Musalmano Ka Andalas Pe Hukumat
طارق بِن زِیاد
تحریر:- صادق حسین
قسط نمبر 7___________________Part 7
یہودی_حجاز جاتے رہتے ہیں اس لیے عربی زبان سے بھی خوب اچھی طرح واقف تھے-
کونٹ جولین کا نام سن کر تدمیر چونک پڑا وہ کچھ سوچنے لگا-
کچھ وقفہ کے بعد اس نے کہا-"
یہودی کتے تو مجھے فریب دیتا ہے-
اس لشکر کے ساتھ تو تو ہے اور تو ہی انہیں کہیں سے چڑھا لایا ہے-
اب تک تیری قوم نے ہماری حکومت میں نہایت آرام اور بے فکری سے رہ کر خوب دولت کمائی مگر اب_______اس دشمنی کے صلے میں ایک یہودی کو بھی اندلس کی سر زمین میں زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا-
تمہاری ساری دولت نیز تمہاری قوم کی تمام لڑکیوں کو تم سے چھین کر ملک بدر کر دیا جائے گا-"
امامن نے زرا طیش بھرے انداز میں کہا-"
او مغرور انسان اگر تمہارے بس کی بات ہوئی تو تم ضرور کرو گے لیکن یاد رکھو کہ اللہ مظلوموں کا حامی ہے اور اس نے ان نیک دل اور اللہ ترس لوگوں کو ستم زدوں کی امداد کے لیے اس ملک میں بھیجا ہے-"
تدمیر نے حقارت سے قہقہہ لگا کر لوٹتے ہوئے کہا-"
اب تم دیکھنا اپنے حمایتیوں کا بھی انجام-"
امامن نے اسے روکتے ہوئے کہا-"
تدمیر ایک بات بتاؤ-"
تدمیر نے اس کی طرف گھومتے ہوئے کہا کیا؟
امامن نے غم زدہ لہجہ میں دریافت کیا-"
میری بیٹی کہاں ہے؟ "
تدمیر نے رعونیت و خشونت کے انداز میں جواب دیا-"
وہ میرے خاص خیمے میں موجود ہے-
ہم نے اب تک اس کی عزت کی ہے اور اسے آرام سے رکھا ہے مگر اب اس کی انتہائی ذلت کی جائے گی اسے سخت تکلیفیں دی جائیں گی-"
امامن: ہاں اگر تم زندہ رہے تو-"
تدمیر لوٹ گیا اس نے کوئی جواب نہیں دیا-
طارق چونکہ اس کی زبان نہیں سمجھ رہے تھے اس لیے انہیں الجھن ہو رہی تھی اور وہ باتیں معلوم کرنے کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا-
جب تدمیر لوٹ گیا تب طارق نے امامن سے پوچھا-"
کیا گفتگو ہوئی ہے تمہارے درمیان؟ "
امامن نے تمام گفتگو سنا دی-
طارق نے کہا-"
وہ مغرور ہے اسے اپنے لشکر اور لشکر کے سازو سامان پر غرور ہے لیکن نہیں جانتا کہ مسلمانوں کا حامی اللہ ہے اور اللہ ہر مغرور و متکبر کو سزا دیتا ہے ان شاءالله وہ اپنی آنکھوں سے اپنا انجام دیکھ لے گا-"
امامن: حضور سب سے زیادہ مسرت کی بات یہ ہے کہ بلقیس بھی اس کے پاس ہی ہے، شاید اللہ اسے آزاد کرا دے
طارق: دعا مانگو اس میں سب کچھ قدرت ہے! !!!!
اس وقت عیسائی لشکر میں طبل جنگ بجا-
طارق نے سمجھ لیا کہ اب مسیحی لشکر حملہ کرنا چاہتا ہے-
اس نے کہا-"
مسلمانوں دشمن تم کو پیس ڈالنے کے لیے حملہ کر رہا ہے-
یہ پہلی مہم ہے ہے اگر تم نے استقلال اور دلیری سے جنگ کر کے اس میں کامیابی حاصل کر لی تو تمہاری دھاک تمام اندلس میں بیٹھ جائے گی-
خوب سوچ لو کہ تمہارے سامنے غنیم ہے اور پیچھے سمندر بھاگنے یا بھاگ کر جان بچانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے-
لڑو اور موت کی لڑائی لڑو قومی روایات کو زندہ اور قرار رکھنے کے لیے لڑو اور غنیم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈال دو اور اس سارے میدان کو ان کی لاشوں سے بھر دو-"
اس مختصر تقریر کے سننے سے مسلمانوں میں جوش و غضب کا دریا امڈ آیا-
وہ مارنے پر تیار ہو گئے-
عیسائی لشکر کے جهتے مسلمانوں کی طرف بڑھ رہے تھے-
نہایت ضبط و انتظام کے ساتھ-
ان کا خیال تھا کہ وہ گھوڑوں کے سموں سے مسلمانوں کو روند ڈالیں گے-
مسلمان بھی ان کے آنے سے شان سے ایسا ہی سمجھ رہے تھے مگر ان پر بالکل بھی ہراس طاری نہ تھا-
وہ نہایت استقلال اور اطمینان سے کھڑے انہیں بڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے-
جب وہ زیادہ قریب آ گئے تب طارق نے رک رک کر تین نعرے لگائے-
تیسرے نعرے کے باوجود مسلمانوں نے مل کر اللہ اکبر کا پر زور نعرہ لگایا-
اس نعرہ کی پر ہیبت آواز تمام میدان میں گونج گئی-
عیسائی حیران اور خوف زدہ ہو گئے مگر وہ رکے نہیں بلکہ برابر بڑھتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کے قریب پہنچ کر حملہ آور ہوئے-
انہوں نے نہایت شدت سے حملہ کیا، اپنے پورے زور و قوت کے ساتھ مسلمانوں نے سد سکندری کی طرح ایک جگہ ہی قائم رہ کر ان کا مقابلہ کیا-
عیسائیوں نے تلواروں سے حملہ کیا-ان کی آبدار تلواریں سورج کی چمکتی ہوئی شعاعوں میں جگمگا رہی تھیں-
عیسائی مسلمانوں پر تلواروں سے حملے کر رہے تھے اور مسلمانوں نیزوں سے-
فریقین جوش و طیش میں بھرے ہوئے تھے نہایت زور و قوت سے حملے کر رہے تھے-
ان کے نیزے قہر آلود سرعت سے اپنے کام میں مشغول تھے-
وہ زیادہ تر گھوڑوں کو نیزوں سے نشانہ بنا رہے تھے جس گھوڑے کے نیزہ لگتا تھا وہ گھبرا کر کھڑا ہو جاتا تھا اور جھرجھری لے کر سوار کو نیچے ڈال دیتا تھا جو سوار ایک دفعہ نیچے گر جاتا تھا اسے پھر اٹھنا نصیب نہ ہوتا تھا-
اول تو گھوڑوں کے سم ہی کچل ڈالتے تھے اور اگر کوئی سخت جان آٹھ کر کھڑا ہونے لگتا تھا تو مسلمانوں کے نیزے اسے چھید چھید کر گرا دیتے تھے-
مسلمانوں نے عیسائیوں کی پہلی صف کا قریب قریب خاتمہ کر ہی ڈالا اور اب دوسری صف پر حملہ
: کر کے اسے بھی الٹنے کی کوشش کرنے لگے-
عیسائی انہیں روند ڈالنا یا قتل کر دینا چاہتے تھے-
وہ غضب ناک ہو ہو کر حملے کر رہے تھے مگر ان کے بنائے کچھ نہیں بنتا تھا-
وہ برہم ہو گئیں-
مسلمان عیسائیوں میں اور عیسائی مسلمانوں میں گھس گئے نیز جو جہاں پہنچ گیا وہیں لڑنے لگا-
اس وقت نہایت خون ریز جنگ شروع ہو گئی تھی-
اب مسلمانوں نے بھی تلواریں کھینچ لی تھیں اور نہایت جوش و خروش سے حملے شروع کر دئیے تھے-
خون آلود تلواریں دور دور تک آٹھ آٹھ کر جھک رہی تھیں-
خون کے فوارے ابل رہے تھے-
ہاتھ پیر سر اور ڈهر کٹ کٹ کر گر رہے تھے-
مجروح چلا رہے تھے گھوڑے ہنہنا رہے تھے اور عیسائی غل مچا رہے رہے تھے-
ان کی آوازوں نے اس قدر شور پیدا کر دیا تھا کہ کان پڑی آواز تک سنائی دیتی تھی، چونکہ عیسائی شیران اسلام کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے اس لیے وہ تمام خیموں سے باہر نکل آئے تھے اور سب کے سب مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے-
گویا خیمے بالکل خالی رہ گئے تھے-
امامن ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا-
وہ بلقیس کو چھڑانے کے لیے عیسائیوں کی نظروں سے بچتا ہوا خیموں کی طرف چلا-
جب وہ میدان جنگ کے آخری کنارے پر پہنچا تو اسے ایک مسلمان کھڑا ہوا..
جاری ہے.......
No comments:
Post a Comment