Tilismi Gumbad ko kholne ka irada Karna.
*طارق بِن زِیاد*
*تحریر:- *صادق حسین*
قسط نمبر 17_______________Part 17
طلسمی گنبد__________رازرق دن بھر متفکر اور پریشان رہا-
بڑھے ہوئے غموں فکر کی وجہ سے اس نے رات بھر کھانا تک بھی نہ کھایا، جس کے سبب سے اسے رات کو نیند بھی کم آئی-
گویا اسے ایسے معلوم ہوا کہ صرف گنبد کے کھولنے کے ارادے سے ہی اس پر رنج و الم اور مصائب و آلام کا ہجوم ہو گیا ہے لیکن اس پر بھی وہ بضد تھا اور گنبد کهولنے کے ارادے سے بعض نہ آیا اس نے گنبد کو کهولنے کا مصمم ارادہ کر لیا - "
چنانچہ جب آفتاب طلوع ہو کر ذرا بلند ہوا تو اس نے اپنے مشیروں وزیروں نیز چند سواروں کو طلب کیا-
یہ بات تمام شہر میں مشہور ہو گئی کہ بادشاہ نے اس گنبد کو کهولنے کا قصد کر لیا ہے، جو کہ جب سے بنا ہے آج تک بند پڑا ہے اور کبھی نہیں کھولا گیا-
حتی کہ قیصر اعظم بھی اسے کهولنے کی جرات نہیں کر سکا، جس بادشاہ نے بھی اسے کهولنے کا ارادہ کیا، وہی یا تو ناگہانی موت کا شکار ہو گیا یا کسی بلا میں گرفتار ہو کر اس قابل ہی نہ رہا کہ اسے کهول سکے-
اس زمانہ کے عیسائی بڑے توہم پرست تھے -
سارے شہر کے لوگوں پر خوف و ہراس پھیل گیا اور ہر ایک نے سمجھ لیا کہ اب اس ملک والوں پر تباہی نازل ہونے والی ہے -
ادھر اس شخص نے جو تدمیر کا مراسلہ لایا تھا مسلمانوں کے اچانک آ جانے اور عیسائیوں کو شکست دینے کا واقعہ دو چار آدمیوں سنا دیا تھا -
جن لوگوں نے اس واقعہ کو سنا وہ بہت زیادہ ڈر گئے-انہوں نے دوسروں کو ایسی رنگ آمیزی سے سنایا کہ جس نے بھی سنا وہی ترساں و لرزاں ہو کر رہ گیا _
عام طور پر لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ چونکہ ان کے بادشاہ نے گنبد کے کهولنے کا عزم کا عزم صمیم کر لیا ہے، اس وجہ سے خدا فرشتے ولی نیز تمام اچھے لوگ اور پاک روحیں ان کے مخالف ہو گئی ہیں اور سب کا قہر و غضب اندلس پر نازل ہونے والا ہے،
جب وہ تمام لوگ آ گئے جنہیں رازرق نے طلب کیا تھا تو وہ بھی شاہی لباس پہن کر قصر سے باہر آیا اور ان کے ہمراہ گنبد کی طرف روانہ ہوا -
جو لوگ اس کے ساتھ جا رہے تھے، وہ سخت خوف زدہ تھے -
گویا یوں معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی نہایت زبردست قوت ان کو تباہی کے گهڑے کی طرف کھنچے لئے جا رہی ہے-
سب خاموش اور سہمے ہوئے تھے -
چاہتے تو یہ تهے کہ بادشاہ کو سمجھائیں اور اسے باز رکھنے کی کوشش کریں لیکن وہ خوب جانتے تھے کہ بادشاہ ایسے ضدی سرکش اور خود رائے ہے کہ ہر گز نہ مانے گا -
اس لیے کسی کو اس سے کچھ کہنے کی جرات نہ ہوتی تھی اور سب چپ چاپ اس کے پیچھے چلے جا رہے تھے -
بادشاہ کی سواری عام گز گاہوں سے شاہانہ عظمت سے گزر رہی تھی اور لوگ اسے جاتا ہوا دیکھ کر کسی ناگہانی آفت کے آنے کا انتظار کر رہے تھے -
یہ شاہی سواری کا جلوس دارالسلطنت طلیطلہ سے نکل کر پہاڑ کی طرف روانہ ہوا -
کچھ دور چل کر انہیں گنبد کا کلس نظر آیا، جو اس قدر چمک رہا تھا کہ اس کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھا جا سکتا تھا!
چونکہ گنبد اونچی اونچی چٹانوں کے بیچ میں واقع تھا اس کے لیے سوائے کلس کے اور کچھ نظر نہ آتا تھا-
یہ لوگ دامن کوہ کو طے کر کے پہاڑ پر چڑھنے لگے-
جوں جوں وہ گنبد کے قریب ہوتے جاتے تھے سب خوف و دہشت سے لرزتے جاتے تھے-
کچھ دور چل کر یہ ایک لمبے درے میں داخل ہوئے جو بتدریج بلند ہوتا چلا گیا تھا گھوڑوں کی سموں کی آواز سے تمام درہ گونجنے لگا تھا-
تهوڑی دیر میں انہوں نے درہ عبور کیا اور آن چٹانوں کے قریب پہنچے جن کے درمیان یہ عجیب و غریب گنبد تھا: یہ ایک گھاٹی میں گھس گئے اور کچھ دور چل کر اس کوہ نما قلعہ کے قریب جا پہنچے جس پر گنبد تھا -
اس گنبد کے چاروں طرف زرا فاصلے سے اونچی اونچی چٹانیں تهیں اور ایک اونچے پہاڑی ٹیلے پر گنبد تعمیر تھا -
چونکہ گھوڑے ٹیلے پر نہیں چڑھ سکتے تھے اس لیے انہوں نے گھوڑوں کو وہیں چھوڑا اور بادشاہ وزیروں مشیروں وغیرہ کے ساتھ ٹیلے کے اوپر پیدل چڑھ گیا-
اس نے دیکھا کہ گنبد کی دیواریں سنگ مرمر اور زبر جد سے بنائی گئی ہیں جو کہ دھوپ سے چمک رہی تھیں _
جب یہ لوگ گنبد کے بالکل قریب پہنچ گئے تب انہوں نے اس کی دیواروں پر کچھ نصیحتیں کندہ دیکھیں جو کہ اس قدر صاف و شفاف تهیں کہ مدتیں گزر جانے پر بھی آفتاب اور بارش کی دست درزیوں سے مامون و محفوظ تهیں - "
ایک نصیحت پر رازرق کی نظر پڑ گئی اس نے پڑھا لکھا تھا - "
جو کسی کی نصیحت نہیں سنتا وہ ضرور تکلیف اور پریشانی اٹھاتا ہے،"
رازرق سر جھکائے ہوئے کچھ سوچنے لگا اسے جب سے گنبد کے بوڑھے محافظ آئے تھے سمجھایا اور نصیحتیں کی جا رہی تھیں مگر اس نے کسی کی بات نہ مانی تهی -
وہ آگے بڑھا-
ایک اور نصیحت پر اس کی نظر جا پڑی لکھا تھا! !!!!
ضد خود رائی ہے اور خود رائی تباہی کی جڑ ہے-"
وہ ڈر گیا اور اس نے نصیحتوں کو دیکھنا ہی چھوڑ دیا لیکن قاعدہ ہے کہ انسان جس چیز کو دیکھنا نہیں چاہتا فطرت اسے دیکھنے پر مجبور کرتی ہے اور مجبوراً اسے بار بار دیکھنا پڑتا ہے-
رازرق بھی باوجود یہ کہ نصیحتوں کی طرف دیکھنا نہ چاہتا تھا، کوئی غیبی قوت اسے دیکھنے پر مجبور کر دیتی تھی اور وہ دیکھ رہا تھا _
چنانچہ پهر اس کی نظر ایک نصیحت پر پڑی-
نہایت جلی حروف میں لکھا ہوا تھا جو بادشاہ اپنے خیر خواہوں کے مشورے پر عمل نہیں کرتا وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودتا ہے-"
اسے پڑھ کر رازرق کانپ گیا اس نے چاہا کہ واپس ہو جائے لیکن پھر اسے یہ خیال ہوا کہ رعایا اسے بزدل کہے گی اور وہ اسی نظریے کے پیش نظر دروازے کی طرف بڑھتا رہا-"
اس کے ساتھی بھی بعض بعض نصیحتوں کو پڑهتے جاتے تھے-
وہ چاہتے تھے کہ اب بھی بادشاہ سمجھ جائے اور گنبد کو کهولنے سے باز آ جائے لیکن کسی کو اسے کچھ کہنے کی جرات نہ ہوتی تھی-"
آخر یہ لوگ دروازے کے سامنے جا پہنچے-
انہوں نے دیکھا کہ گنبد کا دروازہ نہایت عالی شان اونچا اورچوڑا ہے اور صفت یہ کہ ایک پورا پتهر تراش کر بنایا گیا ہے-"
کواڑ لوہے کے ہیں اور ان میں شاہان سلف کے ناموں کے بھاری بھاری قفل پڑے ہوئے ہیں "
کواڑوں کی کیفیت اور قفلوں کی حالت سے معلوم ہوتا تھا کہ عرصہ دراز سے وہ کھولے نہیں گئے ہیں اور نہ کهولنے کی وجہ سے زنگ آلود ہو گئے ہیں-"
عین پھاٹک کے قریب دونوں بوڑھے ہاتھ سینے پر باندھے ہوئے نہایت خاموشی سے عالم میں استغراق میں کھڑے تھے -
بادشاہ کو دیکھتے ہی وہ سجدے میں گر گئے-
جب اٹھ کر کھڑے ہوئے تو رازرق نے ان سے دریافت کیا - "
کہو چابیاں صاف کر لیں-"
ایک بوڑھے نے کہا - " جی ہاں کل تمام دن انہیں رگڑتے رہے، تب کہیں جا کر چابیاں صاف ہوئیں-"
ایک بوڑھا انہیں صاف کرنے کا وقت نہیں ملا-
رازرق بوڑها بڑی غلطی کی تم نے اگر تم سے یہ کام نہیں ہو سکتا تھا تو مجھے کہہ دیتے میں تمہارے ساتھ کچھ امدادی بهیج دیتا-"
دوسرا بوڑھا حضور ہمارا خیال تھا کہ آپ ہمارے آنے کے بعد اس پر غوروفکر کے بعد اپنا ارادہ ملتوی کر چکے ہوں گے-"
رازرق لیکن تم نہیں جانتے کہ ایک بادشاہ اپنا ارادہ ہرگز ملتوی نہیں کرتا-
بوڑھا حضور گنبد کا کھولنا نہایت تکلیف دہ اور نقصان کا باعث ہو سکتا ہے-"
رازرق کچھ پروا نہیں میں ایسی فضول باتوں پر یقین نہیں رکھتا! !!
دوسرا بوڑھا حضور اپنی رعایا اور ملک پر رحم کھائیے.
رازرق تم بالکل نہ گهبراو کوئی اندیشہ کی بات نہیں ہے - "
پہلا بوڑها مگر ہمارے دل کانپ رہے ہیں - "
رازرق چونکہ تم زیادہ بوڑھے ہو پیشن گوئیوں پر اعتماد رکھتے ہو اس لیے یہ بات ہے-
دوسرا بوڑھا مگر اکثر پیشن گوئیاں سچ ثابت ہوتی ہیں-"
رازرق لیکن میں اس کا قائل نہیں ہوں!
وزیر مگر حضور_______؟
رازرق تم کیا کہتے ہو؟ "
وزیر یہی کہ اس گنبد کو نہ کهولئیے!!
رازرق تعجب ہے تم میری طبیعت سے واقف نہیں ایسی بیہودہ بات کہتے ہو.
وزیر حضور نے اس گنبد پر لکھی ہوئی نصیحتیں ملاحظہ کی ہیں؟ "
رازرق دیکهی ہیں یہ اس لیے لکھی ہیں تا کہ اسے کهولنے والا ان سے خوف زدہ ہو کر ارادہ ملتوی کر دے-
اب مزید کسی کو کچھ کہنے کی جرات نہ ہوئی رازرق نے کہا - "
ان محافظوں سے چابیاں لو اور قفل کهولوں.
بہتر ہے اس نے افسردہ دلی سے کہا - " اور محافظوں سے چابیاں لے لیں-
مگر وہ خوف زدہ تھا - "
اس وجہ سے اسے خود قفل کهولنے کی ہمت نہ ہوئی بنا بریں اس نے کئی اور محافظوں کو تالا کهولنے کے لیے بلا لیا اور انہیں تالا کهولنے کی ہدایت کی-
سپاہیوں نے چابیاں ڈال کر ڈال کر تالے کهولنے کی کوشش کی لیکن تالے چونکہ زنگ آلود تهے لہذا وہ آسانی سے نہ کھلتے تھے مگر سپاہی تھے کہ پیہم مصروف جدوجہد تهے - "
وہ ان کے زنگ چھڑا چھڑا کر کهول رہے تھے چونکہ ایک قفل کهولنے میں کافی وقت لگ جاتا تھا اس لیے کافی دیر لگ جاتی تھی اور قریب قریب تمام دن ان کو تالے کهولنے میں لگ گیا-"
رازرق ان کے قریب بیٹھا دیکھ رہا تھا _
وہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد تمام قفل کهل جائیں اور وہ گنبد میں داخل ہو جائے-"
آخر شام کے وقت صرف ایک تالا باقی رہ گیا اور چند سپاہیوں نے کوشش کر کے اسے بھی کهول دیا-
اس آخری تالے کے کھلتے ہی سپاہی پیچھے ہٹ گئے اور بادشاہ اٹھ کھڑا ہوا پھر وہ سپاہیوں کے ہمراہ دروازے کی طرف بڑھا________
جاری ہے......
No comments:
Post a Comment