ایمان کیا ہے؟
غلام مصطفٰے امن پوری
اہل سنت والجماعت اس بات پر متفق ہیں اور یک زبان ہیں کہ :
[ar]الایمان تصدیق بالجنان(ای القلب) واقرار باللسان وعمل بالارکان ۔[/ar]
’’ایمان دل سے تصدیق ، زبان سے اقرار اور اعضاء و جوارح کے سا تھ عمل کا نام ہے۔‘‘
ایما ن کی یہی تعریف سلف صالحین نے ان الفاظ سے کی ہے :
قول و عمل ۔’’ ایمان (دل او ر زبان کے )قول اور(دل اور اعضاء کے)عمل کا نام ہے۔‘‘
امام ِ بخاری ایمان کی تعریف میں فرماتے ہیں [ar]: وهو قول و فعل[/ar]
’’ ایمان (دل او ر زبان کے )قول اور(دل اور اعضاء کے)فعل کا نام ہے۔‘‘
ان تمام تعریفوں میں کوئی منافات نہیں ہے ، کیونکہ شریعت میں عمل کا اطلاق قول و فعل پر بھی ہوتا ہے۔
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ
تعریف ِ ایمان میں سلف کی مختلف عبارات کے بارے لکھتے ہیں
[ar]والمقصود هنا أن من قال من السلف : الایمان قول و عمل ، أراد قول القلب واللسان وعمل القلب والجوارح ، ومن أراد الاعتقاد رأی أن لفظ القول لا یفهم منه الا القول الظاهر أو خاف ذلک فزاد الاعتقاد بالقلب ، ومن قال : قول و عمل ونیة ، قال : القول یتناول الاعتقاد وقول اللسان ، وأما العمل فقد لا یفهم منه النیة ، فزاد ذلک ، ومن زاد اتباع السنة فلان ذلک کله لا یکون محبوبا لله الا باتباع السنة ، وأولئک لم یریدوا کل قول و عمل ، انما أرادوا ما کان مشروعا من الأقوال والأعمال ، ولکن کان مقصودهم الرد علی المرجئة الذین جعلوه قولا فقط، فقالوا : بل قول و عمل ۔[/ar]
’’جن اسلاف نے ایمان کو قول و عمل کہاہے ، ان کی قول سے مراد دل و زبان کا قو ل ہے اور عمل سے قلب و جوارح کا عمل مرادہے، جنہوں نے یہ سوچا ہے کہ لفظ ِ قول صرف ظاہری قول کے لیے مستعمل ہے، انہوں نے اعتقاد ِ قلب کا لفظ بڑھا دیا، جنہوں نے قول ، عمل اور نیت سے ایمان کو تعبیر کیا ، ان کے ہاں قول اعتقاد اور ظاہری الفاظ دونوں کو شامل ہے، جبکہ عمل سے نیت کا مفہوم نہیں ملتا ، لہٰذا نیت کا لفظ بڑھا دیا ، اتباع سنت کا لفظ اس تعریف میں شامل کرنے والوں کے ذہن میں یہ توجیہ تھی کہ اتباع سنت کے بغیراللہ تعالیٰ کو کوئی عمل پسند نہیں آتا ، یعنی انہوں نے ہر قو ل و عمل کو ایمان کہا ، سب کا مقصود مرجئہ کا رد کرنا تھا ، جو ایمان کو صرف قو ل قراردیتے تھے ، سلف نے عمل کو بھی اس میں شامل کر دیا۔‘‘
(مجموع الفتاوٰ ی :7/171)
اہل سنت والجماعت کی اس متفقہ تعریف کے خلاف امام ابو حنیفہ ایمان کی تعریف سے عمل کو خارج کرتے ہیں ، جیسا کہ امام وکیع بن الجراح فرماتے ہیں :
[ar]ولقد اجترأ أبو حنیفة حین قال : الایمان قول بلا عمل ۔[/ar]’’
ابو حنیفہ نے یہ کہہ کر بڑی جسارت کی ہے کہ ایمان صرف قول کا نام ہے، عمل کا نہیں ۔‘‘
(الانتقاء لابن عبد البر: 138، وسنده صحیح)جناب عبدالحق حقانی دیوبندی ایمان کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں :
’’ایمان فقط تصدیق قلب کا نام ہے۔‘‘
(عقائد الاسلام از عبد الحق حقانی: 123)جو لوگ ایما ن کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کے اجماع کے مخالف ہیں ، ان کو سنی کہلانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
ایمان کا لغوی معنی و مفہوم :
لفظِ ایمان باب ِ افعال کا مصدر ہے ، اس کے لغوی معنٰی میں دو مشہور اقوال ہیں :
1…اکثر اہل لغت کا کہنا ہے کہ ایمان کا لغوی معنٰی تصدیق ہے ، وہ اس پر اجماع کا دعوی بھی کرتے ہیں ، چنانچہ ازہری کہتے ہیں :
[ar]اتفق أهل العلم من اللغویة وغیرهم اٗن الایمان معناه التصدیق۔[/ar]
’’لغوی او ر دوسرے اہل علم کا اتفاق ہے کہ ایمان کا معنٰی تصدیق ہے۔‘‘(تهذیب اللغة ؛ 513/5)
اس سلسلے میں ان کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
[ar]{وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْکُنَّا صٰدِقِیْن[/ar]}(یوسف : 17)
’’(یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا)کہ آپ ہماری تصدیق کرنے والے نہیں ، حالانکہ ہم سچے ہیں۔‘‘
یہاں ایمان بمعنٰی تصدیق ہے۔
1…سلف صالحین کے نزدیک ایمان لغت میں دو معانی کے لیے آتا ہے:
(الف )جب ’’با‘ ‘ کے ساتھ ہو تو تصدیق کے معنٰی میں ہوتاہے، جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے:
[ar]{آمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّه وَالْمُؤْمِنُوْنَ}[/ar]
(البقرة ؛ 275)’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں نے رب کی طرف سے اپنی طرف نازل ہونے والی کلام کی تصدیق کی ۔‘‘
(ب )جب ’’لام‘‘کے ساتھ متعدی ہو تو پھر بات ماننے کی معنٰی میں ہوتا ہے، جیسے
[ar]{وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا} (یوسف : 17)اور {فَآمَنَ لَه ‘ لُوْطٌ}(العنکبوت : 24)[/ar]میں ہے۔
سلف صالحین نے ایمان کو صرف تصدیق کے ساتھ خاص کرنے کا رد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ایمان میں اگرچہ تصدیق بھی شامل ہے، لیکن وہ صرف تصدیق کا نام نہیں ، بلکہ اقرا رو طمانینت بھی اس میں شامل ہے، ان کا استدلال درج ذیل تین طرح سے ہے:
(ا)لفظِ ایمان ’’با‘‘ او ر ’’لام ‘‘دونوں کے ساتھ متعدی ہوتاہے ، جبکہ لفظِ تصدیق یا تو خود ہی متعدی ہوتا ہے یا ’’با‘‘ سے۔
(ب)ایمان میں امن ، تصدیق اور امانت ، تین معانی پائے جاتے ہیں ، جبکہ تصدیق میں امن اور امانت کے معانی موجود نہیں ۔
(ج)ایمان صرف خبرِ غائب کے بارے میں استعمال ہوتا ہے ، سورج طلوع ہو گیا ، تو اس کے لیے لفظِ ایمان نہیں ، بلکہ تصدیق مستعمل ہو گا ، کیونکہ وہ غائب نہیں رہا ، اس کے برعکس لفظِ تصدیق غائب و حاضر دونوں طرح کے امور کے لیے استعمال ہوجاتاہے۔
(د)ایما ن کی ضد کفر ہے اور اس میں صرف تکذیب نہیں ہوتی ، بلکہ یہ عام ہے ، بسا اوقات حقیقت جانتے ہوئے بھی مخالفت کی جاتی ہے ، یہ بڑا کفر ہے ، جبکہ تصدیق کی ضد صرف تکذیب ہے ۔
اس تقابل سے معلو م ہوا کہ ایمان صرف تصدیق کا نام نہیں ، بلکہ یہ کچھ اور چیز و ں کو بھی شامل ہے۔
۲…اللہ کی کلام اور شریعت خبر اور امر دو چیزوں پر مشتمل ہے، خبر کے لیے تصدیق اور امر کے لیے انقیادِ ظاہری ضروری ہے، جب خبر کو تصدیق اور امر کو اطاعت کے ذریعے قبول کیا جائے ، تب اصل ایمان حاصل ہوتا ہے ۔
اگر اہل لغت کی طرح ایمان کو صرف تصدیق کہا جائے تو ایما ن کا ایک جزو حاصل ہو گا ، دوسرا رہ جائے گا ۔
واضح رہے کہ ابلیس کا کفر تصدیق نہ کرنے کی وجہ سے نہ تھا ، اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو سن کر اس حکم کی تکذیب نہیں کی، بلکہ ظاہری اطاعت سے انکار کیا تھا ، اس تکبر کی وجہ سے وہ کافر قرار پایا۔
ایما ن کو صرف تصدیق قرار دینے کے نقصانات:
متاخرین میں سے بہت سارے لوگ اس مسئلہ میں پھسل گئے ہیں او ر یہ سمجھ لیا ہے کہ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے، لیکن جب و ہ دیکھتے ہیں کہ ابلیس اور فرعون نے تکذیب نہیں کی یا یہ تکذیب صرف زبانی تھی ، دل سے انہیں معلوم تھا ، تو پریشان ہو جاتے ہیں ۔
ایسے لوگ اگر سلف صالحین کی بتائی ہوئی راہ پر چل پڑیں تو انہیں معلو م ہو جائے گا کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، یعنی اللہ و رسول اوران کی تعلیمات کی دل سے تصدیق ، زبان سے ان کا اقرار اور اعضاء سے عمل بجا لاناہے۔
تصدیق و انقیاد میں سے کوئی چیز رہ جائے تو ایمان نہیں رہتا ، اگر تصدیق موجود ہے ، لیکن تکبر و عناد ظاہر ی انقیا د سے مانع ہے تو بھی ایمان نہیں ، جیسے ابلیس کا کفر تکذیبی نہیں ، بلکہ استکباری ہے ، اس کے برعکس عیسائیوں کا کفر جہالت کی وجہ سے تکذیبی ہے ، جبکہ یہودی جانتے بو جہاں اسلام کی ماتحتی سے انکاری ہیں ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کا ایک گروہ آیا ، آپ سے کچھ سوالات پوچھے ، آ پ نے ان کے جواب دے دئیے، تو کہنے لگے ، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے آپ کا اتباع نہیں کیا۔
(مسند احمد ؛ 239/4، سنن نسائی : 4083، جامع ترمذی : 2833،3144وقال : حسن صحیح، ابن ماجه : 3705، وسنده صحیح) وقال الحاکم : هذا حدیث صحیح لا نعرف له علة بوجه من الوجوه۔(المستدرک : ۱/۹) ووافقه الذهبی
ثابت ہوا کہ ایمان کے لیے تصدیق کے ساتھ ساتھ ظاہری اطاعت بھی اعمال کی صورت میں ضروری ہے ، ورنہ ابلیس کا کفر کیسا؟
3…اہلِ لغت نے اس آیت[ar] {وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا}(یوسف : 17)[/ar]
میں ایمان کا معنٰی جو تصدیق کیا ہے ، وہ صحیح نہیں ، کیونکہ سلف صالحین نے اس کی تفسیر ’’اقرار‘‘ سے کی ہے، نیز یہ تفسیر ’’تصدیق ‘‘ سے زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ لفظِ ایمان جب ’’لام ‘‘کے ساتھ متعدی ہوتو اقرار کے معنٰی میں ہوتا ہے نہ کہ تصدیق کے معنٰی میں ، اس معنٰی میں تب ہوتاہے، جب خود بخود متعدی ہو یا ’’با‘‘کے ساتھ متعدی ہو۔