find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Zakat. Show all posts
Showing posts with label Zakat. Show all posts

Aqal (facts) se Bat karne walo ke liye jabardast nasihat.

Akal walo ke liye jabardast nasihat.
Hame Zakat Dene me itni pareshani kyu hoti hai?
अक्ल (तर्क से बात करने ) वालो के लिए जबरदस्त नसीहत।

عقل والوں کے لیے زبردست مثال ہے -
ھم ”تربوز“ خریدتے ہیں مثلاً پانچ کلو کا ایک دانہ.. جب اسے کھاتے ھیں تو پہلے اس کاموٹا چھلکا اتارتے ھیں.. پانچ کلو میں سے کم ازکم ایک کلو چھلکا نکلتا ہے.. یعنی تقریبا بیس فیصد.. کیا ھمیں افسوس ھوتا ہے؟ کیا ھم پریشان ھوتے ھیں؟ کیا ھم سوچتے ھیں کہ ھم تربوز کو چھلکے کے ساتھ کھا لیں؟..
نہیں بالکل نہیں.. یہی حال کیلے، مالٹے کا ہے..
ھم خوشی سے چھلکا اتار کر کھاتے ھیں.. حالانکہ ھم نے چھلکے سمیت خریدا ھوتا ہے.. مگر چھلکا پھینکتے وقت تکلیف نہیں ھوتی..
ھم مرغی خریدتے ھیں.. زندہ، ثابت.. مگر جب کھانے لگتے ھیں تو اس کے بال، کھال اور پیٹ کی آلائش نکال کر پھینک دیتے ھیں.. کیا اس پر دکھ ہوتا ہے؟.. نہیں..
تو پھر چالیس ہزار میں سے ایک ہزار دینے پر.. ایک لاکھ میں سے ڈھائی ہزار دینے پر کیوں ہمیں بہت  تکلیف ہوتی ہے؟.. حالانکہ یہ صرف ڈھائی فیصد بنتا ہے.. یعنی سو روپے میں سے صرف ڈھائی روپے..
یہ تربوز، کیلے، آم اور مالٹے کے چھلکے اور گٹھلی سے کتنا کم ہے.. اسے ”زکوۃ“ فرمایا گیا ہے.. یہ پاکی ہے.. مال بھی پاک.. ایمان بھی پاک.. دل اور جسم بھی پاک اور ماشرہ بھی خوشحال، اتنی معمولی رقم یعنی چالیس روپے میں سے صرف ایک روپیہ.. اور فائدے کتنے زیادہ.. اجر کتنا زیادہ.. برکت کتنی زیادہ.

Share:

Saudi arab ki ek Khatoon ne Sadqa ke jariye apni bimari se Nijat payi.

Sadqa ke jariye marijo ka ilaaj kijiye.
Saudi arabiya ke Khatoon ne Sadqa dekar apne bimari se Nijat payi.
*✨صدقہ کے ذریعہ علاج✨*
💫بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم💫
آج بیماریاں بہت عام ہوچکی ہیں، بلکہ کچھ بیماریاں تو ایسی ہیں جن کے علاج سے ڈاکٹر عاجز آچکے ہیں اور ہزار کوششوں کے باوجود مریض کو شفا نہیں مل رہی ہے.
ممکن ہے ہمارے قاری یا قاری کے رشتے دار ایسی ہی کسی بیماری سے جوجھ رہے ہوں، جس میں بہت سارے پیسے خرچ ہوچکے ہوں، اور اب اس سے عاجز آکر علاج ومعالجہ چھوڑ چکے ہوں۔
ایسے ہی بھائیوں اور بہنوں سے ہم کہنا چاہیں گے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، ایک اور علاج کا تجربہ کریں جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیان کردیا ہے.
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دَاوُوا مَرضاكُمْ بِالصَّدقةِ.
صدقہ کے ذریعہ اپنے مریضوں کا علاج کرو۔ اس حدیث کو امام البانی رحمہ اللہ نے صحيح الجامع میں بیان کیا ہے ۔
اللہ والوں نے ہر دور میں اپنی مصیبت اور بیماری سے نجات کے لیے صدقہ و خیرات کیا ہے اور انہیں اس کے جسمانی اور روحانی فائدے بھی حاصل ہوئے ہیں۔
اس لیے اگر آپ نے ہر طرح کے علاج کا تجربہ کرلیا ہے اورعلاج کرتے کرتے تھک چکے ہیں تو اب صدقہ کے ذریعہ بھی علاج کا تجربہ کریں۔ آپ نے یوں تو بہت صدقہ کیا ہوگا، لیکن ابھی اس نیت سے صدقہ کریں کہ اللہ پاک ہمیں فلاں بیماری سے نجات دے یا ہمارے رشتے دار کو فلاں بیماری سے عافیت عطا فرما۔ اللہ نے چاہا تو اس کا اثر ضرور دیکھیں گے۔
صحیح الترغیب کی روایت ہے ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے ایک ایسے عارضہ کی بابت دریافت کیا جواس کے گھٹنے میں لاحق ہو گیا تھا، جس سے وہ سات سال سے جوجھ رہا تھا اورہر طرح کا علاج کراچکا تھا،
ابن مبارک رحمہ اللہ نے اس سے کہا: جاؤ ایک کنواں کھدواؤ۔ کیونکہ آج لوگوں کو صاف پانی کی سخت ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہاں سے چشمہ نکلے گا تو تیرے پیر سے نکلنے والا خون خشک ہوجائے گا، اس آدمی نے ایسا ہی کیا چنانچہ اس عمل سے اسے بحمداللہ شفا مل گئى.
آئے دن ہم اس طرح کے واقعات سنتے رہتے ہیں کہ صدقہ کرنے کی وجہ سے خطرناک سے خطرناک بیماری سے نجات ملی ہے۔

انہیں واقعات میں سے ایک عبرت آموز واقعہ سعودی عرب کی ایک خاتون کا ہے :
دارالحکومت ریاض کے شہر حریملاء کے میرے ایک دوست نے بیان کیا کہ اسی شہر کی ایک خاتون بلڈ کینسر کی مریض تھی، اللہ اس سے ہماری حفاظت فرمائے۔
اسے دیکھ بھال کی ضرورت کو لے کر ایک انڈونیشی خادمہ کو بلایا گیا، خاتون دیندار، خلیق اور حسن اخلاق کی پیکر تھی، تقریبا خادمہ کے ایک ہفتہ گذرنے کے بعد خاتون نے محسوس کیا کہ خادمہ باتھ روم میں بہت دیر تک بیٹھتی ہے اور باربار باتھ روم میں جاتی ہے۔
ایک مرتبہ اس خاتون نے خادمہ سے بہت دیر تک باتھ روم میں بیٹھنے کا سبب دریافت کیا تو خادمہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، اور کہا کہ میں نے بیس دن قبل ایک بچہ جنا ہے، جب مجھے انڈونیشیا میں مکتب کی طرف سے فون آیا تو میں نے موقع کو غنیمت سمجھا اور کام کے لیے آگئی کہ میری مالی حالت بہت خراب چل رہی تھی.
اور باتھ روم میں میرے بہت دیر تک رہنے کی وجہ یہ ہے کہ میرا سینہ دودھ سے بھرا ہوتا ہے، باتھ روم میں بیٹھ کر دودھ کو نچوڑ کر ہلکا کرتی ہوں، جب خاتون کو خادمہ کی حقیقت حال معلوم ہوئی تو اس نے فورا انڈونیشیا کی ایک قریبی فلائٹ میں جگہ بک کرادی اور ٹکٹ خرید کر اگلے دو سال تک کی تنخواہ دیتے ہوئے اس سے کہا کہ جاؤ تم دو سال تک بچے کو دودھ پلانا اور اس کا خیال رکھنا .شیرخوارگی کی مدت پوری ہونے کے بعدہمارے پاس آ سکتی ہو، واپسی کی خواہش ہو تو میرا یہ فون نمبر ہے اس پر فون کر دینا..
خادمہ کے سفر کے بعد کینسر کی جانچ کی تاریخ آئی، جب خون کی جانچ کی گئی تو بڑا تعجب ہوا کہ بلڈ کینسر کا کوئی وجود نہیں دکھائی دے رہا ہے، ڈاکٹر نے دوبارہ جانچ کرنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ کئی بار جانچ کیا گیا پر نتیجہ ایک ہی تھا، ڈاکٹر کو بیماری سے شفا یابی پر بڑا تعجب ہوا، اس کے بعد الٹراساونڈ کیا گیا تو پتہ چلا کہ کینسر کی شرح بالکل صفر ہے۔ تب ڈاکٹر کو مکمل طور پر شفا یابی کا احساس ہوا.
ڈاکٹر نے خاتون سے پوچھا کہ اس مدت میں تم نے کیا علاج کیا ؟ خاتون کا جواب تھا: حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
دَاوُوا مَرضاكُمْ بِالصَّدقةِ.
(صحيح الجامع: 3358)
صدقہ کے ذریعہ اپنے مریضوں کا علاج کرو۔ یہ قصہ حقیقی ہے جسے بیان کرنے والے ثقہ اور نیک لوگ ہیں۔(رسالة المتكررة)
صفات عالم تیمی

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"صدقہ مفید اور سود مند علاج ہے، اس کے باعث بیماریوں سے شفا ملتی ہے، اور مرض کی شدت میں کمی بھی واقع ہوتی ہے، اس بات کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(صدقہ گناہوں کو ایسے مٹاتا ہے جیسے پانی آگ کو بھجا دیتا ہے) -اسے احمد نے روایت کیا(3/399)- ہو سکتا ہے کہ کچھ مرض گناہوں کی وجہ سے سزا کے طور پر لوگوں کو لاحق ہو جاتے ہوں، تو جیسے ہی مریض کے ورثاء اسکی جانب سے صدقہ کریں تو اس کے باعث اسکا گناہ دُھل جاتا ہے اور بیماری جاتی رہتی ہے، یا پھر صدقہ کرنے کی وجہ سے نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں، جس سے دل کو سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے، اور اس سے مرض کی شدت میں کمی واقع ہوجاتی ہے" انتہی

"الفتاوى الشرعية في المسائل الطبية" (2/سوال نمبر: 15)

Share:

Sadqa kya hai, 40 tarike Sadqa karne ke.

Ek Musalman kitne tarah se sadqa (Charity) kar sakta hai.
Andhe Ko Rasta batana bhi sadqa hai.
*40 طرح کا صدقہ*
1. دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بچنا صدقہ ہے۔ *[بخاری: 2518]*

2. اندھے کو راستہ بتانا صدقہ ہے۔
*[ابن حبان: 3368]*

3. بہرے سے تیز آواز میں بات کرنا صدقہ ہے۔
*[ابن حبان: 3368]*

4. گونگے کو اس طرح بتانا کہ وہ سمجھ سکے صدقہ ہے۔ *[ابن حبان: 3377]*

5. کمزور آدمی کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ *[ابن حبان: 3377]*

6. راستے سے پتھر,کانٹا اور ہڈی ہٹانا صدقہ ہے۔ *[مسلم: 1007]*

7. مدد کے لئے پکارنے والے کی دوڑ کر مدد کرنا صدقہ ہے۔ *[ابن حبان: 3377]*

8. اپنے ڈول سے کسی بھائی کو پانی دینا صدقہ ہے۔ *[ترمذی: 1956]*

9. بھٹکے ہوئے شخص کو راستہ بتانا صدقہ ہے۔ *[ترمذی: 1956]*

10. لا الہ الا الله کہنا صدقہ ہے۔ *[مسلم: 1007]*

11. سبحان الله کہنا صدقہ ہے۔ *[مسلم: 1007]*

12. الحمدلله کہنا صدقہ ہے۔ *[مسلم: 1007]*

13. الله اکبر کہنا صدقہ ہے۔ *[مسلم: 1007]*

14. استغفرالله کہنا صدقہ ہے۔ *[مسلم: 1007]*

15. نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے۔ *[مسلم: 1007]*

16. برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ *[مسلم: 1007]*

17. ثواب کی نیت سے اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ *[بخاری: 55]*

18. دو لوگوں کے بیچ انصاف کرنا صدقہ ہے۔ *[بخاری: 2518]*

19. کسی آدمی کو سواری پر بیٹھانا یا اس کا سامان اٹھا کر سواری پر رکھوانا صدقہ ہے ۔ *[بخاری: 2518]*

20. اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ *[بخاری: 2589]*

21. نماز کے لئے چل کر جانے والا ہر قدم صدقہ ہے۔ *[بخاری: 2518]*

22. راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے۔ *[بخاری: 2518]*

23. خود کھانا صدقہ ہے۔ *[نسائی - کبری: 9185]*

24. اپنے بیٹے کو کھلانا صدقہ ہے۔ *[نسائی - کبری: 9185]*

25. اپنی بیوی کو کھلانا صدقہ ہے۔ *[نسائی - کبری: 9185]*

26. اپنے خادم کو کھلانا صدقہ ہے۔ *[نسائی - کبری: 9185]*

27. کسی مصیبت زدہ حاجت مند کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ *[نسائی: 253]*

28. اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے۔ *[ترمذی: 1963]*

29. پانی کا ایک گھونٹ پلانا صدقہ ہے۔ *[ابو یعلی: 2434]*

30. اپنے بھائی کی مدد کرنا صدقہ ہے۔ *[ابو یعلی: 2434]*

31. ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے۔ *[ابو داﺅد: 5243]*

32. آپس میں صلح کروانا صدقہ ہے۔ *[بخاری - تاریخ: 259/3]*

33. تمہارے درخت یا فصل سے جو کچھ کھائے وہ تمہارے لئے صدقہ ہے۔ *[مسلم:  1553]*

34. بھوکے کو کھانا کھلانا صدقہ ہے۔ *[بیہقی - شعب: 3367]*

35. پانی پلانا صدقہ ہے۔ *[بیہقی - شعب: 3368]*

36. دو مرتبہ قرض دینا ایک مرتبہ صدقہ دینے کے برابر ہے۔ *[ابن ماجہ: 3430]*

37. کسی آدمی کو اپنی سواری پر بٹھا لینا صدقہ ہے۔ *[مسلم: 1009]*

38. گمراہی کی سر زمین پر کسی کو ہدایت دینا صدقہ ہے۔ *[ترمذی: 1963]*

39. ضرورت مند کے کام آنا صدقہ ہے۔
*[ابن حبان: 3368]*

40. علم سیکھ کر مسلمان بھائی کو سکھانا صدقہ ہے۔ [ابن ماجہ: 243]
*صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ یہ تحریر صدقہ جاریہ ہے ، شیئر کرکے باقی احباب تک پہنچائیے ، شکریہ .. جزاک اللہ خیرا💓💓💓*

نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے.

Share:

Shariyat ke mutabik Fakir aur miskeen me fark kya hai?

Shariyat ke mutabik Fakir aur miskeen me kya fark hai?
Fakir kaun hai aur miskeen kaun hai?
السلام علیکم
شریعت کے مطابق فقیر اور مسکین میں کیا فرق ہے؟

جواب تحریری

جواب از شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز  رحمہ اللہ:

مسکین وہی فقیر ہوتا ہے کہ جسے مکمل کفایت حاصل نہیں ہوتی، البتہ فقیر اس سے زیادہ شدید حاجت مند ہوتا ہے۔ اور دونوں ہی زکوٰۃ کے مستحقین میں شامل ہیں جن کا ذکر اس فرمان الہی میں ہے کہ:

﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا﴾ (التوبۃ: 60)

(صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں ،اور مسکینوں کے لئے ،اور زکوٰۃ وصول کرنے والوں کے لئے۔۔۔)

جس کی اتنی آمدنی ہو کہ جو اس کے کھانے، پینے، پہننے اور رہائش کے لیے کافی ہو خواہ وقف سے ہو، یا کمائی سے، یا ملازمت سے یا ان جیسے کسی ذریعے سے تو وہ نہ فقیر کہلائے گا نہ ہی مسکین، اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں([1])۔

سوال: ہم پر فقیر اور مسکین کی معرفت میں اشکال ہوگیا ہے، آپ اس کی وضاحت فرمائیں؟

جواب از شیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ:

فقیر : وہ ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ اس سے  فقر یوں چمٹی ہوتی ہے جیسے ”الفقار“ (کمردرد) کسی شخص کو زمین سے چمٹا دیتاہے۔

مسکین: جس کے پاس اتنا ہوتا ہے کہ اس کے لیے کافی نہيں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا:

﴿ اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ۔۔۔﴾  (الکہف: 79)

(اور جو کشتی تھی تو وہ مساکین کی تھی۔۔۔)۔

دیکھیں اللہ تعالی نے انہیں مساکین کی صفت دی حالانکہ ان کے پاس کشتی تھی جس پر وہ کام کاج بھی کرتے تھے۔

لہذا مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے کافی نہيں پڑتا۔ ہوسکتا ہے وہ نوکری کرتا ہو اور اس کی تنخواہ 5 ہزار ریال ہو، لیکن اس کے ماہانہ خرچے  6 ہزار ریال ہوں، تو اس کی تنخواہ کافی نہ ہوئی، پس وہ مصارف زکوٰۃ میں شامل ہوا (یعنی اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے) ([2])۔

[1] نشر في (جريدة المدينة) العدد 11387 وتاريخ 25/12/1414هـ، وفي جريدة (الرياض) العدد 1093 وتاريخ 4/1/1419هـ، وفي (كتاب الدعوة) ج1 ص 109. (مجموع فتاوى ومقالات ابن باز 14/265)

Share:

Janwaro (Animals) pe kitni Zakat ada karni hoti hai?

Janwaro pe kitni Zakat ada karni hoti hai?
Sawal: Maal maweshiyo, janwaro (Animals) par kitni Zakat ada karni hoti hai?
سوال : مال مویشیوں ، جانوروں پر کتنی زکوٰۃ ادا کرنی ہوتی؟

*جواب تحریری
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آنحضرتﷺ نے جس طرح سونے چاندی اور مویشی کا نصاب مقرر فرمایا ہے، اور ہر ایک میں بطور زکوٰہ کے جتنا اور جیسا نکالنا جائز ہے، اس کی بھی تعیین و تصریح فرما دی ہے، اور اس کو ہمارے اختیار میں نہیںدیا، کہ جتنا اور جیسا شاہیں نکالیں، یا اپنی مرضی سے اس میں کمی و بیشی کریں، اسی طرح زمین کی پیداوار سے شرعی حق نکالنے کے لیے بھی نصاب بتلا دیا ہے، کہ جب تک کسی کے ہاں اتنی مقدار میں غلہ کی پیداوار نہ ہو، تو نکالنا واجب نہیں ہو گا، ساتھ یہ بھی بتلا دیا ہے، کہ جب اتنا پیدا ہو تو کتنا نکالنا لازم ہو گا، اور جتنا نکالنا لازم اور فرض ہے، اتنا ہی نکالنا ہو گا، کمی و بیشی کا ہمیں حق نہیں ہے، شریعت نے زمین کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، بارانی اور چاہی، اگر پیداوار بارش کے پانی سے ہو تو اس میں سے عشر دسواں حصہ زکوٰۃ ادا کرنا ہو گا، اور اگر کنویں کے ذریعہ آب پاشی سے پیداوار ہو تو ا س میں سے نصف عشر بیسواں حصہ زکوٰۃ میں ادا کیا جائے گا، اس کے علاوہ شریعت نے بیج گوڑنا، جوتنا، نرانا، آب پاشی کاٹنا، اور ماش کرنا وغیرہ کا اعتبار عشر یا نصف عشر مقرر کرنے میں نہیں کیا، اگر پانی کے علاوہ اور چیزوں کا اعتبار ہوتا تو فرما دیا جاتا، اسلامی حکومت میں جو زمین خراجی ہوتی ہے، اس کو اگر کوئی مسلمان خرید لے یا وہ کافر مسلمان ہو جائے، تو اس کو مقررہ خراج کے علاوہ بارانی میں عشر اور چاہی میں نصف عشر ادا کرنا واجب ہے، پیداوار میں سے خراج وضع کرنے کے بعد عشر یا نصف عشر نکالنے کی اجازت نہیں ہوتی، اورنہ ہی خراج دینے کی وجہ سے دسویں یا بیسویں کی بجائے تیسواں یا چالیسواں نکالنے کی اجازت ہے، ٹھیک اسی طرح غیر مسلم حکومت میں مسلمان کاشتکاروں سے جو پوت مال گذاری لگان لیا جاتا ہے، اس کا اثر آنحضرتﷺ کے مقرر کردہ عشر یا نصف پر نہیں پڑے گا، یعنی نہ تو کل پیداوار سے لگان مال گزاری اور پوت وضع کرنے کے بعد عشر یا نصف عشر نکالنے کی اجازت ہو گی، اور نہ مال گزاری اور لگان کی وجہ سے بارانی زمین کی پیداوار سے دسواں کی بجائے، بیسواں اور چاہی سے بیسواں کی بجائے تیسواں اور چالیسواں نکالنا جائز ہو گا، آنحضرتﷺ کو علم غیب نہیں تھا، لیکن اللہ تعالیٰ تو جانتا تھا، کہ مسلمانوں پر کبھی غیر مسلم حکمران ہوں گے، اور ان پر طرح طرح کے ٹیکس لگائیں گے پھر کیوں نہ اپنے نبی کے ذریعہ ہم کو یہ بتا دیا کہ پانی کے علاوہ ایسے ٹیکسوں کو بھی لحاظ و اعتبار کرنا ہو گا۔ ((وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِسَیْنَا)) (مریم)
پانی ٹپا کر غلہ پیدا کرنے کے مصارف ہر جگہ یکساں نہیں ہیں، کہیںکم ہیں کہیں زیادہ، آنحضرتﷺ نے اس کمی و بیشی کا کچھ اعتبار نہیں کیا، کیوں کہ ان کا انضباط مشکل تھا، اس لیے مطلقاً ہر حالت میں قاعدہ کلیہ طور بیسواں مقرر اور لازم کر دیا۔ جس میں اب ہم کو کمی و بیشی کرنے کا حق نہیں، اور بارانی زمین کی پیداوار سے ہر حال میں دسواں ہی نکالنا ہو گا، حضرت مولانا حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری نے اپنے مطبوعہ رسالہ میں، اور ان کے شاگرد رشید اور (میرے استاد و شیخ) حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مبارکپوری بھی اپنے قلمی غیر مطبوعہ رسالہ میں یہی تحریر فرمایا ہے، او ریہی حق ہے۔ (ترجمان دہلی جلد ۶ شمارہ ۷

Share:

Istemal kiye hue Sone ka Zakat kitna Nikalega, Purane Sone ka Zakat kaise nikale?

Jewar ki Zakat me naye sone ki Kimat Lagayi jayegi ya istemal kiye hue sone ki?
Sawal: Jewar Ki Zakat ke mutalliq kya mai use Jawellary ke pas le jakar uski kimat Lagwau ya use sone ki kimat ke hisab se Zakat ada karo?
Sonar (Jawellary) mujhe uski kimat kam denge kyu ke yah istemal kiya hua Sona hai magar Sone Ka rate jyada hai?
كيا زيور كى زكاۃ ميں نئے سونے كى قيمت لگائى جائے گى يا استعمال شدہ سونے كى؟
سوال: زيور كى زكاۃ متعلق كيا ميں اسے سنار (jawellary) كے پاس ليجا كر اس كى قيمت لگواؤں يا اسے سونے كى قيمت كے حساب سے زكاۃ ادا كروں؟ سنار مجھے اس كى قيمت كم ديں گے كيونكہ يہ استعمال شدہ سونا ہے، ليكن سونے كا ريٹ زيادہ ہوتا ہے ؟

الحمد للہ :
جب نصاب مكمل ہو جائے جو كہ پچاسى گرام سونا ہے، اور اس پر سال گزر جائے تو اس ميں سے اڑھائى فيصد كے حساب سے زكاۃ نكالنى واجب ہو جاتى ہے، يا اس كى قيمت سے زكاۃ نكالى جائے، اس كى قيمت سے وہ قيمت مراد ہے جس ميں استعمال شدہ سونا فروخت ہوتا ہے، اور يہ قيمت غالبا نئے سونے كى قيمت سے كم ہوتى ہے، زكاۃ واجب ہونے كے وقت اس كى قيمت لگوا كر زكاۃ ادا كر ديں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( اور اس بنا پر ہم اس عورت كے پاس موجود سونے كى قيمت كا اندازہ لگائيں گے، چاہے جس ميں اس نے خريدا ہے يا اس سے كم يا زيادہ، اور اس كے استعمال شدہ سونے كى قيمت كا اندازہ لگايا جائے گا اور اس سے اڑھائى فيصد زكاۃ نكالى جائے گى، يعنى: چاليس ميں سے ايك، لہذا سو ريال ميں سے اڑھائى ريال، اور ايك ہزار ميں سے پچيس ريال، اور اسى حساب سے، اس كا طريقہ يہ ہے كہ اس كى قيمت كو چاليس پر تقسيم كر ديا جائے اور اس تقسيم سے حاصل ہونے والا جواب زكاۃ ہو گى، تو اس طرح آپ برى الذمہ ہو سكتے ہيں، اور آگ كے عذاب سے اسے چھٹكارا مل جائے گا، اور اسے كوئى نقصان نہيں ہوگا ).
شيخ رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا زيور كى زكاۃ قيمت خريد پر ہو گى يا كہ ہر سال زكاۃ نكالنے كے وقت موجودہ قيمت پر ؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
( زيور كى زكاۃ ہر سال واجب ہوتى ہے، اور يہ زكاۃ قيمت خريد پر نہيں بلكہ سال مكمل ہونے كے وقت جو قيمت ہو گى اس كے حساب سے زكاۃ ادا كى جائے گى، فرض كريں اگر كسى عورت نے دس ہزار ريال ميں زيور خريدا اور جب اس پر سال مكمل ہوا تو اس كى قيمت صرف پانچ ہزار ريال رہ گئى تو وہ صرف پانچ ہزار ريال كى زكاۃ ادا كرے گى، اور اگر اس كے برعكس قيمت ہو جائے تو زكاۃ بھى اس كے برعكس ہو گى، لہذا جب اس نے زيور پانچ ہزار ريال ميں خريدا اور سال مكمل ہو جانے پر اس كى قيمت دس ہزار ريال ہو چكى تھى تو زكاۃ دس ہزار ريال كے حساب سے ادا كى جائے گى، كيونكہ يہ وجوب كا وقت ہے، اللہ تعالى ہى توفيق بخشنےوالا ہے ) انتہى
ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 18 ) سوال نمبر ( 18، 58 )
واللہ اعلم .
ماخذ: الاسلام سوال و جواب

Share:

Sadqa-tul Fitra dena kyu Farz hai, Fitra Nikalna Kyu jaruri hai?

Musalman Apne khushiyon me Dusre Musalmanon ko bhi Sharik karta hai.
Sadqa-tul Fitra dena kyu Farz hai?
*[ صدقہ فطر کیوں فرض ہوا؟ ]

️ سيدنا عبد اللہ بن عباس رضي الله عنهما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا :

”فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، فَمَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ.“

"رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے روزے کو لغو اور نا مناسب باتوں (کے گناہ) سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کے لیے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا۔ جس نے نماز (عید) سے پہلے یہ ادا کر دیا، اس کا یہ قبول شدہ صدقہ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ تو ایک عام صدقہ ہے (صدقہ فطر نہیں)."

📜 - *[ سنن إبن ماجه : ١٨٢٧، حسن ]*

مولانا عطاء اللہ ساجد حفظه الله اس حدیث کے تحت فوائد ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

”صدقہ فطر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ غریب اور مسکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو جائیں۔ مسلمان اپنی خوشی میں دوسرے مسلمانوں کو بھی شریک کرتا ہے۔ صدقہ فطر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ روزے کے آداب میں ہو جانے والی کمی اور کوتاہی معاف فرما دیتا ہے۔ نماز عید سے پہلے صدقہ فطر کی ادائیگی کا آخری وقت ہے۔ عید کے دن سے پہلے ادا کر دینا بھی درست ہے۔ نافع رحمه الله نے فرمایا : صحابہ کرام رضوان الله عليهم أجمعين عید سے ایک دو دن پہلے ہی صدقہ فطر ادا کر دیا کرتے تھے. (البخاري : ١٥١١)۔ اگر صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا نہ کیا جا سکے تو بعد میں ادا کر دینا چاہیے، اس سے اگر صدقہ فطر کا خاص ثواب تو نہیں ملے گا، تاہم عام صدقے کا ثواب مل جائے گا اور اس طرح اس محرومی کی کسی حد تک تلافی ہو جائے گی۔“

📜 [ سنن إبن ماجه مترجم : ٦٥/٣ ]

Share:

Jo Qaum Zakat Ada nahi karti usse Barish Rok liya jata hai.

Jis Qaum Me Badkari fail jati hai us par Maut Musallat kar diya jata hai.
*BISMILLAHIRRAHMANIRRAHIM*

*-----✨MISSION TAUHEED✨-----*

Hadith : jo Qaum zakat adaa nahi karti Allah Subhanahu unse barish rok leta hai.

Abdullah bin buraidah apne Walid Radi Allahu Anhu se Marfuan Bayan karte hain ki : jo qaum Ahad todti hai usme Qatl aam ho jata hai,*

*jis qaum mein badkari (fahashi) phail jaati hai Allah Subhanahu us par maut musallat kar deta hai*

*aur jo Qoum zakat adaa nahi karti Allah Subhanahu*
*unse barish rok leta hai*

Al-Silsila-As-Sahiha, 1783(Islam 360)*
_________________________

Share:

Fitra me hame kya Dena Chahiye aur Kab tak de dena chahiye?

Ramzan Me Fitra Kitna aur kaise nikale?
بسم الله الرحمن الرحيم*

*-----🌀MISSION TAUHEED🌀-----*

"Zakat-Ul-Fitr Ke Ahkaam Masail Aur Fawaid"

*1.Zakat-Ul-Fitr K Ahkaam:-*

Abdullah Ibn Umar (رضي الله عنه) Se Riwayat Hai K Unhone  Kaha Rasool {ﷺ} Ne Gulam Ya Azaad  Chote Ya Bade Har Kisi Per Ek Sa'a (2.5-2.75kg) Khajoor Ya Ek Sa'a Jow Sadqa Fitr (Fitrana) Farz Qaraar Diya.

*(Sahih Muslim Jild No.3 Kitab Uz Zakat Hadees No.2279)*

*2. Zakat-Ul-Fitr Ke Masail:-

*1.Zakat-Ul-Fitr Me Kya De??

*Koi Bhi Cheez Jo Insan Khane Ke Liye Istemal Karta Hai, Jaisa Ke Barley, Khajoor, Gyahu Wagera Zakat-Ul-Fitr De Sakte Hai.

(Ibn Khuzaimah Hadees 4/80)*

*2.Zakat-Ul-Fitr Kitna Dena Hai??*

Rasool Allah {ﷺ} Ne Iski Miqdaar Ek Shaks K Liye 1 Saa Yani (2.5-2.75kg) Batayi Hai.

*(Sahih Muslim Jild No.3 Kitab Uz Zakat Hadees No.2278)

*3. Zakat-Ul-Fitr Paise Dena Mana Hai:-*

Zakat-Ul-Fitr Khane Ki Cheez (Gyahu, Anaaj, Khajoor) Hi Dena Chahiye, Paisa Dena Sunnat Se Sabit Nahi, Aap {ﷺ} Ne Sirf Khane Ki Cheez Hi Di thi.*

*(Majmua Fatawa Bin Baz : 4/208)*

*4. Zakat-Ul-Fitr Miskeenou Ka Haq Hai:-

*Zakat-Ul-Fitr Sirf Gharibo, Mohtajou, Miskeenou, Bewao (widow) Ko Dena Chahiye, Taaki Wo Bhi Eid Ki Khushiya Mana Sake, Khaa Pee Sake, Zakat-Ul-Fitr Ko Mohtajou Ke Alawa Kisi Aur Ko Dena Jayez Nahi Hai.*

Rasool Allah {ﷺ} Ne Farmaya Zakat-Ul-Fitr Rozedaar Ko Fahash Aur Behuda Baatou Se Paak Karne Aur Miskeenou Ki Khuraak Ke Liye Farz Qaraar Diya Lehaza Jisne Issey Namaz-e-Eid Se Pahle Ada Kar diya To Ye Maqbool Zakat Hai Aur Jisne Namaz Ke Baad Ada Kiya To Wo Aam Sadqaat Me Se Ek Sadqa Hai.

*(Sunan Ibn Majah Jild No.3 Hadees No.1872, Sunan Abu Daud Jild No.2 Hadees No.1609)

*5. Zakat-Ul-Fitr Eid Ki Namaz Se Pahle Ada Karna Hai:-*

Zakat-Ul-Fitr Ko Eidgah Jane Se Pehle (Yani Eid-Ul-Fitr Ki Namaz Ada Karne Se Pehle) De Dena Chahiye, Isko Ada Karne Me Taqeer Nahi Karna Chahiye, Jaise Ke Eid Ki Namaz Ke Baad Dena Jayez Nahi Hai.

Rasool Allah {ﷺ} Ne Farmaya Zakat-Ul-Fitr Rozedaar Ko Fahash Aur Behuda Baatou Se Paak Karne Aur Miskeenou Ki Khuraak K Liye Farz  Qaraar Diya Lehaza Jisne Issey Namaz-e-Eid Se Pahle Ada Kardiya To Ye Maqbool Zakat Hai Aur Jisne Namaz K Baad Ada Kiya To Wo Aam  Sadqaat Me Se Ek Sadqa Hai.*

*(Sunan Ibn Majah, Jild No.3 Hadees No.1872, Sunan Abu Daud Jild No.2 Hadees No.1609)

*3.Zakat-Ul-Fitr Ada Karne Ke Fawaid:-

*1.Ye Ek Tarah Ka Kaffara Hai Jo Rozou​ Ki Halat Me Hum Se Hue Gunah Jaise Ke Galatiyan, Kotahiyan, Fuzul Baatein.

*2.Ye Behtareen Zariya Hai Garibou Ki Mohtajgi Door Karne Ke Liye.

3.Eid Ke Barkat Wale Din, Gharib Bheek Maang Ne Se Bach Jayenge.

Note:-* *Zakat-Ul-Fitr Eid Se Pahle Ek Ya Do (2) Din Pahle De Aur Ek (1) Sa'a (2.5-2.75kg) De Aur Gareebou Miskeenou Aur Mohtajou Ko De Aur Ghar Ke Har Ek Fard ki Taraf se De Aur Sirf Anaaj De Anaaj Me Aap Wheat Powder, Rice De Sakte Hai Jo Aajki Zaroorat Hai Khane Me Aur Paise Dene K Muta'lliq Ikhtelaf Hai To Ikhtelaf Se Bachne K Liye Bahtar Hai Anaaj De Wallahu Aalam.

post Maker
(Afzal Khan Salafi)
____________________________

Share:

Wo Kaunse Masarif Hain Jin Me Zakat Kharch Karna Wajib Hai

Wo Kaunse Masarif Hain Jin Me Zakat Kharch Karna Wajib Hai

Wo Kaunse Masarif Hain Jin Me Zakat Kharch Karna Wajib Hai
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Zakat Urdu , Zakat Ke Haqdar Kaun Log Hain, Zakat Ka Byan, Zakat Aur Ramzan, Kitna Zakat Nikalna Chahiye, Kya Ramzan Me Hi Zakat Nikalna Jaruri Hai
Zakat Kahan Kharch Karna Chahiye
___________ زکاۃ کے مصارف ____________
______وہ کون سے مصارف ہیں جن میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے_______
جن آٹھ مصارف میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے انہیں اللہ تعالی نے بالکل واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہے، اور یہ بھی بتلایا کہ انہی مصارف میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے، اور یہ علم و حکمت پر مبنی فیصلہ ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة:60]
◆ پہلا اور دوسرا مصرف:
فقراء اور مساکین: ان لوگوں کو زکاۃ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دی جائے گی۔
فقیر اور مسکین میں فرق یہ ہے کہ : فقیر شخص کو زکاۃ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے پاس اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آدھے سال کا بندو بست بھی نہیں ہوتا، تاہم مساکین کا حال فقراء سے قدرے بہتر ہوتا ہے؛ کیونکہ مساکین کے پاس سال کے آدھے یا زیادہ حصے کیلئے ضروریات پوری کرنے کا بندو بست ہوتا ہے، چنانچہ مساکین کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے بقدر حاجت ہی دیا جائے گا۔
لیکن یہاں یہ مسئلہ ہے کہ ان کی اس ضرورت و حاجت کو کیسے تولا جائے؟
اس کے جواب میں علمائے کرام کہتے ہیں:
"انہیں ان کے خاندان کی ایک سالہ ضروریات کیلئے کافی کر دینے والی مقدار میں مال دیا جائے گا، کیونکہ ایک سال بعد دوبارہ ان کے لئے اصحاب ثروت کے مال میں زکاۃ واجب ہو جائے گی، چنانچہ زکاۃ کے مستحق فقراء اور مساکین کی ایک سالہ ضروریات و حاجات کا اندازہ لگایا جائے گا۔
یہ اچھا موقف ہے، کہ ہم فقراء و مساکین اور ان کے اہل خانہ کو مکمل ایک سال کی اشیائے ضرورت وغیرہ دیں، چاہے یہ راشن اور لباس کی صورت میں ہوں یا نقدی کی صورت میں کہ اپنی مرضی سے جو چاہیں خرید لیں، یا کسی بھی فن میں ماہر زکاۃ کے مستحق فرد کو متعلقہ آلات و اوزار خرید کر دیں، مثلاً: درزی، بڑھئی، لوہار وغیرہ کو مطلوبہ چیزیں خرید کر دے دیں، خلاصہ یہ ہے کہ ہم انہیں ایک سال کی ضروریات کیلئے کافی مقدار میں زکاۃ دیں گے"
◆ تیسرا مصرف:
زکاۃ جمع کرنے والے اہل کار:
یعنی وہ لوگ جنہیں حکومت کی طرف سے زکاۃ جمع کرنے پر مقرر کیا گیا ہے، اسی لیے فرمایا: (وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ) اور زکاۃ جمع کرنے والے عاملین[التوبة:60] اللہ تعالی نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ: " وَالْعَامِلِينَ فِيْهَا " کیونکہ " وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا " میں یہ اشارہ ہے کہ انہیں اس کام کیلئے حکومت کی طرف سے مقرر کیا جائے، یعنی وہ لوگ جو مالدار طبقہ سے زکاۃ اکٹھی کر کے زکاۃ کے مستحق افراد میں اسے تقسیم کریں، زکاۃ کا حساب کتاب رکھیں، چنانچہ ان لوگوں کو زکاۃ کی مد میں سے دیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ انہیں کتنا دیا جائے گا❓
اس کا جواب یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنے کام کی نوعیت کے اعتبار سے تنخواہ دی جائے گی، چنانچہ جس کا حق زیادہ ہو اسے زیادہ اور جس کا حق کم ہو اسے کم دیا جائے، یعنی ہر ایک کی ملازمت کے اعتبار سے اس کی تنخواہ مقرر کی جائے، چاہے کام کرنے والے یہ لوگ امیر ہوں یا غریب، کیونکہ انہیں یہ تنخواہ ملازمت کی وجہ سے دی جا رہی ہے ان کی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر نہیں دی جا رہی، اس لئے انہیں ان کی ملازمت کے اعتبار سے تنخواہ دی جائے گی، تاہم اگر انہی زکاۃ جمع کرنے والے کارندوں میں کچھ غریب لوگ بھی ہے کہ ان کی تنخواہ ضروریات سے کم ہے تو انہیں بھی غربت کی وجہ سے ضرورت کے مطابق ایک سال کا راشن وغیرہ دیا جائے گا، کیونکہ یہ لوگ عامل اور غریب دونوں کے زمرے میں آتے ہیں، اس لیے دونوں کے اعتبار سے انہیں زکاۃ دی جائے گی، تاہم انہیں دیتے ہوئے یہ خیال رکھیں گے کہ تنخواہ کے بعد جس قدر ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زکاۃ کی ضرورت ہو اتنی ہی مقدار میں انہیں زکاۃ دینگے، اس کی مثال یوں سمجھیں: ہم یہ اندازہ لگائیں کہ انہیں سالانہ 10000 ریال کی ضرورت ہے، اور انہیں غربت کی مد میں 10000 ریال ہی ملیں گے، لیکن زکاۃ جمع کرنے کے بدلے میں انہیں 2000 ملے ہیں تو باقی 8000 ریال ہم انہیں غربت کی وجہ سے دیں گے۔
◆ چوتھا مصرف:
جن لوگوں کی تالیف قلبی مقصود ہو:
اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اسلام کے قریب لانے کیلئے کچھ دیا جائے چاہے کوئی ایسا غیر مسلم ہو جس کے مسلمان ہونے کا امکان ہو، یا پھر کوئی کمزور ایمان والا مسلمان ہو جسے دیکر اسلام پر ثابت قدم رکھا جا سکے، یا پھر کوئی غیر مسلم شریر شخص ہو جسے پیسے دے کر مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ بنایا جا سکے، یا مسلمانوں کے بھلے کیلئے کوئی بھی مد ہو اس میں زکاۃ اس مصرف کے تحت خرچ کی جا سکتی ہے۔
یہاں کسی غیر مسلم یا مسلمان کو زکاۃ دیتے ہوئے یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ جس شخص کی تالیف قلبی کیلئے کچھ دیا جائے تو وہ کنبے ، خاندان، یا علاقے میں با اثر شخصیت ہونی چاہیے ، تا کہ اسے زکاۃ دینے کا سب مسلمانوں کو فائدہ ہو۔
تاہم کیا انفرادی طور پر بھی کسی شخص کو اس مصرف کے تحت زکاۃ دی جا سکتی ہے؟ جیسے کہ ایک نو مسلم شخص کو اسلام پر ثابت قدم رکھنے کیلئے اور ایمان مضبوط بنانے کیلئے زکاۃ کا مال دیا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، جبکہ میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ:
ایسے شخص کو انفرادی طور پر بھی دیا جا سکتا ہے، چاہے یہ شخص اپنے علاقے کی بااثر شخصیت نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان: ( وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ) عام ہے، ویسے بھی اگر کسی کمزور شخص کو مالی طور پر مضبوط کرنے کیلئے انفرادی حیثیت میں دینا جائز ہے تو کسی کمزور ایمان والے کو ایمانی مضبوطی کیلئے دینا بالاولی جائز ہوگا۔
مذکورہ چاروں مصارف کے ضمن میں آنے والے لوگوں کو زکاۃ کا مال ان کی ملکیت میں دے دیا جائے گا، چنانچہ انہیں ملنے والا زکاۃ کا مال پوری طرح سے ان کی ملکیت میں شامل ہوگا، لہذا اگر دورانِ سال ان کی مالی حالت اتنی اچھی ہو جاتی ہے کہ وہ زکاۃ کے مستحق نہیں رہتے تو بقیہ زکاۃ انہیں واپس نہیں کرنی پڑے گی، بلکہ سارا مال آزادی سے استعمال کر سکتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے "لام" حرف جر کے ذریعے ان کی ملکیت کو واضح کیا ہے، چنانچہ فرمایا: " إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ" اور حرف جر "لام" ذکر فرمایا، اس کا فائدہ یہ ہے کہ : اگر کوئی فقیر زکاۃ لینے کے بعد سال کے اندر اندر امیر بن جائے تو اسے زکاۃ واپس نہیں کرنی پڑے گی، مثلاً: ہم نے کسی غریب کو 10000 ریال ایک سال کے خرچے کے طور پر دیے، اور اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ سال گزرنے سے پہلے تجارت، وراثت یا کسی ذریعے سے امیر ہو گیا، تو اسسے وصول کردہ زکاۃ واپس نہیں کرنی ہوگی، کیونکہ یہ زکاۃ کا مال اس کی ملکیت بن چکا ہے۔
◆ پانچواں مصرف:
گردن آزاد کروانا:
فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَفِي الرِّقَابِ )، یہاں تین چیزیں علمائے کرام نے بیان کی ہیں:
1- مکاتب غلام جس نے اپنے آقا سے آزادی کیلئے مؤجل ادائیگی پر معاہدہ کر لیا ہے، تو ایسے غلام کو اتنی رقم دی جائے گی جس سے اس کی قیمت ادا ہو جائے۔
2- غلام کو زکاۃ کی رقم سے خرید کر آزاد کر دیا جائے۔
3- کوئی مسلمان کفار کی قید میں ہے، تو کفار کو زکاۃ سے رقم دیکر مسلمان کو آزاد کروا لیا جائے، اسی طرح اغوا برائے تاوان بھی اسی میں شامل ہے، چنانچہ اگر کوئی کافر یا مسلم کسی مسلمان کو اغوا کر لے تو یہ تاوان زکاۃ کی مد سے ادا کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہاں علت اور وجہ ایک ہی ہے، اور وہ ہے کہ کسی مسلمان کو قید سے آزادی مل جائے، لیکن اغوا برائے تاوان میں یہ شرط ہے کہ : ہم اغوا کاروں سے مسلمان کو بغیر تاوان دیے آزاد نہ کروا سکتے ہوں۔
◆ چھٹا مصرف:
قرض اٹھانے والے لوگ: اہل علم نے ان کی دو قسمیں بیان کی ہیں:
1- دو متحارب گروپوں میں صلح کروانے پر دونوں کو مال دیکر صلح پر آمادہ کرنا
2- اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض اٹھانا
پہلی قسم کی مثال یہ ہے کہ: دو متحارب گروپوں یا قبائل یا خاندانوں میں لڑائی ہو اور کوئی با اثر اور محترم شخصیت کا مالک شخص دونوں میں پیسے دیکر صلح کروا دے ، تو ہم صلح کروانے والے شخص کی نیکی اور احسان مندی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو زکاۃ میں سے وہ رقم دیں گے جو اس نے صلح کیلئے اپنی ذمہ لی، کیونکہ اس نے مسلمانوں کے درمیان عداوت، اور بغض کا خاتمہ کیا اور قتل و غارت کا دروازہ بند کر دیا ہے، ایسے شخص کو بھی زکاۃ کا مال دیا جائے گیا چاہے وہ امیر ہو یا غریب، کیونکہ ہم اس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کچھ نہیں دے رہے، بلکہ ہم اسے اس لیے دے ہیں کہ اس نے مفاد عامہ کا بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔
اس کی دوسری قسم میں وہ شخص شامل ہے جس نے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض اٹھایا ، یا کوئی ضرورت کی چیز خرید کر اپنے پاس رقم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ذمہ قرض لکھوا لیا تو اس کا قرض زکاۃ سے ادا کر دیا جائے گا، بشرطیکہ اس کے پاس قرضہ ادا کرنے کیلئے کچھ نہ ہو۔
یہاں ایک مسئلہ ہے کہ: کیا اس مقروض کو پیسے دے دینا بہتر ہے یا براہِ راست قرض خواہ کو جا کر پیسے دے دیں اور مقروض کا قرض ختم کر وا دیں؟
اس بارے میں مختلف آراء ہیں، چنانچہ اگر مقروض اپنا قرض چکانے کیلئے پوری کوشش کر رہا ہو، اور قرضے سے جان چھڑانے کی پوری جد و جہد کرے ، نیز اگر اسے کہیں سے رقم ملے تو وہ سب سے پہلے قرض ہی چکائے گا تو ہم مقروض کو ہی یہ رقم تھما دیں گے، کیونکہ اس طرح اس پر پردہ بھی رہے گا، اور لوگوں کے سامنے شرمندہ بھی نہیں ہونا پڑے گا کہ اس کا قرض اسی نے خود ادا کیا ہے، کسی نے زکاۃ سے ادا نہیں کیا۔
اور اگر مقروض شخص فضول خرچ ہے، اور رقم دینے وہ پر غیر ضروری اشیاء خرید لے گا، تو ہم ایسے مقروض کو رقم نہیں دینگے، بلکہ براہِ راست قرض خواہ کو رقم دیکر کہیں گے: "فلاں شخص کا کتنا قرض ہے؟" تو پھر اس قرض کی ادائیگی حسب توفیق کر دیں۔
◆ ساتواں مصرف:
فی سبیل اللہ: اور یہاں "فی سبیل اللہ" سے مراد صرف جہاد ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی مراد نہیں ہے، چنانچہ نیکی و بھلائی کے دیگر تمام راستے اس میں شامل کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہی حقیقت میں ہوتا تو آیت :
( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ) [التوبة:60] میں حصر اور تخصیص کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا، اس لیے "فی سبیل اللہ" سے مراد صرف جہاد ہے، لہذا جہاد فی سبیل اللہ میں لڑنے والے شخص کو زکاۃ میں سے دیا جائے گا، جن کی ظاہری حالت سے یہی محسوس ہو کہ یہ لوگ اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے جہاد کر رہے ہیں، انہیں اپنی ضروریات اور اسلحہ وغیرہ کی خریداری کیلئے زکاۃ میں سے دیا جائے گا۔
اسی طرح انہیں قتال کیلئے اسلحہ خرید کر بھی دیا جا سکتا ہے، تاہم یہ بات ضروری ہے کہ قتال فی سبیل اللہ ہی ہونا چاہیے، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا گیا: "ایک آدمی خاندانی تعصب کی وجہ سے لڑتا ہے، دوسرا داد شجاعت وصول کرنے کیلئے لڑتا ہے، اور تیسرا دکھاوے کیلئے لڑتا ہے، ان میں سے کون سا "جہاد فی سبیل اللہ" میں قتال کر رہا ہے؟ " تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے لڑے وہی فی سبیل اللہ ہے) لہذا اپنے وطن کے دفاع میں لڑنے والا اور دیگر وجوہات کی بنا پر قتال کرنے والا "جہاد فی سبیل اللہ" میں شامل نہیں ہے، چنانچہ اسے وہ حقوق حاصل نہیں ہونگے جو "جہاد فی سبیل اللہ" والے کو حاصل ہوتے ہیں، نہ دنیاوی اعتبار سے اس کی مالی معاونت کی جا سکتی ہے، اور نہ ہی اخروی طور پر سرخرو ہو سکتا ہے۔
چنانچہ جو شخص داد شجاعت وصول کرنے کیلئے قتال میں شریک ہے اور ایسے لوگ عموماً ہر قسم کی لڑائی میں شریک ہونا پسند کرتے ہیں، یہ بھی "جہاد فی سبیل اللہ" میں شریک نہیں ہے، اسی طرح دکھاوے اور شہرت پانے کیلئے لڑنے والا بھی "جہاد فی سبیل اللہ" میں شریک نہیں ہے، لہذا ہر وہ شخص جو "جہاد فی سبیل اللہ" میں شریک نہیں وہ زکاۃ کا مستحق نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ ) اس لیے صرف اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے لڑنے والا ہی مجاہد فی سبیل اللہ ہوگا۔
اہل علم کہتے ہیں: "سبیل اللہ" میں یہ بھی شامل ہے کہ جو شخص شرعی علم حاصل کرنے کیلئے مکمل طور پر وقت دے، تو اسے بھی جیب خرچی، کپڑے، کھانا ، پینا، رہائش، اور کتب وغیرہ لے کر دی جا سکتی ہیں؛ کیونکہ علم شرعی بھی جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے، بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حصول علم کیلئے اگر نیت درست ہو تو اس کے برابر کوئی چیز نہیں ہے" چونکہ علم پوری شریعت کی بنیاد ہے، لہذا علم کے بغیر شریعت کا تصور بھی نہیں ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا ہے تا کہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں اور شرعی احکام سیکھیں، اسی سے اپنا عقیدہ و قولی و عملی عبادات حاصل کریں، [اور یہ سب کچھ اسی وقت ہوگا جب شرعی علم سیکھا اور سکھایا جائے گا] یہ بات درست ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اشرف اور معزز ترین عمل ہے، بلکہ اسلام کی کوہان کی چوٹی ہے، اس کی فضیلت میں کوئی شک نہیں، تاہم علم کا بھی اسلام میں بہت بڑا مقام ہے، اس لیے [حصول]علم کو جہاد فی سبیل اللہ میں شامل کرنا بالکل واضح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
◆ آٹھواں مصرف:
ابن سبیل: اس سے مراد مسافر ہے، یعنی ایسا مسافر جس کے پاس زادِ راہ ختم ہو چکا ہے، تو اسے اپنے علاقے تک پہنچنے کیلئے زکاۃ سے امداد دی جائے گی، چاہے یہ شخص اپنے علاقے میں کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو، کیونکہ اسے ابھی امداد کی ضرورت ہے، یہاں ہم اسے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کسی سے قرض اٹھا لو اور بعد میں اد اکر دینا، کیونکہ اس طرح ہم اسے مقروض کر دینگے، [جب کہ قرآن مجید اسے زکاۃ کی مد سے امداد لینے کی اجازت دیتا ہے]، تاہم اگر وہ شخص خود سے قرض اٹھانے پر تیار ہو تو یہ اس کی مرضی ہے، لہذا اگر ہمیں کوئی شخص مکہ سے مدینہ آتے ہوئے ملے اور اس کے پیسے وغیرہ گم ہو گئے ہوں ، اور اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ، لیکن اپنے شہر میں صاحب حیثیت ہو تو اسے صرف مدینہ پہنچنے کیلئے امداد دیں گے، کیونکہ اسے صرف اتنی ہی ضرورت ہے، لہذا زکاۃ کی مد سے زیادہ نہیں دے سکتے۔
جب ہمیں زکاۃ کے مصارف معلوم ہوگئے تو اس کے علاوہ دیگر مفاد عامہ یا خاصہ کیلئے زکاۃ خرچ کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ مساجد کی تعمیر، سڑکوں کی تعمیر، دفاتر وغیرہ کیلئے زکاۃ صرف کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے زکاۃ کے مستحق مصارف کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ( فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ) یعنی یہ زکاۃ کی تقسیم کے مصارف اللہ کی طرف سے فرض ہیں، اور اللہ تعالی علم و حکمت والا ہے۔
اس کے بعد یہ سوال ہے کہ:
کیا ان آٹھ مصارف میں سے ہر ایک کو دینا لازمی ہے؟ کیونکہ "واو" حرف عطف کا استعمال کیا گیا ہے، اور اس کا مطلب ہوتا ہے کہ سب کو بیک وقت حکم میں شامل کیا جائے❓
اس کا جواب یہ ہے کہ:
ایسا کرنا واجب نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا: (انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالی نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ واجب کی ہے، جو تمہارے مخیر لوگوں سے لیکر غریب لوگوں میں تقسیم کی جائے گی) چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ہی صنف بیان کی، لہذا اس حدیث میں صرف مصرف بیان کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے آیت میں زکاۃ کے مستحقین بیان فرمائے ہیں، نہ کہ یہ کہا ہے کہ سب کو زکاۃ بیک وقت دینا لازمی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ:
ان آٹھ مصارف میں سے کس کو زکاۃ دیتے ہوئے ترجیح دینی چاہیے❓
تو ہم کہیں گے: ترجیح اسی کو دی جائے گی جس کو تعاون کی زیادہ ضرورت ہوگی؛ کیونکہ ان تمام مصارف کو زکاۃ دی جا سکتی ہے، اور ان میں سے ترجیح صرف اسی کو ملے گی جسے تعاون کی زیادہ ضرورت ہوگی، چنانچہ عام طور پر زیادہ ضرورت فقراء اور مساکین کو ہوتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہی کا ذکر آیت کے شروع میں فرمایا:
"صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے"
[التوبة:60]
◆ قرض کو زکوة میں بدلنا :
اہل علم نے یہ بات صراحت کیساتھ کہی ہے کہ : اگر کسی شخص کا کسی غریب شخص کے ذمہ قرض ہو تو قرض خواہ اپنا قرض معاف کر دے اور اسے زکاۃ میں شمار کرے تو یہ درست نہیں ہے، کیونکہ زکاۃ کی ادائیگی اسی وقت ہوگی جب غریب شخص کی ملکیت میں کوئی چیز آئے گی، لیکن اس صورت میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے، چنانچہ اس بارے میں شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"اگر آپ کا کسی مریض یا تنگ دست غریب کے ذمہ قرض ہو تو اسے زکاۃ شمار کرتے ہوئے معاف کر سکتے ہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ تنگ دست مقروض شخص کو اتنی مہلت دینا واجب ہے کہ وہ آسانی سے قرضہ واپس کر سکے، ویسے بھی زکاۃ اسی وقت ہوگی جب اس میں ادائیگی ہو،
جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ )
نماز قائم کرو، اور زکاۃ ادا کرو
[البقرہ: 43]
لیکن تنگ دست مقروض شخص کو قرضہ معاف کرنے میں ادائیگی نہیں ہوگی، بلکہ یہ معافی ہے، ویسے بھی اس طرح کرنے کا مقصود اپنے مال کو تحفظ دینا ہے، غریب شخص کیساتھ ہمدردی کا پہلو بہت کم ہے۔
تاہم آپ اسے اس کی غربت اور ضروریات کو سامنے رکھ کر زکاۃ دے سکتے ہیں، چنانچہ اگر غریب آدمی زکاۃ وصول کر کے اس میں سے کچھ پیسے آپکو قرض کی واپسی کے طور پر دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ آپ اس عمل کیلئے اسے مجبور نہ کریں، بلکہ غریب آدمی اپنی خوشی سے ایسے کرے۔
اللہ تعالی سب لوگوں کو دین کی سمجھ اور دین پر استقامت سے نوازے۔" انتہی
"فتاوى الشیخ ابن باز" (280/14)
چنانچہ اگر خود زکاۃ دینے والے کیلئے مقروض شخص سے قرضہ معاف کر کے اسے زکاۃ میں شمار کرنا جائز نہیں ہے، تو صرف زکاۃ کی تقسیم کیلئے مقرر شخص کیلئے اپنے مقروض شخص سے قرضہ معاف کرنا کیسے جائز ہوگا؟!، اس کا کام تو صرف اتنا ہے کہ زکاۃ مستحقین میں تقسیم کر دے، چنانچہ اس کیلئے تو ایسا کرنا زیادہ سختی سے منع ہوگا، اور اگر وہ ایسا کرتا بھی ہے تو یہ محض اپنے مفاد کیلئے کریگا۔
یہ بات عیاں ہے کہ اگر کوئی مقروض تنگ دست ہو تو قرض خواہ کو مزید مہلت دے دینی چاہیے
فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ)
ترجمہ: اور اگر [مقروض] تنگ دست ہو تو آسانی تک مہلت دے دو،
اور اگر تم صدقہ کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو
[البقرة:280]
شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یعنی اگر مقروض شخص تنگ دست ہو اس کے پاس قرض ادا کرنے کیلئے کچھ نہ ہو تو قرض خواہ کو آسانی تک مہلت دے دینی چاہیے، اور مقروض پر واجب ہے کہ کسی بھی جائز طریقے سے مال حاصل ہو تو فوری قرض ادا کر دے، لیکن اگر قرض خواہ مقروض سے مکمل یا کچھ حصہ معاف کر دے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے" انتہی
تفسیر السعدی ( ص 959 )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS