*نماز جمعہ کی رکعات اور اس کے چند مسائل*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)
اسلام میں نماز جمعہ کی بڑی اہمیت، اس کےبے شمار فضائل اوراس دن کےبے پناہ فیوض وبرکات ہیں ، اس اہمیت وفضیلت کے پیش نظر اس کی تیاری کا خصوصی حکم دیا گیا ہے اوراس نماز کے واسطے آنے کے آداب اور اس سے متعلق متعدد احکام بھی بیان کئے گئے ہیں ۔ خوش نصیب وہ ہے جوجمعہ کی عمدہ تیاری کرے، وقت سے پہلے مسجد میں حاضر ہو، توفیق الہی کے بقدر نوافل کی ادائیگی کرے، خطبہ غور سے سنے اور فرائض وسنن کی ادائیگی سے لیکر اس دن سے متعلق مسنون اعمال وافعال انجام دے مثلا غسل ، خوشبو ، مسواک ،سورہ کہف کی تلاوت ، کثرت درود اور قبولیت کی ساعت سے استفادہ وغیرہ ۔
اس جگہ صحیح احادیث میں وارد نماز جمعہ کی رکعات کو بیان کرنا مقصود ہے تاکہ عوام کو اس نمازکی اصل رکعات سے آگاہی ہو اور لوگوں میں پھیلے نماز جمعہ سے متعلق غلط خیال کا سد باب ہو۔ نماز جمعہ کی رکعات کو میں تین صورتوں میں بیان کروں گا ۔
*پہلی صورت :* اس صورت میں تین باتیں ذکر کرنا مفیدسمجھتا ہوں ۔
(1) یہ بات جانتے ہوئے کہ نماز جمعہ سے قبل جمعہ کی کوئی مخصوص سنت نہیں ہے پھر بھی خطبہ سے قبل جس قدر نوافل پڑھنا چاہیں ہم پڑھ سکتے ہیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من اغتسل ، ثمَّ أتَى الجمعةَ ، فصلَّى ما قُدِّر له . ثمَّ أنصت حتَّى يفرَغَ من خطبتِه . ثمَّ يصلِّي معه ، غُفر له ما بينه وبين الجمعةِ الأخرَى ، وفضلُ ثلاثةِ أيَّامٍ(صحيح مسلم:857)
ترجمہ: جس نے غسل کیا،پھر جمعے کے لئے حاضر ہوا،پھر اس کے مقدر میں جتنی نفل نماز تھی پڑھی،پھر خاموشی سےخطبہ سنتا رہا حتیٰ کہ خطیب اپنے خطبے سے فارغ ہوگیا،پھر اس کے ساتھ نماز پڑھی،اس کے اس جمعے سے لے کر ایک اور جمعے تک کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور مزید تین دنوں کے بھی۔
تو یہ نماز نوافل شمار ہوں گی اور اس کی کوئی تحدید نہیں ہے جس کو جتنی رکعت پڑھنے کی خواہش ہو پڑھے ۔دو، چار، چھ ، آٹھ، بارہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ صحابہ کرام سے نماز جمعہ سے قبل متعدد رکعات پڑھنا منقول ہے مثلاقتادہ رضی اللہ عنہ سے چاراور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بارہ رکعات تواس سے ہم یہ دلیل نہیں اخذ کریں گے کہ یہ نماز جمعہ سے قبل کی سنن مؤکدہ ہے بلکہ نوافل کے ہی زمرے میں داخل ہے اس لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ جمعہ کی نماز سے قبل کچھ بھی سنت نماز ثابت نہیں ہے ۔
(2) خطبہ سے پہلے آنے والا نوافل نہ ادا کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن پھر بھی کم ازکم دو رکعت اسے تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہئے جیساکہ فرمان نبوی ہے :
إذا دخَل أحدُكمُ المسجدَ، فلا يَجلِسْ حتى يصلِّيَ ركعتينِ .(صحيح البخاري:1167)
ترجمہ:جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔
(3) بسا اوقات ہم میں سے کسی کو جمعہ کے دن اس وقت آنا ممکن ہوتا ہے جب امام ممبر پر خطبہ کے لئے آجائے یا خطبہ دے رہاہوں ۔ یاد رہے جان بوجھ کر جمعہ کے دن تاخیر سے آنا بڑی محرومی کا سبب ہے۔ جب امام ممبر پر بیٹھ جائے یا خطبہ دے رہاہوں تو اس حالت میں مسجد میں داخل ہونے والا دو رکعت تحیۃ المسجد ہلکے انداز میں پڑھ کر بیٹھے گا ۔ اس کی دلیل جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ ایک مرتبہ ایک صحابی سلیک غطفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کے دن اس وقت آئے جب رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے تو وہ بیٹھ گئے۔آپ نے ان سے مختصرا دو رکعت نماز ادا کرنے کو کہا اور فرمایا:
إذا جاء أحدكم ، يومَ الجمعةِ ، والإمامُ يخطبُ ، فليركع ركعتينِ ، وليتجوَّزْ فيهما(صحيح مسلم:875)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی جمعہ کےدن آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھے اور ان میں اختصار کرے۔
اس دلیل سے ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ جو لوگ خطبہ کے وقت آنے والے کو دو گانہ ادا کرنے سے منع کرتے ہیں دراصل وہ لوگ سنت کی مخالفت کرتے ہیں ۔
*دوسری صورت :* اس صورت میں یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ نماز جمعہ کے طور پر صرف دو رکعت فرض ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن أدرَكَ منَ الجمعةِ رَكْعةً فليصلِّ إليها أخرَى . (صحيح ابن خزيمة للالبانی:1851)
ترجمہ: جو شخص جمعہ سے ایک رکعت پالے تو اسکے ساتھ دوسری آخری رکعت ملا لے۔
ایک دوسری روایت میں اس طرح سے وارد ہے :
من أدرَكَ رَكعةً منَ الجمعةِ أو غيرِها فقد تمَّت صلاتُهُ(صحيح النسائي:556)
ترجمہ: جس نے جمعہ کی یا کسی اور نماز کی ایک رکعت پالی تو اس کی نماز پوری ہوگئی ۔
مذکورہ پہلی حدیث سے نماز جمعہ کے طور پر دو رکعت فرض ہونا ثابت ہوتا ہے وہ اس طرح کہ نماز جمعہ میں دیر سے آنے والے کسی مسبوق کو ایک رکعت امام کے ساتھ ملے تو اسے نبی ﷺ نے قضا کے طورپرصرف ایک رکعت مزید پڑھنے کا حکم دیا ہے گویا کل دو رکعتیں ہی ہوئیں ۔ دوسری حدیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت بھی پالی تو اس نے جمعہ کی نماز پالی البتہ جو ایک رکعت بھی نہ پاسکے وہ جمعہ کی نماز سے محروم ہوگیا اسے اب جمعہ کی جگہ ظہر کی چار رکعت نماز ادا کرنا پڑے گا ۔مثال سے یوں سمجھ لیں کہ کوئی امام کو دوسری رکعت کے سجدہ میں یا تشہد میں پائے تو اس سے نماز جمعہ فوت ہوگئی اسے ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی ۔
*ایک امر کی وضاحت :* حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ جس سے خطبہ جمعہ چھوٹ جائے وہ چار رکعت نماز ادا کرے ۔
كانتِ الجمعةُ أربعًا فجُعِلَتْ ركعتينِ من أجلِ الخُطبةِ فمن فاتتهُ الخطبةُ فليُصَلِّ أربعًا۔(رواه ابن أبي شيبة :1/461)
ترجمہ: جمعہ کی نماز چار رکعت تھی پس خطبہ کی وجہ سے دو رکعت کردی گئی توجس سے خطبہ فوت ہوجائے وہ چار رکعت ادا کرے ۔
اسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس روایت کو شیخ البانی نے منقطع کہا ۔(إرواء الغليل:3/72)
*تیسری صورت :* اب یہاں نماز جمعہ کے بعد وارد شدہ روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں تین قسم کی باتیں منقول ہیں ۔
(1) ایک قسم نماز جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھنے کی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہےوہ نبی ﷺ کے متعلق بیان کرتے ہیں:
وكان لا يُصلِّي بعدَ الجمُعةِ حتى يَنصَرِفَ، فيُصلِّي ركعتَينِ .(صحيح البخاري:937)
ترجمہ: جمعہ کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے تاآنکہ گھر لوٹ آتے، واپس آ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
(2) دوسری قسم جس میں چار رکعتیں پڑھنے کا ذکر ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا صلَّى أحدُكم الجمعةَ فليصلِّ بعدها أربعًا(صحيح مسلم؛881)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھ چکے تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے۔
(3) اور تیسری قسم میں چھ رکعات کا ذکر آیا ہے ۔
عنِ ابنِ عمرَ قالَ : كانَ إذا كانَ بمَكةَ فصلَّى الجمعةَ تقدَّمَ فصلَّى رَكعتَينِ ثمَّ تقدَّمَ فصلَّى أربعًا وإذا كانَ بالمدينةِ صلَّى الجمعةَ ثمَّ رجعَ إلى بيتِه فصلَّى رَكعتَينِ ولم يصلِّ في المسجدِ فقيلَ لَه فقالَ كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يفعلُ ذلِك(صحيح أبي داود:1130)
ترجمہ: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق عطاء کہتے ہیں کہ وہ جب مکے میں ہوتے ، اور جمعہ پڑھتے تو آگے بڑھ کر دو رکعتیں پڑھتے ، پھر آگے بڑھتے اور چار رکعتیں پڑھتے اور جب مدینے میں ہوتے اور جمعہ پڑھتے تو اس کے بعد گھر لوٹ جاتے اور دو رکعتیں ادا کرتے اور مسجد میں نہ پڑھتے ۔ آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایسے ہی کیا کرتے تھے ۔
ان ساری روایات کو سامنے رکھتے ہوئےشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر مسجد میں جمعہ کے بعد سنت ادا کریں تو چار رکعت اور گھر میں ادا کرنا چاہیں تو صرف دو رکعت پڑھیں ۔ مسجد میں چھ رکعت بھی سنت ادا کرسکتے ہیں جیساکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے تاہم گھر میں ادا کرتے وقت دو رکعتیں ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نماز جمعہ سے پہلے کوئی سنت نہیں ہے صرف دو رکعت تحیۃ المسجد ہے البتہ نفل کے طور پر کوئی جس قدر چاہے پڑھے اس کی تحدید نہیں ہے اور نماز جمعہ کے بعد سنت نماز دو ، چار اور چھ رکعات تک پڑھنا ثابت ہے لہذا کوئی دو پڑھ لے یا کوئی چار اور کوئی چھ پڑھ لے سارے طریقے درست ہیں ۔
*بعض تنبیہات و اصلاحات :*
*پہلی بات :* احناف کے یہاں نماز جمعہ سے قبل چار سنت موکدہ اور بعد میں چار یا چھ سنت موکدہ بیان کیا جاتا ہے سو معلوم ہونا چاہئے کہ نماز جمعہ سے قبل سنت نماز ثابت نہیں ہے اوراس سے متعلق جن آثار صحابہ کو بنیاد بناکر سنت موکدہ کا حکم لگایا جاتا ہے وہ دراصل نوافل ہیں سنن نہیں ۔
*دوسری بات:* یہ کہ نماز جمعہ کو نماز ظہر پر قیاس نہیں کیا جائے گا ، نہ ہی اس کی طرح رکعات ادا کئے جائیں گے ۔ نماز جمعہ الگ نماز ہے اور اس کے احکام ورکعات بھی مستقل طور پر بیان کئے گئے ہیں۔
*تیسری بات :* یہ ہے کہ جو لوگ گاؤں دیہات میں نماز جمعہ کے بعد ظہر احتیاطی کے طور چار رکعت پڑھتے ہیں وہ سراسر سنت کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل سنت میں موجود نہیں ہے ۔
______________________