find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Jamiat Ul Islam. Show all posts
Showing posts with label Jamiat Ul Islam. Show all posts

Sahab Aajkal Urdu Akhbar Padhta kaun hai?

Sahab Urdu Akhbar Padhta kaun hai?
Aajkal Urdu News paper padhne walo ki tadad itni kam kyu hoti ja rahi hai?
Written by Abdus Salaam Nadawi.


صاحب اردو اخبار پڑھتا کون ہے

تحریر ۔حافظ عبدالسلام ندوی
گزشتہ دنوں جب میرا شہر مظفرپور کےایک بڑے ہسپتال میں اہلیہ کے علاج کے سلسلہ میں جانا ہوا تو صبح سویرے اردو اخبار کی تلاش میں نکلا،امید تھی کہ کوئی نہ کوئی اردو اخبار ضرور ہاتھ لگےگا،لیکن تلاش بسیار کے باوجود ناکامی ہی ہاتھ لگی،جتنے اخبار بیچنے والوں سے دریافت کرتا سبکا ایک ہی جواب ہوتا"صاحب اب اردو اخبار پڑھتا کون ہے"،یہ جملہ میرے دل میں تیر کی مانند چبھتا اور باربار اسے زخمی کر دیتا، میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ آخر اردو اخبار کے قارئین اس قدر کم کیوں ہوگئے، جبکہ اسی زبان نے صحافت اور پرنٹ میڈیا کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایاہے، اور اسکی اہمیت اس قدر دوبالا کی ہے کہ دور حاضر کو میڈیا کا دور کہا جانے لگا ہے،
اس وقت پورے ہندوستان میں زائد از پچاس اردو اخبارات اور روزنامے شائع ہوتے ہیں، ان میں اکثر اخبارات بڑے بڑے قلمکاروں کے مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں اور دیدہ زیب طباعت میں شائع ہوتے ہیں، لیکن اسے اردو اخبارات کی حرماں نصیبی ہی کہی جاسکتی ہے کہ اس قدر اہتمام سے شائع ہونے کے باوجود اسکے قارئین کی تعداد حیرت انگیز طور پر روز افزوں گھٹتی جارہی ہے، یہاں تک کہ مسلم تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس سے روگردانی اختیار کر رہا ہے، بیشک اردو نہ تو مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے اور نہ ہی اردو اخبار کی ابتدا مسلمانوں نے کی ہے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو صحافت کو بام بلند تک پہنچانے والے مسلمان ہی ہیں، آزادی سے قبل 1857 کی بغاوت میں مولوی محمد باقر کے ‘دہلی اردو اخبار’ جمیل الدین ہجر کے ‘صادق الاخبار’ اور مرزا بیدار بخت کے اخبار ‘پیام آزادی’ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، اور فرنگی راج کے خلاف ہندوستانی عوام کے دلوں میں نفرت اور غم و غصہ کے جذبے کو بیدار کیا تھا، جس کے نتیجے میں ملک کو سامراجی استبداد سے رہائی ملی، آزادی کے بعد بھی  مسلمانوں نے ہی سب سے زیادہ اردو صحافت کی خدمت  انجام دی ہے، اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے، یہاں کوئی یہ باور نہ کرے کہ بار بار مسلمانوں کا ذکر کرکے میں گنگا جمنی تہذیب اور قومی یکجہتی کی اس زبان کو ہندو مسلم کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن ملک میں اس زبان کے ساتھ حکومتی سطح پر جس طرح سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے، اسے مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں غیر قوم سے اس زبان کے حق میں کسی خیر کی امید کرنا بےسود ہے، الا ماشاءاللہ، لہذا مسلمانوں پر یہ ذمہ داری سب سے پہلے عائد ہوتی ہے کہ وہ اردو صحافت کو ترقی دینے کے لیے کوشاں ہوں، اور ملک کے جس گوشہ میں بھی وہ بودوباش اختیار کررہے ہوں، اردو اخبار جاری کرانے کی کوشش ضرور کریں، تاکہ کسی اخبار بیچنے والے کو یہ کہنا نہ پڑے کہ "صاحب اردو اخبار اب پڑھتا کون ہے،" علاوہ ازیں کسی بھی اخبار کی ترقی میں سرمایہ سب سے اہم رول ادا کرتا ہے، اسکے لئے آپ غیر نفع بخش صحافتی اداروں کو ڈونیٹ بھی کرسکتے ہیں، لیکن اس سے کہیں بہتر اور باوقار طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے اشتہارات اردو اخبارات میں شائع کرائیں، اور بڑی بڑی کمپنیوں کی توجہ بھی اس جانب راغب کریں، تاکہ انکے معاوضہ میں حاصل شدہ سرمایہ سے اردو صحافت کی جدیدکاری کا عمل بھی انجام دیا جاسکے، الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں پرنٹ میڈیا کو جب تک جدید آرائشوں سے مزین نہیں کیا جائیگا، تب تک اس میں قارئین کے لئے دلچسپی کا سامان پیدا نہیں ہوگا، اسی کے ساتھ اخبارات کے ذمہ داروں کو بھی مشہور صحافی ومجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کے بتائے ہوئے یہ دو رہنما اصول ہمیشہ یاد رکھنے چاہئے کہ اخبار کا مقصد یہ ہوکہ اپنی قوم کو فائدہ پہنچایا جائے نہ کہ کسی غیر قوم کو نقصان پہنچایا جائے، اور اخبار خبروں کا مجموعہ ہوتا ہے، لہذا زیادہ تر خبروں کا مجموعہ ہونا چاہیے،

Share:

Maulana Shafi Ahmad Islahi Ek Yadgaar Shakhsiyat.

Maulana Shafi Ahmad Islahi Ke Halat-E-Zindagi Pe Ek Najer

مولانا شفیع احمد اصلاحی ایک یادگار شخصیت
قومی تنظیم 22 دسمبر 2006 پٹنہ
ڈاکٹراسلم  جاویداں مدیر ندائے پاسدار پٹنہ
پیشکش - محترمہ قدسیہ مظفر صاحبہ
زندگی کے گزرتے ہوئے ماہ و سال میں کچھ  ایسی شخصیتیں    بھی یادوں کے پردے سے گزرتی ہیں ,جنہیں بھلانا آسان نہیں ہوتا, ان کی شخصیت ان کے برتاؤ اور ان کی خدمات کا تاثر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ ان کو ذہن کے پردے سے کھرچ کر بھی نہیں نکالا جاسکتا ہے بقول  کلیم عاجز
کچھ ایسے بھی ہیں جن کو بھلانا نہیں ممکن
روکو کے خیالوں سے تو خوابوں میں ملیں گے
ایسی ہی ایک یادگارشخصیت مولانا شفیع احمد اصلاحی کی بھی ہے ,چھوٹا قد ,گہرا گندمی رنگ, نیم چند لاسر, چمکتی پیشانی, روشن آنکھیں ,مسکراتا چہرہ ,پان کی سرخی سے دہکتے ہونٹ, سفید مخروطی داڑھی, لمبا کرتا, اٹنگ علیگڑھ پاجامہ, پیروں میں سلیم شاہی جوتے,  ہلکا کساہوا گول بدن, بغل میں بیگ دبائے یا پھر ہاتھوں میں تھیلا لٹکائے سست رفتاری سے چلتے ہوئے یاپھر رکشے پر کسی معاون کے ساتھ سوار ملاقاتیوں کو دیکھ کر رکشہ رکواتے ہوئے, ملتے ملاتے ہوئے ,مصافحہ کرتے ہوئے, خیریت پوچھتے ہوئے چلے آ رہے ہیں, یہ ہیں مولانا شفیع احمد اصلاحی مدظلہ العالی مولانا شفیع احمد اصلاحی کے خاندانی حالات اور ان کے حالات اور ان کی وراثتی پس منظر سےمیں واقف نہیں ہوں, میں نے جب سے ہوش سنبھالا اور درزی ٹولہ کی جامع مسجد میں اپنے والد اور بھائی جان مرحومین کے ساتھ جانا شروع کیا تب میں نے انہیں پہلی بار دیکھا تھا یہ بات 1961-62 کی ہے ,ماہ رمضان میں عصر کی نماز کے بعد پانچ منٹ کی تبلیغی تقریر ہوا کرتی تھی ,اس میں اکثر مولانا شفیع احمد اصلاحی خطاب کرتے, مولانا جس موضوع کو اٹھاتے ,کم وقت اور کم الفاظ میں بتدریج منتہائے مقصود تک پہنچا دیتے, جب تقریر شروع کرتے تو نہایت دھیمے لہجے میں اپنی باتیں پیش کرتے ایسا لگتا کہ کچھ سنائی دے رہا ہے اور کچھ سنائی نہیں دے رہا ہے, چند ہی سیکنڈوں میں لوگ ہمہ تن گوش ہو کر ان کی بات پر کان دھرنے کی کوشش کرتے اور حاضرین پر سکوت طاری ہو جاتی, یہ لوگوں کو اپنی طرف مرکوز کرنے کی ان کی ایک نفسیاتی تکنیک تھی, اس کے بعد ان کا لہجہ بتدریج بلند ہوتا جاتا اور اس بے ساختگی اور روانی کے ساتھ تخلیق کرتے کہ بات دل میں اترتی جاتی ان کا تو بھاری بھرکم الفاظ نہ بیان کی پیچیدگی نہ خاصا تھا درزی ٹولہ کے چمن منزل جامع مسجد میں مرد و خواتین کے مشترکہ جلسوں میں ان کی تقریر بڑی لاجواب اور دل پذیر ہوتی ,لوگ جب کسی موقع پر اپنے یہاں وعظ و نصیحت کی محفلیں منعقد کرتے تو شفیع احمد صاحب کی قیمتی اور اثر انگیز تقریر کے سبب ان کو ضرور مدعو کرتے, اور لوگ ان کی تقریر سے کافی متاثر ومستفیض ہوتے ,رمضان کے مہینے میں ہر دن مسجد کے باہر بورڈ پر مولانا موصوف کوئی اصلاحی پیغام یا حدیث یا قرآن کی آیات کا ترجمہ لکھ دیتے گویا وہ اس دن کا سبق ہوتا, اکثر و بیشتر وہ قیمتی اور حکیمانہ اشعار بھی تحریر فرما دیتے ,میں روزانہ اس بورڈ کو تاکید سے پڑھا کرتا اور انہیں یاد رکھنے کی کوشش کرتا ,اس زمانے کی یاد کردہ چند اشعار آپ بھی سن لیں
  عشق کا دعوی زبانی کر کے میں بھی تھا مطمئن
درس عبرت دے گیا جل جل کے پروانہ مجھے امید نہ رکھ دولت  دنیا سے وفا کی زم اس طبیعت میں ہے مانند غزالہ 
ایسے نہ جانے کتنے اشعار شفیع احمد اصلاحی نے بورڈ پر لکھ کر ہم لوگوں کے دل پر رقم کر دیے ہیں ان کے اندر درس و تدریس کے علاوہ ترتیب و تصنیف و تالیف کا ملکہ بدرجہ اتم موجود تھا ان کی یہ صلاحیت کا جوہر ان کی تصنیف و تالیف کردہ درجنوں کتابچوں میں ملتا ہے جو وہ ہرایک یا دو ماہ کے بعد ترتیب دے کر منظر عام پر لاتے تھے, اور لوگ بڑے شوق سے انہیں خرید لیا کرتے تھے ,بعض اوقات مفت بھی تقسیم کیا کرتے تھے ,جن میں چند مشہور یہ ہیں دجال کے فتنے دجال کے ہتھکنڈے گلدستہ اشعار آواز جرس نصیحت کے پھول چہل حدیث وغیرہ.
Share:

India Ke Musalmano ki Maji Aur Mustakbil.

Indian Muslim's Ke Haalat (Maji Aur Mustakbil Me)

مجہےرہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے
✍ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
(تازہ ترین نیوزگروپ)
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم۔ کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب"
ہمیں خود احتسابی سے کام لینا چاہئے ہم نے قومی اور ملی تاریخ میں کئی بھیانک غلطیاں کی ہیں اور ٹھوکریں کھائی ہیں ، اگر علت ومعلول کے درمیان تعلق درست ہے تو ہم کہ سکتے ہیں کہ آج مسلمانوں کی زار وزبوں حالت ان ہی غلطیوں کی وجہ سے ہوئی ہے جو ہم نے ماضی میں کی تھیں ،غلطیوں کا تذکرہ اگر چہ خوشگوار نہیں لیکن یہ آتش خانہ دل کی گرمی ہے جو فکر کو پگھلاکر روشنائی بنادیتی ہے اور پھریہ روشنائی کاغذ پر پھیل جاتی ہے ،خون دل کی روشنائی سے مضامین نقطہ نظر کو بدلنے کے لئے یا ان میں اصلاح کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ فکر جب تک درست نہیں ہوگی ہماری کوششوں کا رخ صحیح نہیں ہوگا۔ اچھے کردار کے سوتے ہمیشہ صحیح نقطہ نظرسے پھوٹتے ہیں، اس لئے اجتماعی معاملات میں اپنے نقطہ نظر کو درست رکھنا بہت ضروری ہے۔اگر ہم صرف ایک صدی کی غلطیوں کی بے حد مختصر فہرست بندی کریں گے تو ہمیں چار مہلک غلطیاں نظر آئیں گی ، پہلے نمبر پرپاکستان کی تشکیل کو رکھنا پڑے گا۔ اگر چہ اس غلطی میں برادران وطن کی غلطیوں اور ناروا سلوک کا بھی ہاتھ ہے *لیکن مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے آیا تھا* اور وہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’ شامل ہے مرا خون جگر تیری حنا میں ‘‘جنہوں نے پاکستان بنایا تھا وہ پاکستان جاچکے ، اب یہ قصہ ماضی ہے۔ لیکن برادران وطن کے دلوں میں اس کا زخم تازہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کی دیوار اب بھی حائل ہے۔اور اس دیوار کے اذیت ناک سایے آج بھی مسلمانوں پر پڑتے ہیں اور اذیت پہونچاتے ہیں۔
*دوسری مہلک غلطی جو مسلمانوں نے کی وہ بابری مسجد کی بازیابی سے متعلق تھی* بابری مسجد کا مسئلہ ۱۹۹۰ کے آس پاس کوہ آتش فشاں بن گیا تھا اور اب بھی ہم کوہ آتش فشاں کے دہانے پر ہیں ، اس کے سلسہ میں مولانا علی میاں اور مولانا عبد الکریم پاریکھ اور یونس سلیم صاحب سابق گورنربہار غیر مسلموں اور برادران وطن کے مذہبی قائدین سے مل کر مسئلہ کے حل تک پہونچ گئے تھے مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے مسٹر چندر شیکھر کے کہنے پرمولانا علی میاں کا نام تجویز ہوا تھاجنہوں نے پورے ملک میں پیام انسانیت کی تحریک چلائی تھی، ہندو اکثریت کی نمائندگی کے لئے کانچی پورم کے شنکر آچاریہ کا نام تجویز کیا گیا تھا وی پی سنگھ نے زمین کے سلسلہ میں آرڈننس پاس کردیا تھا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا ، آندھرا پردیِش کے گورنر کرشن کانت صاحب جو بعد میں نائب صدر جمہوریہ ہوئے اور جینی مذہب کے سوشیل منی اور ہندووں کے سب سے بڑے گرو شنکر آچاریہ آنند سرسوتی نے حل کو منظور ی دے دی تھی *اور حل یہ تھا کہ بابری مسجد اپنی جگہ پر رہے گی,کچھ عرصہ کے بعد مورتیاں ہٹائی جائیں گی، اسے نماز کیلئے کھول دیا جائے گا مسجد کے چاروں طرف تیس فٹ کا تالاب رہے گا اور اس کے بعد ریلنگ ہو گی اور ضرورت پڑنے پر اس پر کرنٹ دوڑایا جائے گا ۔ اس کے بعد جو بابری مسجد وقف کی زمین ہو گی اس پر رام مندر تعمیر کرلیا جائے گا اور مسلمان اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے۔ لیکن لکیر کے فقیر علماء نے اور بابری مسجد ایکشن کیمیٹی نے اس حل پر اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ آسمان سر پر اٹھا لیا۔ مجبور"ا مولانا علی میاں اور مولانا پاریکھ صاحب کو صلح کے فارمولے سے دستبردار ہوجانا پڑا،شور و غوغا کرنے والوں میں وہ جامد الفکر اور بے شعور متصلب علماء تھے جن کا کہنا تھا کہ ہم وقف کی ایک انچ زمین رام مندر کے حوالہ نہیں کرسکتے ہیں اوروہ اصول فقہ کے حوالے دے رہے تھے جیسے کہ ہم بنی امیہ اور بنی عباس کے عہد میں جی رہے ہوں،اور کسی دار الاسلام میں رہتے ہوں، حالانکہ دعوتی نقطہ نظر سے باہمی احترام واعتماد کی فضا پیدا کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک کے علماء فقہ الاقلیات سے متعلق اپنی رائے میں لچک رکھتے ہیں اور جو ملک دار الاسلام نہ ہو وہاں کے بعض فقہی مسائل میں دفع مضرت کے تحت نرمی اختیار کرنے کے قائل ہیں*
آج بابری مسجد کا وجود ختم ہوچکا ہے اور آئندہ اس کی تعمیر کا بھی کوئی امکان نہیں ہے ، اور اس کے لئے ہزاروں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
*کوئی بتائے کہ آخر یہ خون دوعالم کس کی گردن پر ہے؟*
مسلم قیادت کی تیسری غلطی تین طلاق سے متعلق ہے۔ماضی بعید اور ماضی قریب کی غلطیوں کے ذکر کے بعد اب حال کی غلطی پرسنجیدگی اور غیر جانب داری کے ساتھ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تین طلاق کے سلسلہ میں بورڈ کے اسٹینڈکے خلاف آیاہے۔ بورڈ سے یہاں بھی غلطی سرزد ہوئی ہے۔بورڈ کے صدر عالی مقام اپنی متانت اور شرافت اور مرنجان مرنج طبیعت کی وجہ سے بورڈ کے عہدہ داران کی غلطیوں کو نظر اندازکرتے ہیں وہ ملک کے صدر جمہوریہ کے مانند ہیں جو عام طور پر حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے صدرکی نرم مزاجی اور تحمل کی وجہ سے بورڈاکثر وہ فیصلے کرلیتا ہے جس سے صدر کو اتفاق نہیں ہوتا ہے۔ بورڈ کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ *جب بورڈ کے دامن اجتماعیت میں مختلف مسلک ومشرب کے لوگ ہیں تو آخر بورڈ کو کورٹ میں حنفی مسلک کے وکیل اور ترجمان بننے کی کیا ضرورت تھی* اگر بورڈ جواب میں یہ کہتا ہے کہ ملک میں غالب اکثریت اہل سنت والجماعت کی ہے اور حنفی مسلک والوں کی ہے تو یہی دلیل تو بی جے پی کے پاس ہے کہ چونکہ ہندووں کی اکثریت ہے اس لئے یہ ملک ہندووں کا ہے اور ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کو مسلط کرنا درست ہے۔ بورڈ کا موقف اس بارہ خاص میں قرین عقل بھی نہیں ہے اور قرین انصاف بھی نہیں ہے آخر یہ کیسا انصاف ہے جس میں ظالم کوکوڑے نہیں مارے جاتے جیسا کہ حضرت عمر مارتے تھے اور نہ اس میں مظلوم کی جراحت دل کے لئے کوئی پرسش غم ہے اور اس پر تین طلاق کا یہ فیصلہ سامان صد ہزار نمک داں سے کم نہیں۔ اسی لئے ہندوستان کا جدید تعلیم یافتہ مسلم طبقہ بورڈ کے موقف سے بہت زیادہ غیر مطمئن ہے ان میں بہت سے لوگوں کے ہاتھ میں سنگ ملامت ہے اوربہت سے حلقوں میں طعنوں کا شور ہے ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہواتھا۔اس کا بھی اندیشہ ہے کہ آگے چل کر ہاتھ اور گریباں کا فاصلہ بھی کم ہوجائے یا ختم ہوجائے ، اس لئے بورڈ کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے شاہ بانو کیس میں جس طرح تمام مسلمان بورڈ کی تائید میں تھے اس بار ایسا نہیں ہے *لوگ کہتے ہیں کہ بورڈ کو حنفیت کا نمائندہ نہیں بننا چاہئے تھا اور اس کا موقف یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس بارے میں مسلمانوں میں چونکہ مسلک کا اختلاف ہے اسلئے بورڈ اپنا کوئی موقف نہیں رکھتا ہے*
ا ور اگر بورڈ کو لازماََکوئی موقف اختیار کرنا ہی تھا تو شر سے بچنے کے لئے اور پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ کا سد باب کرنے کے لئے تین طلاق کو ایک طلاق ماننے کا موقف اختیار کرنا چاہئے تھا یہ فیصلہ زیادہ دانشمندانہ اورمجتہدانہ ہوتا اب پارلیامنٹ کو قانون سازی کا حق مل گیا ہے اب جو طلاق کا قانون بنے گا اس میں تا زندگی نفقہ مطلقہ کو شامل کرنے کا امکان موجود ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے *"دستور کا آرٹیکل ۵ ۲ مذہبی آزادی ضرور دیتا ہے لیکن وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مذہبی آزادی پبلک آرڈر صحت اخلاقیات مساوات اور دیگر مساوی حقوق سے متصادم نہ ہو"*
یہ الفاظ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کے اشارے دیتے ہیں کل حکومت میراث کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتی ہے کہ اسلامی قانون صنفی مساوات کے خلاف ہے
*اگر بورڈ نے حنفیت کے موقف میں شدت نہ اختیار نہ کی ہوتی تو پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن ملت کے قائدین نے پاسبان عقل کو بہت دور چھوڑ دیا تھا*
اصول یہ ہے کہ اس موقف کو اختیار کرناچاہئے جس میں خطرہ سب سے کم ہو ۔ تین طلاق کو ایک طلاق قرار دینے کی گنجائش موجو ہے، اگر یہ موقف اختیار کیا جاتا تو حکومت کومداخلت کا موقع نہیں ملتا ۔ مولانا سید سلیمان ندوی بہت بڑے عالم دین تھے۔ ان کے پاس ایک نومسلم آیا اور اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی۔ سید صاحب نے کہا کہ اس نے تو ابھی اسلام قبول کیا ہے وہ نہ حنفی ہے نہ شافعی نہ مالکی انہوں نے اس کیلئے تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیا اور اسے رجوع کرنے کا حق دیا۔ اگر سرے سے گنجاش نہیں ہوتی اور یہ حرام کاری ہوتی توسید صاحب جیسا عالم دین یہ فیصلہ نہیں کرتا ۔ ائمہ اربعہ کاقول نہ سہی امام ابن تیمیہ اور ابن قیم کا یہی مسلک ہے اور اس سے پہلے صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن عباس زبیر بن عوام اور عبد الرحمن بن عوف اور دیگر کئی صحابہ کا یہی موقف رہا ہے,تابعین کی جماعت میں بہت سے اہل علم اسی موقف کے قائل رہے ہیں اس دور میں فاضل دیوبند مولانا سعید احمد اکبرابادی ( ہند وستان) سید رشید رضا ( مصر) ڈاکٹر وہبہ زحیلی ( شام) علامہ یوسف القرضاوی
( قطر) شیخ الازہر شیخ محمد شلتوت ( جامع ازہر مصر) اور کئی علماء کا یہ مسلک رہا ہے اور انہوں نے حنفی ہونے کے باوجود علماء کی بند گلیوں سے باہر نکلنا ضروری سمجھا ہے اور پھر مصر سوڈان اردن شام مراکش عراق اور پاکستان میں کچھ علماء کے اختلاف کے باوجود *یہی قانون یعنی ایک مجلس میں تین طلاق کو ایک ماننے کا قانون نافذ ہے*
مسلم قیادت کی چوتھی غلطی بھی علماء دین کی قیادت کی غلطی ہے *جو فکر کے جمود سے عبارت ہے* آزادی سے پہلے جو غلطی ہوئی اس کا تعلق علماء سے نہیں تھا وہ سیاسی غلطی تھی اور اس میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ آگے تھا۔ ہجرت کے مقدس نام پر پاکستان جانے کے بعد ہندوستان میں مسلمان کمزور اور بے یار ومددگار رہ گئے اور ان کی قیادت علماء دین کے حصہ میں آئی جو بوجوہ باہمی تعصب، تنگ نظری,گروہ بندی,کا شکار رہے ان میں وسعت نظری اور سیر چشمی کی کمی رہی اور تخلیقی ذہن کی آبیاری کے سوتے خشک ہوگئے تھے ۔لیکن اس کے باوجود آزادی کے بعد کے دور میں علماء کی حیثیت یہ رہی کہ کسی کوشش کو معتبریت اس وقت ملتی جب علماء بھی اس کے ہم سفر اور ہم صفیر ہوں۔ علماء کی تمام کوششوں کا محور مسلمان تھے اور صرف مسلمان ۔ برادران وطن ان کے دائرہ کار سے باہر رہے۔ یہ سیرت طیبہ کا جزوی اور ناقص اتباع تھا۔ البتہ بعض جماعتوں نے غیر مسلموں کے لئے اسلامی لٹریچر بھی تیار کیا اور بعض افراد نے برادران وطن کو خطاب کرنے کے لئے پیام انسانیت کی تحریک بھی چلائی۔ لیکن تبلیغی جماعت اور تحریک مدارس کے عالی مقام ذمہ داروں کے ذہن میں دور دورتک غیر مسلم نہیں تھے۔ اس ملک میں سیکڑوں دینی مدارس قائم ہوئے اور ان مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں علماء نکلے لیکن ان میں سے کوئی *ایک بھی لسان قوم میں بات کرنے والا عالم دین نہیں تھا* اور لسان قوم وہ کہلاتی ہے جسے ۸۰ فی صدی آبادی بولتی ہے اور لسان قوم میں ہی رسول، پیغمبر اور نبی بات کرتے ہیں، لیکن ان مدارس کے علماء اور نائبین رسول لسان قوم میں بات کرنے کے اہل نہیں تھے۔ جب کہ اس ملک کو ایسے علماء کی شدید ضرورت تھی جو ہندووں کے مذہب سے واقف ہوں اور ان سے ڈائلاگ کرسکتے ہوں اور اعتراضات کا جواب دے سکتے ہوں اور انہیں دین اسلام سمجھا سکتے ہوں مدرسوں سے جو بھی فارغ ہو کر نکلتا وہ صرف مسلمانوںکے سامنے خطابت کا جوہر دکھانے کے لائق ہوتا ۔
مستقبل میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے علماء دین کی بھی ضرورت ہے جو ہندو مذہب وتہذیب سے پورے طور پر واقف ہوں اور ان کی زبان میں ،ہندی اور انگریزی میں ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرسکتے ہوں اور ’’لسان قوم‘‘ میں بات کرسکتے ہوں۔ ان کے مجمع کو خطاب کرسکتے ہوں ان کے دل میں اتر سکتے ہوں ، اور یہ کام دینی مدارس کے نصاب میں انقلابی تبدیلی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ اسپین میں جہاں سے مسلمانوں کو نکالا گیا مسلمانوں اورمفتوح غیر مسلموں کے درمیان رابطہ اور تعلقات اور زبان کی خلیج حائل تھی جو غلطی مسلمانوں نے اسپین میں کی تھی وہی ہندوستان میں دہرائی گئی ہے، مدارس کے ذمہ داروں کواور علماء کی قیادت کو اب بھی اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے ، ہر عالم دین جومدرسہ سے پڑھ کر نکلتاہے وہ نہ تو ہندی سے واقف ہوتا ہے نہ ہندو سے واقف ہوتا ہے نہ برادران وطن کے درمیان دین وشریعت کی ترجمانی کا اہل ہوتا ہے۔ وہ پہلے سے موجود اس خلیج میں اضافہ کا سبب بنتا ہے جو مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان میں ہے جس کے نقصانات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ موجودہ ہندوستان پر علماء کسی فوج کشی کے بغیر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ دلوں پر قبضہ کرنا ہے ’ جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ ‘‘ اور دلوں کو فتح کر نے کے لئے خلیج کو پاٹنا ضروری ہے اور خلیج کو پاٹنے کے لئے یہاں کی زبان کا ماہر بننا ضروری ہے اور ان کی مذہبی نفسیات کا جاننا ضروری ہے ۔
آئندہ ہندوستان کے اسٹیج پر اسلام اپنا رول ادا کرسکے گا یا نہیں اس کا تعلق علماء دین کے صحیح کردار سے ہے۔ علماء دین اور علماء دیوبند کی قیادت کو نہ صرف یہ کہ اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے بلکہ وہ ابھی تک باہمی نفرت اور تعصب اور تنگ نظری اور متشدد ذہنیت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اتحاد پارہ پارہ ہے ۱۸ کروڑ مسلمانوں کی دینی قیادت کے پاس عصری آگہی نہیں ہے,غیر مسلموں سے خطاب کرنے والی زبان نہیں ہے اور پھر وہ آپس میں متحد بھی نہیں ہیں۔ وہ بڑے اخلاص کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ زمانہ کی گمراہیوں سے بچنے کے لئے ماضی کے بزرگوں کی تقلید صحیح راہ ہے اور جس طرح بزرگوں کے پاس عصری آکہی کم تھی یہی فقدان بصیرت موجودہ علماء میں بھی پایا جاتا ہے انہیں نہیں معلوم کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کے امپاورمنٹ کا طریقہ کیا ہے۔ وہ بزرگوں کے بنائے ہوے راستہ سے ذرہ برابر ہٹنے کے لئے تیار نہیں وہ بزرگوں کی بنائی ہوئی ہر لکیر کو پتھر کی لکیر سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ لکیر کے فقیر کے بجائے لکیر کے امیر بن گئے ہیں۔ ہندوستان کے سب سے بڑے دار العلوم کے ویبسائٹس پر جا کر نئے فتوے دیکھ لیجئے آپ کو آج بھی 2017ء میں اس طرح کے فتوے مل جائیں گے کہ غیر مقلدوں کا شمار فرقہ ضالہ میں ہے اور جماعت اسلامی سے وابستہ کسی شخص کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ اور ان لوگوں سے شادی بیاہ کا رشتہ قائم نہیں کرنا چاہئے۔ ان علماء کے اندر تعصب بقول مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس لئے پایا جاتا ہے کہ وہ دوسرے مسلک یا جماعت کی کتابیں پڑھتے ہی نہیں اگر وہ ان کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے تو علمی اختلاف تو کرتے لیکن ان کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے اور معتدل رویہ اختیار کرتے۔
*یہی ہندوستانی علماء ہیں جن کے اندر کشادہ دلی نہیں ہے دینی تقاضوں کا فہم نہیں ہے ، دور بینی نہیں ہے اورجنہیں مستقبل کے خطرات کا احساس نہیں ہے جو منجمدبھی ہیں متصلب بھی ہیں متعصب بھی ہیں اور طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں اور جن کے بارے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
نہ جانے کتنے سفینے ڈبو چکی اب تک
فقیہ و صوفی وملا کی نا خوش اندیشی_
Share:

Filisteen Ke Halaat Aur Hm Musalmano Ki Ikdamaat.

Filisteen Me Musalmano Ka Halaat Aur Humari Ikdamaat.

موضوع: اٹھے گا کب تلک شعلہ فلسطیں کے مکانوں سے. تحریر عبدالســـــــلام ندوی*Tahreer 2017
مسئلہ فلسطیں کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ بیسویں صدی کی ابتدا سے ہی یہ رسائل ومجلات کی زینت اور اخبارات وجرائد کی سرخی بنا رہا ہے،خصوصا قیام اسرائیل کے بعد پوری دنیا کیلئے درخور اعتناء بن گیا ہے،اور اب جبکہ ہزارہ سوم کی دوسری دہائی کا نصف حصہ گزر چکا ہے،پوری دنیا خصوصا یہودی طبقہ نے اپنی پوری توجہ اسکی جانب مبذول کردی ہے،یہودیوں کی نظر میں بیت المقدوس کا حصول اور اسکی جگہ ہیکل سلیمانی کی ازسر نو تعمیر پوری دنیا پر حکمرانی کی ہری جھنڈی اور عظیم اسرائیل(جوکہ پورے عالم عرب پہ محیط ایک اسرائیلی ملک بنانے کا خواب ہے، جیساکہ انہوں اپنے قومی پرچم میں دو دریاؤوں کی تصویر کے ذریعہ ظاہر کیا ہے جن سے مراد دریائے نیل وفرات ہے،Google پہ Greater Israel کی تصاویر دیکھیں) کے قیام کے خواب کی تکمیل ہوگی،چنانچہ اسکے لئے انہوں نے بیسوی صدی کی پہلی دہائی سے ہی سیاسی اور عسکری اعتبار سے ہی کوششیں شروع کردی ہیں، اور روز افزوں ظلم،جبر،سازش،روباہ بازی،اور غیرمعمولی ذہانت کا استعمال کرکےاپنے مقصد کےحصول ونفاذ کے قریب ہوتے جارہے ہیں،
ان تمام جارحانہ کاروائیوں سے یہودیوں کا اصل مقصد بیت المقصد کو منہدم کرکے اسکی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا ہے،انکی نظر میں ہیکل سلیمانی اپنے اصل شکل میں موجود نہیں ہے،لہذا اسے اسکی پہلی اور اصل شکل میں تعمیر کرنا ہی انکے تمام ظالمانہ وجابرانہ اقدامات کا ھدف اصلی ہے،(واضح رہے بیت المقدس قبل از عہد اسلام دو مرتبہ منہدم کیا گیا تھا،پہلی مرتبہ بخت نصر کے ذریعہ 570 ق م میں اور دوسری مرتبہ رومن حاکم ٹائٹس کے ہاتھوں 70ء میں)
ایک طرف یہودیوں کا یہ بخار اور جنون ہے اور دوسری طرف مسلمان خواب خرگوش میں محو ہیں،ملت اسلامیہ کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو دل دردمند اور فکر سوزمند رکھتا اور مسئلہ فلسطین کو سنجیدگی سے لیتا ہو،
علماء عالمی حالات سے ناواقف بوسیدہ فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور حکمراں وبرسر اقتدار طبقہ شکم پروری ،حصول جاہ،اور شاہ کی مصاحبت میں بدمست ہیں،تنگ خیال، پست حوصلہ، تہی ظرف دشمن اسلام فتوے باز دوسروں کی تکفیر میں لگے ہوئے ہیں اور آرام طلب،تن پرور،پست ہمت عوام انکی اندھی تقلید میں، نہ کوئی تنظیم اسکی جانب توجہ کررہی ہے نہ ہی کوئی تحریک -حالانکہ ۵۸ مسلم ملکوں پہ مشتمل اسلامی دنیا کی سب سے بڑی تنظیمO.I.C کا قیام ہی بیت المقدس میں آتش زنی کی مجرمانہ حرکت کے بعد عمل میں آیاتھا، لیکن اسکا بھی کوئی اقدام سامنے نہیں آرہا ہے،ایسے موقعہ پر تو حسین آزاد کا وہ ناصحانہ شعر ہی یاد آتا ہے،جس میں انہوں نے عالم اسلام خصوصا عالم عرب کو مخطب کرکے کہا تھا کہ،
ذرا سوچو عرب والوں فلسطیں کی مصیبت پر یہ کیوں خاموش بیٹھے ہو سگے بھائی کی رحلت پر 
 
چنانچہ ایسے پرخطر حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کا ہر طبقہ اپنے روایتی اور بوسیدہ فروعی مسائل کو بالائے طاق رکھ کے مسئلہ فلسطین کیلئے سنجیدہ ہوں اور ایک مقام پر سر جوڑ کر بیٹھ کے شہر قدس کی بازیابی کی فکر کرے ورنہ مسقبل میں جو خطرات رونما ہونے کے اندیشے ہیں وہ کس قدر تباہ کن ہوں گے اسکا تخمینہ کرنا بھی ناممکن ہے-
Share:

Deeni Adaare Me Chamche Baji Ya Chamcha Giri.

دینی ادارے اور چمچے بازی یا چمچہ گیری

سچ تو یہی بات کہلاتی کہ کھانے پینے میں برتن اور کٹورے  قاب
کے رہتے بھی چمچہ کا کتنا بڑا رول ہے کہ جب تک اس کا سہارا
نہیں لیجیئے آپ قاب سے پلاؤ ،بریانی اور چاول نکال تو سکتے ہیں
لیکن اتنی خوبصورتی اور سلیقے نہیں لگیں گے ،جتنا خوبصورت وہ
ساری دسترخوان پر لگیں قسم قسم کی اشیاءِ خوردنی
چمچے کے قبیل یا اسی قبیلے خاندان سے کف گیر کا تعلق بتلایا جاتا
اور نسب نامے میں ان کا ذکر بھی ملتا ہے ،اس لیئے چونکنے  کی کوئی ضرورت نہیں ، بس قدوقامت کا فرق تسلیم کیا  جاسکتا ہے
لیکن اسے کیسے باور کرلیا جائے کہ جب چمچے کا سہارا لیا ہی جاتا
ہے تو پھر اسے پکڑ کے  کوئی ،چمچہ گیری یا کف  خیزی  کا  کام کیوں کرے ، لیکن بعضے لوگ اپنی طبیعت اور فطرت سے اتنے
مجبور لگتے کہ ان کو شرم بھی نہیں آتی اور چمچے پکڑ لیتے ۔ اسی سے چمچہ گیری کی وجہِ تسمیہ سمجھی جاسکتی ہے ،لیکن  یہ سمجھنا
قدرے مشکل سا لگتا کہ جہاں شب و روز کتاب و سنت اور
فرمانِ الہی اور بیان رسول ربانی کے سبق پڑھائے جاتے ،جس
کا مطلب ہی ہے ،حق جوئی ، حق گوئی اور حق طلبی و حق بیانی
تو پھر اپنے چھوٹے سے فائدے کی خاطر لوگ کسی طرح  کے
دینی تعلیمی و تنظیمی اداروں میں  آقا کو خوش کرنے اوربہ ذریعہ چمچہ گیری اپنی نا اہلیت کو صلاحیت و لیاقت کا جامہ  پہنا  کر
اوروں کا حق مارنے کا کام کرتے کیا شرماتے نہیں ۔ یارا
حد کردی جاتی کبھی کبھی اور اپنے میں ہی ایسا خراب لگنے لگتا
کہ توبہ بھلی ، نہ جانے کیسی ہے یہ رسم چلی ۔ چمچہ گیری کو آپ کسی وبا سے کم نہیں سمجھئیے، بلکہ یہ اس کو پیچھے   چھوڑکر کہیں مضرکہلا سکتی کہ کوئی وبا تو اسی کو اپنی زد پر لیتی ،لیکن اس اخلاقی وبا کا اثر ان پر بھی مرتب  لگنے لگتا ، جو واقعی سچے پکے
سزاوار و حقدار سمجھے جاتے ۔ لیکن کیا کیجئے کہ جب تملق باز و
تملق پسند اور چمچے کف خیز و کف گیراور کٹورے قاب ایک ہی قطار کھڑے دِکھیں تو  پھر اللہ کرے  خیر.
Share:

Jama Hassan Bin Sabit Academy Mahej Ek Idara Nahi Maktab-E-Fikr Hai.

Jama Hassan Bin Sabit Academy Mahej Ek Idara Nahi Balke Ek Maktba Fikr Hai.

جامعہ حسان بن ثابت محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک مکتبہ فکر ہے.
(مکمل پڑھیں،ایک چشم کشا تحریر)
26 جنوری 2019 یہ وہ تاریخی دن ہے جس میں جامعہ حسان بن ثابت کا قیام عمل میں آیا، آج 29 جنوری ہے یعنی محض تین دن قبل ہی اس کی بنیاد پڑی ہے ان مختصر ایام میں ہی الحمدللہ تعالیٰ طلبہ و طالبات کی تعداد روز افزوں بڑھ رہی ہے اور ادارہ بحمدللہ ترقی کی جانب گامزن ہے ،لیکن ادارہ اور اس کے بانی کے لیے کوائنٹیٹی یعنی تعداد سے زیادہ اہم کوالٹی یعنی خصوصیت ہے یعنی محض سند یافتہ علماء کی بھیڑ عوام کے درمیان پہنچا دینا کافی نہیں بلکہ سند کے ساتھ وہ لیاقت اور قابلیت بھی ہونی ضروری ہے جس سے مستقبل میں قوم کی تعمیر کا کام انجام دینے کے قابل بن سکے،
اس وقت طلبہ و طالبات کی کل تعداد 40 ہے اور ان میں اکثر وہ ہیں جن کی بنیاد انتہائی کمزور ہے دراصل اکثرہندوستانی مکاتب کی تعلیم اس قدر سطحی ہوتی ہے کہ اس سے بچے عالم بننے کے بجائے پڑھے لکھے جاھل بن جاتے ہیں ،چنانچہ ازسرنو ان کی بنیاد کو پختہ اور پائیدار بنانا یہ ایک بڑا چیلنج ہے
ایک دوسرا چیلنج بہار کے دیہی علاقوں میں زبان کا ہے چونکہ ان طلباوطالبات کی پرداخت جس گھرانے میں ہوتی ہے وہ خود علاقائی زبانوں کا رسیا ہوتا ہے جس کی بنا پر ان کے لئے دوسری کسی زبان کے الفاظ کی صحیح طور سے ادائیگی کر پڑھنا بڑا مشکل امر ہوتا ہے،
ان دو چیلنجوں کو پورا کرنے کے لئے جمیعت السلام التعلیمیہ الخیریہ کے تحت ایک شعبہ حسان بن ثابت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے،
یہ تو تھی مبتدی طلباء کی بات
اب رہا مسئلہ فارغین مدارس کو حالات حاضرہ کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کا تواس سلسلے میں جمیعت السلام کی جانب سے فارغین مدارس کے لئے ایک ایسا شعبہ قائم کیا جائے گا جس کے ذریعے وہ ہندوستان کا سب سے مشکل امتحان یعنی سول سروسز امتحان میں بیٹھنے کے قابل ہوسکےچونکہ ہمارے ملک میں ڈیموکریسی یعنی جمہوری حکومت کے ساتھ بیوروکریسی یعنی نوکرشاہی یا دفتری حکومت کا بڑے پیمانے پر عمل دخل ہے اور موجودہ حالات میں بیوروکریسی کو کرپٹ افسران سے محفوظ رکھنے کے لئے فارغین مدارس کو وہاں تک پہنچانا ازحد ضروری ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہم نے دو یا تین فیصد سے زیادہ بیوروکریٹس دیے ہی نہیں ہیں ،2013 ع میں 1122 آئی اے ایس افسران میں محض 34 مسلم تھے یعنی 3.03 فیصد جبکہ 2014 میں بارہ سو چھتیس میں 40، 2015 میں 1078 میں 37، 2016 میں 1099 میں 50، 2017 میں 990 میں 51 یعنی ۵.۵% اور یہ آزاد ہندوستان میں اب تک کا سب سے بہتر نتیجہ ہے ،
2011 عیسوی میں ہوئی آبادی کی شماری کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 17.22 کروڑ ہے جو ہندوستان کی کل آبادی کا14.2 فیصد ہے،
دی انڈین ایکسپریس کی ایک تحریر کے مطابق  5.73 لاکھ مسلمانوں پر ایک آئی اے ایس یا آئی پی ایس افسر ہے جبکہ غیر مسلموں میں 1.8لاکھ پر ایک آئی اےایس یا آئی پی ایس افسر ہے
یہ محض اوہام پر مبنی کوئی تحریر نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہے جو کہ ہم سب کے رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے لیکن سکے کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اس خلیج کو پاٹنے کے لئے کئی سارے افراد نے کوششیں بھی کی ہے ،اس سلسلے میں سب سے موثر اور انقلابی قدم جس نے اٹھایا ہے وہ ہے زکوۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا، جس کے چیئرمین جناب سید ظفر محمود صاحب ہیں،
گزشتہ سال یعنی 2018 عیسوی میں اس قابل فخر تنظیم نے ہندوستان کو 29 مسلم بیوروکریٹس دیا ہے جو کہ آزاد ہندوستان کا اب تک کا سب سے تاریخی عمل قرار دیا جاسکتا ہے لیکن چونکہ اس میں فارغین مدارس نے حصہ نہیں لیا اس لئے ہماری تحریک ان سے مختلف ہو جاتی ہے اس لئے کہ مقصد محض مسلم افسران کی تعداد میں اضافہ نہیں ہے بلکہ ایسے مسلم افراد کو حکومت کی کرسی تک پہنچانا ہے جس نے اپنی تعلیم کی ابتداء اللہ کے نام سے کی ہو اور اس کے لئے علماء سے زیادہ موزوں دیگر نہیں ہو سکتے ،
ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ اس مشکل ترین امتحان کی تیاری کے لیے ماہر اساتذہ کی فراہمی کم پیسوں میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہے پر اس کا خرچ ہمارے مسلم عوام برداشت کریں گے غریب طلباء نہیں آپ حضرات سے گزارش ہے کہ ہمیں آپ تعاون کرتے رہیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں اور اگر آپ تنظیم کی کسی طرح مدد کر سکتے ہیں تو نیچے دیے گئے ای میل آئی ڈی پر رابطہ کریں
تحریرـ عبدالسلام ندوی چیئرمین السلام ایجوکیشنل اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ* Jamiyatussalamtrust@gmail.com
Share:

Modi Sarkar Ki Nayi DARKHWAST Supreme court Se Kya Hai?

Modi Hukumat Ki Nayi Darkhwast

مودی حکومت کی نئی درخواست.
*تحریر ۔حافظ عبدالسلام ندوی (جامعہ حسان بن ثابت ،ٹھکہاں کوٹھی ،موتی پور مظفرپور)*
رام جنم بھومی -بابری مسجد معاملہ میں حکومت نے ایک جدید نقطہ نکال لیا ہے ،اس نے ایک درخواست دائر کرکے عدالت عظمی سے کہاہے کہ وہ ایودھیا کی غیر متنازع اراضی پر سے اپنا سابق حکم اٹھالے۔
جسے ہم ایودھیا تنازع کہتے ہیں ،عدالت میں وہ بنیادی طور سے زمین کے مالکانہ حق کا تنازع ہے ،یہ تنازع صرف ۷۷.۲ ایکڑ زمین پر ہے ،اس سے متصل باقی ۶۷ایکڑ زمین پر تنازع تو نہیں ہے ،مگر عدالت کاسابق حکم اس پر نافذ ہے ،یعنی اسکے مالکانہ حق کو لے کر کوئی تنازع نہیں ہے ،لیکن جسکی وہ ملکیت ہے وہ اس پر کوئی تعمیر نہیں کرسکتا ،یہ حکم بابری مسجد کی عمارت کے انہدام کے بعد نافذ کیا گیا تھا،بعد میں حکومت نے اس زمین کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا،درخواست سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ اگر اس زمین سے عدالتی حکم ہٹتاہے تو حکومت اس زمین کا کیا کریگی ؟یہاں ایک اٹکل ضروری لگائی جاسکتی ہے کہ حکومت اسے ہندو قوم پرست تنظیم وشوہندو پریشد کے ذریعہ تشکیل دئے گئے ٹرسٹ رام مندر ٹرسٹ کے حوالے کردے گی ،تاکہ وہ اس پر اپنی طرف سے تعمیری کام کاآغاز کرسکے اور باقی تعمیر کے لئے وہ عدالت عظمی کے آخری حکم کا انتظارکرے،عدالت عظمی اس پر کیا رخ اختیار کرے گی یہ نہیں کہاجاسکتا لیکن یہ نئی درخواست بتاتی ہے کہ رام مندر کولیکے سیاست تیز ہوگئی ہے ،وزیر اعظم نریندر مودی رام مندر پر آرڈیننس لانے سے انکار کرچکے ہیں ،جسکا مطلب ہے کہ فی الحال آخری فیصلہ عدالت عظمی کو ہی کرنا ہے ،عام انتخابات کافی قریب ہے،اس وجہ سے اس معاملہ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے ،بہت سے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اس معاملہ کی فوری سنوائی ہو اور جلد فیصلہ دے دیاجائے ،وہاں یہ معاملہ اسی طرح سے لٹک رہا ہے جیسے ہماری عدالتوں میں اکثر معاملے اٹکتے ہوئے آگے بڑھتے رہتے ہیں ،منگل کو ہی عدالت عظمی میں اس معاملہ کی سنوائی ہونی تھی ،لیکن ایک جج کی چھٹی پر ہونے کے سبب سنوائی مؤخر کردی گئی اسلئے یہ امید تو کم ہی ہے کہ عدالت عظمی اپنی باقی ترجیحات کو چھوڑ سب سے پہلے اس نئی درخواست کی سنوائی کریگی ،ظاہر ہے اگر یہی رفتار رہی تو انتخابات سے پہلے ہمیں کسی بھی فیصلہ کی امید نہیں کرنی چاہئے،ایک طرح سے شاید یہ بہتر بھی ہوگا ،کیونکہ عدالت میں جو بھی فیصلہ ہوگا ،اسکا سیاسی مفاد لینے کی کوشش اس یا اس فریق کے ذریعہ کی جائیگی ،
یہ صحیح ہے کہ رام مندر -بابری مسجد کا تنازع دہائیوں سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے ،اب جب یہ معاملہ عدالت عظمی میں پہنچ چکاہے تو امید بنی ہے کہ اب جو بھی فیصلہ آئیگا وہ آخری ہوگا،یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ملک کی بڑی آبادی کی نفسیات کو الگ -الگ طرح سے چھوتا ہے ،جہاں معاملہ سماج کی نفسیات کا ہو وہاں کسی بھی طرح کی جلد بازی شاید صحیح نہیں ہے،اسکے بجائے بہتر ہوگا کہ ہم اس معاملہ پر عوام میں ایک اتفاق رائے بنانے کی کوشش کریں ،اس پر اتفاق رائے بنانا بہت ضروری ہے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ سب کو قبول ہوگا ،اگر ہم ایسا کرسکے تو عوام نہ صرف اس فیصلہ کو نرمی اور امن سے قبول کریگی،بلکہ یہ ایک ایسی مثال بنے گی جو ہندوستانی معاشرہ کی پختگی کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرے گی.
Share:

Maal Jyada Ahmiyat Rakhti Hai Ya ilm.

ilm Jyada Afzal Hai Ya Maal

What Is Very Important Education ‍or Money

عربی سے اردو ترجمانی.
حافظ ابوبکرعبداللہ سلفی بنارس.
ایک سوال،دس جوابات
:: سؤال واحد وعشر إجابات
قيل للرجل العالم الجلیل رحمةالله عليه
✒✒ ایک جلیل القدر عالم سے سوال ہوا کہ
يا شيخ ، العلم أفضل أم المال ؟
✒✒شیخ.! علم افضل ہے یا مال؟؟
فأجاب  : إن العلم أفضل ، فقيل له وبأي دليل ؟فكانت جواهر إجاباته :
✒✒تو شیخ نے فرمایا: کہ علم افضل ہے .،تو پھر ان سے دلیل کا مطالبہ ہوا
تب شیخ نے جو جواب دیا وہ پیش خدمت ہے ....
✒✒فرماتے ہیں :
✍ لأن العلم ميراث الأنبياء والمال ميراث قارون وهامان وفرعون .
✒✒کہ علم افضل ہے کیونکہ انبیاء علیھم السلام کی میراث ہے، اور مال، ہامان قارون اور فرعون کاترکہ ہے
✍ لأن المال انت تحرسه ، والعلم يحرسك .
✒✒اسلیے بھی کہ مال کی تمہیں نگرانی کرنی پڑتی ہے جبکہ علم خود تمہارا نگہداشت ہے
✍ لأن لصاحب المال أعداء كثيرة ، ولصاحب العلم أصدقاء كثيرة .
✒✒مالداروں کےکئی دشمن ہواکرتے ہیں جبکہ صاحب علم کے دوستوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہوتی ہے
✍ لأن المال إذا تصرفت فيه ينقص ، والعلم إذا تصرفت فيه يزيد .
✒✒(اوراسلیے بھی علم افضل ہے)کیوں کہ مال خرچ کروگے توکم ہوتاجائیگا جبکہ علم خرچ کرتےرہوگےتو بڑھتارہےگا
✍ لأن صاحب المال يدعى باسم البخل واللؤم ، وصاحب العلم يدعى باسم الإكرام والإعظام .
✒✒مالدار کو کنجوس،لالچی جیسے قبیح القاب دیے جاتےہیں جبکہ اہل علم کو مکرم و معظم القاب سے پکارا جاتاہے
✍ لأن المال يخشى عليه من السارق ، والعلم لا يخشى عليه .
✒✒مال کی ایک پریشانی یہ ہیکہ چور اسے لیکر نہ چلا جائے،جبکہ علم کو چوری کون کریگا؟؟
✍ لان صاحب المال یحاسب علیه یوم القیامة وصاحب العلم يشفع لاخوانه يوم القيامة .
✒✒دولت والوں کامعاملہ یہ ہیکہ بروز قیامت پائی پائی کاحساب دیناہے اور علم والے اس دن دوسروں کے شفیع ہونگے
✍ لأن المال يندرس بطول المدة ومرور الزمان ، والعلم لا يندرس ولا يبلى .
✒✒ (علم کی افضلیت کی وجہ یہ بھی ہیکہ)مال دھیرے دھیرے گزرتےزمانہ کے ساتھ کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتاہے جبکہ علم نہ ہی ختم ہوتاہے اور نہ کبھی بھی پرانا ہوتا ہے
✍ لان المال يقسى القلب ، والعلم ينير القلب .
✒✒مال دل کو سخت بنادیتا ہے اور علم( کامعاملہ اسکے برعکس یہ ہیکہ )دل کوروشنی عطاکرتا رہتا ہے
✍ لأن صاحب المال يتكبر ويتعظم بنفسه ، وصاحب العلم خاضع ذليل مسكين
✒✒مالدار گھمنڈی  اور خود پسندی کاشکار ہوتاہے
جبکہ علم والا متواضع،خاشع اور ودیع ہواکرتا ہے.
عليه السلام ...باب مدينة العلم
Share:

Muzaffarpur District ke Mukhtaser Tarikh, About Muzaffarpur, Bihar

Muzaffarpur District ka Mukhtaser Taarikh, about Muzaffarpur, where is muzaffarpur, Muzaffarpur History

ضلع مظفرپور کی مختصر تاریخ
شاہی لیچی کی سرزمین سے مشہور ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست بہار کا تیسرا اکثریتی آبادی والا ضلع مظفر پور تاریخی صفحات میں نمایاں مقام رکھتاہے،اس ضلع کو ۱۸۷۵ ؁ء میں انتظامی سہولت کے لئے ترہت ڈویزن سے جدا کرکے وجود میں لایا گیاتھا،اور برطانوی عامل مظفرخان کے نام سے اسکو موسوم کیاگیاتھا،
قدیم زمانہ میں ترہت مختلف ہندو حکمرانوں کے قبضہ میں رہاہے البتہ ان سب کی تاریخ تفصیلی طور پہ کہیں یکجا موجود نہیں ہاں کچھ افسانوی باتیں ہیں جو ہندو دیومالا ئی کتابوں میں پائی جاتی ہیں ،باوثوق تاریخی کتابوں سے ہمیں شمالی ہند کے عظیم طاقتور بادشاہ ہرش وردھن کا سب سے پہلے تذکرہ ملتاہے جو متحدہ شمالی ہندوستان کا آخری ہندو بادشاہ ہے،اس عظیم حکمراں نے شمالی ہند پر چار دہائیوں تک حکومت کی ،یہ پوشیہ بھوتی خاندان سلطنت کا حکمراں تھا،اپنی حکومت کے آخری ایام میں ہرش وردھن نے ترہت ضلع کو مقامی سرداروں کے قبضہ میں دے دیاتھا،آٹھویں صدی کے اواخر میں پالا حکمرانوں نے ترہت پر ۱۰۱۹ ؁ء تک مرکزی ہندوستان کے چڈی حکمرانوں تک قبضہ کرنا جاری رکھا ،اور فوجی نسل کے سرداروں کے ذریعہ گیارہویں صدی کے نزدیک تک جگہ لے لی،
۱۲۱۱ ؁ء اور ۱۲۲۶ ؁ء کے درمیان بنگال کا حکمراں غیاث الدین عواج شاہ جسے بعد میں حسام الدین عواج خلجی کے نام سے جانا گیا ترہت پر پہلا حملہ ورتھا،حالانکہ وہ ریاست کو فتح نہ کرسکا ،
۱۳۲۳ ؁ء میں تغلق سلطنتی خانوادے کا بانی اور غازی ملک کے نام سے مشہور سلطان غیاث الدین تغلق نے ترہت پر حملہ کیا اور اس علاقہ پر اپنا قبضہ جمایا،تغلق شاہ نے ترہت کا مینیجمنٹ کامیشور ٹھاکر کے ذمہ سونپ دیا،اس طرح ترہت کی خود مختار طاقت ہندو سربراہان سے مسلمانوں تک منتقل ہوتی رہی،چودہویں صدی کے اواخر میں پورا شمالی بہار جون پور کے حکمرانوں کے ہاتھ میں چلا گیا،اور تقریبا ایک صدی تک انکے قبضہ میں رہا،جب تک دلی کے سکندر لودھی نے جون پور کے بادشاہ کو شکشت دی،اس درمیان بنگال کے نواب حسین شاہ اتنا طاقتور ہوگئے تھے کہ انہوں نے ترہت کے ساتھ بڑے علاقوں پر اپنے قبضہ کی کوشش کی ، دلی کے شہنشاہ ۱۴۹۹ ؁ء میں حسین شاہ کے خلاف تھے انہیں بادشاہ کو شکشت دینے بعد ترہت پر قبضہ ملا،یہیں سے بنگال کے نوابوں کی طاقت کم ہوگئی اور محمود شاہ کے زوال کے ساتھ ترہت سمیت شمالی بہار عظیم مغل حکومت کا حصہ بن گیا ،اگرچہ مظفرپور پورے شمالی بہار کے ساتھ قبضہ کرلیا گیاتھا،لیکن بنگال کے نواب داؤد خان کے دنوں تک اس علاقہ پر چھوٹے چھوٹے سرداروں نے اپنا اثر قائم رکھاتھا،داؤد خان کا پٹنہ اور حاجی پور میں کوٹ (گڑھ)تھا۔
۱۷۶۴ ؁ء میں بکسر کی لڑائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فتح نے انگریزوں کو پورے بہار پر قابض کردیا،اور وہ پورے ضلع کوجیتنے میں کامیاب ہوگئے ،لیکن جب ہندوستانیوں نے دوبارہ ہوش کے ناخن لئے تو ۱۸۵۷ ؁ء میں دلی میں باغیوں کی کامیابی سے اس ضلع کے انگریزی باشندوں کو سنگین تشویش کا سامنا کرنا پڑا ،اس موقعہ پر پورے ضلع میں انقلابی نعرے بلند ہونے لگے،مظفر پور نے اس میں اہم کردار ادا کیا ،یہ ۱۹۰۸ ؁ء کے مشہور بم معاملہ کی جگہ تھی ،بنگالی انقلابی نوجوان کھدی رام بوس محض ۱۸ سال کے لڑکے کو پرنگل کینیڈی کی گاڑی میں بم پھینکنے کے لئے پھانسی پر لٹکا دیا گیا،مظفرپور ضلع جج کے ذریعہ آزادی کے بعد اس انقلابی محب وطن نوجوان کے لئے ایک اسٹیچو بطور یادگار بنایا گیا تھا،جو اب بھی کھڑا ہے ،جنگ عظیم اول کے بعد ملک میں جاری سیاسی بیداری نے مظفرپور ضلع میں بھی قومی تحریک کو بڑھاوادیا،
۱۹۷۵ ؁ء دسمبراور پھر ۱۹۷۷ ؁ء میں گاندھی جی کے مظفرپور ضلع میں دو اہم سفروں نے لوگوں کے خفیہ جذبات کو ابھارنے میں زبردست کارنامہ انجام دیا ،اور ضلع نے آزادی کے لئے ملک کی جد وجہد میں ایک اہم کردار ادا کیا،
مظفرپور نے شمالی مشرقی ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم کردار نبھایا لیکن ان سب سے بڑھ کر اس ضلع کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہندو مسلم تہذیبوں اور خیالات کا میٹنگ پلیس ہے،اور آج بھی اس سرزمین کی مٹی اپنے اسی امتیاز کے ساتھ دوسرے ہندوستانی اضلاع پر فخر کرتی ہے اور لوگوں کودعوت نظارہ دیتی ہے۔
تحریر۔حافظ عبدالسلام ندوی
چیئر مین السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر
Share:

Jamiat-UL-Islam Al Khair Agle Marhle Me.

Jamiat-UL-Islam Al Khair Agle Marhle Me.

جمعیۃ السلام الخیریۃاگلے مرحلہ میں

الحمدلللہ جمعیۃ السلام الخیریۃ اپنے مقصد کی جانب روز افزوں گامزن ہے ،آج بتاریخ ۹جنوری ۲۰۱۹ ؁ء بروز بدھ جمعیت کے صدر شیخ عبدالسلام ندوی نے سرزمین بہار کا معروف ادارہ قرآن گھر اکیڈمی کے ڈائریکڑ اور آل انڈیا التقوی ایجوکیشنل گروپ کے چیئرمین جناب رضوان ریاضی حفظہ اللہ سے ملاقات کی ،تقریبا ایک گھنٹہ کی اس ملاقات میں جمعیت کے تعلق سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا،چونکہ ہماری جمعیت اس وقت ابتدائی مرحلہ میں ہے لہذا اسکی سرپرستی کے لئے ہمیں ایک ایسے قابل ومخلص رہنما کی ضرورت تھی جو ذاتی اغراض کو بالائے طاق رکھکر عوامی بہبود ورفاہی کاموں میں کوشاں ہو اور جو دل درمند اور فکر ارجمند کی حامل شخصیت ہوں،اسکے لئے شیخ رضوان ریاضی حفظہ اللہ سے بہتر کون ہوسکتاتھا ،چنانچہ شیخ نے ہماری عاجزانہ درخواست قبول فرمائی اور تنظیم کو ہر طرح کے ممکن تعاون کی امید دلائی ،اس کے لئے ہم شیخ کے نہایت ممنون ومشکور ہیں،شیخ سے تنظیم کی رجسڑیشن کے سلسلہ میں بھی گفتگو ہوئی ،جسکا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ ہماری تنظیم ایک این جی او کی شکل میں ہے ،لہذا سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تحت اسکا رجسڑیشن ہونالازمی ہے ،اسکے لئے ہمیں کم از کم ۹ فعال ممبران کی ضرورت ہے جو جمعیت کی ہردعوت پر لبیک کہیں ،

فی الحال جمعیت کا کوئی خاص بینک اکاونٹ بھی نہیں ہے لیکن جلد ہی ان شاء اللہ ہم اس جانب بھی قدم بڑھائیں گے،
فعال ممبران میں شامل ہونے کے لئے آپ گروپ ایڈمن کو ذاتی طورپہ پیغام بھیج سکتے ہیں۔

Jamait Ul Islam Al Khair Ka Taaruf. 

Social Media Ke JAriye Faili Buraiyan. 

Share:

Jamiat-Ul-Islam Al Khair Ka Taaruf.

  Jamiat Ul Islam Biography, About Jamiat ul Islam

جمعیۃ السلام الخیریۃ کا تعارف

ہندوستان میں جھوٹی بڑی اسلامی تنظیموں کی تعداد سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے،اگر حروف تہجی کے اعتبار سے انکی فہرست تیار کی جائے تو الف سے ی تک ہزاروں کی تعداد ہوجائیگی ،اور ان میں اکثر وہ تنظیمیں ہیں جو رفاہی ہونے کا دعوی کرتی ہیں ،پر زمینی حقائق یہ ہیں کہ اکثر تنظیمیں محض ذاتی نمود اور مالی استحصال میں مشغول ہیں ،۲۰۱۶ ؁ء میں ٹائمس آف انڈیا میں شائع ایک خبر کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں دیگر ممالک سے ہندوستانی مسلم تنظیموں کو ایک سو چونتیس کروڑ روپئے ملے ہیں ،اس بڑی رقم سے ۱۰ بڑی یونیورسٹیاں تعمیر کی جاسکتی ہیں اور خط افلاس کے نیچے زندگی گزار رہے ۹۳ فیصد ہندوستانی مسلمانوں کو اعلی تعلیم فراہم کیا جاسکتا ہے ،پر افسوس کہ جس سرمایہ داری اور کیپٹلزم کے خلاف ہم چیختے چلاتے رہتے ہیں اس میں ہی مسلمانوں کی بڑی تعداد ملوث ہے،
تنظیم جمعیۃالسلام الخیریۃ اگرچہ بظاہران رفاہی تنظیموں میں ایک اضافہ معلوم ہوتی ہے پر حقیقت میں یہ ایک انقلاب قدم ہے جسکا سب سے اہم اور بنیادی مقصد علماء اور اعیان امت پر مشتمل ایک احتسابی بیورو کا قیام ہے،تاکہ نام نہادرفاہی تنظیموں کا محاسبہ کیا جائے اور اسکے دام فریب سے بھولی بھالی عوام کو محفوظ رکھا جائے،
اسکے علاوہ اس تنظیم کے تحت رفاہی ،اصلاحی اور عوامی بہبود کے کاموں کو بھی انجام دیاجائیگا،نیز کسی شخص کی ذاتی ضرورت یا معاشرے کی اجتماعی ضرورتوں اور سہولتوں کی فراہمی کی کوشش بھی کی جائیگی چاہے وہ مال کے ذریعہ ہو یا خدمت و محنت کے ذریعہ ۔
نیز معاشرہ کی بنیادی ضروروتوں اور سہولتوں کو عام کرنے کے لئے معلوماتی تحریریں بھی فراہم کی جائیں گی ،
یاد رکھیں کوئی بھی تنظیم باہمی تعاون اور آپسی مدد سے چلتی ہے ،اور اسلام جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے اس نے باہمی ہمدردی وتعاون اور خیر خواہی کو اعلی انسانی اوصاف کا حصہ بنادیا ہے ،قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے۔
نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ وسرکشی میں ایک دوسرے کے مددگار نہ بنو ،(سورہ مائدہ: آیت ۲)
نیز قرآن مجید نے ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت کی وعید سنائی ہے جو نماز کو رکوع وسجود تک محدود رکھتے ہیں اور انسانیت کو دکھوں سے نجات نہیں دلاتے ،
لہذا انسانی فلاح وبہبود کے اس عالمگیر چارٹر کے مطابق ہم سب پر ضروری ہے کہ اپنے مال ودولت کے ساتھ محبت ورغبت کے باوجود اسے معاشرتی بہبود اور فاہی کاموں پر خرچ کریں ،اسکے لئے *جمعیۃ السلام الخیریۃ* نے ایک اصول یہ قائم کیاہے کہ ہم اپنی تنخواہ کا دس فیصد اللہ کی راہ میں نکالیں ، آپ چاہیں تو اس تنظیم کو بھی ڈونیٹ کرسکتے ہیں یا پھر خود آپ ضرورتمندوں کو تلاش کرکے اپنی یہ خاص رقم ان تک پہنچا سکتے ہیں۔
تنظیم کی ممبر سازی جلد شروع ہوگی جسکی تفصیلات آپ کو تنظیم کی آفیشیل ویبسائٹ اور واٹس ایپ گروپ کے ذریعہ حاصل ہوں گی ،
مزید معلومات کے لئے درج ذیل نمبر ات پہ رابطہ کریں

شیخ مظفر شفیع اصلاحی حفظہ اللہ(ناظم اعلی ضلعی جمعیت اہل حدیث مظفر پور بہار)916201760260 +

916200102658+ شیخ عبدالسلام ندوی حفظہ اللہ

जामिया हस्सान बिन साबित केवल एक संस्था नहीं बल्कि यह एक सकारात्मक सोच का  उज्जवल मीनार है*
परिचय और प्रमुख लक्ष्य*
26 जनवरी 2019 को जामिया हस्सान बिन साबित एस ए आई एजुकेशनल एंड वेलफेयर ट्रस्ट के तहत स्थापित किया गया,
कम अवधि में ही छात्रों की संख्या में दैनिक वृद्धि हो रही है और संगठन तरक्की की ओर अग्रसर हो रहा है ,
लेकिन संस्था के संस्थापक के लिए संख्या से महत्वपूर्ण योग्यता है ,
वर्तमान में छात्रों की कुल संख्या  70 है और इनमें अक्सर वह हैं जिनकी प्राथमिक शिक्षा बहुत कमजोर है  ,दरअसल भारतीय प्राथमिक स्कूलों की शिक्षा अक्सर इतनी कमजोर होती है के छात्र विद्वान बनने के बजाय अज्ञानी हो जाते हैं,
उनकी नींव को फिर से मजबूत बनाना एक बड़ी चुनौती है ,
एक दूसरी चुनौती बिहार के ग्रामीण इलाकों में भाषा को लेकर है ,
दरअसल इन छात्रों का पोषण जिस घरआने में होता है वह  स्वयं क्षेत्रीय भाषाओं का रसिया होता है,
पहली चुनौती से निपटने के लिए जामिया हस्सान बिन साबित  मैं विशेषज्ञ शिक्षकों की बहाली की गई है ,
*अंजुमन मेराजूल बयान*
जबकि दूसरी चुनौती से निपटने के लिए संस्था में अंजुमन मेराजुल बयान की स्थापना की गई है ,
इस अंजुमन के तहत छात्र साप्ताहिक कार्यक्रम आयोजित करते हैं और अपनी भाषण क्षमताओं को जागृत करते हैं,
*मुस्लिम महिला संगठन*
इसके  अतिरिक्त उपरोक्त ट्रस्ट की देखरेख में  मुस्लिम महिलाओं को धार्मिक आदेशों से परीचित कराने के लिए  महिलाओं की शाखा में सप्ताहिक कार्यक्रम का भी आयोजन किया जाता है
एवं शिक्षा के साथ  महिलाओं को कुशल बनाने के लिए *कुदसिया सिलाई एंड कढ़ाई सेंटर* भी स्थापित किया गया है,
*निर्माण कार्य*
अल्हम्दुलिल्लाह एक दानी व्यक्ति ने 8 कट्ठा जमीन इस ट्रस्ट के नाम समर्पित किया है, जिस पर संस्था का निर्माण कार्य प्रगति पर है ,
संस्था की त्वरित  आवश्यकताओं में एक मस्जिद का निर्माण है,  जिसकी लागत लगभग ₹2500000 ,है
एक विस्तृत और  प्रशंसक असेंबली हॉल  का निर्माण भी प्रगति पर है इसमें ₹500000 की लागत है ,
*अन्य निर्माण कार्यों का विवरण इस प्रकार है ,*
10 कमरे पर आधारित  कक्षाओं का निर्माण अन्य सुविधाओं के साथ 1500000 रुपए,
बाउंड्री का निर्माण ₹300000
सदर कार्यालय, शिक्षकों के लिए कमरे और पुस्तकालय का निर्माण अन्य आवश्यकताओं के साथ 1500000 रुपए,
*NOTE*
इस संस्था की स्थापना एक ऐतिहासिक और क्रांतिकारी कदम है इसलिए सभी  शुभचिंतकों से एक ईमानदार अनुरोध  और अपील है कि संगठन को अपने लक्ष्य को प्राप्त करने के उद्देश्य में  हमारी मदद करें
*धन्यवाद*!
*हाफिज अब्दसु सलाम  नदवी
निदेशक शफी अहमद इस्लाही एजुकेशनल एंड वेलफेयर ट्रस्ट  ठीकहाँ कोठी मोतीपुर मुजफ्फरपुर बिहार 
संपर्क नंबर* 620010 2658 व्हाट्सएप नंबर* 9540618165
 

Share:

Kya Talim hi sikhati hai jine ka salika?

   ?kya Talim Hi Sikhati hai Jine Ka Salika 

? Islamic Talim (Education) kya Hai

*کیا تعـــــلیم ہی سکھــــاتی ہے جیـــنے کا سلیـــــقہ ...؟* 
تحریر ـــ  *عبــــــدالسلام نــــدوی*                    
تعلیم اور اخلاق کا عموما چولی دامن کا ساتھ مانا گیا ہے،اخلاقی بےراہ روی و معاشرتی بگاڑ کے موضوع پر جب بھی کسی صاحب علم سے گفت وشنید کا موقعہ حاصل ہوتا ہے،تو اسکی بنیادی وجہ کی نشاندہی کرتے ہوئے اکثروبیشتر حضرات علمی نااہلی وتعلیمی سرگرمی کے فقدان کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں، پر یہ امر کتنی حقیقت اور کتنا سراب ہے آج کے اس تحریر میں ہم اسی کو کھنگالنے کی کوشش کریں گے،
موجودہ معاشرہ جن برائیوں کی لپیٹ میں ہے،ان میں ضبط ولادت،گھریلو تشدد،جہیز(اجتماعی ڈکیتی) کا مطالبہ وخواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا معاملہ سر فہرست ہے،معاشرہ کے دامن پہ لگے یہ وہ چند کالے دھبے ہیں جنہیں ہر صاحب عقل سماج کے لئے بدنما داغ گردانتا ہے،اور اسکا ذمہ دار سماج کے غیرتعلیم یافتہ طبقہ کو ٹھہراتا ہے،پر آپ سب یہ جان کر شاید دانتوں تلے انگلی چبانے لگیں کہ ان برائیوں میں ملوث بڑی تعداد ان افراد کی ہے جو اہل علم میں شمار ہوتے ہیں اور علمی حلقہ سے تعلق رکھتےہیں،مثال کے طور پر اگر ہم محض خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ(Eve-teasing)کےمعاملہ کولے لیں توگزشتہ سال یعنی ۲۰۱۷ میں شائع شدہ دہلی کے ایک اخبار کے مطابق یہ واردات سب سے زیادہ دہلی کے معروف ومشہور شہر اوکھلا میں پیش آئی ہے،اس اخبار نے ایک طالبہ کا درد بھرا مراسلہ شائع کیاتھا جس میں اس نے گھر سے باہر نکلنے پر غیر محفوظ ہونے کے احساس کا ذکر کیا تھا،اور یہ کہ اسے ہر آن یہ خدشہ ستاتا رہتاہےکہ کہیں شہر کےاوباش،پڑھے لکھے جاہل،ڈگری یافتہ لچے اور صاحب عقل سلیم درندے شہوانیت سے پراپنی آرزووں کی تکمیل کیلئے اس پر چھلانگ نہ لگادیں اور اسکی نازک جسم کو دبوچ نہ لیں،علاقائی سطح پر شائع ہونےوالے اس ہفتہ واری انگریزی اخبار نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ اوکھلا ہندوستان میں اول درجہ کا تعلیم یافتہ وترقی یافتہ شہر ہے، اسے مزید چارچاند وہاں واقع پوری دنیا میں اپنےانمٹ نقوش چھوڑنے والی مشہور ومعروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی لگاتی ہے،یہی نہیں بلکہ وطن عزیز میں دعوتی و رفاہی سرگرمیاں انجام دینے والی اکثر فعال تنظیمیں اسی کے اطراف میں اپنا مرکزی ادارہ قائم کئے ہوئی ہیں،لیکن ان سب کے باوجود جنسی بےراہ وروی کےمعاملہ میں یہ شہر اخبار کی سرخی وجرائد ومجلات کی زینت بنا رہتاہے،اسی زمرے میں ایک مزید مثال کرناٹک کےسابق دارالحکومت اور ٹیپو کے شہر میسورکی میں پیش کرناچاہوں گا،جہاں دن کی چکاچونداور رات کی سیاہ تاریکیوں کے سناٹے میں پنپتی گھناونے جرائم کی کچھ داستانیں بنگولورو سے شائع ہونے والے اخبار "روزنامہ سالار" کے ذریعہ ۲۱/۱/۲۰۱۸ کو نشر کی گئی تھیں،یہ داستانیں نائس روڈ و قومی شاہراہوں پہ "چور طلباء" کے بڑھتے زور پر مشتمل تھیں،اسی میں یہ ذکر کیاگیا تھا کہ محض گزشتہ دوسالوں میں پولیس نے ۱۵۷ ایسے طلبہ کو گرفتار کیا ہےجو دسویں سےلیکر ڈگری کے آخر تک کی تعلیم حاصل کرنے والے ہیں،اور جرائم کا یہ معاملہ گرم توے پر پانی کے چھڑکاو کی طرح نہیں ہے، کیونکہ اسی *اخبار کی ایک اور رپورٹ کے مطابق پولیس نےحالیہ دنوں بارہ اوباشوں پر مشتمل ایک ایسی ٹولی کو حراست میں لیا ہے جس کے اہم ملزم نےپی یوسی امتحانات میں چھیاسی فیصد نمبرات سے کامیابی حاصل کی تھی*،بہر کیف جرائم کی یہ ایک مختصر داستان ہے جو شہری اورضلعی پیمانہ پر پیش کی گئی،اب آئیئے صوبائی سطح پر نظر دوراتے ہیں،تاریخ گواہ ہے کہ جب سے حکومتیں قائم ہوناشروع ہوئی ہیں تب سے دار الحکومت کاانتخاب تمام حکماء کےلئے ایک بڑا چیلنج بنا رہاہے،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دارالحکومت وہ جگہ ہے جہاں ملک کے کل معاملات طے پاتے ہیں اور یہیں سےتمام فرامین صادر بھی ہوتے ہیں،چنانچہ دار الحکومت کے لئے تعلیمی واخلاقی،تہذیبی وثقافتی ادارتی و اقتصادی ہرپہلو سے قابل اطمینان ہونا ازحد ضروری ہے،ہندوستان کا دار الحکومت بھی اس خوبی سے متصف ہے،صرف تعلیمی پہلو پر ہی نظر ڈالیں تو یہاں علم حاصل کرنے والے افراد کی تعداد بنسبت دوسرے صوبوں کے زیادہ نظر آتی ہے،لیکن چند سال قبل میری نظر سے جب ایک اخبار کی یہ رپورٹ گزری کہ صوبہ دہلی اب " ریپ کیپیٹل "بن چکا ہے،تو تھوڑے وقفہ کے لئے میں سہم ساگیا،پرکرتابھی کیا نربھیا کے واقعہ نے مجھے بھی اس نعرہ پر لبیک کہنے پہ مجبور کردیا،اور اب مظلومیت کے اس صف میں نربھیا کے ساتھ شمالی کرناٹک کے مشہور شہر وجئے پورہ کی دانمانامی ایک دلت لڑکی بھی کھڑی ہے،جسے اونچی ذاتی سےتعلق رکھنے والے چار ہندو لڑکو نے اجتماعی عصمت دری کے بعد قتل کے گھاٹ اتار دیا،
اس اجمالی تحریر پر نظر ثانی کریں اور مجھے اسکا جواب دیں کہ کیا واقعی میں محض تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو ان انسانیت سوز جرائم کے انسداد میں آخری مہر کی حیثیت رکھتا ہے ..؟اگر معاملہ ایسا ہے تو کیوں جرم کی دنیا کے بےتاج بادشاہوں کا تعلق اعلی تعلیم یافتہ طبقوں سے ہے،بلکہ ان میں بڑی تعداد پی ایچ ڈی و بی یوایم ایس کے ڈگری ہولڈرز کی ہے، یعنی وہ ڈاکٹرز جنہیں ایک عقیدہ کے مطابق بھگوان کا دوسرا روپ مانا جاتا ہے،اپنے اس بات کی توثیق کےلئے میں راجستھان کے اس اسٹینگ آپریشن کا ذکر کرنا چاہوں گا،جو دو جرنلسٹز کے ذریعہ کیا گیا تھا،اور جس میں ڈاکٹروں کو اسقاط حمل(female foeticide) میں بڑے پیمانہ پر ملوث پایا گیا تھا،اسی اسٹینگ آپریشن میں ایک خاتون ڈاکٹرسے یہ پوچھنے پر کہ" بچہ اگر مادر رحم میں پانچ چھ مہینہ کا ہوجائےتو آپ اسکا اسقاط کیسے کرتی ہیں، اس نے انسانیت کو شرمسار کرنے والا یہ جواب دیا تھا کہ "ہم تھیلی میں بچہ کو ڈال کر کسی کوڑا دان میں پھینک دیتے ہیں"،نعوذ باللہ،
اسقاط حمل کےلئےعورتوں پر ہونے والے پورے ملک میں تشدد کی جو داستانیں ہیں اگر اسکا ذکر کیا جائے تو یہ مختصر مضمون کتابچہ کی شکل اختیار کرلےگا،اور یہ کہانیاں گاؤں کےان پڑھ باشندوں کی نہیں بلکہ اسمارٹ سیٹیز میں اپنے شب وروز گزارنے والے اعلی تعلیم یافتہ طبقہ کی ہے،
اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ محض تعلیم سماج کی برائیوں کا واحد حل نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ تربیت کاہونا بھی لازم ہے،صحیح تعلیم کے ساتھ صحیح تربیت جب تک معاشرے کے اندر اتارا نہیں جائیگا تب تک ایسے پڑھے لکھے ڈاکو پنپتے رہیں گے،جو انتہائی منظم طریقہ سے جرم کی واردات انجام دیتے رہیں گے اور ہمارا سماج اپنی ہی قوم کے جیالوں کے ہاتھوں ذلت و پستی کے عمیق غار میں جاتارہیگا،

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS