find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Hasan Bin Sabah aur Uski Banayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. Part 50

Hasan Bin Sabah aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. Part 50

Hasan Bin Saba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan.

Nabi Hone ka Dawa karne wale Husn Bin Sabah

Hasan Bin Sabah aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. Part 50
Hasan bin Sabah

┅❂❀﷽

*⁩✶┈┈┈•─ ﷺ ─•┈┈┈✶*
╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔
    ✨حســـن بـن صـــبـاح اور✨
  ✨اسکی مصنـــوعی جنـــــت✨
╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚

قسط نمبر/50

سالار اوریزی نے یہ فوج اندھادھن تیار نہیں کی تھی اور اس نے کوچ کا جو حکم دیا تھا وہ بھی کوئی رسمی سا حکم نہیں تھا ،اس نے اس فوج کی تیاری کے دوران دانشمندانہ کارروائیاں کی تھیں۔
پہلی کاروائی یہ تھی کہ اس نے اس فوج میں منتخب لڑاکے اور جاں باز شامل کیے تھے، اس نے اپنے جو نائب کماندار ساتھ لیے تھے وہ بھی چنے ہوئے تھے اور لڑائیوں کا تجربہ بھی رکھتے تھے اور ان میں حسن بن صباح اور ان کے فرقے کی نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، سالار اوریزی نے ایک احتیاطی تدبیر اختیار کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ حسن بن صباح تک یہ خبر نہ پہنچ جائے کہ وہ قلعہ وسم کوہ پر فوج کشی کے لئے جا رہا ہے ،وہ جانتا تھا کہ گلی گلی کوچہ کوچہ حسن بن صباح کے جاسوس موجود ہیں اور وہ روزبروز قلعہ الموت خبریں پہنچا رہے ہیں۔
سالار اوریزی نے اپنی اصل مہم پر پردہ ڈالے رکھنے کا یہ انتظام کیا تھا کہ وہ جب اپنی فوج تیار کر رہا تھا اس نے چند آدمی شہر میں پھیلا دیئے تھے جو یہ خبر مشہور کر رہے تھے کہ سالار اوریزی قلعہ ملاذخان پر حملہ کرنے جارہا ہے،،،،،، قلعہ ملاذخان فارس اور خوزستان کے درمیان واقع تھا ،چند سال پہلے باطنیوں نے یہ قلعہ دھوکے میں اپنے قبضے میں لے لیا تھا،،،،،،، قلعہ وسم کوہ قلعہ ملاذخان سے کم و بیش ایک سو میل دور کسی اور ہی طرف تھا۔
حسن بن صباح کو یہ اطلاع دی گئی کہ سالار اوریزی اتنی نفری کی فوج سے قلعہ ملاذ خان پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہو رہا ہے، یہ سن کر حسن بن صباح نے قہقہہ لگایا۔
پگلے سلجوقی،،،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اگر وہ قلعہ ملاذ خان لے بھی لیں گے تو کیا کرلیں گے، وہ ابھی تک نہیں سمجھے کہ ان کی قسمت اور ان کی جانیں میری مٹھی میں ہے، میں یہاں تصور میں جس کا گلا دباؤنگا وہ مرو میں یا رے میں یا وہ جہاں کہیں بھی ہوا مارا جائے گا، جب اوریزی مرو سے کوچ کرے اسی وقت ایک آدمی وہاں سے میرے پاس پہنچ جائے اور بتائے کہ اس کے ساتھ کتنی پیدل اور کتنی سوار نفری ہے، اور اس نے کس وقت کوچ کیا ہے۔
حسن بن صباح نے دو تین آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ انہیں فورا بلایا جائے، وہ آدمی فوراً پہنچے، یہ اس کے جنگی مشیر تھے، اس نے انہیں قلعہ ملاذ خان کے دفاع کے متعلق ہدایات دینی شروع کردیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ملاذخان تک جگہ جگہ اوریزی کے لشکر پر شب خون مارے جائیں اور گھات لگا کر بھی انہیں نقصان پہنچایا جائے، اس نے کہا کہ کہیں بھی جم کر نہیں لڑنا ضرب لگا کر وہاں سے نکل آئیں۔
وہ راستے سے ہی واپس چلے جائیں گے۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔اگر وہ واپس نہ گئے اور ملاذ خان تک پہنچ بھی گئے تو ان کی نفری آدھی رہ چکی ہوگی اور وہ ایسی حالت میں ہونگے کہ محاصرہ بھی مکمل نہیں کر سکیں گے، ملاذ خان میں ہماری نفری تھوڑی ہے وہاں آج ہی جانبازوں کی خصوصی نفری بھیج دو، انھیں یہ بتا دینا کہ جونہی وہ سلجوقیوں کے لشکر کو آتا دیکھیں تو قلعے سے نکل کر اور دور کا چکر کاٹ کر پہلو سے اس پر ٹوٹ پڑیں، اور سپاہی سے لے کر سالار تک کوئی ایک بھی بندہ زندہ واپس نہ جائے۔
سالار اوریزی رے میں ابومسلم رازی اور ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کے جنازے پڑھ کر آیا تھا، اب اس کا لشکر کوچ کے لئے تیار تھا اور وہ عبدالرحمن سمیری کے انتظار میں تھا کہ اس نے آکر انہیں الوداع کہنا تھا، لیکن اسے اطلاع ملی کے سمیری کو ایک باطنی نے قتل کرکے خودکشی کرلی ہے، اس خبر سے سالار اوریزی کو بھڑک اٹھنا چاہیے تھا اور اس پر جذبات کا غلبہ ہونا ایک قدرتی بات تھی، لیکن اس نے اپنے آپ کو ذہنی اور جذباتی لحاظ سے قابو میں رکھا اور ٹھنڈے دل سے سوچا کہ اسے کیا کرنا چاہیے، اگر وہ دوڑا ہوا وہاں جا پہنچتا جہاں عبدالرحمن سمیری کو قتل کیا گیا تھا تو وہ ماتم کرنے لگ جاتا اور اس کی فوج جو کوچ کے لیے تیار تھی انتظار میں کھڑی رہتی، یا اسے واپس بلا لیا جاتا۔
سلطنت اسلامیہ کے پاسبانوں !،،،،،سالار اوریزی نے اپنی فوج سے یوں خطاب کیا،،،،، باطنی ایک اور وار کر گئے ہیں، ابھی ابھی قاصد اطلاع دے گیا ہے کہ ہمارے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو ایک باطنی نے اسی دھوکے سے قتل کر دیا ہے جس طرح امیر ابومسلم رازی اور ہمارے پیر و مرشد اور عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کو قتل کیا گیا تھا ،ہم اب کسی کے جنازے کے لیے نہیں رکیں گے، اب ہم ان مقتولوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لیں گے، اب ہمیں پیچھے نہیں دیکھنا بلکہ آگے بڑھنا ہے، اب دل میں عہد کرلو کے حسن بن صباح اوراسکے باطل فرقے کو ختم کرنا ہے یا خود ختم ہو جانا ہے، لعنت ہے اس زندگی پر جس میں ابلیس ہمارے عمائدین کا خون بہاتے پھرے، اللہ اکبر کا نعرہ لگاؤ اور آگے بڑھو اور اس جذبے سے آگے بڑھو کے ہم نے اب واپس اپنے گھروں کو نہیں آنا۔
لشکر نے جب اللہ ہو اکبر کا نعرہ لگایا تو یوں لگا جیسے آسمان کا سینہ پھٹ گیا ہو اور زمین ہل گئی ہو، اس نعرے میں ایمان کی گرج تھی۔
سالار اوریزی گھوڑے پر سوار تھا وہ لشکر کے آگے آگے نہ چلا بلکہ وہیں کھڑا رہا، راستے سے ذرا ہٹ کر زمین کا تھوڑا سا ابھار تھا اوریزی اپنا گھوڑا اس ابھار پر لے گیا اور اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے لشکر کو دیکھنے لگا ،لشکر کلمہ طیبہ کا بلند ورد کرتا ہوا جارہا تھا،،،،،،،،، تاریخ میں ایسے اعدادوشمار نہیں ملتے کہ اس لشکر کی نفری کتنی تھی اور اس میں پیادے کتنے اور سوار کتنے تھے، بہرحال یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اس لشکر میں وہی جوش و خروش تھا جس کی اس صورتحال میں ضرورت تھی، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سالار اوریزی نے چن چن کر جزبے والے مجاہد اس لشکر میں رکھے تھے، وہ صحیح معنوں میں اسلام کے مجاہدین تھے انہیں تنخواہوں کے ساتھ بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور مال غنیمت کا بھی ان کے ذہنوں میں کوئی خیال نہ تھا۔ ان میں انتقام کا جذبہ تھا ،توڑے سے عرصے کی خانہ جنگی نے کئی گھر اجاڑ دیے تھے اور بھائیوں نے بھائیوں کو قتل کر دیا تھا ،ان فوجیوں کو جب پتہ چلا تھا کہ اس خانہ جنگی کے پیچھے باطنیوں کا ہاتھ تھا تو وہ نفرت اور انتقام کے جذبے سے اتنے بھر گئے تھے کہ بارود کے چلتے پھرتے پتلے بن گئے تھے، وہ اس سے کئی گنا زیادہ باطنیوں کو قتل کرنا چاہتے تھے جتنے خانہ جنگی میں اپنے آدمی مارے گئے تھے۔
سالار اوریزی کے پیچھے بارہ چودہ گھوڑسوار محافظ کھڑے تھے، اب سالاروں اور دیگر سربراہوں کی حفاظت کے انتظام پہلے سے زیادہ سخت کر دیے گئے تھے، لشکر گزرتا جارھا تھا اور سالار اوریزی اسے دیکھ رہا تھا، ایک محافظ نے دیکھا کہ ایک درویش آدمی ایک طرف سے چلا آرہا ہے اور اس کا رخ سالار اوریزی کی طرف ہے، اس محافظ نے اپنے گھوڑے کی باگ کو جھٹکا دیا اور ہلکی سے ایڑ لگائی گھوڑا اس درویش کے سامنے جا رکا۔
اس شخص کا صاف ستھرا لباس پر اثر چہرہ اور انداز بتاتا تھا کہ یہ کوئی عالم ہے اور درویش بھی، اس کے ہاتھ میں قرآن پاک اور دوسرے ہاتھ میں عصا، اس کی داڑھی خاصی لمبی تھی، اسکے چہرے پر گھبراہٹ نہیں بلکہ خود اعتمادی تھی۔
میرے راستے میں مت آ ائےسوار !،،،،،درویش نے محافظ سے کہا ۔۔۔۔میں اس راستے پر جا رہا ہوں جو اللہ کی اس مقدس کتاب نے مجھے دکھایا ہے۔۔۔۔اس نے قرآن پاک کو اوپر کرکے کہا۔۔۔ یہ قرآن مجید ہے گھوڑے سے اتر اور اس کی توہین نہ کر، مجھے سپہ سالار کے پاس جانے دے۔
آپ کا احترام دل و جان سے کروں گا ائے عالم!،،،،،،، محافظ نے گھوڑے سے اتر کر کہا۔۔۔ لیکن آپ کی جامہ تلاشی لیے بغیر آگے نہیں جانے دوں گا ،کیا آپ نے نہیں سنا کہ یکے بعد دیگرے تین شخصیتوں کو باطنیوں نے ایسے ہی دھوکے سے قتل کردیا ہے، عالم اور درویش کا بہروپ تو کوئی بھی دھار سکتا ہے۔
میں تجھے فرائض سے کوتاہی نہیں کرنے دوں گا ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ میری جامہ تلاشی لے لے، پھر بھی تجھے شک ہے کہ میں سپہ سالار کو قتل کر دوں گا میرے ہاتھ زنجیروں میں میری پیٹھ کے پیچھے باندھ دے، میں نے سپہ سالار کو اللہ کا نور دکھانا ہے، وہ ابلیس کو تہس نہس کرنے جارہا ہے میں جانتا ہوں کہ اس سپہ سالار کے پاس جسم کی طاقت بھی ہے اور دماغ کی طاقت بھی، لیکن میں اس کی روح کو تقویت دینا چاہتا ہوں،،،،،،، جا پہلے اس سے پوچھ کے مجھے اپنے پاس آنے دے گا بھی یا نہیں ۔
سالار اوریزی نے اس وقت تک اس درویش کو اور اپنے محافظ کو دیکھ لیا تھا، وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ عالم ہے یا درویش جو کوئی بھی ہے اسے ملنا چاہتا ہے۔
انہیں آنے دو !،،،،سالار اوریزی نے اپنے محافظ سے کہا۔۔۔ اپنا فرض پورا کر لو۔
فرض سے مراد یہ تھی کہ اس کی جامہ تلاشی لے لو کہ اس کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو ،محافظ نے درویش کے کپڑوں کے اندر اچھی طرح دیکھ لیا اور اسے سالار اوریزی کی طرف بھیج دیا ،لیکن خود اس کے ساتھ رہا، دو اور محافظ گھوڑوں سے اتر آئے اور سالار اوریزی کے سامنے جا کھڑے ہوئے، محافظ اس طرح کھڑے تھے کہ ایک درویش کے بالکل پیچھے دوسرا اس کے ایک پہلو کی طرف اور تیسرا دوسرے پہلو کی طرف تھا۔
میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے۔۔۔ درویش نے قرآن سالار اوریزی کی طرف بلند کرکے کہا۔۔۔ اگر سالار گھوڑے سے اتر آئے تو میں بھی قرآن مجید کی بے ادبی کے گناہ سے بچ جاؤں گا، قرآن مجید صرف تمہارے لئے لایا ہوں۔
سالار اوریزی گھوڑے سے اتر آیا یقیناً اسے اور اس کے محافظوں کو یہی توقع ہوگی کہ یہ درویش یا عالم اچھی نیت سے نہیں آیا، باطنیوں نے پہلے تین عمائدین کو اسی طرح قتل کیا تھا اور اب یہ سالار اوریزی کو قتل کرنے آیا ہے، جب اوریزی گھوڑے سے اتر کر اس کے سامنے کھڑا ہوا تو تینوں محافظ درویش کے اور زیادہ قریب ہوگئے اور ان کی نظریں اس کے ہاتھوں پر جم گئیں۔
میرے لیے کیا حکم ہے عالم ؟،،،،،سالار اوریزی نے پوچھا۔
حکم دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔مجھے کچھ نظر آیا تھا وہ تجھے دکھانے آگیا ،تیری جسمانی اور تیری دماغی قوت پر مجھے کوئی شک نہیں ،لیکن تیری روح کو تقویت کے لئے کچھ دینا ہے، میں تجھے قتل کرنے نہیں آیا دیکھ لے میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے اور دوسرے ہاتھ میں عصا، اگر میں سپاہی ہوتا تو آج تیرے ساتھ جاتا لیکن میری زندگی کا راستہ کوئی اور ہے، میں نے تیری فتح کے لیے رات بھر  چلّہ کاٹا ہے ،اللہ نے کرم کیا اور مجھے روشنی کی ایک کرن دکھا دی وہ تیری روح میں ڈالنے آیا ہوں،،،،،، تیرا پورا نام کیا ہے؟
ابن ہاشم اوریزی۔۔۔۔ سالار اوریزی نے جواب دیا ۔
اور تو جا کہاں رہا ہے؟،،،،، درویش نے پوچھا۔ قلعہ ملاذخان۔۔۔۔۔سالار اوریزی نے جھوٹ بولا۔
درویش زمین پر بیٹھ گیا وہاں زمین دھول والی تھی، اس نے سالار اوریزی کو بھی اشارہ کرکے بٹھا لیا پھر زمین پر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے خاصا بڑا ستارہ بنایا، ایک خانے میں اوریزی کا پورا نام لکھا اور اس کے بالمقابل خانے میں ملا ذخان لکھا اس کے بعد اس نے قرآن مجید کھولا اور تھوڑی سی ورق گردانی کرکے ایک آیت پر انگلی رکھی اور وہ آیت بلند آواز سے پڑھی، قرآن مجید بند کیا آسمان کی طرف دیکھا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا اور نیچے ستارے کو دیکھا ،اس کے تمام خانوں میں کچھ نشان سے لگائے اور پھر سالار اوریزی کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔
تیرے لشکر نے پہلے دو جگہوں پر شکست کا سامنا کیا ہے ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔۔ اب تو فتحیاب لوٹے گا ،درویش نے قرآن اسی جگہ سے کھولا جہاں سے پہلے کھولا تھا اور قرآن مجید اوریزی کے ہاتھوں میں دے کر ایک آیت پر انگلی رکھی اور کہا یہ پڑھ اور اسے زبانی یاد کر لے۔
سالار اوریزی نے وہ آیت پڑھی اور پھر چند مرتبہ پڑھ کر کہا کہ یہ اسے یاد ہو گئی ہے۔
اللہ بڑا یا ابلیس؟،،،،،، درویش نے پوچھا ۔
اللہ !،،،،،سالار اوریزی نے جواب دیا۔
جا،،،،،،، اللہ تیرے ساتھ ہے۔۔۔ درویش نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ تو نے کہا ہے قلعہ ملاذ خان جا رہا ہے، اب یہ خیال رکھنا کہ راستے میں کسی اور طرف کا رخ نہ کر لینا ، قلعہ ملاذ خان کو ہی محاصرے میں لینا اور اس قلعے کے دروازے تیرے لئے کھل جائیں گے،،،،،،،، یہ خیال رکھنا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہ رہے ۔
ایسا نہیں ہوگا ائے عالم!،،،،، سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ میں نے قلعہ ملاذخان کا قصد کیا ہے اور وہی میری منزل ہے۔
درویش نے قرآن مجید سالار اوریزی کے سر سے ذرا اوپر ایک چکر میں گھمایا ۔
گھوڑا تیرا منتظر ہے ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ یہی گھوڑا تجھے فتحیاب واپس لائے گا ،میں تجھے اللہ کے سپرد کرتا ہوں اسی کی ذات تیری حامی وناصر ہے۔
سپہ سالار اوریزی گھوڑے پر سوار ہوا گھوڑا لشکر کی طرف موڑا لشکر آگے نکل گیا تھا، اب اس کے سامنے سے وہ گھوڑا گاڑیاں بیل گاڑیاں اور اونٹ گزر رہے تھے جن پر لشکر کا سامان وغیرہ لدا ہوا تھا اوریزی نے گھوڑے کو ایڑ لگائی گھوڑا بڑی اچھی چال دوڑنے لگا،اس کے محافظ اس کے پیچھے پیچھے جارہے تھے ان محافظوں کا کماندار اپنے گھوڑے کو سالار اوریزی کے گھوڑے کے پہلو میں لے گیا۔
سالار محترم !،،،،،کماندار نے پوچھا۔۔۔ کیا ہم واقعی قلعہ ملاذخان جا رہے ہیں، آپ نے ہمیں قلعہ وسم کوہ کے متعلق بتایا تھا اور یہی بتاتے رہے ہیں کہ وسم کوہ کے قلعے کی ساخت کیا ہے اور اس کے ارد گرد کیا ہے، اس کے دروازے کیسے ہیں اور ہم اس قلعے کو کس طرح سر کریں گے، قلعہ ملاذخان سے تو ہمارا لشکر واقف ہی نہیں۔
جہاں تک اس درویش کا تعلق ہے ہم قلعہ ملاذخان ہی جارہے ہیں۔۔۔ سالار اوریزی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ،،،،اور جہاں تک میرا تعلق ہے میں قلعہ وسم کوہ جا رہا ہوں۔
محافظوں کا کماندار کچھ اس طرح اپنا گھوڑا پیچھے لے آیا جیسے وہ اپنے سپہ سالار کی بات سمجھ ہی نہ سکا اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
درویش سالار اوریزی کو خدا حافظ کہہ کر واپس چلا گیا اور اس نے اپنی چال میں کوئی فرق نہ آنے دیا، وہ شہر میں داخل ہوا اور پھر ایک گلی میں گیا اور ایک مکان کے دروازے میں داخل ہوگیا، اندر چار پانچ جواں سال آدمی بیٹھے ہوئے تھے ۔
وہ آ گیا ۔۔۔ایک آدمی نے کہا۔۔۔ پھر درویش سے پوچھا کیا خبر لائے؟
ملاذ خان ہی جارہا ہے۔۔۔ درویش نے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ تصدیق کر آیا ہوں اب ایک آدمی فوراً چل پڑے اور جس قدر جلدی ہو سکے قلعہ الموت پہنچے اور شیخ الجبل کو بتائے کہ سالار اوریزی اپنے لشکر کے ساتھ قلعہ ملاذخان کو ہی کوچ کر گیا ہے، شیخ الجبل نے حکم دیا تھا کہ آخری اطلاع اسے بہت جلدی ملنی چاہیے۔
میں تیار ہوں ۔۔۔ایک جواں سال آدمی نے اٹھ کر کہا ۔۔۔گھوڑا بھی تیار ہے میں تمہارے انتظار میں تھا کوئی اور اطلاع ؟
اور کچھ نہیں درویش نے کہا ۔
وہ جواں سال آدمی بڑی تیزی سے وہاں سے چلا گیا ،اس کا گھوڑا تیار تھا وہ کود کر گھوڑے پر سوار ہوا اور نکل گیا۔
اس وقت عام خیال یہ تھا کہ اس شہر میں کسی باطنی کو زندہ نہیں رہنے دیا گیا، لیکن حسن بن صباح کا بھیجا ہوا یہ گروہ زندہ وسلامت تھا اور پوری طرح سرگرم تھا،انہوں نے اپنے اوپر ایسا دبیز پردہ ڈال رکھا تھا کہ ان پر کسی کو شک ہوتا ہی نہیں تھا،یہ سالار اوریزی کی گہری نظر تھی جس نے اس درویش کی اصلیت بھانپ لی تھی، ورنہ وہ کون مسلمان ہے جو قرآن سے متاثر نہیں ہوتا، سالار اوریزی نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ یہ درویش اس کے پاس آ گیا تھا، شکر اس لئے ادا کیا کہ حسن بن صباح کو مصدقہ اطلاع مل جائے گی کہ یہ لشکر قلعہ ملاذ خان کو ہی جا رہا ہے۔
راستے میں صرف ایک پڑاؤ ہوگا۔۔۔سالار اوریزی نے اپنے نائبین کو حکم دیا۔۔۔ یہ پڑاؤ بھی ایک آدھ گھڑی کے لئے ہوگا پوری رات کے لیے نہیں، باقی رات کوچ میں گزرے گی اور ہمیں بہت ہی جلدی وسم کوہ پہنچنا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
مزمل آفندی اور بن یونس زخمی حالت میں سلطان کے محل کے ایک کمرے میں پڑے ہوئے تھے، ان کی جان تو بچ گئی تھی لیکن زخم زیادہ تھے اور خون اتنا بہ گیا تھا کہ ان کا زندہ رہنا ایک معجزہ تھا ،گو خطرہ ٹل گیا تھا لیکن ابھی تک دونوں بستر سے اٹھنے کے قابل نہیں ہوئے تھے، اچانک شمونہ بڑی تیزی سے دوڑتی ہوئی ان کے کمرے میں داخل ہوئی۔
مزمل !،،،،،،شمونہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بھی قتل ہوگئے ہیں،،،،، لاش لائی جا رہی ہے۔
مزمل اور بن یونس ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھے اور ان کے ساتھ ہی دونوں کی کربناک آہیں نکل گئیں اور وہ پھر لیٹ گئے، اس خبر پر تو وہ اٹھ کر باہر نکل جانا چاہتے تھے لیکن زخموں نے انہیں بیٹھنے بھی نہ دیا اور وہ یوں لیٹ گئے جیسے گھائل ہو کر گر پڑے ہوں، ان دونوں نے شمونہ سے پوچھنا شروع کر دیا کہ سمیری کہاں قتل ہوا ہے؟ کس طرح قتل ہوا ہے؟ کس نے قتل کیا ہے؟،،،، شمونہ نے انہیں تفصیل سنائی۔
اب میں اس شہر میں نہیں رہوں گی۔۔۔ شمونہ نے غصے اور جذبات کی شدت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ میں قلعہ الموت جاونگی اور حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کرونگی، تم دونوں کو اب گھروں میں بیٹھی ہوئی عورتوں کی طرح رونا نہیں چاہیے ،،،،،،شمونہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔۔۔اب ہمیں کچھ کرنا پڑے گا ، سالار اوریزی ایک لشکر لے کر قلعہ وسم کوہ کا محاصرہ کرنے چلے گئے ہیں، لیکن میں کہتی ہوں کہ ایک قلعہ سر کرلینے سے کیا حاصل ہو گا ،ہوسکتا ہے یہ قلعہ سر ہی نہ ہو سکے، پہلے ہمارے لشکر شکست کھاکر آ چکے ہیں۔
ہم سمیری کی شہادت پر آنسو نہیں بہا رہے شمونہ!،،،،، مزمل نے کہا۔۔۔ اپنی اس حالت پر رو رہے ہیں کہ جب ہمیں میدان میں ہونا چاہیے تھا ہم یہاں اس قابل بھی نہیں کہ اپنا وزن بھی سہار سکیں،،،،،، اور تم اتنی زیادہ جذباتی نہ ہو جاؤ کہ عقل سے کام لینا بھی چھوڑ دو، کیا میں نے تمہارے ساتھ عہد نہیں کر رکھا تھا کہ ہم نے حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے۔
ہمیں اتنا سا ٹھیک ہونے دو کے چل پھر سکیں۔۔۔ بن یونس نے کہا۔۔۔ حسن بن صباح ہمارے ہاتھوں مرے گا۔
شمونہ ان کے پاس بیٹھ گئی اور وہ بہت دیر یہی منصوبے بناتے رہے کہ حسن بن صباح کو کس طرح قتل کیا جا سکتا ہے۔
تم دونوں نے دیکھ لیا ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ باطنی اور حسن بن صباح کے فدائی زمین کے اوپر نہیں زمین کے نیچے ملتے ہیں، وہ میدان میں لڑنے والے لوگ نہیں بلکہ دوسروں کو میدان میں لا کر ایک دوسرے سے لڑا سکتے ہیں، اور انہوں نے یہ کام کر دکھایا ،میں حسن بن صباح کے پاس رہی ہوں ،مزمل بھی ان کے یہاں رہ چکا ہے لیکن جو میں جانتی ہوں وہ مزمل تم بھی نہیں جانتے، ہمیں زمین کے نیچے نیچے سے حسن بن صباح تک پہنچنا ہے۔
یہ باتیں ہیں ان باتوں میں ایک عزم تھا ،عہد تھا، اور یہ ان کا ایمان تھا، لیکن اس وقت حقیقت یہ تھی کہ حسن بن صباح کا فرقہ آکاس بیل کی طرح پھیلتا ہی چلا جا رہا تھا ،اور یوں لگتا تھا جیسے اسلام کا ہرابھرا شجر سوکھ جائے گا، اور اس کی نشوونما رک جائے گی۔
سلطان کے محل کی سرگوشیاں بھی قلعہ الموت میں حسن بن صباح کو سنائی دیتی تھیں۔
حسن بن صباح کو جب یہ مصدقہ اطلاع ملی کے سالار اوریزی اپنے لشکر کو قلعہ ملاذ خان کے محاصرے کے لیے لے گیا ہے، اس وقت سالار اوریزی وسم کوہ کو محاصرے میں لے چکا تھا ،حسن بن صباح اس اطلاع پر ذرا سا بھی پریشان نہیں ہوا اس نے قلعہ ملاذ خان کے دفاع کا انتظام پہلے ہی اتنا مضبوط کردیا تھا کہ سالار اوریزی جتنا لشکر اپنے ساتھ لے گیا تھا اس سے دگنا لشکر بھی قلعہ ملاذ خان کو فتح نہیں کر سکتا تھا، اس نے وہاں ایک ہزار جانباز بھیج دیے تھے ،اس کے علاوہ اس نے قلعہ ملاذ خان سے کچھ دور دور تین جگہوں پر گھات کا بندوبست بھی کر دیا تھا۔
سالار اوریزی کو توقع تھی کہ وہ قلعہ وسم کوہ کو بڑی آسانی سے لے لے گا ،لیکن اس نے جب محاصرہ کیا تو قلعے کی دیواروں پر ہزاروں انسانوں کا ہجوم نظر آنے لگا، اس ہجوم نے تیروں کا مینہ برسا دیا ،سالار اوریزی اپنے لشکر کو پیچھے ہٹانے پر مجبور ہوگیا، اور قلعہ توڑنے کے منصوبے سوچنے لگا، وہ اتنا جان گیا کہ یہ قلعہ آسانی سے نہیں لیا جا سکے گا ،اور محاصرہ طول کھینچے گا۔
مستند تاریخوں میں آیا ہے کہ حسن بن صباح کا انداز ایسا تھا جیسے اسے کوئی غم نہیں کہ کوئی قلعہ ہاتھ سے نکل جائے گا، اس نے اپنے خاص آدمیوں سے کہا کہ اپنے دشمن کے مذہبی اور معاشرتی سربراہوں کو ختم کردو، مورخ لکھتے ہیں کہ اسے یہ توقع ذرا کم ہی تھی کہ اس کے فدائی ابومسلم رازی اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری جیسے اہم ترین سربراہوں کو اتنی آسانی سے قتل کر دیں گے، فدائیوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا تو حسن بن صباح نے حکم دیا کہ یہی کام جاری رکھو اور دشمن کے کسی بھی حکمران کو اور کسی عالم دین کو زندہ نہ رہنے دو،،،،، حسن بن صباح اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا لیکن وہ جب دشمن کا لفظ استعمال کرتا تھا تو اس سے اس کی مراد مسلمان ہی ہوتے تھے، وہ کسی کے قتل کا حکم دیتا تو اس انداز سے بولتا تھا جیسے اس کی زبان سے خدا بول رہا ہو، اس کے پیروکار مان گئے تھے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور اسے ہر حکم خدا کی طرف سے ملتا ہے۔
ابومسلم رازی ، ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی اور عبدالرحمن سمیری کے قتل کے فوراً بعد جو اہم ترین شخصیت باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں اگر قارئین کو ہر قتل کی تفصیل سنائی جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے ایک ہی واردات ایک ہی جیسے الفاظ میں دہرائی جا رہی ہے، باطنیوں کا طریقہ قتل ایک ہی جیسا تھا، وہی طریقہ تھا جس سے ابومسلم رازی اور دوسرے سربراہوں کو قتل کیا گیا تھا ،مشہورومعروف تاریخ نویس ابن جوزی نے لکھا کے چند دنوں میں ہی حسن بن صباح کے فدائیوں نے حاکم دیار بقر اتامک مؤدود کو قتل کیا ،اور اس کے فورا بعد ابوجعفر شاطبی رازی" ابوعبید مستوتی" ابوالقاسم کرخی" اور ابوالفرح قراتکین کو قتل کیا، کچھ دنوں کا وقفہ آیا اور پھر ابلیس کے فدائیوں نے قاضی کرمان امیر بلکابک سرامر اصفہانی اور قاضی عبداللہ اصفہانی کو قتل کیا، قتل کی ہر واردات میں طریقہ قتل ایک ہی استعمال کیا گیا، وہ اس طرح کہ فدائی بھیس بدل کر کسی بہانے مقتول تک رسائی حاصل کرتا اور اچانک خنجر نکال کر اسے قتل کر دیتا بیشتر اسکے کہ اسے پکڑا جاتا وہ خود کشی کر لیتا۔
اس کے بعد باطنی فدائیوں نے ایک طریقہ اور اختیار کیا ،دو مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے فدائیوں نے سلجوقی فوج کے سالاروں اور نائب سالاروں کو یوں وارننگ دی کہ ان کے گھروں میں رقعے پھینک دیے، جن پر تحریر تھا کہ شیخ الجبل امام حسن بن صباح کی اطاعت قبول کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لو ورنہ تمہارا حشر وہی ہوگا جو پہلے کچھ حاکموں امیروں اور علماء دین کا کیا جاچکا ہے، ظاہر ہے کہ کسی بھی سالار یا ماتحت کماندار نے حسن بن صباح کی اطاعت قبول نہیں کرنی تھی، ان سب نے یہ تحریریں جو ان کے گھروں میں پھینکی گئی تھی سلطان برکیارق کو دکھائیں۔
ان ابلیسوں کی دھمکیوں کو کھوکھلے الفاظ نہ سمجھنا۔۔۔ سلطان برکیارق نے سالاروں سے کہا۔۔۔ ایک احتیاط یہ کرو کہ کوئی سالار اکیلا کہیں بھی نہ جائے اس کے ساتھ تین چار محافظ ہونے چاہیے، رات کو اپنے گھروں کے اردگرد پہرے کھڑے کر دو، اپنے آپ کو کسی بھی وقت غیر مسلح نہ رکھو،،،،،، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے قلعوں پر قبضہ کریں گے، تم جانتے ہوکہ سالار اوریزی وسم کوہ گیا ہوا ہے، اس کے ساتھ ہی ہم نے باطنیوں کا جو قتل عام کروایا ہے وہ کافی نہیں، یہ تحریر جو تم سب تک پہنچائی گئی ہے ثبوت ہے کہ باطنی یہاں موجود ہیں ،اور زمین کے نیچے نیچے پوری طرح سرگرم ہیں، میرے مخبر اپنا کام کر رہے ہیں تم اپنے مخبروں کو سرگرم کردو۔
تاریخوں میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ تمام سالاروں ان کے نائبین اور اہم قسم کے ماتحت کمانداروں نے اپنے آپ کو رات کے وقت بھی مسلح رکھنا شروع کر دیا ،انہوں نے اپنے گھروں پر پہرے دار مقرر کر دیئے جو رات بھر مکانوں کے اردگرد گھومتے پھرتے رہتے تھے، سالاروں نے اپنے مخبر سارے شہر میں پھیلا دیے تھے۔
پچھلے کسی سلسلے میں ایک سپہ سالار ابوجعفر حجازی کا تفصیلی ذکر آیا ہے، مقتولین کی مندرجہ بالا فہرست میں بھی ایک ابو جعفر کا نام شامل ہے ،یہ ابوجعفر کوئی عالم دین تھا اور حسن بن صباح کے خلاف عملی طور پر سرگرم رہتا تھا ،ایک فدائی نے اس کا مرید بن کر اسے قتل کر دیا تھا ،اب میں آپ کو جس ابوجعفر حجازی کا ذکر سنا رہا ہے ہوں یہ سلطان کی فوج کا یعنی سلطنت سلجوقیہ کے لشکر کا سپہ سالار تھا ،پہلے بیان کر چکا ہوں کہ وہ سلطان برکیارق کا خوشامدی تھا اور اس کا ہر غلط حکم بھی بسروچشم مانتا اور اس کی تعمیل کرتا تھا، سالار اوریزی کے ساتھ اس کی خاص دشمنی تھی اور اوریزی کو اس نے گرفتار تک کرلیا تھا ،یہ ساری تفصیل پہلے چند سلسلوں میں سنائی جا چکی ہے۔
سلطان برکیارق کو اللہ تبارک وتعالی نے روشنی دکھائی اور وہ راہ راست پر آ گیا تو اس نے وہ اہمیت جوکبھی سپہ سالار حجازی کو دیا کرتا تھا سالار اوریزی کو دینی شروع کر دی تھی۔
سلطان محترم !،،،،،ایک روز خانہ جنگی کے کچھ دن بعد سپہ سالار حجازی سلطان برکیارق کے یہاں گیا اور کہا۔۔۔ گستاخی کی معافی پہلے ہی مانگ لیتا ہوں، ایک بات جو دل میں کھٹک رہی ہے وہ ضرور کہوں گا،،،،،، ایک وقت تھا کہ آپ چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر سلطنت کے بڑے سے بڑے مسئلے کے بارے میں میرے ساتھ بات کرتے اور میرے مشورے طلب کیا کرتے تھے، مگر میں اب وہ وقت دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے مجھے بالکل ہی نظرانداز کردیا ہے، اور یوں پتہ چلتا ہے کہ سالار اوریزی نہ ہوا تو سلطنت سلجوقیہ کی بنیادیں ہل جائیگی۔
محترم ابو جعفر!،،،،، سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ آپ میرے والد مرحوم کے وقتوں کے سالار ہیں، میرے دل میں آپ کا درجہ روحانی باپ جیسا ہے، آپ کا شکوہ بجا ہے کہ میں اب آپ کو وہ قدرومنزلت نہیں دیتا جو کسی وقت دیا کرتا تھا ،آپ نے دل کی بات کہی ہے اور صاف صاف کہی ہے اور یہ بات مجھے پسند ہے ،ایسی ہی میں دل کی گہرائیوں سے بات نکالوں گا اور آپ سے کروں گا،،،،،،،، آپ جس وقت کی بات کرتے ہیں اس وقت میں گمراہ ہوگیا تھا یا گمراہ کردیا گیا تھا، آپ کو تو معلوم ہے کہ ایک حسین و جمیل اور پرکشش لڑکی نے مجھ پر اپنے حسن و جوانی کا جادو اور حشیش کا نشہ طاری کر دیا تھا ،اس وقت آپ نے مجھے جھنجوڑا نہیں بیدار نہیں کیا بلکہ میری خوشامد کی اور میرا ہر وہ حکم بھی بسروچشم مانا جو سلطنت کے مفاد کے خلاف تھا، اللہ نے مجھے اور میری روحانی قوتوں کو بیدار کردیا تو مجھے پتا چلا کہ یہ سیاہ اور وہ سفید ہے، یہ غلط اور وہ صحیح ہے ،اور اس وقت مجھے پتہ چلا کہ مجھے گمراہ کیے رکھنے میں آپ کا بھی ہاتھ ہے، میرے دل میں اگر آپ کا احترام نہ ہوتا تو میں کبھی کا آپ کو جلاد کے حوالے کر چکا ہوتا ،میں آپ سے توقع رکھوں گا کہ میرے دل میں آپ اپنا یہ احترام قائم رکھنے کی کوشش کریں گے، میں آپ کو صرف ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں جو آپ فوراً سمجھ جائیں گے، وہ یہ کہ دل میں خوشنودی اللہ کی رکھیں اپنے حاکم کی یا اپنے سلطان کی نہیں ،کیا آپ نے یہ حدیث مبارکہ نہیں سنی کہ "بہترین جہاد جابر سلطان کے منہ پر کلمہ حق کہنا ہے" مگر آپ نے جابر سلطان کو خوش رکھنے کے جتن کئے اور اللہ کی ذات باری کو نظرانداز کیے رکھا ،یہ گناہ تھا میرے بزرگوار!،،،،
کیا آپ میرے بدلے ہوئے کردار کو قبول کریں گے؟،،،،، سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا۔۔۔ میں آپ کا یہ الزام تسلیم کرتا ہوں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ آپ پر کون سا جادو چلایا جارہا تھا ،لیکن یہ میری لغزش تھی یا گناہ تھا کہ میں نے آنکھیں بند کئے رکھیں، اور آپ کی خوشامد میں لگا رہا، لیکن سلطان محترم اس خانہ جنگی نے اور اس خون کے دریا نے جو ہم لوگوں نے ایک دوسرے کا بہایا ہے میری روح کو اسی طرح بیدار کردیا ہے جس طرح آپ کی روح بیدار ہوئی ہے، مجھے موقع دیں میں اب آپ کو نہیں اللہ کی ذات باری کو راضی کروں گا۔
اس کے بعد سپہ سالار حجازی نے جیسے عہد کرلیا ہو کہ وہ کسی باطنی کو زندہ نہیں چھوڑے گا، باطنیوں کا جو قتل عام کیا گیا تھا اس میں سپہ سالار حجازی کا خاصہ ہاتھ تھا اس میں قومی جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
ابوجعفر حجازی سپہ سالار تھا ،اور وہ جس مکان میں رہتا تھا وہ چھوٹا سا ایک محل تھا، وہاں دو تین نوکر تھے، ایک ملازمہ تھی، اور دو تین سائیس تھے، حجازی نے بھی اپنی حفاظت کے انتظامات بڑے سخت کر دیے تھے اور رات کے وقت دو چوکیدار اس کے مکان کے اردگرد گشت کرتے رہتے تھے، اس نے فوج کی تربیت یافتہ مخبروں کو سارے شہر میں پھیلا رکھا تھا اور انہیں سختی سے کہا تھا کہ زمین کے نیچے سے بھی باطنیوں کو نکال کر لاؤ اور میرے سامنے کھڑے کر دو، اس نے کئی ایک باطنیوں کو اپنے سامنے قتل کروایا تھا ،لیکن باطنی جو بچ گئے وہ زمین کے نیچے چلے گئے تھے، حجازی اب انہیں زمین کے نیچے سے نکالنے کے لیے سرگرم ہوگیا تھا۔
ایک روز اس کا ایک مخبر اس کے پاس آیا اور بتایا کہ اس کے سائیسوں میں ایک سائیس مشکوک ہے، اس مخبر کو تین آدمیوں نے بتایا تھا کہ یہ سائس باطنی معلوم ہوتا ہے ،ان آدمیوں نے اسکے متعلق کچھ اور باتیں بھی بتائی تھیں، وہاں یہ عالم تھا کہ زیادہ گہرائی سے تحقیقات کی ہی نہیں جاتی تھی، بہت سے آدمی تو محض شک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، سپہ سالار حجازی نے اپنے اس مخبر سے کہا کہ وہ اس سائیس کے متعلق کچھ اور شہادت حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس کے ساتھ ہی حجازی نے اپنے ذاتی اصطبل کے دو سائیسوں کو بلا کر کہا کہ وہ اس سائیس پر نظر رکھیں اور دیکھیں کہ وہ جب گھر جاتا ہے تو اس کے گھر کے اندر کیا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ اس کے گھر کا ماحول کیسا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کا سارا کنبہ باطنی ہو ،یہ سائیس حجازی کا ذاتی سائیس تھا ،اس کے اصطبل میں چھ سات گھوڑے تھے جن میں ایک گھوڑا اسے بہت ہی پسند تھا اور وہ عموما اس پر ہی سواری کیا کرتا تھا، وہ سائیس اس گھوڑے پر مقرر تھا اور اس پر حجازی کو پورا پورا بھروسہ تھا ،وہ تجربےکار سائیس تھا، اس سائیس کا باطنی ہونا کوئی عجوبہ نہیں تھا، وہاں تو کوئی بھی شخص باطنی ہوسکتا تھا ،حسن بن صباح کا طلسم دور دور تک اور کونوں کھدروں تک بھی پہنچ گیا تھا۔
حجازی اصطبل میں اتنا زیادہ نہیں جایا کرتا تھا کبھی کبھی جا نکلتا اور گھوڑوں کو دیکھ کر واپس آجاتا تھا، اس نے اپنی حفاظت کا اتنا سخت انتظام کر رکھا تھا کہ وہ اصطبل تک جاتا تو بھی اس کے ساتھ دو محافظ ہوتے تھے، باہر نکلتا تو کئی محافظ اس کے آگے پیچھے دائیں اور بائیں اس کے ساتھ چلتے تھے، کوئی اجنبی اس کے قریب نہیں آسکتا تھا، اسے قتل کرنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا تھا ،ان حالات میں جب اسے یہ اطلاع دی گئی کہ اس کا ذاتی سائیس باطنی ہے اور وہ کسی بھی وقت وار کر سکتا ہے وہ چوکس ہوگیا ،اس نے اپنی حفاظت کے جو انتظامات کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ گھر کا کوئی ملازم اور سائیس اپنے پاس کوئی ہتھیار نہیں رکھ سکتا، بلکہ چھوٹا سا ایک چاقو بھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔
سائیس جب صبح اصطبل میں آتے تھے تو پہنے ہوئے کپڑے اتار کر کام والے کپڑے پہن لیا کرتے تھے، ایک روز سپہ سالار حجازی تیار ہو کر باہر نکلا ہی تھا کہ ایک آدمی دوڑا آیا وہ اس کے گھر کا ہی ایک خاص ملازم تھا، بلکہ معتمد خاص تھا، اس نے حجازی کو بتایا کہ اس کا ذاتی سائیس آج پکڑا گیا ہے ،بتایا یہ گیا کہ وہ اپنے کپڑے اتار کر الگ رکھ رہا تھا تو ایک سائیس نے اس کے کپڑوں میں خنجر دیکھ لیا۔
محترم سپہ سالار!،،،،، اس معتمد ملازم نے کہا۔۔۔ اسے ابھی پتہ نہیں چلنے دیا گیا کہ اس کا خنجر دیکھ لیا گیا ہے، آپ خود چل کر دیکھیں۔
سپہ سالار ابوجعفر حجازی اسی وقت ملازم کے ساتھ چل پڑا، اصطبل میں جا کر اس نے اپنے سائیس کو بلایا اور اسے کہا کہ اپنا خنجر اس کے حوالے کردے ۔
خنجر ؟،،،،،سائیس نے حیرت زدگی کی کیفیت میں پوچھا۔۔۔ محترم سپہ سالار کون سا خنجر؟ کیسا خنجر؟
وہ خنجر جو تم نے اپنے کپڑوں میں چھپا رکھا ہے۔۔۔ حجازی نے کہا۔۔۔ خود ہی وہ خنجر لے آؤ۔
میں آپ کا بڑا ہی پرانا خادم ہوں سپہ سالار!،،،،، سائیس نے کہا۔۔۔ آپ کا حکم ہے کہ کوئی سائیس کیا دوسرا ملازم اپنے پاس کوئی ہتھیار نہیں رکھ سکتا ،مجھے اپنے پاس خنجر رکھنے کی کیا ضرورت تھی، اگر آپ کو شک ہے تو میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ میرے کپڑے کہاں رکھے ہیں خود چل کر دیکھ لیں۔
سپہ سالار حجازی اس کے ساتھ چل پڑا ،سائیس نے اپنے کپڑے اس کمرے میں رکھے ہوئے تھے جہاں باقی سائیس اپنے کپڑے اتار کر رکھتے اور کام والے کپڑے پہنتے تھے، سائیس نے اپنے کپڑوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ اس کے کپڑے پڑے ہیں دیکھ لئے جائیں۔
حجازی خود گیا اور اس کے کپڑے اٹھائے تو اس میں سے ایک خنجر نکلا، حجازی نے خنجر نیام سے نکال کر دیکھا اس نے حسن بن صباح کے فدائین کے خنجر دیکھے تھے، غالبا ان پر کوئی نشان ہوتا ہوگا جو حجازی نے دیکھ لیا، اس سے اسے یقین ہو گیا کہ اس کا سائیس باطنی ہے اور آج وہ اسے قتل کرنے کے لیے خنجر لایا تھا۔
سائیس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ یہ خنجر اسکا نہیں، نہ وہ اسے اپنے ساتھ لایا تھا، اس نے یہ بھی کہا کہ کسی دشمن نے یہ خنجر اس کے کپڑوں میں رکھ دیا ہے ۔
یہاں تمہارا دشمن کون ہو سکتا ہے؟،،،،حجازی کے ایک محافظ نے اس سے پوچھا ۔۔۔۔کیا تم اپنا کوئی دشمن دکھا سکتے ہو؟
سائیس نےاب رونا شروع کردیا اور وہ حجازی کے قدموں میں گر پڑا اور اس کے پیروں پر ماتھا رگڑنے لگا، وہ رو رو کر کہتا تھا کہ یہ خنجر اسکا نہیں، لیکن حجازی اسے بخشنے پر آمادہ نظر نہیں آتا تھا۔
حجازی نے خنجر اپنے ایک محافظ کو دیا اور اشارہ کیا، محافظ اشارہ سمجھ گیا وہ سائیس کی طرف بڑا سائیس کے چہرے پر خوف و ہراس کے تاثرات نمودار ہوئے اور اس کی آنکھیں اور زیادہ کھل گئیں ،محافظ نے دو تین قدم تیزی سے اٹھائے اور یکے بعد دیگرے سائیس کے سینے میں خنجر کے دو وار کئے سائیس گرا اور ذرا سی دیر بعد اس کی آنکھیں پتھرا گئیں، حجازی نے کہا کہ اس کی لاش اس شہر سے دور جنگل میں پھینک دی جائے۔
دو دن گزرے ہوں گے کہ سپہ سالار حجازی کو اطلاع دی گئی کہ ایک آدمی اسے ملنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ تجربے کار سائیس ہے اور کچھ عرصہ فوج میں گھوڑسوار کی حیثیت سے ملازمت بھی کر چکا ہے، حجازی کو ایک سائیس کی ضرورت تھی اس لئے اس نے اس آدمی کو بلا لیا ،محافظوں نے اس آدمی کی جامع تلاشی اچھی طرح کی اور حجازی کے پاس لے گئے، حجازی نے اس سے پوچھا کہ وہ کتنا کچھ تجربہ رکھتا ہے۔
اس شخص نے حجازی کو بتایا کہ وہ فوج میں گھوڑسوار کی حیثیت سے ملازمت کر چکا ہے اور اس نے دو لڑائیاں بھی لڑی تھی، اس نے اپنے جسموں پر تلواروں کے زخموں کے دو نشان دکھائے اور کہا کہ ان زخموں کی وجہ سے وہ فوج کے قابل نہیں رہا تھا، لیکن سائیس کا کام خوش اسلوبی سے کرسکتا ہے، مختصر یہ کہ اس شخص نے حجازی کو قائل اور متاثر کرلیا اور حجازی نے حکم دیا کہ اسے اصطبل میں رکھ لیا جائے۔
اس نئے سائیس نے اتنا اچھا رویہ اختیار کیا کہ اصطبل کے دوسرے سائیس اس کی تعریفیں کرنے لگے، وہ خوش طبع خوش اخلاق اور حلیم قسم کا آدمی تھا، ہر کسی کے ساتھ پیار سے بات کرتا تھا اور اپنے کام میں تو وہ بہت ہی ماہر تھا۔
دو تین دنوں بعد سپہ سالار حجازی اصطبل میں گھوڑے دیکھنے کے لیے گیا اس نے اپنا وہ گھوڑا دیکھا جو اس کا منظور نظر تھا ،اس نے اس گھوڑے کی دیکھ بھال بڑی محنت سے کی تھی، حجازی نے اس گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا ،نیا سائیس اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور اس گھوڑے کی صفات بیان کرنے لگا۔ اچانک سائیس نے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور پیشتر اس کے کہ حجازی کے دونوں محافظ اس تک پہنچتے اس کا خنجر حجازی کے دل میں اتر چکا تھا۔
سائیس محافظوں سے بچنے کے لیے دوڑ کر گھوڑے کی دوسری طرف ہوگیا اور خون اور خنجر اپنے دل میں اتار لیا ،تب پتہ چلا کہ یہ تو باطنی تھا۔
___________________________________

مرو شہر کا وہی مکان تھا جس میں وہ درویش داخل ہوا تھا جس نے سالار اوریزی کو قرآن مجید کھول کر ایک آیت پڑھائی اور کہا تھا کہ یہ یاد رکھنا اور اس کا ورد کرتے ہوئے جانا فتح تمہاری ہوگی، اس مکان کے اندر وہی درویش اپنے تین چار ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ باہر والا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور ان کا ایک ساتھی دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔
لو بھائیو!،،،، اس آدمی نے کہا۔۔۔ کام ہو گیا ہے، ہمارے فدائی نے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو قتل کرکے اپنے آپ کو بھی مار لیا ہے۔
پہلے سائیس کو مروانے والے باطنی ہی تھے، اس سائیس کے کپڑوں میں خنجر باطنیوں نے ہی رکھوایا تھا اور پھر دوسرا سائیس صرف باطنی ہی نہیں بلکہ فدائ تھا۔
یہ ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ تاریخوں میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں ،مرو کہ معاشرے میں کئی سرکردہ افراد تھے جو باطنیوں کے خلاف سرگرم ہو گئے تھے انہیں قتل کرنا ضروری تھا، لیکن ان سب نے اپنی حفاظت کے انتظامات کرلیے تھے اور وہ جہاں بھی جاتے ان کے ساتھ محافظ ہوتے تھے ،اس صورتحال میں انہیں قتل کرنا آسان نہیں تھا ان کے قتل کا یہی طریقہ اختیار کیا گیا جو حجازی کو قتل کرنے کے لئے آزمایا گیا تھا ،کوئی فدائی کسی سرکردہ آدمی کے یہاں مظلوم اور غریب بن کر ملازمت حاصل کر لیتا اور موقع پا کر اپنے شکار کو قتل کردیتا تھا، دیہی علاقوں میں قبیلوں کے سردار تھے جو حسن بن صباح کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے نہ اپنے قبیلے کے کسی شخص کو ایسی اجازت دیتے تھے، کسی پر شک ہو جاتا کہ اس کا ذہن یا رحجان باطنیوں کی طرف ہو رہا ہے تو قبیلے کا سردار اسے قتل کروا دیتا تھا، ان سرداروں نے بھی اپنے ساتھ محافظ رکھ لئے تھے انہیں قتل کرنے کا بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح اصفہان کو اپنا مرکز بنانا چاہتا تھا تاریخوں کے مطابق اس نے اپنے بے شمار فدائ اور دیگر پیروکار اصفہان بھیج دیے تھے، حسن بن صباح نے اصفہان میں مسلمانوں کو قتل کرنے کا ایک اور طریقہ اپنے فدائین کو بتایا، مرو میں اس نے دیکھ لیا تھا کہ ایک مسلمان قتل ہوتا تھا تو اس کے بدلے تین باطنیوں کو قتل کردیا جاتا تھا، حسن بن صباح نے اپنے فدائین کو یوں سمجھایا کہ وہ ایک ایک دو دو مسلمانوں کو ایسے قتل کریں کہ ان کی لاشیں نہ ملیں اور پتہ ہی نہ چلے کہ وہ قتل ہوگئے ہیں۔
اصفہان کے ایک حصے میں مکان بہت ہی پرانے تھے جن میں کافی لوگ رہتے تھے، گلیاں تنگ تھیں اور مکانوں کی دیواریں اور چھتیں بوسیدہ ہو گئی تھیں، ایک گلی کے سرے پر ایک اندھا کھڑا نظر آنے لگا وہ اپنے قریب سے گزرتے کسی آدمی کی آہٹ سنتا تو اسے روک لیتا اور کہتا کہ اللہ کے نام پر اسے اس گلی میں ایک جگہ تک پہنچا دے۔
وہ آدمی اسے اندھا سمجھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور آگے آگے چل پڑتا، اندھا اسے کہتا کہ آگے ایک گلی دائیں کو مڑتی ہے اسے اس گلی کے ایک مکان تک پہنچا دیں۔
یوں وہ شخص اس اندھے کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس گلی کے وسط تک جاتا ایک مکان سے دو تین آدمی نکلتے اور اس آدمی کو پکڑ کر مکان کے اندر لے جاتے اور اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر ڈالتے، وہ شخص اندھا نہیں ہوتا تھا گلی میں سے گزرتے ہوئے آدمیوں کو دیکھ سکتا تھا اور پہچان لیتا کہ یہ باطنی نہیں مسلمان ہے، اس طرح ایک آدمی کو مروا کر وہ کہیں اور چلا جاتا اور اسی طرح کسی اور آدمی کو اپنا ہاتھ پکڑواکر اس کے پیچھے چل پڑتا ،اس کے بعد وہ آدمی کسی کو نظر نہ آتا۔
ایک مہینے میں بےشمار مسلمان لاپتہ ہو گئے اور شہر بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا ،ابن اثیر نے لکھا ہے کہ کسی گھر کا کوئی آدمی شام تک گھر واپس نہیں پہنچتا تھا تو وہاں صف ماتم بچھ جاتی تھی ،اس کے گھر والے یہ سمجھ لیتے کہ وہ غائب ہوگیا ہے لیکن اس سوال کا جواب کہیں سے نہیں مل رہا تھا کہ یہ اتنے زیادہ آدمی کہاں لاپتہ ہوگئے ہیں، اس زمانے میں بھی روحانی عامل قافیہ شناس اور نجومی موجود تھے، لوگ ان سے پوچھتے تھے کہ وہ اپنے علم کے ذریعے معلوم کریں کہ کیا ان لوگوں کو جنات اٹھا کر لے گئے ہیں یا وہ کہاں غائب ہو گئے ہیں، روحانی عاملوں کو کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا تھا صرف ایک عامل نے بتایا کہ جتنے آدمی لاپتہ ہو چکے ہیں ان میں سے ایک بھی زندہ نہیں، لیکن وہ اس سوال کا جواب نہ دے سکا کہ وہ آدمی موت تک کس طرح پہنچے، اور موت کی آغوش میں انہیں کون لے گیا تھا۔
ایک روز ایک اندھا ایسے ہی ایک آدمی کو روک کر اسے اپنے ساتھ لے گیا یہ آدمی بھی اس دھوکے میں آگیا تھا کہ یہ اندھا بیچارہ مجبور ہے اس لیے اسے اس کے ٹھکانے تک پہنچانا کار ثواب ہے، اس کے بعد یہ آدمی کسی کو نظر نہیں آیا لیکن ایک بات یوں ہوئی کہ ایک آدمی نے اسے اس اندھے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ایک گلی کے اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا، اس نے کئی لوگوں کو بتایا کہ گم ہونے والے شخص کو ایک اندھا اپنی رہنمائی کے لیے ایک گلی کے اندر لے گیا تھا۔
اسی روز یا اگلے روز اس آدمی نے جس نے اس بد قسمت آدمی کو اندھے کے ساتھ دیکھا تھا تین چار آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور انہیں ایک جگہ چھپا کر اکیلا آگے گیا اور اندھے کے قریب سے گزرا، اندھے نے اسے روک لیا اور کہا کہ وہ اس گلی میں جانا چاہتا ہے لیکن وہ خود راستہ نہیں دیکھ سکتا، اللہ کے نام پر اسے اس کے گھر تک پہنچا دیا جائے ۔
اس شخص نے اس کا بازو پکڑ لیا اور گلی میں داخل ہوگیا، اس کے جو ساتھی پیچھے چھپے ہوئے تھے وہ دیکھ رہے تھے، جب اندھا اس آدمی کے ساتھ گلی کے اندر چلا گیا تو یہ سب آدمی اس گلی تک آگئے اور گلی میں اس وقت داخل ہوئے جب اندھا اس آدمی کو یہ کہہ رہا تھا کہ دائیں طرف والی گلی میں جانا ہے، وہ شخص اسے اس گلی میں لے گیا۔
اس شخص کے ساتھی دبے پاؤں وہاں تک پہنچ گئے جہاں سے گلی دائیں کو مڑتی تھی، جب اندھا اس مکان تک پہنچا تو رک گیا، اندر سے تین آدمی نکلے اور اس شخص کو پکڑ لیا ،اس کے چھپے ہوئے ساتھی تلوار نکال کر دوڑتے ہوئے پہنچے اور ان آدمیوں کو تلواروں پر رکھ لیا، وہ سب اندر کو بھاگ رہے تھے لیکن وہ تینوں اور اندھا بھی تلواروں سے کٹ مرے، مکان کے اندر گئے تو صحن میں ایک جگہ لکڑی کے تختے رکھے ہوئے تھے اور ان پر کچھ سامان پڑا ہوا تھا۔
وہ بہت ہی پرانے زمانے کا مکان تھا اندر اس قدر بدبو تھی کہ ٹھہرا نہیں جاسکتا تھا، لیکن یہ بدبو بتا رہی تھی کہ اس مکان میں مردار گل سڑ رہے ہیں یا انسانوں کی لاشیں پڑی ہیں، مکان بالکل خالی تھا کمروں میں دیکھا گیا لیکن کچھ سراغ نہ ملا ایک آدمی کے کہنے پر لکڑی کے تختے ہٹائے گئے تو دیکھا کہ ان کے نیچے ایک گہرا گڑھا کھودا ہوا تھا جس میں بے انداز لاشیں پڑی ہوئی تھیں، اوپر والی لاش تازہ لگتی تھی اور بدبو سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے نیچے لاشیں گل سڑ رہی ہیں اور مکان میں ان کی بد بو پھیلی ہوئی تھی۔
ایک تو یہ طریقہ تھا کہ اس سے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو غائب کر دیا گیا تھا، ان میں سے کچھ کی لاشیں اس گڑھے میں سے ملیں اور کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ کتنے مکانوں میں ایسے اورگڑھے ہونگے جن میں لاپتہ ہونے والے مسلمانوں کی لاشیں پڑی ہونگی۔
مسلمانوں کے غائب ہونے کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ چلتا رہا ،کچھ سراغ نہیں ملتا تھا کہ وہ کہاں غائب کیے جا رہے ہیں، مسلمان اتنے بھڑکے ہوئے تھے کہ شہر میں انہیں کوئی نابینا نظر آتا تھا تو اسے قتل کر دیتے تھے، پھر بھی مسلمان غائب ہوتے رہے ایک اور طریقہ بھی اختیار کیا گیا جس کا سراغ مل گیا، سراغ یوں ملا کہ ایک آدمی علی الصبح فجر کی اذان سن کر مسجد کو جارہا تھا تو اسے یوں نظر آیا جیسے دو تین آدمی کسی آدمی کو گھسیٹ کرایک مکان کے اندر لے جارہے ہوں، وہ نہتّہ تھا اس لیے اس نے اس آدمی کو چھڑانے کی کوشش نہ کی، اس کی بجائے اس نے یہ کارروائی کی کہ مسجد میں جب نمازی اکٹھے ہوئے تو اس نے نمازیوں کو بتایا کہ ایک مکان پر اسے شک ہے اور اس نے جو دیکھا تھا وہ انہیں بتایا ،نماز کے بعد یہ خبر مسلمانوں کے محلوں میں پھیل گئی اور ایک ہجوم اس مکان کے سامنے اکٹھا ہوگیا۔
اس ہجوم میں زیادہ تر آدمی تلواروں سے مسلح تھے ،دروازے پر دستک دی گئی لیکن اندر سے کوئی جواب نہ ملا، آخر یہ لوگ اندر چلے گئے یہ قدیم وقتوں کی حویلی تھی جو غیرآباد نظر آتی تھی، اس کے تمام کمروں میں جاکر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا اور یوں لگتا تھا جیسے وہاں بھی بدبو تھی، جو صاف پتہ چلتا تھا کہ انسانی لاش یا لاشوں کی ہے۔
ادھر آؤ۔۔۔ ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ اس کنوئیں میں دیکھو۔
حویلی کا صحن خاصہ کشادہ تھا اور اس کے ایک کونے میں کنواں تھا، کنویں میں جھک کر دیکھا تو آدھا کنواں لاشوں سے بھرا پڑا تھا، اوپر سے دو تین لاش نکالی گئی یہ ابھی خراب نہیں ہوئی تھیں، ان میں ایک لاش کا خون بالکل تازہ تھا یہ وہی آدمی ہوگا جسے اس شخص نے دیکھا تھا کہ گھسیٹ کر اندر لے جارہے ہیں، ان چند ایک لاشوں کے بعد کوئی اور لاشیں نہ نکالی گئیں ،کیوں کہ دانشمند بزرگوں نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ نیچے لاشوں کی حالت بہت ہی بری معلوم ہوتی ہے نہ ہی نکالی جائیں تو بہتر ہے، ورنہ ان کے پسماندگان کے دلوں کو بہت ہی صدمہ پہنچے گا ،چنانچہ اس کنوئیں کو مٹی سے بھر دیا گیا، یہ تو بتایا ہی نہیں جاسکتا کہ اس کنوئیں  میں کتنی سو لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔
*<=========۔========>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔51۔میں پڑھیں*
*<=======۔==========>*

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS