find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label tauheed kya hai? shirak ki details. Show all posts
Showing posts with label tauheed kya hai? shirak ki details. Show all posts

Shirak (شرک) (शिरक)

* * * {{{ SHIRK }}} * * * * *

Shirk Ka Logvi Maani Hota Hai Sharik Karna, Aur Sharai Aetbar Se Shareek Ka Matlab Hota Hai, Ke Allah Ta’ala Ki “Zaat” Ya Phir “Sifat” Me Kisi Ko Sharik Karna.
♥ Mafhoom-e-Hadees: “Subse Badaa Gunaah Ye Hai Ke Tu Allah Ke Saat Kisi Ko Shareek Karey Halan Ke Uss(Allah)ne Tujhe Paida Kiya.” – (Bukhari 4477, Muslim 86.)
♥ Al-Quraan: Allah Ke Saath Shirk Na Karna. Beshaq Shirk Badaa Bhari Zulm Hai. – (Surah Luqman(31): Ayat-13)
Lihaza Shirk Se Bachey Aur Tawheed Parast Baney.

• Shirk Ke Nuksaan –
Shirk Jaise Kabira Gunaah Ke Anzam Ke Barey Me Quraan-e-Kareem Me Farmay Ki:
♥ Al-Quraan: “Jisney Allah Ke Sath Kisi Ko Shareek Tehraya, Allah Ne Uspar Jannat Haraam Kar Diya. Uska Thikhana Jahannum Hai Aur Zalimo Ka Koyi Madadgar Na Hoga.” – (Surah Al-Maida(5): Ayat-72)
♥ Mafhoom-e-Hadees: “Jo Koyi Iss Haal Me Marey Ke Wo Allah Ke Siwa Kisi Aur Ko Pukaarta Ho Tou Wo Jahannum Me Dakhil Hoga.” – (Bukhari 4497, Muslim 92).

Share:

Shirak Ko Samjhe, Karamat ki Haqeeqat.

شرک کو سمجھیے-11: کرامت کی حقیقت
دیوان
دیوان
رکن اردو مجلس
کرامت کی حقیقت
شرک کی ساری بنیاد صرف یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کےپاس بھی خدائی معاملات میں تصرف کرنے کے اختیارات ہیں۔ اس عقیدے کی بنیاد بزرگان دین کی کرامتیں بنتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ کرامت کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ایک قانون جاری فرما رکھا ہے جسے قانون فطرت کہا جاتا ہے جس کے تحت نظام کائنات چل رہا ہے۔مثلا آگ جلاتی ہے، تلوار کاٹتی ہے وغیرہ۔لیکن اللہ تعالیٰ اس قانون کو جاری فرما کر اس کا پابند نہیں ہو گیا ہے۔بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس قانون کو توڑ دیتا ہے۔ اس کو خرق عادت کہتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنی قدرت کا اظہار فرماتا ہے۔یہ خرق عادت اگر انبیا کے لیے ہوئی تو اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اگر کسی ولی کے واسطے سے ہوئی تو یہ کرامت کہلاتی ہے۔ اس کا مقصد ان برگزیدہ بندوں کو ایسی نشانی دینا ہے جس سے دوسرے انسان بے بس ہوجائیں اور اس کا مقابلہ نہ کرسکیں۔

معجزہ اور کرامت سے انکار کرنے والا بے دین ہے۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں انبیاء علیہم السلام اور اولیا اللہ کے معجزات اور کرامات کا کئی مقامات پر ذکر ہے۔ قرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کا ذکر اس طرح آتا ہے:
انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللٰہ و ابریٔ الاکمہ و الابرص و احی الموتٰی باذن اللٰہ() (آل عمران -49)
ترجمہ: میں تمہارے لیے مٹی سے پرندوں کی مانند صورت بنا دیتا ہوں پھر اس میں دم کر دیتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو اچھا کر دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔

اولیائے کرام کی کرامت کا ذکر یوں آتا ہے:
کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یٰمریم انٰی لک ھٰذا قالت ھو من عند اللٰہ()ان اللٰہ یرزق من یشآئ بغیر حساب(آل عمران- 37)
ترجمہ: جب بھی زکریا(علیہ السلام) حضرت مریم کے حجرے میں آتے تو ان کے پاس کھانے کی چیزیں پاتے،انہوں نے پوچھا،اے مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آئیں ؟ انہوں نے کہا اللہ کے پاس سے،بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بے حساب روزی دیتا ہے۔

کرامت کو حق ماننا ضروری ہے لیکن اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ معجزہ اور کرامت براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی یا ولی کے واسطے سے ظاہر ہوتا ہے۔ نبی یا ولی کو اس کے وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اپنی مرضی سے تو کوئی نبی بھی معجزہ پیش نہیں کرسکتا۔ قرآن پاک میں صاف لکھا ہے:
و ان کان کبر علیک اعراضھم فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض او سلما فی السمآئ فتاتیھم باٰیۃ() (الانعام آیت- 35)
ترجمہ: اور (اے حبیب ﷺ ) اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر بس چلے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لے آؤ۔
نبی کا معجزہ ہو یا ولی کی کرامت اصل حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔کام کرنے والی ذات وہی ہے۔ اگر یہ اہم اصول واضح نہ ہو تو نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت کو ان کا ذاتی فعل سمجھ کر انسان ٹھوکر کھا جاتا ہے۔جن لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کو ان کا ذاتی فعل سمجھا وہ شرک میں مبتلا ہوگئے۔ حالانکہ وہ تو اللہ کے حکم سے تھا۔فرمایا :
و ابریٔ الاکمہ و الابرص و احی الموتٰی باذن اللٰہ
میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کرتا ہوں اور مردے میں جان ڈال دیتا ہوں
سورہ انفال میں جہاں رسول اکرم ﷺ کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپ ﷺ نے دشمن کے لشکر کی طرف ایک مٹھی کنکریو ں کی پھینکی اور اللہ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جا لگیں اس کے متعلق اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
و ما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمٰی( (الانفال-17 )
ترجمہ: اور (اے محمد ﷺ ) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔
یعنی فعل تو اللہ تعالیٰ کا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر ظاہر فرما دیا۔
اسی طرح اولیا کرام کی جو کرامات صحیح طریقے سے ثابت ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عزت بخشتے ہیں اس کے ہاتھ پر کرامت ظاہر ہوجاتی ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فتوح الغیب وعظ نمبر 6 میں فرماتے ہیں:
’’جب تم اپنی مرضی مولا کی مرضی میں مٹا دو گے تو پھر تم بشری کدورتوں سے پاک ہوجاؤ گے تمہارا باطن ارادہ الہی کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا اس وقت تکوین (کن فیکون ،تصرفات)اور خرق عادت (کرامات) کی نسبت تمہاری طرف کردی جائے گی۔ تو وہ فعل و تصرف ظاہر عقل وحکم کے اعتبار سے تم سے دکھائی دے گا حالانکہ وہ تکوین اور خرق عادت حقیقت میں اللہ کے فعل اور ارادے ہوں گے۔‘‘
معجزے یا کرامات بذات خود مقصود نہیں ہیں۔انبیا اور اولیا کا اصلی کام مادی چیزوں پر تصرفات کرنا نہیں ہے۔ ان کا اصلی کام دلوں کو تبدیل کرنا ہے۔معجزوں یا کرامتوں کی حیثیت بس ایک ذریعہ کی ہے کہ لوگوں کے دلوں کو اللہ کی طرف موڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ ان مقدس ہستیوں کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے یا وہ مالک و مختار ہیں ایک ایسا خیال ہے جو انسان کو توحید کی حدوں سے نکال دیتا ہے کیونکہ اس کائنات میں تصرف محض اللہ رب العزت ہی کو حاصل ہے۔

Share:

Gairullah ko Pukarna kyu Galat hai?

شرک کو سمجھیے-10: غیر اللہ کو پکارنا کیوں غلط ہے؟، مشرکین عرب اورآج کل کا غلو، شفاعت کس کو کہتے ہیں
دیوان
دیوان
رکن اردو مجلس
غیراللہ کو پکارنا کیوں غلط ہے؟
ياايها الناس ضرب مثل فاستمعوا له ان الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذبابا ولو اجتمعوا له وان يسلبهم الذباب شيئا لا يستنقذوه منه ضعف الطالب والمطلوب (الحج: 73-74)
ترجمہ: لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
اس آیت سے چند باتیں واضح ہوئیں۔ مشرکین عرب کو خطاب کرکے بتایا گیا ہےکہ وہ جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو:· وہ کوئی چیز بنا نہیں سکتے کیونکہ وہ خالق نہیں ہیں۔ تخلیق ایک مافوق الاسباب (یعنی انسانی کو جو اسباب میسر ہیں ان سے بالا) امر ہے جو صرف اللہ رب العزت ہی کی صفت ہے۔· انہیں کوئی قدرت حاصل نہیں ہے۔ مکھی جیسی بے حیثیت مخلوق بھی اگر کوئی چیز لے جائے تو وہ اس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔
قل افرءيتم ما تدعون من دون الله ان ارادني الله بضر هل هن كاشفات ضره او ارادني برحمة هل هن ممسكات رحمته قل حسبي الله عليه يتوكل المتوكلون (الزمر: 38)
ترجمہ: کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
اس آیت میں مشرکین عرب کو خطاب کرکے بتایا گیا ہےکہ:
· وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کی تکلیف دور نہیں کرسکتے یعنی وہ مشکل کشا نہیں ہوسکتے۔ مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
· وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتے۔· مشرک کا بھروسہ غیراللہ پر ہوتا ہے۔
·مومن کا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتاہے۔
صحیح بخاری میں آتا ہے کہ جنگ احد کے دن ایک موقعے پر ابوسفیان نے کچھ باتیں کہیں اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اس کا جواب دیا گیا۔ غور سے پڑھیے!
قال ابو سفيان اعل هبل (صنمهم الذي يعبدونه )
ترجمہ: ابوسفیان نے کہا: ہبل (بت کا نام) سربلند ہو (ھبل سے مدد مانگی)
فقال النبي ﷺ اجيبوه قالوا ما نقول
ترجمہ: اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو جواب دو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا:’’کیا کہیں؟‘‘
قال قولوا الله اعلى و اجل
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کہو، اللہ ہی کے لیے سربلندی ہے وہی بزرگ (بھی) ہے‘‘
قال ابو سفيان لنا العزى ، ولا عزى لكم
ترجمہ: اس پر ابوسفیان بولا: ’’ہمارے پاس عزی (ان کے بت کا نام) ہے اور تم لوگوں کے پاس کوئی عزی نہیں۔‘‘ (تم لوگ بے یار و مددگار ہو)
فقال النبي ﷺ اجيبوه ، قالوا : ما نقول؟ ، قال : قولوا : الله مولانا ولا مولى لكم
ترجمہ:اس پررسول اللہﷺنےحکم فرمایا: ’’اس کوجواب دو۔‘‘ لوگوں نےپوچھا:’’کیاکہیں؟‘‘ رسول اللہﷺنےفرمایا: ’’کہو، اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔‘‘(حاشیہ: [1])
مشرکین عرب اور آج کل کا غلو
مشرکین عرب بعض معاملات میں اپنے الہوں کو اپنا سفارشی اورمتصرف سمجھتے تھے لیکن بڑے بڑے کاموں اور انتہائی مشکل وقت میں وہ بھی اللہ ہی کو پکارتے تھے۔
مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے پہلی مثال
ارشاد ربانی ہے:
فاذا ركبوا في الفلك دعوا الله مخلصين له الدين فلما نجاهم الى البر اذا هم يشركون (العنکبوت: 65)
ترجمہ: پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے (اور) خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں
فرمایا:فاذا ركبوا في الفلك دعوا الله مخلصين له الدين
ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں سے بحفاظت منزل تک پہنچادینا مافوق الاسباب امر ہے، کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں یہ بات مشرکین عرب بھی سمجھتے تھے اس لیے ایسے موقعوں پر ان کی امیدوں کا مرکز صرف اللہ ہوتا تھا۔
سنن النسائی کی ایک روایت میں آتا ہے:
حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل فتح مکہ کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے سمندر کے راستے فرار ہونے کے لیے ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ کشتی طوفان میں پھنس گئی تو ملاحوں نے مسافروں سے کہا:
اخلصوا فان آلهتكم لا تغني عنكم شيئا هاهنا (سنن النسائی)
ترجمہ: یعنی مشرکین عرب موجوں کے تھپیڑوں میں خالص اللہ کو یاد کرتے تھے۔ کلمہ گو مشرک کا عقیدہ کیا ہے پڑھیے: پورے اخلاص والے ہوجاؤ (یعنی پورے اخلاص سے اللہ تعالیٰ کو پکارو) کیونکہ تمہارے الہ اس موقع پر تمہارے کام نہیں آسکتے۔ کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے:
المدد یاغوث اعظم المدد یادستگیر
تیری نگاہ درکار ہے پیران پیر

جہاز تاجراں گرداب سے فورا نکل آیا
وظیفہ جب انہوں نے پڑھ لیا یاغوث اعظم کا

مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے دوسری مثال
· قرآن پاک میں آتاہے:
قل ارايتكم ان اتٰكم عذاب الله او اتتكم الساعة اغير الله تدعون ان كنتم صادقين() بل اياه تدعون فيكشف ما تدعون اليه ان شاء وتنسون ما تشركون() (الانعام: 40-41)
ترجمہ: کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)، بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لئے اسے پکارتے ہو وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو
عن عمران بن حصين: قال قال النبي صلى الله عليه وسلم لابي كم تعبد اليوم الها فقال ستة في الارض وواحدا في السماء قال فايهم تعد لرغبتك ورهبتك قال الذي في السماء (سنن الترمذی)
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے باپ سے پوچھا: ’’آج کل تم کتنے الہوں کی عبادت کرتے ہو؟‘‘ (میرے باپ نے) کہا: ’’چھ زمین پر اور ایک (وہ جو) آسمان پر ہے( کی)۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے (مزید) پوچھا:’’ان میں خوف و امید کے وقت تم کس الہ کو کام کا سمجھتے ہو؟‘‘ میرے باپ نے کہا:’’وہی جو آسمانوں میں ہے۔‘‘
یعنی تمام امور میں جن میں مخلوق کا کوئی اختیار نہیں، مشرکین مکہ خوف اور امید اللہ ہی کے ساتھ رکھتے تھے۔ اب پڑھیے کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے:
انت شافی انت کافی فی مہمات الامور
انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل
یعنی تمام بڑے بڑے مسائل (مہمات الامور) میں مجھے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہی کافی ہیں۔ وہی میرے لیے کافی ہیں وہ میرے رب ہیں۔بہترین سازگار۔
مشرکین مکہ شفا اللہ سے مانگتے تھے، تیسری مثال
مشرکین عرب نے رسول اللہ ﷺ کی توحید کی دعوت سن کر آپ کو مجنون مشہور کردیا تھا اس پر ضماد نامی ایک کافر جو جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا اس نے کہا:
لوارايت هذاالرجل لعل الله يشفيه على يدي(صحیح مسلم)
ترجمہ: اگر میرا ان پر گزر ہوا تو ممکن ہے اللہ میرے ہاتھوں ان کو شفا دے دے۔
یعنی مشرکین عرب بھی شفا کی امید اللہ تعالیٰ ہی سے رکھتے تھے۔ کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے ملاحظہ فرمائیے:
شفا پاتے ہیں صدہا جاں بلب امراض مہلک سے
عجب دارالشفا ہے آستانہ غوث اعظم کا
شیخ عبدالقادر جیلانی کا یہ قول ذرا غور سے پڑھیے:
تمہارے عالم جاہل ہیں اور تمہارے جاہل دھوکے باز۔ تمہارے زاہد دنیا پر حریص ہیں۔ تو دین کے بدلے دنیا نہ کما دین سے تو آخرت حاصل کی جاتی ہے۔ آپ (یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی) نے
ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ انہ لا یحب المعتدین (الاعراف -55)
یعنی تم اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں رکھتا ہے۔
کے ظاہر پر عمل کر کے تفسیر فرمائی کہ حد سے بڑھنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے سوا دوسرے سے مانگے اور غیر اللہ سے سوال کرے۔ (ملفوظات شیخ)
خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑ بیٹھے تھے اور صرف بتوں کو ہی اپنا سب کچھ نہیں سمجھ بیٹھے تھے۔ اس کے برخلاف آج شرک میں الجھے ہوئے کلمہ گو ہر چیز کی امید غیراللہ ہی سے لگائے بیٹھے ہیں۔
شفاعت کس کو کہتے ہیں؟
مشرکین عرب اپنے معبودوں کو اللہ کے یہاں سفارشی سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے:
هؤلاء شفعاؤنا عند الله (یونس: 18)
ترجمہ: یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
شفاعت کا مطلب ہے کسی دوسرے کو نفع پہنچانے یا اس سے نقصان کو دور کرنے کے لیے سفارش کرنا۔ دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے وہ یا تو وجاہت کے سبب ہوتی ہے یا چاہت کے سبب۔
وجاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والا اتنا بااختیار ہے کہ حاکم وقت اس کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول سکتا۔
چاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والی کی حیثیت ایسی ہے کہ خود حاکم وقت کو اس سے تعلق رکھنے کی ضرورت ہے لہذا وہ اس کی سفارش کو مان لیتا ہے۔یا پھر کبھی سفارش کرنے والے کے کسی احسان کا بدلہ چکانا مطلوب ہوتا ہے اس لیے اس کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان تینوں باتوں سے بالاتر ہے۔ وہ نہ کسی چیز کی امید کرتا ہے، نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کا محتاج ہے۔ سورۃ سبا آیات 23 اور 24 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قل ادعوا الذين زعمتم من دون الله
کہہ دو کہ جن کو تم اللہ کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔
لا يملكون مثقال ذرة في السماوات ولا في الارض
وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں
وما لهم فيهما من شرك
اور نہ ان میں ان کی (اللہ کے ساتھ) شرکت ہے
و ما له منهم من ظهير ()
اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
ولا تنفع الشفاعة عنده الا لمن اذن له حتىٰ اذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربكم قالوا الحق وهو العلي الكبير()
اور اللہ کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا تو کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے۔ (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا ہے) اور وہ عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
-------------------------------------------------------------
[1]: غور کریں اہل حق اور اہل ہوی کا یہ فرق آج بھی موجود ہے۔ ایک طرف اللہ ہی اللہ دوسری طرف غیراللہ!

Share:

Gairullah ki Najr-O-Neyaj Shirak hai

باب:11- غیر اللہ کی نذر و نیاز شرک ہے

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
‏[qh]يُوفُونَ بِالنَّذْرِ[/qh](سورة الإنسان76: 7))
“یہ لوگ نذر پوری کرتے ہیں۔”(1)
نیز ارشاد ہے:
‏[qh](وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ[/qh](سورة البقرة2: 270))
“اور تم اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کردیا جو بھی نذر مانو، اللہ اسے جانتا ہے۔”

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‏[qh](مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ فَلاَ يَعْصِهِ)[/qh](صحیح البخاری، الایمان و النذور، باب النذر فی الطاعۃ۔ الخ، ح:6696، 6700 وسنن ابی داود، الایمان و النذور، باب النذر فی المعصیۃ، ح:3289)
“جو کوئی اللہ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے اور جو شخص اللہ کی نافرمانی کی نذر مانے تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔”(2)

مسائل
1) اطاعت والی نذر کو پورا کرنا ضروری ہے۔
2) جب یہ ثابت ہو چکا کہ نذر اللہ تعالی کی عبادت ہے تو پھر اسے غیر اللہ کے لیے ماننا اور پورا کرنا شرک ہے۔
3)جو نذر معصیت پر مبنی ہو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔

نوٹ:-
(1) اس آیت میں اللہ تعالی نے نذر پوری کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ عبادت مشروع اور اللہ تعالی کو محبوب ہے۔ اور چونکہ یہ عبادت ہے اس لیے اسے غیر اللہ کے لیے بجالانا “شرک اکبر”ہے
‏(2) [qh]“مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ”[/qh]جو شخص اللہ تعالی کی اطاعت کی نذر مانے اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت کرے۔” اس میں جائز پوری کرنے کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایسی عبادت ہے جو اللہ تعالی کو انتہائی محبوب اور پسند ہے کیونکہ جو عمل شرعا واجب ہو وہ عبادت ہوتا ہے اور جو عمل عبادت کے بجالانے کا وسیلہ اور ذریعہ ہو وہ بھی عبادت ہوتا ہے۔ چونکہ نذر پوری کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ، نذر ماننا ہے، اگر نذر ہی نہ مانی ہو تو پوری کیسے ہوگی؟ لہذا نذر کو پورا کرنا اس لیے واجب ہوا کہ انسان نے اس عبادت(نذر)کو خود اپنے آپ پر لازم کر لیا ہے۔
‏(3) [qh]“وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ فَلاَ يَعْصِهِ”[/qh]اور جو شخص اللہ تعالی کی نافرمانی کی نذر مانے تو وہ اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کرے۔” کیونکہ انسان کا اپنے آپ پر اللہ کی نافرمانی کو لازم کرلینا ، اللہ کی طرف سے وارد شدہ نافرمانی کی ممانعت کے خلاف ہے بلکہ ایسے انسان پر قسم کا کفارہ لازم آتا ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔

اللہ تعالی کے لیے نذر ماننا ایک عظیم عبادت ہے اور غیر اللہ کے لیے نذر ماننا بھی عبادت ہے جو حرام ہے۔ غیر اللہ کے لیے نذر ماننے والا جب اپنی نذر پوری کرتا ہے تو وہ غیر اللہ کی عبادت بجالاتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالی کے لیے نذر ماننے والا جب اپنی نذر پوری کرتا ہے تو وہ اللہ تعالی کی عبادت بجالاتا ہے۔

Share:

Kaisi Madad Mangna Shirak Hai.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کیسی مدد کا مانگنا شرک ہے؟​

مدد دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک مدد سے شرک ثابت نہیں ہوتا جبکہ دوسری قسم کی مدد سراسر شرک ہے ۔
اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں ‫:

ایک ڈوبتا ہوا شخص جب کسی دوسرے شخص سے مدد مانگتا ہے تو وہ شرک نہیں کر رہا ہوتا۔ کیونکہ وہ اسباب کے تحت مدد مانگ رہا ہے۔ اور ایسی مدد مانگنے کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے۔
جیسے درج ذیل آیات ‫:
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟
(سورہ 3 ، آیت : 52)
تمہارے پاس جو رسول آئے ۔۔۔ تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔
(سورہ 3 ، آیت : 81)
۔۔۔ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو ۔۔۔
(سورہ 5 ، آیت : 2)

کیونکہ اس مدد کے مانگنے میں عقیدہ شامل نہیں ہوتا۔ کوئی غیر مسلم ہو ، یا کوئی اللہ پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔۔۔ سب ایسی مدد مانگتے ہی ہیں ۔ اور کوئی بھی انسان چاہے وہ نبی ہو، رسول ہو یا بہت بڑا ولی اللہ ہی کیوں نہ ہو، اس کو کسی نہ کسی درجے میں دوسرے انسانوں کی مدد چاہئے ہی ہوتی ہے۔ اگر قرآن کی آیات میں ہمیں یہ سمجھا یاجا رہا ہے کہ ایسی مدد بھی اللہ ہی سے مانگو اور کسی انسان سے مدد نہ مانگو تو یہ تو انسان کے بس میں ہی نہیں۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن جن معنوں میں اللہ کو بطور ولی و مددگار کافی قرار دیتا ہے ۔ وہ اسباب کے تحت والی مدد کے معنوں میں نہیں کہتا۔ بلکہ مافوق الاسباب یعنی بغیر اسباب والی مدد کے معنوں میں قرار دیتا ہے۔
مثلا یہی ڈوبتا ہوا شخص ، جبکہ اس کے پاس کوئی دوسرا موجود نہ ہو۔ تو یہ اب اسباب سے ہٹ کر دور بیٹھے یا قبر میں لیٹے کسی بزرگ ، ولی یا نبی کو پکارنا شروع کر دے۔ تو یہاں پر اسباب موجود نہیں۔
یہ ہے عقیدہ کا مسئلہ۔ اور یہی صریح شرک ہے۔ اس جگہ پر ایسی حالت میں جب وسائل موجود نہیں تو اس کو صرف اور صرف اللہ کو پکارنا چاہئے اور اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔

اب یہ مسئلہ مقید ہو گیا صرف
ماتحت الاسباب
اور
مافوق الاسباب
کی بحث میں ۔

یہ بات بھی بغیر دلیل کے نہیں کی جار ہی ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت میں یہ مسئلہ بیان کر دیا گیا ہے ، ملاحظہ فرمائیے ‫:
‫(مشرکو!) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں۔ اچھا تم ان کو پکارو اگر تم سچے ہو تو چاہئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔ بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں ۔
(سورہ الاعراف 7 ، آیت : 194)

مندرجہ بالا آیت میں اللہ کے سوا بندوں کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی بتلایا جا رہا ہے کہ اگر پکارا جانے والا شخص جواب دے سکے، چل سکے، ہاتھ سے پکڑ سکے، آنکھ سے دیکھ سکے یا کان سے سن سکے تو پھر ٹھیک ہے۔ پھر ان کو پکارا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوگا۔
پس ثابت ہوا کہ کسی کوولی بمعنی دوست سمجھ کر پکارا جائے ، تو درست وجائز۔ اور اگر مافوق الفطرت طور پر پکارا جائے جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارا جاتا ہے ۔ تو یہ ناجائز ہے ۔

====
ایک صاحبِ محترم نے اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ ۔۔۔
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ، چھوٹی بڑی چیز کی تفریق اور مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب کی تقسیم کی یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے ، اور معبود مانے بغیر وسیلہ اور سبب کے درجے میں مانتے ہوئے مخلوق سے سوال درست ہے ۔۔۔
ہم تو قرآن کی آیات سے واضح کر چکے ہیں کہ مدد کے معاملے میں اصل بحث سراسر ۔۔۔ ان ہی دو مطالب میں ہے ، یعنی ‫:
ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب ‫!

اب آئیے ذرا ان صاحب کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں ۔۔۔ وہ فرماتے ہیں ‫:
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ۔
دوسرے معنوں میں ان کا کہنا ہے کہ جو کسی کو معبود مان کر مدد مانگے وہ مشرک ہے ۔
ان کے اس فلسفے کی رو سے تو وہ سارے ہی روشن خیال غیرمسلم (چاہے وہ بت پرست ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پوجنے والے ہوں) ۔۔۔ ان کے نزدیک مشرک نہیں ہوں گے ۔
کیونکہ ۔۔۔
ان صاحب کو یہ کیسے پتا کہ وہ بتوں کو یا کسی نبی کو معبود مانتے ہیں؟
آج کا ایک پڑھا لکھا ہندو یا عیسائی ۔۔۔ اپنے کسی ظاہری عمل سے یہ نہیں جتاتا کہ وہ کس کس کو معبود مانتا ہے ؟
کسی کو معبود ماننا دل کی یا نیت کی بات ہوتی ہے ۔ اور یہ سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا ۔
لہذا جب ہم یہ جانتے ہی نہیں کون کس کو معبود مان رہا ہے ۔۔۔ تو شرک اور مشرک کی یہ ساری بحث ہی ختم ہو جاتی ہے ۔
اس طرح تو ہم میں سے کوئی بھی انسان کسی بھی دوسرے انسان کو (چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم) مشرک نہ کہہ سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے ۔
پھر یہ جو قرآن اور حدیث بار بار مشرکین سے دور رہنے اور ان کی دوستی سے باز رہنے کا حکم دیتے ہیں ۔۔۔ یہ سب کہاں جائے گا ؟
جب ہم مشرک کو اس لیے نہیں پہچان سکتے کہ ہم اس کے دل کا حال نہیں جانتے اور یہ نہیں جانتے کہ وہ دل سے کس کس کو معبود مانتا ہے ۔۔۔ تو پھر ہم کس بنیاد پر اس کو مشرک قرار دے سکتے ہیں؟

ثابت ہوا کہ ان صاحب نے یہ قول ۔۔۔
معبود مان کر مخلوق سے سوال شرک ہے ۔
اپنی عقل سے گھڑا ہے ۔ اس کی تائید میں کوئی دلیل انہوں نے قرآن یا حدیث سے نہیں دی ۔ اور اسی وجہ سے ہم بھی ان سے یہ عقلی سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کہ :
جب ہم مشرک کو اس لیے نہیں پہچان سکتے کہ ہم اس کے دل کا حال نہیں جانتے اور یہ نہیں جانتے کہ وہ دل سے کس کس کو معبود مانتا ہے ۔۔۔ تو پھر ہم کس بنیاد پر اس کو مشرک قرار دے سکتے ہیں؟

درحقیقت ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ اسباب کے بغیر پکارنے والا ۔۔۔ پکارے جانے والی ہستی کو معبود بھی مانتا ہے یا نہیں ؟
اس معاملے میں ہم صرف ظاہری عمل کو دیکھ کر فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ اور اس کی دلیل میں بخاری کی یہ حدیث پڑھ لیں ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ‫:
میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو کچھ لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعے ہو جاتا تھا ، لیکن اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ( اور باطن کے احوال پر مواخذہ ممکن نہیں رہا ) اس لیے اب ہم تمہارا مواخذہ صرف تمہارے ان عملوں پر کریں گے جو ہمارے سامنے آئیں گے ۔
پس جو ہمارے لیے بھلائی ظاہر کرے گا ، ہم اس کو امن دیں گے ( یا اس پر اعتبار و اعتماد کریں گے ) اور اس کو اپنے قریب کریں گے اور ہمیں اس کے اندرونی حالات سے کوئی سروکار نہیں ۔ ان کا حساب اللہ تعالیٰ ہی ان سے کرے گا ۔
اور جو ہمارے لیے برائی ظاہر کرے گا ، ہم نہ اسے امن دیں گے ( نہ اس پر اعتبار کریں گے ) اور نہ اس کی تصدیق کریں گے ، اگرچہ وہ یہ کہے کہ اس کا اندرونی معاملہ (ارادہ) اچھا تھا ۔
صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب : الشهداء العدول وقول الله تعالى ‏{‏واشهدوا ذوى عدل منكم‏}‏ و‏{‏ممن ترضون من الشهداء‏} ، حدیث : 2680

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS