Musalmano ki yah Purani aadat rahi hai ke bina Kisi Makool Wajah ke kisi pe hamla nahi karte.
*<فاتح اندلس*
*طارق بِن زِیاد*
تحریر:- *صادق حسين
قسط نمبر 32___________________Part 32
جوش جہاد__________ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ عیسائی دریائے وادئ بیکا پر شکست کها کر قرطبہ، ملاگا اور دوسری اطراف میں بھاگ گئے تھے -
طارق نے اپنے لشکر کے تین حصے کر دئیے تھے -
ایک حصہ تو اپنے ساتھ رکها اور اندلس کے دارالسلطنت طلیطلہ کی طرف روانہ ہو گئے تھے -
مغیث الرومی کو قرطبہ کی جانب بهیجا اور زید کو ملاگا کی طرف.
زید نے ملاگا پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا- مغیث الرومی قرطبہ کے قریب پہنچ گئے تھے - انہوں نے قلعہ سے زرا فاصلہ پر قیام کر دیا تھا -
مسلمانوں کی یہ عادت ہمیشہ رہی ہے کہ وہ کسی ملک پر بغیر کسی معقول وجہ سے حملہ آور نہ ہوتے تھے اور جب کسی ملک یا قلعہ پر حملہ کرتے تھے تو پہلے وہاں کے باشندوں اور حکمرانوں کے پاس صلح کے لیے قاصد بهیج کر اتمامِ حجت کر لیتے تھے-
چنانچہ مغیث الرومی نے بھی ایک قاصد قرطبہ والوں کے پاس بهیجا.
قرطبہ میں رازرق کا ایک رشتہ دار بھی تھا اول تو وہ خود قرطبہ ہی میں کافی لشکر موجود تھا دوسرے شکست خوردہ عیسائی بھی وہاں آ گئے تھے اور اس سے لشکر کی جمعیت بڑهہ گئی تھی -
اس کے علاوہ قلعہ نہایت مضبوط اور ناقابل تسخیر تھا قلعہ دار اور عام عیسائیوں کو پورا اطمینان تھا کہ مسلمان قلعہ کو آسانی سے فتح نہیں کر سکتے-
انہوں نے قلعے کے تمام دروازے بند کر دئیے تھے اور فصیل پر لشکر متعین کر دیا تھا -
اسلامی قاصد قلعہ کے سامنے جا ٹھہرا وہ عربوں کی مخصوص پوشاک پہنے اور اسلامی علم ہاتھ میں لئے ہوئے تھے -
عیسائیوں نے دیکھ کر شور مچا دیا شور سن کر ہر طرف عیسائی سمٹ کر اس کی طرف آ گئے اور انہوں نے قاصد کو دیکھ کر کہا - "
یہ ہے اس قوم کا فرد جو جزیرہ خضر میں کہیں سے آ گئی ہے اور جس نے رازرق کے ٹڈی دل لشکر کو شکست فاش دی ہے جو مارنا جانتے ہیں اور مرنا نہیں جانتے-"
شور سن کر قلعہ دار بھی آ گیا اور اس نے برج میں سے جھانک کر دیکھا.
وہ سمجھتا تھا کہ مسلمان کوئی عجیب مخلوق ہو گی -
ایسی مخلوق کہ جسے انسانوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا نہ اسے انسان کہا جا سکے مگر اب جب کہ قاصد کو دیکھا تو اس نے کہا - "
ارے یہ تو ہماری طرح سے انسان ہیں ان سے لڑنے میں کیا بڑی بات ہے - "
اس کے قریب ایک وہ افسر تھا جو وادی بیکا میں مسلمانوں سے شکست کها کر آیا تھا اس نے کہا - "
حضور یہ صرف دیکھنے میں انسان ہیں مگر جب لڑتے ہیں تو انسانوں سے بالاتر ہو جاتے ہیں-"
قلعہ دار نے منہ بنا کر کہا - "
کیا واہیات بات ہے؟ یہ انسان ہیں ہماری طرح کے انسان ان سے لڑنا کوئی بڑی بات نہیں ہے - "
افسر اب جب کہ حضور ان سے لڑیں گے تب معلوم ہو جائے گا -
قلعہ دار:تم دیکھ لو گے کہ میں ان سب کو قتل کر ڈالوں گا یا انہیں شکست دے کر بھگا دوں گا.
افسر:مسیح کرے کہ ایسا ہی ہو! !
قلعہ دار نے غرور سے کہا ایسا ہی ہو گا - "
افسر:دیکھئے حضور وہ قاصد کچھ کہہ رہا ہے! !!
قاصد بلند آواز سے کہہ رہا تھا - میں تمہارے سردار سے کچھ کہنا چاہتا ہوں - "
قلعہ دار یہ تو ایسی زبان میں گفتگو کر رہا ہے جیسے یہودی بولا کرتے ہیں کسی یہودی کو بلاو فوراً!
کئ لوگ دوڑ گئے اور دو یہودیوں کو بلا لائے، قلعہ دار نے ان سے کہا اس قاصد سے دریافت کرو کہ یہ کیا کہنا چاہتا ہے! "
ایک یہودی نے قاصد سے دریافت کیا تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟ "
قاصد:میں مسلمان ہوں عربی اور قاصد ہوں یہودی نے قلعہ دار کو عرب کی گفتگو سے آگاہ کیا اور قلعہ دار نے استعجاب بھرے لہجے میں کہا-"
عرب ہے مسلمان ہے یہ تو شاید وہ قوم ہے جس نے ہرقل اعظم کی سلطنت کو شام میں زیر و زبر کر ڈالا تھا - "
یہودی:جی ہاں یہ اسی قوم کا ایک فرد ہے جس قوم کا آج تک کسی قوم نے مقابلہ نہیں کیا.
قلعہ دار:فضول بات ہے تم دیکهو گے کہ میں اس قوم کو شکست دوں گا تم عربی قاصد سے دریافت کرو کہ کیا چاہتے ہیں؟ "
یہودی نے بلند آواز سے قاصد سے دریافت کیا تم کیا کہنے آئے ہو؟ "
قاصد:تمہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ اندلس کے بادشاہ کو ہزیمت ہوئی ہے وہ مارا گیا ہے اور اس کا لشکر پراگندہ ہو گیا ہے.
ہمارا سردار چاہتا ہے کہ تم خون ریزی نہ کرو قلعہ ہمارے حوالے کر دو امن اور سلامتی کا اطمینان دلاتے ہیں ہم تمہیں تم پر جس قدر محصولات ہیں سب معاف کر دئیے جائیں گے - صرف مال گزار اور جزیہ دو محصول باقی رکهے جائیں گے -
قلعہ دار نے کہا اس مغرور قاصد سے کہہ دو ہم کسی شرط پر بھی قلعہ ان کے حوالے نہیں کریں گے البتہ اگر یہ چاہیں تو ہم ان پر صرف اتنی مہربانی کر سکتے ہیں کہ یہاں سے واپس چلے جائیں اور ہم ان سے کچھ نہ کہیں-"
یہودی نے قلعہ دار کی گفتگو سے قاصد کو آگاہ کیا اب قارئین یہ سمجھ لیں کہ قلعہ دار اور قاصد میں جو گفتگو ہوئی وہ یہودی کے توسل سے ہوئی تھی.
قاصد:اگر تم سے انکار کرتے ہو تو پھر قلعہ پر حملہ کیا جائے گا اور قلعہ فتح کر لینے کے بعد تمہارے ساتھ
کیا جائے گا اور قلعہ فتح کر لینے کے بعد تمہارے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے گی - "
قلعہ دار : اطمینان رکھو تم اس قلعہ کو سو برس تک بھی فتح نہ کر سکو گے -
قاصد:قلعہ کی مضبوطی اور کثیر تعداد لشکر پر نہ پھولو-
ممکن ہے کہ اللہ آج ہی یہ قلعہ فتح کرا دے-
قلعہ دار:اچھا تم اور تمہارا اللہ کوشش کرو! !!!!!
قاصد:بہتر ہے کہ ہم اللہ کی مدد کے بھروسے پر کوشش کریں گے اور ان شاءالله ضرور فتح کریں گے.
قاصد واپس لوٹ گیا اور قرطبہ کے قلعہ دار کی تمام گفتگو مغیث الرومی کو سنا دی مغیث الرومی نے امامن کو طلب کیا اور اس سے دریافت کیا کہ کیا قلعہ میں کوئی چور دروازہ یا سرنگ ہے؟
امامن : جہاں تک مجھے علم ہے کوئی بھی نہیں ہے -
مغیث الرومی : کسی طرف سے کچھ فصیل نیچی ہے؟ "
امامن : جی نہیں فصیل نہایت بلند اور مضبوط ہے لیکن_______!
مغیث الرومی : لیکن کیا؟ "
امامن : ایک طرف فصیل میں کچھ شگاف آ گیا تھا وہاں ایک انجیر کا درخت کهڑا ہے اگر اس کی طرف کی مرمت عیسائیوں نے نہیں کی تو شاید آپ اس جانب سے قلعہ پر چڑھنے کی کوئی سبیل نکال لیں-
مغیث الرومی : میں کوشش تو کروں گا مگر دن کے وقت نہیں رات کے وقت.
امامن : مناسب بھی یہی ہے-
مغیث الرومی نے اپنے لشکر میں اعلان کر دیا کہ لوگ دن کے وقت آرام کر لیں رات کو دھاوا بول دیا جائے گا-
مسلمان خیموں کے سامنے والے کھلے میدان میں پھیل گئے اور ہتھیاروں کو صقیل کرنے لگے-
مغیث الرومی کا منشاء یہ تھا کہ رات کو شاید جاگنا پڑے-
اس لئے کہ مجاہدین دن میں کچھ سو لیں گے مگر مسلمان جذبہ جہاد کا کچھ ایسا شوق تھا کہ انہوں نے سونے کی بجائے ہتھیاروں کو صقیل کرنا شروع کر دیا اور سارا دن اسی کام میں لگے رہے جس وقت وہ عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو آسمان پر بادل چهانے لگے اور ہوا بھی تیز ہو گئی -
برسات کے ایام تهے ہی بادلوں کے اجتماع سے یہ خیال ہونے لگا کہ بارش ہونے والی ہے -
مغیث الرومی نے پکار دیا کہ سب جلد از جلد کهانا تیار کر لیں کیونکہ بارش ہونے والی ہے -
اسلامی لشکر کے سردار کو تمام باتوں کا خیال رکھنا پڑتا تھا -
چنانچہ مسلمانوں نے کهانا تیار کرنا شروع کر دیا - بادلوں کے دل کے دل اٹھتے ہوئے چلے آ رہے تھے - ہر لمحہ بارش ہونے کا احتمال ہو رہا تھا -
چونکہ بادل گہرے تهے اس لیے آفتاب غروب ہونے سے پہلے ہی کافی اندھیرا پھیل گیا تھا -
ابهی مسلمانوں نے کهانا تیار بھی نہیں کیا تھا کہ ننھی ننھی بوندیں پڑنے لگیں-
مسلمان اپنے اپنے خیموں کے سامنے کهانا تیار کر رہے تھے جہاں کسی قسم کا بھی کوئی سائبان نہ تھا، اس لیے انہیں اندیشہ ہوا کہ اگر بارش ہونے لگی تو پھر کهانا مشکل ہی تیار کیا جا سکے گا-
انہوں نے جلدی جلدی آٹا گوندھنا اور روٹیاں پکانا شروع کیں مگر ابھی فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ مغرب کی اذان ہو گئ-
فوراً ہی ہر مسلمان نے جو کام وہ کر رہا تھا اسے چهوڑ دیا اور سب نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے-
ابهی وہ فرض ہی پڑهہ رہے تھے کہ بڑی بڑی بوندیں گرنے لگیں اور وہ فوراً ہی اچھی خاصی بارش شروع ہو گئی جس جگہ مسلمان نماز پڑھ رہے تھے وہاں سائبان نہیں تھا اس لیے ہر مسلمان بهیگ گیا مگر مسلمانوں کو گویا خبر ہی نہیں تهی کہ بارش ہو رہی ہے اور وہ بارش میں نماز پڑھ رہے ہیں -
وہ نہایت اطمینان اور رجوع قلب سے نماز پڑھ رہے تھے -
فرض ختم ہوتے ہی انہوں نے سنتیں اور نفل بھی پڑھے اور پھر وہاں سے چل کر اپنے اپنے خیموں پر پہنچے-
بارش زیادہ ہونے کی وجہ سے آگ بجهنے لگی تھی -
انہوں نے پهر دهونک کر آگ جلائی اور اسی بوندا باندی میں کچی پکی روٹیاں پکا لیں-
کهانا تیار کر کے وہ اپنے اپنے خیموں میں گھس گئے اور بھیگے ہوئے کپڑے پہنے ہی کهانا کهانے لگے-
جب کهانا کها کر فارغ ہوئے تو عشاء کی اذان ہوئی وہ بارش اور سردی کا خیال کئے بغیر ہی پهر اسی میدان میں پہنچے جس میں نماز پڑھا کرتے تھے اور بارش ہی میں نماز پڑهی-
جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو مغیث الرومی نے کہا - "
مسلمانو اگرچہ اس وقت بارش ہونے لگی ہے اور شاید تم کو ایسے وقت حملہ کرنا ناگوار ہو مگر میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں حملہ کروں گا اور اس کے لیے ایک ہزار سواروں کا ساتھ چاہتا ہوں - "
ہر طرف سے آوازیں آئیں-"
بارش یا باد و باراں کا طوفان ہمارے ارادوں کو نہیں روک سکتے -
لہذا ہم آپ کے ساتھ حملہ کرنے کو تیار ہیں-"
مغیث الرومی خوش ہو گئے اور انہوں نے کہا - "
تم مجاہدین ہو اور مجاہدین سے یہی توقع ہے -
اچھا صرف ایک ہزار مسلح ہو کر لشکر سے باہر نکلیں اور میرا انتظار کریں-
تمام مسلمان واپس لوٹے اور سب ہی مسلح ہو کر خیموں سے باہر نکل کھڑے ہوئے.
جب مغیث الرومی آئے تو انہوں نے تمام لشکر کو مستعد دیکها انہوں نے کہا - "
مسلمانوں کیا تم سب کا ارادہ ہے چلنے کا؟ "
چند لوگوں نے کہا نہیں-"
مغیث الرومی:پھر تم سب مسلح ہو کر کیوں آئے ہو؟
ایک شخص:اس لیے کہ آپ نے ن
ایک شخص:اس لیے کہ آپ نے نہیں فرمایا کہ کون سا دستہ جائے گا ہم سب اس لئے تیار ہو کر آئے ہیں کہ آپ جن دستوں کو حکم دیں وہی آپ کے ساتھ چلے.
مغیث الرومی کو بڑا افسوس ہوا کہ انہوں نے واقعی غلطی کی اگر وہ دستوں کو مخصوص کر دیتے تو تمام مسلمانوں کو بارش کے وقت تیار ہو کر خیموں سے باہر آنے کی تکلیف نہ اٹھانا پڑتی.
اب انہوں نے ایک ہزار آدمیوں کو چلنے کا ارشاد فرمایا جو کہ آگے والی صفوں میں کھڑے تھے اور پیچھے والوں کو لوٹا دیا گیا-
جب لوگ چلے گئے تب مغیث الرومی ایک ہزار اسلامی شیروں کا لشکر لے کر قرطبہ کے قلعہ کی طرف بڑھے______________________
جاری ہے......
No comments:
Post a Comment