Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke Liye Roze Ke Ahkaamat, Pregnet Aurat Ka Roza, Kya Pregnet Aurat Roza Rakh Sakti Hai, Kya Doodh Pilane Wali Aurat Roza Rakh Sakti Hai, Roza Aur Aurton Ke Masail
Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke
Liye Roze Ke Ahkaamat, Pregnet Aurat Ka Roza, Kya Pregnet Aurat Roza
Rakh Sakti Hai, Kya Doodh Pilane Wali Aurat Roza Rakh Sakti Hai, Roza
Aur Aurton Ke Masail
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه :
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه :
Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke Liye Roze Ke Ahkaamat |
◆ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے روزہ کے احکامات :
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَوَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَغَدَّى، فَقَالَ: " ادْنُ فَكُلْ "، قُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: " اجْلِسْ أُحَدِّثْكَ عَنِ الصَّوْمِ، أَوِ الصِّيَامِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ شَطْرَ الصَّلَاةِ، وَعَنِ الْمُسَافِرِ، وَالْحَامِلِ، وَالْمُرْضِعِ الصَّوْمَ، أَوِ الصِّيَامَ "، وَاللَّهِ لَقَدْ قَالَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلْتَاهُمَا، أَوْ إِحْدَاهُمَا، فَيَا لَهْفَ نَفْسِي، فَهَلَّا كُنْتُ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی عبدالاشہل کے اور علی بن محمد کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عبداللہ بن کعب کے ایک شخص نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار ہمارے اوپر حملہ آور ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ دوپہر کا کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب آ جاؤ اور کھاؤ“ میں نے کہا: میں روزے سے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھو میں تمہیں روزے کے سلسلے میں بتاتا ہوں“ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے، اور مسافر، حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی) سے روزہ معاف کر دیا ہے، قسم اللہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں باتیں فرمائیں، یا ایک بات فرمائی، اب میں اپنے اوپر افسوس کرتا ہوں کہ میں نے آپ کے کھانے میں سے کیوں نہیں کھایا ۔
تخریج دارالدعوہ:
سنن ابی داود/الصوم ۴۳ (۲۴۰۸)،
سنن الترمذی/الصوم ۲۱ (۷۱۵)،
سنن النسائی/الصوم ۲۸ (۲۲۷۶)، ۳۴ (۱۳۱۷)،
(تحفة الأشراف: ۱۷۳۲)، وقد أخرجہ:
مسند احمد (۴/۳۴۷، ۵/۲۹) (حسن صحیح)
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
وضاحت: : اگر حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے روزہ رکھنے سے پیٹ کے بچہ کو یا دودھ پینے والے بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں، اور بعد میں ان کی قضا کریں۔
✵ اس بارے میں فتوی کمیٹی کا کہنا ہے :
سب سے صحیح رائے کے مطابق حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون کا حکم بیمار عورت کی طرح ہوگا اور اسے روزہ نہ رکھنےکی اجازت ہے اسے صرف بعد میں روزوں کی گنتی پوری کرنی ہوگی اگر وہ خود کی یا بچےکی صحت کا خوف محسوس کرے ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ و سلّم نے فرمایا : "الله نے مسافر کو روزہ موخر کرنے اور نصف نماز ادا کرنیکی رخصت دی ہے جبکہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون کو روزہ موخر کرنیکی رخصت دی ہے"- (ترمذ ی ، ٣/٨٥ ، اسے امام ترمذی نے حسن کہا ہیں-)
اگر حاملہ خاتون کو روزہ رکھنے کے بعد خون آئے تب بھی اسکا روزہ صحیح ہوگا اور اسے اسکے روزے پر کچھ بھی اثر نہیں ہوگا- (فتاوى اللجنة الدائمة ، ١٠/٢٢٥
اب اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دو سالوں کے روزے اکٹھے کسی وقت قضا کر لے۔
۔|
فتوی کمیٹی
✵ فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ کہتے ہیں :
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی عذر کے بغیررمضان کے روزے چھوڑیں ۔اور اگر کسی عذر کی وجہ سے انہیں رمضان کے روزے چھوڑنا پڑیں توان دنوں کی قضا لازم ہوگی جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ َ ﴿۱۸۴﴾(البقرہ )
پس تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے
اور یہ دونوں قسم کی عورتیں مریض کے حکم میں ہیں اور اگر ان کا عذر یہ ہو کہ وہ روزے کی وجہ سے بچے کی صحت کے بارے میں خائف ہوں تو پھر قضا کے ساتھ ساتھ ان پر فدیہ بھی لازم ہوگا۔فدیہ یہ ہے کہ ہرروز ایک مسکین کو گندم یا چاول ،کھجور یا جولوگوں کی خوراک ہو سو وہ دی جائے۔لیکن بعض علماء کے بقول حاملہ اور مرضعہ پرہرحال میں صرف قضا ہی لازم ہے۔کیونکہ وجوبِ فدیہ کی کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیں ہے۔اوراصول یہ ہے کہ جب تک وجوب کی دلیل نہ ہو اس وقت تک آدمی بری الذمہ ہے۔امام ابو حنیفہؒ کا بھی یہی مذہب ہے ۔اور یہی مذہب قوی ہے ۔
فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ
فتاویٰ اسلامیہ/جلد دوم
✵ حاملہ عورت کو اگر رمضان میں روزہ رکھنے کی وجہ سےاپنے یا اپنے بچے کے بارے میں نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھے اور اس کے ذمہ صرف قضا ہوگی کیونکہ اس کی حالت اس انسان جیسی ہے جسے روزے کی طاقت ہی نہ ہو یا روزہ رکھنے سے اسے نقصان ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ َ ﴿۱۸۴﴾(البقرہ )
پس تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے
اسی طرح اگر مرضعہ عورت کو رمضان میں بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ ہو یا روزہ رکھنے کی وجہ سے بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتووہ بھی روزہ چھوڑ دے اور رمضان کے بعد صرف قضا دے لے۔
فتاویٰ کمیٹی/ فتاویٰ اسلامیہ:جلد دوم
✵ احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا میں مذکور ہے :
حمل والی یا دودھ پلانے والی عورت کے لیے رمضان کا روزہ چھوڑنا حلال نہیں ہے، سوائے اس کے کہ وہ واقعی معذور ہو۔ اگر عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑے تو اسے ان دنوں کی قضا دینی واجب ہے اور اتنے ہی دنوں کے روزے رکھے جتنے اس نے چھوڑے ہوں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے مریض کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ... ﴿١٨٥﴾... سورةالبقرة
"اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔"
اور یہ دونوں مریض کے حکم میں ہیں۔ اور اگر انہیں بچے کا خوف ہو اور اس کی وجہ سے روزہ چھوڑیں، تو انہیں قضا دینے کے ساتھ ساتھ ہر روزے کے بدلے ایک ایک مسکین کا کھانا بھی دینا چاہئے، گندم، چاول یا کھجور وغیرہ جو غلہ بھی بالعموم کھایا جاتا ہو۔
اور بعض علماء کہتے ہیں کہ ان پر ہر صورت میں سوائے قضا روزے کے اور کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ کھانا کھلانے کے وجوب کی قرآن و سنت سے کوئی دلیل ثابت نہیں ہے، اور اصل چیز ذمیہ فرض کی ادائیگی ہی ہے، حتیٰ کہ مزید کے لیے کوئی دلیل ثابت ہو اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہی ہے اور یہی قوی ہے۔
(محمد بن صالح عثیمین)
احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیاصفحہ نمبر 351
✵ فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ کہتے ہیں :
دودھ پلانے والی اور اسی طرح حاملہ عورت کی دوحالتیں ہیں :
① پہلی حالت :
روزہ اس پر اثرانداز نہ ہو ، اورنہ ہی اسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو اورنہ ہی اسے اپنے بچے کا خدشہ ہے ، ایسی عورت پرروزہ رکھنا واجب ہے اوراس کے لیے جائز نہیں کہ وہ روزہ ترک کرے ۔
② دوسری حالت :
عورت کواپنے آپ یا پھر بچے کونقصان نہ خدشہ ہو ، اوراسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو توایسی عورت کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے لیکن وہ بعد میں اس کی قضاء میں چھوڑے ہوئے روزے رکھے گی ۔
اس حالت میں اس کے لیے روزہ نہ رکھنا افضل اوربہتر ہے بلکہ اس کے حق میں روزہ رکھنا مکروہ ہے ، بلکہ بعض اہل علم نے تویہ کہا ہے کہ اگر اسے اپنے بچے کا خطرہ ہو تو اس پر روزہ ترک کرنا واجب اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔
مرداوی رحمہ اللہ تعالی " الانصاف " میں کہتے ہیں :
ایسی حالت میں اس کے لیے روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔۔۔ اورابن عقیل رحمہ اللہ تعالی نے ذکرکیا ہے کہ : اگر حاملہ اوردودھ پلانے والی کوحمل کا بچے کو نقصان ہونے کا خطرہ ہو تواس کے لیے روزہ رکھنا حلال نہیں ، اوراگر اسے خدشہ نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا حلال ہے ۔ ا ھـ اختصار کے ساتھ ۔
دیکھیں : الانصاف للمرداوی ( 7 / 382 ) ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل 👇 سوال کیا گيا :
جب حاملہ اوردودھ پلانے والی قوی اورچوک وچوبند اور بغیر کسی عذر کے روزہ نہ رکھے اورنہ ہی وہ روزے سے متاثر ہوتواس کیا حکم ہوگا ؟
حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لیے بغیر کسی عذر کے روزہ ترک کرنا جائے نہيں ، اوراگر وہ کسی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھیں توان پر بعد میں ان روزوں کی قضاء کرنا واجب ہوگی ۔
اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اورجوکوئي مریض ہویا پھر مسافر اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا ہوگي } ۔
یہ دونوں عورتیں بھی مریض کی مانند ہی ہیں ، اور جب ان کا عذر ہو کہ روزہ رکھنے سے انہیں بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہو تووہ روزہ نہ رکھیں اوربعد میں ان ایام کی قضاء کرلیں اوربعض اہل علم قضاء کے ساتھ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو گندم یا چاول یا کھجور وغیرہ بھی دینا ہوگي ۔
اوربعض علماء کرام کہتے ہیں کہ : ہرحال میں انہيں روزوں کی قضاء کرنا ہوگي ، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں اس لیے کہ کتاب وسنت میں کھانا کھلانے کی کوئي دلیل نہیں پائي جاتی ، اوراصل توبری الذمہ ہونا ہے ، یہاں تک کہ اس سے کوئي دلیل مشغول کردے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے اورقوی بھی یہی ہے ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 161 ) ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے یہ بھی پوچھا گيا کہ :
اگرحاملہ عورت کواپنے آپ یا اپنے بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہوتواس کے روزہ افطار کرنے کا حکم کیا ہے ؟
توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
ہم اس کے جواب میں کہيں گے کہ حاملہ عورت دوحالتوں سے خالی نہيں:
پہلی حالت : عورت قوی اورچست ہو روزہ رکھنے سے اسے کوئي مشقت نہ ہو اورنہ ہی اس کے بچے پر اثرانداز ہو، توایسی عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے ، اس لیے کہ روزہ ترک کرنے کے لیے اس کے پاس کوئي عذر نہيں ۔
دوسری حالت : حاملہ عورت جسمانی کمزوری یا پھر حمل کے بوجھ کی وجہ وغیرہ سے روزہ رکھنے کی متحمل نہ ہو ، تواس حالت میں عورت روزہ نہيں رکھے گی ، اورخاص کرجب بچے کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تواس وقت بعض اوقات روزہ چھوڑنا واجب ہوجاتا ہے ۔
اگروہ روزہ نہ رکھے تو وہ بھی دوسرے عذر والوں کی طرح عذر ختم ہونے کے بعد روزہ قضاء کرے گی ، اورجب ولادت سے فارغ ہوجائے تونفاس کے غسل کے بعد اس پران روزوں کی قضاء واجب ہے ، لیکن بعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حمل سے فارغ ہو تواسے کوئي اورعذر درپیش ہوجائے مثلا دودھ پلانا ، اس لیے کہ دودھ پلانے والی کھانے پینے کی محتاج ہوتی ہے اور خاص کر گرمیوں کے لمبے دنوں اورشدید گرمی میں تواسے روزہ نہ رکھنے کی ضرورت ہوگي تاکہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاسکے ۔
تو اس حالت میں بھی ہم اسے یہ کہيں گے کہ آپ روزہ نہ رکھیں بلکہ جب عذر ختم ہوجائے توترک کیے ہوئے روزوں کی قضاء کرلیں ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 162 ) ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہنا ہے :
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ترک کرنے کی اجازت دی ہے :
انس بن مالک کعنبی کی حدیث ، جسے احمد اوراہل سنن نےصحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو روزہ چھوڑے کی رخصت دی اورانہیں مسافرکی مانند قرار دیا ہے ۔
تواس سے یہ علم ہوا کہ وہ دونوں بھی مسافر کی طرح روزہ ترک کرکے بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراہل علم نے یہ ذکر کیا ہے کہ یہ دونوں روزہ اس وقت نہيں رکھیں گی جب انہيں مریض کی طرح روزہ رکھنا مشکل ہواور اس میں مشقت ہویا پھر وہ دونوں اپنے بچے کا خطرہ محسوس کریں ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ اھـ
دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 15 / 224 ) ۔
اورفتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے :
حاملہ عورت پر حمل کی حالت میں روزے رکھنا واجب ہیں لیکن جب اسے روزہ رکھنے کی بنا پر اپنے آپ یا بچے پرخطرہ ہو توروزہ چھوڑنے کی رخصت ہے ، لیکن اسے ولادت اورنفاس کےبعد چھوڑے ہوئے روزے بطور قضاء رکھنا ہونگے ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 226 ) ۔
✵ أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر‘ عفا الله عنہ کہتے ہیں
اللہ تعالى نے حاملہ اور مرضعہ کے لیے رخصت رکھی ہے کہ وہ اگر مشقت محسوس کریں اور روزہ نہ رکھ سکیں تو رمضان میں روزہ نہ رکھیں , پھر جب انہیں سہولت میسر آئے تو اس وقت روزہ رکھ کر رمضان کے روزے مکمل کر لیں ۔
اللہ تعالى کا فرمان ہے : فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضاً
أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
[البقرة : 185]
تم میں سے جو بھی اس (رمضان کے ) مہینے کو پا لے وہ اسکا روزہ رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو تو وہ بعد کے دنوں میں تعداد مکمل کر لے ۔ اللہ تعالى تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے تنگی نہیں کرنا چاہتا ۔ اور یہ بھی چاہتا ہے کہ تم روزوں کی تعداد مکمل کر لو اور جو اللہ نے تمہیں ہدایت دی ہے اس پر اسکی بڑائی بیان کرو اور شکر گزار بن جاؤ
عورت کو دودھ پلانے اور حمل کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے۔ لیکن انہیں روہ معاف نہیں ہے۔ ان ایام میں اگر یہ روزہ نہیں رکھ سکتیں تو نہ رکھیں لیکن بعد میں انہیں روزوں کی قضاء دینا ہوگی۔ انکا حکم بھی بیمار والا ہی ہے۔ اور بیمار کے بارہ میں اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ
بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
تم میں سے جو بھی رمضان کے مہینے کو پائے اس پہ لازم ہے کہ وہ روزہ رکھے۔ اور جو بیمار
ہو یا سفر پہ ہو تو بعد کے دنوں میں(روزوں کی) گنتی پوری کرنا ہے۔ اللہ تعالى تمہارے ساتھ
آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔ اور تاکہ تم تعداد مکمل کرو اور اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ
اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور تاکہ تم شکرگزار بنو۔
سورۃ البقرۃ: 185
حاملہ عورت اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو روزے کہ رخصت کے بارے میں غلام مصطفی ظہیر امن پوری کہتے ہیں
✵ بچے کو دودھ پلانے والی عورت روزہ کے دوران بچے کو دودھ پلا سکتی ہے❓
اگر بچے کو دودھ پلانے والی عورت رمضان کا روزہ رکھتی ہے اور بچے کو دودھ بھی پلاتی ہے تو اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
وقال ابن عباس وعکرمۃ رضی اللہ عنھما "الصوم مما دخل و لیس مما خرج”
حضرت ابن عباس اور عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ روزہ دار کے معدہ میں کسی چیز کے
داخل ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا۔
(صحیح بخاری)
اور ماں کا دودھ خارج ہوتا ہے لہذا روزے میں دودھ پلانے سے کوئی حرج نہیں ہے
(تفہیم المسائل جلد 6، صفحہ 204)
✵ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حظہ اللہ کہتے ہیں :
حاملہ عورت اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو یہ رخصت عنائت فرمائی ہے کہ کہ اگر وہ اپنی جسمانی کمزوری یا اپنے بچے کی کمزوری یا دودھ میں نقصان کا خدشہ محسوس کریں تو روزہ نہ رکھے ، بلکہ ہرروزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے ، اس پر قضاء بھی نہیں ہے ، جیسا کہ سیدنا انس بن مالک الکعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أغارت علینا خیل رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم فأتیت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فوجدتّہ یتغدّی ، فقال : ادن ، فکل ، فقلت : انّی صائم ، فقال : ادن أحدّثک عن الصّوم أو الصّیام ، انّ اللّٰہ تعالیٰ وضع عن المسافر الصّوم وشطر الصّلاۃ ، وعن الحامل أو المرضع الصّوم أو الصّیام ، واللّٰہ ! لقد قالھما النّبیّ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم کلتیھما أو احداھما ، فیا لھف نفسی ! أن لا أکون طعمت من طعام النّبیّ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”ہم پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے چڑھ آئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے ، آپ نے فرمایا ، قریب ہو اور کھا ، میں نے عرض کی ، میں روزے دار ہوں ، فرمایا ، قریب ہو جا کہ میں تجھے روزے یا روزوں کے بارے میں بتاؤں ، یقینا اللہ تعالیٰ نے مسافر کوروزہ اور آدھی نماز معاف کر دی ہے ، نیز حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کو بھی روزہ یا روزے معاف کر دئیے ہیں ، اللہ کی قسم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں کلمات (روزہ یا روزے) کہے یا ان دونوں میں سے ایک کہا ، افسوس کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا نہ کھایا !”
(سنن ابی داو،د : ٢٤٠٨، سنن النسائی : ٢٢٧٩، سنن الترمذی : ٧١٥، واللفظ لہ ، سنن ابن ماجہ : ١٦٦٧، حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن” اور امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ ن(٢٠٤٤)نے”صحیح” کہا ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر سے ایسی حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا جسے اپنے بچے کے نقصان کا خطرہ ہو ، آپ نے فرمایا ، وہ روزہ چھوڑ دے ، اس کے بدلے میں ایک مسکین کو ایک ”مد ”(تقریباً نصف کلو گرام)گندم دے دے ۔
(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٤/٢٣٠، وسندہ، صحیح سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے ایک حاملہ عورت نے روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : أفطری ، وأطعمی عن کلّ یوم مسکیناً ولا تقضی ۔
”تو روزہ چھوڑ دے اور ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے ، پھر قضائی نہ دے ۔”
(سنن الدارقطنی : ١/٢٠٧، ح : ٢٣٦٣، وسندہ، صحیح)
نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر کی ایک بیٹی ایک قریشی کے نکاح میں تھی ، وہ حاملہ تھی ، رمضان میں اس نے پیاس محسوس کی تو آپ نے اسے حکم دیا کہ روزہ چھوڑ دے ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے ۔(سنن الدارقطنی : ١/٢٠٧، ح : ٢٣٦٤، وسندہ، صحیح)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرمانِ باری تعالیٰ ( وعلی الّذین یطیقونہ فدیۃ )(البقرۃ : ١٨٤)کی تفسیر میں فرماتے ہیں : أثبتت للحبلٰی والمرضع ۔ ”یہ آیت حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے ثابت (غیر منسوخ) رکھی گئی ہے ۔”(سنن ابی داو،د : ٣٢١٧، وسندہ، صحیح)
عظیم تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت جو اپنے بچے کے حوالے سے خائف ہو ، کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ، چھوڑے ہوئے روزے کی قضائی بھی ان دونوں پر نہیں ہے ۔
(مصنف عبد الرزاق : ٤/٢١٦، ح : ٧٥٥٥، وسندہ، صحیح)
بعض اہل علم کا یہ کہنا کہ یہ دونوں روزے کی قضائی بھی دیں گی ، بے دلیل ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے ۔
الحاصل : حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ، ان پر کوئی قضائی نہیں ۔
✵ اس بارے میں علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی کا فتویٰ ہے
رمضان کے مہینے میں اگر حاملہ عورت اپنے اپ پر یا اپنے بچے پر خوف رکھتے ہوئے روزہ چھوڑ دے تو اس عورت پر صرف ان روزوں کی قضا لازم ہے، اس کی مثال اس مسئلہ میں اس مریض کی سی ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو یا روزے کی وجہ سے اپنے آپ پر نقصان کا اندیشہ رکھتا ہو،
الله تعالى نے فرمايا:
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
ﮨﺎﮞ ﺟﻮ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮔﻨﺘﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﻛﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ
سورۃ البقرۃ: 185
اور اسی طرح دودھ پلانے والی عورت اگر اپنے آپ پر اپنے بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے خوف رکھے، یا اپنے بچے پر خوف رکھے کہ اگر اس نے روزہ رکھا تو اپنے بچے کو دودھ نہ پلا پائے گی اور اس نے روزہ چھوڑ دیا تو اس عورت پر صرف قضا لازم ہوگی۔
اس مفہوم کی ایک سخت ضعیف حدیث قابل تحریر ہے
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحُبْلَى الَّتِي تَخَافُ عَلَى نَفْسِهَا أَنْ تُفْطِرَ، وَلِلْمُرْضِعِ الَّتِي تَخَافُ عَلَى وَلَدِهَا ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ کو جسے اپنی جان کا ڈر ہو، اور دودھ پلانے والی عورت کو جسے اپنے بچے کا ڈر ہو، رخصت دی کہ وہ دونوں روزے نہ رکھیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۴۰) (ضعیف جدا) (اس کی سند میں ربیع بن بدر متروک راوی ہیں)
حدیث نمبر: 1668
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
- Kya Napaki Ki Halat Me Sehri Kha Sakte Hai?
- Ramzan ke Mahine Me Shaitan Ko Kaid Kar Liya Jata Hai.
- Taraweeh Ki Namaj 8 ya 20 rakaat Sunnat HAi?
- Ramzan Ke Mahine Me Kya Aurat Haiz ko rokne ke liye Dawa Le Sakti hai?
- Iftar ke Waqt Padhi Jane wali Dua.
- Kiske Nam Se Mannat Mangna Chahiye?
Ramzan Ka Mahina Kaisa Mahina Hai? - ramzan Ke mahine me Jhoot nahi bolne walo ko khush khabri.
- Quran Padhne Walo Ki Azmat
- Roza Ke Fazail Wa Masail,Ramzan Ka Chaand Aur Dua
- Roza Farz Hone Ke Sharayet, Kis Par Ramzan Ke Roze Farz Hain
- Rozedar Ke Liye Jayez Kaam
- Roze Ki Niyat Ke Masail ~ Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga
- Iftar Ka Waqt Aur Uske Masail~ Iftar Ki Dua, Iftar Ka Sahih Waqt
- Musaafir Ke Roze Ke Ahkaam Aur Masail
Masha allah
ReplyDeleteAllah aapako hamesha sehatyab rakhe
ReplyDeleteماشا اللہ
ReplyDeleteاللہ آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو ہمیشہ خوش رکھے۔