سوال: ایام تشریق میں روزہ رکھنا جائز ہے کہ نہیں کیونکہ میں نے سنا ہے کہ ان دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ سائلہ پاکستان۔
الجواب بعون رب العباد:
*********
کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب۔
تخصص/فقہ واصولہ۔
سنہ تخرج/2016 میلادی۔
*********
عیدین کے دن روزہ رکھنا شریعت کی نظر میں حرام ہے۔
دلیل:ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے عید الفطر اور یوم النحر کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔[بخاری حدیث نمبر:1992 ، مسلم حدیث نمبر:827]۔
اس پر علماء کا اجماع ہے کہ عیدین کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔
اسی طرح ایام تشریق یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو بھی روزہ رکھنا جائز ہے۔
دلیل:نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر واذکار کے دن ہیں۔[مسلم حدیث نمبر:1141]۔
دوسری دلیل: ابو مرہ مولی ام ھانی عبد اللہ بن عمرو کے ساتھ انکے والد عمرو بن العاص رضی اللہ کے پاس گئے ان دونوں کو کھانا پیش کیا گیا
عمرو نے ان سے کہا کہ کھاؤ ان میں سے ایک نے کھا کہ میں روزہ سے ہوں ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان کہا کہ یہ ایام کھانے پینے کے دن ہیں نبی علیہ السلام ہمیں ان دنوں کھانے کا حکم دیتے اور روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے۔[ابوداود حدیث نمبر:2418 اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے]۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ وہ دن ایام تشریق ہیں۔
تیسری دلیل:سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے نبی علیہ السلام نے حکم دیا کہ میں لوگوں میں ندا دوں کہ ایام منی کھانے پینے کے دن ہیں ان میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے یعنی ایام تشریق۔[مسند احمد بن حنبل رحمہ اللہ حدیث نمبر:1459 ، مسند احمد کے شارح نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے]۔
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کے نزدیخ ایام تشریق میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے ۔[المغني لابن قدامة51/3].
ایام تشریق کے ایام میں صرف اس حاجی کو روزہ رکھنا جائز ہے جو حاجی حج تمتع یا قرآن کرنے کی نیت کیا ہو اور وہ حج کی قربانی نہ پائے یا اسے قربانی کرنے کی طاقت نہ ہو باقی کسی اور کو ان ایام میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔
دلیل:حضرت عائشہ اور ابن عمر رضی اللہ عنھمم کہتے ہیں کہ جو حاجی قربانی نہ پائے اسکے لئے ایام تشریق میں روزہ رکھنا جائز ہے۔[صحیح بخاری 1998]۔
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حج تمتع اور قران والا اگر قربانی نہ پائیں تو انکے لئے ان ایام تشریق میں روزہ رکھنا جائز ہے اسکے علاوہ باقی کسی بھی شخص کے لئے ایام تشریق میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔[فتاوی صیام رمضان ص نمبر:727].
اس بات پر علماء ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ ایام تشریق میں روزہ رکھنا حرام ہے۔[حاشية الشلبي 313/1 ، البحر الرائق لابن نجيم 227/2 ، التمهيد لابن عبدِ البَرِّ127/12 ۔ مغني المحتاج للسربيني433/1 ،
المحلى لابن حزم 28/7 ]۔
اس پر علماء نے اجماع بھی نقل کیاہے۔[التمهيد لابن عبد البر127/12 ، الإنصاف للمرداوي248/3].
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ذی الحجہ کے تیرھویں تاریخ کو نفلی اور فرض روزہ دونوں ہی رکھنا جائز نہیں ہے اسلئے کہ ایام تشریق کھانے پینے کے اور ذکر وازکار کے دن ہیں ، نبی علیہ السلام نے ایام تشریق کے دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا لیکن جو حاجی[متمتع] قربانی نہ پائے وہ روزہ رکھ سکتا ہے۔[مجموع فتاوی ابن باز381/15]۔
آثار:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایام تشریق روزے کے دن نہیں ہیں وہ کھانے پینے اور ذکر واذکار کے دن ہیں۔[
حيح؛ رواه أحمد 92/1 ، وابن خزيمة 2147]۔
علامہ شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ ایک سائل کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ایام تشریق گیارہ بارہ تیرہ ذی الحجہ کو روزہ رکھنا جائز ہے اسلئے کہ یہ اکل وشرب اور ذکر واذکار کے دن ہیں البتہ چودہ ذی الحجہ کے روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[فتاوی ابن جبرین ، سوال:حكم صيام أيام البيض في شهر ذي الحجة لغير الحاج]۔
حضرت عقبہ بن عامر روایت کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ بے شک یوم عرفہ یوم النحر اور ایام تشریق کے دن ہمارے یعنی اہل اسلام کے عید کے دن ہیں اور یہ دن کہانے پینے کے دن ییں۔[نسائی حدیث نمبر:3004 ، ترمذی حدیث نمبر:حدیث نمبر:773، ابوداود حدیث نمبر:2519]۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
ان تمام ادلہ مذکورہ اور اہل علم کے فتاوے سے معلوم ہوا کہ عیدین اور ایام تشریق کے ایام میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔
البتہ حج تمتع اور قران والا اگر قربانی نہ پائے اسکے لئے ایام تشریق کے ایام میں روزہ رکھنا جائز ہے۔
هذا ماعندي والله تعالى أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.
No comments:
Post a Comment