Muzaffarpur District ka Mukhtaser Taarikh, about Muzaffarpur, where is muzaffarpur, Muzaffarpur History
ضلع مظفرپور کی مختصر تاریخ
شاہی لیچی کی سرزمین سے مشہور ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست بہار کا تیسرا اکثریتی آبادی والا ضلع مظفر پور تاریخی صفحات میں نمایاں مقام رکھتاہے،اس ضلع کو ۱۸۷۵ ء میں انتظامی سہولت کے لئے ترہت ڈویزن سے جدا کرکے وجود میں لایا گیاتھا،اور برطانوی عامل مظفرخان کے نام سے اسکو موسوم کیاگیاتھا،
قدیم زمانہ میں ترہت مختلف ہندو حکمرانوں کے قبضہ میں رہاہے البتہ ان سب کی تاریخ تفصیلی طور پہ کہیں یکجا موجود نہیں ہاں کچھ افسانوی باتیں ہیں جو ہندو دیومالا ئی کتابوں میں پائی جاتی ہیں ،باوثوق تاریخی کتابوں سے ہمیں شمالی ہند کے عظیم طاقتور بادشاہ ہرش وردھن کا سب سے پہلے تذکرہ ملتاہے جو متحدہ شمالی ہندوستان کا آخری ہندو بادشاہ ہے،اس عظیم حکمراں نے شمالی ہند پر چار دہائیوں تک حکومت کی ،یہ پوشیہ بھوتی خاندان سلطنت کا حکمراں تھا،اپنی حکومت کے آخری ایام میں ہرش وردھن نے ترہت ضلع کو مقامی سرداروں کے قبضہ میں دے دیاتھا،آٹھویں صدی کے اواخر میں پالا حکمرانوں نے ترہت پر ۱۰۱۹ ء تک مرکزی ہندوستان کے چڈی حکمرانوں تک قبضہ کرنا جاری رکھا ،اور فوجی نسل کے سرداروں کے ذریعہ گیارہویں صدی کے نزدیک تک جگہ لے لی،
۱۲۱۱ ء اور ۱۲۲۶ ء کے درمیان بنگال کا حکمراں غیاث الدین عواج شاہ جسے بعد میں حسام الدین عواج خلجی کے نام سے جانا گیا ترہت پر پہلا حملہ ورتھا،حالانکہ وہ ریاست کو فتح نہ کرسکا ،
۱۳۲۳ ء میں تغلق سلطنتی خانوادے کا بانی اور غازی ملک کے نام سے مشہور سلطان غیاث الدین تغلق نے ترہت پر حملہ کیا اور اس علاقہ پر اپنا قبضہ جمایا،تغلق شاہ نے ترہت کا مینیجمنٹ کامیشور ٹھاکر کے ذمہ سونپ دیا،اس طرح ترہت کی خود مختار طاقت ہندو سربراہان سے مسلمانوں تک منتقل ہوتی رہی،چودہویں صدی کے اواخر میں پورا شمالی بہار جون پور کے حکمرانوں کے ہاتھ میں چلا گیا،اور تقریبا ایک صدی تک انکے قبضہ میں رہا،جب تک دلی کے سکندر لودھی نے جون پور کے بادشاہ کو شکشت دی،اس درمیان بنگال کے نواب حسین شاہ اتنا طاقتور ہوگئے تھے کہ انہوں نے ترہت کے ساتھ بڑے علاقوں پر اپنے قبضہ کی کوشش کی ، دلی کے شہنشاہ ۱۴۹۹ ء میں حسین شاہ کے خلاف تھے انہیں بادشاہ کو شکشت دینے بعد ترہت پر قبضہ ملا،یہیں سے بنگال کے نوابوں کی طاقت کم ہوگئی اور محمود شاہ کے زوال کے ساتھ ترہت سمیت شمالی بہار عظیم مغل حکومت کا حصہ بن گیا ،اگرچہ مظفرپور پورے شمالی بہار کے ساتھ قبضہ کرلیا گیاتھا،لیکن بنگال کے نواب داؤد خان کے دنوں تک اس علاقہ پر چھوٹے چھوٹے سرداروں نے اپنا اثر قائم رکھاتھا،داؤد خان کا پٹنہ اور حاجی پور میں کوٹ (گڑھ)تھا۔
۱۷۶۴ ء میں بکسر کی لڑائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فتح نے انگریزوں کو پورے بہار پر قابض کردیا،اور وہ پورے ضلع کوجیتنے میں کامیاب ہوگئے ،لیکن جب ہندوستانیوں نے دوبارہ ہوش کے ناخن لئے تو ۱۸۵۷ ء میں دلی میں باغیوں کی کامیابی سے اس ضلع کے انگریزی باشندوں کو سنگین تشویش کا سامنا کرنا پڑا ،اس موقعہ پر پورے ضلع میں انقلابی نعرے بلند ہونے لگے،مظفر پور نے اس میں اہم کردار ادا کیا ،یہ ۱۹۰۸ ء کے مشہور بم معاملہ کی جگہ تھی ،بنگالی انقلابی نوجوان کھدی رام بوس محض ۱۸ سال کے لڑکے کو پرنگل کینیڈی کی گاڑی میں بم پھینکنے کے لئے پھانسی پر لٹکا دیا گیا،مظفرپور ضلع جج کے ذریعہ آزادی کے بعد اس انقلابی محب وطن نوجوان کے لئے ایک اسٹیچو بطور یادگار بنایا گیا تھا،جو اب بھی کھڑا ہے ،جنگ عظیم اول کے بعد ملک میں جاری سیاسی بیداری نے مظفرپور ضلع میں بھی قومی تحریک کو بڑھاوادیا،
۱۹۷۵ ء دسمبراور پھر ۱۹۷۷ ء میں گاندھی جی کے مظفرپور ضلع میں دو اہم سفروں نے لوگوں کے خفیہ جذبات کو ابھارنے میں زبردست کارنامہ انجام دیا ،اور ضلع نے آزادی کے لئے ملک کی جد وجہد میں ایک اہم کردار ادا کیا،
مظفرپور نے شمالی مشرقی ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم کردار نبھایا لیکن ان سب سے بڑھ کر اس ضلع کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہندو مسلم تہذیبوں اور خیالات کا میٹنگ پلیس ہے،اور آج بھی اس سرزمین کی مٹی اپنے اسی امتیاز کے ساتھ دوسرے ہندوستانی اضلاع پر فخر کرتی ہے اور لوگوں کودعوت نظارہ دیتی ہے۔
قدیم زمانہ میں ترہت مختلف ہندو حکمرانوں کے قبضہ میں رہاہے البتہ ان سب کی تاریخ تفصیلی طور پہ کہیں یکجا موجود نہیں ہاں کچھ افسانوی باتیں ہیں جو ہندو دیومالا ئی کتابوں میں پائی جاتی ہیں ،باوثوق تاریخی کتابوں سے ہمیں شمالی ہند کے عظیم طاقتور بادشاہ ہرش وردھن کا سب سے پہلے تذکرہ ملتاہے جو متحدہ شمالی ہندوستان کا آخری ہندو بادشاہ ہے،اس عظیم حکمراں نے شمالی ہند پر چار دہائیوں تک حکومت کی ،یہ پوشیہ بھوتی خاندان سلطنت کا حکمراں تھا،اپنی حکومت کے آخری ایام میں ہرش وردھن نے ترہت ضلع کو مقامی سرداروں کے قبضہ میں دے دیاتھا،آٹھویں صدی کے اواخر میں پالا حکمرانوں نے ترہت پر ۱۰۱۹ ء تک مرکزی ہندوستان کے چڈی حکمرانوں تک قبضہ کرنا جاری رکھا ،اور فوجی نسل کے سرداروں کے ذریعہ گیارہویں صدی کے نزدیک تک جگہ لے لی،
۱۲۱۱ ء اور ۱۲۲۶ ء کے درمیان بنگال کا حکمراں غیاث الدین عواج شاہ جسے بعد میں حسام الدین عواج خلجی کے نام سے جانا گیا ترہت پر پہلا حملہ ورتھا،حالانکہ وہ ریاست کو فتح نہ کرسکا ،
۱۳۲۳ ء میں تغلق سلطنتی خانوادے کا بانی اور غازی ملک کے نام سے مشہور سلطان غیاث الدین تغلق نے ترہت پر حملہ کیا اور اس علاقہ پر اپنا قبضہ جمایا،تغلق شاہ نے ترہت کا مینیجمنٹ کامیشور ٹھاکر کے ذمہ سونپ دیا،اس طرح ترہت کی خود مختار طاقت ہندو سربراہان سے مسلمانوں تک منتقل ہوتی رہی،چودہویں صدی کے اواخر میں پورا شمالی بہار جون پور کے حکمرانوں کے ہاتھ میں چلا گیا،اور تقریبا ایک صدی تک انکے قبضہ میں رہا،جب تک دلی کے سکندر لودھی نے جون پور کے بادشاہ کو شکشت دی،اس درمیان بنگال کے نواب حسین شاہ اتنا طاقتور ہوگئے تھے کہ انہوں نے ترہت کے ساتھ بڑے علاقوں پر اپنے قبضہ کی کوشش کی ، دلی کے شہنشاہ ۱۴۹۹ ء میں حسین شاہ کے خلاف تھے انہیں بادشاہ کو شکشت دینے بعد ترہت پر قبضہ ملا،یہیں سے بنگال کے نوابوں کی طاقت کم ہوگئی اور محمود شاہ کے زوال کے ساتھ ترہت سمیت شمالی بہار عظیم مغل حکومت کا حصہ بن گیا ،اگرچہ مظفرپور پورے شمالی بہار کے ساتھ قبضہ کرلیا گیاتھا،لیکن بنگال کے نواب داؤد خان کے دنوں تک اس علاقہ پر چھوٹے چھوٹے سرداروں نے اپنا اثر قائم رکھاتھا،داؤد خان کا پٹنہ اور حاجی پور میں کوٹ (گڑھ)تھا۔
۱۷۶۴ ء میں بکسر کی لڑائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فتح نے انگریزوں کو پورے بہار پر قابض کردیا،اور وہ پورے ضلع کوجیتنے میں کامیاب ہوگئے ،لیکن جب ہندوستانیوں نے دوبارہ ہوش کے ناخن لئے تو ۱۸۵۷ ء میں دلی میں باغیوں کی کامیابی سے اس ضلع کے انگریزی باشندوں کو سنگین تشویش کا سامنا کرنا پڑا ،اس موقعہ پر پورے ضلع میں انقلابی نعرے بلند ہونے لگے،مظفر پور نے اس میں اہم کردار ادا کیا ،یہ ۱۹۰۸ ء کے مشہور بم معاملہ کی جگہ تھی ،بنگالی انقلابی نوجوان کھدی رام بوس محض ۱۸ سال کے لڑکے کو پرنگل کینیڈی کی گاڑی میں بم پھینکنے کے لئے پھانسی پر لٹکا دیا گیا،مظفرپور ضلع جج کے ذریعہ آزادی کے بعد اس انقلابی محب وطن نوجوان کے لئے ایک اسٹیچو بطور یادگار بنایا گیا تھا،جو اب بھی کھڑا ہے ،جنگ عظیم اول کے بعد ملک میں جاری سیاسی بیداری نے مظفرپور ضلع میں بھی قومی تحریک کو بڑھاوادیا،
۱۹۷۵ ء دسمبراور پھر ۱۹۷۷ ء میں گاندھی جی کے مظفرپور ضلع میں دو اہم سفروں نے لوگوں کے خفیہ جذبات کو ابھارنے میں زبردست کارنامہ انجام دیا ،اور ضلع نے آزادی کے لئے ملک کی جد وجہد میں ایک اہم کردار ادا کیا،
مظفرپور نے شمالی مشرقی ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم کردار نبھایا لیکن ان سب سے بڑھ کر اس ضلع کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہندو مسلم تہذیبوں اور خیالات کا میٹنگ پلیس ہے،اور آج بھی اس سرزمین کی مٹی اپنے اسی امتیاز کے ساتھ دوسرے ہندوستانی اضلاع پر فخر کرتی ہے اور لوگوں کودعوت نظارہ دیتی ہے۔
تحریر۔حافظ عبدالسلام ندوی
چیئر مین السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر
چیئر مین السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر
No comments:
Post a Comment