموع الفتاوی: 127/21) ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: گردن کے مسح میں نبی ﷺ سے کوئی بھی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے۔ (زاد المعاد: 195/1) ، امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : گردن کا مسح بدعت ہے* ۔ *(المجموع: 489/1) ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد (رحمہم اللہ) کے نزدیک گردن کا مسح مسنون نہیں (یعنی بدعت ہے) (الفتاوی الکبری لابن تیمیہ : 418/1)*