Jab Musalmano ne Jung ke Maidan me Eid Manaya.
فاتح اندلس
طارق بِن زیادہ
قسط نمبر 22_______________Part 22
میدان جنگ میں عید________
امامن اور اس کے ساتھ جانے والے مسلمان والے تدمیر اور اس کے ساتھیوں کے تعاقب سے واپس آ گئے تھے -
انہوں نے وہ رات بے قرار اور فکر و تشویش کے عالم میں گزاری.
جب صبح ہوئی تو انہوں نے تلاش کیا کہ وہ کون شخص تھا اور اس کا حلیہ کیا تھا؟
پہلے تو طارق نے امامن سے ہی پوچھا اس کا حلیہ کیا ہے مگر امامن نے کہہ دیا کہ وہ تمام عربوں کو ایک ہی سمجھتا ہے اس لیے وہ کوئی خاص نشانی نہیں بتا سکتا-
اب سپاہیوں اور افسروں کی جانچ پڑتال شروع ہوئی دوپہر کے وقت یہ معلوم ہوا کہ اسمٰعیل تهے - اسمٰعیل پانچ سو سپاہیوں پر افسر تھے - ان کا دستہ اس خیال میں تها کہ شاید وہ سپہ سالار طارق کے پاس رہ گئے ہیں -
سپہ سالار دو افسروں کو نہایت تجربہ کار اور بہادر سمجھتے تھے ان میں ایک مغیث الرومی اور دوسرے اسمٰعیل تهے -
جب طارق کو معلوم ہوا کہ کہ تدمیر اسمٰعیل کو قید کر کے لے گیا ہے تو انہیں بڑا رنج ہوا اور انہوں نے امامن کو بلایا جب وہ آ گیا تو اس سے دریافت کیا امامن کیا تم بتا سکتے ہو کہ تدمیر کس طرف بھاگ کر گیا ہو گا؟ "
امامن : نہیں حضور میں کل سے اسے ہر جگہ تلاش کر آیا ہوں جہاں اس کے ہونے کی امید تھی مگر وہ کہیں نہیں ملا-
طارق : کچھ خیال ہے کہ وہ کہاں بھاگ کر جا سکتا ہے؟
امامن : میرے خیال میں قرطبہ جائے گا -
طارق : قرطبہ یہاں سے کتنی دور ہے؟
امامن : بہت دور حضور-
طارق : راستے میں کون کون سے مشہور اور بڑے بڑے مقام پڑیں گے -
امامن : حضور الجزائر ہے شیڈونہ ہے-
طارق : کیا اس طرف فوجی چھاؤنیاں ہیں،
امامن : نہیں حضور
طارق:کوئی قلعہ؟
امامن : قلعہ بھی کوئی نہیں ہے -
طارق کیا اس طرف جنگجو آباد ہیں؟
امامن : حضور سارے عیسائی اگر جنگجو نہیں بهی تو خونخوار ضرور ہیں-
طارق : تو وہ غالباً ہمارا مقابلہ کریں گے؟
امامن : آپ کا مقابلہ اندلس کے چپہ چپہ پر کیا جائے گا -
طارق : مگر اس طرف کوئی سرحدی چوکی بھی نہیں ہے -
امامن : حضور اس کی طرف سمندر ہے، عیسائیوں کا خیال ہے کہ اس طرف سے کوئی دشمن کبھی حملہ آور نہیں ہو سکتا-
طارق : مگر تدمیر یہاں کیوں تھا؟
امامن : بس اتفاق سمجھیں.
طارق اچھا اب ہم کو کس طرف چلنا چاہیے؟
امامن : قرطبہ کی طرف.
طارق ٹھیک ہے-
یقیناً وہ قرطبہ سے ہو کر طلیطلہ جائے گا -
طارق : اور طلیطلہ اندلس کا دارالحکومت ہے-
امامن : جی ہاں!
طارق کیا قرطبہ میں کچھ زیادہ فوج رہتی ہے؟
امامن : نہیں کچھ زیادہ نہیں رہتی مگر ان کے قلعے نہایت مضبوط ہیں-
طارق : تم قلعہ میں داخل ہونے کا خفیہ راستہ جانتے ہو؟
امامن : مجھے معلوم نہیں نہ ہی میں کہ سکتا ہوں کہ کوئی خفیہ راستہ ہے یا نہیں؟
طارق اچھا تم ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہو؟ کیا ارادہ ہے؟
امامن : میں نے آپ کے دامن میں پناہ لی ہے اب آپ کو چھوڑ کر کہاں جا سکتا ہوں.
طارق افسوس تمہاری لڑکی ہاتھ سے نکل گئی-
امامن : حماقت مجھ سے سر زد ہوئی ہے حضور-
طارق : کیا؟
امامن : میں جلدی میں صرف ایک مسلمان کو لے گیا.
طارق بے شک غلطی ضرور ہوئی ہے اگر تم کم از کم ایک دو مسلمان اور لے جاتے تو پھر تمہاری لڑکی بھی مل جاتی اور ہم بے ایک مسلمان کی گرفتاری کے صدمے سے بچ جاتے.
امامن : یہ حماقت یا غلطی اس وجہ سے ہوئی میں نے یہ سمجھ تھا کہ خیمے خالی ہوں گے اور چونکہ لڑائی ابهی ہو رہی تھی اس لیے توقع بهی نہ تهی کہ وہ اتنی جلدی شکست کها کر بھاگ پڑیں گے -
طارق : مجھے یہ خیال ہے کہ تدمیر نے عاقبت نا اندیشی کر کے خانخاناں انہیں قتل نہ کر دیا تو______؟
امامن : آپ کو اور مسلمان کو بڑا ملال ہو گا___؟
طارق ہاں ملال تو ہو گا لیکن____!
امامن : لیکن ان کا انتقام لیں گے-
طارق : ہاں ہر اس شخص کو مار ڈالوں گا جو وہاں موجود ہو گا جس نے بھی شیر دل اسمٰعیل کو قتل کیا ہو گا -
امامن : حضور اور میری بیٹی؟
طارق اگر اس کا بال بھی بیکا کیا گیا تو بھی ان کو نہیں چھوڑوں گا -
اتنے میں لشکر کهانے سے فارغ ہو چکا تھا - طارق نے ایک روز بھی قیام کرنا مناسب نہ سمجھا انہوں نے اسی وقت لشکر کو کوچ کا حکم دیا اور مجاہدین روانہ ہو گئے -
چونکہ یہ لوگ جلد سے جلد قرطبہ پہنچنا چاہتے تھے اس لیے بہت کم قیام کرتے تھے اور زیادہ چلتے رہتے تھے مگر قرطبہ کافی دور تھا اس لیے باوجود بہت سفر کرنے کے بهی ابهی کافی فاصلہ تھا -
ادھر تدمیر کے شکست خوردہ فرار ہو جانے کی خبر الجزائر اور شیڈونہ والوں کو مل گئی تھی - ان پر مجاہدین اسلام کا رعب طاری تھا اور وہ اسلامی لشکر کے آنے کا سن کر بھاگ پڑتے تھے آبادیاں ویران بستیاں خالی اور سنسان ہو گئی تھیں -
مسلمان جس بستی سے گزرے اسے خالی اور ویران پایا.
انہیں الجزائر اور شیڈونہ کے کسی حصے میں بھی عیسائی نظر نہ آئے نہ کہیں مقابلہ ہوا.
انہیں رسد کی ضرورت تھی مگر آبادیاں ویران تهیں - رسد کہاں سے ملتی؟
اتفاق سے کھیتی پکی کھڑی تھی. .وہ جہاں سے جاتے وہاں سے حسب ضرورت اناج کاٹ لیتے.
اکثر جگہ انہیں انگوروں سنگتروں اور دوسرے پھلوں کے باغات بھی ملے.
الجزائر کے بعد انہوں نے شیڈونہ کے ملحقہ علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اب شہر سے آگے بڑھ کر لاجهنڈا جھیل کے قریب پہنچے.
28 رمضان المبارک 92ہجری میں بمطابق 711ءکو مسلمان اس جھیل کے متصل ایک چھوٹی سی ندی کے کنارے پر پہنچے.
انہوں نے دیکھا کہ عیسائیوں کا ٹڈی دل لشکر کئی میل تک گرد و نواح میں پڑا ہوا ہے جہاں تک نظر آتی خیموں کی قطاریں نظر آتیں مسلمان اس عظیم الشان لشکر کو دیکھ کر چپ سے رہ گئے.
طارق سمجھ گئے اور انہوں نے فرمایا.
مسلمانوں کیا میں سمجھ لوں کہ تم عیسائیوں کو دیکھ کر گھبرا گئے ہو؟
لیکن میرا دل اس بات کو تسلیم نہیں کرتا تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہوں نے ملک شام کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور ایرانی سلطنت کو پارہ پارہ کر دیا تھا -
یہ لشکر کچھ زیادہ نہیں ہے. زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ ہو گا تم چهہ ہزار ہو چهہ لاکھ عیسائیوں کے لئے کافی ہو.
اللہ کو یاد کرو اس کی عبادت کرو وہ تمہاری مدد کرے گا ان شاءالله تم فتح یاب ہو گے-"
مسلمانوں پر طارق کی اس مختصر سی تقریر کا بہت اثر ہوا اور ان کے دل میں جوش کا دریا امڈ آیا.
وہ بھی ندی کنارے پر مقیم ہو گئے -
ان کے پاس خیمے تهے وہ جو انہوں نے تدمیر کے لشکر کو شکست دے کر حاصل کیے تھے.
اگرچہ خیمے تھوڑے تهے مگر طارق نے ایسے طریقے سے نصب کرائے تھے کہ دور تک پھیل گئے تھے اور اصل سے چوگنا معلوم ہو رہے تھے -
عیسائیوں نے مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ لیا تھا اور وہ انہیں تھوڑے سمجھ کر بہت خوش ہوئے انہوں نے یقین کر لیا کہ جنگ ہوتے ہی ان کا خاتمہ کر ڈالیں گے -
رات مسلمانوں نے بڑی بے چینی سے بسر کی.
ان کا خیال تھا کہ عیسائی رات کو میدان جنگ میں نکلیں گے لیکن وہ نہ نکلے لہذا مسلمان بهی کمین گاہ میں مقیم رہے.
رات کو چاند ہو گیا اگلے دن عید تهی مگر یہاں انہیں عید کی خوشی ایسی نہ تھی جیسی اپنے وطن میں ہوتی تھی.
صبح ہوئی انہوں نے عید کا دوگانہ ادا کیا.
اس روز عیسائی صف بستہ نہ ہوئے.
مسلمانوں نے بھی میدان جنگ میں صف بستہ ہونا ضروری نہیں سمجھا لیکن عیسائیوں کے میدان میں نہ آنے سے طارق نے سمجھ لیا کہ وہ کسی اور لشکر کا انتظار کر رہے ہیں.
اتفاق سے اسی روز عصر کے بعد مسلمانوں کی جانب سے غبار اٹها.
مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ یہی وہ لشکر ہے جس کے آنے کا عیسائی انتظار کر رہے تھے -
مسلمان ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے تهوڑی ہی دیر میں غبار چهٹ گیا اور آنے والوں کی صورتیں اور لباس نظر آنے لگے.
یہ سب پیدل تهے اور عربوں کا لباس پہنے ہوئے تھے مسلمان ان کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور انہوں نے اللہ اکبر کا غلغلہ انداز نعرہ لگایا.
جب وہ قریب آئے تو وہ تمام مسلمان تهے وہ ان سے بغلگیر ہو گئے.
طارق اور ان کے ساتھیوں کو معلوم ہوا کہ یہ لشکر موسی نے ان کی مدد کے لیے بهیجا ہے یہ لشکر پانچ ہزار تها.
اب مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار ہو گئ تھی.
یہ لشکر بهی آکر فروکش ہو گیا اور مسلمان نے وہ رات نہایت مسرت سے بسر کی _________
*جاری ہے.......
No comments:
Post a Comment