سوال: خصی جانور کیا قربانی کے لۓ جائز ہے؟
الجواب بعون رب العباد:
************************
کتبہ/ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
متخرج جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب۔
**************************
خصی کے قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دلیل:ابورافع رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے خصی جانور کی قربانی کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [الارواء الغليل360/4 ، ه أحمد وأورده الهيثمي وقال:رواه أحمد وإسناده حسن].
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خصی جانور کی قربانی کرنی جائز ہے اسلئے کہ نبی علیہ السلام نے خصی جانور کی قربانی کی ہے اور خصی جانور کا گوشت زیادہ اچھا ہوتا ہے کسی جانور کا خصی ہونا قربانی کے لئے مانع نہیں ہے۔[اللقاء الشهري311/3].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ خصی جانور کی قربانی کو بعض اہل علم نے راجح قرار دیا۔ ۔ ۔ ۔[فتاوى نور على الدرب42/9]۔
جمہور اہل علم اور علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے کہ خصی جانور کی قربانی کرنا جائز ہے۔
دلیل:کہ نبی علیہ السلام نے دو خصی دنبہ کی قربانی کی ہے۔
یہی رائے امام حسن ، عطا ، امام شعبی امام نخعی امام مالک امام شافعی ابوثور اور اہل رائے کی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ كما قال ابن القدامة المقدسي ، المغني442/9].
امام خطابی رحمہ اللہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خصی جانور کی قربانی کرنا جائز ہے اور اسکی قربانی کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[معالم السنن 197/2]۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں خصی جانور کی قربانی کرنا جائز ہے۔ ۔ ۔ ۔۔[المجموع شرح المهذب].
اس سے ثابت ہوا کہ خصی جانور کی قربانی کرنی جائز ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
No comments:
Post a Comment