Hasan Bin Sabah aur Uski Banayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. Part 52
Hasan Bin Sabah aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan.
Waisa Shakhs Jisne Duniya hi me Jannat Bana diya.
Hasan bin sabah |
❂❀﷽❀❂
┈┈•─ ﷺ ─•┈
╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔
*✨حســـن بـن صـــبـاح اور✨*
*✨اسکی مصنـــوعی جنـــــت✨*
╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚
قسط نمبر/52
سالار اوریزی کو یہ فتح بہت مہنگی پڑی تھی، تمام مؤرخ متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ وسم کوہ کا محاصرہ آٹھ مہینے اور کچھ دن رہا تھا ،اس عرصے میں سالار اوریزی کا آدھا لشکر کٹ گیا تھا، اگر محاصرین کو دھوکے میں نہ مارا جاتا تو محاصرہ ابھی اور طول پکڑ سکتا تھا ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قلعے کے اندر خوراک اور دیگر ضروریات کا ذخیرہ اتنا زیادہ تھا کہ قلعے کے اندر کے لوگ محاصرے سے ذرا بھی پریشان نہیں ہوئے تھے۔
میں آپکو جو یہ داستان سنا رہا ہوں آپکو یہ نہیں بتا رہا کہ فلاں اور فلاں واقعہ کے درمیان کتنا لمبا وقفہ تھا، حسن بن صباح کا دور مقبولیت اور اسکی ابلیسیت کی تاریخ کہیں کہیں تاریکی میں چلی جاتی ہے، جیسے ریل گاڑی چلتے چلتے کسی تاریک سرنگ میں داخل ہو جاتی ہے، اور جب یہ تاریک روشنی میں آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ بےشمار سال گزر گئے ہیں ،وسم کوہ کا قلعہ جس وقت فتح ہوا اس وقت حسن بن صباح بڑھاپے میں داخل ہو چکا تھا ،اسے جنہوں نے دیکھا تھا اور اس کے متعلق سینہ بسینہ جو باتیں سامنے آئیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ حسن بن صباح خاصہ بوڑھا ہو گیا تھا، لیکن اس نے اپنی صحت کو ایسا برقرار رکھا تھا کہ لگتا نہیں تھا کہ اس شخص کی جوانی کو گزرے ایک مدت گزر گئی ہے۔
اوریزی نے اپنے لشکر کو قتل عام کا جو حکم دیا تھا وہ ان شہریوں کے لیے نہیں تھا جو لڑنے میں شامل نہیں تھے، قلعے کے اندر سالار اوریزی کے لشکر کا جم کر مقابلہ کرنے والے شہریوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی، مسلمان لشکر کو یہ اجازت نہیں تھی کہ اندھادھن قتل کرتے چلے جائیں، لوگ گھروں میں دبک گئے تھے اور لڑنے والے شہری بھی گھروں میں جا چکے تھے انہیں پکڑنا ضروری تھا، لیکن اس کے لیے یہ طریقہ اختیار نہ کیا گیا کہ ہر کسی کو گھسیٹ کر باہر لے آتے اور اس کی گردن مار دیتے، سالار اوریزی وہ روایات برقرار رکھی جو مسلمانوں کا طرہ امتیاز چلا آرہا تھا، وہ روایات تھیں مفتوح علاقے کے لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا اور ان کی عزت اور جان و مال کا تحفظ کرنا اور پھر عملاً انہیں یہ یقین دلانا کے انہیں غلام نہیں بنایا جائے گا۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وسم کوہ کے اندر تمام لوگ حسن بن صباح کے پیروکار تھے ،دوسرے شہروں میں مسلمانوں نے باطنیوں کا قتل عام کیا تھا لیکن اس قلعے میں صورت مختلف تھی، وہ یوں کہ ان لوگوں کو بڑے لمبے مقابلے کے بعد شکست دی گئی تھی اور وہ مفتوحین کہلاتے تھے، وہ اب فاتح لشکر کے رحم وکرم پر تھے۔
قلعے کے دروازوں پر اپنے سنتری کھڑے کردیے گئے اور انہیں کہا گیا کہ کسی کو باہر نہ جانے دیں اور جو کوئی اندر آتا ہے اسے آنے دیں، سالار اوریزی نے رات گزرنے کا انتظار نہ کیا اور حکم دیا کے گھر گھر کی تلاشی لی جائے اور تمام مردوں کو باہر لایا جائے، لیکن کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے، اس حکم پر سالار اوریزی کے لشکری گھروں میں داخل ہوگئے اور کونوں کھدروں کی تلاشی لے کر مردوں کو باہر لانے لگے، چودہ پندرہ سال کے بچے سے لے کر بوڑھوں تک کو باہر لایا جارہا تھا ،مشعلیں اتنی زیادہ جلائی گئی تھیں کہ قلعے میں جیسے رات آئی ہی نہیں تھی، ان تمام آدمیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جا رہا تھا ،عورتوں کی چیخ وپکار اور آہ و بکاء اور ان کا واویلا اتنا بلند اور اتنا زیادہ تھا کہ آسمان کے پردے چاک ہو رہے تھے ،لشکری کسی آدمی کو اس کے گھر سے باہر لاتے تو عورتیں اس لشکری کے قدموں میں گر پڑتی یا اسے پکڑ لیتی اور رو رو کر اسے کہتی کہ ان کا آدمی بے قصور ہے اور وہ نہیں لڑا ،ان عورتوں کو یہ ڈر تھا کہ آدمیوں کو باہر لے جا کر قتل کردیا جائے گا، لشکری ان عورتوں کو تسلیاں دیتے تھے کہ ان آدمیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا ،ان آدمیوں میں ایسے بھی تھے جن کے کپڑوں پر خون لگا ہوا تھا اور ان کی تلواریں بھی خون آلود تھی، یہ ثبوت تھا کہ وہ لڑنے کے بعد گھروں میں چھپ گئے تھے، ایسے آدمیوں کو الگ کھڑا کیا جارہا تھا۔
قلعے کے اندر کا ماحول بڑا ہی بھیانک اور ہولناک تھا ،لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور خون اتنا کے چلنا محال تھا ،خون سے پاؤں پھسلتے تھے ،ان لاشوں میں ایسے زخمی بھی تھے جو اٹھنے کے قابل نہیں تھے، وہ بڑا ہی کربناک واویلا بپا کر رہے تھے اور پانی پانی کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھی، سالار اوریزی نے اپنے لشکر کے ایک حصے کو اس کام پر لگا دیا کہ اپنے زخمیوں کو اٹھا کر اس جگہ پہنچایا جائے جہاں مرہم پٹی کا انتظام تھا، اور اپنے شہیدوں کی لاشیں ایک جگہ رکھ دیں، سالار اوریزی نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی باطنی زخمی کو پانی نہیں پلانا ،قلعے کے اندر سب ہی باطنی تھے اور ان کا قصور صرف یہ نہ تھا کہ انہوں نے سالار اوریزی کے لشکر کا مقابلہ کیا تھا، بلکہ ان کا اصل جرم یہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصے سے قافلوں کو لوٹ رہے تھے، کوئی قافلے والا مزاحمت کرتا تو اسے یہ لوگ قتل کر دیتے تھے اور ان کی جوان بیٹیوں کو اپنے ساتھ لے آتے تھے ،انہیں جینے کا حق نہیں دیا جا سکتا تھا۔
جب ان لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جا رہا تھا تو عورتیں چیختی چلاتی اور بعض سینہ کوبی کرتی وہاں پہنچ گئیں اور سالار اوریزی کو گھیر لیا، وہ سب یہی کہہ رہی تھیں کہ ان کے آدمی بے گناہ ہیں، سالار اوریزی نے آگے ہو کر ان آدمیوں سے کہا کہ ان میں جو لٹیرے اور ڈاکو ہیں اور جنہوں نے قافلے لوٹے ہیں وہ خود ہی آگے آجائیں، ان میں ایسے آدمی تو صاف پہچانے جا رہے تھے جن کی تلوار خون آلود اور جن کے کپڑوں پر بھی خون کے چھینٹے تھے، انہیں آگے کر لیا گیا اور چند ایک اور آدمی آگے آگئے، سالار اوریزی نے ایک بار پھر کہا کہ خود ہی آگے آجاؤ ورنہ جب انہیں شناخت کرایا جائے گا تو ان کی جان بخشی نہیں کی جائے گی۔
عورتوں نے جب سالار اوریزی کا یہ حکم سنا اور دیکھا کہ کئی ڈاکو اور رہزن آگے نہیں آرہے تو وہ ان لوگوں کے درمیان چلی گئیں اور ایک ایک کو پکڑ کر آگے دھکیلنے لگیں، وہ تو جانتی تھیں کہ ان میں اصل مجرم کون کون ہے، ان کا لشکر اور ان کے دوسرے ساتھی قلعے کے باہر کاٹ دیے گئے تھے ان میں سے اگر کچھ نکل بھاگے ہونگے تو ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی ۔
بعض باطنیوں کو قلعے کے برجوں میں سے نکال نکال کر لایا جارہا تھا، وہ وہاں چھپے ہوئے تھے۔
مزمل آفندی اور بن یونس بھی سالار اوریزی کے ساتھ تھے، وہ دونوں بہت ہی مسرور تھے، ان کی چال سو فیصد کامیاب رہی تھی۔
میرے بھائیوں!،،،،، سالار اوریزی نے انہیں کہا۔۔۔ میں قلعہ الموت سے آنے والی ہواؤں میں یہ خطرہ اب بھی سونگ رہا ہوں کہ حسن بن صباح ہم پر حملہ ضرور کرے گا ،اسے یہ اطلاع تو مل ہی جائے گی کہ قلعہ وسم کوہ اس کے ہاتھ سے نکل کر ہمارے ہاتھ میں آ گیا ہے ۔
اس کی پیش بندی کر لینی چاہیے۔۔۔ مزمل نے کہا۔۔۔ اگر آپ چاہیں تو میں صبح ہی مرو کو روانہ ہو جاؤں گا اور وہاں سے کمک لے آؤں گا۔
میں مرو سے مزید فوج نہیں منگوانا چاہتا۔۔۔ سالاراوریزی نے کہا۔۔۔۔مرو میں فوج کم ہوئی تو وہ شہر بھی خطرے میں آسکتا ہے، ہم یوں کریں گے کہ صبح اپنے سوار لشکر کو قلعے کے باہر مقیم کردیں گے تاکہ اچانک حملہ آجائے تو وہ محاصرے تک نوبت ہی نہ آنے دیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
قلعہ وسم کوہ وسیع و عریض تھا اس میں غیرفوجی آبادی بھی خاصی زیادہ تھی ،ایک کشادہ میدان تھا جس میں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لایا جارہا تھا اور ان کی شناخت ہو رہی تھی ،سالار اوریزی کی فوج کا ایک عہدیدار تھا جس کا نام شمشیر ابلک تھا ،تاریخ میں اس کا یہ نام تو آیا ہے لیکن یہ نہیں لکھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا، نام سے ظاہر ہے کہ وہ سلجوقی یعنی ترک نسل سے تھا، اس کا دادا ان سلجوقیوں میں سے تھا جنہوں نے سلطنت سلجوقیہ کی بنیاد رکھی تھی، اس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی، اس کے ساتھ چار سپاہی تھے اور وہ دیوار پر جاکر قلعے کے برجوں کی تلاشی لے رھا تھا ،اس کے ساتھ دو سپاہیوں کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں، وہ دو برجوں میں سے تین چار باطنیوں کو پکڑ کر نیچے بھیج چکا تھا۔
قلعے کے بڑے دروازے کے اوپر ایک اور کمرہ نما برج بنا ہوا تھا جو اونچا بھی تھا اور لمبا چوڑا بھی، شمشیر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس برج میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کے اندر سیڑھیاں تھیں جو اس برج کی اوپر والی منزل کو جاتی تھی، وہ جب سیڑھیاں چڑھنے لگا تو اس کے ایک سپاہی نے سیڑھیوں کے نیچے دیکھا وہاں کچھ سامان اور بستر وغیرہ پڑے ہوئے تھے، سپاہی کو یوں شک ہوا تھا جیسے اس نے ان اشیاء کے انبار کے پیچھے دو چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھیں ہوں، سپاہی سیڑھیوں پر جانے کی بجائے سیڑھیوں کے نیچے جھک کر دیکھنے لگا وہاں واقعی ایک آدمی تھا جو چھپا ہوا تھا، سپاہی کے کہنے پر وہ باہر نکل آیا اس کے کپڑوں پر خون کے چھینٹے تھے لیکن اس کے ہاتھ میں تلوار نہیں تھی، سپاہی نے اسے کہا کہ اپنی تلوار لے کر آؤ ورنہ اسے زندہ جلا دیا جائے گا، وہ سیڑھیوں کے نیچے گیا اور اشیاء کے انبار کے نیچے سے تلوار اٹھا کر لے آیا ،تلوار خون آلود تھی اس نے تلوار فرش پر پھینک دی۔
شمشیر ابلک آدھی سیڑھی چڑھ چکا تھا وہ وہیں سے نیچے اتر آیا، یہ آدمی شمشیرابلک کی ہی عمر کا تھا اور بڑا صحت مند تھا ،اس کے چہرے پر کرخت کے تاثرات تھے اور یوں لگتا تھا جیسے وہ جلاد ہو۔
تم بے گناہ نہیں ہوسکتے ،،،،،،شمسیر ابلک نے اسے کہا۔۔۔ تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم ڈاکو اور رہزن ہو، اور نہ جانے کتنے لوگوں کو اب تک قتل کر چکے ہو گے،،،،،، تمہاری تلوار بتا رہی ہے کہ تم آج ہمارے خلاف لڑے تھے ،،،،،چلو نیچے۔
ہاں میں ڈاکو ہوں۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔ اور میں حسن بن صباح کا پیروکار بھی ہوں، میں لڑا بھی ہوں، اور تمہارے تین آدمی قتل کئے ہیں، انتقام لے لو میں قتل ہونے کے لیے تیار ہوں، میں جانتا تھا کہ میرا انجام یہی ہوگا، لیکن ایک بات سن لو مجھے قتل کرو گے تو اپنا نقصان کرو گے اور اگر زندہ رہنے دو گے تو تمہیں اتنا خزانہ ملے گا کہ ایک قلعہ خرید سکو گے۔
زندہ رہنے کی اب کوئی ترکیب کامیاب نہیں ہو گی اے باطنی!،،،،، شمسیر ابلک نے کہا۔۔۔ حسن بن صباح تمہیں چھڑانے نہیں آئے گا ،تم جس خزانے کی بات کر رہے ہو وہ ہمیں مل گیا ہے، اس تہہ خانے کی نشاندہی ہو چکی ہے جس میں اس قلعے کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔
میں جانتا ہوں میرا امام شیخ الجبل مجھے چھڑانے نہیں آئے گا۔۔۔ اس نے کہا۔۔۔مجھے یقین ہے کہ میں تمہارے ہاتھوں قتل ہونگا، لیکن ایک بات سن لو میں اس خزانے کی بات نہیں کر رہا جو یہاں تہہ خانے میں پڑا ہے، وہ خزانہ جو میں بتا رہا ہوں یہاں سے دور پڑا ہے اور میرے سوا کسی کو معلوم نہیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ تم لے لو، کیا تم ان سپاہیوں سے ذرا الگ ہو کر میری بات سننا پسند کروگے؟،،،،، اچھی طرح دیکھ لو میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں، نہ میں تمہیں کوئی دھوکہ دونگا، اور میں دھوکا دے ہی کیا سکتا ہوں تم پانچ مسلح آدمی ہوں اور میں اکیلا اور نہتّہ ہوں۔
معلوم ہوتا ہے اس شخص کی زبان میں کوئی خاص تاثر تھا، یا اس سلجوقی عہدیدار کی شخصیت کمزور تھی کہ اس نے اس ڈاکو کا اثر قبول کرلیا اور اس کی بات سننے پر رضامند ہوگیا، اس نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ وہ برج سے نکل کر دروازے کے ساتھ ہی کھڑے رہیں، سپاہی نکل گئے تو سلجوقی نے اس ڈاکو کو اپنے پاس بٹھا لیا، لیکن بٹھانے سے پہلے اس نے اس ڈاکو کی جامہ تلاشی لے لی تھی، وہ جانتا تھا کہ یہ باطنی کس طرح قاتلانہ وار کیا کرتے ہیں۔
میں شامی ہوں۔۔۔ ڈاکو نے کہا۔۔۔ میرا نام ابوجندل ہے ،میں اپنے ساتھ ایک ذمہ داری لیے پھرتا ہوں، وہ میری دو یتیم بھتیجیاں ہیں دونوں نوجوان ہیں اور بہت ہی خوبصورت، مجھے میرے ساتھیوں نے مشورے دیے تھے اور اب بھی کہتے رہتے ہیں کہ میں ان دونوں کو اپنی امام حسن بن صباح کو پیش کر دوں تو وہ مجھے اپنے یہاں بڑا اونچا رتبہ دے دے گا،،،،، میرے سلجوقی دوست میں نے دوسروں کی بیٹیاں اغوا کرکے امام کو بھیجی ہیں لیکن جب اپنی ان بھتیجیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا مرا ہوا بھائی یاد آجاتا ہے، میں انہیں چھپا چھپا کر رکھتا ہوں ۔
میں مسلمان ہوں ۔۔۔شمسیر ابلک نے کہا ۔۔۔میں خوبصورت لڑکیوں کے لالچ میں نہیں آؤں گا، نہ ہمیں اجازت ہے کہ کسی عورت کو اپنی مرضی سے اپنے پاس رکھ لیں۔
یہ میں جانتا ہوں۔۔۔ ابو جندل نے کہا۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تم ان لڑکیوں کو اپنے سالار کے حوالے کر دو گے اور وہ چاہے گا تو خود ان کے ساتھ نکاح پڑھا لے گا یا اپنے دو لشکریوں کے ساتھ ان کی شادیاں کر دے گا، لیکن کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ان دونوں کو تم اپنے پاس رکھ لو، ایک کو بیوی اور دوسری کو داشتہ بنا لو، میں نے جس خزانے کا اشارہ دیا تھا وہ انہیں لڑکیوں کی خاطر ہے، مجھے تو قتل ہونا ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ ان لڑکیوں کو خالی ہاتھ اس دنیا میں چھوڑ جاؤں۔
کیا تم میری بات نہیں سمجھے۔۔۔ شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔میں اپنی مرضی سے کسی عورت کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ،اگر تم ان دونوں لڑکیوں کو میرے حوالے کر دو گے تو مجھے یہ لڑکیاں چھوڑنی پڑیں گی، یا اپنی فوج چھوڑنی پڑے گی۔
کیا ملتا ہے تمہیں اس فوج میں۔۔۔ ابو جندل نے کہا۔۔۔ اور کیا ملا ہے تمہیں مسلمان ہوکر،،،،،،، تم سمجھتے ہو کہ تم نے اپنی عاقبت سنوار لی ہے، لیکن میں تمہاری دنیا بھی سوار دوں گا، پہلے میری پوری بات سن لو پھر انکار یا اقرار کرنا ۔
وہ خزانہ تم خود کیوں نہیں لے لیتے؟،،،،،، شمسیر ابلک نے پوچھا۔
یہ میری زندگی کی آخری رات ہے۔۔۔ ابو جندل نے جواب دیا۔۔۔صبح تک میں قتل ہو چکا ہونگا ،اگر تم مجھے قتل ہونے سے بچا لو گے تو بھی میں اکیلا اس خزانے تک نہیں پہنچ سکوں گا، میرے تمام ساتھی مارے جا چکے ہیں مجھے کم از کم چار آدمیوں کی ضرورت ہے، وہ خزانہ یہاں قلعے کے کہیں قریب نہیں، تم میرا ساتھ دو گے اور چار پانچ سپاہی رازداری کے ساتھ لے آؤ گے تو ہم اس خزانے تک پہنچ کر وہاں سے نکال لیں گے۔
اور وہاں لے جاکر تم مجھے اور میرے سپاہیوں کو بڑی آسانی سے قتل کر سکو گے۔۔۔۔شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔ اور اگر میں وہ خزانہ تمہارے ساتھ مل کر نکالوں تو کیا میں واپس اپنی فوج میں آسکوں گا؟
پھر فوج میں واپس آنا ہی نہیں۔۔۔ ابو جندل نے پراعتماد لہجے میں کہا۔۔۔ہم دونوں ملک ہندوستان یا دیار حجاز یا مصر کو چلے جائیں گے، اور وہاں شاہانہ زندگی بسر کریں گے، پہلے میرے گھر چلو اور میری بھتیجیوں کو دیکھ لو، مجھ سے ڈرو نہیں میں تمہیں دھوکا نہیں دوں گا ،مجھے باطنی اور ڈاکو سمجھ کر قتل کر دو قتل سے پہلے میں تمہیں اس جگہ کا راستہ اور نقشہ اچھی طرح سمجھا دوں گا لیکن تم میرے بغیر وہاں تک پہنچ نہیں سکو گے ۔
وہ خزانہ آیا کہاں سے ؟،،،،،،شمسیر ابلک نے پوچھا۔۔۔۔ اور وہ اس جگہ کیوں رکھا ہے جہاں تم بتا رہے ہو؟
آج میں ہر بات سچی اور کھری کر رہا ہوں۔۔۔ ابوجندل نے کہا۔۔۔ میں پیشہ ور ڈاکو اور رہزن ہوں، یہ میرا آبائی پیشہ ہے، میرے باپ کا بھی یہی کام اور دادا کا بھی اور شاید دادے کا دادا بھی یہی کام کرتا ہوگا ،اس علاقے میں حسن بن صباح کا عقیدہ پھیل گیا اور اس کے اپنے ڈاکو قافلوں کو لوٹنے لگے تو میں مجبور ہوکر اس کے گروہ میں شامل ہوگیا، اب ہم لوگ الگ تھلگ قافلوں کو نہیں لوٹ سکتے تھے ہمیں حسن بن صباح کی پشت پناہی اور مدد حاصل ہے ،میں نے حسن بن صباح کے پاس جا کر اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس کا مرید ہوگیا ،لیکن آج تک مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ ہم جتنا مال لوٹتے ہیں وہ سارے کا سارا قلعہ الموت بھیجنا ہوتا تھا، اس میں سے ہمیں تھوڑا سا حصہ مل جاتا تھا میں نے اپنے پرانے گروہ کے آدمیوں سے کہا کہ لوٹ مار ہم کریں اور خطرے میں ہم اپنے آپ کو ڈالیں اور مال سارا دوسرے لے جائیں تو کیوں نہ ہم یہ کام ہی چھوڑ دیں، یا اپنے امام کو دھوکہ دیں اور آدھے سے زیادہ مال خود رکھا کریں،،،،،،،، میرا پرانا گروہ بھی امام کے گروہ کے ساتھ مل گیا تھا، میں نے اپنے ان پرانے ساتھیوں کے ساتھ یہ بات کی تو انہیں میری بات اچھی لگی، ہم نے یوں کرنا شروع کردیا کہ کسی قافلے کو لوٹتے تھے تو لوٹ مار کے دوران میرے گروہ کے دو تین آدمی سونا چاندی اور نقدی اپنے پاس چھپا کر وہاں سے کھسک جاتے اور بہت دور نکل جاتے تھے، یہ مال وہ کہیں زمین میں دبا دیتے تھے ،کچھ دنوں میں اپنے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر وہاں جاتااور مال نکال کر اس جگہ پر پہنچا دیتا تھا جو میں نے تمہیں بتانی ہے ،ہم لوگ ایک دوسرے کو دھوکا نہیں دیا کرتے، آج تک میرے کسی آدمی نے یوں نہیں کیا کہ یہاں سے غائب ہو جاتا اور اس جگہ سے خزانہ نکال لے جاتا، یہ ہے حقیقت اس خزانے کی۔
یہ تو مان لیا۔۔۔ شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔ لیکن میں تم پر اعتبار کس طرح کروں؟،،،،،،،تم باطنی ہو، اور باطنی پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ انسان قتل ہوجاتا ہے۔
میرے بھائی!،،،،، ابوجندل نے کہا۔۔۔ میرا کوئی مذہب نہیں، نہ کوئی عقیدہ ہے، میں نے تمہیں بتایا ہے کہ حسن بن صباح ہماری پشت پناہی کرتا تھا اور پناہ بھی دیتا تھا،،،،،،،،،اب ایک کھری سی بات سن لو ،تم مسلمان ہو اور اس امید پر کوئی برا کام نہیں کرنا چاہتے کہ مر جاؤ گے تو خدا تمہیں جنت میں داخل کردےگا، خدا نے آسمانوں میں جنت بنائی ہے لیکن ساری عمر نیک پاک رہو گے تو تم اس جنت کے حقدار بن سکو گے، اس کا کیا اعتبار کہ خدا کی جنت کا وجود ہے کہ نہیں، تم یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتے کہ تم نے کبھی گناہ نہیں کیا، انسان نادانستہ طور پر بھی گناہ کر گزرتا ہے، حسن بن صباح نے زمین پر جنت بنا دی ہے، میں نے یہ جنت دیکھی ہے لیکن اس میں جانے کی کبھی خواہش نہیں کی ،کیوں نہ ہم اپنی جنت خود بنا لیں، ہم بنا بھی سکتے ہیں، وہ خزانہ ایسا ہے جو ھماری تین نسلیں عیش کرتی رہیں تو بھی ختم نہ ہوگا۔
شمشیر ابلک کو چپ سی لگ گئی اور اس کے چہرے کے تاثرات سے صاف پتا چلتا تھا کہ وہ قائل ہوگیا ہے، اور گہری سوچ میں چلا گیا ہے۔
میرے سلجوقی دوست!،،،،، ابوجندل نے کہا۔۔۔ میں تمہیں ایک اور بات بھی بتا دیتا ہوں خوش نہ ہونا کہ تم نے قلعہ فتح کرلیا ہے، امام شیخ الجبل کا لشکر آ ہی رہا ہوگا ،اس لشکر میں وہ فدائی ضرور ہونگے جو شیخ الجبل کے نام پر جان قربان کرنے پر فخر کیا کرتے ہیں، تمھارے لشکر میں کوئی ایک آدمی بھی زندہ نہیں رہے گا ،اس قلعے میں خزانہ بھرا ہوا ہے جو تمہیں معلوم ہو گیا ہے کہ تہہ خانے میں ہے ،لیکن تمہیں یہاں سوائے موت کے کچھ نہیں ملے گا ،یہ سارا خزانہ اگر یہاں سے مرو چلا بھی گیا تو تمہیں کیا ملے گا کچھ بھی نہیں، یہ سلطان کی ملکیت ہوگا، میرے گھر چلو تم دیکھو گے کہ میری دو بھتجیوں کے سوا وہاں کوئی بھی نہیں، ویسے بھی ہمیں گھر جانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ میری بھتیجیوں کو تمہارے دوسرے لشکری لے جائیں اور سالار کے حوالے کردیں، تم جب ان لڑکیوں کو اپنے سالار کی ملکیت میں دیکھو گے تو پچھتاؤ گے کہ تم نے پہلے انہیں کیوں نہ دیکھ لیا اور کیوں نہ انہیں غائب کردیا۔
ہاں !،،،،،شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔ہمیں چلنا چاہیے ،میرے سپاہی یہ نہ سوچیں کہ معلوم نہیں ہم آپس میں کیا سازباز کر رہے ہیں، تم یہیں بیٹھو میں ان کے ساتھ بات کر لوں۔
شمشیر ابلک ابوجندل کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر باہر نکلا اور اس نے اپنے چاروں سپاہیوں کے ساتھ یہ ساری بات کیں جو اس کے ساتھ ابو جندل نے کی تھی، وہ خود ذمہ دار عہدے دار تھا لیکن قائل ہو گیا تھا ،یہ تو سپاہی تھے انہوں نے دیکھا کہ ان کا عہدہ دار خزانہ اور دو لڑکیوں کے چکر میں آگیا ہے تو اس کا ساتھ دینا ہی بہتر ہے ۔
کیا آپ نے یقین کرلیا ہے کہ یہ شخص ہمیں دھوکہ نہیں دےگا؟،،،،،، ایک سپاہی نے پوچھا۔
یہ اکیلا ہے اور ہم پانچ ہیں۔۔۔۔ شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔۔ اور ہم نے اسے نہتّہ کر دیا ہے، میرا ساتھ دو اور اس بات کو راز میں رکھنا۔
شمشیرابلک بُرج میں گیا اور ابو جندل کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا، شمشیر ابلک نے اسے کہا کہ وہ ایسے راستے سے اپنے گھر کو چلے کہ انہیں کوئی دیکھ نہ سکے، ابوجندل اس قلعے کی بھول بھلیوں سے اچھی طرح واقف تھا، وہ انھیں قلعے کی دیوار کے ایسے حصے میں لے گیا جہاں کوئی دیکھنے والا نہ تھا، ابوجندل انہیں ادھر سے اتار کر ایک اندھیرے راستے سے اپنے گھر لے گیا۔
اس نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی تو اندر سے کوئی جواب نہ ملا دروازہ اندر سے بند تھا، اس نے بار بار دستک دی تو بھی اندر خاموشی رہی، وہ سمجھ گیا لڑکیاں دروازہ نہیں کھول رہیں، آخر اس نے بلند آواز سے لڑکیوں کو پکارا تب دروازہ کھلا۔
ابو جندل نے اندر جاتے ہی کہا کہ گھبرائیں نہیں یہ اپنے دوست ہیں، شمشیر ابلک نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ وہ صحن میں ہی رہیں اور خود وہ ابوجندل کے ساتھ ایک کمرے میں چلا گیا ،کمرے میں فانوس جل رہا تھا ابو جندل نے دونوں لڑکیوں کو بلایا شمشیر ابلک نے لڑکیوں کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا، وہ تو بالکل جوان اور بہت ہی خوبصورت لڑکیاں تھیں۔
دیکھو لڑکیوں!،،،،،، ابوجندل نے لڑکیوں سے کہا ۔۔۔یہ مسلمان فوج کے کماندار ہیں، انہوں نے میری جان بخشی کر دی ہے اور تمہاری ذمہ داری بھی اپنے سر لے لی ہے۔
دونوں لڑکیاں شمشیر ابلک کی طرف لپکیں اور اپنے بازو اس کے گلے میں ڈال دیئے، اور ایک اس کی طرف اور دوسری دوسری طرف بیٹھ گئی، اور اپنے گال اس کے گالوں سے ملانے لگیں، جیسے وہ ان کے خون کے رشتے کا کوئی عزیز ہوں ،ان لڑکیوں نے ایسے والہانہ پن کا عملی طور پر اظہار کیا کہ شمشیر ابلک تو جیسے ہپناٹائز ہوگیا ہو۔
باہر کا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور کسی کی آواز آئی۔۔۔۔ کہاں ہے ابو جندل،،،،، باہر آجاؤ باطنی ڈاکو،،،،،، دو آدمی بڑی تیز تیز چلتے اس کمرے میں آگئے جہاں شمشیر ابلک ابوجندل کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ،ان آدمیوں کے آنے سے پہلے ہی شمشیر ابلک اٹھ کھڑا ہوا تھا اور لڑکیاں دوڑ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی تھیں، ان آدمیوں نے شمشیر ابلک کو دیکھا تو ٹھٹک کر پیچھے ہٹ گئے ،وہ اس کے اپنے لشکر کے دو لشکری تھے۔
میں اس گھر کی تلاشی لے چکا ہوں۔۔۔ شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔ میرے ساتھ چار لشکری ہیں، یہاں کوئی باطنی نہیں نہ کوئی ڈاکو ہے، یہ شخص تاجر ہے اور چند دنوں بعد یہاں سے چلا جائے گا ،تم لوگ جاؤ میں ذرا اور تسلی کر کے آؤں گا۔
لشکریوں نے دیکھا کہ ان کا ایک عہدیدار پہلے ہی یہاں موجود ہے تو وہ اس کو سلام کرکے چلے گئے ۔
اب بتاؤ ابوجندل !،،،،،،شمشیر ابلک نے پوچھا۔۔۔ وہ جگہ کہاں ہے؟
ابو جندل نے اسے بتانا شروع کردیا کہ وہ جگہ کتنی دور ہے، اور وہاں تک ہم کس طرح پہنچیں گے، اور وہ علاقہ کیسا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
یہ دونوں لڑکیاں ہمارے ساتھ ہونگی۔۔۔ ابوجندل نے کہا۔۔۔ ہم سب گھوڑوں پر سوار ہوں گے ،دو گھوڑے فالتو ساتھ ہونے چاہیے، دو بڑے وزنی بکس ہیں ایک ایک گھوڑے پر لاد لیں گے اور کچھ سامان ہم اپنے گھوڑوں پر رکھ لیں گے۔
ہمیں ایک دو دنوں میں ہی نکل جانا چاہیے۔۔۔ شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔ دو تین دن اور باہر سے لاشیں اٹھانے اور انھیں ٹھکانے لگانے کا کام ہوتا رہے گا ،یہاں سے نکل جانے کے لیے یہ موقع اچھا ہے۔
ابو جندل نے کہا کہ دو فالتو گھوڑوں کا انتظام وہ کرلے گا اور راستے کی خوراک کا بندوبست بھی وہی کرے گا، اس کے پاس گھوڑوں کی کمی نہیں تھی، شمشیر اپنے چار سپاہیوں کو ساتھ لے کر وہاں سے چلا گیا ،اس نے سپاہیوں کو بھی تیار کرلیا تھا، انہوں نے تیار تو ہونا ہی تھا کیونکہ انہیں اچھا خاصا حصہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
سلطنت سلجوقیہ کے دارالحکومت مرو میں سالار اوریزی کی کامیابی کی دعائیں تو ہوتی ہی رہتی تھیں، لیکن سلطان کے محل میں مایوسی بھی پیدا ہونے لگی تھی، محاصرے کو آٹھ مہینے گزر چکے تھے، اور وسم کوہ سے اموات کی جو اطلاع آرہی تھی وہ حوصلہ شکن تھیں، آخر مزمل اور بن یونس دوہزار گھوڑ سوار لے کر ایک خاص منصوبے کے تحت گئے تو مایوسی میں کمی آنے لگی، لیکن ابھی تک وسم کوہ سے کوئی اطلاع نہیں آئی تھی، سلطان برکیارق اور اس کے دونوں بھائی محمد اور سنجر صبح اٹھتے تو سب سے پہلے یہ پوچھتے کہ وسم کوہ سے کوئی قاصد آیا ہے یا نہیں، آخر ایک روز قاصد آگیا اور وہ بازو لہرا لہرا کر اعلان کرتا چلا آ رہا تھا کہ وسم کوہ کا قلعہ فتح کرلیا گیا ہے اور باطنیوں کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔
سلطان تک خبر نہیں پہنچی تھی کہ یہ جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی، شہر میں جشن کا سا سماں پیدا ہوگیا ،اور جب یہ خبر سلطان کے محل میں پہنچی تو وہاں بھی خوشیاں ناچنے لگیں، شمونہ اور اس کی ماں میمونہ بھی دوڑی دوڑی سلطان برکیارق تک گئیں، سلطان کے محل میں شمونہ کو خصوصی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔
میں وہاں خود جاؤں گا !،،،،،،،سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ ان مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے میں خود وہاں جاؤں گا ،یہ فتح کوئی معمولی فتح نہیں۔
میں بھی ساتھ جاؤں گی سلطان محترم!،،،،،،، شمونہ جو پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی بولی۔۔۔۔ میں حسن بن صباح کے پیرو کاروں کی لاشیں اور ان کی ہڈیاں دیکھنا چاہتی ہوں۔
شمونہ دراصل مزمل آفندی کے لئے پریشان تھی، مزمل اور شمونہ نے عہد کر رکھا تھا کہ پہلے حسن بن صباح کا بیڑہ غرق کریں گے اور اس کے بعد شادی کریں گے، مزمل نے ایک فتح حاصل کر لی تھی ،سلطان برکیارق نے شمونہ کو اجازت دے دی کہ وہ اس کے ساتھ جا سکتی ہے۔
جس وقت سالار اوریزی کا لشکر اور وہ گھوڑسوار لشکر جسے مزمل آفندی لے کر گیا تھا وسم کوہ کے باہر باطنیوں کو گھیرے میں لے چکے تو ایسے گھمسان کی لڑائی ہوئی کہ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا، اس قیامت خیز میں تین باطنی لڑائی سے نکل گئے، تینوں زخمی تھے، انہوں نے قلعہ الموت کا رخ کرلیا وہ حسن بن صباح کو بتانا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
حسن بن صباح تو جیسے قلعہ وسم کوہ کو بھول ہی گیا تھا، وہ کبھی پوچھ لیتا تھا کہ وسم کوہ کا محاصرہ ٹوٹا کہ نہیں، اسے ہر بار اچھی خبر سنائی جاتی تھی کہ محاصرہ ٹوٹا بھی نہیں اور کامیاب بھی نہیں ہوا اور مسلمانوں کے لشکر کا جانی نقصان مسلسل ہوتا چلا جا رہا ہے ۔
یہ محاصرہ کامیاب نہیں ہوگا۔۔۔ حسن بن صباح ہر بار یہی کہتا تھا۔
ایک دن یہ تینوں زخمی قلعہ الموت پہنچ گئے، اور انہیں فوراً حسن بن صباح کے کمرے میں بھیج دیا گیا، انہوں نے کہا یا امام !،،،،،ہم دھوکے میں مارے گئے ہیں، انہوں نے تفصیل سے سنایا کہ ان کے ساتھ کیا دھوکا ہوا ہے، اور وہ سلجوقی فوج کی گھوڑسوار کمک کو اپنی فوج سمجھ بیٹھے تھے اور سلجوقیوں کی باتوں میں آگئے۔
یا شیخ الجبل !،،،،،ایک مشیر نے کہا۔۔۔ اگر ہم پہلے ہی محاصرے پر حملہ کر دیتے تو آج یہ خبر نہ سننا پڑتی، اب بھی کچھ نہیں گیا ہمیں اسی وقت کوچ کر جانا چاہیے، اور ہم قلعہ چھڑا لیں گے۔
میں اپنی طاقت ضائع نہیں کروں گا۔۔۔ حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ ہمارے پاس ایسی فوج ہے ہی نہیں جس سے ہم حملہ کریں، نہ میں ایسی فوج بناؤں گا ،ہمارا ہر آدمی لڑ سکتا ہے لیکن ہم فوج کی طرح نہیں لڑیں گے، ہمارے ہر فدائی کے پاس ایک خنجر یا ایک چھری ہونی چاہیے اس سے زیادہ کوئی ضرورت نہیں، ہمارے پاس ابھی چودہ قلعے ہیں یہ کافی ہیں، سلجوقی سالار نے مجھے بھی دھوکا دیا تھا کہ وہ قلعہ ملاذ خان کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے لیکن میں نے توجہ نہیں دی اور نہ کبھی توجہ دوں گا۔
تو کیا ہم اس نقصان کو برداشت کر لیں گے یا امام !،،،،،ایک اور مشیر نے پوچھا۔
ضروری نہیں کہ ہم ایک قلعے کے بدلے قلعہ ہی لینگے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ ہم اس قلعے کی پوری قیمت سلجوقیوں سے وصول کرلیں گے، اور وسم کوہ میں ہمارا جو مال ودولت گیا ہے وہ بھی ہم پورا کرلیں گے،،،،،،، اب میری بات غور سے سنو اور اسی وقت اس پر عمل شروع ہو جائے،،،،،، اب اپنے گروہ رے اور شاہ در والی شاہراہ پر بھیج دو ،وسم کوہ کی قیمت مسلمان قافلوں سے وصول کرو، اور وہ جس خزانے پر قابض ہوگئے ہیں اس سے دوگنا خزانہ ان سے پورا کرو، ان شہروں کے اندر کسی امیر کبیر تاجر یا جاگیردار کے گھر ڈاکہ ڈالنا پڑے تو یہ کام بھی کر گزرو، مسلمانوں کی قتل و غارت اور تیز کر دو۔
حسن بن صباح کے دماغ کو اس کے وہ مشیر اور مصاحب بھی نہیں سمجھ سکتے تھے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے وہ بڑ نہیں ہانکا کرتا تھا اور کوئی بات غصّے کی حالت میں یا بلا سوچے سمجھے زبان پر نہیں لاتا ،اس کی فطرت میں سوائے ابلیسیت کے اور کچھ بھی نہیں تھا ،اسے صحیح فیصلے پر پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی، اس کی فطرت اس کے دماغ کی رہنمائی کرتی تھی۔
اس نے رے اور شاہ در کے اردگرد کے علاقوں کو رہزنی لوٹ مار اور قتل و غارت کے لئے اس لئے منتخب کیا تھا کہ رے تو مسلمانوں کی اکثریت کا شہر تھا اور اس شہر کا الگ حاکم یا امیر تھا ،شاہ در کی اہمیت یہ تھی کہ اس شہر میں تقریباً آدھی آبادی مسلمانوں کی تھی اور یہ مسلمان باطنیوں سے باہم متصادم رہتے تھے، اس کے علاوہ شاہ در میں اس کا استاد احمد بن عطاش رہتا تھا، اور حسن بن صباح نے سفلی عمل اورابلیسیت کی تربیت یہیں سے حاصل کی تھی ،اور اس کی امامت کا سفر یہیں سے شروع ہوا تھا ،اسے یہ بھی معلوم تھا کہ سلجوقی سلطان کی نظرشاہ در پر لگی رہتی ہے اور کسی بھی روز شاہ در پر سلجوقی حملہ کر دیں گے۔
*=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷*
ابوجندل پیشہ ور ڈاکو تھا ،اور اس کا اثر و رسوخ چلتا تھا، اس کے گروہ کا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہیں رہا تھا لیکن وہ پھر بھی انتظامات کر لیتا تھا ،وسم کوہ کی جو صورتحال بنی ہوئی تھی اس میں انتظامات کر لینا کوئی مشکل نہیں تھا ،وہاں اندر اور باہر لاشیں ہی لاشیں تھیں اور ان لاشوں میں ابھی تک زخمی بے ہوش پڑے تھے، جنہیں مرا ہوا سمجھا جا رہا تھا ،شہر کی عورتیں اور بچے ان لاشوں کو پہچانتے پھر رہے تھے، سلجوقی فوج کے آدمی بھی اپنے سالار کے حکم کے مطابق ان لاشوں میں مسلمانوں کی لاشیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لا رہے تھے۔
سورج غروب ہونے ہی والا تھا جب شمشیر ابلک ایک گھوڑے پر سوار ان بکھری ہوئی لاشوں کے اردگرد یوں پھر رہا تھا جیسے نگرانی کر رہا ہوں ،اس نے گھوڑے کا رخ ایک طرف کیا اور آہستہ آہستہ گھوڑے کو چلاتا کچھ آگے ایک ٹیکری کی اوٹ میں ہو گیا، وہاں اس نے گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی اور گھوڑا دوڑا دیا۔
اس کے چاروں سپاہی ایک ایک کرکے مختلف سمتوں سے نکلے اور اسی طرح دور جا کر گھوڑے دوڑائے اور اس جگہ پہنچ گئے جہاں ابوجندل پہلے موجود تھا، اس کی دونوں بھتیجیاں اس کے ساتھ تھیں، اور اس کے ساتھ دو کی بجائے تین فالتو گھوڑے تھے، وہاں گھوڑوں کی کوئی کمی نہیں تھی ،لڑائی میں جو گھوڑ سوار مارے گئے تھے ان کے گھوڑے میدان جنگ سے بھاگ کر اردگرد کے جنگل میں چلے گئے تھے، سالار اوریزی کے نوجوان گھوڑوں کو پکڑ پکڑ کر لارہے تھے، لیکن ابو جندل نے اس سے پہلے ہی تین گھوڑے پکڑ لئے اور اس جگہ لے گیا تھا جو جگہ ان سب نے مقرر کی تھی۔
ابو جندل نے شمشیر ابلک سے کہا تھا کہ دو کمان اور تیروں کے چار پانچ ترکش بھرے ہوئے ہونے چاہیے، یہ چاروں سپاہی تجربے کار تیرانداز تھے، وہ دو کمان اور پانچ سات تیرکش ساتھ لے گئے تھے، ان کے پاس تلواریں تھیں اور برچھیاں بھی ،ایک گھوڑے پر کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا جو بہت دنوں کے لیے کافی تھا، وہاں پانی کی کمی نہیں تھی۔
وہ جونہی اکٹھے ہوئے اپنی منزل کو چل پڑے، انہوں نے گھوڑوں کی رفتار خاصی تیز رکھی ،وہ اس کوشش میں تھے کہ صبح ہونے تک اتنی دور نکل جائیں کہ تعاقب کا کوئی خطرہ نہ رہے، تعاقب کا خطرہ بہت ہی کم تھا کیوں کہ یہ سب جس طرح ایک ایک کرکے وسم کوہ سے نکلے تھے انہیں کسی نے دیکھا نہیں تھا، وہ جب اکٹھے ہوئے تھے تو ان پر شام نے اپنا دھندلا پردہ ڈال دیا تھا ،جو بڑی تیزی سے رات کی تاریکی جیسا سیاہ ہو گیا تھا، ان کے پاس تین چار مشعلیں بھی تھیں جو انہوں نے جلائی نہیں، کیوں کہ مشعلوں کے شعلے دور سے ان کی نشاندہی کرسکتے تھے، ان مشعلوں کی ضرورت منزل پر پیش آنی تھی۔
شمشیرابلک!،،،،، راستے میں ابوجندل نے کہا۔۔۔ اگر تمہیں میری نیت پر شک ہے تو میری تلوار اپنے پاس رکھ لو ،یہ دل میں بٹھا لو کہ ہم ایک ہیں منزل کے مسافر ہیں ہمارا انجام اچھا ہوگا یا برا ،وہ ہم میں سے کسی ایک کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہوگا ۔
نہیں میرے ہمسفر !،،،،،شمسیر ابلک نے کہا۔۔۔ ہم مسلمان ہیں اگر ہم ایک دوسرے کے خلاف دل میں ذرا سا بھی شک و شبہ یا کدورت رکھیں گے تو ہم اپنی منزل تک پہنچ ہی نہیں سکیں گے، اور اگر پہنچ گئے تو اس مہم میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
ایک بات اور کہونگا شمشیر!،،،،، ابو جندل نے کہا۔۔۔ جس طرح تم نے دل سے شک و شبہ اور کدورت نکال دی ہے اسی طرح دل سے یہ بھی نکال دو کہ تم مسلمان ہو، اور میرا مذہب یا عقیدہ کچھ اور ہے، میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں کسی مجبوری کے تحت حسن بن صباح کے پیروکار بنا تھا ،میں اسے دھوکہ دیتا رہا ہوں، تم بھی مذہب کی اس لکیر کو مٹا ڈالو، اگر یہ تمہارے لئے مناسب نہیں تو مجھے بھی مسلمان سمجھ لو۔
ہاں ابوجندل!،،،،، شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔یہ میرے لئے مشکل ہے کہ مذہب کی لکیروں کو مٹا ڈالوں، اس سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ میں تمہیں مسلمان سمجھوں اور تم بھی اپنے آپ کو دلی طور پر مسلمان سمجھتے رہو۔
اپنے آپ کو فریب نہ دو شمشیر!،،،،،، ابوجندل نے کہا۔۔۔ تم نے شاید ابھی محسوس نہیں کیا کہ تم اب نام کے مسلمان رہے گئے ہو، دل پر جب زروجواہرات کا اور خوبصورت عورت کا قبضہ ہو جاتا ہے تو دل میں مذہب برائے نام پرانے زخم کے نشان کی طرح باقی رہ جاتا ہے، اب اپنے آپ کو یہ دھوکہ نہ دو کہ تم وہ مسلمان رہ گئے ہو جو وسم کوہ کی روانگی سے پہلے ہوا کرتے تھے، میں نے تمہیں اس رات کو بھی کہا تھا جب ہم پہلے ملے تھے کہ حسن بن صباح نے جو جنت بنائی ہے وہ عارضی ہے یہ شخص مرجائے گا تو آہستہ آہستہ اس کی جنت بھی اجڑ جائے گی ،اور وہ جنت جس کا وعدہ تمہیں خدا نے دیا ہے وہ آسمانوں میں ہے اور معلوم نہیں کہ ہے بھی یا نہیں، جنت وہی ہوتی ہے جو انسان اپنے ہاتھوں بناتا ہے، میں تمہاری زندگی کو جنت کا نمونہ بنا دونگا۔
شمسیر ابلک لشکری تھا یا اسے مجاہد کہہ لیں، عالم دین نہیں تھا کہ یہ فلسفہ سمجھ سکتا کہ انسان مال اور مذہب میں سے ایک ہی چیز کا پجاری ہوسکتا ہے، مسلمان کے لیے مالدار ہونا گناہ نہیں لیکن دل میں مال و دولت کا لالچ رکھنا ایسی گمراہی ہے کہ انسان صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے ،وہ اپنے مذہب کو بھی دل میں زندہ رکھنا چاہتا تھا لیکن یہ حقیقت قبول نہیں کر رہا تھا کہ دل میں جب زروجواہرات کی چمک آجاتی ہے تو اس دل میں دین کی شمع بجھ جایا کرتی ہے، شمشیر ابلک مسرور اور مطمئن چلا جا رہا تھا فاصلے کم ہورہے تھے اور رات گزرتی جارہی تھی۔
صبح طلوع ہوئی تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی ہرا بھرا جنگل اور سرسبز ٹیکریاں دور پیچھے رہ گئی تھیں اور وہ ایسے علاقے میں داخل ہو گئے تھے جہاں دیواروں کی طرح چھوٹی بڑی پہاڑیاں اور چٹانیں کھڑی تھیں، ان کا رنگ کہیں سلیٹی کہیں مٹیالا اور کہیں سیاہی مائل تھا ،ان کی شکلیں بھی عجیب و غریب تھیں، ابو جندل اس علاقے سے واقف تھا اور اس میں سے گزرنے کا راستہ بھی جانتا تھا ،شمشیر ابلک اور اس کے سپاہیوں کے لیے یہ علاقہ اور اس کے خدوخال ڈراونی سے تھے کہیں کہیں ایک آدھ درخت کھڑا نظر آتا تھا ورنہ وہاں گھاس کی پتی بھی نظر نہیں آتی تھی۔
یہ تو جنات اور بدروحوں کا دیس معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔ شمشیرابلک نے ابوجندل سے کہا۔۔۔ میں نے ایسا بھدا اور ڈراؤنا علاقہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
ہاں شمشیر!،،،،، ابو جندل نے کہا۔۔۔ لوگوں میں یہی مشہور ہے کہ اس علاقے میں بد روحیں اور چڑیلیں اور جنات رہتے ہیں، معلوم نہیں یہ کہاں تک سچ ہے لیکن اس کے اندر زہریلی چیزیں رہتی ہیں،،،،، اب ہمیں کچھ دیر آرام کر لینا چاہیے تھا، تعاقب کا خطرہ ختم ہوگیا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
یہ سارا علاقہ پتھریلا تھا اس کے اندر جاکر ابوجندل نے ایک جگہ دیکھی جو ذرا ہموار تھی اور وہاں پتھر بھی کم تھے وہاں دو درخت بھی تھے جن کی صرف شاخیں تھیں پتا ایک بھی نہیں تھا ،انہوں نے گھوڑے ان دو درختوں کے ساتھ باندھ دیے اور الگ ہٹ کر بیٹھ گئے ۔
رات بھر کے جاگے ہوئے مسافر زمین پر لیٹ گئے اور کچھ ہی دیر بعد گہری نیند سو گئے۔
اچانک ایک گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا اور فوراً بعد تمام گھوڑے اس طرح ہنہنانے لگے جیسے کوئی بہت بڑا خطرہ آن پڑا ہو، انکے سوار جاگ اٹھے اور دیکھا کہ گھوڑے رسیاں چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کی اچھل کود سے پتہ چلتا تھا کہ انہوں نے کچھ دیکھ لیا ہے وہ سب دوڑ کر گئے اور دیکھا دس بارہ قدم دور ایک سیاہ کالا ناگ آہستہ آہستہ رینگتا جا رہا تھا۔
سانپ کو دیکھ کر ہر جانور اسی طرح ڈر جاتا اور بھاگ اٹھتا ہے ،بعض گھوڑے تو سانپ کو دیکھ کر چلتے چلتے رک جاتے اور اس طرح کانپنے لگتے ہیں کہ ابھی گر پڑیں گے،،،، ابو جندل نے ایک کمان اٹھائی اور اس میں تیر ڈالا سانپ پر تیر چلایا لیکن تیر اس کے قریب لگا۔
سانپ کو بھاگ جانا چاہیے تھا لیکن وہ رک گیا اور اس نے پھن پھیلا دیا اور پھنکارنے لگا،اس سے اس کے غصے کا اظہار ہوتا تھا ایک سپاہی نے ابوجندل کے ہاتھ سے کمان لے لی اور اس میں تیر ڈال کر چلایا تو سانپ کے پھن کے پار ہوگیا، سانپ کچھ دیر لوٹ پوٹ ہوتا رہا اور پھر بے حس و حرکت ہو گیا۔
آسمان پر گہرے بادل تو پہلے ہی منڈلا رہے تھے لیکن ان مسافروں کو معلوم نہ تھا کہ جس بے آب و گیاہ پہاڑی کے دامن میں انھوں نے پڑاؤ کیا ہے اس کے پیچھے سے سیاہ کالی گھٹا اٹھتی آرہی ہے، ادھر سانپ مارا ادھر بڑی زور کی گرج سنائی دی اور پھر بجلی اور اس کے ساتھ ہی اس کی ایسی کڑک سنائی دی جیسے چٹان ٹوٹ پھوٹ گئی ہو، سب کے دل دہل گئے، گھوڑے جو سکون میں آگئے تھے پھر بدکنے لگے۔
بجلی رہ رہ کر چمکتی اور کڑکتی تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ بجلیوں کو اس کالے ناگ کی موت پر غصہ آگیا ہو، آسمان بڑی تیزی سے تاریک ہونے لگا اور گھٹا دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کے خوبصورت بادلوں کے ٹکڑوں کو نگلتی آگے ہی آگے بڑھتی گئی اور جب بارش شروع ہوئی تو لگتا تھا گھٹا کا سینہ پھٹ گیا ہو، ایسی موسلادھار بارش کے ایک ہاتھ دور کچھ نظر نہیں آتا تھا، اور جل تھل ہوگیا۔
وہاں بارش سے بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی ابو جندل نے انھیں بتایا کہ یہاں غار ہے لیکن خاصا آگے ہے جہاں تک ہم اتنی جلدی نہیں پہنچ سکیں گے، اتنی دیر میں یہ گھٹا آگے نکل جائے گی،،،،، وہیں کھڑے رہے اور بارش کے قطرے ان پر اس طرح پڑتے رہے جیسے کوئی کنکریاں مار رہا ہو۔
یہ سانپ کسی کی بدرو معلوم ہوتی ہے۔۔۔ ایک سپاہی نے کہا ۔ ۔اسے تیر لگا ہی تھا کہ ہم پر یہ طوفان ٹوٹ پڑا ۔
کسی وہم میں نہ پڑو میرے دوستو!،،،،، ابو جندل نے کہا۔۔۔ میں اس علاقے میں سے اتنی بار گزرا ہوں کہ مجھے یاد ہی نہیں رہا ،اور یوں لگتا ہے جیسے یہ میری زندگی کا راستہ ہے، ڈرو نہیں بارش تھم جائے گی۔
میں نے اتنی تیز بارش پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔ شمشیرابلک نے کہا۔
شمشیر بھائی!،،،،،،ابو جندل نے اسے بڑی ہی دھیمی آواز میں کہا۔۔۔ جیسے وہ کوئی راز کی کوئی بات کہہ رہا ہو، میں ڈرانا نہیں چاہتا لیکن یہ سن لو کہ یہ کالا سانپ اور یہ کالی گھٹائوں کڑکتی ہوئی بجلیاں اچھا شگون نہیں، خدا کرے ہماری مہم کامیاب ہوجائے، لیکن سفر کی ابتدا اچھی نہیں ہوئی۔
میں دعا کروں گا۔۔۔ شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔ خدا ہمیشہ میری دعا سن لیا کرتا ہے۔
تم پہلے کی باتیں کرتے ہو ۔۔۔ابو جندل نے کہا۔۔۔ اب خدا تمہاری نہیں سنے گا ،اب کوئی مصیبت آپڑے تو مجھے بتاؤ یا خود اس کا مقابلہ کرو ،تم خدا کے راستے سے ہٹ گئے ہو اب میری طرح زندگی گزارو۔
ڈیڑھ دو گھنٹوں بعد بارش تھمنے لگی تو گھٹا کچھ تو بکھر گئی اور باقی جو تھی وہ آگے نکل گئی ،کم ہوتے ہوتے بارش رک گئی اور ان لوگوں نے چلنے کا ارادہ کیا، لیکن وہاں پانی ہی پانی جمع ہوگیا تھا ،یہ جگہ کشادہ تو تھی لیکن دو چٹانوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے دریا بن گئی تھی، سب گھوڑوں پر سوار ہوئے اور چل پڑے۔
آگے گئے تو جگہ تنگ ہوتی چلی گئی کیونکہ دونوں طرف ہی چٹانیں ایک دوسرے کے قریب آگئی تھیں، وہاں پانی اس طرح آ رہا تھا جیسے سیلابی دریا ہو ،پانی کا بہاؤ بڑا ہی تیز تھا، ابوجندل نے کہا کہ یہ پانی گہرا نہیں ہے کہ اس میں کوئی ڈوب جائے لیکن گھوڑوں کے لیے اس میں چلنا خاصا مشکل ہوگا۔
گھوڑے یوں تو آگے بڑھتے جارہے تھے پانی کا زور زیادہ ہی ہوتا جا رہا تھا اور نظر ایسے ہی آتا تھا کہ گھوڑے آگے نہیں جا سکیں گے، لیکن پانی کم ہونے لگا اور آگے جگہ بھی ذرا کھلی سی آ گئی ،جس سے پانی پھیل گیا اور گھوڑے نکل گئے۔
*<==========۔=======>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔53۔میں پڑھیں*
*<========۔=========>
No comments:
Post a Comment