Hasan Bin Saba aur Uski Banayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. Part 53
Hasan Bin Saba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan.
Hasan Bin Saba Ke ander Kaisa Ibleesi Awsaf Maujood tha?
Hasan bin sabah |
❀﷽❀❂
┈┈┈•─ ﷺ ─•┈┈┈
╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔
✨حســـن بـن صـــبـاح اور✨
✨اسکی مصنـــوعی جنـــــت✨
╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚
قسط نمبر/53
یہ پتھریلا اور چٹانیں علاقہ ختم ہونے ہی میں نہیں آرہا تھا ،چٹانوں کے درمیان چلتےچلتے آدھا دن گزر گیا اور آگے جاکر ان دو چٹانی پہاڑیوں میں جن کے درمیان وہ جا رہے تھے راستہ ہی نہ رہا، کیونکہ دونوں پہاڑیاں آگے جاکر مل گئی تھیں، ابوجندل اس راستے سے واقف تھا وہ آگے آگے جا رہا تھا اس نے اپنا گھوڑا دائیں طرف کرلیا اور پہاڑی کے دامن میں چلا گیا، وہاں کوئی راستہ نہیں تھا ،لیکن گھوڑے پہاڑی چڑھ سکتے تھے ابو جندل کا گھوڑا پہاڑی چڑھنے لگا لیکن سیدھا اوپر جانے کی بجائے پہلو کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ،باقی گھوڑے اس کے پیچھے پیچھے قطار میں جا رہے تھے۔
شمشیر ابلک اور اس کے سپاہیوں کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا وہ فوج کے آدمی تھے اور فوجی گھوڑسواری کی مہارت رکھتے تھے، لیکن ایسی گھوڑسواری انہوں نے کم ہی کبھی کی تھی، پہاڑی پتھریلی تھی اور گھوڑوں کے پاؤں پھسلتے تھے، اوپر جاتے جاتے وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں گھوڑا بمشکل پاؤں رکھ سکتا تھا ،یہ اس پہاڑی کا ایک حصہ تھا جو اس کے سامنے تھا یوں لگتا تھا جیسے بہت اونچی دیوار ہے اور گھوڑے اس دیوار پر جا رہے ہوں ،یا اس طرح جیسے بازیگر رسّے یا تار پر چلا کرتے ہیں، کسی گھوڑے کا پاؤں ذرا سا پھسل جاتا تو دائیں یا بائیں سوار سمیت لڑھکتا ہوا دور نیچے جا پہنچتا اور سوار کی ہڈی پسلی ایک ہو جاتی، زیادہ مشکل دونوں لڑکیوں کو پیش آ رہی تھی انہوں نے گھوڑ سواری تو کئی بار کی تھی لیکن وہ اتنی ماہر نہیں تھیں۔
دائیں بائیں مت دیکھو۔۔۔ ابوجندل نے آگے چلتے ہوئے بلند آواز سے کہا۔۔۔ یہ سمجھو کہ گھوڑے میدان میں چلے جارہے ہیں ورنہ ڈر سے کانپتے کانپتے گھوڑے سے گر پڑو گے۔
یوں لگتا تھا جیسے سوار نہیں بلکہ گھوڑے ڈر رہے ہوں ،وہ تو پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے اور ان کے جسموں کی حرکت بتا رہی تھی کہ گرنے سے ڈر رہے ہیں اور شاید آگے جانے سے انکار ہی کر دیں۔
کسی کا گھوڑا رک جائے تو لگام کو جھٹکا نہ دینا ۔۔۔ابو جندل نے ایک اور اعلان کیا۔۔۔ایسا نہ ہو کہ گھوڑا بدک کر پاؤں دائیں یا بائیں رکھ دے۔
آخر اس پہاڑی کی یہ چوٹی ذرا چوڑی ہونے لگی لیکن اب بھی ہموار نہیں تھی، اس لیے گھوڑوں کے پاؤں پھسلتے تھے، آگے جاکر یہ چوٹی زیادہ چوڑی ہوگئی اور اب گھوڑے دوسری پہاڑی پر چڑھ رہے تھے، خطرناک حصہ ختم ہوگیا تھا اور اب جہاں گھوڑے چل رہے تھے یہ خاصی چوڑی جگہ تھی اور یہ پچھلا پہاڑ تھا جس کے اوپر جاکر آگے نیچے اترنا تھا۔
یہ قافلہ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ گیا اور ابو جندل نے گھوڑا روک لیا ،وہاں اوپر اتنی لمبی اور چوڑی جگہ تھی کہ سبھی گھوڑے پہلو بہ پہلو کھڑے ہوگئے ،نیچے دیکھا تو بڑا ہی خوبصورت منظر نظر آیا، ہرابھرا جنگل تھا درختوں کی چوٹیاں نظر آرہی تھیں، اور اودے اودے بادل منڈلا رہے تھے، مغرب کی طرف سورج کچھ نیچے چلا گیا تھا اور اس کی کرنیں درختوں پر پڑتی تھیں تو بارش کے قطرے چمکتے تھے، کسی آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا، اس خوبصورت منظر کے دائیں بائیں ذرا اونچی پہاڑیاں تھیں لیکن بہت ہی دور دور ان پر بھی سبزہ اور درخت تھے۔
سبحان اللہ !،،،،،شمشیر ابلک نے بے ساختہ کہا۔۔۔ یہ تو جنت کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے، اللہ نے اس خطے کو کیسا حسن بخشا ہے۔
اللہ کا دیا ہوا یہ حسن بڑا ہی خطرناک ہے شمشیر بھائی!،،،،،، ابوجندل نے کہا۔۔۔ یہاں سے دیکھنے سے تو یہ جنت کا ٹکڑا ہی لگتا ہے اور یہ کوسوں دور تک پھیلا ہوا ہے، لیکن اس میں وہ شیر پایا جاتا ہے جس پر لمبی لمبی دھاریاں ہوتی ہیں، اس میں بھیڑیئے بھی ہوتے ہیں جو اکیلے دکیلے نہیں بلکہ آٹھ آٹھ دس دس کے گروہ میں حملہ کرتے ہیں ۔
یہاں اپنی برچھیاں اور تلواریں تیار رکھنا،اس خطے کے اندر کوئی آبادی نہیں، آبادیاں بہت دور ہیں یہاں کبھی کوئی شکاری بھی نہیں آیا اس لیے شیروں کی تعداد بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
پہاڑی سے اترنا چڑھنے سے زیادہ خطرناک لگتا تھا ،گھوڑے آخر اتر گئے اور اس خوبصورت خطے میں داخل ہوگئے، ہر طرف پانی ہی پانی تھا سورج غروب ہونے کے لئے اوپر تک پہنچنے ہی والا تھا اور ان لوگوں نے دن بھر کچھ کھایا پیا نہیں تھا ،وہاں کوئی خشک جگہ نظر آتی نہیں تھی لیکن ابوجندل ان علاقوں سے واقف تھا اس لیے وہ ذرا سا بھی پریشان نہیں لگتا تھا، اس نے اپنے قافلے سے کہا کہ اب دن اور رات کا کھانا ایک ہی بار کھائیں گے، اور ایک جگہ مجھے معلوم ہے جہاں ہم رات آرام بھی کریں گے۔
وہ چلتے چلے گئے ،جنگل کچھ گھنا ہوتا جا رہا تھا اور اب جو زمین آ گئی تھی اس میں اونچے نیچے ٹیلے تھے اور گھاٹیاں بھی تھیں، کئی نشیبی جگہوں پر پانی بھرا ہوا تھا، ایک جگہ بائیں طرف ایک دیوار کی طرح اونچا چلا گیا تھا، اور اس کی شکل نیم دائرے جیسی تھی اس کے واسطے میں ایک غار صاف نظر آرہا تھا جس کے آگے مٹی کا ڈھیر بن گیا تھا، اس کے سامنے پانی جمع تھا جو زیادہ لمبائی چوڑائی میں نہیں تھا۔
وہ غار دیکھتے ہو۔۔۔ ابوجندل نے آگے آگے جاتے پیچھے مڑ کر اپنے ساتھیوں سے کہا۔۔۔ وہاں شیر رہتے ہیں ،اور اسے کچھار کہتے ہیں، ہو سکتا ہے اس وقت شیر اندر موجود ہو وہ ایک بھی ہوسکتا ہے اور ایک سے زیادہ بھی۔
کیا شیر ہم اتنے آدمیوں پر حملہ کرے گا؟،،،،، شمشیر ابلک نے پوچھا۔
اگر بھوکا ہوا تو۔۔۔ ابوجندل نے کہا۔۔۔شیر کا پیٹ بھرا ہوا ہو تو اس کے قریب سے گزر جاؤ تو بھی وہ کچھ نہیں کرے گا۔
اس وقت یہ سب اس ترتیب میں جارہے تھے کہ ابو جندل سب سے آگے تھا اس کے پیچھے دونوں لڑکیوں کے گھوڑے تھے پھر شمسیر ابلک کا گھوڑا تھا اور اس کے پیچھے سپاہی تھے، تین گھوڑوں کی زینوں کے ساتھ تین فالتو گھوڑوں کی رسیاں بندی ہوئی تھیں اور وہ پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے، ابوجندل ابھی انہیں بتا ہی رہا تھا کہ شیر بھوکا نہ ہوا تو وہ حملہ نہیں کرتا کہ پیچھے سے زبردست آوازیں سنائی دیں، جن میں ایک یہ تھی کہ ایک گھوڑا بہت ہی بری طرح ہنہنایا اور اس کے ساتھ ہی غراہٹ سنائی دی تھی، سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بڑا ہی خوفناک منظر نظر آیا ایک دھاری دار شیر نے آخری خالی گھوڑے پر حملہ کردیا تھا، اور شیر کی پوزیشن یہ تھی کہ اس نے اوپر سے گھوڑے کی گردن اپنے منہ میں لے رکھی تھی اور اسے جھنجھوڑ رہا تھا، یہ گھوڑا ایک سپاہی کے گھوڑے کے پیچھے بندھا ہوا تھا، سپاہی کا گھوڑا ڈر کر دوڑ پڑا لیکن شیر نے اس کے ساتھ بندھے ہوئے گھوڑے کو بڑی مضبوطی سے دانتوں میں جکڑ رکھا تھا۔
شمشیر ابلک نے نہایت پھرتی سے اپنا گھوڑا پیچھے موڑا اور ایڑ لگادی، سپاہیوں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں شمشیر ابلک نے سپاہی کے ہاتھ سے برچھی چھین لی اور شیر کے قریب سے گزرتے پرچھی پوری طاقت سے ماری جو شیر کی پیٹھ میں اتر گئی، گھوڑے کی گردن سے شیر کے دانت اکھڑ گئے اور شیر پیٹھ کے بل گرا۔
شمشیرابلک نے آگے جاکر گھوڑا روکا اور پیچھے کو موڑا شیر ایک ہی پرچھی کے وار سے نہیں مرا کرتا ،زخمی ہوکر وہ آخری وار کیا کرتا ہے، شیر برچھی کا زخم کھا کر پیٹھ کے بل گرا اور تیزی سے اٹھا ،شمشیرابلک نے برچھی اس کی پیٹھ سے نکال لی تھی، شیر زخمی حالت میں بہت ہی خطرناک ہوتا ہے، شیرنے شمشیر ابلک کو اپنی کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس پر جھپٹنے کے لئے دوڑا ،لیکن ایک سپاہی نے اپنے گھوڑے کو موڑ کر اس کے قریب پہنچ چکا تھا ،اس نے شیر کو برچھی ماری جو اس کی گردن میں اتر گئی، ادھر سے شمشیر ابلک نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور شیر کے قریب سے گزرتے اسے برچھی ماری اس وقت شیر پہلو کے بل ہو گیا تھا، شمشیر ابلک کی برچھی اس کے پہلو میں داخل ہوگئی ،شمشیر ابلک نے برچھی کھینچ لی اور آگے جاکر گھوڑا پھر موڑا لیکن اتنے میں دوسرے سپاہیوں نے برچھیوں سے شیر کو بے بس کردیا اور شیر اٹھ نہ سکا۔
جس گھوڑے پر شیر نے حملہ کیا تھا وہ ٹھیک حالت میں معلوم نہیں ہوتا تھا ،وہ زخمی بھی ہو گیا تھا اور خوفزدہ اتنا کہ بھاگنے کے لیے رسی چھڑوانے کی کوشش کر رہا تھا ،ابو جندل نے آکر اس کی رسی کھول دی، گھوڑا اتنا ڈرا ہوا تھا کہ ایک طرف سرپٹ دوڑ پڑا۔
گھوڑوں کے متعلق تو تم سب کچھ ضرور جانتے ہو گے۔۔۔ ابوجندل نے کہا۔۔۔ لیکن تم شاید دیکھ ہی نہیں سکے کہ یہ گھوڑا اب ہمارے کام کا نہیں رہا ،اس کی گردن کی ہڈی اگر ٹوٹی نہیں تھی تو ہل ضرور گئی تھی، تم نے دیکھا نہیں گھوڑا گردن اوپر نہیں اٹھا رہا تھا اور پھر یہ اتنا ڈر گیا تھا کہ ہم اسے ساتھ رکھتے تو ہمارے لئے مصیبت بنا رہتا ،جانے دو اسے۔
گھوڑا تھا تو خوفزدہ ہی لیکن خوفزدگی کی سب سے زیادہ شکار وہ لڑکیاں ہوئی تھیں جو تھر تھر کانپ رہی تھیں، وہ موت سے ڈرنے والے نہیں تھے اور ابو جندل ایسا مرد تھا جو ان جنگلوں میں سے اکثر گزرا تھا، اور وہ ڈاکو تھا جو زندگی اور موت کا کھیل نہ جانے کب سے کھیل رہا تھا، ابوجندل انہیں کچھ اور آگے لے گیا اور ایسی جگہ جا کر روکا جہاں ایسا ہی ایک ٹیلا تھا اور ٹیلے کے اندر کسی نے کھدائی کرکے چوکور سا کمرہ بنا رکھا تھا، اور یہ مسافروں کے رکنے اور قیام کرنے کے کام آتا تھا، ابو جندل نے انہیں بتایا کہ اس علاقے میں سے کبھی کوئی مسافر نہیں گزرا، قافلوں کے راستے بہت دور تھے، ان علاقوں میں قافلوں کو لوٹنے والے ہی آیا کرتے تھے۔
وہ اس جگہ رک گئے اور کھانا کھانے لگے سورج غروب ہوگیا اور شام کا دھندلکا رات کے اندھیرے میں تبدیل ہوگیا، تب انہوں نے مشعلیں جلا کر اس غار کے سامنے زمین میں گاڑ دی، یہ مشعلیں روشنی کے لیے نہیں بلکہ درندوں کو ڈرانے اور انہیں دور رکھنے کے لئے باہر گاڑی گئی تھیں۔
ایک بات بتاؤ ابوجندل!،،،،، شمشیر ابلک نے پوچھا ۔۔۔تم نے اپنا خزانہ ایسی جگہ کیوں رکھا ہوا ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے موت کے منہ میں داخل ہونا پڑتا ہے۔
خزانے ایسی ہی جگہوں پر رکھے جاتے ہیں۔۔۔ ابوجندل نے جواب دیا۔۔۔ اگر اتنے زیادہ زروجواہرات اور اتنی زیادہ رقم گھروں میں رکھی جائے یا آبادیوں کے قریب کہیں زمین کے اندر چھپا دی جائے تو ڈاکو اس سے واقف ہوجاتے ہیں اور پھر خزانے کے مالک کی زندگی دو چار دن ہی رہ جاتی ہے، اسے قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کا خزانہ قاتل لے اڑتے ہیں۔
پرانے زمانے کی کہانیوں میں بادشاہوں اور ڈاکوؤں کے متعلق یہ ضرور پڑھا یا سنا جاتا ہے کہ فلاں بادشاہ یا فلاں ڈاکو نے فلاں جگہ اپنا خزانہ دبا کر رکھ دیا تھا، ان کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ خزانے ایسی جگہوں پر لے جاکر چھپائے جاتے تھے جہاں تک پہنچنا بعض اوقات ناممکن ہوجاتا تھا ،بحری قزاق تو اپنے خزانے اور ہی زیادہ دشوار گزار علاقوں میں لے جا کر کہیں چھپایا کرتے تھے، کیونکہ ان کی زندگی سمندر میں گزرتی تھی لوٹ مار کر کے کبھی کبھی خشکی پر آیا کرتے تھے۔
خزانوں کے مالک اکثر اس جگہ تک راستے کا نقشہ بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے جس جگہ وہ خزانہ دباتے تھے، بعض اوقات مالک مر جاتا اور نقشہ کسی اور کے ہاتھ چڑھ جاتا تو وہ اس خزانے تک پہنچنے کی کوشش کرتا تھا، ایسے مدفون خزانوں کے متعلق پراسرار کہانیاں بھی سنائی جاتی ہیں جو غلط معلوم نہیں ہوتیں، عام طور پر کہانیوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مالک خود یا اس کے بعد کوئی اور خزانہ نکالنے گئے تو وہاں ان پر ایسی مصیبت نازل ہوئی کہ وہ مارے گئے یا آپس میں لڑ پڑے اور انہوں نے ایک دوسرے کو ختم کردیا۔
ان کہانیوں کو فرضی اور افسانوی سمجھا جاتا رہا ہے اور ان میں اکثر افسانوی ہی ہوا کرتی ہیں ،لیکن ابوجندل اور شمشیر ابلک کی کہانی کو تاریخ میں جو مقام ملا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کم ازکم یہ ایک سچی کہانی ہے، اسے حسن بن صباح کے دور کی ایک اہم ورادات بناکر غالباً اس لئے تاریخ میں شامل کیا ہے کہ لوگ سمجھ سکیں کہ مال و دولت اور عورت کی چکا چوند اچھے بھلے مرد مومن کو کن رفعتوں سے گرا کر پستیوں میں غائب کر دیتی ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
رات وہاں گزار کر صبح وہ چل پڑے اور آدھا دن گزر جانے کے بعد ایک سیلابی ندی نے ان کا راستہ روک لیا ،ابو جندل نے انہیں بتایا کہ وہ ایسے وقت یہاں پہنچے ہیں جب ندی میں سیلاب آیا ہوا ہے، ورنہ یہ ندی تو بڑی خوبصورت اور پیاری ہے، اس کا پانی شفاف اور کم گہرا ہوتا ہے جس میں گھوڑے تو کیا آدمی بھی آسانی سے گزر جاتے ہیں، یہ کہہ کر ابو جندل نے اپنا گھوڑا ندی میں ڈال دیا یہ فوج کا گھوڑا تھا جو سیلاب سے لڑتا جھگڑتا پار چلا گیا، اس کے پیچھے باقی گھوڑوں نے بھی ندی پار کر لی ،ندی اتنی گہری ہو گئی تھی کہ چند قدم گھوڑوں کو اس میں تیرنا پڑا تھا، پار جاکر شمشیر ابلک نے اپنا گھوڑا ابوجندل کے ساتھ کرلیا۔
شمشیر بھائی !،،،،،،ابو جندل نے کہا۔۔۔مجھے ان جنگلوں میں گھومتے پھرتے اور ان میں سے راستہ بنانے کا اور پھر قافلے لوٹ کر انہی جنگلوں میں غائب ہو جانے کا اتنا زیادہ تجربہ ہے کہ میں ہوا میں خطرے کی بو سونگھ لیا کرتا ہوں، میں انہی جنگلوں میں سے نہ جانے کتنی بار گزرا ہوں، ان خطروں سے میں ہمیشہ آگاہ رہا ہوں لیکن یوں نہیں ہوا جیسے اب ہو رہا ہے، نہ کبھی کسی بدروح نے میرا راستہ روکا تھا نہ کبھی شیر نے حملہ کیا تھا، میں یہاں ناگ بھی دیکھتا رہا ہوں اور شیر بھی اور بھیڑیے بھی لیکن میں یہاں سے ہر بار زندہ گزر گیا ہوں، یہ پہلا موقع ہے کہ سفر کی ابتدا ہی ایک بہت برے شگون سے ہوئی ہے، پھر ایک شیر نے ہم پر حملہ کیا اور پھر معصوم سی ندی نے ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کی ۔
تو پھر کیا کرنا چاہیے کیا ہمیں واپس چلے جانا چاہیے، یا ان خطروں میں بڑھتے ہی چلے جائیں۔
میں نے تمہیں پہلے بتایا ہے کہ میں پیشہ ور قزاق ہوں ۔۔۔ابوجندل نے کہا۔۔۔ پیشہ ور قزاقوں کے اپنے عقیدے اور اپنے وہم ہوتے ہیں، ہم پر جب خطرے منڈلاتے ہیں اور ہمیں معلوم ہوجاتاہے کہ یہ خطرہ ہمیں دبوچ کر ہمیں ختم کردیں گے تو ہم ایک کنواری لڑکی کی جان کی قربانی دیا کرتے ہیں، لیکن یہاں میں ایسی قربانی نہیں دے سکتا ،اگر یہ دو لڑکیاں میرے مرے بھائی کی بیٹیاں نہ ہوتیں تو میں ان میں سے ایک کی قربانی دے دیتا، میں اسے بہتر یہ سمجھتا ہوں کہ منزل تک پہنچ جاؤں اور ضرورت پڑے تو اپنی جان کی قربانی دے دوں،،،،،، میں اس لیے خبردار کر رہا ہوں کے ہر وقت چوکس اور چوکنے رہنا، معلوم نہیں کس وقت کیا ہو جائے، اس جنگل کے حسن کو ہی نہ دیکھتے رہنا، تم نے جس طرح شیر مار لیا تھا اس طرح ہر خطرے پر قابو پا لو گے، رات کو بھی اس طرح بیدار رہنا جیسے تمہاری ایک آنکھ کھلی ہوئی ہو، رات کو مجھ پر بھروسہ نہ کرنا تمہیں شاید معلوم نہیں کہ میں رات کو حشیش پی کر سوتا ہوں اور مجھے اس دنیا کی کوئی ہوش نہیں رہتی۔
اس رات اس قافلے نے ایسی جگہ پڑاؤ کیا کہ ان پر چند ایک درختوں کا سایہ اور اوپر آسمان تھا ،وہ الگ الگ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سوئے، آدھی رات سے کچھ پہلے شمشیر ابلک کو ایک لڑکی نے جگایا ،وہ ہڑبڑا کر اٹھا جیسے کوئی خطرہ آگیا ہو، لڑکی نے کہا کہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں اور وہ اس کے ساتھ تھوڑی دور تک چلے، وہ اٹھا اور اس کے ساتھ چل پڑا، چند قدم دور اس لڑکی کی دوسری بہن ایک درخت کے تنے کی کوکھ میں بیٹھی ہوئی تھی، یہ دونوں بھی اس کے قریب بیٹھ گئے، اس کا ایک ہاتھ ایک لڑکی نے اور دوسرا دوسری لڑکی نے پکڑ لیا دونوں لڑکیوں نے اس کے ہاتھ چومے۔
ہمارے چچا سے نہ ڈرو۔۔۔ ایک لڑکی نے کہا۔۔۔ وہ حشیش پی کر سوتا ہے اور صبح ہوش میں آتا ہے، ہم دونوں صرف یہ بتانا چاہتی ہیں کہ ہم باقی عمر تمہارے ساتھ گزاریں گی، ہمیں لونڈیاں بنا کر رکھ لو چاہے شادی کر لو، اور اگرتم ہمیں داشتہ بنا کر رکھو گے تو بھی ہمیں منظور ہے، ہم اپنے چچا کو اپنی ذمہ داری سے آزاد کرنا چاہتی ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ تم نے ہمارے دل جیت لیے ہیں۔
تمہیں شاید معلوم نہیں کہ میں تم دونوں کی خاطر تمہارے چچا کے ساتھ آیا ہوں۔۔۔ شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔ ورنہ اس شخص پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے تھا۔
لیکن ہمیں ایک ڈر ہے ۔۔۔دوسری لڑکی نے کہا۔۔۔ تمہیں جب خزانہ مل جائے گا تو تم ہمیں بھول جاؤ گے ۔
ایسا نہیں ہوگا ۔۔۔شمشیرا بلک نے کہا۔۔۔میں ڈرتا ہوں کہیں تم مجھے دھوکا نہ دے جاؤ۔
دونوں لڑکیوں نے بڑے ہی والہانہ انداز سے محبت کا اظہار کیا، ان کا رویہ ایسا تھا جیسے دونوں نے اپنا آپ اس کے حوالے کردیا ہو، شمشیر ابلک کی ایک ہی بیوی تھی جس سے اس کے تین بچے تھے اور اس کی عمر چالیس برس ہو چکی تھی، اس پر تو دونوں لڑکیوں نے خود فراموشی کی کیفیت طاری کردی، ابوجندل تو حشیش کے نشے میں گہری نیند سویا ہوا تھا ،شمشیر ابلک پر ان لڑکیوں کے حسن کا اور ان کی جوانی کا نشہ طاری ہوگیا۔
اس نے چاہا کہ باقی رات یہ لڑکیاں اسی طرح اس کے پاس بیٹھی رہیں اور وہ ان کے نشے میں بدمست ہوتا چلا جائے، اس کے ذہن میں اگر ابوجندل کے خلاف کچھ تھوڑا سا شک رہ گیا تھا تو وہ ان دونوں لڑکیوں نے صاف کر دیا۔
لڑکیاں چلی گئی اور شمشیر ابلک کچھ دیر وہیں بیٹھا ان لڑکیوں کے طلسماتی خیال میں کھویا رہا ،اس سے پہلے سفر کے دوران یہ لڑکیاں اسے دیکھ دیکھ کر اس طرح مسکراتی رہیں تھیں جیسے وہ اسے بہت پسند کرتی ہوں، اور اس کے ساتھ الگ تنہائی میں بیٹھنا چاہتی ہوں، ان کا یہی انداز شمشیر ابلک کو دیوانہ بنائے ہوئے تھا، مگر اب لڑکیاں رات کی تاریک تنہائی میں اس کے پاس آبیٹھیں اور اس کے اتنا قریب ہو گیں کہ وہ ان کے جسموں کی بو سونگھ سکتا تھا ،تو وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا۔
کہیں قریب سے ہی اسے بھیڑیوں کی لمبی ہو کی آوازیں سنائ دیں، یہ آواز اچانک اٹھی تھی اور تمام بھیڑیے ایک ہی بار بولنے لگے تھے، شمشیر ابلک بیداری کے خواب سے یکلخت ہڑبڑا کر بالکل ہی بیدار ہوگیا اور اٹھ کھڑا ہوا تیز تیز قدم اٹھاتا اس جگہ جا پہنچا جہاں وہ سویا ہوا تھا، وہاں لیٹا اور اس نے باقی رات جاگتے گزار دی۔
*=÷=÷=÷÷۔=÷=÷=÷=÷*
صبح ابھی دھندلکی تھی جب یہ قافلہ جاگا اور بڑی تیزی سے سامان سمیٹ کر اور گھوڑوں پر زین ڈال کر چل پڑا، جوں جوں صبح کا اجالا نکلتا آرہا تھا زمین کے خدوخال بدلتے جارہے تھے، درخت بہت کم ہوگئے تھے اور گھاس بھی کم ہوتی جا رہی تھی، اور تھوڑی ہی دور آگے زمین ایسی آ گئی جیسے نہ جانے کتنی مدت سے پانی کی بوند کو ترس رہی ہو، درخت تو کہیں کہیں نظر آتے تھے اور یہ درخت بلکل خشک تھے جن کی ٹہن تو تھے لیکن ٹہنیاں نہیں تھی ،جھاڑیاں بالکل خشک اور خاردار تھیں، زمین کٹی پھٹی تھی کہیں زمین ابھری ہوئی تھی اور کہیں نشیب میں چلی جاتی تھی اور کہیں ٹیلے یوں کھڑے تھے جیسے زمین پر گڑے ہوئے مخنی اور بھدے اور بدصورت سے ستون ہوں، زمین پر کسی گھوڑے یا اونٹ یا کسی انسان کا تازہ پرانا نقش پا نہ تھا ،جس سے پتہ چلتا تھا کہ ادھر سے کبھی کوئی نہیں گزرا اور یہ پہلے انسان ہیں جو اس طرف آ نکلے ہیں۔
یہ ہے صحرا کا اصل خطرہ ۔۔۔ابو جندل نے اپنے ساتھیوں کو بتایا ،،،،،نا واقف مسافر ان ڈھیروں میں داخل ہوجاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ ان میں سے نکل جائے گا لیکن انکے اندر ایسی بھول بھلیاں ہیں کہ بعض مسافر ان ڈھیروں میں سے دو تین کے اردگرد ہی گھومتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بہت فاصلہ طے کرلیا ہے لیکن وہ وہیں کے وہیں ہوتے ہیں ،حتیٰ کہ پیاس اور پھر بھوک انہیں وہیں گرا لیتی ہے اور ریت ان کے جسموں سے زندگی کا رس چوس لیتی،،،،،، میں ان سے واقف ہوں اس لئے میں جب بھی ادھر آیا ہوں دور کا چکر لگا کر گیا ہوں۔
ابوجندل انہیں ایک طرف لے گیا اس طرف زمین اوپر ہی اوپر اٹھتی جا رہی تھی نظر تو یوں آتا تھا جیسے یہ زمین پکی ہے اور پاؤں کے نیچے مٹی ہے، لیکن جب پاؤں رکھتے تھے تو ریت میں دھنس جاتا تھا، بلندی پر جاکر ریت کی ان ڈھیریوں کو دیکھا تو وہ میل واسعت میں پھیلی ہوئی تھیں، ابوجندل اپنے قافلے کو دور دور سے نکال کر آگے لے گیا۔
سورج سر پر آ گیا تو آگے یوں نظر آتا تھا جیسے زمین جل رہی ہو اور اس سے شعلے اٹھ رہے ہوں، ان میں سے آگے کچھ نظر نہیں آتا تھا کیونکہ یہ شفاف سے شعلے جھلمل کرتے تھے ،قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا تھا یہ جھلملاتے ہوئے شعلے بھی آگے بڑھتے جارہے تھے۔
پیاس ایک قدرتی امر ہے ابو جندل نے پچھلے پڑاؤ سے روانگی سے پہلے ہی پانی کا ذخیرہ چھوٹے چھوٹے مشکیزوں میں بھر لیا تھا، ہر گھوڑے کے ساتھ ایک مشکیزہ بندھا ہوا تھا سب نے پانی پیا اور چلتے چلے گئے۔
ابو جندل نے انہیں بتایا کہ یہ ریگستانی خطہ شام سے پہلے ختم ہو جائے گا اور کچھ ہی دور آگے ایک نخلستان آئے گا یہاں رک کر کھانا کھائیں گے اور تھوڑا سا آرام کر کے آگے چلے جائیں گے۔
سورج جب مغرب کی طرف چلا گیا تو دور سے کھجور کے درخت نظر آنے لگے، گھوڑے پیاس سے بے چین ہوئے جارہے تھے اور تھک بھی گئے تھے کیونکہ ان کے قدم ریت میں دھنس رہے تھے،،،،،، آخر نخلستان آہی گیا وہاں پانی کا چھوٹا سا تالاب تھا اور کھجور کے درختوں کی اتنی افراط کے سایہ ہی سایہ تھا ،حالاں کہ کھجور کے درخت کا سایہ بیکار ہوتا ہے، گھوڑے سواروں کے اترتے ہی پانی کی طرف دوڑ پڑے اور پانی پینے لگے۔
قافلے نے کھانا کھایا پانی پیا اور تھوڑا سا آرام کر لیا، گھوڑے پانی پی چکے تو یہ لوگ اٹھے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر چل پڑے، گھوڑے تو تھکے ہوئے لگتے ہی تھے لیکن ان کے سواروں کے چہروں سے پتہ چلتا تھا کہ خزانے کا لالچ نہ ہوتا تو وہ وہیں تھکن سے گر پڑتے اور گہری نیند سو جاتے ،ان کے جسم تو جیسے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے، زیادہ بری حالت لڑکیوں کی تھی، ابوجندل انہیں اچھی اچھی اور پر امید باتیں سناتا جا رہا تھا تاکہ یہ لوگ ذہنی طور پر بیدار اور مستعد رہیں۔
آگے پھر ویسا ہی صحرا تھا لیکن کچھ آگے جاکر ریت مٹی میں تبدیل ہونے لگی تھی اور دو اڑھائی میل دور ہرے بھرے درخت نظر آنے لگے تھے، ابوجندل آگے آگے جا رہا تھا اس نے اچانک لگام کھینچ کر گھوڑا روک لیا ،اور ایک ہاتھ بلند کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ سب رک جائیں، وہ گھوڑے سے کود کر اترا اور چند قدم آگے جا کر زمین پر جھک گیا ،شمشیر ابلک بھی گھوڑے سے اترا اور اس تک پہنچا۔
دیکھو شمشیر !،،،،،ابوجندل نے زمین کی طرف اشارہ کرکے کہا ۔۔۔کیا تم کہہ رہے ہو کہ یہ گھوڑوں کے نشان نہیں ؟
ہاں ابوجندل!،،،،،، شمشیرابلک نے کہا ۔۔۔یہ بلاشبہ گھوڑوں کے نشان ہیں ،اور یہ نشان پرانے نہیں ،ایک دو روز پہلے کے لگتے ہیں۔
ابوجندل اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اس طرف کچھ دور تک چلا گیا جدھر سے یہ گھوڑے آرہے تھے، کھروں کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے کہ گھوڑے کدھر سے آئے ہیں اور کدھر گئے ہیں، ابوجندل رک گیا شمشیرابلک بھی گھوڑے پر سوار ہو کر اس کے پیچھے چلا گیا تھا۔
ادھر سے عام لوگ نہیں گزرا کرتے۔۔۔ ابوجندل نے کہا۔۔۔ ادھر کسی فوج کے گھوڑسوار نہیں آ سکتے، یہ خطہ سلطانوں اور بادشاہوں اور اماموں کی دنیا سے بہت دور ہے میں کہا کرتا ہوں کہ اس خطے پر خدا کا قہر برستا رہتا ہے، ادھر سے کوئی مجھ جیسا قزاق اور ڈاکو ہی گزر سکتا ہے، ہمیں اب زیادہ ہوشیار ہو کر آگے جانا پڑے گا۔
وہ قافلے کے باقی افراد کو لے کر آگے چل پڑے اور سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا کہ وہ پھر ہرے بھرے خطے میں داخل ہوگئے۔ ابوجندل اور شمشیرابلک راستے میں زمین کو دیکھتے آئے تھے کہ قدموں کے اور نشان بھی ملیں گے، نشان ملے تھے لیکن وہ دوسری طرف چلے گئے تھے۔
انھوں نے اس سرسبز جگہ پر رات کو پڑاؤ کیا زمین خشک تھی اور گھاس بڑی ملائم اور نرم تھی، ابو جندل نے سپاہیوں سے کہا کہ وہ چاروں رات کو اس طرح پہرا دیں کہ ایک آدمی پہرے پر کھڑے رہے اور دوسرے باری باری پہرا دیں، اس نے یہ بھی کہا کہ جو بھی پہرے پر کھڑے ہو اس کے پاس کمان اور ترکش ضرور ہونے چاہیے، ابوجندل خطرہ محسوس کر رہا تھا جس کی نشاندہی گھوڑوں کے ان قدموں کے نشانوں نے کی تھی جو اس نے دیکھے تھے۔
کھانے کے بعد وہ کچھ دیر باتیں کرتے رہے اور جب سونے لگے تو ایک سپاہی پہرے پر کھڑا ہوگیا ،اس نے ایک جگہ کھڑا ہی نہیں رہنا تھا، انہوں نے ایسی جگہ کا انتخاب کیا تھا جہاں آمنے سامنے دو ہری بھری ٹھیکریاں تھیں اور ایک ٹیکری آگے تھی۔
پہلے والے سپاہی کو بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے پہرے کے دوران ان ٹیکریوں کے پیچھے بھی جائے اور اوپر جا کر بھی دیکھے اور پوری طرح بیدار رہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
چاروں سپاہیوں نے باری باری رات بھر گھوم پھر کر پہرہ دیا اور صبح کا اجالا آہستہ آہستہ نکلنے لگا ،آخری سپاہی جو پہرے پر تھا وہ اب ایک ٹیکری کے پیچھے تھا اسے غالبا معلوم تھا کہ اس کے ساتھی دیر سے جاگیں گے اس لیے اس نے پہرے پر ہی رہنا بہتر سمجھا۔
اسے ٹیکری کے اس طرف جدھر اس کے ساتھی سوئے ہوئے تھے کچھ آوازیں اور آہٹیں سی سنائی دیں وہ سمجھا کہ اس کے ساتھی جاگ اٹھے ہیں ،وہ آہستہ آہستہ چلتا ٹیکری کے سرے پر آیا جہاں ٹیکری ختم ہوتی تھی وہاں دو چوڑے تنوں والے درخت تھے، اس نے جب اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی اور ہی منظر نظر آیا آٹھ آدمی تھے جنہوں نے منہ اور سر سیاہ پگڑیوں میں لپیٹ رکھے تھے ،انہوں نے لمبے چغے پہن رکھے تھے جو ان کے گھٹنوں تک گئے ہوئے تھے، آٹھ گھوڑے کچھ دور کھڑے گھاس کھا رہے تھے ۔
دو آدمیوں نے دونوں لڑکیوں کو پکڑ رکھا تھا اور باقی آدمیوں نے تلواریں ہاتھوں میں لے رکھی تھی، اور ہر ایک نے تلوار کی نوک ایک ایک آدمی کی شہ رگ پر رکھی ہوئی تھی۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ کوئی ڈاکو تھے جنہوں نے اس قافلے کو نیند میں دبوچ لیا تھا اور انہیں ہتھیار اٹھانے کی مہلت نہیں دی تھی، وہ لڑکیوں کو لے جانا چاہتے تھے جس میں کوئی شک ہی نہیں تھا، وہ ابوجندل اور شمشیرابلک سے کچھ پوچھ رہے تھے، لڑکیاں ان دونوں آدمیوں کی گرفت میں تڑپ رہی تھیں۔
پہرے والے سپاہی نے اپنے کمان میں ایک تیر ڈالا ،فاصلہ بیس بائس گز ہوگا، اس نے تیر کھینچ کر جو چھوڑا تو وہ ایک آدمی کی گردن میں اتر گیا، اس آدمی نے ایک لڑکی کو پکڑ رکھا تھا اس نے فوراً لڑکی کو چھوڑا اور اپنی گردن پر دونوں ہاتھ رکھے۔
سپاہی نے بڑی تیزی سے کمان میں دوسرا تیر ڈالا اور جس آدمی نے دوسری لڑکی کو پکڑا ہوا تھا اس کو نشانے میں لے کر تیر چھوڑ دیا، اس کا نشانہ بے خطا تھا ،تیر اپنے شکار کے گال کے ایک طرف لگا اور دوسری طرف باہر ہوگیا ،اس نے بھی لڑکی کو چھوڑا اور اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لئے۔
سپاہی نے اسی تیزی سے تیسرا اور چوتھا تیر چلایا اور اسکا ایک تیر بھی خالی نہ گیا ،یہ ڈاکو حیران ہوگئے انہیں یہ تو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ تیر کس طرف سے آرہے ہیں، ان کی ہڑبونگ سے قافلے والوں کو ہتھیار اٹھانے کا موقع مل گیا ادھر سے جو تیر اندازی کر رہا تھا اس نے پانچ آدمیوں کو مار لیا۔
تین ڈاکو بچ گئے تھے ،انہوں نے جب دیکھا کہ ابوجندل شمشیر ابلک اور باقی تین سپاہیوں نے تلوار اور برچھیاں اٹھا لی ہیں تو وہ تینوں بہت تیزی سے دوڑ پڑے، ان کا تعاقب کیا گیا لیکن وہ کود کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور ایڑ لگا دی ،گھوڑے ہوا سے باتیں کرنے لگے اس طرح ڈاکو اپنے پانچ ساتھیوں کی لاشیں اور پانچ گھوڑے چھوڑ کر بھاگ گئے۔
میرے دوستو !،،،،،،ابوجندل نے کہا۔۔۔ ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور بھی ہماری منزل کے قریب آ گیا ہے، میں بتا نہیں سکتا کہ اب کیا ہوگا لیکن ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں ،البتہ پوری طرح ہوشیار اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے ،ہر وقت ہتھیار پاس ہونا چاہیے اور ایک ہاتھ اپنے ہتھیار پر رکھو گے تو خطرے کی صورت میں بچ سکو گے،،،، اور تم دونوں لڑکیاں سن لو،،،،،، تم کسی سلطان شہزادے کے حرم کی لڑکیاں نہیں ہو جن کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے آقا کو خوش رکھیں، تم میری بھتیجیاں ہو اپنے باپ کو یاد کرو وہ بڑا جری اور جابر مرد تھا ،تم اچھی طرح جانتی ہو اگر کوئی خطرہ آ پڑا تو مردوں کی طرح لڑنا ہے عورتوں کی طرح ڈرنا نہیں۔
یہ تو ہم نیند میں پکڑی گئی تھیں۔۔۔۔ ایک لڑکی نے کہا۔۔۔ میں نیند سے ہڑبڑا کر اٹھی تو ایک آدمی نے میرے بازوں پیٹھ پیچھے جکڑ دیے تھے ،اگر ہم دونوں بیدار ہوتیں اور ہم پر ڈاکو حملہ کرتے تو پھر تم دیکھتے کہ ہم کیا کر سکتی ہیں۔
ابو جندل نے انہیں کہا کہ فوراً کوچ کرو تاکہ ہم شام سے پہلے پہلے منزل پر پہنچ جائیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
سورج غروب ہونے میں ابھی دو اڑھائی گھنٹے باقی تھے، جب وہ اس خطے میں پہنچ گئے جو ان کی منزل تھی۔
وہ بھی بے آب و گیاہ خطّہ تھا، وہ ویسا ہی تھا جیسا یہ لوگ پہلے ایک جگہ دیکھ آئے تھے۔ سیلوں والی گہری سلیٹی رنگ کی چٹانیں تھیں، اور کچھ اونچی پہاڑیاں بھی تھیں اور پتھریلی ٹیکریاں بھی تھیں، لیکن وہاں گھاس کی ایک پتی بھی نظر نہیں آتی تھی، یوں لگتا تھا جیسے ان چٹانوں اور پہاڑیوں سے آگ کی طرح سورج کی تپش خارج ہو رہی ہو ،ہوا بہت ہی تیز چل رہی تھی جو تیز ہی ہوتی چلی جارہی تھی ،یہ جب سیلوں والی چٹانوں سے ٹکرا کر گزرتی تھی تو ہلکی ہلکی چیخیں سنائی دیتی تھیں جو انسانی چیخوں جیسی تھیں، کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے عورتیں اور بچّے ان پہاڑیوں کے اندر کہیں کسی مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں اور چیخ چلا رہے ہیں۔
یہ خطّہ بھی بدروحوں کامسکن لگتا تھا ،یہ سارا ماحول دل پر گھبراہٹ اور خوف کا تاثر پیدا کرتا تھا ،لیکن ابو جندل کا چہرہ پرسکون تھا اور اس کا انداز ایسا جیسے وہ یہاں ذرا سی بھی اجنبیت محسوس نہ کر رہا ہو۔
اب ذرا ہوشیار رہنا شمشیر ابلک!،،،،،، ابوجندل نے کہا۔۔۔۔ ہمیں ادھر ادھر گھوم پھر کر اور اچھی طرح دیکھ بھال کرکے اندر جانا چاہیے تھا لیکن اتنا وقت نہیں رات آگئی تو مشعلوں کے باوجود ہمارا کام مشکل ہوجائے گا ،میں تم سب کو سیدھا اندر لے جا رہا ہوں اب جو ہوتا ہے ہوتا رہے مقابلہ کریں گے۔
بات ذرا صاف کرو ابوجندل !،،،،،،،،شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔وہ خطرہ ہے کیسا جو تم محسوس کر رہے ہو ،مجھے الفاظ میں بتا دو تاکہ میں اس کے مطابق خود بھی تیار رہوں اور اپنے ان سپاہی ساتھیوں کو بھی تیار رکھوں۔
آسمان سے کوئی آفت نہیں گرے گی۔۔۔ ابوجندل نے کہا۔۔۔ یہ خطرہ انسانوں کا ہی ہوگا وہ جو تین آدمی زندہ نکل گئے تھے وہ کہیں دور نہیں چلے گئے، یہی کہیں ہونگے اور وہ یہاں آ سکتے ہیں۔
آنے دو۔۔۔ شمشیر ابلک نے کہا۔۔۔ آنے دو انہیں اب ہم سوئے ہوئے نہیں ہونگے،،،، چلو آگے۔
ابوجندل آگے آگے تھا وہ چٹانوں کی بھول بھلیوں میں داخل ہوگیا ،باقی سب پیچھے ایک قطار میں جارہے تھے اب ان کے پاس فالتو گھوڑے سات تھے ،وہ ڈاکووں کے گھوڑے بھی اپنے ساتھ لے آئے تھے۔
ابوجندل کبھی دائیں مڑتا کبھی بائیں مڑتا اور یہ لوگ بھول ہی گئے کہ وہ کدھر سے آئے ہیں اور کتنے موڑ مڑچکے ہیں، صرف ابوجندل راستے سے واقف تھا اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ واپس کس طرح آنا ہے، وہاں اندر چھوٹی بڑی بے شمار چٹانیں تھیں، ان کے ساتھ اونچی پہاڑی تھی ،ہوا کی چیخیں اور بلند ہو گئی تھیں۔
آخر جگہ ایسی آگئی کہ دائیں طرف اونچی پہاڑی تھی اور اس کے دامن میں ذرا ہٹ کر لمبی چٹان تھی ،اور ان کے درمیان گھوڑے گزرنے کے لیے کچھ جگہ تھی، پچاس ساٹھ گز آگے یہ چٹان پہاڑی کے دامن سے مل جاتی تھی اور وہاں ایک بڑی بلند چٹان نے راستہ روک لیا تھا ،ابو جندل آگے ہی آگے بڑھتا گیا اور وہاں تک پہنچ گیا جہاں راستہ بند ہو جاتا تھا۔
وہ گھوڑے سے اترا اور سب کو اترنے کے لیے کہا ،اور یہ بھی کہ گھوڑے یہیں چھوڑ دیں، آگے دیکھا کہ یہ راستہ اس طرح نیچے کو چلا گیا تھا جس طرح کسی کی عمارت کے تہہ خانے میں سیڑھیاں اترتی ہیں، ابو جندل نے سپاہیوں سے کہا کہ وہ مشعلیں جلا کر نیچے آ جائیں، وہ شمشیر ابلک اور لڑکیاں نیچے اتر گئی، اور سپاہیوں نے مشعلیں جلائی اور ان کے پیچھے پیچھے نیچے چلے گئے۔
وہ آٹھ دس گز نیچے چلے گئے، یہ تہہ خانے کی طرح بنا ہوا ایک غار تھا جس کی چھت بیس پچیس گز اونچی تھی اور یہ غار بہت ہی کشادہ تھا۔
غار کی چھت سے چٹانوں کے لمبوترے اور عجیب و غریب ٹکڑے لٹک رہے تھے، جونہی مشعلیں اندر داخل ہوئیں بڑی ہی زور سے ایسی آواز آئی جیسے طوفان آگیا ہو، اور اس کے ساتھ چڑچڑ کی آوازیں آئیں جو ایک شوروغل کی طرح بلند ہوتی چلی گئیں، یہ چمگادڑ تھے جو غار کے اندر سے اڑ کر باہر نکل گئے تھے، یہ چند ایک نہیں بلکہ سینکڑوں تھے، ابو جندل نے بلند آواز سے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ چمگادڑ ہیں ان سے ڈریں نہیں۔
اس غار کے فرش پر بھی چٹانیں تھیں جس کی اونچائی دو گز یا تین گز تھی، مشعلوں کی روشنی میں ایک طرف ایک اور غار کا دھانہ سا نظر آیا، ابوجندل اس میں داخل ہوگیا یہ دہانہ تو اتنا کشادہ نہیں تھا لیکن اندر جاکر دیکھا غار خاصہ کشادہ ہوتا چلا جارہا تھا، مشعلوں کی روشنی خاصی زیادہ تھی اور اندر کنکریاں بھی نظر آرہی تھیں۔
پچیس تیس قدم گئے ہونگے کہ آگے ایک اور دہانہ نظر آیا، ابوجندل اس میں داخل ہوگیا اور اب یہ لوگ ایک اور غار میں چلے گئے تھے، ابو جندل نے کہا کہ مشعلیں آگے لے آؤ ،مشعلیں آگے گئے تو سب نے دیکھا کہ وہاں تین بکس رکھے ہوئے تھے جو لکڑی کے بنے ہوئے تھے، اور ان پر لوہے کی مضبوط پتریاں چڑھی ہوئی تھیں۔
یہ لو شمشیر بھائی!،،،،، ابو جندل نے کہا۔۔۔ یہ ہے میرے باپ کی اور میری کمائی خزانہ، اب صرف میرا نہیں ہم سب کا ہے، اس نے سپاہیوں سے کہا مشعلیں لڑکیوں کو دے دیں اور یہ بکس اٹھائیں۔
سپاہی آگے بڑھ کر ایک بکس کو اٹھانے لگے تو شمشیر ابلک نے کان کھڑے کر لیے اور ابوجندل سے کہا کہ اسے باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی ہے، ابو جندل نے اسے کہا کہ اس کے کان بج رہے ہیں یہاں اور کوئی نہیں آ سکتا۔
ابوجندل ابھی یہ بات کہے ہی رہا تھا کہ غار میں آواز آئی ۔۔۔۔۔ان صندوقوں سے پیچھے ہٹ جاؤ۔
سب نے چونک کر ادھر دیکھا ایک آدمی جس نے منہ اور چہرہ کالے رنگ کی پگڑی میں لپیٹ رکھا تھا ہاتھ میں تلوار لئے کھڑا تھا ،سب نے تلواریں نکال لیں، دیکھتے ہی دیکھتے غار میں دس بارہ آدمی آگئے ان سب کے سر اور چہرے کالی پگڑیوں میں لپٹے ہوئے تھے ،سب کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔
سب پیچھے کھڑے رہو دوستوں!،،،،،، ابوجندل نے آگے بڑھ کر ان ڈاکووں سے کہا ۔۔۔۔تم زندہ ان صندوقوں تک نہیں پہنچ سکو گے اور جب تک ہم زندہ ہیں ان صندوقوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکو گے۔
ابوجندل !،،،،،کالی پگڑی والے ایک آدمی نے کہا۔۔۔ تم بھی ہم میں سے ہو اور ہم تمہیں جانتے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ تم ہمارے ہاتھوں مرو ،یہ صندوق اور دو لڑکیاں یہیں چھوڑ جاؤ اور خود کو اور اپنے ساتھیوں کوزندہ لے جاؤ۔
او یہ تم ہو۔۔۔ ابو جندل نے اس آدمی کو پہچانتے ہوئے کہا۔۔۔ میرا خیال تھا کہ تم سب مارے گئے ہو، یا کسی اور طرف نکل گئے ہو، نہ تم ہمارے ہاتھوں مرو نہ ہم تمہارے ہاتھوں مرنا چاہتے ہیں، ان صندوقوں میں جو کچھ ہے آؤ برابر برابر بانٹ لیتے ہیں۔
یہ مال اس کا ہے جس کے پاس طاقت ہے۔۔۔ کالی پگڑی والے نے کہا۔۔۔ہم تمہیں باتوں کا وقت نہیں دیں گے ،ہم سارا مال لے جانے آئے ہیں۔
ابو جندل نے شمشیر ابلک کو اشارہ کیا اور اس کے ساتھی ان دونوں نے اور چاروں سپاہیوں نے اور لڑکیوں نے بھی ڈاکوؤں پر حملہ کردیا، ڈاکو تیار تھے وہ تو لڑنے اور مرنے کے لیے آئے تھے۔
پھر اس غار میں تلوار ٹکرانے کی آوازیں آتی رہیں، زخمی گرتے رہے خون بہتا رہا ،مشعالیں زمین پر پڑی جل رہی تھیں دو تین زخمی جلتی مشعلوں پر گرے اور ان کے کپڑوں کو آگ لگ گئی ،وہ اٹھ کر ادھر ادھر دوڑے اور آگ بجھانے کی کوشش کرنے لگے لیکن ناکام رہے وہ پہلے ہی زخمی تھے پھر کپڑے جل کر ان کے جسموں کو جلانے لگے تو وہ جلدی ہی بے ہوش ہو کر گر پڑے اتنے میں تین چار اور زخمی مشعلوں پر گرے اور اسی انجام کو پہنچے، لڑنے والے لڑتے لڑتے مشعلوں پر آئے تو ان کے کپڑوں کو بھی آگ لگ گئی۔
غار میں اگر کسی کو فتح حاصل ہوئی تو وہ آگ کی ہوئی، اندر آگ کے شعلے تھے اور غار دھوئیں سے بھر گیا تھا ،کچھ تو تلواروں کے زخموں سے مر گئے اور جو زخموں سے نہ مرے انہیں مشعلوں کی آگ نے مار ڈالا، اور تھوڑی دیر بعد غار میں صرف شعلوں کی ہلکی آواز آ رہی تھی۔
*قافلوں سے لوٹا ہوا خزانہ موت کے ہاتھ آیا۔*
*<=========۔========>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔54۔میں پڑھیں*
*<========۔=========>*
No comments:
Post a Comment