find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Roze Ki Niyat Ke Masail ~ Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga, Sehri Ka Byan

Roze Ki Niyat Ke Masail, Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga, Sehri Ki Azan Aur Waqt, Roza Ke Liye Sehri Khana Sunnat Hai, Sehri Der Se Khana

Roze Ki Niyat Ke Masail, Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga, Sehri Ki Azan Aur Waqt, Roza Ke Liye Sehri Khana Sunnat Hai, Sehri Der Se Khana

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Roze Ki Niyat Ke Masail, Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga, Sehri Ki Azan Aur Waqt, Roza Ke Liye Sehri Khana Sunnat Hai, Sehri Der Se Khana
Roze Ki Niyat Ke Masail ~ Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga, Sehri Ka Byan

◆ روزے کی نیت کے مسائل :
رمضان کے آغاز میں پورے مہینے کے لیے ایک ہی نیت کافی ہے کیونکہ روزہ دار اگر ہر رات ہر روزے کی نیت نہ بھی کرے، تو اس نے مہینے کے شروع سے اس کی نیت کر رکھی ہے۔ اگر اس نے مہینے کے درمیان سفر یا مرض وغیرہ کی وجہ سے کچھ روزے چھوڑدیئے، تو پھر اسے دوبارہ نیت کرنی چاہیے اس لئے کہ اس نے سفر و مرض وغیرہ کی وجہ سے روزے چھوڑ کر نیت کو توڑ دیا تھا۔
دیکھیے : فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ :380
روزے دو طرح کے ہوتے ہیں۔فرض روزہ:جیسے رمضان کاروزہ،نذر کاروزہ،کفارہ کاروزہ وغیرہ۔فرض روزے کے لیے رات کو نیت کرناضروری ہے،اس کاطریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے والا رات کے وقت  اپنے دل میں ارادہ کرے کہ وہ صبح رمضان یانذر یاکفارہ یا قضاء کاروزہ رکھے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے:
"جس شخص نے طلوع فجر سے پہلے رات کو روزہ رکھنے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔"
بیہقی ،ص:203،ج:4۔
یہ حدیث بھی اس امر کا ثبوت ہے:"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔"
صحیح بخاری بدء الوحی:1۔
ان روایات کی روشنی میں فرض روزے کی نیت رات کوکرنا ضروری ہے اگر کوئی دن چڑھے بیدار ہو اور اس نے طلوع فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا پھر اس نے روزے کی نیت کرلی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا،کیونکہ رات کے وقت طلوع  فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری تھا۔
1۔روزہ کی دوسری قسم  نفلی روزہ ہے،اس کی نیت دن چڑھے بھی کی جاسکتی ہے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا بیان ہے کہ ایک روز میرے  پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے اور پوچھا:"کیا تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟"میں نےعرض کیاجی نہیں،آپ نےفرمایا:"تب میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔"
صحیح مسلم الصیام:1154
اس حدیث سےثابت ہوا کہ آپ پہلےبحالت روزہ نہ تھے کیونکہ آپ نے کھانا طلب کیا،اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفلی روزے کی نیت میں دن چڑھے تک تاخیر کرنا جائزہے ،واضح رہے کہ نفلی  روزے کی نیت دن میں اس وقت جائز ہے جب نیت سے پہلے روزے کے منافع کام یعنی فجر ثانی کے بعدکچھ کھایا پیا نہ ہو،بصورت دیگر روزہ صحیح نہ ہوگا۔
واضح رہے کہ نیت محض دل کے ارادے کا نام ہے،اس لیے زبان سے کوئی الفاظ ادا کرنا شرعاً ثابت نہیں ہیں،اس بنا پر ہمارے ہاں مشہور نیت جو سوال میں ذکر کی گئی ہے خود ساختہ اور بے اصل ہے،یہ الفاظ بنانے والے نے عقل سے کام نہیں لیا،کیونکہ اس میں کل کے روزے کی نیت کا ذکر ہے جبکہ روزہ آج رکھا جارہاہوتا ہے،بہرحال روزےکے کے زبان سے مخصوص الفاظ ادا کرنا شرعاً ثابت نہیں ہیں۔
دیکھیے :فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد3/صفحہ/239
✵ہرروزہ کی علیحدہ نیت :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پورے رمضان کے روزوں کے لئے ایک ہی نیت کافی ہے اورہرروزہ کے لئے الگ الگ نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ ہردن ہرروزہ کی الگ الگ نیت کرنی ضروری ہے،دلائل ملاحظہ ہوں:
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّہُ کَانَ یَقُول لَا یَصُومُ ِلَّا مَنْ أَجْمَعَ الصِّیَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ(موطأ مالک رقم ٦ واسنادہ صحیح)۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ روزہ صرف وہی رکھے جوفجرسے پہلے اس کی نیت کرلے۔
اماں حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
لَا صِیَامَ لِمَنْ لَمْ یُجْمِعْ قَبْلَ الْفَجْرِ(سنن النسائی رقم ٢٣٣٦واسنادہ صحیح )۔
معلوم ہواکہ ہرروزے کے لئے الگ سے نیت ضروری ہے۔
✵ نیت کا وقت
ہرروزہ کی نیت کا جووقت ہے وہ مغرب بعدسے لیکرفجرتک ہے ،بہتریہ ہے کہ ہرآدمی شام کوسونے سے پہلے اپنے روزے کی نیت کرلے ، لیکن اگرشام کو نیت نہیں کرسکاتو صبح سحری کے وقت بہرحال نیت کرلینی چاہئے اورسحری کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جوشخص شام کی نیت کرنا بھول جاتاہے اسے سحری کے وقت نیت کا موقع مل جاتاہے ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ سحری کی برکت اوراس کے فوائدکا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَتَدَارُکُ نِیَّةِ الصَّوْمِ لِمَنْ أَغْفَلَہَا قَبْلَ أَنْ یَنَامَ (فتح الباری لابن حجر:١٤٠٤تحت الرقم ١٩٢٣)۔
یعنی سحری کی برکت اوراس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جوشخص سونے سے قبل نیت کرنا بھول جاتاہے وہ سحری کے وقت روزہ کی نیت کرلیتاہے۔
الغرض روزے کی نیت کا وقت یہ ہے کہ شام کو سونے سے پہلے نیت کرلی جائے لیکن اگرشام کو نیت نہ ہوسکے توصبح سحری کے وقت فجرسے پہلے ہرحال میں نیت لازمی ہے۔
✵ نیت کا طریقہ
نیت کا مطلب دل سے کسی کام کے کرنے کا عزم وارادہ کرنا ہے،یعنی یہ دل کا کام ہے ، جیساکہ ہم ہرکام کے لئے دل میں پہلے عزم وارادہ کرتے ہیں پھر ہمارے ذریعہ وہ کام عمل میں آتاہے ۔
عزم وارادہ ، یہ کام ''دل '' سے ہوتاہے ،لہٰذا یہ کام زبان سے نہیں ہوسکتا،جس طرح سننا یہ کام '' کان'' کا ہے اب کوئی زبان سے نہیں سن سکتا، سونگھنا یہ کام ''ناک '' کا ہے اب کوئی زبان سے نہیں سن سکتاہے،اسی طرح ارادہ نیت کرنا یہ کام بھی ''دل '' کا ہے زبان سے ارادہ ونیت بے معنی ہے ۔
مزید یہ کہ زبان سے نیت کرنے سے متعلق کوئی موضوع اورمن گھڑت روایت تک نہیں ملتی اورلوگ''نویت بصوم غد من شھر رمضان'' یا اس جیسے جو الفاظ بطورنیت پڑھتے ہیں یہ لوگوں کی اپنی ایجاد ہے کسی صحیح تو درکنا ر ضعیف اورموضوع روایت میں بھی یہ الفاظ نہیں ملتے۔
دراصل زبان سے چندالفاظ اداکرنے کا نیت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، غورکیجئے کہ جوشخص روزہ کا ارادہ نہ رکھے وہ بھی زبان سے یہ الفاظ ادا کرسکتاہے گرچہ اس کے دل کا ارادہ کچھ اورہی ہو، دریں صورت اس کاکوئی فائدہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک لغوچیزاوربدعت ضلالت ہے۔
خلاصہ کلام:
یہ کہ روزہ داروں کو چاہئے کہ ہرروزہ کی الگ الگ نیت کریں۔
نیت ہررات شام ہی کو کرلیں اگربھول جائیں تو فجرسے قبل لازما نیت کرلیں۔
نیت کامطلب دل میں روزہ رکھنے کا عزم وارادہ ہے۔جس طرح ہرکام کیلئے ہم دل سے عزم وارادہ کرتے ہیں۔
( ابوالفوزان الشیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ)
 ◆ سحری کی اذان اور وقت
«عن عائشة إن بلالا کان یؤذن بلیل، فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم کلوا واشربوا حتی یؤذن ابن امّ مکتوم فانه یوذن حتی یطلع الفجر» البخارى كتاب الصوم
عائشہ کہتی ہیں: حضرت بلال رات کے وقت اذان دیا کرتے تھے۔ پس رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: تم سحری کے وقت کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ مؤذن ابن ام مکتوم اذان دے۔ وہ طلوع فجر سے پہلے اذان نہیں دیا کرتے تھے۔
اس صحیح حدیث (قطعی الثبوت، قطعی الدلالت) سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہیں۔
 (الف) عہدِ نبویﷺ میں دو مؤذن مسجد نبویﷺ میں مقرر تھے؛ ایک بلال۔۔۔ جو سحری کے وقت اذان کہتے تھے، دوسرے ابن ام  مکتوم ۔۔۔۔ جو طلوعِ فجر پر اذان دیا کرتے تھے۔
(ب) فجر سے پہلے سحری کے وقت اذان کہنا مسنون ہے اور یہ بھی کہ یہ تعامل عہدِ نبویؐ میں جاری رہا کیوں کہ لفظ ''کان یؤذن'' ماضی استمراری ہے۔
 (ج) سحری کی اذان کے وقت روزہ رکھنے والے کو کھانا پینا درست ہے جب کہ فجر کی اذان سے کھانا پینا بند ہو جاتا ہے۔
 (د) مسجد میں دو مؤذن (عن ابن عمر قال كان لرسول الله مؤذنان : بلال و ابن أم مكتوم-مسلم 1/125-12منه)مقرر کرنے مسنون ہیں؛ ایک سحری کے وقت اذان دینے والا، دوسرا فجر طلوع ہونے پر اذان دینے والا۔ یہ اس لئے ہے کہ دو مختلف آوازوں سے اذانِ سحری اور فجر کا امتیاز ہو جائے۔
  «عن عبد اللّٰه بن عمر قال سمعت رسول اللّٰه (ﷺ) یقول: إن بلالا یؤذن بلیل فکلوا واشربوا حتی تسمعوا أذان ابن أم مکتوم»مسلم249/1
ابن عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ بلالؓ تورات کے وقت اذان دیتا ہے اس لئے تم کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم کی اذان سن لو۔
  « عن ابن مسعود عن النبیﷺ قال: إن بلالا یؤذن بلیل لیوقظ نائمکم ولیرجع قائمکم»امام محمد بن الحسن الشیبانی (موطا امام محمد مترجم:138) اور حافظ ابن حزم المحلی 117/2) نے وضاحت کی ہے کہ بلال﷜ سحری کے وقت اذان دیتے تھے ۔ النسائی1075/1
ابن مسعودؓ نے آپﷺ سے روایت کیا ہے کہ بلالؓ رات کو اذان کہتا ہے تاکہ سونے والے کو بیدار کرے اور قیام کرنے والا واپس لوٹ جائے۔
اس حدیث میں اذانِ سحری کا مقصد بیان کیا ہے۔
  «عن عائشۃ قالت: قال رسول اللّٰه ﷺ: إذا أذن بلال فکلوا واشربوا حتی یؤذن ابن أم مکتوم قالت: ولم یکن بینھما إلا ینزل ھذا ویصعد ھذا» النسائى 74/1
عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مؤذن اذان کہہ کر اترتا تھا تو دوسرا اذان کے لئے چڑھ جاتا تھا۔
اِس حدیث میں دو اذانوں کا درمیانہ وقفہ (مبالغۃً) ذکر ہے۔ وقت کے اندازہ سے مقصد یہ ہے کہ نبیﷺ اور ان کے صحابہؓ سحری دیر سے کھاتے تھے۔ یعنی پہلی اذان پر کھانا شروع کرتے جب کہ فوری طور پر دوسری اذانِ فجر ہو جاتی۔
  «عن سمرة بن جندب قال: قال رسول اللّٰه (ﷺ) لا یمنعکم من سحورکم أذان بلال ولا الفجر المستطیل ولکن الفجر المستطیر في الأفق»مسند احمد’ مسلم
رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ تم کو سحری کھانے سے بلال کی اذان اور صبح کاذب جس میں سفیدی بلندی کی طرف اُٹھنے والی ہوتی ہے۔۔۔۔ نہ روکے لیکن وہ صبح۔۔۔۔۔ جس میں سفیدی دائیں بائیں پھیلتی ہے۔۔۔۔ سحری کھانے سے مانع ہے۔
اس حدیث پر امام احمدؒ نے یوں عنوان لکھا ہے۔ باب وقت السحور واستحباب تاخیرہٖ۔ یعنی سحری کا وقت اور اس کو دیر سے کھانے کا استحباب۔ اور موطا میں امام مالکؒ نے ایک باب یوں باندھا ہے۔ قدر السحور من النداء یعنی اذان کے ذریعہ سے سحری کا اندازہ۔
خبیب بن عبد الرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میری پھوپھی۔۔۔۔ نے بیان کیا:۔
  «کان بلال وابن أم مکتوم یؤذنان للنبي (ﷺ) فقال رسول اللہ ﷺ إن بلا لا یؤذن بلیل، فکلوا واشربوا حتی یؤذن ابن أم مکتوم؛ فکنا نحبس ابن أم مکتوم عن الأذان، فنقول کما أنت حتی نتسحر ولم یکن بین أذا نیھما إلا أن ینزل ھذا ویصعد ھذا»مسند ابى داؤد الطيالسى185/1
نبیﷺ نے دو شخص مؤذن مقرر کر رکھے تھے (جواپنے اپنے وقت پر اذان دیا کرتے تھے۔) ایک بلالؓ اور دوسرا ابن ام مکتومؓ۔ نبیؐ نے فرمایا: بلالؓ رات کو (سحری کے وقت) اذان دیتا ہے۔ تم اس وقت تک کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دے۔ ہم ابن ام مکتوم سے کہتے، ٹھہر جا! کہ ہم سحری کھا لیں۔ دونوں اذانوں کے درمیان اتنا تھوڑا وقفہ ہوتا تھا کہ ایک اترتا تو دوسرا چڑھ جاتا۔
مولانا عبد الجلیل صاحب جھنگوی نے اپنے رسالہ اذا ن سحور کے ص ۱۰ میں امام نوویؒ سے نقل کیا ہے کہ:۔
''علما کرام نے اس کی صورت یہ بتائی ہے کہ حضرت بلالؓ فجر سے پہلے سحری کی اذان دے کر ذکر دعا وغیرہ میں مشغول رہتے تھے۔ جب دیکھتے کہ فجر ہونے کے قریب ہے تو اتر آتے اور ابن ام مکتوم کو اطلاع دیتے جو پوہ پھٹنے پر اذان دیتے۔''
پھر مولانا موصوف نے حجۃ اللہ البالغہ / ۱۹۲:۱ سے نقل کیا ہے کہ:
''امام دو مؤذن ایسے مقرر کرے جن کی آواز لوگ پہنچانتے ہوں اور لوگوں کے لئے امام اس کا تفصیلاً اعلان کر دے۔'' (ملخصاً)
  «عن أبی محذورۃ قال: قال رسول اللّٰه (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) أمناء المسلمین علی صلاتھم وسحورھم المؤذنون»السنن الكبرى للبيهقى426/1 ایک اور روایت میں ہے کہ«ألمؤذنون أمناء الله على فطرهم وسحورهم» مجمع الزوائد143/1 اور مشکوۃ میں ہے «عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خصلتان معلقتان في أعناق المؤذنين للمسلين صيامهم وصلوتهم » رواه ابن ماجه وقال القارى سنده صحيح یہ دونوں حدیثیں ۔
رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ مسلمانوں کی نمازوں اور سحریوں پر امین ان کے مؤذن ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اذانِ نماز کی طرح اذانِ سحری کے لئے بھی مؤذن مقرر ہوتا ہے1، جیسا کہ عہدِ نبوی میں تھا اور یہی عمل مسنون ہے۔
عبدالقادر عارف حصاری
◆  روزہ رکھنے کے لیے سحری کھانا سنتِ رسول ہے
سحری سے مراد وہ کھانا ہوتا ہے جو انسان رات کے آخری حصے میں تناول کرتا ہے، اور اسے سحری اس لیے کہا گیا ہے کہ رات کے آخری حصے کو سحر کہتے ہیں اور یہ کھانا اسی وقت میں کھایا جاتا ہے۔
دیکھیں: " لسان العرب " (4/ 351)
سحری کی فضیلت میں متعدد احادیث وارد ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (سحری کرو؛ کیونکہ سحری میں برکت ہوتی ہے) بخاری: (1923) ، مسلم (1095)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ( سحری تناول کرنا  ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق   ہے) مسلم : (1096)
اور ایک حدیث میں ہے کہ: ( بیشک اللہ تعالی سحری کرنے والوں  پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے  ان کیلیے  رحمت کی دعا کرتے ہیں)احمد : (11086) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے  صحیح قرار دیا ہے جبکہ البانی نے اسے "سلسلہ صحیحہ " (1654) میں حسن کہا ہے۔
ان احادیث میں  سحری سے مراد وہ کھانا ہے جو روزے دار اس وقت میں کھاتا ہے؛ کیونکہ سحری کھانے سے روزہ دار  کو روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے اور سارا دن آسانی سے گزر جاتا ہے؛ نیز سحری تناول کرنا ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق کا باعث ہے، اہل علم کی سحری کو بابرکت بنائے جانے سے متعلق گفتگو سے یہی معلوم ہوتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا سحری کے مستحب ہونے پر اجماع ہے اور یہ کہ سحری کرنا واجب نہیں، سحری میں برکت کا معاملہ بھی واضح ہے؛ کیونکہ سحری کرنے سے روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے اور سارا دن جسم توانا رہتا ہے، اور چونکہ سحری کھانے کی وجہ سے روزہ میں مشقت کا احساس کم ہو جاتا ہے ، اس کی بنا پر مزید روزے رکھنے کو بھی دل کرتا ہے، لہذا سحری کے بابرکت ہونے کے متعلق یہی معنی اور مفہوم صحیح ہے" انتہی
" شرح مسلم  " از نووی:  (7/ 206)
اسی طرح مناوی رحمہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (بیشک اللہ تعالی سحری کرنے والوں  پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے  ان کیلیے  رحمت کی دعا کرتے ہیں) کا معنی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"یعنی وہ لوگ جو روزے میں معاونت کی غرض سے سحری تناول کرتے ہیں، کیونکہ روزے کی وجہ سے پیٹ اور شرمگاہ کی شہوت کمزور پڑتی ہے اور یوں  دل  صاف ہوتاہے،   روحانیت کا غلبہ بڑھتا ہے جو کہ اللہ تعالی کے قرب کا موجب بنتی ہے، اسی لیے سحری کرنے کیلیے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے" انتہی
" فيض القدير " (2/ 270)
اور اسی طرح : " الموسوعة الفقهية " (24/ 270) میں ہے کہ:
"روزے دار کیلیے سحری کرنا سنت ہے، ابن منذر نے اس کے مستحب ہونے پر اجماع نقل کیا ہے" انتہی
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"روزے دار کیلیے طلوعِ فجر سے پہلے سحری کرنا مستحب ہے؛ کیونکہ سحری کرنے سے روزہ رکھنے میں مدد ملتی ہے" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة " (9/ 26)
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سحری میں برکت ہے؟ یہ برکت کیسے ہے؟ [اس کا جواب یہ ہے کہ] سحری سراپا برکت ہے، سب سے پہلے تو یہ عبادت ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ہے، جہنمیوں کی  مخالفت ہے، سحری سے روزہ رکھنے میں معاونت ملتی ہے، انسانی جان کو اس کا حق ملتا ہے کیونکہ انسان نے اس کے بعد کافی دیر تک کھانے پینے سے رکے رہنا ہے، چنانچہ سحری کھانے سے انسان  سارا دن روزہ  -جو کہ اللہ تعالی کی بہت بڑی عبادت ہے -رکھنے کی طاقت حاصل کر لیتا ہے ، بلکہ سحری روزے کا ابتدائی حصہ بھی ہے۔" انتہی
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تَسَحَّرُوۡ وَ لَوۡ بِجُزۡ عَةٍ مِّنۡ مَّاءٍ
سحری کھاؤ اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ سے ہو
(موارد الظمان ،٨٨٤ )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سحری کھانے کےلیے بیدار ہونا ضروری ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
فَصۡلُ مَا بَیۡنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ اَھۡلِ الۡکتِابِ اکۡلَةُ السَّحَرِ
ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق سحری کا ہے۔
( مسلم ، کتاب الصیام ،باب فضل السحور وتاکید استحبابہ (١٠٩٦ )
سحری میں اللہ تعالیٰ نے برکت بھی رکھی ہوئی ہے۔جیسا کہ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا
تَسَحَّرُوۡ فَاِنَّ فِیۡ السُّحُوۡرِبَرَکَةُ
سحری کھاؤ اسلیے کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔
(بخاری ،کتاب الصوم ،باب برکة السحور من غیرِ ایجاب ،١٩٢٣ )
حضرت عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے
دَعَانِیۡ رَسُوۡ لُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ اِلَی السُّحُوۡرِ فِیۡ رَمَضَانۡ فَقَالَ ھَلُمَّ اِلَی الۡغَدَاءِ الۡمبَارَکِ
” مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں سحری کھانے کی
 دعوت دی توآپ نے فرمایا صبح کے بابرکت کھانے کی طرف آؤ۔“
(اباداؤد ،کتاب الصیام ،ح٢٣٤٤ ۔نسائی،ح٢١٦٤ ۔مواردالظمان،٨٨٢۔نیل المقصود،٢٣٤٤)
( سیدنا ابو درداء سے اس حدیث کاشاہد حسن سند کےساتھ صحیح ابن حباب میں موجود ہے
مواردالظمان ٨٨١ ،١٨٤/٣ )
سحری کی برکت سے شرعئی اور بدنی برکت مرادہے۔شرعئی برکت تو یہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی فرمانبرداری اور آپؐ کی اقتداء ہے۔اور بدنی برکت سے مراد یہ ہے کہ سحری سے بدن کو غذا ملتی ہے اور روزہ کے لیے تقویت نصیب ہوتی ہے
یہاں ایک بات تذکرہ کردیں کہ اگر سحری میں ایک دو منٹ کی تا خیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سےمروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا
” جب تم میں سے کوئی آذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ
اس برتن کو حاجت پوری کرنے سے پہلے نہ رکھے ۔“
( ابو داؤد ، کتاب الصوم ،ح ٢٣٥٠ ۔مستدرک حاکم ٤٢٦/١
 بیہقی٢١٨/٤ ، دارقطنی،٢١٦٢ باب فی وقت السحر)
◆   سحری دیر سے کھانا  
  عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”  یقینًا ہم نبیوں علیھم السلام کا گروہ ہیں ۔ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنی سحری میں
تاخیرکریں اور افطاری جلدی کریں۔اور اپنی نمازمیں دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھیں “
( مواردالظمان،٨٨٥ ۔ طبرانی کبیر،  ١٩٩/١١ ( ١١٤٨٥ )
اسکی سند صحیح ہے اور اس کے کئی ایک شواہد بھی موجود ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سےمروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا
” جب تم میں سے کوئی آذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ
اس برتن کو حاجت پوری کرنے سے پہلے نہ رکھے ۔“
( ابو داؤد ، کتاب الصوم ،ح ٢٣٥٠ ۔مستدرک حاکم ٤٢٦/١
 بیہقی٢١٨/٤ ، دارقطنی،٢١٦٢ باب فی وقت السحر)
علامہ عبیداللہ مبارکپوریؒ فرماتےہیں
”  اس حدیث میں فجر کی آذان سنتے وقت اس برتن سے کھانے اور پینے کی اباحت معلوم ہوتی ہے
جو اس کے ہاتھ میں ہے۔اور یہ کہ وہ اسے اپنی حاجت پوری کرنے سے پہلے نہ رکھے۔“
(مسند احمد٣٤٨/٣ ) میں جابر ؓ سے اس حدیث کا ایک شاہد بھی ہے۔جسے علامہ ہیثمیؒ نے حسن قراردیاہے۔
(مرعاة المفاتیح ٤٨٠/٦ )
فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشّر احمد ربّانی
آپکے مسائل اورانکا حل(جلد سوم)
احکام و مسائل
فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمة اللہ علیہ
فتاویٰ اسلامیہ / جلد دوم
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
 وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه


Share:

1 comment:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS