Tadmir Ko khyal Aaya ke Musalman insan nahi hote.
فاتح اندلس
طارق بِن زِیاد
تحریر:- صادق حسين
قسط نمبر 12______________Part 12
__خود تدمیر بھی اسمٰعیل اور بلقیس کو گرفتار کر کے بے تحاشا بھاگ کھڑا ہوا_
اسے یہ شبہ ہو گیا تھا کہ مسلمان انسان نہیں ہیں اس کے خیال میں انسان اس بے جگری سے نہیں لڑ سکتے تھے-
پیدل اور سوار کا مقابلہ کیا مگر غازیان اسلام نے پیدل ہوتے ہوئے بھی سواروں کا مقابلہ کیا اور پھر گیارہ سو سوار مار بھی ڈالے تھے اسے نہ صرف خوف بلکہ یقین بھی تھا کہ مسلمان اس کا تعاقب کریں گے -
اس وجہ سے وہ گھوڑے پوری رفتار سے اڑائے چلا جا رہا تھا بقیہ دن اور آدھی رات تک چلتا رہا-
جب گھوڑوں نے بلکل ہی جواب دے دیا اور اس کے سپاہی بھی تهک گئے تب انہوں نے ایک جگہ قیام کیا کها نے کے لئے تو وہاں سے کیا ملتا سب کے سب سنگلاخ زمین پر بھوکے ہی جا پڑے گئے-"
اسمٰعیل عرب تها مسلمان عرب اسے تو عادت تھی زمین پر سونے کی مگر عیسائیوں کو جو نرم گرم بستر پر سونے کی عادت تھی انہیں بڑی تکلیف ہوئی-
سب سے زیادہ تکلیف پری جمال بلقیس کو ہو رہی تھی وہ نازک بدن تهی -
اسے زمین پر سونا تو کیا کبھی بیٹھنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا تھا - اسے تکلیف تھی وہ اس تکلیف سے مسلسل پہلو بدل رہی تھی اتفاق سے وہ اسمٰعیل کے قریب ہی تهی اور اسمٰعیل اس کی بے چینی دیکھ رہے تھے انہیں سخت تکلیف ہو رہی تھی چاہتے تھے کہ اسے آرام پہنچانے کی کوشش کریں مگر وہ خود بندھے ہوئے تھے اس لیے مجبور تھے -
چاندنی رات تھی اور چاند اپنی تمام و کمال دل فریبیوں کے ساتھ نکلا ہوا تھا ہر طرف چاندنی چمک رہی تھی جس سے ہر چیز نہایت بهلی معلوم ہو رہی تھی -.
بلقیس کے پیارے چہرے پر بھی چاند اپنی نورانی کرنیں بکھیر رہا تھا - "
وہ بار بار کروٹیں لے رہی تھی اور جب کروٹ بدلتی تهی تو تکلیف کو ضبط کرنے کے لیے اپنے جاں بخش ہونٹوں کو آبدار موتیوں جیسے دانتوں میں دبا لیتی تھی -
اسمٰعیل نے آہستہ سے کہا - "
کیا تمہیں تکلیف ہو رہی ہے؟"
بلقیس نے کہا نہیں کچھ ایسی تکلیف تو نہیں مگر! !!!!"
مگر کیا اسمٰعیل نے کہا؟ "
بلقیس آپ کو میری تکلیف کا احساس ہو رہا ہے!
اسمٰعیل ہاں!
بلقیس مسکرائی______اور اس نے کہا کیوں احساس ہو رہا ہے؟ "
اسمٰعیل نے سادگی کے انداز سے کہا - "
میں خود حیران ہوں-"
بلقیس آپ کا نام کیا ہے؟
اسمٰعیل میرا نام اسمٰعیل ہے!
بلقیس: آپ شاید افسر ہیں؟
اسمٰعیل : جی ہاں پانچ سو سپاہی میرے ماتحت ہیں -
بلقیس : آپ مجھے چھڑانے کے لیے کیوں آئے تھے؟
اسمٰعیل : کیا جواب دوں اس کا.
بلقیس؛: شاید اتفاقیہ پہنچ گئے؟
اسمٰعیل اب یہ نہیں کہا جا سکتا!بلقیس: آپ شاید مسلمان ہیں؟
اسمٰعیل : جی ہاں!
بلقیس: اور میں ایک یہودی لڑکی ہوں!
اسمٰعیل : یہ میں نے تمہارے والد کو دیکھ کر ہی سمجھ لیا تھا
: تمہارا نام کیا ہے؟
بلقیس : میرا نام بلقیس ہے،
اسمٰعیل نے حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا بلقیس؟ مگر یہودی تو اپنی لڑکیوں کے ایسے نام نہیں رکھتے-"
بلقیس نے مسکرا کر کہا مگر میرا نام تو بلقیس ہی ہے-"
اسمٰعیل: شاید حسن کی مناسبت سے تمہارا نام ایسا رکھا گیا ہے!
بلقیس: اب جو کچھ بھی آپ سمجھیں!
اسمٰعیل : یہ عیسائی بڑے ہی بے رحم ہیں -
بلقیس : کیوں؟
اسمٰعیل : انہیں تمہارے آرام کا بندوبست کرنا چاہیے-
بلقیس : ان میں انسانیت ہی نہیں-
اسمٰعیل : ٹھیک کہتی ہو تم انہوں نے مجھے فریب دے کر گرفتار کیا ورنہ میں ان سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑتا-
بلقیس : میرے دل پر سب سے زیادہ آپ کی بہادری ہی کا ہوا ہے -
ایک سپاہی نے کہا-"
باتیں بند کر دو اور خاموش ہو جاو کم بخت نہ سوتے خود اور نہ دوسروں کو سونے دیتے ہیں-"
ان کے چاروں طرف سپاہی پڑے ہوئے تھے-
اسمٰعیل کو طیش تو بہت آیا مگر اپنی گنوارو_____بلقیس نے آہستہ سے کہا-"
اللہ کے لیے چپ رہیں یہ بڑے بے رحم اور بد تہزیب لوگ ہیں-"
اسمٰعیل چپ ہو گئے-
بلقیس بھی خاموش ہو گئی اور دونوں پڑے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہی سو گئے-
صبح جب بیدار ہوئے تو سورج نکل آیا تھا -
سب اٹھے اور سفر کی تیاری کرنے لگے-
اسمٰعیل نے وضو کر کے نماز پڑھی-
تدمیر اور عیسائی حیرت سے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے رہے-
تدمیر نے اپنے ساتھیوں سے کہو-"
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عرب جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں یہ تو بہت برا ہوا ان کم بخت مسلمانوں نے جس نے جس ملک پر بھی حملہ کیا ہے اسے فتح ہی کر کے چھوڑا-"
ایک عیسائی مگر سنا ہے کہ مسلمان تو کسی ملک پر بلاوجہ حملہ نہیں کرتے!
تدمیر : تم نے بلکل ٹھیک کہا ضرور کوئی خاص بات ہوئی ہے جو لوگ حملہ آور ہوئے ہیں میں شہنشاہ کو اطلاع کر دوں-
دوسرا:ضرور کر دینی چاہیے اگر انہیں نہ روکا گیا اور یہ اندرون ملک میں گھس گئے تو پھر ان کا نکالنا نہایت دشوار ہو جائے گا-
تدمیر : یہی بات ہے مگر لکھوں کس سے؟ نہ قلم نہ کاغذ اور نہ ہی دوات ہی ہے-
پہلا: یہاں ایسی بہت سی جڑی بوٹیاں کھڑی ہیںجن کا عرق روشنائی کا کام دے سکتا ہے کسی درخت کی شاخ کاٹ کر اس کا قلم بنا لیجیے اور کسی چمڑے کے ٹکڑے پر لکھ کر لیجیے-
تدمیر : اچھا تو سب چیزیں مہیا کرو!
فوراً کئی آدمی دوڑ گئے اور سب سامان لے آئے-
تدمیر نے اندلس کے شہنشاہ رازرق کو خط لکھا-
جب خط لکھ چکا تو اس نے کہا-"
میرا ارادہ تھا کہ اس آدمی اسمٰعیل کو شہنشاہ رازرق کے حضور میں بهیج دوں لیکن ایک آدمی کو کیا بھیجوں، اگر بادشاہ نے کچھ لشکر بهیج دیا تو سب کو ہی گرفتار کر کے لے چلوں گا-"
پہلا: مناسب تو یہی ہے حضور-
تدمیر تم نے ایک خط سوار کو دیتے ہوئے کہا!
تم اڑے چلے جاؤ اور جلد سے جلد یہ عریضہ حضور شہنشاہ رازرق تک پہنچا دو-"
سوار نے بہت اچھا کہہ کر خط لیا-
گھوڑے پر سوار ہو کر طلیطلہ کی جانب روانہ ہو گیا اس کے جانے کے بعد یہ لوگ بھی سوار ہوئے اور شیڈونہ کر طرف چل پڑے
*جاری ہے.......
No comments:
Post a Comment