Sahab Urdu Akhbar Padhta kaun hai?
Aajkal Urdu News paper padhne walo ki tadad itni kam kyu hoti ja rahi hai?
Written by Abdus Salaam Nadawi.
صاحب اردو اخبار پڑھتا کون ہے
تحریر ۔حافظ عبدالسلام ندوی
گزشتہ دنوں جب میرا شہر مظفرپور کےایک بڑے ہسپتال میں اہلیہ کے علاج کے سلسلہ میں جانا ہوا تو صبح سویرے اردو اخبار کی تلاش میں نکلا،امید تھی کہ کوئی نہ کوئی اردو اخبار ضرور ہاتھ لگےگا،لیکن تلاش بسیار کے باوجود ناکامی ہی ہاتھ لگی،جتنے اخبار بیچنے والوں سے دریافت کرتا سبکا ایک ہی جواب ہوتا"صاحب اب اردو اخبار پڑھتا کون ہے"،یہ جملہ میرے دل میں تیر کی مانند چبھتا اور باربار اسے زخمی کر دیتا، میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ آخر اردو اخبار کے قارئین اس قدر کم کیوں ہوگئے، جبکہ اسی زبان نے صحافت اور پرنٹ میڈیا کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایاہے، اور اسکی اہمیت اس قدر دوبالا کی ہے کہ دور حاضر کو میڈیا کا دور کہا جانے لگا ہے،
اس وقت پورے ہندوستان میں زائد از پچاس اردو اخبارات اور روزنامے شائع ہوتے ہیں، ان میں اکثر اخبارات بڑے بڑے قلمکاروں کے مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں اور دیدہ زیب طباعت میں شائع ہوتے ہیں، لیکن اسے اردو اخبارات کی حرماں نصیبی ہی کہی جاسکتی ہے کہ اس قدر اہتمام سے شائع ہونے کے باوجود اسکے قارئین کی تعداد حیرت انگیز طور پر روز افزوں گھٹتی جارہی ہے، یہاں تک کہ مسلم تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس سے روگردانی اختیار کر رہا ہے، بیشک اردو نہ تو مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے اور نہ ہی اردو اخبار کی ابتدا مسلمانوں نے کی ہے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو صحافت کو بام بلند تک پہنچانے والے مسلمان ہی ہیں، آزادی سے قبل 1857 کی بغاوت میں مولوی محمد باقر کے ‘دہلی اردو اخبار’ جمیل الدین ہجر کے ‘صادق الاخبار’ اور مرزا بیدار بخت کے اخبار ‘پیام آزادی’ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، اور فرنگی راج کے خلاف ہندوستانی عوام کے دلوں میں نفرت اور غم و غصہ کے جذبے کو بیدار کیا تھا، جس کے نتیجے میں ملک کو سامراجی استبداد سے رہائی ملی، آزادی کے بعد بھی مسلمانوں نے ہی سب سے زیادہ اردو صحافت کی خدمت انجام دی ہے، اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے، یہاں کوئی یہ باور نہ کرے کہ بار بار مسلمانوں کا ذکر کرکے میں گنگا جمنی تہذیب اور قومی یکجہتی کی اس زبان کو ہندو مسلم کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن ملک میں اس زبان کے ساتھ حکومتی سطح پر جس طرح سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے، اسے مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں غیر قوم سے اس زبان کے حق میں کسی خیر کی امید کرنا بےسود ہے، الا ماشاءاللہ، لہذا مسلمانوں پر یہ ذمہ داری سب سے پہلے عائد ہوتی ہے کہ وہ اردو صحافت کو ترقی دینے کے لیے کوشاں ہوں، اور ملک کے جس گوشہ میں بھی وہ بودوباش اختیار کررہے ہوں، اردو اخبار جاری کرانے کی کوشش ضرور کریں، تاکہ کسی اخبار بیچنے والے کو یہ کہنا نہ پڑے کہ "صاحب اردو اخبار اب پڑھتا کون ہے،" علاوہ ازیں کسی بھی اخبار کی ترقی میں سرمایہ سب سے اہم رول ادا کرتا ہے، اسکے لئے آپ غیر نفع بخش صحافتی اداروں کو ڈونیٹ بھی کرسکتے ہیں، لیکن اس سے کہیں بہتر اور باوقار طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے اشتہارات اردو اخبارات میں شائع کرائیں، اور بڑی بڑی کمپنیوں کی توجہ بھی اس جانب راغب کریں، تاکہ انکے معاوضہ میں حاصل شدہ سرمایہ سے اردو صحافت کی جدیدکاری کا عمل بھی انجام دیا جاسکے، الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں پرنٹ میڈیا کو جب تک جدید آرائشوں سے مزین نہیں کیا جائیگا، تب تک اس میں قارئین کے لئے دلچسپی کا سامان پیدا نہیں ہوگا، اسی کے ساتھ اخبارات کے ذمہ داروں کو بھی مشہور صحافی ومجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کے بتائے ہوئے یہ دو رہنما اصول ہمیشہ یاد رکھنے چاہئے کہ اخبار کا مقصد یہ ہوکہ اپنی قوم کو فائدہ پہنچایا جائے نہ کہ کسی غیر قوم کو نقصان پہنچایا جائے، اور اخبار خبروں کا مجموعہ ہوتا ہے، لہذا زیادہ تر خبروں کا مجموعہ ہونا چاہیے،