Hasan Bin Sabah aur Uski Banayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. Part 51
Husn Bin Saba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan.
Husn Bin Saba Ka Jhhoota Nabi Hone ka Dawa aur uska Tahqeeq.
Hasan bin sabah |
❂❀﷽❀❂
*✶┈┈┈•─ ﷺ ─•┈┈┈✶
╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔
✨حســـن بـن صـــبـاح اور✨
✨اسکی مصنـــوعی جنـــــت✨
╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚
قسط نمبر/51
اس دوران ان باطنیوں نے جن اہم شخصیتوں کو قتل کیا ان کے نام یہ ہیں "امیر اسد ملک شاہی" امیر بخش" اور امیر سیاہ پوش "یہ تینوں مختلف علاقوں کے امیر تھے اور انہوں نے حسن بن صباح کے خلاف اپنا اپنا محاذ قائم کر رکھا تھا امیر سیاہ پوش ہمیشہ کالے رنگ کے کپڑے پہنتے اور دن رات کا زیادہ تر وقت عبادت اور تلاوت قرآن میں گزارتے تھے۔ باطنیوں کو قتل تو کیا جارہا تھا لیکن امیر سیاہ پوش پہلے امیر اور عالم دین تھے جس نے باقاعدہ فتوی دیا تھا کہ حسن بن صباح اور اس کے پیروکاروں کا قتل گناہ نہیں بلکہ کار ثواب ہے۔
اس کے بعد حسن بن صباح کے حکم سے چند اور شخصیتوں کو قتل کیا گیا ،ان میں "امیر یوسف" کے معتمد خاص "طغرل بیگ "امیر ارعش اور ہادی علی گیلانی" خاص طور پر شامل ہیں ،پھر انہوں نے منقرقہ والی دہستان اور "سکندر صوفی قروینی" کو بھی قتل کیا۔
مندرجہ بالا مقتولین میں ایک خصوصی اہمیت کا حامل تھا وہ سلطان ملک شاہ مرحوم کا غلام ہوا کرتا تھا ,ملک شاہ نے جب حسن بن صباح اور اس کے خلاف انسدادی مہم شروع کی تھی تو اس غلام نے کسی کے حکم کے بغیر ہی اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بہت سے باطنیوں کو قتل کیا تھا اور ایسے طریقے وضع کیے کہ باطنیوں کے لیے کم ازکم مرو میں ٹھہرنا مشکل ہوگیا تھا ،سلطان ملک شاہ مرحوم نے دیکھا کہ اس شخص کو اس نے غلام بنا رکھا ہے لیکن اس میں عقل و دانش خصوصی طور پر قابل تعریف ہے۔ ملک شاہ نے اسے چھوٹے سے ایک علاقے کا امیر بنا دیا، اس نے اپنے علاقے میں کسی باطنی کو زندہ نہ چھوڑا اور اپنا سارا علاقہ ان ابلیسوں سے پاک کر دیا ،لیکن حسن بن صباح نے اس کے قتل کا خصوصی حکم دیا اور ایک فدائی نے اسے ایک مسجد میں دھوکے میں قتل کردیا اور خودکشی کرلی۔
اصفہان میں ایک مشہور ومعروف عالم دین تھے جن کا نام "شیخ مسعود بن محمد خجندی فقیر شافعی" تھا ان کے پیروکاروں کا حلقہ بہت دور دور تک پھیلا ہوا تھا، ان کا واعظ اور خطبہ سننے کے لیے لوگ اکثر دور کا سفر کرکے آیا کرتے تھے، اس عالم دین اور فقیر نے جب دیکھا کہ باطنی علماء کو قتل کررہے ہیں تو اس نے ایک خطبے میں انتقامی وار کا اعلان کر دیا ،یہ دوسرے عالم دین تھے جس نے خطبے میں یہ فتوی دیا کہ حسن بن صباح اور اس کے پیروکاروں کا قتل ہر مسلمان پر فرض ہے اور اگر کوئی مسلمان اس فرض کی ادائیگی میں پس و پیش کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ کہ وہ ابلیس کی جان کا محافظ ہے، یہ گناہ کبیرہ ہے، اس عالم دین نے یہ انتقامی کاروائی کی کہ شہر کے باہر چار پانچ جگہوں پر کشادہ اور گہرے گڑھے کھودوا دیے ان سب میں لکڑیاں پھینک کر آگ لگادی اور یہ آگ ہر وقت جلتی رہتی تھی، لوگوں کے دلوں میں شیخ مسعود خجندی کا احترام بلکہ عقیدت اس قدر زیادہ تھی کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو لوگ برحق سمجھتے اور اس کے کہے ہوئے ہر لفظ کو حکم کا درجہ دیتے تھے، لوگوں نے اپنے کام کاج چھوڑ کر یہ گڑھے کھودے اور لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لائے اور ان گڑھوں میں پھینکی اور آگ لگائی۔
اگلا کام یہ تھا کہ شہر میں مخبر اور جاسوس پھیلا دیئے گئے جو باطنیوں کی نشاندہی کرتے تھے، اصفہان میں باطنی کوئی تھوڑی تعداد میں نہیں تھے، ایک مورخ نے تو لکھا ہے کہ اصفہان کی تقریبا آدھی آبادی باطنیوں کی تھی مسلمانوں کو جہاں پتہ چلتا کہ یہاں باطنی رہتا ہے وہاں ہلّہ بولتے اور باطنی ایک ہاتھ آجائے دو آجائے یا اس سے زیادہ پکڑے جائیں ان سب کو گھسیٹتے دھکیلتے آگ کے کسی قریبی گڑھے تک لے جاتے اور انہیں زندہ آگ میں پھینک دیتے، شیخ مسعود خجندی نے شہر کا قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اس کے حکم سے شہر کی ناکہ بندی کردی گئی تھی، کیونکہ باطنی بھاگ رہے تھے ،مسلمانوں نے کسی باطنی کو بھاگنے نہ دیا کوئی بھی بھاگنے کی کوشش کرتا اسے پکڑ کر آگ میں پھینک دیتے تھے، اس کا بھاگنا ہیں ایک ثبوت ہوتا تھا کہ وہ باطنی ہے۔
شیخ مسعود خجندی کو کوئی سرکاری حیثیت حاصل نہیں تھی اس لیے اسے سرکاری طور پر محافظ نہیں دیے گئے تھے ،لیکن مرید از خود ہی ان کے محافظ بن گئے تھے، مسجد میں جب وہ واعظ کررہے ہوتے یا امامت ان کے پیچھے چھ سات آدمی محافظ ہوتے تھے۔
حسن بن صباح نے جب دیکھا کہ اصفہان میں اس کے فرقے اور فدائیوں کا صفایا ہو رہا ہے تو اس نے حکم دیا کہ عراق کی طرف توجہ دی جائے اور عراق کا دارالخلافہ بغداد کو اپنا مرکز بنانے کی پوری کوشش کی جائے، اس حکم میں یہ خاص طور پر شامل تھا کہ وہاں بھی سب سے پہلے علماء دین کو قتل کیا جائے۔
بغداد میں بھی ایک مشہور عالم دین تھے جسے روحانی پیشوا کا درجہ حاصل تھا، ان کا نام امام شیخ الشافیعہ ابوالفرج رازی تھا، انہیں صاحب البحر کا خطاب دیا گیا تھا ،وہ اپنے نام کے ساتھ صاحب البحر لکھنے کی بجائے اہلسنت لکھا کرتے تھے، انہیں شہرت اور مقبولیت میں شیخ مسعود بن محمد خجندی سے زیادہ اونچی حیثیت حاصل تھی، ان کی مریدی اورعقیدت مندی کا حلقہ بھی بہت ہی وسیع تھا۔
اصفہان کی طرح عراق میں بھی مسلمان اس طرح قتل ہونے لگے کہ قاتل کا سراغ نہیں ملتا تھا، نہ قتل کی وجہ معلوم ہوتی تھی، یہ قتل عام نہیں تھا بلکہ اکا دکا مسلمان قتل ہوجاتا یا لاپتہ ہوجاتا تھا ،یہ خبریں بغداد تک پہنچی تو فوج کے کچھ دستوں کو مختلف علاقوں میں بھیج دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی سرکاری مخبروں اور جاسوسوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قتل کی وارداتوں کا سراغ لگائیں، اصفہان میں باطنیوں نے جو خون خرابہ کیا تھا اس کی خبریں بغداد میں بھی پہنچی تھیں، آخر وہاں کے حکمران کو یقین کرنا پڑا کے یہ باطنی ہیں جو مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں، یہ خبر بغداد کے مسلمانوں کے گھروں تک پہنچ گئی اور اس طرح لوگ چوکنے ہو گئے،
امام شیخ الشافیعہ نے جامع مسجد میں اپنے ایک خطبہ میں لوگوں سے کہا کہ صرف چوکس اور چوکنا ہو جانا کافی نہیں، ان باطنیوں کا سراغ لگاؤ اور جہاں کہیں کوئی باطنی نظر آتا ہے اسے کسی حکم کے بغیر اور قانون سے ڈرے بغیر قتل کر دو ،لوگوں کے لئے اپنی امام کے یہ الفاظ ایسے تھے جیسے یہ اللہ کا حکم اترا ہو، انہوں نے باطنیوں کا سراغ لگا کر انہیں قتل کرنا شروع کر دیا ،امام شیخ الشافیعہ کے چند ایک معتقد ان کے محافظ بن گئے اور وہ جدھر بھی جاتے یہ محافظ ان کے ساتھ ہوتے تھے، مسجد میں جب وہ امامت کے لئے کھڑے ہوتے تو ان کے پیچھے ان کے ساتھ ساتھ آٹھ محافظ کھڑے ہوتے اور پہلی صف کے دوسرے نمازی ان محافظوں کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے تھے، کسی اور کو اجازت نہیں تھی کہ وہ پہلی صف میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کر نماز پڑھے۔
جمعہ کا مبارک دن تھا امام شیخ الشافیعہ نے خطبہ شروع کیا ،باہر مسجد کے دروازے پر کسی نمازی نے بڑی بلند اور پرجوش آواز میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ،تمام نمازیوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور امام شیخ الشافیعہ نے اپنا خطبہ روک لیا ،سب نے دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں نعرہ لگا کر داخل ہوا ہے اور اس کے کپڑوں پر خون لگا ہوا ہے ،اس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر تھا۔
میں امام شیخ الشافیعہ کے حکم سے ابھی ابھی تین ابلیسوں کو قتل کر کے آرہا ہوں ،وہ نمازیوں کے اوپر سے گزرتا اگلی صف کی طرف بڑھا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا،،،، یا امام گواہ رہنا میں نے آج بہت بڑا ثواب کمایا ہے۔
میرے اہلسنت بھائیوں !،،،،اس نے خنجر والا ہاتھ بلند کر کے نمازیوں سے مخاطب ہو کر کہا ۔۔۔میں نے اپنے اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنے امام کے حکم کی تعمیل کی ہے، میں تم سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور انکی ماں ہے، میری زندگی دو چار دن کی رہ گئی ہے کیونکہ باطنی اپنے ساتھیوں کے خون کا بدلہ ضرور لینگے اور مجھے قتل کردیں گے، میں اپنی بیوی اور بچوں کو تم سب کے سپرد کرتا ہوں ،ان کی روزی اور باعزت زندگی کی ذمہ داری تمہیں سونپتا ہوں ،نمازیوں نے جزاک اللہ جزاک اللہ کا بڑا ہی بلند ورد شروع کردیا اور اس شخص کو خراج تحسین پیش کرنے لگے، کئی آوازیں اٹھیں کے تمہارے بچوں کی روزی کے ذمہ دار ہم ہیں ، امام شیخ الشافیعہ ممبر سے اتر آئے اور اس آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔
ہر ذی روح کی روزی کا ذمہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔۔۔ امام نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ یہ ضروری نہیں کہ تم قتل ہو جاؤ گے، اگر ایسا ہو بھی گیا تو اللہ تعالی تمہارے بچوں اور تمہاری بیوی کو اس کا پورا پورا اجر دے گا ،یہ کپڑے تبدیل کرکے اور غسل کر کے آؤ، یہ باطنیوں کا خون ہے جو خنزیر کی طرح نجس اور ناپاک ہے۔
ابھی امام شیخ الشافیعہ یہ بات کہے ہی رہے تھے کہ اس شخص نے ان کی طرف گھوم کر خنجر امام کے سینے میں اتار دیا ،اور بڑی تیزی سے دو مرتبہ خنجر امام کے سینے میں مارا ،امام کے محافظ جو اگلی صف میں بیٹھے تھے بڑی تیزی سے اٹھے، امام گرپڑے محافظ انہیں سنبھالنے لگے تو قاتل ممبر کے اوپر جا کھڑا ہوا اور اپنا خنجر ہوا میں بلند کرکے زور سے نیچے کھینچا اور اپنے دل میں اتار لیا۔
یا امام شیخ الجبال !،،،،،،،اس نے خنجر اپنے سینے سے نکال کر کہا۔۔۔۔ تیرے حکم کی تعمیل کر کے تیری جنت سے اللہ کی جنت میں جا رہا ہوں،،،،،، اس نے ایک بار پھر خنجر اپنے سینے میں دل کے مقام پر مارا پھر خنجر وہیں رہنے دیا اور ہاتھ آسمان کی طرف کر دیے ،وہ ممبر سے گرا اور فرش پر آن پڑا۔
امام شیخ الشافیعہ مر چکے تھے، کیونکہ خنجر ان کے دل میں اتر گیا تھا ،محافظوں نے خنجروں اور تلواروں سے قاتل کے جسم کا قیمہ کر دیا لیکن وہ اپنا کام کر چکا تھا ،اس کے کپڑوں پر اور خنجر پر کسی انسان کا خون نہیں تھا بلکہ یہ گہرا لال رنگ تھا ،اس نے ایسا دھوکہ دیا تھا جسے کوئی بھی قبل ازوقت سمجھ نہ سکا۔
اصفہان کے حاکم اور لوگ مطمئن ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپنے شہر کو باطنیوں سے پاک کر دیا ہے، لیکن ایک روز وہاں کے ایک اور عالم دین قاضی ابو الاعلاء صاعد بن ابو محمد نیشاپوری "جامع مسجد میں امامت کرانے کے لیے گئے ،وہ بھی جمعہ کا مبارک دن تھا اور قاضی ابو العلاء خطبے کے لئے ممبر پر کھڑے ہوئے، بالکل ایسے ہی جیسے بغداد میں ہوا تھا ایک آدمی نے مسجد میں داخل ہوکر نعرہ لگایا اور کہا کہ وہ چار باطنیوں کو قتل کرکے آیا ہے، اسکے بھی کپڑوں پر خون تھا اور اس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر تھا اس نے بالکل ویسا ہی ناٹک کھیلا اور قاضی ابو العلاء تک پہنچ گیا اور نمازیوں سے مخاطب ہوکر ویسے ہی الفاظ کہے جو امام شیخ الشافیعہ کے قاتل نے کہے تھے، اور اس کے فوراً بعد قاضی ابوالعلاء کے سینے میں خنجر کے تین وار کئے، قاتل ممبر پر چڑھ گیا اور اس نے خنجر سے خودکشی کرلی۔
ان تاریخی واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ باطنی تعداد میں بہت ہی زیادہ ہوگئے تھے، لیکن بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ یوں اہم دینی اور معاشرتی شخصیتوں کو قتل کرتے پھرتے، وجہ یہ تھی کہ ان میں حسن بن صباح نے ایسا سفاکانہ جذبہ بھر دیا تھا کہ اس کا ایک فدائی ایک ہجوم میں داخل ہوکر اپنے مطلوبہ شکار کو قتل کردیتا تھا اور پھر اپنے آپ کو بھی مار لیتا تھا۔
یہ حسن بن صباح کی اس جنت کا کمال تھا جو اس نے قلعہ الموت میں بنائی تھی، پہلے اس جنت کی پوری تفصیل بیان ہوچکی ہے، اس جنت سے نکال کر کسی کے قتل کے لیے بھیجا تھا ،اسے یقین دلایا جاتا کہ وہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہے گا، اسے یہ بھی بتادیا جاتا کہ وہ قتل کرکے اپنے آپ کو قتل کردے گا لیکن اسے یہ یقین بھی دلایا جاتا کہ وہ اس دنیا کی جنت سے نکل کر اللہ کی جنت میں چلا جائے گا جو اس سے کہیں زیادہ حسین ہوگی اور وہاں اسے جو حوریں ملیں گی وہ اس جنت کی حوروں سے بہت زیادہ خوبصورت ہوں گی۔ آج کے سائنسی دور میں اس عمل کو برین واشنگ کہتے ہیں، لیکن آج کی سائنس دل و دماغ پر وہ اثرات پیدا نہیں کرسکتی جو حسن بن صباح نے اس دور میں پیدا کیے تھے، یہ ساری کرشمہ سازی حشیش کی تھی۔
پہلے تو تمام امراء اور علماء نے اپنے ساتھ محافظ رکھنے شروع کیے تھے لیکن جب باطنیوں کی قتل و غارت گری بڑھی تو امراء وزراءاور سالاروں وغیرہ نے کپڑوں کے اندر زرہ پہننی شروع کردیں ،یہ حفاظتی اقدام ایک ضرورت بن گیا اور پھر اس نے ایک رواج کی صورت اختیار کر لی، عام لوگ بھی کپڑوں کے نیچے زرہیں پہننے لگے تاکہ خنجر یا تیر جسم تک نہ پہنچ سکے، ہزارہا باطنی قتل کیے جا چکے تھے لیکن مسلمان پہلے کی طرح قتل ہو رہے تھے۔
رے کا شہر بچا ہوا تھا، ایک روز حجاج کا ایک قافلہ رے میں داخل ہوا وہ لوگ حج کا فریضہ ادا کر کے واپس آ رہے تھے، اس میں کئی ملکوں کے حجاج تھے اس قافلے میں ہندوستان کے مسلمان بھی تھے ،یہ قافلہ یوں لگتا تھا جیسے ماتمی جلوس ہو، اس میں بیشتر لوگ آہ فریاد کررہے تھے اور بہت سے ایسے تھے جن کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے، انہوں نے بتایا کہ رے سے تھوڑی ہی دور ان کا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ قافلے پر حملہ کرنے اور لوٹنے والے باطنی تھے ۔
امیر شہر نے اسی وقت اپنی فوج اس طرف روانہ کردی جس طرف سے یہ قافلہ آرہا تھا لیکن سات آٹھ دنوں بعد فوج واپس آگئی اور پتہ چلا کہ ڈاکووں کا کہیں بھی سراغ نہیں ملا اور جس جگہ قافلے کو لوٹا گیا تھا وہاں بے شمار لاشیں پڑی ہوئی تھیں ،اور ان لاشوں کو جنگل کے درندے اور گدھ کھا رہے تھے۔
ڈیڑھ دو مہینے گزرے تو ایک اور قافلہ رے میں داخل ہوا اور پتہ چلا کہ اس قافلے کو بھی باطنیوں نے لوٹ لیا ہے، اس قافلے میں تاجروں کی تعداد زیادہ تھی اور چند ایک کنبے بھی اس قافلے کے ساتھ جا رہے تھے جن میں کم عمر اور جوان لڑکیاں بھی تھیں ،باطنی انہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے،،،،،مسئلہ یہ پیدا ہوجاتا تھا کہ قافلے کے لٹنے کی اطلاع شہر میں اس وقت پہنچتی تھی جب لوٹیرے اپنا کام کرکے اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتے تھے، وہ سب گھوڑوں پر سوار ہوتے تھے۔
امیر شہر نے ان رہزنوں کو پکڑنے کا ایک بندوبست کیا، تقریبا ایک مہینے بعد رے سے خاصی دور ایک قافلہ جا رہا تھا اس قافلے میں پیدل چلنے والے لوگ بھی تھے اور اونٹوں پر سوار بھی اور گھوڑوں پر بھی کئی لوگ سوار تھے، قافلے کے ساتھ گھوڑا گاڑیاں اور بیل گاڑیاں بھی بے شمار تھیں، جن پر سامان لدا ہوا تھا اور اس سمان کے اوپر ترپال ڈالے ہوئے تھے۔ یہ گاڑیاں خاصی زیادہ تعداد میں تھیں جنہیں دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ یہ تاجروں کا قافلہ ہے اور بے انداز سامان جا رہا ہے، یہ تو ایک خزانہ تھا جو جس منڈی میں لے جایا جاتا وہاں سے سونے اور چاندی کے سکے تھیلیاں بھر بھر کے حاصل کئے جاسکتے تھے، اس کے علاوہ اس قافلے میں نوجوان لڑکیاں بھی تھیں جو اونٹوں پر سوار تھیں، لٹیروں کے لیے یہ بڑا ہی موٹا شکار تھا۔
قافلے والوں نے چلنے سے پہلے کوئی احتیاط نہیں کی تھی، سب سے بڑی احتیاط یہ کی جاتی تھی کہ پتہ ہی نہیں چلنے دیا جاتا تھا کہ قافلہ اگر کسی شہر میں رکا ہے تو وہاں سے کب چلے گا، لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے بتادیا کہ وہ فلاں دن اور فلاں وقت روانہ ہوں گے، قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا کچھ اور تاجر اس میں شامل ہوتے گئے، اور ان کی بیل گاڑیاں بھی تھی جو سامان سے لدی ہوئی تھیں۔
قافلہ رے سے سولہ سترہ میل دور پہنچا، وہ اس علاقے میں داخل ہو گیا تھا جو لٹیروں اور رہزنوں کے لئے نہایت ہی موزوں تھا ،اس علاقے میں چٹانیں اور کچھ کم بلند پہاڑیاں تھیں جن کے درمیان کشادہ جگہ تھیں، اور اس علاقے میں درختوں کی بہتات تھی، قافلے عموما پہاڑیوں کے درمیان اس خیال سے پڑاؤ کیا کرتے تھے کہ ایسی جگہ محفوظ ہوتی ہے لیکن یہ ان کی کم فہمی تھی، قافلے لوٹنے والے ایسے ہی جگہوں کو پسند کیا کرتے تھے وہ دو پہاڑیوں کے درمیان روکے ہوئے قافلے کو آگے اور پیچھے سے روک لیتے تھے، قافلے میں سے کوئی شخص ادھر ادھر بھاگ نہیں سکتا تھا ،لوٹیرے ہر ایک آدمی کی تلاشی بھی لے سکتے تھے۔
یہ قافلہ جو تعداد کے لحاظ سے بھی بڑا تھا اور مال و اسباب کے لحاظ سے بھی قیمتی اور پھر اس میں اونٹ اور گھوڑے بھی زیادہ تھے، اس لئے بھی یہ قافلہ قیمتی تھا یہ کیوں نا لوٹا جاتا، قافلہ جب اس علاقے میں داخل ہوا جو لوٹیروں کے لیے موزوں تھا ،اس وقت آدھا دن گزر گیا تھا عام خیال یہ تھا کہ قافلے رات کو اس وقت لوٹے جاتے ہیں جب یہ کسی پڑاؤ میں ہوتے ہیں لیکن اس قافلے کے ساتھ یوں ہوا کہ اچانک سامنے سے بھی اور پیچھے سے بھی بے انداز گھوڑ سوار نمودار ہوئے اور انہوں نے قافلے کو گھیر لیا۔
لوٹیرے جانتے تھے کہ قافلے والے اپنے دفاع میں کچھ نہیں کرسکتے، اگر قافلے کے ہر فرد کے پاس پاس ہتھیار ہوتے تو بھی وہ لوگ لوٹنے سے گھبراتے تھے، کیونکہ لڑنے کی صورت میں لٹیرے انہیں قتل کر دیتے تھے، جان بڑی عزیز ہوتی ہے ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنا سب کچھ لٹیروں کے حوالے کردے اور اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں اور اپنی عورتوں کی عزتیں بچالے۔
اگر اپنی جان بچانا چاہتے ہو تو غور سے سن لو ۔۔۔لوٹیروں کی طرف سے اعلان ہوا۔۔۔اپنے مال و اسباب کو اور اپنے جانوروں کو چھوڑ کر تمام لوگ ایک طرف ہٹ جاؤ ،اور تم لوگوں کے پاس جتنی رقم سونا اور چاندی ہے وہ ایک جگہ ڈھیر کر دو، اگر ہماری بات نہیں مانو گے تو تمہاری لاشیں یہاں پڑی ہوئی ہوں گی۔
قافلے والوں نے اس حکم کی تعمیل کی اور وہ دو حصوں میں تقسیم ہوکر الگ الگ کھڑے ہوگئے، لوٹیروں نے انہیں اور پیچھے ہٹا دیا وہ اتنی پیچھے ہٹ گئے کہ پہاڑیوں کے دامن میں جا پہنچے،،،،،، آدھے ادھر اور ادھر لوٹیرے جو سب کے سب گھوڑ سوار تھے مال واسباب اکٹھا کرنے کے لئے آگے آ گئے، ان کی تعداد قافلے کی تعداد کے تقریباً نصف تھی۔
لوٹیرے گھوڑوں سے اترے اور بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں کے اوپر سے ترپال اتار کر دیکھنے لگے کہ یہ کیا مال ہے، ان میں سے چند ایک اس طرف چل پڑے جہاں قافلے کی نوجوان لڑکیاں سکتے کے عالم میں کھڑی تھیں، وہ اپنے آدمیوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
جوہی لٹیروں نے ترپال اٹھانے شروع کی ترپالوں کے نیچے سے بہت سے آدمی نکلے اور وہ لوٹیروں پر ٹوٹ پڑے، لٹیروں نے اپنی تلوار اور خنجر وغیرہ نہیں نکالے تھے، وہ تو بہت خوش تھے کہ تلواروں کے بغیر ہی اتنا قیمتی مال انہیں مل گیا تھا ،لیکن جو آدمی ترپالوں کے نیچے سے نکلے وہ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح تھے انہوں نے لٹیروں کا قتل عام شروع کردیا اور انہیں ہتھیار نکالنے کی مہلت ہی نہ دی۔
قافلے کے گرد لوگوں کو کھڑا کردیا گیا تھا، انہوں نے بھی تلوار نکال لیں اور لٹیروں پر حملہ کردیا، لٹیروں کے لیے فرار کے سوا کوئی راستہ نہ تھا لیکن قافلے والے انہیں اس راستے پر جانے ہی نہیں دے رہے تھے۔
قافلے لوٹنے والوں کو معلوم نہ تھا کہ یہ کوئی قافلہ نہیں بلکہ یہ رے کی فوج ہے اور اس کے ساتھ کوئی سامان نہیں، قافلہ میں لڑکیاں تو لٹیروں کے لیے کشش پیدا کرنے کی خاطر شامل کی گئی تھیں، یہ قافلہ جہاں سے چلا تھا وہاں اسی مقصد کے لیے ہر کسی کو بتایا گیا تھا کہ قافلہ فلاں وقت یہاں سے چلے گا اور پڑاؤ فلاں جگہ ہوگا، یہ دراصل لٹیروں تک پیغام پہنچانے کا طریقہ تھا۔
تھوڑی سی دیر میں رے کے ان فوجیوں نے جو مختلف لباسوں میں آئے تھے لٹیروں کو کاٹ کر پھینک دیا، ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ نکل سکا، فوجیوں نے ان کے گھوڑے پکڑ لیے اور ساتھ لے آئے، یہ بھی پتہ چل گیا کہ یہ لٹیرے تمام کے تمام باطنی تھے ،پتہ اس طرح چلا کہ ان میں جو زخمی تھے ان میں بہت سے ایسے نکلے جو موت سے ڈر گئے تھے، وہ منتیں کرتے تھے کہ انہیں جان سے مار دیا جائے یا اٹھا کر اپنے ساتھ لے جائیں، اور ان کے زخموں کی مرہم پٹی کریں اور وہ آئندہ اس کام سے توبہ کر لیں گے، فوجیوں نے ان زخمیوں سے کہا کہ وہ اتنا بتا دیں کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں، انہوں نے بتا دیا کہ وہ باطنی ہیں اور حسن بن صباح کے حکم سے قافلے لوٹتے ہیں، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قافلوں سے جو مال اور جو رقم وغیرہ لوٹی جاتی ہے وہ سب قلعہ الموت پہنچا دی جاتی ہے۔
حاکم رے نے حکم دیا تھا کہ ان لٹیروں میں سے دو تین زخمیوں کو اپنے ساتھ لے آئیں ان سے وہ حسن بن صباح کے کچھ راز معلوم کرنا چاہتا تھا، ان فوجیوں نے تین زخمیوں کی عارضی مرہم پٹی کر دی اور ایک گھوڑا گاڑی میں ڈال کر انہیں رے لے آئے، انہیں ایک کمرے میں لٹا دیا گیا اور طبیب کو بلایا گیا، امیر رے بھی وہاں پہنچ گیا۔
اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو ہمیں ہر بات سچ سچ بتا دو۔۔۔ امیر رے نے ان زخمیوں سے کہا۔۔۔ اگر تمہیں اپنی جان عزیز نہیں تو میں تمہیں بہت ہی بری موت ماروں گا ،تمہارے زخموں پر نمک چھڑکا جائے گا اور تم تڑپ تڑپ کر مروگے۔
تینوں نے کہا کہ وہ سب کچھ بتا دیں گے ان کے زخموں کا کچھ علاج کیا جائے، وہ بہت بری طرح زخمی تھے اور نیم غشی کی حالت میں باتیں کر رہے تھے، ان میں دو نوجوان تھے اور ایک ادھیڑ عمر تھا، حاکم رے نے طبیب سے کہا کہ ان کی مرہم پٹی اس طرح کی جائے کہ جیسے یہ شاہی خاندان کے افراد ہوں، طبیب نے اسی وقت مرہم پٹی شروع کردی۔
اے امیر شہر!،،،،،، ادھیڑ عمر آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔میں آپکو سارے راز دے دوں گا، میں جانتا ہوں ہمیں زندہ نہیں چھوڑا جائے گا لیکن میں پھر بھی ہر بات سہی اور سچ بتاؤں گا، ہمیں موت سے نہ ڈرا آئے امیر!،،،،، اور زندگی کا لالچ نہ دے، میں ہر بات بتاؤں گا اور اس سے پہلے میں یہ بتا دیتا ہوں کہ جو طوفان قلعہ الموت سے اٹھا ہے اسے آپ کی فوج اور اسے سلطان کی فوج اور اسے سلطنت سلجوقہ کی ساری فوج نہیں روک سکتی۔
امیر رے نے دیکھا کہ یہ زخمی بے ہوش نہیں اوراتنا زیادہ زخمی ہونے کے باوجود ٹھیک ٹھاک بول رہا ہے ،تو اس نے سوچا کہ اس سے ابھی پوچھ لیا جائے جو پوچھنا ہے۔
طبیب نے اپنے دو تین شاگردوں کو بھی بلوا لیا اور وہ جب آئے تو انہیں کہا گیا کہ وہ ان نوجوان زخمیوں کے زخم صاف کر کے مرہم پٹی کر دیں، امیر کے اشارے پر ادھیڑ عمر آدمی کو ایک اور کمرے میں لے گئے اور طبیب نے اس کے تمام کپڑے اتروا کر مرہم پٹی شروع کردی، امیررے بھی ان کے ساتھ تھا ،امیر رے نے اس سے کہا کہ حسن بن صباح کی یہ تنظیم کس طرح چلتی ہے کہ اتنے دور بیٹھا ہوا وہ اتنے بڑے علاقے میں باطنیوں کو اپنی مرضی کے مطابق حرکت میں لا رہا ہے اور فدائی اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔
امیر شہر!،،،،، ادھیڑ عمر زخمی باطنی نے کہا۔۔۔ آپ خدا سے ڈرتے ہیں لیکن حکم ابلیس کا مانتے ہیں ،میں آپ کی بات نہیں کر رہا، میں ہر انسان کی بات کر رہا ہوں ،آپ زاہد اور پارسا ہو سکتے ہیں لیکن ہر انسان ایسا نہیں ہوسکتا، کیا آپ نہیں سمجھ سکتے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟،،،،،،،، صرف اس لئے کہ خدا میں عام لوگ وہ کشش نہیں دیکھتے جو ابلیس میں ہے ،آپ مجھے ابلیس کا پوجاری کہہ لیں، شیخ الجبل حسن بن صباح کہتا ہے کہ خدا اپنے بندوں کو وعدوں پر ٹالتا ہے ،وہ جنت کا وعدہ کرتا ہے لیکن اس کے لیے مرنا ضروری ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ ساری عمر نیکو اور ثواب کے کاموں میں گزار دو گے تو جنت ملے گی، لیکن ہمارا شیخ الجبل حسن بن صباح کہتا ہے کہ وہ ہے جنت جاؤ اس میں داخل ہو جاؤ، میں اس جنت میں رہ چکا ہوں ،شیخ الجبل وعدے نہیں کرتا ،وہ دیتا ہے، اسے آپ ابلیس کہتے ہیں، ہم اسے امام کہتے ہیں۔
اس باطنی نے پراعتماد لہجے میں حسن بن صباح اور اس کی تنظیم اور اس کے طریقہ کار کے متعلق سب کچھ بتا دیا ،یہ بھی بتا دیا کہ قلعہ الموت کے اندر کیا ہے ،کتنی فوج ہے اور اس کے حفاظتی انتظامات کیا ہیں، یہ بھی بتا دیا کہ قافلوں کو لوٹنے والے باطنی الگ ہیں جن کا صرف یہی کام ہے، وہ جو کچھ لوٹتے ہیں قلعہ الموت چلا جاتا ہے، اس طرح اس شخص نے ہر ایک بات بتا دی۔
اور میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں امیر شہر!،،،،، اس نے کہا۔۔۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ آپ شیخ الجبل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، سلطان برکیارق کے ایک سالار اوریزی نے قلعہ وسم کوہ کو محاصرے میں لے رکھا ہے ،چھے مہینے ہو چکے ہیں ابھی تک وہ قلعے کی دیواروں تک نہیں پہنچ سکا ،اس نے پہنچنے کی کوشش کی تو اپنے بہت سے سپاہیوں کو مروا کر پیچھے ہٹ آیا ،اس کا محاصرہ کامیاب نہیں ہو سکا، اگر ہو بھی گیا تو شیخ الجبل کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
کیا شیخ الجبل نے وسم کوہ کا محاصرہ توڑنے اور پسپا کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا ؟،،،،،امیر رے نے پوچھا۔
میں صحیح جواب نہیں دے سکوں گا ۔۔۔باطنی نے کہا۔۔۔ اگر چھے مہینے گزر جانے کے باوجود شیخ الجبل نے قلعہ وسم کوہ کو بچانے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے معلوم ہے کہ سلجوقی سالار یہ قلعہ نہیں لے سکے گا، میں اپنے امام شیخ الجبل کے ساتھ رہا ہوں ،میں اس کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہوں، اس نے قلعہ وسم کوہ کو نظر انداز نہیں کیا ، بلکہ اسے پوری امید ہے کہ سلجوقی سالار اپنا ہر ایک سپاہی مروا کر خود ہی وہاں سے مایوس اور ناکام ہو کر واپس آجائے گا۔
طبیب اس باطنی کی مرہم پٹی کرتا رہا ،وہ بولتا رہا اور امیر رے سنتا رہا، مرہم پٹی ہو چکی تو امیر رے اور طبیب باہر نکل آئے، کچھ دور آ کر امیر رے رک گیا، اور طبیب سے پوچھا کہ اس باطنی نے جو باتیں کی ہیں ان کے متعلق اس کا کیا خیال ہے؟
امیرمحترم !،،،،،بوڑھے طبیب نے جواب دیا۔۔۔ عمر گزر گئی ہے مریضوں اور زخمیوں کا علاج کرتے، آپ ان کی باتوں کے متعلق میری رائے پوچھ رہے ہیں اور آپ غالبا اس پر بھی حیران ہورہے ہیں کہ اس نے اس قسم کی باتیں کس قدر پر اعتماد اور بے تکلف لہجے میں کی ہیں، لیکن میں حیران ہو رہا ہوں کہ اتنا زیادہ خون نکل چکا ہے کہ اسے زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا، لیکن یہ زندہ ہے اور اس کا دماغ اس کے جسم سے زیادہ زندہ ہے،،،،،، اسے کہتے ہیں جذبہ اور عقیدہ ،یہ الگ بات ہے کہ اس کا جذبہ بھی ابلیسی اور عقیدہ بھی ابلیسی ہے ،میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہے حسن بن صباح کی اصل قوت، اس شخص کو موت کا کوئی غم نہیں اور زندہ رہنے کا لالچ بھی نہیں ،یہ مرے گا تو حسن بن صباح زندہ باد کا نعرہ لگا کر مرے گا ،اس وقت ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایسا جذبہ پیدا ہو جائے، اگر ایسا ہو سکتا ہے تو حسن بن صباح کا یہ فرقہ بھی ختم ہو سکتا ہے، دین اسلام کو اسی جذبے اور ایسے ہی عقیدے کی شدت سے زندہ رکھا جا سکتا ہے۔
امیر شہر نے طبیب کو رخصت کر دیا اور اپنے محافظ دستے کے کماندار کو بلا کر کہا کہ ان تینوں باطنیوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں دور لے جا کر ایک ہی گڑھے میں دفن کر دی جائیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
سالار اوریزی کو قلعہ وسم کوہ کا محاصرہ کیے چھے مہینے گزر گئے تھے، قلعے کا دفاع جتنا مضبوط تھا کہ قلعہ سر ہوتا نظر نہیں آرہا تھا، سالار اوریزی اپنے ساتھ غیر معمولی طور پر دلیر جانبازوں کا لشکر لے کر گیا تھا، ان جانبازوں کا ایک گروہ قلعے کا دروازہ توڑنے کے لئے دروازے تک پہنچ گیا تھا ،انہوں نے ہتھوڑوں اور کلہاڑیوں سے دروازے پر ضرب لگائیں لیکن اوپر سے باطنیوں نے ان پر جلتی ہوئی لکڑیاں اور انگارے پھینکے، چند ایک جانبازوں کے کپڑوں کو آگ لگ گئی وہ پیچھے کو بھاگے اوپر سے باطنیوں نے ان پر تیروں کا مینہ برسا دیا اور شاید ہی اس گروہ میں سے کوئی جانباز زندہ واپس آیا ہوگا۔
ایسی قربانی ایک بار نہیں متعدد بار دی گئی، جاں باز کسی اور دروازے تک پہنچے لیکن زندہ واپس نہ آ سکے، سالار اوریزی نے سرنگ کھودنے کی بھی سوچی لیکن یہ کام آسان نہیں تھا، پھر بھی اس نے سرنگ کھدوانی شروع کردی تھی، وہ جانتا تھا کہ سرنگ دیوار کے نیچے سے قلعے کے اندر تک چلی بھی گئی تو سارے کا سارا لشکر ایک ہی بار اس سرنگ کے ذریعہ قلعے تک نہیں پہنچایا جاسکے گا ،تین تین چار چار جانباز اس سرنگ میں سے اندر جائیں گے اور باطنی جس جوش و خروش کا مظاہرہ کررہے ہیں انہیں ختم کرتے چلے جائیں گے، لیکن سالار اوریزی کا خیال تھا کہ یہ قربانی تو دینی ہی پڑے گی۔
سالار اوریزی کو ایک خطرہ اور بھی نظر آرہا تھا، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مرو سے کوچ سے پہلے یہ مشہور کردیا گیا تھا کہ سالار اوریزی اپنے لشکر کو قلعہ ملاذ خان پر قبضہ کرنے کے لئے لے جا رہا ہے، اسے توقع یہ تھی کہ حسن بن صباح قلعہ ملاذخان کے دفاع کو مضبوط کرنے میں لگ جائے گا اور اتنی دیر میں وہ قلعہ وسم کوہ کو سر کرلے گا ،لیکن وہاں تو آدھا سال گزر گیا تھا ،خطرہ یہ تھا کہ حسن بن صباح کو پتہ چلے گا کہ اسے دھوکہ دیا گیا ہے، اور اصل میں قلعہ وسم کوہ کو محاصرے میں لے لیا گیا ہے تو وہ اپنا ایک لشکر محاصرے پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دے گا ،اس خطرے کے پیش نظر سالار اوریزی کی نظر پیچھے بھی رہتی تھی، اسے ہر روز یہ توقع تھی کہ آج باطنیوں کا لشکر عقب سے ضرور ہی نمودار ہو کر ہلہ بول دے گا ،لیکن ہر روز کا سورج غروب ہو جاتا تھا اور سالار اوریزی اور زیادہ پریشان ہو جاتا کہ رات کو حملہ آئے گا ،اسی میں چھے مہینے گزر گئے تھے۔
حسن بن صباح کو ایک مہینے کے اندر اندر پتہ چل گیا تھا کہ اسے دھوکہ دیا گیا ہے، یہ تو ممکن ہی نہ تھا کہ اسے پتا ہی نہ چلتا ،اس کے جاسوس ہر طرف اور ہر جگہ موجود تھے لیکن حسن بن صباح کو جب یہ اطلاع دی گئی کہ یہ مشہور کر کے کہ قلعہ ملاذ خان کو محاصرے میں لینے کی بجائے سالار اوریزی کا لشکر قلعہ وسم کوہ محاصرے میں لے چکا ہے تو حسن بن صباح کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی تھی۔
ان سلجوقیوں کی عقل جواب دے گئی ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا تھا ۔۔انہوں نے ہمیں یہ دھوکہ اس امید پر دیا ہوگا کہ وہ قلعہ وسم کوہ پر چند دنوں میں قبضہ کرلیں گے، قلعہ وسم کوہ کو محاصرے میں لیا جا سکتا ہے، لیکن سلجوقی لشکر کا کوئی ایک سپاہی اس قلعے کے اندر داخل نہیں ہوسکے گا،،،، انہیں زور آزمائی کرنے دو۔
یاامام!،،،،،،، اس کے جنگی مشیر نے کہا تھا۔۔۔۔۔ کیا ہم یوں نہ کریں گے ان کے محاصرے پر حملہ کردیں؟
ابھی نہیں ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔انہیں اپنی طاقت وہیں زائل کرنے دو ،ہم جب دیکھیں گے کہ اب ان کا دم خم ٹوٹ گیا ہے اور ان کا آدھا لشکر وسم کوہ کے تیراندازوں کا نشانہ بن چکا ہے توہم حملے کی سوچیں گے، اور انہیں اپنا دل خوش کر لینے کیلئے الموت بھیج دیتے ہیں۔
مزمل آفندی اور بن یونس تقریباً ٹھیک ہو چکے تھے اور یہ دونوں بھی اس لشکر میں شامل ہو چکے تھے۔
ایک دن سالار اوریزی نے مزمل آفندی سے کہا کہ ظاہری طور پر تو میں ان لوگوں کو سزا دینے کے لئے آیا ہوں، لیکن میرا اپنا ایک منصوبہ ہے، وہ یہ ہے کہ یہ قلعہ میرے ہاتھ آ جائے تو میں اسے اپنا ایک مضبوط اڈہ یا ٹھکانہ بنا لوں گا ،یہاں سے میں باطنیوں کے خلاف مہم شروع کروں گا ،لیکن اس کے اندر قافلے لوٹنے والے ڈاکو ہیں جو لڑنا اور مرنا جانتے ہیں، ان کے پاس تیروں کا ذخیرہ ختم ہی نہیں ہو رہا اور ان کے پاس پھینکنے والی برچھیاں بھی ہیں جو شاید کچھ اور عرصہ ختم نہیں ہونگی ،میں تقریبا آدھا لشکر مروا چکا ہوں لیکن قلعہ ہاتھ آتا نظر نہیں آتا ،مجھے خطرہ یہ نظر آرہا ہے کہ کسی روز میرے اس محاصرے پر عقب سے حملہ ہوجائے گا ،میں پورا مقابلہ کروں گا لیکن میرا اور میرے لشکر کا بچ نکلنا ممکن نظر نہیں آتا۔
پیچھے سے حملہ ہوجائے گا؟،،،، مزمل آفندی نے پوچھا۔
ہاں مزمل بھائی!،،،، سالار اوریزی نے جواب دیا۔۔۔ میں حیران ہوں کہ اب تک حسن بن صباح نے یہ کارروائی کیوں نہیں کی، اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو فوراً محاصرے کو مزید فوج بھیج کر محاصرے میں لے لیتا، محاصرہ کرنے والے لشکر کو محاصرے میں لے لیا جائے تو اس لشکر کا بچ نکلنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔
مزمل آفندی گہری سوچ میں کھو گیا اور اس نے سالار اوریزی کے ساتھ کچھ باتیں کی اور بن یونس کو ساتھ لے کر واپس چل پڑا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ایک برطانوی تاریخ نویس کے مطابق پندرہ سولہ دن گزرے ہوں گے کہ سالار اوریزی نے گھوڑوں کے ٹاپ سنے ،اس نے پیچھے دیکھا تو ایک گھوڑسوار لشکر سرپٹ چلاآرہاتھا ،سالار اوریزی جو خطرہ محسوس کر رہا تھا وہ آ گیا تھا، اس نے فوری طور پر اپنے لشکر کو جو قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھا محاصرے سے ہٹا کر ایک جگہ اکٹھا کر لیا اور پھر اسے ایک جنگی ترتیب دے لی، عقب سے یا باہر سے حملے کی صورت میں اپنے لشکر کو اس طرح اکٹھا کرنا ضروری تھا ورنہ محاصرے میں لشکر بندہ بندہ ہوکر بکھرا رہتا ہے ۔
جب گھوڑسوار لشکر قریب آیا تو دیکھا کہ آگے آگے دو سواروں کے ہاتھوں میں حسن بن صباح کے پرچم تھے، سوار نعرے بھی باطنی فرقے کے لگا رہے تھے، سالار اوریزی نے اپنے لشکر کو قلعے سے اور پیچھے ہٹا لیا اور دیکھنے لگا کہ لڑنے کے لئے زمین کون سی موزوں ہے، وہ قلعے سے زیادہ دور نہیں ہٹا بڑی پھرتی سے اس نے اپنے بچے کھچے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کرلیا ،دو کو آگے رکھا اور ایک حصے کو ان دونوں کے پیچھے بھیج دیا ،اب اس کا لشکر مقابلے کے لئے تیار تھا۔
گھوڑسوار لشکر قلعے کے ایک اور پہلو کی طرف چلا گیا اور رک کر بڑی پھرتی سے جنگی ترتیب میں آ گیا، اس لشکر سے اعلان ہونے لگے کہ قلعے کے تمام لوگ باہر آجائیں اور ان مسلمانوں کو گھیرے میں لے کر کاٹ دیں۔
باہر سے آنے والا سوار لشکر حرکت میں آیا اور سالار اوریزی کے ایک پہلو میں اس طرح سے آ گیا جیسے سالار اوریزی کے لشکر کو گھیرے میں لینا چاہتا ہو، گھوڑ سواروں نے برچھیاں بلند کر لی تھی اور پھر انہوں نے برچھیوں کو آنیاں آگے کرلیں، اور اب انہوں نے ہلہ بولنا تھا۔
قلعے کے دروازے کھل گئے اور اندر کا لشکر اس طرح باہر آنے لگا جیسے سیلابی دریا نے بند توڑ ڈالا ہو ،وہ لشکر سالار اوریزی کے لشکر کے دوسرے پہلو کی طرف چلا گیا، اب کوئی شک نہ رہا کہ سالار اوریزی کے لشکر کو باطنیوں نے گھیرے میں لے لیا تھا۔
سالاراوریزی نے ایک حکم دیا، یہ حکم سنتے ہی اس کا لشکر آگے کو دوڑ پڑا اور اس کا ایک حصہ قلعے کے کھلے ہوئے دروازوں کے اندر چلا گیا اور اندر سے دروازے بند کرلئے، باقی دو حصے اس لشکر کی طرف آئے جو اندر سے نکلا تھا، باہر سے جو گھوڑسوار لشکر آیا تھا اس نے یہ حرکت کی کہ قلعے کے اندر سے آنے والے لشکر پر ہلہ بول دیا، دوسرے پہلو سے سالار اوریزی نے ہلہ بولا۔
اب یہ صورت بن گئی کہ اندر سے نکلنے والا باطنی لشکر گھوڑ سواروں اور سالار اوریزی کے لشکروں کے نرغے میں آ گیا تھا، اندر سے آنے والے لشکر حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا بنی، وہ تو سمجھ رہے تھے کہ حسن بن صباح نے ان کے لئے مدد بھیجی ہے اور اب محاصرہ کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں رہے گا ،مگر ہوا یہ کہ وہ خود کٹنے لگے اور گھوڑوں کے قدموں تلے روندے جانے لگے۔
سالار اوریزی کے لشکر کا جو حصہ قلعے کے اندر چلا گیا تھا اس نے قلعے کے اندر والے لوگوں کا قتل عام شروع کردیا تھا، پھر دروازے کھل گئے اور سالار اوریزی کے لشکر کے باقی دونوں حصے اور باہر سے آنے والے گھوڑسوار جنہوں نے حسن بن صباح کے پرچم اٹھا رکھے تھے قلعے کے اندر چلے گئے اور اللہ اکبر کے نعرے بلند ہونے لگے اور سواروں نے اندر جاکر حسن بن صباح کے پرچم پھاڑے اور پھر جلا ڈالے، قلعہ وسم کوہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا تھا۔
یہ کامیابی ایک دھوکے سے حاصل کی گئی تھی، دھوکا یہ تھا کہ مزمل آفندی نے سالار اوریزی سے پوچھا تھا کیا پیچھے سے حملہ آسکتا ہے اور اور یزی نے کہا تھا کہ کسی دن بھی پیچھے سے حملہ ہوجائے گا ،مزمل آفندی کے دماغ میں ایک منصوبہ آ گیا تھا اس نے سالار اوریزی کے ساتھ بات کی اور یہ منصوبہ طے ہوگیا۔
مزمل آفندی بن یونس کو ساتھ لے کر مرو چلا گیا تھا ،وہاں اس نے سلطان برکیارق کے ساتھ بات کی اور اسے دوہزار گھوڑ سوار دے دیے گئے، اور ان کا کماندار ایک سالار بھی ساتھ دیا، اسی رات اس گھوڑ لشکر نے مرو سے کوچ کیا اور بڑی ہی تیز رفتاری سے جاکر اگلے رات تک قلعہ وسم کوہ کے قریب پہنچ گئے اور وہیں رکے اور رات وہیں گزاری۔
صبح طلوع ہوئی تو مرو کے ان دو ہزار سواروں نے قلعہ وسم کوہ کا رخ کیا اور اس انداز سے پیش قدمی کی جیسے وہ پیچھے سے محاصرے پر حملہ کریں گے، انہوں نے حسن بن صباح کے پرچم خود ہی تیار کر لیے تھے ،قلعے کے اندر کے لشکر نے جب دیوار کے اوپر سے دیکھا تو انہوں نے حسن بن صباح کے نعرے لگائے، قدرتی طور پر وہ سمجھے کہ حسن بن صباح نے یہ گھوڑسوار لشکر بھیجا ہے، پھر گھوڑسوار لشکر سے اعلان ہوئے کے اندر کے لوگ باہر آجائیں اور مسلمانوں کو کچل دیں۔
جوں ہی یہ اعلان ہوا اندر کے تمام لوگ جو لڑنے والے تھے باہر آگئے، سالار اوریزی نے اپنے لشکر کا ایک حصہ قلعے کے اندر بھیج دیا ،اور پھر بیان ہوچکا ہے کہ گھوڑ سواروں نے اور سالار اوریزی کے لشکر نے اندر کے لشکر کو کس طرح گھیرے میں لیا اور اس کے کسی ایک آدمی کو بھی زندہ نہ رہنے دیا۔
سالار محترم !،،،،فتح کی پہلی رات مزمل آفندی نے سالار اوریزی سے کہا ۔۔۔اگر حسن بن صباح کو شکست دینی ہے تو دھوکے سے ہی دی جاسکتی ہے، وہ شخص سراپا دھوکا اور فریب ہے، اس کے لیے ہمیں بھی فریب کار بننا پڑے گا ،،،،،،،اللہ آپ کو فتح مبارک کرے۔
*<===========۔======>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔52۔میں پڑھیں*
*<========۔=========>*
*─━━━═•✵⊰✿⊱✵•
No comments:
Post a Comment