Kya Imam Ke pichhe Surah Fatiha padhna jaruri hai?
Kya Bagair Surah Fatiha padhe Namaj ho sakti hai?
Surah ke Bagair kya Namaj Qubool ho sakti hai?
Sawal : Assalamu alaikum imam ke piche muktadi ko bhi Surah Fatiha padhni chahiya is ki hadees send kar den please?
सवाल: क्या इमाम के पीछे मुक्तादी को भी सूरह फातिहा पढ़नी चाहिए?
क्या सुराह फातिहा के बगैर नमाज काबिल ए कुबूल है?
*جواب تحریری
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته.
*امام کے پیچھے مقتدی کا سورہ فاتحہ پڑھنا*
1- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ عالی شان ہے:
لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ
( سورۂ فاتحہ کے بغیر کسی شخص کی کوئی نماز نہیں )
(صحیح البخاری، کتاب الصلوۃ، حدیث:۷۱۴)
2- سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک نماز پڑھائی۔ پس جب آپ نے نماز پوری کی تو ان کی طرف چہرۂ مبارک کرتے ہوئے فرمایا:’’کیا تم اپنی نماز میں پڑتے ہو جبکہ امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟۔‘‘ تو وہ خاموش ہوگئے، آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی، تو ایک یا کئی اشخاص نے کہا:’’بیشک ہم ایسا کرتے ہیں۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:’’پس ایسا نہ کرو، اور تم میں سے ہر شخص سورۂ فاتحہ اپنے دل میں پڑھے۔‘‘
(جزء القرأۃ لامام بخاری رحمہ اللہ، حدیث: ۲۵۵، اس حدیث کی سند بالکل صحیح اور متن بالکل محفوظ ہے۔امام ابن حِبان[المتوفیٰ:۳۵۴ھ]نے صحیح ابن حبان(حدیث:۱۸۵۲) میں اور حافظ ہیثمی[المتوفیٰ:۸۰۷ھ]نے مجمع الزوائد (حدیث:۲۶۴۲)میں اس کی تصحیح کی ہے۔نیز دیکھئے الکواکب الدریہ لحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، ص۴۱)
3- سیدنا عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز پڑھائی جس میں قرأۃ کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا:’’جب میں جہر کے ساتھ کررہا ہوتا ہوں، تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورۂ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے۔‘‘
(سنن نسائی، کتاب الافتتاع، حدیث: ۹۲۱۔ دارقطنی، حدیث:۱۲۰۷۔جزء القرأۃ، حدیث:۶۵۔ اس حدیث کو امام بیہقی [المتوفیٰ:۴۵۸ھ]دارقطنی [المتوفیٰ:۳۸۵ھ]وغیرہ نے صحیح کہا ہے ، دیکھئے الکواکب الدریہ، ص۵۰ تا۵۵)
4- سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’[اے صحابہ!] تم میرے پیچھے پڑھتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا،’’جی ہاں! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا :’’کچھ نہ پڑھوسوائے سورۂ فاتحہ کے۔‘‘
(جزء القرأۃ،حدیث:۶۳)
یہ حدیث ’’عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ‘‘ کی سند سے ہیں ، جو صحیح سند ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [المتوفیٰ:۷۲۸ھ] فرماتے ہیں:
’’ائمہ اسلام اور جمہور علماء کے نزدیک اگر عمرو بن شعیب تک سند صحیح ہو تو ان کی عن ابیہ عن جدہ والی روایت حجت ہوتی ہے۔‘‘
(مجموع الفتاویٰ، الحدیث، سُئل شیخ الاسلام عن الحدیث: تعریفہ و اقسامہ ج۱۸ص۸)
عبدالرشید نعمانی دیوبندی لکھتے ہیں:
’’ اکثر محدثین عمرو بن شعیب کی ان حدیثوں کو (جو عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ہو)حجت مانتے ہیںاور صحیح سمجھتے ہیں۔‘‘
(ابن ماجہ اور علم الحدیث،ص۱۴۱،مکتبہ الحق دیوبند)
(نیز دیکھئے الکواکب۔۔ص۵۶)
5- سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی آپ پر قراء ت بھاری ہوگئی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ’’میں تمہیں دیکھتا ہوںکہ تم امام کے پیچھے( قرآن )پڑھتے ہو؟‘‘عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ ہم لوگوں نے عرض کیا : ’’یا رسولَ اللہ !(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کی قسم ہم پڑھتے ہیں۔‘‘ فرمایا:
’’لَا تَفْعَلُوْا اِلَّا بِاُمِ الْقُرْآنِ فَاِنَّہُ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأَ بِھَا
(ایسا مت کرو مگر ہاں ام القرآن یعنی سورۂ فاتحہ پڑھو اور کچھ نہ پڑھو، کیونکہ جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی اسکی نماز نہیں ہوتی)
(حوالجات: مسنداحمد: حدیث۲۳۱۲۵واللفظ لہ۔سنن ابی داؤد: حدیث۸۲۳۔ ترمذی، حدیث: ۳۱۱۔جزء القرأۃ،حدیث: ۲۵۷۔ دارقطنی، حدیث: ۱۲۰۰۔ مستدرک الحاکم، حدیث: ۸۶۹۔ صحیح ابن خزیمہ)
No comments:
Post a Comment