Kya Shauher Haml KE Dauran Biwi Se Mil Sakta HAi
کیا دوران حمل اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرنا جائز ہے کوئی مسئلہ تو نہیں ؟
الجواب بعون رب العباد:
***********************************
كتبه:أبوزهير محمد يوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج کنگ سعود یونیورسٹی ریاض سعودی عرب۔
تخصص:فقہ واصولہ۔
*********************************
دوران حمل اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرنے کی شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
بشرط کہ بیوی کو اس دوران کسی مشکل کا سامنا نہ ہو۔
انہیں چاھئے کہ اس بارے میں اطباء سے بھی مشورہ لیں کہ آیا دوران حمل بچہ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچ سکتا ، لیکن شرعی نقطہ نظر سے دوران حمل جماع کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
جماع کرنا حالت حیض اور نفاس میں منع ہے۔
جیساکہ اللہ کا فرمان ہے کہ حالت حیض میں انکے قریب نہ جاو۔ [البقرہ].
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ دوران حیض ہی عورت کے ساتھ جماع کرنا غیر مشروع عمل ہے۔
اسی طرح دوران نفاس میں بھی عورتوں سے جماع کرنے کی ممانعت ہے لیکن دوران حمل کی کوئی دلیل موجود نہیں جسے ثابت ہوجائے کہ عورت سے جماع کرنا ناجائز ہے۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے اسی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ دوران حمل جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اسلئے کہ ایسا کرنے کی ممانعت شریعت میں موجود نہیں ہے۔[فتاوی لجنہ دائمہ353/119]۔
اسے ثابت ہوا کہ دوران حمل جماع کرنے میں کوئی حرج اور کوئی ممانعت یا حرمت نہیں ہے۔
اسی طرح بعض اطباء کا کہنا بھی یہی ہے کہ طبی رو سے بھی دوران حمل جماع کرنے میں پیٹ میں پلنے والے بچہ پر کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔
جامعہ ازھر کی ایک ڈاکٹر ھناء عبد المنعم جوکہ ایک زنانہ ہسپتال کی ڈاکٹرنی ہے ان سے ایک عورت نے سوال کیا کہ میں حمل سے ہوں اور میرے پیٹ میں چھ ماہ کا بچہ ہے تو کیا دوران حمل جماع کرنے سے بچہ کو کسی نقصان کا خطرہ ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ دوران حمل جماع کرنے سے کسی بھی نقصان یا خطرہ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
البتہ حمل کے دوران آخری تین ہفتوں میں جماع کرنے سے اجتناب کرنا ہی بھتر اور احوط ہے۔
انکا یہ بھی کہنا ہے کہ حمل کے آخری مہینوں میں عورت کے پیٹ پر زیادہ دباو نہ ڈالا جائے اسلئے کہ اطباء کی رائے ہے کہ اس طرح بچہ کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے ، البتہ دباو ڈالے بغیر جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
آخر میں انہوں کہا کہ اگر دوران حمل کوئی شخص اپنی بیوی سے اپنی عادت کے مطابق جماع کرے تو اسے کوئی نقصان نہیں ہے البتہ اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ اسکے پچھلے راستہ دوران حمل جماع کرے ایسا کرنا شرعی طور حرام ہے اور طبی طور اسکے کافی برے اثرات اور بہت سارے نقصانات ہیں۔
خلاصہ کلام:اسے ثابت ہوا کہ دوران حمل جماع کرنا شرعی نقطہ نظر سے بھی منع نہیں ہے اور طبی طور پر بھی دوران حمل جماع کرنے سے کوئی نقصان کا خطرہ نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحابته أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
الجواب بعون رب العباد:
***********************************
كتبه:أبوزهير محمد يوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج کنگ سعود یونیورسٹی ریاض سعودی عرب۔
تخصص:فقہ واصولہ۔
*********************************
دوران حمل اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرنے کی شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
بشرط کہ بیوی کو اس دوران کسی مشکل کا سامنا نہ ہو۔
انہیں چاھئے کہ اس بارے میں اطباء سے بھی مشورہ لیں کہ آیا دوران حمل بچہ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچ سکتا ، لیکن شرعی نقطہ نظر سے دوران حمل جماع کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
جماع کرنا حالت حیض اور نفاس میں منع ہے۔
جیساکہ اللہ کا فرمان ہے کہ حالت حیض میں انکے قریب نہ جاو۔ [البقرہ].
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ دوران حیض ہی عورت کے ساتھ جماع کرنا غیر مشروع عمل ہے۔
اسی طرح دوران نفاس میں بھی عورتوں سے جماع کرنے کی ممانعت ہے لیکن دوران حمل کی کوئی دلیل موجود نہیں جسے ثابت ہوجائے کہ عورت سے جماع کرنا ناجائز ہے۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے اسی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ دوران حمل جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اسلئے کہ ایسا کرنے کی ممانعت شریعت میں موجود نہیں ہے۔[فتاوی لجنہ دائمہ353/119]۔
اسے ثابت ہوا کہ دوران حمل جماع کرنے میں کوئی حرج اور کوئی ممانعت یا حرمت نہیں ہے۔
اسی طرح بعض اطباء کا کہنا بھی یہی ہے کہ طبی رو سے بھی دوران حمل جماع کرنے میں پیٹ میں پلنے والے بچہ پر کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔
جامعہ ازھر کی ایک ڈاکٹر ھناء عبد المنعم جوکہ ایک زنانہ ہسپتال کی ڈاکٹرنی ہے ان سے ایک عورت نے سوال کیا کہ میں حمل سے ہوں اور میرے پیٹ میں چھ ماہ کا بچہ ہے تو کیا دوران حمل جماع کرنے سے بچہ کو کسی نقصان کا خطرہ ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ دوران حمل جماع کرنے سے کسی بھی نقصان یا خطرہ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
البتہ حمل کے دوران آخری تین ہفتوں میں جماع کرنے سے اجتناب کرنا ہی بھتر اور احوط ہے۔
انکا یہ بھی کہنا ہے کہ حمل کے آخری مہینوں میں عورت کے پیٹ پر زیادہ دباو نہ ڈالا جائے اسلئے کہ اطباء کی رائے ہے کہ اس طرح بچہ کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے ، البتہ دباو ڈالے بغیر جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
آخر میں انہوں کہا کہ اگر دوران حمل کوئی شخص اپنی بیوی سے اپنی عادت کے مطابق جماع کرے تو اسے کوئی نقصان نہیں ہے البتہ اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ اسکے پچھلے راستہ دوران حمل جماع کرے ایسا کرنا شرعی طور حرام ہے اور طبی طور اسکے کافی برے اثرات اور بہت سارے نقصانات ہیں۔
خلاصہ کلام:اسے ثابت ہوا کہ دوران حمل جماع کرنا شرعی نقطہ نظر سے بھی منع نہیں ہے اور طبی طور پر بھی دوران حمل جماع کرنے سے کوئی نقصان کا خطرہ نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحابته أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
No comments:
Post a Comment