find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Islam Me Gana (songs) Music sunna kaisa hai?

Kisi Musalman ke liye Gana aur music sunna kaisa hai?
Islam music ke bare me kya kahta hai?
    Assalamu walaikum
Sawal: Islam Music ke bare me kya kahta hai?
جواب تحریری

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته.
*موسیقی اسلام میں حرام ہے*

اسلام میں گانا بجانا ، میوزک اور موسیقی کے آلات استعمال کرنا ناجائز اور حرام ہے اور یہ بات قرآن و حدیث کے نصوص قطعیہ اور حضرات آئمہ کرام رحمھم اللہ کے اجماع کی روشنی میں اظہر من الشمس ہے جن سے اس کی حرمت اور ممانعت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔

چند دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و یتخذھا ھزوا اولئک لھم عذاب مھین (لقمان: ۶)
اور بعض آدمی ایسا ہے جوان باتوں کا خریدار بنتا ہے جو غافل کرنے والی ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے اور اس کی ہنسی اڑا دے، ایسے لوگوں کیلئے ذلت کا عذاب ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تین بار قسم اٹھا کر فرمایا کہ اس آیت میں ’’لھو الحدیث‘‘ سے مراد گانا بجانا ہے اسی طرح حضرت ابن عباس، حضرت جابر رضی اللہ عنھما، حضرت عکرمہ ، سعید بن جبیر، مجاہد، مکحول، عمرو بن شعیب اور علی بن جذیمہ رحمھم اللہ تعالیٰ سے بھی اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے۔ (تفصیل کیلئے تفسیر ابن کثیر ۳/۴۵۷، تفسیر قرطبی ۱۴/۵۱، تفسیر بغوی ۴/۴۰۸، تفسیر مظہری ۷/۲۴۶ ملاحظہ کیجئے)
صحیح بخار شریف کی روایت ہے:
’’لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمر والمعازف‘‘
میری امت میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو زنا ، ریشم، شراب اور راگ باجوں کو حلال قرار دیں گے۔
اسی طرح ابو داؤد ، ابن ماجہ اور ابن حبان رحمھم اللہ کی روایت ہے۔
’’لیشربن الناس من امتی الخمر یسمونھا بغیر اسمھا یعزف علی رؤسھم بالمعازف والمغنیات یخسف اللّٰہ بھم الارض… الخ
میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام بدل کر ان کی مجلسیں راگ باجوں اور گانے والی عورتوں سے گرم ہوں گی۔ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔
قرآن و حدیث کی نصوص کے بعد اگر آئمہ اربعہ رحمھم اللہ کے اجماع کی طرف آئیں تو ہمیں کتب فقہ میں بیسیوں ایسی عبارات ملتی ہیں جن سے گانے بجانے وغیرہ کی حرمت پر ان حضرات کا اجماع ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً
(قولہ او یغنی للناس) لانہ یجمع الناس علی ارتکاب کبیرۃ کذا فی الھدایۃ و ظاہرہ ان الغناء کبیرۃ… الخ، وفی المعراج الملا ھی نوعان محرم وھو آلات المطربۃ من غیر الغناء کالمزمار… الخ (البحر الرائق ۷/۸۸)
قال فی الرعایۃ یکرہ سماع الغناء والنوح بلاالۃ لھو وہو محرم معھا… الخ (الانصاف ۱۲/۵۱)
مختصر طور پر نقلی دلائل کے بعد اگر عقلی لحاظ سے دیکھا جائے تو گانے بجانے اور میوزک و موسیقی کے آلات اور رقص و سرود کے محفلیں جمانے سے سوائے بے دینی، الحادو گمراہی، گناہوں کی کثرت ، بے شرمی و بے حیائی، حیا و پاکدامنی کے فقدان اخلاقی بے راہ روی اور معاشرتی انتشار اور بے سکونی وغیرہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں پھیلی۔
بہر کیف مسلمانوں کو اس قسم کے گناہوں سے بچتے ہوئے قرآن مجید کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے، سننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”

Share:

Kya Imam ke pichhe muktadi ko Surah Fatiha padhna jaruri hai?

Kya Imam Ke pichhe Surah Fatiha padhna jaruri hai?
Kya Bagair  Surah Fatiha padhe Namaj ho sakti hai?
Surah ke Bagair kya Namaj Qubool ho sakti hai?
Sawal : Assalamu alaikum imam ke piche muktadi ko bhi Surah Fatiha padhni chahiya is ki hadees send kar den  please?

सवाल: क्या इमाम के पीछे मुक्तादी को भी सूरह फातिहा पढ़नी चाहिए?
क्या सुराह फातिहा के बगैर नमाज काबिल ए कुबूल है?
*جواب تحریری

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته.
*امام کے پیچھے مقتدی کا سورہ فاتحہ پڑھنا*

1- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ عالی شان ہے:

لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ

( سورۂ فاتحہ کے بغیر کسی شخص کی کوئی نماز نہیں )

(صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، حدیث:۷۱۴)

2- سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک نماز پڑھائی۔ پس جب آپ نے نماز پوری کی تو ان کی طرف چہرۂ مبارک کرتے ہوئے فرمایا:’’کیا تم اپنی نماز میں پڑتے ہو جبکہ امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟۔‘‘ تو وہ خاموش ہوگئے، آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی، تو ایک یا کئی اشخاص نے کہا:’’بیشک ہم ایسا کرتے ہیں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’پس ایسا نہ کرو، اور تم میں سے ہر شخص سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھے۔‘‘

(جزء القرأۃ لامام بخاری رحمہ اللہ، حدیث: ۲۵۵، اس حدیث کی سند بالکل صحیح اور متن بالکل محفوظ ہے۔امام ابن حِبان[المتوفیٰ:۳۵۴؁ھ]نے صحیح ابن حبان(حدیث:۱۸۵۲) میں اور حافظ ہیثمی[المتوفیٰ:۸۰۷؁ھ]نے مجمع الزوائد (حدیث:۲۶۴۲)میں اس کی تصحیح کی ہے۔نیز دیکھئے الکواکب الدریہ لحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، ص۴۱)

3- سیدنا عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز پڑھائی جس میں قرأۃ کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا:’’جب میں جہر کے ساتھ کررہا ہوتا ہوں، تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورۂ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے۔‘‘

(سنن نسائی، کتاب الافتتاع، حدیث: ۹۲۱۔ دارقطنی، حدیث:۱۲۰۷۔جزء القرأۃ، حدیث:۶۵۔ اس حدیث کو امام بیہقی [المتوفیٰ:۴۵۸؁ھ]دارقطنی [المتوفیٰ:۳۸۵؁ھ]وغیرہ نے صحیح کہا ہے ، دیکھئے الکواکب الدریہ، ص۵۰ تا۵۵)

4- سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’[اے صحابہ!] تم میرے پیچھے پڑھتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا،’’جی ہاں! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا :’’کچھ نہ پڑھوسوائے سورۂ فاتحہ کے۔‘‘

(جزء القرأۃ،حدیث:۶۳)

یہ حدیث ’’عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ‘‘ کی سند سے ہیں ، جو صحیح سند ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۷۲۸؁ھ] فرماتے ہیں:

’’ائمہ اسلام اور جمہور علماء کے نزدیک اگر عمرو بن شعیب تک سند صحیح ہو تو ان کی عن ابیہ عن جدہ والی روایت حجت ہوتی ہے۔‘‘

(مجموع الفتاویٰ، الحدیث، سُئل شیخ الاسلام عن الحدیث: تعریفہ و اقسامہ ج۱۸ص۸)

عبدالرشید نعمانی دیوبندی لکھتے ہیں:

’’ اکثر محدثین عمرو بن شعیب کی ان حدیثوں کو (جو عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ہو)حجت مانتے ہیںاور صحیح سمجھتے ہیں۔‘‘

(ابن ماجہ اور علم الحدیث،ص۱۴۱،مکتبہ الحق دیوبند)
(نیز دیکھئے الکواکب۔۔ص۵۶)

5- سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی آپ پر قراء ت بھاری ہوگئی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ’’میں تمہیں دیکھتا ہوںکہ تم امام کے پیچھے( قرآن )پڑھتے ہو؟‘‘عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ ہم لوگوں نے عرض کیا : ’’یا رسولَ اللہ !(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کی قسم ہم پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا:

’’لَا تَفْعَلُوْا اِلَّا بِاُمِ الْقُرْآنِ فَاِنَّہُ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِھَا

(ایسا مت کرو مگر ہاں ام القرآن یعنی سورۂ فاتحہ پڑھو اور کچھ نہ پڑھو، کیونکہ جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی اسکی نماز نہیں ہوتی)

(حوالجات: مسنداحمد: حدیث۲۳۱۲۵واللفظ لہ۔سنن ابی داؤد: حدیث۸۲۳۔ ترمذی، حدیث: ۳۱۱۔جزء القرأۃ،حدیث: ۲۵۷۔ دارقطنی، حدیث: ۱۲۰۰۔ مستدرک الحاکم، حدیث: ۸۶۹۔ صحیح ابن خزیمہ)

Share:

Kya Biwi ko Tohfa dekar Shauhar usse Wapas le sakta hai?

Kya Biwi ko tohfa dekar Usse wapas liya ja sakta hai?
kya koi Musalman Kisi dusre shakhs ko tohfa dekar wapas le sakta hai?
Sawal: Agar Biwi Apne zeb kharch se paise bacha kar  Gold kharid leti hai to kya Shauhar Us gold ko Wapas le sakta hai?

सवाल: अगर बीवी अपने जेब खर्च से पैसे बचाकर सोना (गहना वगैरह) खरीद लेती है तो क्या शौहर उस गहने को वापस ले सकता है?
क्या किसी को तोहफा देकर उससे वापस लिया जा सकता है?

سوال.. اگر بیوی اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا کے گولڈ خرید لیتی ہے تو کیا شوہر اس گولڈ کو واپس لے سکتا ہے؟
*جواب تحریری

*شیخ عبدالباسط فہیم حفظہ اللہ*
سابق مدرس مسجدِ نبوی ﷺ

Sh Dr Abdul Basit Faheem

جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو بطور تحفہ گولڈ دے یا کوئی اور چیز دے. یومہ، مہانہ یا سالانہ خرچہ دے. جس میں بیوی کو آزادی ہو کہ جہاں پر چاہے لگاے. جیسا کہ کئی شوہر اپنی بیویوں کو جیب خرچ دیتے ہیں اور یہ بیوی جیب خرچ میں سے پیسے جمع کر کے گولڈ لے تو اسکے شوہر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس سے لے. اس پر قبضہ کرے یا اس سے واپس مانگے..

کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں

*💫جسے امام بخاری اور امام مسلم روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کو کوئی چیز دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے اور اپنی قے چاٹنا شروع کر دیتا ہے*

تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جرم ہے. اور بہت بری حرکت ہے. اور یہ حرام ہے. کسی کو جایز نہیں کہ کسی کو تحفہ میں دی ہوئی چیز واپس لے.

*البتہ والد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے کہ وہ اپنی اولاد میں سے کسی کو کوئی چیز تحفہ میں دے تو واپس لے سکتا ہے.*

*امام داود روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مرد کے لیے حلال نہیں ہے کہ کسی کو کوئی عطیہ دے کسی کو کوئی چیز بطور ہدیہ دے اور پھر واپس لے سواے والد کے کہ وہ اپنی اولاد سے کوئی چیز واپس لے سکتا ہے..*

اللہ ہم سب کو ایسی بری حرکتوں سے محفوظ رکھے.. آمین ✨🌸

Share:

Islam Khatre me hai ya France khatre me hai?

Islam Khatre me hai ya Macron khatre me hai?
France me Secularism sirf Musalmano ke liye hi kyu?
क्या वाकई इसलाम खतरे में है या मैक्रों अफवाह फैला रहे है?
अगर इसलाम खतरे में होता तो इसलाम इस तरह से नहीं फैल रहा होता?
अगर इसलाम खतरे में पर जाए तो फिर यह दुनिया कहां जाएगी?

#boycott_france
#boycott_france_products
#Poor_President_Macron!
➡️Macron’s statement⤵️
*‘#Islam_is_in_crisis’ answered by #Almighty_God..... isn’t !!*

पिछली दो दहाइयों में जिस क़ौम ने लाखों मुसलमानों का क़त्ल-ए-आम किया हो करोड़ों को ज़ख़्मी और बेघर किया हो.....
वही क़ौम अपने एक ईसाई नन की ज़िन्दगी बचाने के लिए दुश्मन के 206 क़ैदी रिहा किए , एक करोड़ यूरो फिरौती दी..इसके बावजूद जब उस नन की वापसी पर पता चले कि वह अब "स़ोफ़ी" नहीं "मरियम" बन चुकी है तो ज़रा अंदाज़ा लगाइए उस दुश्मन-ए-इस्लाम के दिल पर कितनी कटारियां चली होंगी??

*गौरतलब रहे कि फ्रांसीसी राष्ट्रपति इमैनुएल मैक्रों ने चार दिन पहले इस्लाम पर टिप्पणी करते हुए कहा था कि 'इस्‍लाम एक ऐसा धर्म है, जो आज दुनियाभर में संकट में है,।और ठीक 4-5 दिन बाद उनको जवाब मिल गया होगा कि संकट में इस्लाम है या इसाईयत........!!*

French President desperately tried to claim any victory and pretend to be a hero through receiving the French hostage in Mali.
But by the Grace of Allah when she landed she was wearing Hijab and she shocked him by saying: welcome, I have become Muslim and my name is: Mariam.
Allah hu Akbar(Allah is greatest)
I guess now we know why macron hates Islam so much.

ये तस्वीर एक ईसाई नन सोफ़ी  (Sophie Petronin) की है। उत्तरी माली मे 2016 मे इनको अगवा कर लिया गया। फ्रांस से बार्गेनिंग होती रही आखिरकार आज जब ये रिहा होकर फ्रांस पहुंची तो एयरपोर्ट पर राष्ट्रपति खुद खुश-आमदीद कहने आए और इन्होंने ये कह के विस्फोट कर दिया कि मैं अब सोफ़ी नहीं मरियम हूँ। इस्लाम कुबूल कर लिया है।

मानवाधिकार की दुहाई देने वाले यूरोप में जब यही फ्रांस सर ढकने को प्रतिबंधित करता है तो उसका जवाब मरियम जैसी खातून देंगी मैं नहीं।

*#Note:*
As per Washington Post...
France’s population today is 67 million. French population is already about 10 percent Muslim, with about 6.7 million people. Islam is the fastest growing religion not in France  only but in whole Europe too.

*“....और तुम अपने परवरदिगार की कौन कौन सी ने'अमतों को झुटलाओगे...”*
*“.....So which of the favors of your Lord would you deny?.....”*

(55:25; Al-Qur’an)

Share:

Kya Biwi Shauhar ko Talaq de sakti hai ya khula le sakti hai?

Kya Biwi shauhar ko talaq de sakti hai?
Islam me talaq aur khula kya hai?
Kya Kisi bhi tanaja ka Wahid faisla Talaq hi hai?

سوال: گھریلو مسلہ طلاق دینا یا خلع لینا بیوی کا ؟
*جواب تحریری

خلع بیوی کے مطالبہ پر ہی ہوتا ہے اور بیوی کے مطالبہ کے بعد خاوند کا علیحدگی پر رضامند ہونے کو خلع کہتے ہے ۔
2 - خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے والی ہر عورت پر عدت واجب ہے یا پھر اس کے خاوند نے اسے طلاق یا فسخ نکاح اور یا وفات کی وجہ سے چھوڑ ا ہو لیکن اگر دخول سے قبل طلاق ہوئي ہو تو پھر عورت پر کوئي عدت نہیں اس لیے کہ فرمان باری تعالی ہے :

اے مومنوں ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان پر تہمارا عدت کا کوئي حق نہیں جسے تم شمار کرو  الاحزاب ( 49 ) ۔

3 - اور خلع کی عدت کے بارہ میں صحیح یہی ہے کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی اس کی دلیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے :

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود

حدیث نمبر ( 2229 ) اور امام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ربیع بنت عفراء سے حدیث بیان کی ہے سنن نسائي حدیث نمبر ( 3497 ) دونوں حدیثوں کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے جس کا ذکر آگے آۓ گا ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :

خلع حاصل کرنے والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا جو حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اس میں دو حکموں کی دلیل ہے :

پہلا:
یہ کہ اس عورت پر تین حيض عدت نہیں بلکہ اسے ایک حیض بطور عدت گزارنا ہی کافی ہے ، جس طرح کہ حدیث میں واضح اورصریح موجود ہے ۔

امیر المومنین عثمان بن عفان اورعبداللہ بن عمر بن خطاب اورربیع بنت معوذ اوران کے چچا جوکبار صحابہ کرام میں سے ہیں ان سب کا مسلک بھی یہی ہے ، اوران کا کوئي بھی مخالف نہیں ۔

لیث بن سعد ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ کے مولی نافع سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضي اللہ تعالی عنہ سے سنا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ کوبتا رہی تھیں کہ :

انہوں نے عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے دور میں اپنے خاوند سے خلع حاصل کیا تواس کے چچا عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے بنت معوذ نے آج اپنے خاوند سے خلع لے لیا ہے تو کیا وہ منتقل ہوجاۓ ؟ توعثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا جی ہاں وہ منتقل ہوجاۓ نہ تو ان دونوں کے درمیان کوئي وراثت ہے اورنہ ہی ایک حیض کے سوا کوئي عدت ہے ، صرف ایک حیض کے آنےتک وہ نکاح نہیں کرسکتی کہ کہيں اسے حمل ہی نہ ہو ، توعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما کہنے لگے : عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہم سے زيادہ علم والے اورہم سے بہتر تھے ۔

اسحاق بن راھویہ اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی ایک روایت میں جسے شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نےبھی اختیار کیا ہے کا بھی یہی مسلک ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ : اس کی تائید قواعد شرعیہ کا مقتضی ہے کہ تین حیض عدت تواس لیے رکھی گئي ہے کہ رجوع کرنے کی مدت لمبی ہوسکے اورخاوند کواس مدت کے اندرغور وفکر کرنے کا موقع ملے اورعدت کے اندر رجوع کرنا ممکن ہوسکے ۔

اورجب بیوي کےلیے رجعت اورواپسی ہے ہی نہيں توپھرعدت کا مقصد تو صرف استبراء رحم ہے جس کےلیے ایک حیض ہی کافی ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ : اس بارہ میں تین طلاق شدہ عورت کی عدت کےساتھ ہم پر کوئي عیب نہیں لگایا جاسکتا ، اس لیے کہ طلاق کے بارہ میں بائن اوررجعی کے بارہ میں عدت کا حکم ایک ہی رکھا گیا ہے ۔ دیکھیں زاد المعاد ( 5 / 196 / 197 ) ۔

اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ خلع والی عورت کی عدت بھی مطلقہ کی طرح تین حیض ہی ہے ، امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نےبڑے احسن انداز میں ان کا رد کرتے ہوۓ کہا ہے :

خلع طلاق نہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دخول کے بعد ہونے والی طلاق جواپنا عدد مکمل نہ کرسکے( یعنی تین طلاق نہ ہوں بلکہ تین سے کم ہوں ) اس پر تین احکام مرتب کیے ہیں جوکہ سب کے سب خلع میں نہيں پاۓ جاتے :

پہلا : یہ کہ خاوند کو اس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔

دوسرا :
اس کی تعداد تین ہے تو تین کا عدد مکمل ہونے پر وہ اس کے لیے حلال نہیں مگرجب وہ کسی اورمرد سے شادی کرے اوردخول کے بعد اس سے بھی طلاق ہوتو پھر پہلے کے لیے حلال ہوسکتی ہے ۔

تیسرا :
اس میں عدت تین حیض ہیں ۔

تویہ سب کچھ خلع میں نہیں ہے ، لھذا اس بنا پر ہم یہ کہيں گے کہ خلع لینے والی عورت کی عدت اتنی ہی رہے گی جس پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم دلالت کرتی ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہے ۔
محمد وقاص شیرازی فیصل آباد
__________________________
خواتین کےلئے اہم پیغام۔

راستہ الگ کرنے سے پہلے سوچ لیں۔
( *خواتین کے لیے*)

اگر  آپ کی نظر میں ازدواجی ذندگی کے مسائل کا آخری حل علیحدگی ہی ہے تو ایک بار ان مسائل کا ادراک بھی کر لیں*۔

📌  میکے میں کیا کیا مسائل پیش آ سکتے ہیں؟

*بسا اوقات خواتین کا روٹھ کر میکے جانے کا مقصد طلاق یا خلع نہیں ہوتا بلکہ وہ چند دن رہنا چاہتی ہیں اور یہ سوچتی ہیں کہ شوہر منا کر لے جائے گا۔کبھی والدین بیٹی کی شکایات کو انا کا مسئلہ بنا کر بیٹی کو روک لیتے ہیں تو کبھی شوہر بیگم کے روٹھ کر جانے کو مسئلہ بنا لیتا ہے اور خود ہی آئے گی اور خود ہی آئے گا سے بات بڑھتے بڑھتے علیحدگی تک جا پہنچتی ہے*۔

*لہذا کبھی بھی اپنا گھر چھوڑ کر جانے کی غلطی نہ کریں*۔

📌  *ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ کیا میکے والے آپ کے اس فیصلے کی تائید کریں گے*؟
📌 *میکے میں والدین کے علاوہ بھائی اور بھابھیاں آپ کے وہاں مستقل قیام سے خوش ہوں گی*؟
📌 *میکے میں بچوں کے درمیان ہونے والی لڑائیوں سے آپ کی وقعت کم تو نہ ہو گی*؟
📌 *جس طرح اب چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے میکے جانے پر آپ کا استقبال اور آؤ بھگت کی جاتی ہے مستقل رہنے کی صورت میں بھی ایسا ہی ہو گا*؟
📌  *سب سے بڑا مسئلہ اخراجات کا ہو گا کیا میکے والے ہمیشہ آپ کا ساتھ دے پائیں گے*؟
📌 *اگر آپ خود کماتی ہیں تو کیا یہ آمدن کافی ہو گی*؟
📌 *بچوں کا کیا مستقبل ہو گا*؟
📌  *کیا آپ بچوں کے بغیر رہ پائیں گی*؟

*میاں بیوی کے درمیان بہت سنجیدہ قسم کے مسائل بھی ہو جاتے ہیں لیکن علیحدگی کی صورت میں اوپر لکھے گئے مسائل اس سے بھی کہیں شدید ہوتے ہیں جب آہستہ آہستہ میکے میں آپ کی جگہ کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے*۔

علیحدگی کے بعد عموماً والدین دوسری شادی پر زور دیتے ہیں لیکن کیا دوسرا شوہرآپ کے بچوں کو قبول کرے گا۔

( طلاق یافتہ مرد حضرات کی 99% تعداد بغیر بچوں کی خاتون سے شادی کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ اپنے اور خاتون کے بچوں کو ایک جگہ رکھ کر تناؤ کی کیفیت نہیں بنانا چاہتے۔ خاتون کے بچوں کے اخراجات ایک اضافی بوجھ ہوتے ہیں)

  اس لیے عزیز بہن اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں۔

  مکمل دیانت داری کے ساتھ شوہر کی خوبیوں اور خامیوں کو دیکھیں اگر خوبیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو ساتھ رہنا ہی بہترین فیصلہ ہے۔
  اپنی خامیوں پر بھی قابو پانے کی کوشش کریں۔
  اور سب سے اہم یہ کہ ماضی کی تلخ یادوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کرتے ہوئے بہت ہمت اور حوصلے کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیجئے۔

محبت اور خلوص سے اس رشتے کو مضبوط کیجئے۔

Share:

Sham ke waqt Ghar me Jhhadu lagane se barkat khatam ho jati hai.

Kya Sham ko ghar me jhhadu nahi lagana chahiye?
Kya rat me Jhhadu lagane se ghar ki barkat khatam ho jati hai?
क्या शाम के वक्त झाड़ू लगाने से घर में बरकत नहीं होती है?
कुछ लोगो का कहना है के मगरिब के बाद घर में झाडू नहीं देना चाहिए, असर के वक्त तक दे देना चाहिए। रात को झाड़ू देने से रिज्क में कमी होती है।
क्या इसकी कोई शरई हैसियत है वजाहत फरमा दें।
क्या इसलाम शाम के वक्त घर में झाडू लगाने से मना करता है या यह मंघरत बातें है।

*السلام و علیکم!*

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مغرب کے بعد گھر میں جھاڑو نہیں دینا چاہیے عصر ٹائم تک دے لینا چاہیے ایسے رات کو جھاڑو دینے سے رزق میں کمی ہوتی ہے اسکی کوئی شرعی حثییت ہے وضاحت فرما دیں؟

*جواب تحریری

#ایــک_غلــط_ســوچ

لوگوں میں ایک بات مشہور ہے کہ شام کو جھاڑو لگانا غلط ہے، عصر کے بعد جھاڑو لگانا یا صفائی کرنا ممنوع ہے۔ سورج ڈھل جانے کے بعد جھاڑو لگانا بد قسمتی لاتا ہے۔ عصر کے بعد یا مغرب سے پہلے اگر گھر کے صحن میں یا اندر جھاڑو لگائی تو تنگ دستی پیدا ہو جائے گی اور رزق میں کمی ہو جائے گی مغرب کی اذان کے بعد جھاڑو لگانے سے گھر میں فاقے شروع ہو جائیں گے یہ ایک غلط سوچ ہے...!!!!

اَصل میں شام کے وقت جھاڑو نہ لگانے سے متعلق عقیدہ خالصتاً ہندوؤں سے آیا ہے۔ چونکہ ہندو دھرم کے مطابق شام کا وقت ان کی لکشمی دیوی کے آنے کا ہوتا ہے تو سورج ڈھل جانے کے بعد جھاڑو لگانے سے "لکشمی دیوی" ناراض ہو جاتی ہے اور وہ گھر میں نہیں آتی جس وجہ سے اس گھر والوں کے اوپر بد قسمتی آتی ہے...!!!!

شام کے وقت جبکہ لکشمی دیوی گھر میں آ چکی ہو اور پوجا پاٹ مکمل کی جا چکی ہو تو اس کے بعد جھاڑو لگانا ممنوع ہے کیونکہ اگر اس وقت جھاڑو لگایا گیا تو لکشمی دیوی گھر سے چلی جائے گی جس کا مطلب ہندو دھرم کے عقیدے کے مطابق یہ ہے کہ گھر سے لکشمی یعنی "دولت" اور قیمتی اشیاء کے ضائع ہو جانے کی امید ہے...!!!!
(کتاب از مسز انجالی گڈگِل ۲۰۰۷ء)

گھر میں جھاڑو پونچھا دن کے وقت کرنا چاہیے شام کو یا رات کو جھاڑو دینے سے گھر میں "منفی اثرات" یا "بری قوتیں" داخل ہو جاتی ہیں اسی لیے کسی کو بھی شام کے وقت جھاڑو دینا منع ہے...!!!!
( لکشمی دیوی - از: ویداس)

پرانے زمانے میں جب بجلی نہیں ہوتی تھی اور دیا وغیرہ جلایا جاتا تھا تو بڑے کہتے تھے سورج ڈھل جانے کے بعد جھاڑو مت دو کیونکہ اس سے اندیشہ ھے کہ کوئی قیمتی چیز اندھیرے کی وجہ سے جھاڑو سمیت کوڑے میں چلی جائے یا گم ہو جائے مگر ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق لکشمی (دولت) جھاڑو سے باہر چلی جاتی ہے۔ یہ دوسرے نظریّہ سے دھرمی عقیدہ بھی رکھتا ھے کہ لکشمی دیوی ناراض ہو کر چلی جائے گی کہ شاید اس دیوی کو دُھول مٹی سے کوئی مسئلہ ہے...!!!!

     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
                    ❞صفائی نصف ایمان ہے❝

لہٰذا صبح ہو یا شام، رات ہو یا دن ہر وقت جب صفائی کی ضرورت پڑے تو اسے کرنا چاہیے۔ یہی اِسلام کی منشا ہے...!!!!

تو معلوم ہوا کہ اس درج بالا عقیدے کی بنیاد غیر اسلامی ہے اور مسلمانوں کو ایسے عقائد رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ چونکہ ایسے عقائد کی تعلیمات برِصغیر کے مسلمانوں میں ہندوؤں سے آئی ہیں تو ایسی سوچ رکھنا گناہ کا سبب بھی ہو گی۔ اللّٰهﷻ ہم سب کو غیر اسلامی عقائد سے بچائے اور ہمیں ہدایت دے کہ ہم اپنی اگلی نسلوں تک ایسے عقیدے نہ پہنچائیں، آمین یارب العٰلّمین...!!!!

Share:

Kya Auratein Qabaristan (Graveyard) Me ja sakti hai?

kya Auratein Qabaristan me ja sakti hai?
Kya Khawateen Qabaristan me ja sakti hai?
can Women's visit graveyard?
क्या इसलाम औरतों क़ब्रिस्तान मै जाने से मना करता है?
क्या मुस्लिम खवातीन क़ब्रिस्तान में जा सकती है?
k
औरतों के लिए क़ब्रिस्तान कि जियारत का हुक्म।

عورتوں کے لئے قبرستان کی زیارت کا حکم
================
عورتوں کا زیارت قبور کی نیت سے قبرستان جانا جائز اور مستحسن امر ہے، بہ شرطے کہ شرعی آداب و حدود کو ملحوظ رکھا جائے، یعنی ستر و حجاب سے متعلق احکام کی پابندی کی جائے اور نالہ و شیون سے گریز کیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے اول اول مرد و زن ہر دو کو قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا، لیکن بعدازاں یہ ممانعت ختم کردی اور فرمایا:
’کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور ألا فزوروہا فانہا ترق القلب، وتدمع العین وتذکر الآخرۃ… الحدیث (مستدرک الحاکم:376/1)
’’میں نے تمہیں زیارت قبور سے روکا تھا، لیکن اب تم ان کی زیارت کیا کرو کہ اس سے رقت قلب پیدا ہوتی ہے، آنکھیں پرنم ہوتی ہیں اور آخرت کی یاد آتی ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ جس طرح ممانعت مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں تھی، اسی طرح اب زیارت قبور کا حکم بھی دونوں ہی کے لیے ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے زیارت قبور کے جو مقاصد اور حکمتیں بیان فرمائی ہیں، خواتین کو بھی ان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ مردوں کو، لہٰذا اگر وہ ان کے پیش نظر قبرستان جانا چاہیں، تو انہیں کیوں کر روکا جا سکتا ہے؟

اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی موقف ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ
ایک مرتبہ سیدہ اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قبر سے واپس آرہی تھیں کہ عبداللہ بن ابی ملیکہ نے استفسار کیا کہ کیا رسول خدا ﷺ نے زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا؟ ام المومنین نے جواب دیا: ہاں یہ درست ہے، لیکن بعدازاں آپ ﷺ نے اس کی رخصت مرحمت فرما دی تھی۔ (مستدرک الحاکم:376/1)

اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ قبروں کے پاس کیا کہنا چاہیے، تو آں حضرت ﷺ نے یہ کلمات سکھلائے:
السَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ، وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ(مسلم:974)
’’اے ان گھروں والے مومنو اور مسلمانو! تم پر سلامتی ہو۔ ہم میں سے آگے جانے والوں اور پیچھے رہنے والوں پر خدا سلامتی فرمائے اور خدا نے چاہا تو ہم بھی جلد ہی تمھیں ملنے والے ہیں۔‘‘
اس سے استدلال یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ نہیں فرمایاکہ عورتوں کے لیے تو زیارت قبور ہی ممنوع ہے پھر دعا کا سوال کیسا؟ بل کہ آپ ﷺ نے انھیں باقاعدہ دعا بتلائی جس سے عورتوں کے لیے زیارتِ قبور کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک خاتون کے پاس سے گزرے جو قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی، تو آنحضور ﷺ نے فرمایا:
’اتقی اللہ واصبری‘ ، یعنی ’اللہ سے ڈرو اور صبر سے کام لو۔‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس سے عورتوں کے لیے زیارت قبور کا اثبات ہوتا ہے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی اور آں حضرت ﷺ کی تقریر یعنی کسی کام کو دیکھ کر خاموش رہنا اور منع نہ فرمانا بھی حجت ہے۔
چونکہ اس سلسلہ میں منع والی بھی روایت ہے ۔ ’لعن رسول اللہ زائرات القبور‘
یعنی ’رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘
امام قرطبی دونوں قسم کی احادیث مبارکہ میں تطبیق دیتے ہوئے اور منع کی حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اللعن المذكور في الحديث إنما هو للمكثرات من الزيارة لما تقتضيه الصيغة من المبالغة ولعل السبب ما يفضي إليه ذلك من تضييع حق الزوج والتبرج وما ينشأ من الصياح ونحو ذلك، فقد يقال: إذا أمن جميع ذلك فلا مانع من الإذن لهن، لأن تذكر الموت يحتاج إليه الرجال والنساء۔ انتهى۔ قال الشوكاني رحمه الله: وهذا الكلام هو الذي ينبغي اعتماده في الجمع بين أحاديث الباب المتعارضة في الظاهر ۔۔۔ نیل الاوطار: 4؍ 117 (دار احیاء التراث العربی)
اس حدیث (لعن اللہ زوارات القبور) میں لعنت کا تعلق صرف ان عورتوں سے ہے، جو کثرت سے قبروں کی زیارت کرتی ہیں، اسی لئے اس حدیث مبارکہ میں مبالغہ کا صیغہ (زوارات) استعمال کیا گیا ہے، اور شائد کہ کثرت سے عورتوں کی قبروں سے زیادت کے ممنوع کی وجوہات یہ ہیں: اس میں شوہر کا حق پامال ہوتا ہے، اور پھر کثرت زیارت قبور سے عورتوں کی زیب و زینت کا اظہار ہوتا ہے اور اسی طرح ان کا چیخ و پکار کرنا وغیرہ وغیرہ، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی خاتون ان خرابیوں سے اجتناب کرے تو اس کیلئے زیارت قبور کی ممانعت نہیں، کیونکہ موت کو یاد کرنے کی ضرورت جس طرح مردوں کو ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہے۔‘‘

امام شوکانیؒ امام قرطبیؒ کے قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس بارے میں احادیث کے ظاہری تعارض کو حل کرنے کیلئے امام قرطبیؒ کی یہ تطبیق بہت اچھی اور قابل اعتماد ہے۔
اس ضمن میں محدث زماں علامہ ناصر البانی رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ اس حدیث میں ’زائرات‘ کے بجاے ’زوّارات‘ کا لفظ درست ہے ۔ اس صور ت میں حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ آں حضرت ﷺ نے اُن عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت کے ساتھ قبروں کی زیارت کرتی ہیں۔چنانچہ خواتین کو بہت زیادہ قبرستان میں نہیں جانا چاہیے، البتہ کبھی کبھار قبروں کی زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

واللہ أعلم

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS