Roza Ke Fazail Wa Masail, Ramzan Ke Chaand Dekhne Ka Waqt, Ramzan Ka Chaand Dekhne Ke Liye Gawahi, Ramzan Ka Chaand Dekhne Ki Dua
Roza Ke Fazail Wa Masail, Ramzan Ke Chaand Dekhne Ka Waqt, Ramzan Ka Chand Dekhne Ke Liye Gawahi, Ramzan Ka Chand Dekhne Ki Dua
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــم
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Roza Ke Fazail Wa Masail,Ramzan Ka Chaand Aur Dua |
▓ روزوں کی فرضیت
ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ فرائض میں سے ایک فریضہ ہے جو دین اسلام سے بدیہی اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل کے علاوہ اجماع بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾ أَيّامًا مَعدودٰتٍ فَمَن كانَ مِنكُم مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذينَ يُطيقونَهُ فِديَةٌ طَعامُ مِسكينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيرًا فَهُوَ خَيرٌ لَهُ وَأَن تَصوموا خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿١٨٤﴾ شَهرُ رَمَضانَ الَّذى أُنزِلَ فيهِ القُرءانُ هُدًى لِلنّاسِ وَبَيِّنـٰتٍ مِنَ الهُدىٰ وَالفُرقانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ وَلِتُكمِلُوا العِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلىٰ ما هَدىٰكُم وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿١٨٥﴾... سورة البقرة
"اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (183) گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وه اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وه اسی کے لئے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو (184) ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والاہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کا اراده تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو "
البقرۃ:2/183۔185
واضح رہے کہ آیت مذکورہ (كُتِبَ) کے معنی ہیں"فرض کیا گیا ۔"اور اللہ تعالیٰ کے فرمان(فَلْيَصُمْهُ)میں روزہ رکھنے کا حکم آیا ہے جو فرض ہونے پر دلالت کرتا ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے:"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھنا بھی ذکر فرمایا ہے:
صحیح البخاری الایمان باب دعاؤ کم ایمانکم حدیث 8 وصحیح مسلم الایمان باب ارکان الاسلام ودعائمہ العظام حدیث :16۔
الغرض رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت اور فضیلت میں بہت سی مشہور اور صحیح احادیث وارد ہیں علاوہ ازیں تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں اور ان کا منکر کافر ہے۔
روزے کی مشروعیت میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے نفس انسانی کو ردی خیالات اور ذیل اخلاق سے پاک کیا جائے اور اس کا تزکیہ اور تطہیر ہو۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے جس کے حصول سے انسانی بدن کے وہ رخنے تنگ ہو جاتے ہیں جن کے ذریعے سے شیطان انسان کے جسم میں سرایت کرتا ہے کیونکہ۔
"إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَىَ الدَّم"
"شیطان خون کی طرح انسان کے رگ وپے میں چلتا ہے۔"
صحیح البخاری الاعتکاف باب ھل یدر المعتکف عن نفسہ ؟ حدیث 2039
جب کوئی شخص خوب کھاپی لیتا ہے تو اس کا نفس خواہشات کی پیروی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے جس سے انسان کی قوت ارادی کمزور پڑجاتی ہے عبادات میں رغبت کم ہو جاتی ہے جبکہ روزہ اس کے برعکس کیفیت پیدا کرتا ہے۔
روزہ دنیا کے حصول کی تمنا اور اس کی فاسد خواہشات کو کم کرتا ہے آخرت کی طرف رغبت پیدا کرتا ہےمساکین کے ساتھ ہمدردی اور ان کے دکھ درد کا احساس دلاتا ہے کیونکہ روزے دار روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس کی تکالیف کا ذائقہ خود چکھتا ہے یاد رہے عربی زبان میں روزے کوصوم کہتے ہیں جس کے شرعی معنی میں "نیت کر کے کھانے پینے اور اجماع وغیرہ سے رکنا۔" نیز بے حیائی اور نافرمانی کی باتوں اور کاموں سے رکنا اس میں شامل ہے۔
دیکھیے : قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل/روزوں کے مسائل / جلد :01 /صفحہ : 315
شیخ صالح بن فوزان عبداللہ آل فوزان ؒ نے لکھا ہے :
’’ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کی ابتداء اس وقت سے ہے جب ماہِ رمضان داخل ہونے کا علم حاصل ہوجائے۔ اور یہ علم تین ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔ 1۔ رؤیت ہلال رمضان ۔ 2۔ رؤیت پر شرعی شہادت اور اس کی اطلاع کا حاصل ہونا۔ 3۔ تیسویں شعبان کی رات چاند نظر نہ آنے پر شعبان کی تعداد مکمل کرلینا۔ ‘‘
الملخص الفقہی:1/262۔263
▓ احادیث نبوی سے استدلال :
①۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا:
لاتَصُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْا اَلْہِلَالَ وَ لَا تُفْطِرُوْ حَتّٰی تَرَوْہُ، فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہُ‘‘ ہَذَا لَفْظُ الْبُخَارِی وَ فِی لَفْظِ لَہٗ ’’فَأَکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ثَلاَثِیْنَ۔
بخاری: 1808، مسلم :1080
یعنی جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ چھوڑو اور اگر بادل کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو اس کا اندازہ لگالو۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: تیس (30) دن کی گنتی پوری کرلو۔
ابن منظور نے غَمَّ الہلالُ غمًّا کا معنی یہ بیان کیا ہے: سَتَرَہُ الغَیْمُ وغیرُہ فَلَمْ یُرَ
لسان العرب ، ج12ص443
یعنی چاند نظر نہ آنے کا سبب مطلع کاابر آلود ہونا ہی نہیں، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور سبب سے مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند نظر نہ آئے۔
② ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّا اُمَّۃٌ اُمِّیَّۃٌ لاَ نَکْتُبُ وَ لاَ نَحْسِبُ، الشَّھْرُ ھٰکَذَا وَ ھٰکَذَا یَعْنِی مَرَّۃً تِسْعًا وَّ عِشْرِیْنَ وَ مَرَّۃً ثَلاَثِیْنَ۔
بخاری، 1814، مسلم1080
بے شک ہم ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں۔ مہینہ
اتنا اور اتنا ہے۔ یعنی کبھی 29 دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30 دن کا۔
③ ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہ فَاِنْ غَبِیَ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوْا عِدَّۃَ شَعْبَانَ ثَلاَثِیْنَ‘‘
و فی روایۃ لمسلم ’’فاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَصُوْمُوْا ثَلاَثِیْنَ یَوْمًا۔
(رمضان کا ) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا )چاند دیکھ کر روزہ چھوڑو اگر تم پر بادل چھاجائے (اور چاند نظر نہ آئے ) تو شعبان کے 30 دنوں کی گنتی پوری کرو ۔
(بخاری ومسلم)
یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم کی روایت ہے کہ:
اگر تم پر بادل چھا جائے تو 30 دنوں کے روزے رکھو۔
④ ۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا:
الفِطْرُ یَوْمَ یُفْطِرُ النَّاسُ وَالأَضْحٰی یَوْمَ یُضَحِّی النَّاسُ۔
جامع الترمذی :802، صححہ الالبانی
عیدالفطر اس روز ہے جب لوگ روزے مکمل کرتے ہیں اور عید الاضحی اس روز ہے جب لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔
⑤ ۔ حضرت کریب سے مروی ہے کہ حضرت ام الفضل نے انہیں ملک شام حضرت امیر معاویہ کے پاس بھیجا۔ میں ملک شام پہنچا اور ان کی حاجت پوری کی ۔ ابھی میں وہیں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا، میں نے چاند کو جمعہ کی رات میں دیکھا اور مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ آیا حضرت ابن عباسؓ نے مجھ سے پوچھا :تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی رات۔ پھر انھوں نے فرمایا: کیا تم نے دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں میرے علاوہ اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا اور حضرت معاویہؓ نے بھی چاند دیکھا اور روزہ رکھا۔ پھر انھوں نے فرمایا: ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، پس ہم 30 دن پورا کریں گے۔ یا ہم اس کو دیکھ لیں، میں نے عرض کیا: کیا معاویہؓ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ فرمایا: نہیں، نبی کریم ﷺ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیاہے۔
مسلم87.1، ابوداؤد 2832 ، ترمذی 293، نسائی:4/131۔ مسند احمد:2790
مولانا حافظ کلیم اللہ عمری مدنی
سیدناعبداللہ بن عمرؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” تم روزہ نہ رکھو حتیٰ کہ چاند دیکھ لو اور افطار نہ کروحتیٰ کہ چاند دیکھ لو
اگرتم پر مطلع ابرآلود ہو تو گنتی پوری کر لو “
(بخاری ،کتاب الصوم(١٩٠٦) ۔مسلم ، کتاب باب وجوب صوم (١٠٨٠) )
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا
” چاند دیکھ کر روزہ رکھواور اسے دیکھ کر افطار کرو اور اگر تم پر مطلع
ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی کے تیس دن پورے کرلو “
(بخاری ،کتاب الصوم ،١٩٠٩ ۔ مسلم ،کتاب الصوم ،١٠٨١ )
یعنی شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند دیکھو اگر نظر آجائے تو دوسرے دن روزہ رکھو اور اگر نظرنہ آئے یا مطلع ابرآلود ہو تو سیدنا عمّار بن یاسرؓ سے روایت ہے کہ
” جس شخص نے اس دن( یعنی شک کے دن) کا روزہ رکھا اس نے یقینًا
ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کی “
(ابن ماجہ کتاب الصیام ،١٦٤٠ ۔ابوداؤد کتاب الصیام ،٢٣٣٤
ترمذی ،٦٨٦ ، نسائی ،٢١٩٠ ۔دارمی،١٦٨٢)
▓◆ روزوں کے آداب :
روزے کے آداب میں سے ایک اہم ادب یہ ہے کہ احکام بجا لا کر اور ممنوع احکامات سے اجتناب کر کے اللہ عزوجل کے تقویٰ کو لازمی طورپر اختیار کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾... سورة البقرة
’’اے مومنو! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِی أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ» صحيح البخاری، الصيام، باب من لم يدع قول الزور والعمل به فی الصوم، ح: ۱۹۰۳۔
’’جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کرنے کو ترک نہ کرے، تو اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
ایک روایت میں جھوٹی بات ترک کرنے کے ساتھ جہالت کی باتیں ترک کرنے کا ذکر بھی ہے۔
٭ روزے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ کثرت کے ساتھ صدقہ، نیکی اور لوگوں کے ساتھ احسان کیا جائے
خصوصاً رمضان میں۔ یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے لیکن رمضان میں جب جبرئیل آپ کے ساتھ قرآن مجید کے دور کے لیے آتے تو آپ مجسم جو دو سخا ہوتے تھے۔
٭ روزے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ جھوٹ، گالی گلوچ، دغا وخیانت، حرام نظر اور حرام چیزوں کے ساتھ دل بہلانے سے اجتناب کیا جائے اور ان تمام محرمات کو بھی ترک کر دیا جائے جن سے اجتناب روزہ دار کے لیے واجب ہے۔
٭ روزے کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ سحری کھائی جائے اور تاخیر کے ساتھ کھائی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِی السَّحُورِ بَرَکَةً» صحيح البخاری، الصوم، باب برکة السحور، ح:۱۹۲۳وصحيح مسلم، الصيام، باب فضل السحور،ح:۱۰۹۵۔
’’سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘
٭ روزے کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ تر کھجور کے ساتھ روزہ افطار کیا جائے۔ تر کھجور میسر نہ ہو تو خشک کھجور کے ساتھ اور اگر خشک کھجور بھی موجود نہ ہو تو پھر پانی کے ساتھ افطار کر لیا جائے۔ سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی یا جب ظن غالب ہو کہ سورج غروب ہوگیا ہے، تو فوراً روزہ افطار کر لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ» صحيح البخاری، الصوم، باب تعجيل الافطار، ح:۱۹۵۷وصحيح مسلم، الصيام، باب فضل السحور،ح:۱۰۹۸۔
’’لوگ ہمیشہ خیریت کے ساتھ رہیں گے جب تک جلد افطار کرتے رہیں گے۔‘‘
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ394
▓ چاند دیکھنے کے معتبر اوقات
چاند دیکھنے کےمعتبر اوقات کو دوامور میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
● پہلا امر
انتیس شعبان کوسورج غروب ہونے سےپہلے چاند دیکھا جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ،یعنی اس سے نا تو روزے رکھنا واجب ہوتا ہےاور نا ہی روزہ چھوڑنا۔کیونکہ اگر اس کا اعتبار کر لیا جائےتومہینے کے اٹھائیس دنوں کا ہونا لازم آتا ہے۔حالانکہ یہ ہو نہیں سکتا۔
● دوسرا امر
جب چاند انتیس تاریخ کو سورج غروب ہونے کے بعددیکھا جائے تو علماء کا اتفاق ہے کہ یہ رؤیت معتبر ہوگی۔اور اسکی دلیل سفیان بن سلمہؓ کی روایت ہے۔کہتے ہیں
“ ہم مقام خانقین میں تھے کہ عمر بن خطابؓ کا خط موصول ہوا۔اس میں لکھا تھا
کہ ”چاند چھوٹا بڑا ہو سکتا ہے، جب تم دن کے وقت چاند دیکھو تو تم شام ہونے
سے پہلے افطار نہ کرو۔ہاں اگر دو مسلمان گواہی دے دیں کہ انہوں نے گزشتہ
رات چاند دیکھا تھا تو پھر افطار جائز ہے۔“
(صحیح ; سنن الدارقطنی ، بیہقی ،التلخیص ٨١٤/٢ )
◆ شک کے روزہ کی ممانعت:
بخاری، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی میں ہے:
((عن صلۃ قال کناً عند عمار فی الیوم الذی یشک فیہ فاق بشاۃ فتنحیٰ بعض القوم فقال عمّار من صام ھذا الیوم فقد عصیٰ ابا القاسم ﷺ))
’’صلہ سے روایت کہ ہم عمار رضی اللہ عنہ کے پاس تھے۔ شک کے روزہ (یعنی یہ معلوم نہ تھا کہ ۳۰ شعبان ہے یا یکم رمضان ہے) ایک بکری کا گوشت آیا۔ بعض لوگوں نے کھانے سے پرہیز کیا۔ عمامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جس نے اس روز روزہ رکھا۔ اس نے ابو القاسم محمد ﷺ کی نافرمانی کی۔‘‘
(یعنی ۲۹ شعبان کو) جب کہ ابر وغیرہ ہو۔ اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ آج چاند ہوا ہے۔ یا نہیں۔ تو دوسرے روز روزہ نہ رکھنا چاہیے۔ بلکہ اس کو ۳۰ شعبان سمجھنا چاہیے۔
◆ اگر ۲۹ شعبان کو ابر ہو:
بخاری، ابو داؤد، اور نسائی میں ہے:
((عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ یقول قال النبی ﷺ صوموا الرؤیتہٖ وافطر والرؤیتہٖ فان غمّ علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلاثین۔))
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چاند دیکھ کر روزہ رکھو۔ اور چاند دیکھ کر روزہ بند کر دو۔ لیکن اگر ۲۹ شعبان کو ابر ہو۔ تو شعبان کے ٣٠ دن پورے کرو۔‘‘
بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، موطاً امام مالک،د ارمی اور منتقیٰ میں ہے۔
((عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ ﷺ ذکر رمضان فقال لا تصوموا حتی تروا الھلال واحرتی تودہ فان غم علیکم فاقدر روا لہٗ))
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر فرمایا کہ جب رمضان کا چاند نہ دیکھ لو۔ روزہ مت رکھو۔ اور جب تک شوال کا چاند نہ دیکھ لو۔ روزہ مت موقوف کرو۔ پس اگر تم پر آبر آ جائے تو ( ٣٠ روز کی گنتی پوری کرنے کے لیے) حساب کر لو۔‘‘
◆ ہر شہر کی رویٔت اپنی اپنی ہے:
مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی میں ہے۔ کریب سے روایت ہے کہ ام الفضل بنت الحارث نے ان کو شام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ کریب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں شام میں پہنچا۔ اور ام الفضل کا کام پورا کیا۔ اور پھر رمضان کا چاند ہو گا۔ اور میں وہیں تھا۔ ہم نے چاند جمعہ کی رات کو (ملک) شام میں دیکھا تھا۔ اور جب رمضان کے آکر میں مدینہ شریف آیا۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے چاند کا حال پوچھا۔ اور کہا کہ تم نے کب چاند دیکھا۔ میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو دیکھا۔ا بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ تم نے چاند اپنی آنکھ سے دیکھا۔ میں نے کہا: ہاں! اور لوگوں نے بھی دیکھا۔ میں نے روزے رکھے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس نے کہا کہ ہم نے تو چاند ہفتہ کی رات دیکھا۔ ہم اسی دن سے روزہ رکھ رہے ہیں اور رکھتے جائیں گے۔ جب تک کہ ٣٠ روزے پورے نہ ہو جائیں۔ یا شوال کا چاند دکھائی دے۔ میں نے کہا تم معاویہ کی رویٔت اور ان کے روزہ پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ اس نے کہا: نہیں۔ کیونکہ ہم کو رسول اکرم ﷺ نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (یعنی اپنی رویت پر عمل کرنے کا)۔
▓ رمضان کا چانددیکھنے کےلیےایک فردکی گواہی کافی ہے
واضح رہے کہ رؤیت ھلال کے لیے عادل و قابل اعتماد ایک شخص ہی کی گواہی کافی ہے۔سیدناابن عمرؓ بیان کرتےہیں کہ
✵” لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کو خبر دی کہ میں نے اسےدیکھ لیا ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود
بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔“
(ابوداؤد کتاب الصوم ،٢٣٣٤٢۔دارمی کتاب الصیام،٢٣٤٤۔دارقطنی،١٥٦/٢
بیہقی ٢١٢/٤ ۔ابن حبان ،٨٧١ ۔حاکم ،٤٢٣/١ )
✵ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، منتقیٰ اور ابن جارود میں ہے:
((عن ابن عباس قال قال جاء اعرابی النبی ﷺ فقال انی رأیت الھلال فقال اتشھد ان لا الٰہ الا اللہ اتشھد ان محمد رسول اللہ قال نعم قال یا بلال اذن فی الناس ان یصوموا غدا۔))
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک گنوار آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور کہنے لگا کہ میں نے چاند دیکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ اور محمد رسول اللہ ﷺ اس کے رسول ہیں۔ وہ بولا کہ ہاں! آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کر دو۔ کہ کل روزہ رکھیں۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کےچاند کی رؤیت کے بارے میں ایک مسلمان عادل شخص کی گواہی کافی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرؓ کی گواہی پر خود بھی روزہ رکھا اورلوگوں کوبھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ۔اس مسئلہ کی تائید ایک اور روایت سے بھی ہوتی ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا
” میں نے رمضان کا چاند دیکھ لیا ہے۔تو آپؐ نے فرمایا ! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے
سوا کوئی معبود برحق نہیں؟ اس نے کہا جی ہاں ،پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کیا تمگواہی دیتے ہوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا جی
ہاں،آپؐ نےفرمایا! لوگوں میں اعلان کردوکہ وہ کل روزہ رکھیں “
(ابوداؤد ،کتاب الصیام ،٢٣٤٠ ۔بیہقی ٤١٤/٤١ )
▓ چاند دیکھنے کی دعا
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تو کہتے
اَللہُ اَکۡبَرُ اَللَّھُمَّ اَھۡلِہُ عَلَیۡنَابِالۡاَمۡنِ وَالۡاِیۡمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَالۡاِسۡلاَمِ
وَالتَّوۡ فِیۡقِ لِمَا تُحِبُّ رَبَّنَا وَتَرۡ ضٰی رَبَّنَا وَرَبُّکَ اللہُ
” اللہ سب سے بڑا ہے ۔اے اللہ! تو اسے ہم پر امن ایمان سلامتی اور اسلام
کے ساتھ طلوع کر اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ کہ جس سے تو محبت کرتا
ہے ۔اے ہمارے رب ! اورجسے تو پسند فرماتا ہے (اے چاند) ہمارا اور تیرا
رب اللہ ہے ۔“
(سنن دارمی ،کتاب الصوم : باب ما یفال عندرویت الھلال، ٤٤٢١ یہ روایت کثرت
شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحہ )
حصن المسلم: ص 130ـ131
تحقیق ⇩
حدثنا محمد بن بشار حدثنا أبو عامر العقدي حدثنا سليمان بن سفيان المديني حدثني بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله عن أبيه عن جده طلحة بن عبيد الله : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا رأى الهلال قال اللهم أهله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله
قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب
قال الشيخ الألباني : صحيح
جامع الترمذى: كتاب الدعوات، باب: باب 51 ما يقول عند رؤية الهلال[/qh]
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 430 :
رواه الترمذي ( 2 / 256 ) و الحاكم ( 4 / 285 ) و أحمد ( 1 / 162 ) و أبو يعلى
( 1 / 191 ) و عنه ابن السني في " عمل اليوم و الليلة " ( 635 ) و الدارمي
( 2/ 4 ) و العقيلي ( 182 ) و ابن أبي عاصم في " السنة " ( 376 ) و الضياء في "
المختارة " ( 1 / 279 ) عن سليمان بن سفيان قال : حدثني بلال بن يحيى بن طلحة
ابن عبيد الله عن أبيه عن جده مرفوعا . و قال الترمذي : " حسن غريب " ،
و قال العقيلي في سليمان هذا " لا يتابع عليه " ، و روى عن ابن معين أنه ليس
بثقة . ثم قال العقيلي : " و في الدعاء لرؤية الهلال أحاديث كأن هذا من أصلحها
إسنادا ، كلها لينة الأسانيد " .
قلت : و سليمان بن سفيان ضعيف ، و قد تقدم و مثله بلال بن يحيى بن طلحة و لعله
من أجل ذلك سكت عليه الحاكم ثم الذهبي ، و لم يصححاه . لكن الحديث حسن لغيره بل
هو صحيح لكثرة شواهده التي أشار إليها العقيلي ، لكنها شواهد في الجملة و إنما
يشهد له شهادة تامة حديث ابن عمر قال ... فذكره ، إلا أنه زاد : " و التوفيق
لما تحب و ترضى " . أخرجه الدارمي ( 2 / 3 - 4 ) و ابن حبان ( 2374 )
و الطبراني في " المعجم الكبير " ( 13330 ) عن عبد الرحمن بن عثمان بن إبراهيم
حدثني أبي عن أبيه و عمه عنه . قال الهيثمي : ( 10 / 139 ) : " و عثمان بن
إبراهيم الحاطبي فيه ضعف ، و بقية رجاله ثقات " . كذا قال : و عبد الرحمن بن
عثمان قال الذهبي : " مقل ، ضعفه أبو حاتم الرازي " . و أما ابن حبان فذكره في
" الثقات " ! و له طريق أخرى بلفظ آخر عن ابن عمر ، و هو مخرج في " الضعيفة "
( 3503 ) . و له شاهد آخر مختصر من حديث حدير السلمي مرفوعا به دون قوله : " ربي
و ربك الله " ، و زاد : " و السكينة و العافية و الرزق الحسن " . و هو مخرج
هناك ( 3504 )
سلسلة الأحاديث الصحيحة: باب 1816، ج 4/ ص 315
* فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ394
* فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشّراحمدربّآنی حفظ اللہ
(احکام الصیام )
* سلیمان بن محمد بن سلیمان العصیان حفظ اللہ
( احکام ومسائلِ رمضان )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
- Kya Napaki Ki Halat Me Sehri Kha Sakte Hai?
- Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke Liye Roze Ke Ahkaamat
- Ramzan ke Mahine Me Shaitan Ko Kaid Kar Liya Jata Hai.
- Taraweeh Ki Namaj 8 ya 20 rakaat Sunnat HAi?
- Ramzan Ke Mahine Me Kya Aurat Haiz ko rokne ke liye Dawa Le Sakti hai?
- Iftar ke Waqt Padhi Jane wali Dua.
- Kiske Nam Se Mannat Mangna Chahiye?
Ramzan Ka Mahina Kaisa Mahina Hai? - ramzan Ke mahine me Jhoot nahi bolne walo ko khush khabri.
- Quran Padhne Walo Ki Azmat
- Roza Farz Hone Ke Sharayet, Kis Par Ramzan Ke Roze Farz Hain
- Rozedar Ke Liye Jayez Kaam
- Roze Ki Niyat Ke Masail ~ Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga
- Iftar Ka Waqt Aur Uske Masail~ Iftar Ki Dua, Iftar Ka Sahih Waqt
- Musaafir Ke Roze Ke Ahkaam Aur Masail
No comments:
Post a Comment