Hasan Bin Sabah aur Uski Banayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. Part 54
Hasan Bin Sabah aur Uski Banayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan.
Hasan Bin Sabah Allah ka utara Hua ima, Hai kya Aap Jante hai?
Hasan Bin Saba Aur uski Masnui Jannat.
Hasan bin sabah |
﷽❀❂┈
*✶┈┈┈•─ ﷺ ─•┈┈┈✶*
╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔
✨حســـن بـن صـــبـاح اور✨
✨اسکی مصنـــوعی جنـــــت✨
╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚
قسط نمبر 54
جب غار میں قتل و غارت ہو رہی تھی مشعلوں کے شعلے لڑنے مرنے اور زخمی ہو کر گرنے والوں کو چاٹ رہے تھے، اس وقت سورج اونچی چٹانوں کی اوٹ میں چلا گیا، پھر غار کے ہولناک راز کو اپنے جلتے ہوئے سینے میں چھپائے افق میں اتر گیا، بھول بھلیوں جیسی بد رنگ اور بدشکل چٹانوں نے شام کے دھندلکوں کو تھوڑی سی دیر میں گہرا کردیا، ان میں بعض چٹان کی طرح اوپر کو اٹھتی ہوئی تھی اور کچھ میناروں کی طرح اوپر سے نوکیلی تھیں، شام کی تیزی سے گہرے ہوتے دھندلکے میں یہ چٹان بھوتوں جیسی لگتی تھیں، ان میں پراسراریت اور خوف کا نمایاں تاثر تھا۔
غار کے اندر جو آگ لگی ہوئی تھی اس کی ہلکی سی بڑی ہی مدھم سی روشنی غار کے دہانے تک آتی تھی اور یوں لگتا تھا جیسے یہ روشنی رات کی بڑھتی ہوئی تاریکی کے ڈر سے باہر نہیں آرہی ،ایک سایہ سا حرکت کر رہا تھا، اس سائے کو غار نے اگل کر باہر پھینک دیا تھا، یا جیسے موت نے اسے قبول نہ کیا اور اگل دیا تھا، سایہ غار کے دہانے سے نکلا تھا اور غار کے اندر کسی مرنے والے کی بدروح جیسا لگتا تھا۔
چٹانوں کے درمیان بس اتنی سی ہی جگہ تھی کہ ایک انسان چل سکتا تھا ،یہ سایہ اس تنگ و تاریک راستے پر سرکتا جا رہا تھا، یہ کوئی سیدھا راستہ نہیں تھا یا ایسا بھی نہیں تھا کہ کچھ دور جا کر ادھر یا ادھر مڑتا ہو، یہ تو ہر دس پندرہ قدموں پر مڑتا تھا اور کہیں دو اطراف کو مڑتا اور کہیں یہ جو راستہ بن جاتا تھا چلنے والا جان ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ کدھر کو مڑے تو ان بھول بھلیوں سے نکل جائے گا۔
یہ سایہ سا سرکتے رینگتے دیکھتا کہ آگے سے ایک اور چٹان نے راستہ روک رکھا ہے تو وہ ذرا رکتا دائیں بائیں دیکھتا اور کسی بھی طرف مڑ جاتا ،ایسے کئی موڑ مڑ کر اس نے اپنے آپ کو چٹانوں کے نرغے میں ہی پایا ،کچھ آگے جا کر ایک جگہ ایسی آگئی کہ راستے دونوں بلکہ تین اطراف کو جاتے تھے، سایہ رک گیا اور اس کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے، ایک انسانی آواز بلند ہوئی،،،،،، یا اللہ تو نے زندگی عطا کی ہے تو وہ راستہ بھی دکھادے جو زندہ انسانوں کی دنیا کی طرف جاتا ہے، میرا چچا باطنی ابلیس کا پجاری تھا تو اس کی سزا مجھے نہ دے جس نے آج تک اپنی عصمت کو بے داغ رکھا ہے، گنہگار چچا کی یتیم بھتیجی نے اپنا دامن گناہوں سے پاک رکھا ہے،،،،،، یااللہ،،،،، یااللہ۔۔۔۔اور اسکی آواز رندھیا کر رات کی تاریکی میں تحلیل ہوگئی۔
وہ ابو جندل کی بڑی بھتیجی شافعیہ تھی ،اس کی عمر پچیس چھبیس سال تھی، اس کی چھوٹی بہن جس کی عمر بیس اکیس سال تھی غار کے اندر ماری گئی تھی، جب غار میں ڈاکو اور لٹیرے آگئے اور کشت وخون شروع ہو گیا تھا اس وقت شافعیہ غار کے اندر ہی ذرا بلند ایک چٹان کے پیچھے چھپ گئی تھی، غار خاصا کشادہ تھا اس کے اندر چھوٹی چھوٹی نوکیلی چٹانیں ابھری ہوئی تھیں اور کہیں گڑھے سے بھی بنے ہوئے تھے، شافعیہ اتنی الگ ہٹ کر چھپی تھی کہ جب مشعلوں نے لڑنے والوں اور گرنے والوں کے کپڑوں کو آگ لگا دی اور غار روشن ہوگیا تو بھی وہ کسی کو نظر نہیں آ سکتی تھی، وہ یہ خونچکاں منظر دیکھتی رہی تھی لیکن جس چیز کو وہ زیادہ دیکھ رہی تھی وہ نکل بھاگنے کا راستہ تھا ،راستہ ایک ہی تھا اور وہ غار کا دہانہ تھا، وہ دیکھ رہی تھی کہ اس دہانے سے لڑنے والے ذرا ایک طرف ہوں تو وہ چھپ کر نکل بھاگے، اس نے اپنی چھوٹی بہن کو مرتے دیکھا تھا۔
شافعیہ چٹان کے پیچھے سے اپنی حسین و جمیل اور نوجوان بہن کو دیکھ رہی تھی کہ وہ نکل بھاگنے کے لیے ادھر ادھر دوڑ رہی ہے، اور کہیں چھپنے کی کوشش نہیں کر رہی، روشنی اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ غار میں کنکر بھی نظر آ رہے تھے، ایک ڈاکو نے شافعیہ کی چھوٹی بہن کا بازو پکڑ لیا ایک اور ڈاکو نے اس کا دوسرا بازو پکڑ لیا اور دونوں اسے اپنی اپنی طرف کھینچنے لگے، لڑکی چیخنے چلانے لگی لیکن اسے ان لٹیروں سے بچانے والا کوئی نہ تھا، سب ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے اس وقت تک ابوجندل مارا جا چکا تھا، شافعیہ نے اپنے چچا کو بری طرح زخمی ہو کر گرتے دیکھا تھا۔
ایک لٹیرے نے دیکھا کہ اس کے دو ساتھی ایک لڑکی کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور آخر ہوگا یہ کہ دونوں اس لڑکی کی ملکیت پر ایک دوسرے کا خون بہا دیں گے اس نے آگے بڑھ کر اپنی تلوار سیدھی لڑکی کے پیٹ میں اتار دی ، اور اتاری بھی اتنی زور سے کہ اس کی نوک پیٹھ کی طرف سے باہر آگئی۔
بدبختوں!،،،،،،، اس نے لڑکی کے پیٹ سے تلوار نکال کر کہا۔۔۔ ایک لڑکی کے پیچھے ایک دوسرے کے دشمن نہ بنو ،پہلے یہ خزانہ باہر نکالو پھر تمہارے لیے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں رہے گی۔
تھوڑی ہی دیر بعد یہ تینوں بھی تلواروں اور برچھیوں سے کٹ کر گر پڑے اور ان کے کپڑوں کو بھی آگ لگ گئی، شافعیہ کو نہ کوئی دیکھ سکا نہ کوئی اس تک پہنچا تھا اس نے جب دیکھا کہ صرف دو آدمی ایک دوسرے کا خون بہانے کے لئے رہ گئے ہیں تو وہ جھکی جھکی سی اور کچھ ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل وہاں سے نکلی اور غار کے دہانے سے باہر آ گئی۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
شافعیہ چٹانوں کی جن بھول بھلئیوں میں پھنس گئی تھی ان سے اس کا چچا ابوجندل واقف تھا جو سب کو بڑی آسانی سے غار تک لے گیا تھا ،لیکن وہ چچا غار میں ہی رہ گیا تھا اور وہ زندہ نہیں تھا، شافعیہ کو تو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ کدھر سے اندر آئے تھے، اگر دن کی روشنی ہوتی یا چاند پوری طرح روشن ہوتا تو شاید اسے یہاں سے نکلنے میں اتنی دشواری نہ ہوتی، لیکن رات بڑی ہی تاریک تھی وہ اب سوائے اللہ کے کسی سے بھی مدد نہیں مانگ سکتی تھی، اللہ ہی تھا جو اسے راستے پر ڈال سکتا تھا، اس کا یہ کہنا صحیح تھا کہ گنہگار چچا کے پاس رہتے ہوئے اس نے اپنا دامن گناہوں سے پاک رکھا تھا، پہلے سنایا جاچکا ہے کہ ابو جندل نے شمشیر ابلک کو بتایا تھا کہ یہ دونوں لڑکیاں اس کی اپنی بیٹیاں ہوتیں تو وہ انہیں حسن بن صباح کی جھولی میں ڈال دیتا، لیکن یہ دونوں اس کی مرے ہوئے بھائی کی بیٹیاں تھیں اور انہیں وہ امانت سمجھتا تھا ،شافعیہ کی چھوٹی بہن کے انداز کچھ اور تھے لیکن گمراہ ہونے سے پہلے ہی وہ تلوار کے ایک ہی وار سے مر گئی تھی، شافعیہ نے اپنے ایمان کو اور اپنی عصمت کو اللہ کی امانت سمجھ کر محفوظ رکھا تھا، اب وہ اللہ سے ہی رہنمائی اور روشنی مانگ رہی تھی۔
اسے چلتے سرکتے خاصی دیر گزر گئی تھی اسے اچانک ایک گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی، وہ چونک کر رکی اور فورا بعد تین چار گھوڑے اکٹھے ہنہنائے۔
شافعیہ نے ان آوازوں سے سمت کا اندازہ کیا اور اس سے یہ اندازہ ہوا کہ گھوڑے زیادہ دور نہیں اور ہیں کس طرف ،ان گھوڑوں میں سے اس کے اپنے گھوڑے بھی تھے جن پر یہ پارٹی یہاں آئی تھی ،ان میں ان ڈاکوؤں کے گھوڑے بھی تھے جو بعد میں غار تک پہنچے تھے، نہ جانے کیا وجہ تھی کہ گھوڑے اندر نہیں لے جائے گۓ تھے۔
تھوڑے تھوڑے سے وقفے سے ایک دو گھوڑے ہنہناتے تھے، اس سے شافعیہ کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ کس سمت کو جارہی ہے اور کس سمت کو جانا چاہیے، اس کے مطابق وہ مڑتی اور آگے بڑھتی رہی اور آخر وہ ان بھول بھلیوں سے نکل گئی باہر اگر کچھ روشنی تھی تو وہ ستاروں کی تھی، اسے گھوڑے نظر آ گئے تاریکی میں اپنا گھوڑا پہچاننا آسان نہ تھا ،پہچاننے کی ضرورت بھی نہیں تھی تمام گھوڑے تنومند اور اچھی نسل کے تھے۔
شافعیہ نے دو گھوڑے پکڑے ایک کی باگ دوسرے گھوڑے کی زین کے پیچھے باندھ لی پھر تین چار گھوڑوں سے کھانے پینے کی اشیاء کے تھیلے اتارے اور پانی کے دو مشکیزے بھی اتار لیے، ان تھیلوں اور مشکیزوں کو اس نے پیچھے بندھے ہوئے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا اور اگلے گھوڑے پر سوار ہو گئی، اس کے پاس دو ہتھیار تھے ایک تلوار اور دوسرا خنجر ،گھوڑ سواری کی وہ بڑی اچھی سوچ بوجھ رکھتی تھی، اس زمانے میں بچہ جب بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوجاتا تھا تو اسے جو کام سب سے پہلے سکھایا جاتا وہ سواری تھی۔
شافعیہ نے گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن ایسی نہیں کہ گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑتا ،وہ یہ خطرہ محسوس کر رہی تھی کہ غار میں سے کوئی ڈاکو زندہ نکل آیا ہوگا، وہ اگر دوڑتے گھوڑے کے ٹاپ سنتا تو اس کے تعاقب میں آجاتا ،شافعیہ نے گھوڑے کو عام چال پر رکھا ذہن پر زور دے کر اسے یاد کرنا پڑا کہ وہ اپنے چچا کے ساتھ کس طرف سے ادھر آئی تھی، اسے صحیح طور پر سمت تو یاد نہیں رہی تھی اس نے بہت سوچا اور بہت یاد کیا آخر ایک طرف چل پڑی اور اپنے آپ کو یہ یقین دلایا کہ ادھر سے ہی آئی تھی وہ اگر مرد ہوتی تو کوئی خوف نہ ہوتا، اس کے پاس تلوار تھی خنجر تھا۔
اور اس کے پاس دو گھوڑے بھی تھے وہ خنجر اور تلوار چلانا جانتی تھی لیکن اس کی مجبوری یہ تھی کہ وہ بڑی ہی حسین اور جوان لڑکی تھی، حسین بھی ایسی کے کوئی اچھے کردار کا آدمی بھی اسے دیکھتا تو نظر انداز نہ کر سکتا اسے روک لیتا۔
وہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ ریگستان میں چلی جا رہی ہے ،کوئی ایک بھی درخت نظر نہیں آتا تھا ،اس کے دل پر خوف و ہراس تھا جس نے اس کی نیند غائب کر دی تھی، یہ بھی اچھا تھا کہ وہ غنودگی میں نہ گئی اور بیدار رہی، وہ کان کھڑے کر کے سننے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کے تعاقب میں کوئی آ تو نہیں رہا ،زمین خاموش تھی آسمان خاموش تھا اور رات پر ایسا سکوت طاری تھا کہ وہ اپنے دل کی دھڑکن بھی سن رہی تھی، اس نے گھوڑے کو دوڑایا نہیں تھا کہ گھوڑا تھک نہ جائے۔
صبح طلوع ہونے لگی اور شافعیہ کو زمین و آسمان نظر آنے لگے ،وہ صحرا میں جا رہی تھی جہاں اس وقت تک ریت ھی ریت تھی، صرف ایک طرف اسے افق پر یوں نظر آیا جیسے عمارتیں کھڑی ہوں، وہ اسی طرف جا رہی تھی سورج اوپر آتا چلا گیا اور تپش میں اضافہ ہوتا گیا ،سورج جب سر پر آ گیا تو اس نے گھوڑا روک لیا اور نیچے اتری، دوسرے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھیلے میں سے کھانے کو کچھ نکالا اور مشکیزہ کھول کر پانی پیا اور پھر گھوڑے پر سوار ہو گئی، وہ چلتے گھوڑے پر کھاتی رہی ، وہ زیادہ رکنا نہیں چاہتی تھی اسے صرف یہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ گھوڑوں نے نہ جانے کب سے پانی پیا ہوا ہے اور یہ پیاس محسوس کریں گے جو صحرا میں ایک خطرہ بن سکتا ہے ،اصل خطرہ تو وہ محسوس کرنے ہی لگی تھی، وہ یہ تھا کہ وہ جب اپنی پارٹی کے ساتھ ادھر آئی تھی تو ایک صحراء راستے میں آیا تھا لیکن وہ یہ نہیں تھا ،اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ غلط راستے پر چل نکلی تھی وہ جدھر دیکھتی اسے صحرا نظر آتا اور جب پیچھے دیکھتی تو اسے وہ پہاڑیاں اور چٹان نظر آتی تھیں جن میں وہ غار تھا اور جہاں سے وہ آ رہی تھی ،وہ رات بھر سوئی نہیں تھی اور اس پر خوف بھی طاری تھا ،اور پھر اس نے جو کشت و خون دیکھا تھا وہ یاد آتا تو وہ اندر باہر سے کانپنے لگتی تھی، ہوا یہ کہ اس کا دماغ سوچنے کے قابل رہا ہی نہیں تھا۔
وہ اللہ کو یاد کرتی جا رہی تھی اس میں تبدیلی صرف یہ آئی تھی کہ پہلے وہ اللہ سے مدد مانگتی تو رو پڑتی ،لیکن اب اس نے حوصلہ اتنا مضبوط کر لیا کہ رونا چھوڑ دیا اور اپنے آپ میں دلیری پیدا کر لی، اب وہ اللہ سے یہی کہتی تھی کہ صرف اس کی ذات اسے راستہ دکھا سکتی ہے وہ یہ بھی کہتی کہ اللہ مجھے ہمت و استقلال دے کہ میں ہر مصیبت کا سامنا کر سکوں۔
سورج غروب ہو رہا تھا جب وہ اس جگہ پر پہنچ گئی جو اس نے دیکھی اور اسے عمارتیں سی نظر آئی تھیں، یہ صحرا کے اندر ٹیلے تھے جن کی ساخت دو منزلہ اور سہ منزلہ عمارتوں جیسی تھیں، ان میں سے بعض ٹیلے ایسی شکل کے تھے جیسے کسی اونچی عمارت کا سامنے والا حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہو، یہ جگہ نشیبی علاقے میں تھی اور وہاں ریت کم اور مٹی زیادہ تھی۔
کہیں کہیں چھوٹے بڑے پتھر بھی نظر آتے تھے، ان بڑے ٹیلوں میں چھوٹے ٹیلے بھی تھے جن کی شکل عجیب و غریب تھی ،یہ سارا ماحول بڑا ہی ڈراؤنا تھا گھاس کی ایک پتی نظر نہیں آتی تھی ،جوں جوں شام کا دھندلکا گہرا ہوتا جا رہا تھا ان چھوٹے ٹیلوں کی شکل یوں لگتا تھا تبدیل ہوتی جا رہی ہو، ان میں کوئی انسانی شکل کا اور کوئی ہاتھیوں جیسا تھا۔
شافعیہ کا گھوڑا اپنے آپ ہی تیز ہو گیا تیز ہوتے ہوتے گھوڑا دوڑنے لگا اور آگے جا کر ایک ٹیلے سے بائیں کو گھوم گیا وہاں ٹیلا ختم ہوتا تھا کچھ دور ہی جاکر ایسی جگہ آ گئی جس کے ارد گرد ایسے ہی ٹیلے کھڑے تھے اور درمیان میں کچھ ہرے پودے موجود تھے شافعیہ سمجھ گئی کہ گھوڑے نے پانی کی کی مشک پالی ہے۔ صحراؤں میں چلنے والے گھوڑے پانی کی بو پا لیا کرتے ہیں، شافعیہ نے لگام ڈھیلی چھوڑ دی اور گھوڑا دوڑتا ہوا پانی پر جا کر کھڑا ہوا ،یہاں تھوڑا سا پانی جمع تھا اور اس کے ارد گرد ہی جھاڑیاں تھیں، پانی میں آسمان کا عکس نظر آ رہا تھا ،شافعیہ گھوڑے سے اتر آئی اور اس گھوڑے کی زین سے اس نے دوسرے گھوڑے کو بھی کھول دیا تاکہ دونوں گھوڑے پانی پی لیں۔
گھوڑے پانی پی رہے تھے اور شافعیہ سوچ رہی تھی کہ اسے رات یہیں گزارنی چاہیے لیکن پانی کے قریب نہیں، کیوں کہ اتنا وہ جانتی تھی کہ صحرائی درندے رات کو پانی پینے آتے ہیں اور وہ اس کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
شافعیہ نے گھوڑے سے ایک تھیلا کھولا اور پانی کا مشکیزہ بھی اتارا اور ایک طرف بیٹھ کر کھانے لگی اس نے پانی پیا اور دیکھا کہ گھوڑے بھی پانی پی چکے ہیں اور جھاڑیاں کھا رہے ہیں، اس نے گھوڑوں کو آزاد ہی رہنے دیا تا کہ وہ پیٹ بھر لیں ۔
رات پوری طرح تاریک ہوگئی تھی، شافعیہ اٹھی اور گھوڑوں کو پکڑ کر ایک طرف چل پڑی، وہ پانی سے دور رہنا چاہتی تھی ،اس نے رات وہیں بسر کرنی تھی اور گھوڑوں کو کہیں باندھنا تھا لیکن وہاں کوئی درخت نہیں تھا نہ کوئی اتنا بڑا پتھر تھا جس کے ساتھ وہ گھوڑے کو باندھ دیتی، اس نے سوچا گھوڑوں کو اللہ کے سپرد کر کے سو جائے، ایک جگہ جا کر وہ لیٹ گئی اور گھوڑوں کو چھوڑ دیا وہ اس قدر تھکی ہوئی تھی کہ لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔
کوئی گھوڑا ذرا سا بھی ہنہناتا تھا تو شافعیہ کی آنکھ کھل جاتی تھی ،وہ اٹھ کر بیٹھ جاتی اور اندھیرے میں ہر طرف دیکھتی گھوڑے جہاں اس نے چھوڑے تھے وہیں کھڑے تھے، اس طرح چار پانچ مرتبہ اس کی آنکھ کھلی اور اس نے بیٹھ کر ہر طرف دیکھا اور جب دیکھا کہ گھوڑے وہیں کھڑے ہیں تو پھر لیٹ گئی ۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
آخری بار اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کی پہلی کرنیں ٹیلوں کے اس خطے میں داخل ہوچکی تھیں اور یہ خطہ اللہ کے نور سے منور ہو گیا تھا، شافیعہ ہڑبڑا کر بیٹھی دیکھا دونوں گھوڑے غائب تھے، وہ اس طرف دوڑ پڑی جدھر پانی تھا اور گھنی جھاڑیاں بھی تھیں، دونوں گھوڑے جھاڑیاں کھا رہے تھے اس کے پاس کھانے کا سامان کافی تھا اس نے گھوڑے کی زین سے ایک تھیلا کھولا اور اس میں سے کھانے کی اشیاء نکال کر ایک طرف بیٹھ گئی اور اطمینان سے کھانے لگی، پھر پانی پیا اور ایک گھوڑے کو دوسرے کے پیچھے باندھ کر سوار ہوئی اور چل پڑی، وہ اب اللہ کے بھروسے جا رہی تھی اس نے سوچا تھا کہیں نہ کہیں تو جا ہی نکلے گی۔
زمین کو دیکھا تو اسے کچھ اطمینان ہونے لگا وہ اس لئے کہ زمین اب پہلے کی طرح ریتیلی نہیں رہی تھی بلکہ مٹی بڑھتی جا رہی تھی اور گھوڑے کے سموں سے دھول اڑتی تھی، اس نے یہ بھی دیکھا کہ زمین پر کسی انسان کے نقش پا نہیں تھے نہ کسی جانور کے پاؤں کے نشان نظر آتے تھے، اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اس راستے سے کبھی کوئی نہیں گزرا یا عرصے سے ادھر سے کسی مسافر کا گزر نہیں ہوا، زمین اوپر کو جا رہی تھی اور ٹیلے کم ہوتے جا رہے تھے۔
کچھ اور آگے گئی تو اسے سورج نظر آیا جو افق سے کچھ اور اوپر اٹھ آیا تھا، اس نے گھوڑا روک لیا اور اس پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اس نے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور آسمان کی طرف دیکھا۔
رات کی سیاہ کالی تاریکیوں سے اتنا روشن سورج طلوع کرنے والے اللہ!،،،،،،،،، اس نے بلند آواز سے اللہ کو پکارا۔۔۔ میری زندگی کو اتنا تاریک نہ ہونے دینا اور مجھے جو تاریکیاں نظر آ رہی ہیں ان میں سے اپنے نور کی صرف ایک کرن عطا کر دینا ،میری آبرو کی حفاظت کرنا جان جاتی ہے تو چلی جائے۔
دعا سے اسے روحانی تسکین سی محسوس ہوئی اور اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کا حوصلہ جو دم توڑتا جا رہا تھا پھر سے مضبوط ہو گیا ہے، اور ایک غیبی ہاتھ ہے جو اس کی حفاظت کر رہا ہے، اس کے نیچے گھوڑا عام چال سے چلا جا رہا تھا شافعیہ نے یہ نہ سوچا کہ گھوڑے کو دوڑائے اور جہاں کہیں بھی پہنچنا ہے جلدی پہنچ جائے، اس نے دماغ حاضر رکھا وہ جانتی تھی کہ گھوڑا دوڑایا تو راستے میں ہی جواب دے جائے گا، اس نے دوسرا گھوڑا اس لیے ساتھ لے لیا تھا کہ ایک تھک جائے تو دوسرے پر سوار ہو جائے اب اس جگہ سے چلی تو دوسرے گھوڑے پر سوار ہوئی تھی ،اب تو اسے امید کی کرن نظر آنے لگی جو یہ کہ زمین ذرا ذرا اوپر جا رہی تھی اور کہیں کہیں ہری ہری گھاس نظر آنے لگی تھی ،اسی طرح اکا دکا درخت بھی دکھائی دینے لگا، لیکن ان درختوں کی شکل و صورت تو ایسی نہیں تھی جیسے جنگلات کے درختوں کی ہوتی ہے، ٹہن تھے اور کچھ ٹہنیاں تھی لیکن پتے بہت ہی تھوڑے۔
آخر ٹیلوں کا خطہ ختم ہو گیا اور وہ جب بلندی پر پہنچی تو اس کے سامنے ایسی زمین تھی جس پر درخت بھی تھے اور ہریالی بھی نظر آرہی تھی ،اس نے رک کر پیچھے دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے جہنم سے نکل آئی ہو اور آگے اس کے لئے جنّت ہی جنّت ہے، وہاں اونچی نیچی ٹیکریاں بھی تھیں اور زمین ہموار تو نہیں تھی لیکن اس کی جیسی بھی شکل تھی اچھی لگتی تھی کیونکہ اس میں ہریالی تھی ،وہ ناک کی سیدھ میں چلتی چلی گئی۔
سورج اوپر آ کر مغرب کی طرف چل پڑا تھا اور اس وقت شافعیہ ایک جنگل میں داخل ہوچکی تھی، ہر طرف ہریالی تھی اب گھوڑوں کے بھوکا اور پیاسا رہنے کا کوئی خطرہ نہیں رہا تھا البتہ یہ خطرہ بڑھ گیا تھا کہ وہ حسین اور نوجوان لڑکی ہے اور اس جنگل میں اسے ضرور کوئی نہ کوئی آدمی ملے گا ،اس نے اپنے آپ کو ایسے خطرے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کردیا اس نے یہ بھی سوچا کہ خزانے والی پہاڑیوں تک پہنچنے سے پہلے ایک ایسی پہاڑی آئی تھی جس پر وہ سب چڑھے تھے اور اس کی پل صراط جیسی چوٹی پر کچھ دور تک گئے تھے جہاں ذرا سا پاؤں پھسل جاتا تو گھوڑا اپنے سواروں سمیت نیچے تک لڑھکتا چلا جاتا ،یہ پہاڑی ایک روز پہلے آ جانی چاہیے تھی لیکن اس کا کہیں نام و نشان نہ تھا، یہ تو شافعیہ نے پہلے ہی قبول کر لیا تھا کہ وہ بھٹک گئی ہے لیکن اس پہاڑی کو نہ دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ وہ راستے سے بہت دور چلی آئی ہے اور اب نہ جانے کہاں جا نکلے یا کس انجام کو پہنچے۔
اسے آسمان پر برسات کے بادلوں کے ٹکڑے منڈلاتے نظر آنے لگے اس نے دل ہی دل میں دعا کی کہ مینہ نہ برس پڑے ،خزانے والے غار کی طرف جاتے ہوئے موسلادھار مینہ برسا تھا اور اس کی پارٹی کو بڑی ہی سخت دشواری بھی پیش آئی تھی، اب وہ اکیلی تھی اور ڈرتی تھی کہ آگے سیلابی ندی آ گئی تو اس کے لیے ایسی مشکل پیش آئے گی جو اس کے بس سے باہر ہو گی۔
وہ ایک بڑی اچھی جگہ رک گئی، گھوڑے سے کھانا کھول کر کھانے بیٹھ گئی اور گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا کہ وہ بھی اپنا پیٹ بھر لیں، وہاں تو اب گھاس ہی گھاس تھی اور جھاڑیوں کی بھی بہتات تھی، اسے غنودگی آنے لگی لیکن دن کے وقت وہ سونے سے گریز کر رہی تھی،،،،،،،، یہ خطرہ تو اس کے ذہن میں ہر وقت موجود رہا کہ اس کے تعاقب میں کوئی آ رہا ہوگا، اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اس کے ذہن سے اٹھا کہ اس غار میں کوئی ڈاکو لٹیرا زندہ بھی رہا تھا یا نہیں، اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا وہ ڈرتی اس لئے تھی کہ تعاقب میں اگر کوئی آ رہا ہے تو گھوڑوں کے قدموں کے نشان دیکھتا اس طرف پہنچ جائے گا پھر وہ اپنے آپ کو یوں تسلی دیتی کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا، گھنٹہ ڈیڑھ آرام کر کے وہ گھوڑے پر سوار ہوئی اور چل پڑی ،شام تک اسے دو ندیوں میں سے گزرنا پڑا دونوں کی گہرائی گھوڑوں کے گھٹنوں تک ہی تھی اسے وہ ندی یاد آئی جس میں سے گزر کر وہ گئی تھی وہ سیلابی تھی اور خاصی گہری تھی، یہ دونوں ندیا جو اب دیکھ رہی تھی جاتے وقت یہ دونوں ندیاں راستے میں نہیں آئی تھیں، جنگل خوبصورت ہوتا جا رہا تھا۔
سورج غروب ہوگیا اور جنگل کے حسن پر رات کا سیاہ پردہ پڑتا چلا گیا ،اب اس کے دل میں یہ ڈر پیدا ہو گیا کہ رات کو سوئی تو درندے آ جائیں گے، وہ جانتی تھی کہ ایسے جنگلوں میں شیر اور بھیڑیے ہوتے ہیں، خزانے کی طرف جاتے ہوئے ان کا تصادم ایک شیر کے ساتھ ہوا تھا اور پھر انہوں نے بڑا زہریلا اور بڑا ناگ بھی دیکھا تھا ،انہوں نے مل جل کر ناگ کو مار لیا تھا اور شیر کو بھی ،لیکن ایک گھوڑا ضائع ہو گیا تھا، اس نے سوچا کوئی ایسا درخت نظر آ جائے جس کا ٹہن خاصہ چوڑا ہو اور وہ اس پر چڑھ کر سو جائے لیکن یہ خیال اس خطرے سے ذہن سے نکال دیا کہ سوتے سوتے اوپر سے گر پڑے گی اور ہو سکتا ہے اتنی چوٹ لگے کہ وہ سفر کے قابل ہی نہ رہے۔
اللہ توکل وہ ایک ٹیکری کے دامن میں رک گئی اور دونوں گھوڑے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیے، وہ جہاں بیٹھی تھی وہاں ٹیکری تھوڑی سی عمودی تھی اس نے وہیں ٹیکری کے اس حصے کے ساتھ پیٹھ لگا لی اور ارادہ کیا کہ جتنی دیر جاگ سکتی ہے جاگے گی اس نے تلوار نیام سے نکال کر اپنے پاس رکھ لی،،،،، اس نے جاگنے کا ارادہ کیا تھا لیکن جوانی کی عمر تھی اور تھکان بھی تھی بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئی۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
گھوڑے بڑے ہی زور سے ہنہنائے اور بدکے، شافیعہ ہڑبڑا کر جاگ اٹھی اور اس کا ہاتھ تلوار کے دستے پر گیا اور بڑی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی ،گھوڑے رسیاں تڑوا رہے تھے اس کے ساتھ ہی شافعیہ نے دوڑتے قدموں کی آواز اور ایسی آوازیں سنیں جیسے کتے بھونک رہے ہوں، چاند اوپر آ گیا تھا ان دنوں چاند آدھی رات کے بعد اوپر آتا تھا ،اس چاندنی میں اسے ایک ہرن نظر آیا جو بھاگا جا رہا تھا اور اس کے پیچھے چار پانچ بھیڑیے لگے ہوئے تھے۔
ہرن اور بھیڑیے گھوڑوں کے قریب سے گزرے تھے معلوم نہیں کیا وجہ ہوئی کہ ہرن گر پڑا ابھی وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ بھیڑیے اس پر جا پڑے اور پھر اسے بھاگنے نہ دیا، شافعیہ مطمئن ہوگئی کہ بھیڑیوں کو پیٹ بھرنے کے لیے شکار مل گیا ہے، درندہ بھوکا ہو تو بہت بڑا خطرہ بن جاتا ہے، اس لیے خطرہ ٹل گیا تھا، لیکن گھوڑے بری طرح بدکے تھے، شافعیہ گھوڑوں تک گئی اور ان کے درمیان کھڑے ہوکر دونوں کی گردنوں کو تھپکانے لگی اور باری باری ان کے منہ کے ساتھ منہ لگایا جس سے گھوڑے کچھ سکون میں آگئے، اچانک شافعیہ کو خیال آیا کہ جہاں بھیڑیے ہیں وہاں شیر بھی ہو سکتے ہیں، وہ ڈرنے لگی کہ شیر آگیا تو وہ بھیڑیوں سے ان کا شکار چھینے گا اور پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیر جب دیکھے کہ وہ شکار تو بھیڑیوں نے مار لیا ہے تو وہ گھوڑوں کی طرف آ جائے گا ۔
اس خیال نے اسے خاصا ڈرایا لیکن اس کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس کے ہاتھ میں تلوار تھی اور اس نے گھوڑوں پر پہرا دینا شروع کردیا ،اس نے دوسرے ہاتھ میں خنجر لے لیا اسے چاند سے اندازہ ہوا کہ رات آدھی سے کچھ زیادہ گزر گئی ہے اس نے اللہ کو یاد کرنا شروع کردیا اور اپنے دل میں سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی ،جب ٹہلتے ٹہلتے تھک گئی تو بیٹھ گئی اور پیٹھ اسی درخت کے ساتھ لگا لی جس کے ساتھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے، اس نے نیند پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی اور بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئی۔
بہت دیر گزر گئی تو گھوڑے ایک بار پھر بدکے اور ہنہنائے، شافعیہ بڑی تیزی سے اٹھی اور تلوار اور خنجر آگے کر لیے اس نے دیکھا پندرہ بیس قدم دور بھیڑیے بڑے آرام سے واپس جا رہے تھے، انہیں اب کسی اور شکار کی ضرورت نہیں تھی ان کے پیٹ بھر گئے تھے، شافعیہ نے چاند کو دیکھا جو خاصا آگے نکل گیا تھا وہ پھر درخت کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی اور ایک بار پھر نیند نے اسے خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا۔
اس کی آنکھ کھلی تو اس دن کا سورج افق سے اٹھ آیا تھا، شافعیہ اٹھی اور اس نے گھوڑوں کی رسیاں کھولیں تاکہ یہ چرچگ لیں، اسے اب آگے جانا تھا معلوم نہیں یہ کون سا خطہ تھا کہ اسے کوئی آبادی کوئی چھوٹی سی بستی اور ایک بھی انسان نظر نہیں آیا تھا، نہ کسی انسان کے قدموں کے نشان نظر آتے تھے۔
گھوڑے گھاس چر رہے تھے اور شافعیہ ایک تھیلا کھول کر اپنا پیٹ بھرنے لگی کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور پہلے کی طرح ایک گھوڑے کو دوسرے کے پیچھے باندھ کر سوار ہو گئی اور اللہ کا نام لے کر چل پڑی۔
جنگل ویسا ہی تھا جیسا وہ دیکھتی چلی آ رہی تھی، اب یہ تبدیلی آئی تھی کہ ٹیکریاں ذرا بڑی ہو گئی تھیں اور ان ٹیکریوں پر بھی گھاس تھیں جھاڑیاں تھیں اور درخت بھی تھے ،وہ چلتی چلی گئی اور تقریبا آدھا دن گزر گیا وہ کچھ دیر کے لیے رکنے کی سوچ رہی تھی کہ اسے دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگے، پہلے تو اس نے اپنے آپ کو یہ دھوکا دیا کہ اس کے کان بج رہے ہیں لیکن دوڑتے گھوڑے کے قدموں کی دھمک بلند ہوتی جارہی تھی جس سے پتہ چلتا تھا کہ گھوڑا اسی طرف آ رہا ہے۔
شافعیہ نے ادھر ادھر دیکھا کہ چھپنے کی کوئی جگہ نظر آ جائے لیکن دو گھوڑوں کوچھپانا ناممکن تھا، وہ اکیلی ہوتی تو کسی گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپ سکتی تھی، شافعیہ کو اس گھوڑے سوار کا سامنا کرنا ہی تھا، اس نے ارادہ کیا کہ جس کے ٹیکری کے ساتھ لگ کر وہ بیٹھ گئی تھی اسی کی اوٹ میں یعنی پچھلی طرف چلی جائے وہ یہ ارادہ اس امید پر باندھ رہی تھی کہ گھوڑسوار اس طرف سے آگے نکل جائے گا لیکن اب چھپنے کو وقت گزر گیا تھا ،ایک ہرن اپنی پوری رفتار سے دوڑ رہا تھا اور یہ ہرن اس کے قریب سے گزر گیا، شافعیہ نے دیکھا کہ ہرن کے دم کے ساتھ پیٹھ پر تیر اترا ہوا تھا، اس سے پتہ چلتا تھا کہ جو گھوڑ سوار اس کے تعاقب میں آرہا ہے تیر اسی نے اس پر چلایا ہو گا اور وہ کوئی شکاری ہوگا۔
وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کھڑی رہے یا وہاں سے ہٹ جائے کہ اتنے میں ایک گھوڑ سوار ایک ٹیکری کے عقب سے سامنے آیا جس کا گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا تھا وہ بڑی تیزی سے شافعیہ کے قریب آگیا اور شافعیہ کو دیکھ کر اس نے باگ کھینچی گھوڑا دو چار قدم پاؤں جماتے جماتے آگے نکل آیا اور رک گیا تھا، گھوڑسوار سیاہ فام تھا، اس کے پیچھے دو اور سوار آ گئے وہ بھی سیاہ فام تھے، آگے والے گھوڑ سوار کا لباس ظاہر کرتا تھا کہ وہ کسی قبیلے کا سربراہ یا سردار ہے، اور جو گھوڑ سوار اس کے پیچھے آرہے تھے وہ اس کے نوکر یا غلام لگتے تھے۔
شافعیہ کو یاد آیا کہ اسے کسی نے بتایا تھا کہ جنگلوں میں کچھ قبیلے ہیں جو تہذیب و تمدن سے دور رہتے ہیں اور یہ قبیلہ خاصی وحشی ہیں، اسے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ان قبیلوں کا اپنا ہی تہذیب و تمدن اور اپنا ہی مذہب ہے ،کچھ یہ بت پرست ہوا کرتے تھے لیکن انہوں نے اسلام کا اتنا سا ہی اثر قبول کیا کہ بت پرستی چھوڑ دی لیکن اپنے اپنے عقیدوں اور مذہبی رسم و رواج کو نہ چھوڑا۔
وہ گھوڑ سوار وحشی تھا یا تہذیب یافتہ اس سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ،وہ شافعیہ کو ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جس میں حیرت بھی تھی اور ہوس کاری کا تاثر بھی تھا، شافعیہ اسے چپ چاپ دیکھے جا رہی تھی اس نے خوف وہراس جھٹک ڈالا اور چہرے پر ایسا کوئی تاثر نہ آنے دیا جس سے پتہ چلتا کہ وہ اس سیاہ فام سے خوف و ہراس محسوس کر رہی ہے ، یہ سوار گھوڑے سے اتر آیا اور آہستہ آہستہ شافعیہ کے قریب آ گیا، اس کے دونوں نوکر گھوڑوں سے اترے اور اس طرح کھڑے ہو گئے جیسے آقا ابھی انہیں کوئی حکم دے گا ،آقا نے اپنی زبان میں شافعیہ کے ساتھ بات کی، شافعیہ نے سر ہلایا جس کا مطلب تھا کہ وہ اس کی زبان نہیں سمجھتی،،،، وہ مسکرایا۔
کیا تم انسان ہو ؟،،،،گھوڑے سوار نے اب اس خطے کی زبان میں پوچھا۔۔۔ یقین نہیں آتا ۔
ہاں میں انسان ہوں۔۔۔ شافعیہ نے جواب دیا۔
شافعیہ کے لب و لہجے اور انداز میں ذرا سا بھی خوف و ہراس نہیں تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ ذرا سے بھی خوف کا اظہار کیا یا اس پر اپنی مجبوری اور بے بسی ظاہر کی تو یہ شخص شیر ہو جائے گا۔
کون ہو تم؟،،،، سوار نے جو یقینا اپنے قبیلے کا سردار تھا پوچھا۔۔۔ اور اس جنگل میں اکیلی کیا کر رہی ہو، معلوم ہوتا ہے تمہارے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں۔
ہوں تو انسان لیکن روح سمجھ لو ۔۔۔شافعیہ نے کہا۔۔۔ حسن بن صباح کا نام تو تم نے سنا ہی ہوگا۔
شیخ الجبل!،،،، امام،،، سردار نے کہا۔۔۔میں نے اس کے متعلق بہت کچھ سنا ہے وہ آسمان سے آگ کی آغوش میں زمین پر اترا تھا، میں نے یہ بھی سنا ہے اور ٹھیک سنا ہے کہ وہ آسمانی جنت کو زمین پر لے آیا ہے ۔
میں اس جنت کی حور ہوں۔۔۔ شافعیہ نے کہا، اور اس سے پوچھا ،،،،،،کیا تم نے امام کی بیعت نہیں کی؟
نہیں !،،،،،سردار نے جواب دیا۔۔۔۔ ہمارا اپنا مذہب ہے ،ہمارا یہ رواج ہے کہ جو بھی قبیلے کا سردار ہوتا ہے وہ مذہبی پیشوا بھی ہوتا ہے، میں اپنے قبیلے کا سردار اور مذہبی پیشوا ہوں،،،،،،،تم اکیلی کیوں ہو؟
شکار کے لئے آئی تھی۔۔۔ شافعیہ نے کہا ۔۔۔ایک ہرن کے تعاقب میں یہاں تک آنکلی، میں دانستہ چھپ گئی تھی میں چاہتی تھی کہ میرے ساتھ جو آدمی شکار کھیلنے آئے تھے وہ مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہو جائیں اور واپس چلے جائیں، میں دراصل آزاد گھومنا پھرنا چاہتی تھی، اب واپس جا رہی ہوں لیکن راستہ یاد نہیں رہا ۔
شافعیہ نے کچھ اور ایسے ہی جھوٹ بولے اور اپنا دماغ حاضر رکھا۔
میں نے اس جنگل میں کسی اور آدمی کو نہیں دیکھا ۔۔۔سردار نے کہا۔۔۔ کیا وہ لوگ تمہیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے ہوں گے ؟
چلے گئے ہوں گے۔۔۔ شافعیہ نے جواب دیا۔۔۔ میں اکیلے جانا چاہتی ہوں لیکن ابھی میں واپس نہیں جاؤں گی، کیونکہ میں ایک اور جگہ جانا چاہتی ہوں ،میں بھٹک نہ جاتی تو اب تک یہاں سے نکل گئی ہوتی ،مجھے کچھ خیال نہیں رہا ہم کس طرف آئے تھے۔
کہاں جانا چاہتی ہو؟،،،، سردار نے پوچھا ۔
قلعہ وسم کوہ ۔۔۔شافعیہ نے جواب دیا۔۔۔ کیا تم مجھے وہاں تک کا راستہ بتا سکتے ہو، میں نہیں جانتی میں کس سمت کو جا رہی ہوں۔
کیا شیخ الجبل میں اتنی روحانی طاقت نہیں؟،،،،، سردار نے پوچھا اور کہا۔۔۔ اسے تو گھر بیٹھے معلوم ہو جانا چاہیے کہ تم کہاں ہو ،میں نے تو سنا ہے کہ اس میں ایسی روحانی قوت ہے کہ زمین کی ساتویں تہہ کے راز پالیتا ہے۔
اسے کوئی بتائے گا تو وہ میرا پتہ چلائے گا۔۔۔ شافعیہ نے کہا۔۔۔ اسے کوئی بھی نہیں بتائے گا کہ میں جنگل میں اکیلی رہ گئی ہوں،،،،،کیا تم مجھے راستہ بتا سکتے ہو؟
بتا سکتا ہوں۔۔۔ سردار نے جواب دیا۔۔۔ لیکن یہاں نہیں بتاؤں گا تم میرے علاقے میں ہو اور میں تمہارا میزبان ہوں، میں تمہیں اپنی بستی میں نہیں لے جاؤں گا بہت دور ہے، یہاں میں ایک جگہ خیمہ زن ہوں تمہیں وہاں لے جاؤں گا اور وہاں تمہیں راستہ سمجھ جاؤں گا۔
اگر میں تمہارے خیمے میں نہ جاؤں تو۔۔۔ شافعیہ نے پوچھا۔
تو پھر اس جنگل میں بھٹکتی رہو ۔۔۔سردار نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ اس جنگل سے نکلنا آسان کام نہیں اور یہاں خطرہ یہ ہے کہ یہاں بھیڑیے بھی ہیں شیر بھی ہیں اور ایک سیاہ رنگ کا شیر بھی دیکھنے میں آیا ہے جو بہت خطرناک درندہ ہے ہو سکتا ہے، تمہاری تلاش میں آنے والوں سے پہلے ان دونوں میں سے کوئی تم تک پہنچ جائے،،،،،، تمہیں میں اس لئے لے جا رہا ہوں کہ تم زبانی وسم کوہ تک کا راستہ نہیں سمجھ سکو گی، میں سفید کپڑے پر راستہ بنا کر تمہیں دوں گا اور جو نمایاں نشانیاں راستے میں آئیں گی وہ نشان لگا کر تمہیں بتاؤں گا بہتر ہے میرے ساتھ چلی چلو۔
شافعیہ نے کچھ دیر سوچا اور بہتر یہی سمجھا کہ یہ خطرہ مول لے لیا جائے اور اس شخص سے راستہ سمجھ لیا جائے، اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہ تھا اس نے اس سیاہ فام سردار کے ساتھ جانے پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
شافعیہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئی اور اس کے ساتھ چل پڑی، اس کا سیاہ فام میزبان اپنے شکار کو بھول گیا اور واپس اپنے خیمے کی طرف چل پڑا، وہ بولتا کم تھا اور شافعیہ کو اوپر سے نیچے تک بار بار دیکھتا اور حیران بھی ہوتا اور خوش بھی، اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اس ہرن کے ساتھ اسے کوئی دلچسپی نہیں رہی جس کی پیٹھ میں اسکا تیرا اترا ہوا تھا، اسے بڑا ہی خوبصورت شکار مل گیا تھا، شافعیہ شاید اس کی نظروں کو سمجھ رہی تھی ۔
میرا نام زرتوش ہے۔۔۔ راستے میں سردار نے شافعیہ کو بتایا ۔۔۔میں ابھی تین چار دن اسی جنگل میں رہوں گا ،جب واپس جاؤں گا تو میرے ساتھ دو تین ہرن ہوں گے ،اور شاید ایک شیر بھی ہو ۔
شافعیہ کو اس کے شکار کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ تو اس سے صرف راستہ سمجھنا چاہتی تھی، وہ اس سے پوچھ رہی تھی کہ وہ اس جنگل سے خیریت سے نکل بھی جائے گی یا نہیں ۔
میں اپنے آدمی تمہارے ساتھ بھیج دوں گا، پھر وہ تمہیں خطرناک علاقے سے نکال کر واپس آئیں گے۔
زرتوش کی خیمہ گاہ وہاں سے بہت دور تھی وہاں تک پہنچتے پہنچتے ڈیڑھ دو گھنٹے گزر گئے تھے، وہاں چار پانچ خیمے لگے ہوئے تھے اور ان کے باہر پانچ سات آدمی کوئی نہ کوئی کام کر رہے تھے، زرتوش نے شافعیہ کو بتایا کہ وہ سب اس کے نوکر چاکر ہیں اور ان میں باورچی بھی ہے،،،،،، ایک خیمہ جو دوسروں سے بڑا اور شکل و صورت میں مختلف تھا الگ تھلگ نظر آرہا تھا ،پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی یہ زرتوش کا خیمہ تھا ،زرتوش اور شافعیہ گھوڑوں سے اترے اور نوکر دوڑے آئے اور گھوڑے انہوں نے پکڑ لئے زرتوش شافعیہ کو اپنے خیمے میں لے گیا۔
فرش پر ایک بستر بچھا ہوا تھا نیچے روئی کے گدے تھے اور ان پر بڑی خوبصورت اور قیمتی چادر بچھی ہوئی تھی، خیمے میں کچھ اور چیزیں بڑے قرینے سے اور سلیقہ سے رکھی ہوئ تھی، زرتوش نے شافعیہ کو بستر پر بٹھایا اور ایک خادم کو بلا کر کہا کہ وہ کھانا لے آئے۔
کھانا آیا تو شافعیہ دے کر حیران رہ گئی یہ بھنے ہوئے مختلف پرندے تھے یہ اتنے زیادہ تھے کہ دس بارہ آدمی کھا سکتے تھے، ان کے ساتھ روٹی نہیں تھی۔
شکار پر آکر میں صرف شکار کھایا کرتا ہوں۔۔۔ زر توش نے کہا ۔۔۔تم بھی یہ پرندے کھاؤگی ،روٹی نہیں ملے گی نہ تمہیں روٹی کی ضرورت محسوس ہوگی۔
خادم پھر آیا اور ایک صراحی اور دو پیالے رکھ کر چلا گیا، زرتوش نے صراحی سے دونوں پیالے بھرے اور ایک پیالہ شافعیہ کے آگے کردیا، شافعیہ بو سے سمجھ گئی کہ یہ شراب ہے، اس نے شراب پینے سے انکار کر دیا۔
کیوں؟،،،،، زرتوش نے حیرت سے کہا۔۔۔ شیخ الجبل حسن بن صباح کی حور ہو کر تم شراب پینے سے انکار کرتی ہو؟،،،،،،کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
ہاں۔۔۔ اس کی ایک وجہ ہے۔۔۔ شافعیہ نے کہا۔۔۔ مجھے ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ شراب چہرے کی رونق ختم کر دیتی ہے، میں بڑھاپے میں بھی جوانوں جیسی رہنا چاہتی ہوں ۔
شافعیہ محتاط تھی کہ اس کے منہ سے یہ نہ نکل جائے کہ وہ مسلمان ہے۔
وہ کھانا کھاتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ زرتوش نے بہت اصرار کیا کہ وہ تھوڑی سی شراب پی لے لیکن اس نے نہ پی ،کھانے سے فارغ ہوئے اور نوکر برتن اٹھا کر لے گئے تو شافعیہ نے زرتوش سے کہا کہ اب وہ اسے راستہ سمجھا دے ۔
کیا جلدی ہے۔۔۔ زرتوش نے کہا۔۔۔ تم اسی وقت تو روانہ نہیں ہو سکتیں۔
میں اسی وقت روانہ ہونا چاہتی ہوں۔۔۔ شافعیہ نے کہا۔۔۔ صبح تک میں اپنی منزل کے کچھ اور قریب ہو جاؤں گی ،میں رات ضائع نہیں ہونے دوں گی۔
میری میزبانی کا تقاضہ کچھ اور ہے۔۔۔ زرتوش نے کہا۔۔۔میں اپنے قبیلے کے رسم و رواج کا پابند ہوں، میرے خادم سارے قبیلے میں مشہور کر دیں گے کہ میں نے مہمان کو رات کو رخصت کر دیا تھا ،مجھ پر لعنت ہے کہ میں مہمان کو اور وہ بھی ایک عورت کو رات کو ہی رخصت کردوں۔
تو پھر مجھے راستہ بنا کر دکھائیں۔۔۔ شافعیہ نے کہا ۔
سورج غروب ہو گیا تھا اور خیمے میں مٹی کے دو دئیے جلا کر رکھ دیے گئے تھے۔ زرتوش نے ایک نوکر کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ گز بھر سفید کپڑا لے آئے اور جلی ہوئی لکڑیوں کے دو تین کوئلے بھی لیتا آئے۔
کپڑا آگیا جو ایک چادر سے پھاڑا گیا تھا، نوکر تین چار کوئلے بھی رکھ کر خیمے سے نکل گیا، زرتوش نے یہ کپڑا لکڑی کی اس چوکی پر رکھا جس پر کچھ دیر پہلے انہوں نے کھانا کھایا تھا ،کپڑے کو ہر طرف سے کھینچ کر زرتوش اس پر کوئلے سے لکیریں ڈالنے لگا، اس دوران اس نے شافعیہ کو کچھ بھی نہ بتایا سوائے اسکے کے جہاں سے اس کی لکیر شروع ہوئی تھی وہ بتایا کہ تم اس وقت یہاں ہو، پھر وہ لکیر ڈالتا ہی چلا گیا یہ سیدھی لکیر نہیں تھی بلکہ ٹیڑھی میڑھی سی تھی اور زر توش اس پر کچھ نشان بھی لگاتا جا رہا تھا۔
بہت دیر بعد کپڑے پر کئی ایک لکیریں اس طرح بن گئی جس طرح نقشے پر دریا دکھائے جاتے ہیں، اس نے یہ کپڑا شافعیہ کو دکھایا اور کہا کہ یہ کپڑا وہ اپنے ساتھ لے جائے گی، اور اس کے بغیر وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے گی، زرتوش نے اسے بتانا شروع کردیا کہ اس راستے پر اس سمت کو جائے گی تو ایک چشمہ ملے گا، اس طرح وہ اسے تفصیلات بتا رہا اور پھر یہ بھی بتایا کہ اس مقام پر آ کر کوہستانی علاقہ شروع ہوگا اور اس میں فلاں فلاں نشانیاں دیکھ کر راستہ دیکھنا ہوگا۔
شافعیہ نے محسوس کیا کہ راستہ زبانی یاد نہیں رکھا جا سکتا تھا، کپڑا ساتھ ہونا لازمی تھا ،اسے امید یہی تھی کہ اس کا میزبان اسے کہے گا کہ یہ کپڑا اپنے پاس رکھنا اور اسے دیکھ دیکھ کر چلنا، لیکن میزبان نے کپڑا تہہ کرکے اپنے چغے کے اندر والی جیب میں رکھ لیا ۔
کیا یہ کپڑا مجھے نہیں دو گے؟،،،، شافعیہ نے پوچھا ۔
تمہارے لیے ہی تو یہ ٹیڑھی سیدھی لکیر ڈالی ہے۔۔۔ زرتوش نے جواب دیا ۔۔۔لیکن ایک شرط ہے جو پوری کر دو گی تو یہ کپڑا تمہارے حوالے کر دوں گا اور اپنے دو آدمی تمہارے ساتھ محافظوں کے طور پر بھیجوں گا، کھانے پینے کا ایسا سامان جو تم نے حسن بن صباح کی جنت میں بھی کبھی نہیں کھایا ہوگا۔
شافعیہ نے صاف طور پر محسوس کیا کہ اس شخص کا لب و لہجہ بدلا ہوا ہے اس کے چہرے پر اور آنکھوں میں بھی کوئی اور ہی تاثر آگیا تھا، اس پر شراب کا نشہ بھی طاری تھا۔
شرط کیا ہے؟،،،،، شافعیہ نے پوچھا۔
آج رات تم میری مہمان ہوگی۔۔۔ زرتوش نے بازو لمبا کر کے شافعیہ کو اپنے بازوؤں میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔کل رات بھی تم میرے ساتھ گزارو گی، اب خود ہی سمجھ لو میری شرط کیا ہے۔
ہاں میں سمجھ گئی ہوں۔۔۔ شافعیہ نے کہا۔۔۔ تم میری عصمت اور آبرو کا سودا کر رہے ہو، اگر میں یہ سودا قبول نہ کروں تو۔
تو ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی۔۔۔زرتوش نے کہا۔۔۔۔ میں تمہیں اپنی لونڈی بنا کر رکھوں گا، اگر مجھے پریشان کرو گی یا بھاگنے کی کوشش کرو گی تو میں تمہیں بڑی ہی بری موت ماروں گا۔
کیا تم بھول گئے ہو میں کون ہوں۔۔۔ شافعیہ نے کہا۔۔۔ میں شیخ الجبل کی بڑی قیمتی ملکیت ہوں، تم جانتے ہو حسن بن صباح اللہ کا اتارا ہوا امام ہے، اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ اسے پتہ چل جائے گا میں کہاں ہوں تم یہ نہیں جانتے کہ وہ تمہیں کس انجام کو پہنچائے گا، آدھا زمین میں گاڑ کر وہ تم پر خونخوار کتے چھوڑ دینے کا حکم دے گا اور تمہارے قبیلے کی تمام لڑکیوں کو یہاں سے اٹھوا کر قلعہ الموت میں اکٹھا کر لے گا۔
جانتا ہوں ۔۔۔زرتوش نے کہا۔۔۔ بڑی اچھی طرح جانتا ہوں، حسن بن صباح اللہ کا نہیں ابلیس کا بھیجا ہوا امام ہے، اور اس کے پاس وہی طاقت ہے جو ابلیس کے پاس ہوتی ہے، اور مجھ جیسے سردار ایسی طاقت سے محروم ہوتے ہیں، تم جس عصمت اور آبرو کا سودا قبول نہیں کر رہی ہو، وہ عصمت اور آبرو تمہارے پاس ہے ہی نہیں، میں نے تم جیسی حسین لڑکیاں تو دیکھیں ہیں لیکن کبھی کسی کو ہاتھ لگا کر نہیں دیکھا، میں تمہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا زندگی میں پہلی بار تم جیسی شگفتہ کلی میرے ہاتھ آئی ہے، میں تمہارے حسن اور جوانی سے پورا پورا لطف اٹھاؤں گا ،کیا تم میری شرافت کی قدر نہیں کرو گی کہ میں نے تمہیں صرف دو راتیں رکھنے کے لیے کہا ہے، اس کے بعد تم آزاد ہو گی اور میرے آدمی تمہارے ساتھ جائیں گے۔
میں نے بڑے ہی بدصورت اور شیطان فطرت آدمی دیکھے ہیں۔۔۔ شافعیہ نے کہا ۔۔۔لیکن کبھی کسی کے ساتھ واسطہ نہیں پڑا تھا، تم پہلے بدصورت آدمی ہو جس کے جال میں پھنسی ہوں، تم دو راتیں کہتے ہو میں دو لمحے بھی یہاں ٹھہرنا گوارا نہیں کروں گی،،،،،، اپنا انجام سوچ لو۔
زرتوش طنزیہ ہنسی ہنس پڑا اور شافعیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ۔
*<=========۔========>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔55۔میں پڑھیں*
*<========۔=========>*
No comments:
Post a Comment