find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Ambiya Qabr Me Jinda HAi Aur NAmaj Bhi PAdhte HAi?

 Kya Ambiya Qabr Me Jinda HAi Aur Namaj Padhte Hai?

​​​​​​​​​​​​​​​​​​​•‍━━•••◆◉﷽◉◆•••‍━━•*
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں
۔* •┈┈┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈┈┈•*
اس حدیث کی مکمل تحقیق ہے:
الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون { مسند أبي يعلى 6/147 (3425) }
اس کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے (سلسلہ صحیحہ رقم :621)
لیکن اسکی سند میں أبو الجہم الأزرق بن علی مجہول الضبط ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسکے بارہ میں کہا ہے " صدوق یغرب" یعنی یہ عادل راوی ہے اور انوکھی انوکھی روایات بیان کرتا ہے ۔
صرف ابو الجہم الازرق ہی اس روایت کی علت نہیں ہے بلکہ سند میں نکارت بھی شامل ہے جس کہ وجہ سے یہ سند متابع بننے سے مزید دور ہو گئی۔
اس روایت کو درج ذیل لوگوں نے حسن بن قتیبہ (متروک) کے طریق سے مستلم بن سعید سے روایت کیا ہے:
1- رزق اللہ بن موسی ثقہ(مسند البزار)
2- احمد بن عبد الرحمن الحرانی ثقہ (فوائد تمام)
3- حسن بن عرفہ العبدی ثقہ (حیاۃ الانبیاء للبیہقی)
لیکن جب ابو یعلی نے اسے ابو الجہم سے روایت کیا تو اس نے حسن بن قتیبہ کی جگہ یحیی بن بکیر کا اضافہ کر دیا۔ جس سے اس پر کلمہ "یغرب" کے کہنے کا واضح سبب نظر آتا ہے۔
جہاں تک شیخ البانی کا یہ کہنا ہے کہ ابو الجہم کی متابعت یحیی بن بکیر کے پوتے نے کر رکھی ہے تو عرض ہے کہ جس سند سے شیخ نے یہ استدلال کیا ہے وہ خوداس پوتے سے ہی ثابت نہیں، لہٰذا متابعت کے لئے شرط ہے کہ وہ متابع سے ثابت ہو، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے۔
کسی بھی راوی کی روایت تب قبول ہوتی ہے جب وہ عادل اور ضابط ہو ۔ اس راوی کا عادل ہونا تو حافظ صاحب کے قول "صدوق" سے ثابت ہوگیا ہے لیکن اسکا ضبط یعنی حافظہ کیسا تھا مضبوط تھا یا کمزور تو اسکے بارہ میں کوئی علم نہیں ہاں حافظ صاحب رحمہ اللہ کا فرمان "یغرب" اسکے حافظہ کی خرابی کی طرف لطیف اشارہ ہے ۔ اور اسی طرح ابن حبان نے بھی اسے ثقات میں ذکر کر کے "یغرب" کا کلمہ بھی بولا ہے ۔ اور ابن حبان کا رواۃ کی توثیق میں متساہل ہونا معلوم ہے ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کا اس روایت کو حسن قرار دینا تعدد طرق کی بناء پر ہے ۔ جبکہ اسکے تمام تر طرق مل کر بھی یہ روایت اس قابل نہیں بنتی کہ اسے قبول کیا جائے کیونکہ اسکی مسند بزار ' فوائد رازی ' تاریخ دمشق ' الکامل لابن عدی ' اور حیاۃ الأنبیاء للبیہقی والی سند کا مرکزی راوی حسن بن قتیبہ المدائنی سخت ضعیف ہے ۔ بلکہ امام دارقطنی نے تو اسے متروک کہا ہے ۔
اس ضعیف راوی کی روایت کو بطور متابعت پیش کرکے امام البانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے " یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ازرق نے یہ حدیث یاد رکھی ہے اور کوئی انوکھا کام نہیں کیا " لیکن شیخ صاحب رحمہ اللہ کا یہ فرمان محل نظر ہے کیونکہ یہ سند متابعت کے قابل نہیں !
رہا حیاۃ انبیاء کا مسئلہ تو وہ صحیح احادیث اور نص قرآنی سے ثابت ہے ۔ کہ انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین اپنی قبروں میں اخروی زندگی کا پہلا مرحلہ یعنی برزخی زندگی گزار رہے ہیں جو کہ دنیوی زندگی سے بہت مختلف ہے ۔ اسے حیاۃ دنیوی قرار دینا فہم کا زوال ہے ۔
الحاصل 👈یہ حدیث کہ "انبیاء زندہ ہیں اور وہ اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں " تو وہ ضعیف ہے ((أخرجه البزار في " مسنده " ( 256 ) و تمام الرازي في " الفوائد " ( رقم 56 - نسختي ) و عنه ابن عساكر في " تاريخ دمشق " ( 4 / 285 / 2 ) و ابن عدي في " الكامل " ( ق 90 / 2 ) و البيهقي في " حياة الأنبياء " ( ص 3 )) ۔ انبیاء ہوں یا غیر انبیاء , تمام تر انسان اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں لیکن وہ زندگی اخروی زندگی کا پہلا مرحلہ ہے جسے برزخی زندگی کہا جاتا ہے ۔ اور وہ زندگی حیات دنیوی سے مختلف ہوتی ہے ۔
انبیاء کرام علیہم السلام تمام انسانوں کے افضل ہیں، جن کے سردار سیدنا نبی کریمﷺ ہیں۔ جو تمام بنی آدم کے سردار بھی ہیں اور سید الانبیاء والمرسلین بھی۔ آپﷺ تمام لوگوں میں اکمل ترین، افضل ترین اور سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز بھی ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ​
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی وجہ سے آپ میں سے بشریت کے خصائص سلب ہوگئے ہیں یا آپ کے اندر خالق کی صفات میں سے کوئی صفات آگئی ہیں، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ آپ کی افضیلت اور اللہ کے ہاں محبوب ہونے کی بنیادی وجہ ہی آپ کی کامل بندگی وکامل ترین عبودیت ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی کریمﷺ کو باوجود افضل ترین شخصیت ہونے کے وہ چیزیں لاحق ہوتی تھیں جو دیگر لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں، مثلاً آپ کو کھانے پینے، سونے اور شادی وغیرہ کرنے کی احتیاج ہوتی تھی، اسی طرح آپ بیمار بھی ہوتے تھے، اور اسی طرح آپﷺ دیگر انسانوں کی طرح فوت بھی ہوئے، اسی لئے آپﷺ کیلئے کفن دفن اور قبر مبارک وغیرہ کا اہتمام کیا گیا۔ فرمان باری ہے: ​
﴿ کل نفس ذائقة الموت ﴾ کہ ’’ہر نفس نے موت کا ذائقۃ چکھنا ہے۔‘‘​
نیز فرمایا: ﴿ إنك ميت وإنهم ميتون ﴾ کہ ’’(اے میرے حبیب! یقینی بات ہے کہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار مکہ) بھی مر جائیں گے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد أفائن مت فهم الخلدون ﴾ کہ ’’(اے میرے حبیب! ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کو ہمیشہ کی زندگی عطا نہیں کی، تو جب آپ (افضل الشبر علیہ الصلاۃ والسلام) نے فوت ہونا ہے تو کیا یہ (کفار مکہ) ہمیشہ زندہ رہیں گے؟‘‘
دیگر انبیاء کرام علیہم السلام بھی فوت ہوئے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:﴿ تلك أمة قد خلت لها ما كسبت ولكم ما كسبتم ﴾ کہ ’’یہ امتیں تھیں جو گزر چکیں، ان کے لئے جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لئے جو تم نے کمایا۔‘‘
جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق﷜ نے اپنا مشہور مقولہ فرمایا تھا: (من کان یعبد محمدا صلی اللہ علیہ وسلم فإن محمدا قد مات ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، وقال: (إنك ميت وإنهم ميتون) وقال: (وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسول أفائن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا)...صحيح البخاري کہ ’’جو شخص محمد ﷺ کی بندگی کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد تو مر چکے ہیں، اور جو شخص اللہ رب العٰلمین کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ تعالیٰ زندہ لا زوال ہیں اور کبھی نہیں مریں گے، پھر آپ﷜ نے درج ذیل دو آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی جن کا ترجمہ یہ ہے:
1. یقیناً آپ (اے میرے حبیب!) فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار) بھی مر جائیں کے۔
2. نہیں کہ محمد مگر رسول ہی، جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے (یعنی آ کر فوت ہوچکے) کیا اگر وہ (محمد) مر جائیں یا شہید کر دئیے جائیں تم مرتد ہوجاؤ گے؟ اور جو اپنے قدموں پر پلٹا تو وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: « ما على الأرض نفس منفوسة ، يعني : اليوم - يأتي عليها مائة سنة » کہ ’’آج زمیں پر جتنے لوگ موجود ہیں، سو سال کے بعد ان میں سے کوئی نفس بھی سانس لینے والا (یعنی زندہ) نہیں ہوگا۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: « لا يبقى على وجه الأرض بعد مائة سنة ممن هو عليها اليوم أحد » اس کا مفہوم بھی پچھلی حدیث مبارکہ کی طرح ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انبیاء کرام﷩ بشمول سید الانبیاء والمرسلینﷺ فوت ہوگئے لیکن وہ اپنے قبروں میں زندہ ہیں، جیسے شہید اپنی قبروں میں زندہ ہیں، تو یہ بات صحیح ہے، صحیح حدیث میں سیدنا ابو الدراء﷜ سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:« أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة ، فإنه مشهود تشهده الملائكة ، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال : قلت : وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت ، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ، فنبي الله حي يرزق » ... سنن ابن ماجه وحسنه الألباني في صحيح الترغيب کہ ’’مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں، اور جب تم سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟ فرمایا: موت کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کو جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کے نبی زندہ ہوتے اور رزق دئیے جاتے ہیں۔‘‘
اسی طرح سیدنا انس﷜ سے مروی ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:« الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون » ... مسند البزار، وصححه الألباني رحمه الله کہ ’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
لیکن یہ بات واضح رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء وغیرہ کی یہ زندگی برزخی زندگی ہے، جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی دنیا میں موجود زندہ لوگ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ بلکہ جیسے ہی انبیاء وشہداء فوت ہوتے ہیں، ان کی برزخی زندگی شروع ہوجاتی ہے، لیکن دفنانے سے پہلے وہ ہمارے سامنے تو مردہ ہی ہوتے ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ انبیاء کرام﷩ اور شہداء﷭ وغیرہ کی قبر کی زندگی برزخی ہے، جسے دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے، فرمان باری ہے: ﴿ ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أموات بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ کہ ’’جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائیں، انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم (اے انسانو) شعور نہیں رکھتے۔‘‘
یہ آیت کریمہ بہت واضح دلیل ہے کہ ہم اس برزخی زندگی کے معاملات نہیں سمجھ سکتے۔
امام ابن کثیر﷫ شہادت کے بعد شہداء کی روحوں کا سبز پرندوں میں آنا اور اور جنت کی سیر وغیرہ اور پھر شہیدوں کا اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کو دنیاوی اجساد میں لوٹانے کے مطالبے کے متعلق فرماتے ہیں: (يدل على أن هذا النعيم نعيم الأرواح ، وهذه الحياة هي حياة الأرواح أيضا ، وهي حياة برزخية ، لا تشبه الحياة الدنيا بوجه ، وأن الأرواح ليست في أجسادها التي كانت لها في الدنيا ، ولذا سألت الله أن ترد إلى أجساها حتى تقتل ...تفسیر ابن اکثیر 2 ؍1 164) کہ ’’یہ احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ نعمتیں روحوں کیلئے ہیں۔ اور یہ زندگی بھی روحوں کی زندگی ہے، اور یہ برزخی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے کسی طور مشابہت نہیں رکھتی، اور ان کی روحیں ان کے دنیاوی اجساد میں نہیں ہوں گی، اسی لئے وہ اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کے دنیاوی جسموں میں لوٹانے کا مطالبہ کریں گے تاکہ وہ دوبارہ شہید ہوں (اور اللہ کے مزید انعامات حاصل کریں۔)‘‘
علماء لجنہ دائمہ﷭ فرماتے ہیں:
حياة الأنبياء والشهداء وسائر الأولياء حياة برزخية لا يعلم حقيقتها إلا الله ، وليست كالحياة التي كانت لهم في الدنيا " انتهى ... "
فتاوى اللجنة الدائمة" (1 / 173-174) کہ ’’انیباء اور شہداء کی زندگی اور اسی طرح دیگر تمام اولیاء کی زندگی برزخی زندگی ہے جس کی حقیقت اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، یہ زندگی ہرگز اس زندگی کی طرح نہیں جو دنیا میں تھی۔‘‘اور شہیدوں کی برزخی زندگی کی بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ ان کی وراثت تقسیم کر دی جاتی ہے، ان کی بیویوں سے دیگر لوگ شادی کر سکتے ہیں اور اسی طرح ان پر مردوں کے دیگر تمام احکامات جاری ہوتے ہیں۔
اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے فوت ہونے کے بعد ان کے جانشین خلیفہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے معاملات دیکھتے، ان کو نمازیں پڑھاتے، فتوے دیتے اور ان کے دیگر اختلافات کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اور اسی لئے جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وراثت کا مطالبہ کیا تھا، اگر آپ زندہ ہوتے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کبھی اپنی وراثت نہ مانگتیں اور ابو بکر صدیق﷜ انہیں یہ جواب دیتے کہ ابھی تو نبی کریمﷺ فوت ہی نہیں ہوئے لیکن سیدنا ابو بکر صدیق﷜ نے انہیں جواب میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی انبیاء کی اصل وراثت ان کا علم ہوتا ہے، ان کی درہم ودینار کی وراثت تو صدقہ ہوتی ہے
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS