find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Ramzan. Show all posts
Showing posts with label Ramzan. Show all posts

Laylatul Qadar (Shab-E-Qadar) ki Fajilat, is rat ki nishaniya aur Padhi jane wali Masnun Duwayein.

Shab-E-Qadar ki fajilat aur ahamiyat?

Is rat ki nishaniya aur padhi jane wali dua?

Sawal: Shab-E-Qadar (Laylatul Qadar) ki kya Fajilat hai? Yah kaun si rat hai? Is rat ki nishaniya (Signs) aur Masnun dua.
Shab-E-Qadar Ki Ahmiyat aur fajilat.

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے،
وہ کہتی ہیں: اے اللہ کے رسول! اگر میں شب ِ قدر کو پا لوں تو کونسی دعا کروں؟
آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
یہ دعا کرنا:
اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔
(اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کر دے۔)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3850)

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-120"

سوال_لیلة القدر کی کیا فضیلت ہے؟ اور یہ  کون سی رات ہے؟ نیز اس رات کی نشانیاں اور مسنون دعا بیان کریں؟

جواب..!
الحمدللہ..!!

*لیلۃ القدر کی فضیلت*

ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌ ﴿٣﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَ‌بِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ‌ ﴿٤﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ‌ ﴿٥
(سورہ القدر: آئیت نمبر-3٫4٫5)
ترجمہ_
قدر کی رات ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے متعلق اترتے ہیں۔ وہ رات فجر طلوع ہونے تک سر اسر سلامتی ہے۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ خالص ﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے لیلۃ القدر کا قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2014)

*نبی مکرم ﷺرمضان کے آخری عشرہ میں بہت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے ، اس میں نماز ، اور قرات قرآن اور دعا وغیرہ جیسے اعمال بہت ہی زیادہ بجا لاتے تھے*

امام بخاری نے اپنی کتاب میں،
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا ہے کہ:جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی اکرم ﷺرات کو بیدار ہوتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے اورکمر کس لیتے تھے،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2024)

*شب قدر کونسی رات میں ہے اس بارے علماء کا اختلاف ہے، کوئی 21 رمضان کی رات کو کہتے ہیں کوئی 23 اور ہماے ہاں ایشیاء میں تو زیادہ تر 27 رمضآن کو ہی شب قدر کہا جاتا ہے، جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے اور یہ رات تبدیل بھی ہوتی رہتی ہے*

دلائل درج ذیل ہیں!!

امام بخارى رحمہ اللہ ني اپنی صحیح میں باب باندھا  "باب تَحَرِّي لَيْلَةِ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ " یعنی لیلۃ القدر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا بیان،

 ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
شب قدر کورمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو ۔
(صحیح بخاری:حدیث نمبر- 2017)

ایک روایت میں ہے کہ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے نکلے، لوگوں کو شب قدر بتانا چاہتے تھے ( وہ کون سی رات ہے ) اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو وہ میرے دل سے اٹھا لی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔
( تو اب ایسا کرو کہ ) شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-49)

اور ایک روایت میں ہے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ ( یعنی اکیسوئیں یا تئیسوئیں یا پچیسوئیں راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو )
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-2021)

عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور فرماتے: ” شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو“
۔ امام ترمذی کہتے ہیں:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اکثر روایات یہی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اسے آخری عشرے کی تمام طاق راتوں میں تلاش کرو“، اور شب قدر کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں، اور رمضان کی آخری رات کے اقوال مروی ہیں،
شافعی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا مفہوم -

«واللہ اعلم» - یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سائل کو اس کے سوال کے مطابق جواب دیتے تھے۔ آپ سے کہا جاتا: ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں؟ آپ فرماتے: ہاں فلاں رات میں تلاش کرو، ۵- شافعی کہتے ہیں: میرے نزدیک سب سے قوی روایت اکیسویں رات کی ہے، - ابی بن کعب سے مروی ہے وہ قسم کھا کر کہتے کہ یہ ستائیسویں رات ہے۔ کہتے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی علامتیں بتائیں، ہم نے اسے گن کر یاد رکھا۔ ابوقلابہ سے مروی ہے کہ شب قدر آخری عشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-792)

عیینہ بن عبدالرحمان کہتے ہیں
مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہ ابوبکرہ رضی الله عنہ کے پاس شب قدر کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: ”جس چیز کی وجہ سے میں اسے صرف آخری عشرے ہی میں تلاش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سنی ہے، میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: ”تلاش کرو جب ( مہینہ پورا ہونے میں ) نو دن باقی رہ جائیں، یا جب سات دن باقی رہ جائیں، یا جب پانچ دن رہ جائیں، یا جب تین دن رہ جائیں“۔ ابوبکرہ رضی الله عنہ رمضان کے بیس دن نماز پڑھتے تھے جیسے پورے سال پڑھتے تھے لیکن جب آخری عشرہ آتا تو عبادت میں خوب محنت کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-794)

زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے کہا آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: جو سال بھر ( رات کو ) کھڑے ہو کر نمازیں پڑھتا رہے وہ لیلۃ القدر پا لے گا، ابی بن کعب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے ( ابوعبدالرحمٰن، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی کنیت ہے ) انہیں معلوم ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان کی ستائیسویں ( ۲۷ ) رات ہے، لیکن وہ چاہتے تھے کی لوگ اسی ایک ستائیسویں ( ۲۷ ) رات پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ رہیں کہ دوسری راتوں میں عبادت کرنے اور جاگنے سے باز آ جائیں، بغیر کسی استثناء کے ابی بن کعب رضی الله عنہ نے قسم کھا کر کہا: ( شب قدر ) یہ ( ۲۷ ) رات ہی ہے، زر بن حبیش کہتے ہیں: میں نے ان سے کہا: ابوالمنذر! آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس آیت اور نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی ہے ( یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ انہوں نے «بالآية» کا لفظ استعمال کیا یا «بالعلامة» کا آپ نے علامت یہ بتائی ( کہ ستائیسویں شب کی صبح ) سورج طلوع تو ہو گا لیکن اس میں شعاع نہ ہو گی
۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-3351)
(صحیح مسلم حدیث نمبر 762)

 عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، کہ میں بنی سلمہ کی مجلس میں تھا، اور ان میں سب سے چھوٹا تھا، لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے شب قدر کے بارے میں کون پوچھے گا؟ یہ رمضان کی اکیسویں صبح کی بات ہے، تو میں نکلا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب پڑھی، پھر آپ کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور فرمایا: اندر آ جاؤ ، میں اندر داخل ہو گیا، آپ کا شام کا کھانا آیا تو آپ نے مجھے دیکھا کہ میں کھانا تھوڑا ہونے کی وجہ سے کم کم کھا رہا ہوں، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو فرمایا: مجھے میرا جوتا دو ، پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لگتا ہے تمہیں مجھ سے کوئی کام ہے؟ ، میں نے کہا: جی ہاں، مجھے قبیلہ بنی سلمہ کے کچھ لوگوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے، وہ شب قدر کے سلسلے میں پوچھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آج کون سی رات ہے؟ ، میں نے کہا: بائیسویں رات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی شب قدر ہے ، پھر لوٹے اور فرمایا: یا کل کی رات ہو گی آپ کی مراد تیئسویں رات تھی۔

(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1379)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کے متعلق فرمایا: شب قدر ستائیسویں رات ہے
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر_1386)

حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : مجھے شب قدر دکھا ئی گئی پھر مجھے بھلا دی گئی ۔ اس کی صبح میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں ۔ کہا : تیئسویں رات ہم پر بارش ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھا ئی پھر آپ نے ( رخ ) پھیرا تو آپ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کے نشانات تھے ۔ کہا : اور عبد اللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے ( لیلۃالقدر ) تیئیسویں ہے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1168)
(اسلام360 میں مسلم حدیث نمبر-2775)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ترکی خیمے کے اندر جس کے دروازے پر چٹائی تھی ، رمضا ن کے پہلے عشرے میں اعتکا ف کیا ، پھر درمیانے عشرے میں اعتکاف کیا ۔ کہا : تو آپ نے چٹا ئی کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر خیمے کے ایک کونے میں کیا ، پھر اپنا سر مبا رک خیمے سے باہر نکا ل کر لو گوں سے گفتگو فر ما ئی ، لوگ آپ کے قریب ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : میں نے اس شب ( قدر ) کوتلاش کرنے کے لیے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا ، پھر میں نے درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا ، پھر میرے پاس ( بخاری حدیث : 813میں ہے : جبریل ؑ کی )آمد ہو ئی تو مجھ سے کہا گیا : وہ آخری دس راتوں میں ہے تو اب تم میں سے جو اعتکاف کرنا چا ہے وہ اعتکاف کر لے ، لوگوں نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا ۔ آپ نے فر مایا : اور مجھے وہ ایک طاق رات دکھا ئی گئی اور یہ کہ میں اس ( رات ) کی صبح مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیسویں رات کی صبح کی ، اور آپ نے ( اس میں ) صبح تک قیام کیا تھا پھر بارش ہو ئی تو مسجد ( کی چھت ) ٹپک پڑی ، میں نے مٹی اور پانی دیکھا اس کے بعد جب آپ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو آپ کی پیشانی اور ناک کے کنارے دونوں میں مٹی اور پانی ( کے نشانات ) موجود تھے اور یہ آخری عشرے میں اکیسویں کی رات تھی
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1167)
(اسلام360 میں مسلم حدیث نمبر-2771)

*ان احادیث اور ان جیسی باقی تمام  احادیث کو ملا کر  یہ پتا چلا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کسی رات بھی ہو سکتی ہے*

*اور یہ رات تبدیل بھی ہوتی رہتی ہے،یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف راتوں کے بارے شب قدر کی روایات ملتی ہیں کیونکہ جس صحابی نے جس رات میں شب قدر کو پایا اسی رات بارے انہوں نے گواہی دے دی*

*شب قدر کی علامات*

پہلی علامت..!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نشانی یہ بتائی کہ،
شب قدر کی صبح کو سورج کے بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی وہ ایسے ہوتا ہے جیسے تھالی،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1378)

دوسری علامت:

رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا،
تم میں سے کون شب قدر کو یاد رکھتا ہے (اس میں ) جب چاند نکلتا ہے تو ایسے ہوتا ہے جیسے بڑے تھال کا کنارہ،
(صحیح  مسلم،حدیث نمبر-1170)

تیسری علامت:

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''لیلۃ القدر آسان و معتدل رات ہے جس میں نہ گرمی ہوتی ہے اور نہ ہی سردی۔ اس کی صبح کو سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدھم ہوتی ہے ۔
(مسند بزار: 11/486)
مسند طیالسی: 349)
( ابنِ خزیمہ:3/231)
یہ روایت حسن ہے!۔

*نوٹ
شب قدر کی رات کو کتے نا بھونکنے والی بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں*

*شب قدر کی دعا*

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے،
وہ کہتی ہیں: اے اللہ کے رسول! اگر میں شب ِ قدر کو پا لوں تو کونسی دعا کروں؟
آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
یہ دعا کرنا:
اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔
(اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کر دے۔)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3850)

نوٹ_
اس دعا کے ساتھ مزید دعائیں بھی کریں، خاص کر مسلمانوں کی مدد اور حفاظت کے لیے، ہمارے پیارے وطن پاکستان کی حفاظت کی دعائیں کریں،  اس وقت ملک دشمن عناصر بہت اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں ،
اللہ پاک ہم سب کا ،ہمارے ملک کا اور پوری دنیا میں مقیم مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو، اور انکی غیبی مدد فرمائے،
آمین یا رب العالمین,

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Hamila (Pregnant) Aurat ke liye Roze ka hukm, kya Hamila Khatoon Roze tor sakti hai?

Kya Bacche wali Khawateen Roze rakh sakti hai?

Kya Hamila (Pregnant) Aurat Roze tor sakti hai?
Haiz aane par kya Aurat roza Rakh sakti hai?
Kya Na Paki ki halat me Sehri kha sakte hai?

Kya Bhookh lagne par Roza tod sakte hai, Khana Kha Sakte hai?

Hamila (Pregnant) Aur Doodh pilane Wali Aurat ke liye Roze ka Hukm.

Kya Aurat Haiz (Periods) ki halat me Roza rakh sakti hai?

Hamila aur Doodh pilane wali Khawateen ke liye Roze ke masail.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

کیا حاملہ عورت روزے رکھے گی؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
️ : مسز انصاری

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

حمل کے ابتدائی دور سے لے کر اختتامی حالت تک کسی بھی دور میں عورت کے لیے روزے چھوڑنا جائز نہیں ہے، وہ بھی دوسروں کی طرح روزے رکھنے کی مکلف ہے ، سوائے اس کے کہ اسے اپنی جان کا خطرہ ہو یا پھر وہ بچے کی جان کا خطرہ محسوس کرے اور یہ طبیب ہی فیصلہ کر سکتا ہے، اگر طبیب کے مطابق روزہ حاملہ یا اس کے حمل کے لیے ہلاکت کا سبب ہے تو اس کے لیے روزہ ترک کرنا مباح ہوگا ۔

لہٰذا عورت کی حالت کے لحاظ سے بعض اوقات روزہ چھوڑنا جائز ، کبھی واجب اور کبھی حرام بھی ہوجاتا ہے ۔ اور ایسی صورت میں جبکہ حاملہ عورت کو فرضی روزے رکھنا مشقت میں لے آئے لیکن ضرر نہ دے تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
حاملہ عورت کی دو حالتیں ہیں :

پہلی حالت :

وہ عورت قوی اور طاقتور اور نشیط ہو روزہ رکھنے کی وجہ سے اسے کوئي مشقت نہ ہو اس کے بچے پر بھی کوئي ضرر نہ ہو تو اس عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے ، کیونکہ روزہ چھوڑنے کے لیے اس کے پاس کوئي عذر نہیں ۔

دوسری حالت :

عورت ثقل حمل کی وجہ سے روزے کی متحمل نہ ہو یا پھر کمزوری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے ، تو اس حالت میں وہ روزہ نہيں رکھے گی اور خاص کر جب اس کے بچے کو ضرر ہو تو اس وقت اس کےلیے روزہ ترک کرنا واجب ہے ۔

دیکھییے : فتاوی الشیخ ابن عثيمین ( 1 / 487 )

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Eid ki Namaj Padhne ka Sunnat tarika Kya hai?

Eid ki Namaj Padhne ka Sunnat tarika kya hai?

Eid ki Namaj kaise Padhni chahiye.?

Jashn-E-Eid Miladunnabi Manana Kaisa hai Islam me?

Eid ki Namaj se Pahle fitara Nikalane Ke Masail.

Sabse Pahle Eid ki Namaj kab Padhi gayi thi?

Qurbani ke Ahkaam o Masail part 2

Fitra me Hame kya kya dena Chahiye Shariyat ke mutabik?

Lock down me Eid Ul Fitra ya Eid Ul Azaha ki Namaj kaise padhi jayegi?

Eid ki Namaj se  pahle aur bad me Kya karna chahiye?

*نماز عیدین پڑھنے کا سنت طریقہ*

*شیخ جیلانی کا موقف*

تحریر: *قاری محمد اسماعیل قادرپوری*

شیخ جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نماز عیدین کا سنت طریقہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

*اسکی دو رکعت ہیں پہلی رکعت میں سبحانک اللہم کے بعد سات تکبیریں پڑھے اور اس کے بعد آعوذ پڑھے اور دوسری رکعت میں قرات پڑھنے سے پہلے پانچ تکبیریں کہے اور ان کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک تکبیر کہتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے (رفع الیدین کرے)....... اور جب تکبیروں سے فارغ ہو تو آعوذ پڑھے اور اس کے بعد سورۃ الفاتحہ اور پھر سورہ سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری رکعت میں ھل اتک پڑھے۔*

(غنیۃ الطالبین باب دونوں عیدوں کے بیان میں، صفحہ نمبر 517)

شیخ جیلانی رحمہ اللّٰہ کی عبارت سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:

*1- پہلی رکعت میں ثناء کے بعد سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں ٹوٹل 12 تکبیریں کہنی ہیں۔*

*2- دونوں رکعتوں میں زائد تکبیرات کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھنی ہے اور تکبیرات میں رفع الیدین بھی کرنا ہے۔*

*3- دونوں رکعات میں وہی سورتیں تلاوت کرنی ہیں جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تلاوت کیا کرتے تھے۔*

*ہمارے جو بھائی شیخ جیلانی رحمہ اللّٰہ کو اپنا غوث الاعظم مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ہر بات اللّٰہ تعالٰی کے حکم سے لکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ نماز عیدین کا طریقہ درست کریں اور سنت رسول کے مطابق نماز ادا کریں۔*

احادیث سے بھی نماز عیدین کے پڑھنے کا یہی طریقہ ثابت ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں:

*أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى فِي الْأُولَى سَبْعَ تَكْبِيرَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الثَّانِيَةِ خَمْسًا*

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے۔*

(سنن ابوداؤد حدیث نمبر 1149وسندہ صحیح)

سیدنا عمرو بن عوف المزنی رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:

*كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ فِي الْأُولَى سَبْعًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْآخِرَةِ خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ*

*عیدین میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہتے تھے۔*

(جامع ترمذی حدیث نمبر 536)

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللّٰہ عنہما بیان کرتے ہیں:

*قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّكْبِيرُ فِي الْفِطْرِ سَبْعٌ فِي الْأُولَى، ‏‏‏‏‏‏وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا۔*

*اللّٰہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اور دونوں میں قرأت (زائد) تکبیرات کے بعد ہے۔*

(ابوداؤد حدیث نمبر 1151)

*قارئین کرام! ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز عیدین پڑھاتے تو آپ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ، ٹوٹل بارہ تکبیریں کہتے تھے۔ اور دونوں رکعتوں میں تکبیرات قرات سے پہلے کہتے اور قرات بعد میں کرتے تھے اور اہل الحدیث بھی الحمدللہ اسی طریقہ پر سنت کے مطابق پڑھتے ہیں۔*

Share:

Ramzan ke mahine me Musalmano Ko kis tarah filmo aur daramo me masaruf kar rakha hai jabki yah Dushmano ko Shikast dene wala Mahina hai.

Ramzan Fateh (victory) ka mahina hai Koi Ishq o maushiqi ka nahi?

Ramzan ka Mahina Dushmano Ko bahut thakaya hai.

ماہِ رمضان کے حوالے سے تعجب خیز سوچ ہے کہ جیسے یہ مہینہ سستی اور زرخیزی کے بغیر ہے.

ذیل میں ہم ان جنگوں اور فتوحات کا ذکر کریں گے جو رمضآن میں واقع ہوئے ہیں. اسکے بعد آپ پر یہ حقیقت آ شکار ہو گی کہ کیوں دشمن نے اس مہینے کو ٹی وی پروگراموں میں رات کو دیر تک لغو اور بے فائدہ مشاغل میں مگن رہنے کا مہینہ بنا دیا ہے.
حقیقت تو یہ ہے، تاریخ میں، رمضآن کے مہینے نے دشمنوں کو بہت تھکایا ہے.

1. غزوہ بدر
اسلام کی سب سے پہلی اور فیصلہ کن جنگ. یوم الفرقان. رمضان 2 ہجری میں پیش آیا.

2. فتح مکہ، رمضان 8 ہجری

3. معركة البويب‎، رمضآن 13 ہجری
مثنی بن حارثہ کی قیادت میں مسلمانوں نے فارس (ساسانی سلطنت) کو شکست دی.

4. معرکہ قادسیہ، رمضان 18 ہجری
سعد بن ابی وقاص ؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے فارسیوں (ساسانی مملکت) کو شکست دے کر فتح کا تاج پہنا.

5. معركة النوبة، رمضآن 13 ہجری
عبداللہ بن ابی سرح کی قیادت میں مسلمانوں نے دنقلا، جنوبی افریقہ کے نوبین صوبہ کے دارالخلافہ، کا محاصرہ کرنے کے بعد قبطیوں (مقامی عیسائی) کو شکست دی.

6. رھوڈس کی فتح، رمضآن 53 ہجری
جنادہ بن ابی امیہ کی قیادت میں مسلمانوں نے رھوڈس کو فتح کیا. رھوڈس، بحیرہ روم کا جزیرہ ہے، جہاں سے رومی، مسلمانوں کے جہازوں اور ساحلی علاقوں پر حملہ کیا کرتے تھے. 

7. فتح اندلس (جزیرہ نما آئبیریا)، رمضآن 92 ہجری
مسلمان بَربَر سپہ سالار طارق بن زیاد نے جزیرہ نما آئبیریا (موجود اسپین اور پرتگال) میں مغربی گوتھ قوم کو شکست سے دوچار کیا.

8. فتح ہند، رمضآن 94 ہجری
عرب جرنیل محمد بن قاسم الثقفی نے ہند (موجودہ پاکستان اور انڈیا) کے علاقے فتح کیے.

9. فتح اموریم، رمضآن 223 ہجری
اموریم بازنطینی سلطنت کا ایک مضبوط دفاعی قلعہ بند شہر، جسکو خلیفہ المعتصم نے فتح کیا. کیونکہ رومیوں نے مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ کر کے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے. رومیوں نے مسلمان قیدیوں کے ناک کان کا مثلہ بنایا، انکی آنکھیں باہر کھینچ ڈالیں، اور کئی مسلمان خواتین کو قید کر لیا. چنانچہ المعتصم نے انکی سلطنت کے قلب میں جا کر انہیں ھزیمت سے دوچار کیا.

10. سائراکیز کی فتح ،رمضآن 264 ہجری
نو مہینے کے محاصرے کے بعد، جعفر بن محمد نے فتح کیا. سائراکیز، سسلی (بحیرہ روم) کا سب سے بڑا شہر ہے، جو رومن سلطنت کا حصہ تھا.

11. جنگِ حارم، رمضآن 559 ہجری
نور الدین زنگی کی قیادت میں مسلمانوں نے متحدہ فوجوں کو شکست دی جس میں ترپولی کی افواج، انطاکیہ کی صلیبی افواج، بازنطینی سلطنت اور آرمینین فوجیں شامل تھیں. نورالدین زنگی نے حارم کے علاقوں کو آزاد کروایا، جو موجودہ ادلب کا دیہی علاقہ ہے. 

12. عین جالوت کی جنگ، رمضآن 658 ہجری
سلطان سیف الدین قطز کی قیادت میں مسلمانوں نے تاتاریوں (منگول) کے اوپر فتح حاصل کی، جنہوں نے مسلمان علاقوں پر حملے کر کے لاکھوں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا.

13. آرمینیا کی فتح، رمضآن 673 ہجری
الظاهر رکن الدین بیبرس کی قیادت میں مسلمانوں نے آرمینیا کو فتح کیا.

14. معركة مرج الصُفر، رمضآن 702 ہجری
الناصر محمد بن قلاوون کی قیادت اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں نے تاتاریوں کو دمشق کے قریب غباغِب کے مقام پر شکست دی.

15. بوسنیا ہرزیگووینا کی فتح، رمضآن 791 ہجری
عثمانی سلطان مراد اوّل کی قیادت میں مسلمانوں نے صلیبی اتحاد سرب، بلغاری، پولش، ھنگری، اور البانوی، کو شکست دی. 

16. فتح قبرص، رمضآن 829 ہجری
پہلی بار معاویہؓ کے دور حکومت میں قبرص کو فتح کیا گیا تھا، تاہم، بعد میں وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا. صلیبیوں نے قبرص کو اپنی مرکزی چوکی بنا لیا جہاں سے وہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے. چنانچہ، مملوک سلطان سيف الدين برسباي‎ نے قبرص کو فتح کیا.

رمضآن 1973 عیسوی (1392 ہجری) کی جنگ؛
پہلے مصری اور شامی افواج، صیہونی افواج پر فوقیت رکھتی تھیں. لیکن دونوں مسلم افواج اس نوعیت کی مستحکم نہیں تھیں، جیسے تاریخ میں رہیں.
پس، وہ کامیاب فوجیں تاریخ کی ہی تھیں.

سولہ عظیم جنگیں... اے مسلمانو! یہ فتوحات کا مہینہ ہے، کاہلی، موسیقی اور فسق و فجور کا نہیں..!

Share:

Kya Bagair Namaj ke Film, Darama aur Gali dene walo ka Roza ho jayega?

Kya Bagair Namaj ke Roza qubool nahi hai?
Sawal: Ek Shakhs roza bhi rakhta hai lekin Namaj nahi padhta aur Filmein, darame bhi dekhta hai, Bad Jubaani bhi karta hai, Kya uska Roza Sahee hoga?

کہیں
دنیا کی مشغولیت اور شہوات آپکو اس ماہ رمضان کی غنیمت سے محروم نہ کر دیں..!

----------------------------------

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-119"

سوال_ایک شخض روزہ بھی رکھتا ہے لیکن نماز نہیں پڑھتا، اور فلمیں، ڈرامے بھی دیکھتا ہے، بد زبانی بھی کرتا ہے، کیا اسکا روزہ صحیح ہو گا؟

Published Date:4-6-2018

جواب..!
الحمدللہ..!

اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

📚يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَيۡکُمُ الصِّيَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَۙ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم پر روزہ رکھنا فرض کر دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر فرض کیا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔
(سورہ البقرہ،آئیت نمبر-183)

اس آئیت مبارکہ روزے کی فرضیت کے ساتھ  میں اللہ تعالیٰ نے روزے کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے،
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) یہ روزے کی حکمت ہے،
کہ اسلام میں روزے کا مقصد نفس کو عذاب دینا نہیں بلکہ دل میں تقویٰ یعنی بچنے کی عادت پیدا کرنا ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبح سے شام تک ان حلال چیزوں سے بچے گا تو وہ ان چیزوں سے جو ہمیشہ کے لیے حرام ہیں، ان سے روزہ کی حالت میں بدرجۂ اولیٰ بچے گا۔
اس طرح روزہ گناہوں سے بچنے کا اور بچنے کی عادت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

*روزہ دار کے لیے فلمیں ڈرامے، گانے، گالی گلوچ، لڑائی جھگڑا، جھوٹ، غیبت چغلی، حتی کہ ہر قسم کا بےہودہ، فحش اور جہالت کا کام یا گفتگو کرنا منع ہے.

📚رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا،
روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے ( روزہ دار ) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہئے کہ میں روزہ دار ہوں۔۔۔۔انتہی
( بخاری، کتاب الصیام، باب فضل الصوم : 1894 )

📚ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1903)

📚آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

’’روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ روزہ تو لغو (یعنی ہر بے فائدہ کام) اور رفث (یعنی ہر بے ہودہ حرکت) سے بچنے کا نام ہے، لہٰذا اگر تمہیں کوئی (دوران روزہ) گالی دے، یا جہالت کی باتیں کرے تو اسے کہہ دو کہ میں تو روزہ دار ہوں، میں تو روزہ دار ہوں۔‘‘ 
(صحیح ابن خزیمۃ٬حدیث نمبر-:1996)

📚ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا، اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1690)

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو گندی اور فحش باتیں اور جماع نہ کرے، اور نہ ہی جہالت اور نادانی کا کام کرے، اگر کوئی اس کے ساتھ جہالت اور نادانی کرے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1691)

*تارک نماز کا کوئی عمل قبول ہے یا نہیں اس بارے علماء کا اختلاف ہے ، ہم یہاں اس بحث میں نہیں پڑیں گے بلکہ عوام الناس کی اصلاح کیلئے سعودی فتاویٰ ویبسائٹ کا ایک فتویٰ نقل کرتے ہیں*

📒سوال-37820

میں رمضان کے روزے تو رکھتی ہوں لیکن نماز نہيں پڑھتی توکیا میرا روزہ صحیح ہے ؟

جواب!

تارک نماز کے روزے قبول نہیں بلکہ اس کا کوئي عمل بھی قبول نہيں ہوتا کیونکہ نماز ترک کرنا کفر ہے.

📚اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ "
بے شک آدمی اور شرک و کفر کے درمیان ( فاصلہ مٹانے والا عمل ) نماز کا ترک ہے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر _82 )

📚اور اس لیے کہ بھی کافر کا تو کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں اس کی دلیل فرمان باری تعالی ہے :

وَقَدِمۡنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰهُ هَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ۞
 اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ کر دیا .
(سورہ الفرقان-23 )

📚اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
وَلَـقَدۡ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ وَاِلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكَ‌ۚ لَئِنۡ اَشۡرَكۡتَ لَيَحۡبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏ ۞

 یقینا تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے ( کے تمام نبیوں ) کی طرف بھی وحی کی گئي ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرے عمل ضا‏ئع ہوجائنگے ، اوریقینا تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا 
(سورہ الزمر- 65)

📚امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ
( جس نے بھی عصر کی نماز ترک کی اس کے( نیک) اعمال ضا‏ئع ہوگئے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر_553 )

بطل عملہ کا معنی ہے کہ اس کے اعمال باطل ہوگئے اس کا کوئي فائدہ نہیں ہوگا ۔
یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالی تارک نماز کا کوئي عمل بھی قبول نہيں کرتا ، لہذا تارک نماز کو اس کا کوئي بھی عمل فائدہ نہيں دے گا ، اور نہ ہی اس کا عمل اللہ تعالی کی جانب اٹھایا جاتا ہے ۔

📒حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے معنی میں کہتے ہيں :

حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز ترک کرنے کی دو قسمیں ہیں :

کلی طور پر نماز ترک کرنا اوربالکل کبھی بھی نماز نہ پڑھنا ، اس وجہ سے اس کے سارے اعمال تباہ ہوجاتے ہیں ۔
دوسری قسم یہ ہے کہ کسی معین نماز کو معین دن میں ترک کیا جائے ، اس سے اس دن کے اعمال ضا‏ئع ہوجاتے ہيں ۔
لھذا عمومی طور پر اعمال کا ضا‏ئع ہونا ترک عام کے مقابلہ میں ہے اور معین ضیاع ترک معین کے مقابلہ میں ہے ۔ ا ھـ
( دیکھیں کتاب الصلاۃ صفحہ- 65 )

(https://islamqa.info/ar/answers/37820/لا-يقبل-صوم-رمضان-مع-ترك-الصلاة)

*روزہ قبول ہے یا نہیں یہ اللہ جانتا ہے مگر نماز چھوڑنے سے جو نقصان ہو رہا وہ ہمارے سامنے ہے لہذا روزے رکھنے والے کو چاہیے کہ نماز کی پابندی بھی لازم کرے،*

*روزہ رکھ کر نماز نہ پڑھنے والے، جھوٹ بولنے والے، دھوکا دینے والے، سارا دن ٹی وی پر کان اور آنکھ کے زنا میں مصروف رہنے والے، غرض کسی بھی نافرمانی کا ارتکاب کرنے والے سوچ لیں کہ انھیں روزہ رکھنے سے کیا ملا..؟؟؟*

پس روزہ وہ ہے جو ہمیں پرہیزگاری کا سبق دے، روزہ وہ ہے جو ہمارے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرے۔روزہ وہ ہے جو ہمیں صبر اور تحمل  کا عادی بنائے۔ روزہ وہ ہے جو ہماری تمام قوتوں اور غضبی خواہشوں کے اندر اعتدال پیدا کرے،
روزہ وہ ہے جس سے ہمارے اندر نیکیوں کا جوش، صداقتوں کا عشق، راست بازی کی شیفتگی، اور برائیوں سے اجتناب کی قوت پیدا ہو۔

یہی چیز روزہ کا اصل مقصود ہے ،
اگر یہ فضیلتیں ہمارے اندر پیدا نہ ہوئیں تو پھر روزہ روزہ نہیں ہے بلکہ محض بھوک کا عذاب اور پیاس کا دکھ ہے۔،

کیا نہیں دیکھتے کہ احادیث ِنبویہ میں روزہ کی برکتوں کے لئے 'احتساب' کی بھی شرط قرار دی گئی؟

📒«من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه»رواہ البخاری
"جس شخص نے رمضان کے روزے احتساب ِنفس کے ساتھ رکھے سو اللہ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردے گا"
پھر کتنے ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ایک سچے صائم کی پاک اور ستھری زندگی بھی انہیں نصیب ہے؟
، میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو ایک طرف تو نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کا مال کھاتے، بندوں کے حقوق غصب کرتے، ان کو دکھ اور تکلیف پہنچاتے، طرح طرح کے مکروفریب کو کام میں لاتے، اور جبکہ ان کے جسم کا پیٹ بھوکا ہوتا ہے تواپنے دل کے شکم کو گناہوں کی کثافت سے آسودہ اور سیر رکھتے ہیں۔ کیا یہی وہ روزہ دار نہیں جن کی نسبت فرمایا کہ :

📒«کم من صائم ليس له من صومه إلا الجوع والعطش،
"کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوا بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا"

وہ راتوں کو تراویح میں قرآن سنتے ہیں اور صبح کو اس کی منزلیں ختم کرتے ہیں، لیکن اس قران  کی نہ تو ہدایتیں ان کے کانوں سے آگے جاتی ہیں اور نہ اس کی صدائیں حلق سے نیچے اترتی ہیں :

📒«وربّ قائم ليس له من قيامه إلا السهر »
"اور کتنے راتوں کو ذکر و تلاوت کا قیام کرنے والے ہیں کہ انہیں اس سے سوائے شب بیداری کے اور کچھ فائدہ نہیں"
پھر کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کا روزہ برکت و رحمت ہونے کی بجائے لوگوں  کے لئے ایک آفت و مصیبت ہے،
اور بہتر تھا کہ وہ روزہ نہ رکھتے۔
دن بھر بھوکا رہ کر اور رات کو تراویح پڑھ کر وہ ایسے مغرور و بدنفس ہوجاتے ہیں گویا انہوں نے اللہ پر، اس کے تمام ملائکہ پر، اور اس کے تمام بندوں پر ایک احسانِ عظیم کردیا ہے۔
اور اس کے معاوضہ میں انہیں کبریائی اور خود پرستی کی دائمی سند مل گئی ہے۔ اب اگر وہ انسانوں کو قتل بھی کرڈالیں، جب بھی ان سے کوئی پرسش نہیں۔
وہ تمام دن درندوں اور بھیڑیوں کی طرح لوگوں کو چیرتے پھاڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم روزہ دار ہیں۔ سو ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اور آسمان کا خداوند ان کے فاقہ کرنے کا محتاج نہیں ہے۔ اور ان کے اس روزہ رکھنے سے اس عاجز و درماندہ اور اپنی خطاؤں کا اعتراف کرنے والے گناہگار کا روزہ نہ رکھنا ہزار درجہ افضل ہے جو گو اللہ کا روزہ نہیں رکھتا مگر اس کے بندوں کو بھی نقصان نہیں پہنچاتا۔

روزہ کا مقصود نفس کا انکسار اور دل کی شکستگی تھی،

پھر اے شریر انسان تو،
*روٹی اور پانی کا روزہ رکھ کر خون اور گوشت کو کھانا کیوں پسند کرتا ہے؟*

﴿أَيُحِبُّ أَحَدُكُم أَن يَأكُلَ لَحمَ أَخيهِ مَيتًا فَكَرِ‌هتُموهُ ۚ ..... ١٢ ﴾..... سورة الحجرات
"آیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے"

پھر ہم روزہ ساتھ لوگوں کی غیںت کیوں کرتے ہیں؟
بیوی شوہر کی غیبت،
بھائی بھائی کی غیبت...!

خدارا غور کرو کہ ہمارا ماتم کیسا شدید ؟
اور ہماری بربادی کیسی المناک ہے؟
کس طرح حقیقت ناپید اور صحیح عمل مفقود ہوگیا ہے۔ اس سے بڑھ کر شریعت کی غربت اور احکامِ الٰہیہ کی بے کسی کیا ہوگی کہ مسلمانوں نے یا تو اسے چھوڑ دیا ہے یا صورت چھوڑ کر لباس کی طرح لے لیا ہے،
یہ کیسی رُلا دینے والی بدبختی اور دیوانہ بنا دینے والا ماتم ہے کہ یا تو ہم اللہ  کے حکموں پر عمل نہیں کرتے یا کرتے ہیں تو اس طرح کرتے ہیں گویا اللہ سے ٹھٹھا اور تمسخر کر رہے ہوں,

*اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں عمل کی توفیق عطا فرمائیں...آمین*

(ماخوذ از محدث فورم/ الاسلام سوال وجواب )

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Roze ki halat me Biwi ke Saath Jabardasti Mubasherat (Sex) karne se Gunahagaar kaun hoga, Jaanboojh kar kha lene se Kya roza ho jayega?

Kya Biwi se Hambistar Hone Se Roza toot jata hai?

Kya Jaanboojh kar Khana kha lene pani pee lene ke baad yah kahana ke Galati se hui hai to kya roza Ho jayega?

Sawal: jab boojh kar khane pine ya Shehwat se mani kharij (Mastrubation) karke farji ya nafli roze todne wale ka kaffara kya hoga? Agar Shauhar Roze me Biwi ke Saath Jabardasti mubasherat (intercourse) kare to kya Biwi par bhi kaffara lajim hoga?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-117"
سوال_جان بوجھ کر کھانے پینے یا شہوت سے منی خارج کر کے فرضی یا نفلی روزہ توڑنے والے کا کفارہ کیا ہو گا ؟نیز شوہر روزے میں بیوی ساتھ زبردستی ہمبستری کرے تو کیا بیوی پر بھی کفارہ لازم ہو گا؟

Published Date: 10-5-2019

جواب..!
الحمدللہ..!

*جان بوجھ کر روزہ توڑنے کی تین صورتیں ہیں*

1_رمضان کا فرضی روزہ توڑنا
2_نذر،قسم یا قضاء والا روزہ توڑنا
3_نفلی روزہ توڑنا

*پہلی صورت*

رمضان کا فرضی روزہ توڑنا، اور یہ روزہ توڑنا تین طرح سے ہو سکتا ہے

1_کھا،پی کر روزہ توڑنے والا،

اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے کھانے ،پینے سے فرضی روزہ توڑتا ہے یا جان بوجھ کر روزہ رکھتا ہی نہیں تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے،

*اب سوال یہ ہے کہ اس شخص پر کسی قسم کا کفارہ یا قضا واجب ہے یا  نہیں؟؟*

اس پر علماء کا اختلاف ہے اور علمائے کرام کی اس بارے دو رائے ہیں،

*پہلی رائے*

کچھ علماء کہتے ہیں کہ اس پر کوئی کفارہ،قضا نہیں ہو گی کیونکہ اس نے جان بوجھ کر روزہ چھوڑا یا توڑا ہے،اور عبادت اصل تو اپنے وقت میں ہوتی ہے، اور جب عبادت کا وقت ہی نکل گیا تو اب وہ عبادت قبول نہی، چاہے ساری زندگی روزے رکھے وہ اس کی قضا نہیں دے سکتا ،کیونکہ قضائی تو کسی عذر سے رہ جانے والی عبادت کی ہوتی ہے،

لہٰذا اب وہ اپنے اس گناہ پر نادم ہو ،سچی توبہ کرے اور ہو سکے تو کثرت سے نفل روزے رکھے، تا کہ اللہ اس سے راضی ہو جائے اور اسکی نیکیاں بڑھ جائیں،

اسی مؤقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔

حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"تمام اہل ظاہر یا اہل ظاہر  میں سے اکثریت کا یہ موقف ہے کہ: جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے والے پر قضا نہیں ہے، یہی موقف عراق میں امام شافعی  کے ساتھی عبد الرحمن ، امام شافعی کے نواسے کا ہے، اور یہی موقف ابو بکر حمیدی  سے نماز اور روزے کے متعلق منقول ہے کہ اگر جان بوجھ کر انہیں چھوڑا تو ان کی قضا نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ قضا کرنے سے بھی قضا نہیں ہو گی، یہی موقف  ہمارے متقدم [حنبلی] فقہائے کرام  کی گفتگو میں بھی ملتا ہے، جن میں جوزجانی، ابو محمد بربہاری، اور ابن بطہ شامل ہیں" انتہی
("فتح الباری" (3/ 355)

 امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں " بغیر کسی عذر کےجان بوجھ کر روزہ ترک کرنے والا  شخص قضا نہیں دے گا اور نہ اس کی قضا صحیح ہو گی
(۔"الاختيارات الفقهية" (ص: 460)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"لیکن اگر کوئی شخص سرے سے روزے بغیر عذر کے چھوڑ دے ، نہ رکھے تو صحیح موقف کے مطابق  اس پر قضا لازمی نہیں ہو گی؛ کیونکہ قضا  روزے رکھنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛  اس طرح اس سے روزے شمار نہیں ہوں گے؛ اس لیے کہ یہ اصول ہے کہ: کسی وقت کے ساتھ مختص عبادت  کو اس کے وقت سے بلا عذر مؤخر کرنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی شخص بلا عذر مؤخر کرے تو وہ قبول نہیں ہو گی" انتہی
("مجموع الفتاوى" (19/89)

*دوسری رائے*

علماء کے دوسرے گروہ کا مؤقف یہ ہے کہ جان بوجھ کر روزہ توڑنے/چھوڑنے والا
روزے کی قضا دے گا،

چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں: 
"اس پر ساری امت کا اجماع ہے اور اس اجماع کو تمام اہل علم نے بیان کیا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر رمضان کے روزے نہ رکھے حالانکہ وہ رمضان کے روزوں کی فرضیت  پر ایمان رکھتا ہو، لیکن روزے من مانی کرتے ہوئے عمداً نہیں رکھے ، پھر اس نے بعد میں توبہ کر لی تو اس پر قضا واجب ہے" انتہی
"الاستذكار" (1/77)

اسی طرح ابن قدامہ  مقدسی کہتے ہیں: 
"ہمیں اس بارے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے؛ کیونکہ روزے انسان کے ذمے فرض ہیں اور فرائض ادا کرنے سے ہی انسان بری الذمہ ہوتا ہے، لیکن اس شخص نے روزے رکھے ہی نہیں ہے تو اس لیے فرض روزے اس کے ذمے ابھی تک باقی ہیں" انتہی
"المغنی" (4/365)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (10/143) میں ہے کہ: 
"روزوں کی فرضیت کا انکار کرتے ہوئے روزے نہ رکھنے والا شخص اجماعی طور پر کافر ہے، اور اگر کوئی شخص سستی اور کاہلی کی بنا پر ترک کرتا ہے تو وہ کافر نہیں ہے؛ البتہ چونکہ روزے اسلام کا رکن ہیں اور رکن ترک کرنا انتہائی خطرناک  معاملہ ہے، روزوں کی فرضیت پر سب کا اجماع ہے، بلکہ حاکم وقت کی جانب سے کڑی سزا کا مستحق بھی ہے ؛ تا کہ اس قسم کے لوگ روزوں کے بارے میں سستی سے باز آ جائیں، تاہم کچھ اہل علم ایسے شخص کے کافر ہونے کے بھی قائل ہیں۔ اسے چھوڑے ہوئے تمام روزے رکھنے ہوں گے اور ساتھ میں اس پر اللہ تعالی سے توبہ مانگنا بھی ضروری ہے" انتہی

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا: 
"رمضان میں بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ توڑنے والے کا کیا حکم ہے؟ روزہ توڑنے والے شخص کی تقربیاً 17 سال عمر ہے اور اس  کا کوئی عذر بھی نہیں ہے، تو وہ اب کیا کرے؟ کیا اس پر قضا واجب ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا: 
"جی ہاں! اس پر قضا واجب ہے اور روزے  رکھنے میں سستی کرنے پر اللہ تعالی سے توبہ بھی کرے۔ تاہم اس بارے میں جو روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کی جاتی ہے کہ: (جو شخص رمضان کا ایک روزہ بغیر کسی شرعی رخصت یا بیماری کے نہ رکھے تو ساری زندگی روزے بھی رکھ لے اس کی کمی پوری نہیں کر سکتے) یہ حدیث ضعیف اور مضطرب ہے، اہل علم کے ہاں صحیح ثابت نہیں ہے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (16/201)

اس سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص رمضان کے روزے عمداً ترک کرے تو کچھ اہل علم  کے ہاں اس پر قضا نہیں ہے، اور کچھ علمائے کرام ایسے بھی ہیں جو ایسی صورت میں قضا کے قائل ہیں،

*ہمارے علم کے مطابق بھی راجح مؤقف پہلا ہے ،جس کے مطابق ایسے شخص پر نا قضا ہے نا کفارہ ہے ،کیونکہ اس نے کفریہ کام کیا ہے،ایسا شخص بس سچے دل سے اللہ سے توبہ کرے اور اپنے گناہ کی معافی مانگے گا،کیونکہ عبادت اصل میں تو اپنے وقت میں ہوتی ہے،اور قضائی صرف کسی عذر کی وجہ سے رہنے والی عبادت  کی ہوتی ہے،*

جیسے نماز کے بارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جسکی نماز سونے یا بھولنے کی وجہ سے رہ جائے تو جب یاد آئے وہ اسے پڑھ لے،اسکے علاوہ اس پر کوئی کفارہ نہیں،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-684)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-442)

اسکے علاوہ بھی بہت ساری روایات میں یہ بات تو ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عذر کی وجہ سے رہ جانے والی نمازوں کی قضا کا حکم تو دیا ہے اور قضاء پڑھی بھی ہیں مگر ایسی کوئی روایت نہیں ملتی جس میں آپ نے جان بوجھ کر فرضی عبادت چھوڑنے والے کو قضا کا حکم دیا ہو۔۔۔۔

اور پھر یہ بھی ہے کہ ایک شخص نے 20، 30 سال روزے نہیں رکھے یا 80 سال روزے نہیں رکھے تو اب وہ توبہ کے بعد انکی قضائی کیسے دے گا؟

قضاء عبادت کی مزید تفصیل کے لیے۔۔! (( دیکھیں سلسلہ نمبر-122 ))

2_ ہمبستری سے روزہ توڑنے والا،

اور جو بھی رمضان المبارک میں دن کے وقت عمدا اور اپنے اختیارسے جماع کرے،
کہ دونوں میاں بیوی کی شرمگاہیں مل جائيں کہ ایک دوسرے میں غائب ہو جائیں، تو انکا روزہ فاسد ہوجائے گا چاہے انزال ہو یا نہ ہو ، انہیں اس کام پر اللہ تعالی سے توبہ کرنی چاہيۓ ۔

اور انکے لیے اس دن کا روزہ پورا کرنا ضروری ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اس روزہ کی قضاء بھی ہوگی ، اوراس پر کفارہ مغلظہ ہوگا ، اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث ہے :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ایک  ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ!
میں تو تباہ ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی؟
اس نے کہا کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کر سکو؟ اس نے کہا نہیں،
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟
اس نے عرض کی نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ اس نے اس کا جواب بھی انکار میں دیا، راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئے، ہم بھی اپنی اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بڑا تھیلا ( عرق نامی ) پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ عرق تھیلے کو کہتے ہیں ( جسے کھجور کی چھال سے بناتے ہیں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے اسے لے لو اور صدقہ کر دو، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جا سکے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر_ 1936)

یعنی جماع سے روزہ توڑنے والا ،
روزے کی قضا بھی کرے گا،
اور کفارہ بھی ادا کرے گا،

کفارہ یہ ہے کہ
ایک غلام آزاد کرے،
نا ہو سکے تو دو ماہ کے لگاتار روزے رکھے گا،
نا رکھ سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے،
اگر اسکے پاس استطاعت نا ہو تو کوئی دوسرا اسکی طرف سے یہ کفارہ ادا کر سکتا ہے،

نیز_
اگر شوہر بیوی سے زبردستی کرے تو کفارہ صرف شوپر پر ہو گا،
اور بیوی صرف قضا دے گی،
اور اگر بیوی کی بھی رضا مندی ہو تو دونوں قضا بھی کریں گے اور کفارہ بھی دیں گے،
(دیکھیں فتاویٰ شیخ ابن باز رحمہ اللہ)

3_جان بوجھ کر روزہ توڑنے والی تیسری چيز شہوت سے منی خارج کرنا ہے،

وہ مشت زنی سے ہو کہ ہاتھ وغیرہ سے منی کا اخراج کیا جائے یا بیوی سے مباشرت اور بوس وکنار کرتے ہوئے یا فحش فلمیں دیکھتے ہوئے منی خارج کر دے تو اسکا روزہ ٹوٹ جائے گا،

منی خارج کرنے سے روزہ ٹوٹنے کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث قدسی ہے

اللہ تعالی نےروزہ دار کےبارہ میں فرمایا :

( وہ اپنا کھانا پینا اورشہوت میری وجہ سے ترک کرتا ہے
(صحیح بخاری حدیث نمبر_ 1894)

اورمنی کا اخراج بھی اسی شھوت میں سے ہے جسے روزہ دار ترک کرتا ہے

لہذا جس نے بھی رمضان المبارک میں دن کو روزہ کی حالت میں شہوت سے منی خارج کی اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس دن کو بغیر کھائے پیۓ ہی رہے ، اوربعد میں اس کی قضاء بھی دے ۔

اوراگر وہ مشت زنی شروع ہی کرے پھر انزال سے قبل ہی رک جائے اور انزال نہ ہوا ہو تو اس کا روزہ صحیح ہے ، انزال نہ ہونے کی وجہ سے اس پر اس روزہ کی قضاء نہيں ۔

اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ ہرشہوت انگيخت چيز سے دور ہی رہے ، اور اپنے خیالات کو غلط اور ردی قسم کے خیالات سے بچا کر رکھے،

نوٹ_مذی یعنی لیس دار مادہ خارج ہونے سے یا رات کو خواب میں احتلام آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا،

*لہذا جماع کے علاوہ کسی بھی چیز سے روزہ توڑنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا*

(دیکھیں سعودی فتاوی ویبسائٹ  islamqa.info)
(کتاب : مجالس رمضان للشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ، اورکتاب : سبعون مسئلۃ فی الصیام ۔

_________$$$$_________

*جان بوجھ کر روزہ توڑنے کی دوسری صورت*

نذر یا قسم کے روزے یا قضا والے روزے توڑنے کا حکم،

شیخ ابم عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
جب کوئي انسان واجب روزہ شروع کر لے ،
مثلا رمضان کی قضاء یا قسم کے کفارہ کا روزہ ، یا پھر حج میں محرم کا احرام کی حالت میں سرمنڈانے کے فدیہ کے روزے اور اس طرح کے دوسرے واجب روزے ، توبغیر کسی شرعی عذر کے روزہ توڑنا جائز نہیں ۔
اوراسی طرح جوبھی کوئي واجب کام شروع کردے اس پراسے مکمل کرنا لازم ہے اوربغیر کسی شرعی عذر کے ختم کرنا جائز نہیں ،
لہذا  جس نے قضاء کاروزہ رکھنے کے بعد بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ توڑا تو وہ  اس کے بدلے ایک روزہ رکھے گا، کیونکہ ایک دن کے بدلے میں ایک دن کی ہی قضاء ہوتی ہے ۔
لیکن اسے اپنےاس فعل سے توبہ، استغفار کرنی چاہیے کہ اس نے بغیر کسی عذر کے روزہ توڑا ۔ اھـ
دیکھیں فتاوی ابن عثیمین ( 20 / 451
_________&&___________

*روزہ توڑنے کی تیسری صورت*

نفلی روزہ توڑنے پر کوئی قضا یا کفارہ نہیں ہو گا،اور نا ہی کوئی گناہ ہو گا،

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے اور پوچھتے: کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ ہم کہتے: نہیں،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے: میں روزے سے ہوں ، اور اپنے روزے پر قائم رہتے،
پھر کوئی چیز بطور ہدیہ آتی تو روزہ توڑ دیتے،
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کبھی روزہ رکھتے، اور کبھی کھول دیتے، میں نے پوچھا:
یہ کیسے؟ تو کہا: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی صدقہ نکالے پھر کچھ دے اور کچھ رکھ لے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1701)

عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے تو پوچھتے: ”کیا تمہارے پاس کھانا ہے؟“ میں کہتی: نہیں۔ تو آپ فرماتے: ”تو میں روزے سے ہوں“، ایک دن آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ایک ہدیہ آیا ہے۔ آپ نے پوچھا: ”کیا چیز ہے؟“ میں نے عرض کیا: ”حیس“، آپ نے فرمایا: ”میں صبح سے روزے سے ہوں“، پھر آپ نے کھا لیا۔
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_734)

ام ہانی رضی الله عنہا  کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں آئے تو آپ نے کوئی پینے کی چیز منگائی اور اسے پیا۔ پھر آپ نے انہیں دیا تو انہوں نے بھی پیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں تو روزے سے تھی۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا امین ہے، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا اگر روزہ توڑ دے تو اس پر کوئی قضاء لازم نہیں الا یہ کہ وہ( اپنی مرضی سے) قضاء کرنا چاہے۔
یہی سفیان ثوری، احمد، اسحاق بن راہویہ اور شافعی کا قول ہے،
(سنن ترمذی،حدیث بر-732)

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں،
کہ ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،
میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اتنے میں آپ کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ نے اس میں سے پیا، پھر مجھے دیا تو میں نے بھی پیا۔ پھر میں نے عرض کیا: میں نے گناہ کا کام کر لیا ہے۔ آپ میرے لیے بخشش کی دعا کر دیجئیے۔ آپ نے پوچھا: ”کیا بات ہے؟“ میں نے کہا: میں روزے سے تھی اور میں نے روزہ توڑ دیا تو آپ نے پوچھا: ”کیا کوئی قضاء کا روزہ تھا جسے تم قضاء کر رہی تھی؟
عرض کیا: نہیں،
آپ نے فرمایا: ”تو اس سے تمہیں کوئی نقصان ہونے والا نہیں،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-731)

*ان احادیث سے پتا چلا کہ بنا کسی عذر کے نفلی روزہ توڑا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں،جیسے کوئی کھانے کی دعوت دے  تو روزہ توڑ سکتے ہیں*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS