find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kaise Sanpo (Snakes) ko marna Jayez hai, Zahrile Saanpo ki Pehchan kya hai?

Kin Saanpo (Snakes) ko Marna chahiye aur kise nahi?

Agar koi Saanp hame nuksan Pahuchaye to kya Use Qatal karna Jayez hai?


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

سانپوں کو اُن کی طرف سے انتقام لیے جانے کے خوف سے قتل نہ کرنا :
۔━━━━━━━━━━━━━━━

عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إِقتلوا الحیَّات کلَّھُن ، فَمَن خَافَ ثأرَھُنَّ فَلَیس مِنّا ::: سب سانپوں(چھپکلیوں وغیرہ)کوقتل کرو اور جو اُن کے انتقام سے ڈرا(اور اِس ڈر کی وجہ سے اُن کو قتل نہ کیا) تو وہ ہم میں سے نہیں ﴾سنن أبو داؤد/حدیث 5238/أبواب السلام/باب33 باب فی قتل الحیات،سُنن النسائی/حدیث 3193/کتاب الجہاد/باب 48،صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ /حدیث 1149/المشکاۃ 4140 ،
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاهُنَّ وَمَنْ تَرَكَ شَيْئًا مِنْهُنَّ خِيفَةً فَلَيْسَ مِنَّا:::جب سےہم نےاُن(یعنی سانپوں)کےساتھ لڑائی شروع کی ہے ہم نے اُنہیں سلامتی نہیں دی جِس نے اُن(سانپوں)کو (اُنکے انتقام کے)ڈر کی وجہ سےقتل نہ کیا تو وہ ہم میں سے نہیں ﴾
[ سنن أبی داؤد/حدیث5237/کتاب الادب /أبواب السلام/ باب باب فی قتل الحیات ، اور امام ابو داؤد رحمہ ُ اللہ کی اس روایت کو امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،]

أبو ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
﴿ مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاهُنَّ وَمَنْ تَرَكَ شَيْئًا مِنْهُنَّ خِيفَةً فَلَيْسَ مِنَّا
جب سےہم نےاُن(یعنی سانپوں)کےساتھ لڑائی شروع کی ہے ہم نے اُنہیں سلامتی نہیں دی جِس نے اُن(سانپوں)کو (اُنکے انتقام کے)ڈر کی وجہ سےقتل نہ کیا تو وہ ہم میں سے نہیں ﴾
تعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان/حدیث5615/کتاب الحَظر و الإِباحۃ / باب 4 ، سنن أبی داؤد/حدیث5250/کتاب الادب /أبواب السلام/ باب باب فی قتل الحیات ، ، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے امام ابو دواد رحمہُ اللہ کی روایت کو حسن صحیح قرار دِیا ،
إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نےامام ابن حبان رحمہُ اللہ کی اِس روایت کو حسن اور گواہ کےطورپرصحیح کہا ہے،

◉ فقہ الحدیث ::: حدیث کی تشریح اور أحکام​ :
۔━━━━━━━━━━━━━━━━━━━

رسول اللہﷺ کی ہر بات اُن کی اُمت کے لیے سبق رکھتی ہے اور خاص طور پر عقیدے کی اِصلاح کے لیے خاص مفہوم رکھتی ہے ، اُوپر بیان کی گئی دونوں أحادیث شریفہ میں رسول اللہﷺ نے ایک شرکیہ عقیدے کا اِنکار فرمایا ہے ، اور اُس کو رَد فرماتے ہوئے اپنی اُمت کے عقیدے کی درستگی کے لیے یہ اِرشاد فرمایاہے
﴿ فَمَن خَاف ثأرھُنَّ فَلَیس مِنّا
اور جو اُن کے انتقام سے ڈرا (اور اِس ڈر کی وجہ سے اُنکو قتل نہ کیا) تو وہ ہم میں سے نہیں﴾

اور﴿مَن تَرکَ قَتل شيء مِنھُنَّ خِیفَۃً فَلیس مِنا
جِس نےاُن(سانپوں)کو(اُنکے انتقام کے)ڈر کی وجہ سےقتل نہ کیا تو وہ ہم میں سے نہیں ﴾

یہ وضاحتیں اِس لیے بیان فرمائیں کہ اُس وقت کے معاشرے میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ سانپ کو مارنے سے اُس سانپ کے رشتہ دار مارنے والے سے انتقام لیتے ہیں ، اور اِس عقیدے کی وجہ سے لوگ سانپوں کو مارنے سے ڈرتے تھے ، اور یہ بات آج بھی ہے ، ہمارے معاشرے میں اکثرزبانوں،اور کتابوں میں اِس قِسم کی کہانیاں ملتی ہیں جو اِس عقیدے کی غماز ہوتی ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے اُسے قبول کرنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ،
اوپر بیان کی گئی أحادیث میں ہر قِسم کےسانپوں کو قتل کرنے کا حُکم ملتا ہے ، اور چند دوسری أحادیث میں دو قسم کے سانپوں کے لیے الگ حُکم ملتا ہے ،

⓵ جِن میں سے ایک قِسم کے سانپ کو مارنےسے منع کیا گیا،لہذا اِس معاملے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر قِسم کے سانپوں میں سے ایک قِسم کے سانپوں کو نہیں مارا نہیں جائے گا ،
⓶ اور ایک قِسم کے سانپوں کو مارنے سے پہلے اُن سانپوں کو تنبیہ(warning)کی جائے گی ،

◉ کِس قِسم کے سانپوں کو مارنے کی ممانعت ہے :
۔━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━

❶ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- نَهَى عَنْ قَتْلِ حَيَّاتِ الْبُيُوتِ إِلاَّ الأَبْتَرَ وَذَا الطُّفْيَتَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَخْطَفَانِ - أَوْ قَالَ يَطْمِسَانِ - الأَبْصَارَ وَيَطْرَحَانِ الْحَمْلَ مِنْ بُطُونِ النِّسَاءِ وَمَنْ تَرَكَهُمَا فَلَيْسَ مِنَّا::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے گھروں میں پائے جانے والے جِنَّان کو قتل کرنے سے منع فرمایا ،سوائے اُس کے جس کی دُم بہت چھوٹی سی ہوتی ہے اور وہ جِس کی کمر پر دو دھاریاں بنی ہوتی ہیں،کیونکہ یہ (دونوں) بینائی کو چھین لیتے ہیں ،یا فرمایا کہ ، مٹا دیتے ہیں اور عورتوں کے پیٹ سے حمل گرا دیتے ہیں اور بینائی ختم کر دیتے ہیں ۔

[ مُسند أبی یعلی الموصلی/حدیث4341/مُسند عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث ، مُسند أحمد/حدیث24511/حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا کی پہلی حدیث ، اِس حدیث کے بارےمیں إِمام أبوبکر الہیثمی نے کہا"""أحمد کی روایت کے راوی صحیح روایات والے ہیں """، بحوالہ المجمع الزوائد / کتاب الصید و الذبائح / باب النھی عن قتل عوامر البیوت /باب32 ۔]

❷ سعید ابن المسیب رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت ()اِیمان والوں کی والدہ محترمہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کے پاس حاضر ہوئی تو ان کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا ، اُس نے پوچھا ، اے ایمان والوں کی امی جان ، آپ اِس سے کیا کرتی ہیں ، تو انہوں نے اِرشاد فرمایا""" یہ چھپکلیوں( کو قتل کرنے کے لیے ہے ) کے لیے ہے """، کیونکہ نبی کریمﷺ نے ہمیں بتایا تھا ۔

أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ شَىْءٌ إِلاَّ يُطْفِئُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلاَّ هَذِهِ الدَّابَّةُ، فَأَمَرَنَا بِقَتْلِهَا ، وَنَهَى عَنْ قَتْلِ الْجِنَّانِ إِلاَّ ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالأَبْتَرَ فَإِنَّهُمَا يُطْمِسَانِ الْبَصَرَ وَيُسْقِطَانِ مَا فِى بُطُونِ النِّسَاءِ::: کہ جب ابراہیم (علیہ السلام)کو آگ میں ڈالا گیا تو (جائے وقوع کے قریب )زمین میں پر چلنے والا (رینگنے والا)کوئی ایسا جانور نہ تھا جس نے آگ بھجائی (کی کوشش)نہ (کی)ہو ، سوائے چھپکلی کے، یہ ابراہیم علیہ السلام پر آگ (کو تیز کرنے کے لیے) پھونکتی رہی، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم فرمایا، اور ہمیں جِنّان کو قتل کرنے سے منع فرمایا ، سوائے دو دھاری والے کے ، اور چھوٹی دُم والے کے کیونکہ یہ دونوں بینائی ختم کر دیتے ہیں اور جو کچھ عورتوں کے پیٹ میں ہوتا ہے وہ گرا دیتے ہیں ۔
[ سُنن النسائی /حدیث/2844کتاب الحج/باب85،امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ]

❸ ابن ابی مُلیکہ رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ ، عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہُما و أرضاہُما سب ہی سانپوں کو قتل کر دِیا کرتے تھے ، پھر انہوں نے ایسا کرنے سے منع کر دِیا اور(منع کرنے کا سبب بتاتے ہوئے )فرمایا :

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدَمَ حَائِطًا لَهُ فَوَجَدَ فِيهِ سِلْخَ حَيَّةٍ فَقَالَ انْظُرُوا أَيْنَ هُوَ فَنَظَرُوا فَقَالَ اقْتُلُوهُ
نبی کریمﷺ نے اُن کے باغ کی دیوار گرائی تو اُس (دیوار) میں ایک سانپ کی اتاری ہوئی کھال دیکھی ، تو اِرشاد فرمایا ، دیکھو کہ سانپ کہاں ہے ؟ ، صحابہ نے سانپ دیکھ لیا ، تو رسول اللہﷺ اِرشاد فرمایا ، اُسے قتل کر دو
اس لیے میں سانپوں کو قتل کیا کرتا تھا ، پھر (ایک دفعہ)میری ملاقات ابو لبابہ (البدری رضی اللہ عنہ ُ )سے ہوئی تو انہوں نے مجھے خبر دی کہ ، رسول اللہﷺ نے اِرشاد فرمایا
لَا تَقْتُلُوا الْجِنَّانَ إِلَّا كُلَّ أَبْتَرَ ذِي طُفْيَتَيْنِ فَإِنَّهُ يُسْقِطُ الْوَلَدَ وَيُذْهِبُ الْبَصَرَ فَاقْتُلُوهُ
جِنّان کو قتل مت کرو، سوائے اس کے جس کی دُم کٹی ہوتی ہے ، (یا اتنی چھوٹی ہوتی ہے گویا کہ کٹی ہوئی ہو)،اور سوائے اُس کے جِس کی کمر پر دو دھاریاں نبی ہوتی ہیں ، کیونکہ یہ (دونوں قِسم کے سانپ)حمل ضائع کر دیتے ہیں ، اور بینائی ختم کر دیتے ہیں.

[ صحیح البُخاری/حدیث3311/کتاب بدء الخلق/باب 15، صحیح مُسلم/ حدیث 2233/کتاب قتل الحیات وغیرہ/پہلا باب، اُوپرلکھے ہوئے الفاظ صحیح البُخاری کی روایت کے ہیں ]

اور سنن ابی داؤد میں اس کے یہ الفاظ ہیں کہ

نَهَى عَنْ قَتْلِ الْجِنَّانِ الَّتِى تَكُونُ فِى الْبُيُوتِ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالأَبْتَرَ فَإِنَّهُمَا يَخْطِفَانِ الْبَصَرَ وَيَطْرَحَانِ مَا فِى بُطُونِ النِّسَاءِ

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے جِنّان جو کہ گھروں میں ہوتے ہیں ، انہیں قتل کرنے سے منع فرمایا ، سوائے اس کے کہ وہ جِنّان دو دھاری والوں میں سے ہو ، اور چھوٹی دُم والا ہو ، کیونکہ یہ دونوں (قِسم کے سانپ)بینائی چھین لیتے ہیں ، اور جو کچھ عورتوں کے پیٹ میں ہوتا ہے نکال دیتے ہیں [ سُنن ابو داؤد /حدیث /5255کتاب الادب /باب175 ]

اس حدیث شریف سے ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ پہلے ہر قِسم کے سانپوں کو مارنے کا عام حکم فرمایا گیا تھا ، پھر اُس حکم میں تبدیلی فرما کر اسے مُقیّد فرما دِیا گیا،
إِمام ابن حجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے فتح الباری شرح صحیح البُخاری میں لکھا :::

""" جِنَّان ::: جان کی جمع ہے ، اور جان چھوٹےسے باریک ہلکے وزن والے سانپ کو کہتے ہیں ، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جان وہ سانپ ہوتا ہے جو باریک اور سفید رنگ کا ہوتا ہے""" ،
إِمام الترمذی رحمہُ اللہ نے ابن المبارک رحمہُ اللہ کا قول نقل کیاہے کہ """جان وہ سانپ ہے جو چاندی کے طرح (چمکدار رنگت والا)ہوتا ہے ،اور اُسکی چال سیدہی ہوتی ہے"""،
عام طور پر
( جِنّان ) سے مُراد چھوٹے سانپ ہوتے ہیں ،
( أبتر ) اُس سانپ کو کہا جاتا ہے جِس کی دُم چھوٹی سی ہوتی ہے ، اور عموماً اُس کی رنگت نیلی سی ہوتی ہے،
( ذی طفیتین ) وہ سانپ جِس کی پُشت پر دو سُفید یا سُفیدی مائل دھاریاں ہوتی ہیں،

مذکورہ بالا سب احادیث شریفہ کے مطالعہ سے یہ مسئلہ واضح ہوا کہ گھروں میں دِکھائی دینے والے سانپوں میں سے دودھاری والے ، اور چھوٹی دُم والے سانپوں کو فوراً قتل کر دیا جانا چاہیے کیونکہ یہ سانپ دو خوفناک کام کرتے ہیں ،
⓵بینائی ختم کر دیتے ہیں ، اور ،
⓶ حاملہ عورتوں کا حمل گِرا دیتے ہیں

اس کے بعد گھروں میں دِکھائی دینے والے سانپوں کو قتل کرنے کے حکم میں سے ایک احتیاطی کاروائی ، کے حکم کے بارے میں مطالعہ کریں گے ، وہ احتیاطی کاروائی گھروں میں دِکھائی دینے والے سانپوں کو قتل کرنے سے پہلے انہیں تنبیہ کرنے کی ہے ،

کن سانپوں کو تنبیہ کی جائے گی :

━━━━━━━━━━━━━

یہاں سے آگے چلنے سے پہلے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ کچھ ایسے لوگوں کے شبہات کا جواب دیا جائے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ کو اپنی ناقص اور جہالت زدہ عقلوں کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اس میں علمیت کا رنگ بھرنے کے لیے انہیں جدید سائنسی علوم کی معلومات کے مطابق پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،
اور اگر اپنی جہالت کی وجہ سے ایسی کوئی معلومات حاصل نہ کر سکیں تو معاذ اللہ صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ کا تو انکار ہی کر ڈالتے ہیں اور قران کریم کی آیات مبارکہ کی باطل تاویلات کرنے لگتے ہیں ،
جبکہ قران کریم اور صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ سائنسی معلومات کا ذریعہ نہیں ہیں ، اور ان پر """ ایمان بالغیب """ رکھنے کا حکم ہے ، لیکن اس کی توفیق ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی ، خاص طور پر کسی ایسے کو تو نہیں ہوتی جو اپنی عقل ، ذاتی سوچ و فِکر اور مادی علوم کو اللہ اور اس کی خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اقوال اور افعال کی جانچ کی کسوٹی بناتا ہے ،
ایسے ہی جاھلوں میں سے کچھ اِن صحیح ثابت شدہ احادیث پر بھی اعتراض کرتے ہیں ، کیونکہ ان کی عقلوں میں یہ بات نہیں آ پاتی کہ کوئی سانپ کس طرح کسی کی بینائی ضائع کر سکتا ہے؟؟؟ اور کس طرح کسی حاملہ عورت کا حمل گرا سکتا ہے ؟؟؟
میں یہاں کچھ زیادہ تفصیلات ذِکر نہیں کروں گا ، بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جدید علوم میں سے جانوروں کی صِفات اور عادات سے متعلق علم میں یہ چیز معروف ہے کہ سانپوں میں ایسے بھی ہیں جو کافی فاصلے سے اپنا زہر فوارے کی صورت میں پھینکتے ہیں ، اور اگر وہ زہر کسی کی آنکھ میں داخل ہو جائے ، اور مناسب وقت کے اندر اندر اس کا کوئی علاج نہ کیا جائے تو اُس آنکھ کی بینائی ہمیشہ کے لیے جاری رہتی ہے ،
ایسے سانپوں کو عام طور پر """Spitting Snakes, Rinkhals cobra, Ringhals cobra """وغیرہ کہا جا تا ہے ، اور ان کی کئی مختلف اقسام بتائی جاتی ہیں ،
ان معلومات کو انٹر نیٹ پر بھی بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے
عقل پرستوں کی جہالت اگر اس کا علم نہیں رکھتی تو یہ ان کی بد عقلی ، اور جہالت کی ایک اور کھلی نشانی ہے ، نہ کہ صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ میں کسی کمی کی ،
بلکہ صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ میں ایسی باتوں کا علم عطا فرمانا جن کا علم اس وقت کے انسانی معاشرے میں نہ تھا، اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس علم کے لیے جدید علوم میں سے گواہیوں کا میسر ہونا اس بات کے دلائل میں سے ہے کہ احادیث شریفہ اللہ کی طرف سے وحی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز بان مبارک پر جاری ہوتی تھیں ، اور یہ ہی وہ وحی ہے ، جسے ہمارے عُلماء " وحی غیر متلو " ، یعنی تلاوت نہ کی جانے والی وحی کہتے ہیں، اور جِس کی گواہی خود اللہ جلّ و علا نے یہ فرما کر دی کہ :
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى O إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى O عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى
(ہم نے بھیجے ) اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں فرماتے O اُن کی بات تو صِرف اُن کی طرف کی گئی وحی ہےOجو وحی انہیں بہت زیادہ قوت والے (فرشتے جبریل)نے سکھائی
[ سُورہ النجم (53)/آیات3،4،5 ]

پس جو اپنی بد دماغی کو حدیث ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پرکھ کی کسوٹی بناتا ہے وہ عملی طور پر اللہ کے اس فرمان کا انکار کرنے والا ہے ، اور قران کا مخالف ہے ،
اِن احادیث شریفہ کی شرح کرنے والے ہمارے اِماموں رحمہم اللہ نے اِن کے بارے میں بہت صدیوں سے بہت شاندار قِسم کی علمی معلومات مہیا کر رکھی ہیں ، اگر میں اُن سب کا ذِکر یہاں کرنے لگوں تو بات کافی لمبی ہو جائے گی ، صِرف ایک امام ربانی ، اِمام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ کی پیش کردہ شرح میں سے ایک اقتباس پڑھتے ہے۔

وَلَا رَيْبَ أَنّ اللّهَ سُبْحَانَهُ خَلَقَ فِي الْأَجْسَامِ وَالْأَرْوَاحِ قُوًى وَطَبَائِعَ مُخْتَلِفَةً وَجَعَلَ فِي كَثِيرٍ مِنْهَا خَوَاصّ وَكَيْفِيّاتٍ مُؤَثّرَةً وَلَا يُمْكِنُ لِعَاقِلٍ إنْكَارُ تَأْثِيرِ الْأَرْوَاحِ فِي الْأَجْسَامِ فَإِنّهُ أَمْرٌ مُشَاهَدٌ مَحْسُوسٌ وَأَنْتَ تَرَى الْوَجْهَ كَيْفَ يَحْمَرّ حُمْرَةً شَدِيدَةً إذَا نَظَرَ إلَيْهِ مِنْ يَحْتَشِمُهُ وَيَسْتَحِي مِنْهُ وَيَصْفَرّ صُفْرَةً شَدِيدَةً عِنْدَ نَظَرِ مَنْ يَخَافُهُ إلَيْهِ وَقَدْ شَاهَدَ النّاسُ مَنْ يَسْقَمُ مِنْ النّظَرِ وَتَضْعُفُ قُوَاهُ وَهَذَا كُلّهُ بِوَاسِطَةِ تَأْثِيرِ الْأَرْوَاحِ وَلِشِدّةِ ارْتِبَاطِهَا بِالْعَيْنِ يُنْسَبُ الْفِعْلُ إلَيْهَا وَلَيْسَتْ هِيَ الْفَاعِلَةَ وَإِنّمَا التّأْثِيرُ لِلرّوحِ وَالْأَرْوَاحُ مُخْتَلِفَةٌ فِي طَبَائِعِهَا وَقُوَاهَا وَكَيْفِيّاتِهَا وَخَوَاصّهَا فَرُوحُ الْحَاسِدِ مُؤْذِيَةٌ لِلْمَحْسُودِ أَذًى بَيّنًا وَلِهَذَا أَمَرَ اللّهُ - سُبْحَانَهُ - رَسُولَهُ أَنْ يَسْتَعِيذَ بِهِ مِنْ شَرّهِ وَتَأْثِيرُ الْحَاسِدِ فِي أَذَى الْمَحْسُودِ أَمْرٌ لَا يُنْكِرُهُ إلّا مَنْ هُوَ خَارِجٌ عَنْ حَقِيقَةِ الْإِنْسَانِيّةِ وَهُوَ أَصْلُ الْإِصَابَةِ بِالْعَيْنِ فَإِنّ النّفْسَ الْخَبِيثَةَ الْحَاسِدَةَ
تَتَكَيّفُ بِكَيْفِيّةٍ خَبِيثَةٍ وَتُقَابِلُ الْمَحْسُودَ فَتُؤَثّرُ فِيهِ بِتِلْكَ الْخَاصّيّةِ وَأَشْبَهُ الْأَشْيَاءِ بِهَذَا الْأَفْعَى فَإِنّ السّمّ كَامِنٌ فِيهَا بِالْقُوّةِ فَإِذَا قَابَلَتْ عَدُوّهَا انْبَعَثَتْ مِنْهَا قُوّةٌ غَضَبِيّةٌ وَتَكَيّفَتْ بِكَيْفِيّةٍ خَبِيثَةٍ مُؤْذِيَةٍ فَمِنْهَا مَا تَشْتَدّ كَيْفِيّتُهَا وَتَقْوَى حَتّى تُؤَثّرَ فِي إسْقَاطِ الْجَنِينِ وَمِنْهَا مَا تُؤَثّرُ فِي طَمْسِ الْبَصَرِ كَمَا قَالَ النّبِيّ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ فِي الْأَبْتَرِ وَذِي الطّفْيَتَيْنِ مِنْ الْحَيّاتِ إنّهُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ وَيُسْقِطَانِ الْحَبَل
وَمِنْهَا مَا تُؤَثّرُ فِي الْإِنْسَانِ كَيْفِيّتُهَا بِمُجَرّدِ الرّؤْيَةِ مِنْ غَيْرِ اتّصَالٍ بِهِ لِشِدّةِ خُبْثِ تِلْكَ النّفْسِ وَكَيْفِيّتِهَا الْخَبِيثَةِ الْمُؤَثّرَةِ وَالتّأْثِيرُ غَيْرُ مَوْقُوفٍ عَلَى الِاتّصَالَاتِ الْجِسْمِيّةِ كَمَا يَظُنّهُ مَنْ قَلّ عِلْمُهُ وَمَعْرِفَتُهُ بِالطّبِيعَةِ وَالشّرِيعَةِ بَلْ التّأْثِيرُ يَكُونُ تَارَةً بِالِاتّصَالِ وَتَارَةً بِالْمُقَابَلَةِ وَتَارَةً بِالرّؤْيَةِ وَتَارَةً بِتَوَجّهِ الرّوحِ نَحْوَ مَنْ يُؤَثّرُ فِيهِ وَتَارَةً بِالْأَدْعِيَةِ وَالرّقَى وَالتّعَوّذَاتِ وَتَارَةً بِالْوَهْمِ وَالتّخَيّلِ ، وَنَفْسُ الْعَائِنِ لَا يَتَوَقّفُ أَعْمَى فَيُوصَفُ لَهُ الشّيْءُ فَتُؤَثّرُ نَفْسُهُ فِيهِ وَإِنْ لَمْ يَرَهُ وَكَثِيرٌ مِنْ الْعَائِنِينَ يُؤَثّرُ فِي الْمَعِينِ بِالْوَصْفِ مِنْ غَيْرِ رُؤْيَةٍ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى لِنَبِيّهِ { وَإِنْ يَكَادُ الّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمّا سَمِعُوا الذّكْرَ } [سُورۃ الْقَلَمُ /آیۃ 51 ] .
وَقَالَ { قُلْ أَعُوذُ بِرَبّ الْفَلَقِ مِنْ شَرّ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِنْ شَرّ النّفّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ وَمِنْ شَرّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ }،
فَكُلّ عَائِنٍ حَاسِدٌ وَلَيْسَ كُلّ حَاسِدٍ عَائِنًا فَلَمّا كَانَ الْحَاسِدُ أَعَمّ مِنْ الْعَائِنِ كَانَتْ الِاسْتِعَاذَةُ مِنْهُ اسْتِعَاذَةً مِنْ الْعَائِنِ وَهِيَ سِهَامٌ تَخْرُجُ مِنْ نَفْسِ الْحَاسِدِ وَالْعَائِنِ نَحْوَ الْمَحْسُودِ وَالْمَعِينِ تُصِيبُهُ تَارَةً وَتُخْطِئُهُ تَارَةً

ترجمہ : اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ سبحانہ ُ وتعالی نے (مخلوق کے ) جسموں اور روحوں میں مختلف طبیعتیں اور قوتیں بنائی ہیں ، اور ان میں سے بہت سی (طبیعتیں اور قوتیں عام معمول سے دُور رکھتے ہوئے) خاص اور اثر کرنے والی بنائی ہیں ،کسی (درست ) عقل والے کے لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ روح کے ( کسی دوسرے ) اجسام میں اثر ہونے کا انکار کرے ، کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جو مشاھدہ میں ہے اور احساس کی حدود میں ہے ، پس تم دیکھتے ہو کہ جب (کوئی ) کسی ایسے شخص جو دیکھے جِس سے وہ شرم کرتا ہو، جس کی حیاء کرتا ہو تو دیکھنے والا کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے (خاص طور پر مؤنث کے چہرے پر یہ اثر زیادہ نمایاں ہوتا ہے ، بشرطیکہ وہ حیا ء والی ہو ،فطرت کی اس خو بصورت دل نشین صِفت سے خود کو آزاد کرنے والی نہ ہو )اور کہ جب (کوئی ) کسی ایسے شخص جو دیکھے جِس سے وہ ڈرتا ہو ، تو دیکھنے والا کا چہرہ پیلا ہو جاتا ہے ، اور یہ بھی لوگوں کے مشاھدے میں ہے کہ لوگ نظر کی وجہ سے بیمار پڑ جاتے ہیں ، اور کمزور ہو جاتے ہیں ، یہ سب کچھ روح کی تاثیر کے ذریعے ہوتا ہے ،

اور رُوح کا ربط آنکھ کے ساتھ بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے رُوح کی تاثیر کو آنکھ سے منسوب کیا گیا ، جب کہ (درحقیقت ) آنکھ بذات خود اس قسم کی تاثیر کرنے والی چیز نہیں ، بلکہ تاثیر رُوح کی ہوتی ہے ، اور رُوحیں اپنی طبعیتوں ، قوتوں، کیفیات اور خصوصیات میں (ایک دوسرے سے)مختلف ہوتی ہیں ، پس حسد کرنے والی رُوح محسود (جس سے حسد کیا جاتا ہے)کے لیے واضح طور پر نقصان پہنچانے والی ہوتی ہے ، اِسی لیے اللہ سُبحانہ ُ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)کو یہ حکم فرمایا کہ وہ( صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)حسد کرنے والوں سے اللہ کی پناہ طلب فرمایا کریں ،
حسد کرنے والے کی محسود پر نقصان دہ تاثیر ایسا معاملہ ہے جس سے صِرف وہی انکار کر سکتا ہے جو انسانیت کی حقیقت (سمجھنے کی عقل و فراست) سے خارج ہو ، اور یہی (رُوحوں کی تاثیر) نظر لگنے کی اصلیت ہے ، برے نفس ، حسد کرنے والے ہوتے ہیں ایسے نفوس بری کیفیات کے ہی حامل ہوتے ہیں ، اور (جب) یہ محسودکے سامنے آتے ہیں تو اس بری کیفیت کا محسود پر اثر ہوتا ہے ، اور ایسے نفوس کے جیسی چیزوں میں سب سے زیادہ قریبی چیز سانپ ہے ، اس کا زہر اس میں قوت کے ساتھ خفیہ رہتا ہے ، اور جب یہ سانپ اپنے دشمن کے سامنے آتا ہے تو اس کے غصے کی طاقت پھٹ پڑتی ہے ، اور یہ بری اور نقصان دینے والی صِفت سے مغلوب ہو جاتا ہے ، پس ان سانپوں میں سے کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جِس کی یہ بری صِفت اس قدر طاقتور ہوجاتی ہے کہ وہ حمل تک گرا دیتے ہیں ، اور ان سانپوں میں سے ایسے بھی ہیں جو بینائی ختم کر دیتے ہیں ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ، اور ان سانپوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کی برائی کی قوت کی وجہ سے انسانوں پر کسی مادی تعلق (ربط ، اتصال) کے بغیر ہی اپنا اثر کر دیتے ہیں ،اور (یاد رکھیے کہ ایسی ) اثر پذیری کے لیے جسمانی ربط ضرور ی نہیں ہوتا ، جیسا کہ طبعی اور شرعی علوم سے جاھلوں کا خیال ہے ، بلکہ نفوس کا اثر بعض اوقات جمسانی تعلق ہونے سے ہوتا ہے ، تو بعض اوقات صِرف آپنے سامنے ہو جانے سے ہوتا ہے ، اور بعض اوقات صِرف نظر ملنے سے ہو جاتا ہے ، اور بعض اوقات کسی روح کی دوسرے کی طرف توجہ سے (جس کی طرف توجہ کی جائے ) اثر ہو جاتا ہے ، اور بعض اوقات دعاؤں سے، اور بعض اوقات جھاڑ پھونک (دم وغیرہ) کرنے سے، اور بعض اوقات (شر اور شریر سے ) پناہ طلب کرنے والے کلمات سے اثر ہوجاتا ہے ، اور (تو اور) بعض اوقات تو صِرف (اپنے خود ساختہ، یا لاشعور کے بنائے ہوئے) وھم اور تخیل سے اثر ہو جاتا ہے، اور نظر لگانے والا نفس کو اندھا پن (بھی ) نہیں روکتا ، کہ اگر کسی (ایسے نفس والے) اندھے کو بھی کسی چیز کے بارے میں بتایا جائے (جس چیز سے وہ حسد کرے ) تو اُس کا( برا ، نظر لگانے والا ) نفس اُس چیز میں اثر کرتا ، اور وہ اُس چیز کو دیکھ نہیں رہا ہوتا ، اور (یہ معاملہ بھی مشاھدے میں ہے کہ)بہت سے نظر لگانے والے ، کسی کو دیکھے بغیر صِرف اُس کے بارے میں کچھ معلومات پا کر ہی اسے نظر کا شکار کر لیتے ہیں ، اور (اسی لیے ، اور اسی چیز کو سمجھاتے ہوئے )اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے اِرشاد فرمایا

وَإِنْ يَكَادُ الّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمّا سَمِعُوا الذّكْرَ
اور بالکل قریب تھا کہ کافر آپ کو اُن کی نظروں کے ساتھ پِھسلا دیں ، جب انہوں نے (یہ) ذِکر (قران کریم) سُنا [ سُورہ القلم /آیت 51 ]

اور اِرشاد فرمایا ہے :

قُلْ أَعُوذُ بِرَبّ الْفَلَقِ O مِنْ شَرّ مَا خَلَقَ O وَمِنْ شَرّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ O وَمِنْ شَرّ النّفّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ O وَمِنْ شَرّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ

(اے محمد ) کہیے میں صُبح کے رب کی پناہ طلب طلب کرتا ہوں O اُس شر سے جو اُس نے تخلیق فرمایا O اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے O اور گانٹھوں (گرہوں) پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کے شر سے O اور حسد کرنے والےکے شر سے جب وہ حسد کرے
[ سُورہ الفلق ]

پس (اللہ کے اس کلام کی روشنی میں بھی یہ ثابت ہوا کہ) ہر حاسد نظر لگانے والا ہوتا ہے ، اسی لیے نظر لگانے والا حاسدوں کی گنتی میں ہوتا ہے ، لہذا حاسد سے پناہ طلب کرنا ، نظر لگانے والے سے پناہ طلب کرنے کو شامل کر لیتا ہے ، اور نظر ایسا تِیر ہوتی ہے جو حسد کرنے والے نفس میں سے محسود اور نظر کا شکار ہونے والے کی طرف نکلتا ہے ، جو تِیر کبھی تو نشانے پر لگتا ہے اور کبھی نشانہ چُوک جاتا ہے """""، زاد المعاد فی ھدی خیر العباد/ فصل الرّدّ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ الْإِصَابَةَ بِالْعَيْنِ اور فصل الْحَاسِدُ أَعَمّ مِنْ الْعَائِنِ۔

پس واضح ہوا کہ کسی مخلوق کا کسی دوسری مخلوق پر مختلف طور پر اثر انداز ہونا اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین سے ثابت شدہ ہے ، اور ایسی ہی کچھ تاثیر کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اِن مذکورہ بالا احادیث شریفہ میں دی گئی ہے ،
جس کی تائید اللہ تبارک و تعالیٰ نے جدید علوم کے ذریعے بھی مہیا فرمادی ، اب اس کے بعد بھی اگر کوئی اِن صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ کاا نکار کرے ، یا ان پر اعتراض کرے تو میں یہی دُعا کرتاہوں کہ اللہ جلّ و علا اُن لوگوں کو ہدایت دے ، اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیئت میں اُن کے لیے ہدایت نہیں ہے تو اللہ جلّ جلالہُ اپنی ساری ہی مخلوق کو اُن لوگوں کے شر سے محفوظ فرما دے ۔

کن سانپوں کو تنبیہ کی جائے گی :
۔━━━━━━━━━━━━━━

⓵ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کا کہناہے کہ ایک دفعہ میں ایک سانپ کو قتل کرنے کی کوشش میں تھا کہ أبو لبابہ (رضی اللہ عنہ ُ ) نے مجھے ایسا کرنےسےمنع کیا ، تو میں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے سانپوں کو قتل کرنے کا حُکم فرمایاہے ، تو أبو لُبابہ(رضی اللہ عنہ ُ) نے کہا
إِنَّهُ نَهَى بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ ذَوَاتِ الْبُيُوتِ ، وَهْىَ الْعَوَامِرُ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے( تمام سانپوں کو مارنےکے حُکم کے)بعد میں گھروں میں رہنے والے عوامر(یعنی گھروںمیں رہنےوالے جِنَّات جو سانپوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں)کو قتل کرنےسے منع فرما دیا تھا ۔
[ صحیح البُخاری /حدیث 3298/ کتاب بدء الخلق/باب 14 ]

ایک اضافی فائدہ :
۔━━━━━━━━

اس حدیث شریف سے یہ بھی پتہ چلا کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ ُ کو رسول اللہﷺ کی ہر بات کا پتہ نہیں ہوا کرتا تھا، جو کچھ اُس نے خود سے نہ سنا ، اُس کے بارے میں تب ہی جانتا تھا جب اُسے اپنے کسی دوسری صحابی بھائی سے کوئی خبر ملتی ، رضی اللہ عنہم ا جمعین۔

رسول اللہﷺ نے گھروں میں رہنے والے جنّات کو قتل کرنے سے منع کرنے کا سبب بھی بیان فرمایا اور اپنی عادتِ مُبارک کے مُطابق اپنی اُمت پر رحمت و شفقت کرتے ہوئے اُس کی مکمل وضاحت فرمائی ، ملاحظہ فرمایے :

⓶ أبی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اِرشاد فرمایا
إِنَّ بِالْمَدِينَةِ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ قَدْ أَسْلَمُوا فَمَنْ رَأَى شَيْئًا مِنْ هَذِهِ الْعَوَامِرِ فَلْيُؤْذِنْهُ ثَلاَثًا فَإِنْ بَدَا لَهُ بَعْدُ فَلْيَقْتُلْهُ فَإِنَّهُ

شَيْطَانٌ::: مدینہ میں کچھ جن مُسلمان ہو چکےہیں ، لہذا جب تم لوگ گھروں میں کوئی سانپ دیکھو تو اُنہیں تین دفعہ تنبیہ کرو ، اگر اِس کے بعد بھی وہ نظر آئے تو اُسے قتل کر دو کیونکہ وہ شیطان ہے .

[ صحیح مُسلم حدیث 2236 ،کتاب السلام/ باب 37 /قتل الحیات و غیرھا کی آخری حدیث ]

اِن أحادیث کی شرح میں لکھا گیا " اگر تین دفعہ تنبیہ کرنے اور گھر سے نکل جانے یا ظاہر نہ ہونے اور نُقصان نہ پہنچانے کا کہہ دینے کے بعد بھی وہ سانپ نظر آئے تو اُسے قتل کیا جائے گا ، کیونکہ یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ وہ مسلمان جنوں میں سے نہیں ، لہذا اُس کو قتل کرنا حرام نہیں ، کیونکہ اس کو قتل کرنے کا حق مل گیا ، اِس لیے اللہ تعالیٰ اُس کے رشتہ داروں میں سے کِسی کو بھی ہر گِز یہ موقع نہیں دے گا کہ وہ قتل کرنے والے سے اِنتقام لے.

اِن أحادیث شریفہ کے مفہوم کے بارے میں علماء کی دو رائے ہیں :

⓵ گھروں میں رہنے یا نظر آنے والے سانپوں کو قتل کرنے سے پہلے تنبیہ کرنے کا معاملہ صرف مدینہ کے گھروں کے لیے خاص ہے،

⓶ أحادیث کے عام اِلفاط کے مطابق یہ حُکم تمام دُنیا کے گھروں کے لیے ہے ، رہا معاملہ گھروں سے باہر والے سانپوں کو تو اُن کو فوراً اور ہر حال میں قتل کرنے کا حُکم واضح ہے اور اُس کی شرح میں سب کا اتفاق ہے ، شرح إِمام النووی علیٰ صحیح مُسلم ، فتح الباری شرح صحیح البُخاری ، التمھید لأبن عبدالبَر ۔

یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ سانپوں کو تنبیہ کرنے کےلیے کوئی خاص اِلفاظ کِسی صحیح حدیث میں نہیں ملتے ، ایک ضعیف یعنی کمزور، نا قابل روایت ہے جِس کے اِلفاظ کو عام طور پر سانپوں کو تنبیہ کرنے کے لیے بطورء سُنّت استعمال کیا جاتا ہے لیکن ایسا کرنا دُرست نہیں کیونکہ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کے الفاظ کے طور پر ثابت شدہ نہیں ، لہذا ان الفاظ کو سُنّت سمجھنا اور سُنّت سمجھ کر استعمال کرنا دُرُست نہیں ، وہ ضعیف (کمزور، نا قابل حُجت ) درج ذیل ہے،

إِذا ظھرت الحیۃ فی المسکن فقولوا لھا إِنا نسألکِ بعھد نوحٍٍ وبعھدسلیمان بن داؤد أن لا تؤذینا ، فإن عادت فأقتلوھا

اگر کِسی گھر میں سانپ نظر آئے تو اُسے کہو ہم تمہیں نوح اور سلیمان بن داؤد کے ساتھ کیے ہوئے عہد کے واسطے سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں نقصان مت پہنچانا ، اگر یہ کہنے کے بعد بھی وہ واپس نظر آئے تو اُسے قتل کر دو

[ سُنن الترمذی حدیث 1483 /کتاب الأحکام و الفوائد/ باب 2 ما جاء فی قتل الحیات ، سُنن أبو داؤدحدیث 5249/أبواب السلام/باب 33 فی قتل الحیات ، تفصیلات کے لیے إِمام الالبانی رحمہُ اللہ کی کتاب سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ 1507،ملاحظہ فرمائیے ۔]

الحمد للہ ،یہاں تک کی معلومات کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو گیا کہ گھروں میں پائے جانے والے سانپوں کو قتل کرنے کا حکم مُقید ہے ، اور گھروں سے باہر پائے جانے والے سانپوں کو قتل کرنے کا حکم عام ہے ، اور جو دو قِسم کے سانپوں کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ بینائی ختم کر دیتے ہیں ، اور حامل عورتوں کا حمل گرا دیتے ہیں ، وہ خبر بالکل حق ہے ، جس کا ثبوت قران کریم میں سے بھی میسر ہوا ، اور جدید علوم کی""" جدید تحقیقات """ سے بھی ، جن پر کچھ مسلمان، عملی طور پر ، اللہ کے قران اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین سے زیادہ اِیمان رکھتے ہیں ۔ ولا حول و لا قوۃ اِلا باللہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ : الشیخ عادل سہیل حفظہ اللہ.

Share:

Namaj me Chhink aane ya Khansne ka Hukm, Namaj me Chhinkne ke Aadab.

Namaj me Chhink ka Sharai Aadab.

Namaj me Chinkne ya Khasne ka Sharai Hukm


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

نماز اور غیر نماز میں چھینک کے شرعئی آداب :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

✒️: مسز انصاری

چھینک اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ چھینک آنے پر مسنون دعا اور دعا سننے والے پر جواب کا وجوب شرعئی لحاظ سے ثابت ہے ۔
صحیح بخاری،کتاب الادب کی دسویں حدیث یہ ہے :

عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا عطس أحدكم فليقل: الحمد لله، وليقل له أخوه أو صاحبه: يرحمك الله، فإذا قال له: يرحمك الله، فليقل: يهديكم الله ويصلح بالكم "
سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا
جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمد للہ کہے اور اس کا بھائی اسے یرحمک اللہ کہے تو جب وہ اسے یرحمک اللہ کہے تو وہ اسے یوں کہے یھدیکم اللہ ویصلح بالکم
اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے ۔
(صحیح بخاری ،سنن ابو داود ، سنن الترمذی )

اور چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چھینک سے دماغ میں رکے ہوئے فضلات و بخارات خارج ہو جاتے ہیں اور دماغ کی رگوں اور اس کے پٹھوں کی رکا وٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ جس سے انسان بہت سی خوفناک بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، جو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہترین نعمت ہے ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔
[بخاري كتاب الادب]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتا ہے اور جمائی کو ناپسند فرماتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد لله کہے تو ہر اس مسلمان پر جو اسے سنے حق ہے کہ اسے يرحمك الله کہے اور جمائی شیطان سے ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جس قدر ہو سکے اسے روکے کیونکہ جب وہ ”ھا “ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ [بخاري كتاب الادب]

صحیح حدیث کے مطابق تین مرتبہ چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا چاہیے، مگر تین مرتبہ سے زائد بار چھینک زکام کے مرض کی علامت ہے
يُشَمَّتُ العاطِسُ ثلاثًا ، فما زاد فهو مَزْكومٌ
چھینکنے والے کو چھینک آنے پر تین بار جواب دیا جائے، اور جو اس سے زیادہ ہو ‘ تو پھر وہ زکام زدہ ہے ۔
الراوي : سلمة بن الأكوع | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح ابن ماجه | الصفحة أو الرقم : 3009 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

یاد رہے کہ چھینک کے جواب میں الحمدللہ کے ساتھ علی کل حال کہنا بھی ثابت ہے ، چنانچہ ابن عمر نے ایک آدمی کو بتایا کہ آپﷺ نے انھیں الحمد للہ علی کل حال کے الفاظ سکھائے تھے ، حدیث شریف میں ہے :

عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ »
ترجمہ : سیدنانافعؒ کہتے ہیں کہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا' الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ'یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ ﷺ پر ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:کہنے کو تو میں بھی الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ کہہ سکتاہوں ۱؎ لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم ' الحمد للہ علی کل حال' (ہرحال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں) کہیں۔
[ دیکھئے : شیخ البانیؒ کی کتاب : إرواء الغليل | الصفحة أو الرقم: 3/245 | خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

اور جس شخص کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ نہ کہے تو سننے والے کو بھی اسے یرحمک اللہ نہیں کہنا چاہیے :
عَطَسَ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَمَّتَّ هَذَا وَلَمْ تُشَمِّتْنِي، قَالَ: إِنَّ هَذَا حَمِدَ اللَّهَ وَلَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دو آدمیوں نے چھینکا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کی چھینک پر یرحمک اللہ کہا اور دوسرے کی چھینک پر نہیں کہا۔ اس پر دوسرا شخص بولا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ان کی چھینک پر یرحمک اللہ فرمایا۔ لیکن میری چھینک پر نہیں فرمایا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے الحمدللہ کہا تھا اور تم نے نہیں کہا تھا۔
الراوي : أنس بن مالك | المحدث : مسلم | المصدر : صحيح مسلم | الصفحة أو الرقم : 2991 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح] | التخريج : أخرجه البخاري (6225)، ومسلم (2991).

دورانِ باجماعت نماز جب مقتدی کو امام کے پیچھے چھینک آئے تو خاموشی سے آہستہ آواز کے ساتھ الحمد للہ کہہ سکتا ہے جیسا کہ حضرت رفاعہ بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
" میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، تو مجھے چھینک آ گئی، تو میں نے «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» ”اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے“ کہا، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، اور سلام پھیر کر پلٹے تو آپ نے پوچھا: ”نماز میں کون بول رہا تھا؟“ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے دوسری بار پوچھا: ”نماز میں کون بول رہا تھا؟“ تو رفاعہ بن رافع بن عفراء رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم نے کیسے کہا تھا؟“ انہوں نے کہا: میں نے یوں کہا تھا: «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» ”اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے لے کر کون اوپر چڑھے۔‏‏‏‏“
[سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 932  ||  صحيح ابي داود :700 || صحيح ترمذي :331 ]

واضح رہے کہ چھینک مارنے اور رکوع سے سر اٹھانے کا وقت ایک ہی تھا جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 799]

البتہ نماز میں چھینک کا جواب دینا جائز نہیں ، اس بارے میں شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :

" جب نمازی کوچھینک آئے تووہ المحد للہ کہے گا ، اس لیے کہ اس کا ثبوت سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالی عنہ کے قصہ میں ملتا ہے :
سیدنا معاویہ بن حکم رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے توایک شخص نے چھینک لی اورالحمدللہ کہا تواس کے جواب میں معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ نے يرحمك الله کہا تولوگ انہيں گھور گھور کردیکھنے لگے کہ اس نے غلط کام کیا ہے ، توانہوں نے کہا کہ ان کے مائیں گم پائيں تووہ لوگ اپنی رانوں پرہاتھ مارنے لگے تا کہ وہ خاموش ہوجائيں تووہ خاموش ہوگیا ۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی تو انہیں بلایا معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں اللہ کی قسم نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹا اورنہ ہی مارا اورنہ برا بھلا کہا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
نماز میں لوگوں سے باتیں کرنا صحیح نہيں بلکہ اس میں تو تسبیح وتحمید اورتکبیر اورقرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے ۔
[ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 537 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 930 ) ]

اس قصہ سے پتہ چلتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھینک کے بعد الحمدللہ کہنے والے کو کچھ نہيں کہا جو اس بات کی دلیل ہے کہ نمازمیں جب انسان کو جب چھینک آئے تو اسے الحمدللہ کہنا چاہیے کیونکہ یہاں ایسا سبب پایا جاتا ہے جو الحمد للہ کہنے کا متقاضی ہے ، لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ ہر وہ سبب جس کی بنا پر کوئي دعا ہو وہ بھی نماز میں کہنا جائز ہے ۔ "
[ دیکھیے : فتاوی ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ ( 13 / 342 )  ]

ھٰذا ماعندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Khubsurat Na Mehram Aurat kisi Mard ke liye kitna Khatrnak Sabit ho sakti hai?

Maine Apne bad ke mardo ke liye Auraton se jyada bada fitna nahi chhora hai.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

خوبصورت نامحرم عورت عمومًا مرد کے زھد و تقویٰ کے لیے زہر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


️: مسزانصاری

خوبصورت عورت مرد کی روح کے لیے وہ نشہ آور شراب ہے جس سے کمزور قوتِ ایمانی رکھنے والے دلوں کے مرد اپنے ہوش گنوا بیٹھتے ہیں، جب بھی تم کسی نامحرم عورت کی طرف دانستہ نظر اٹھا بیٹھو اور اس کے لیے اپنے دل کو معلق ہوتا محسوس کرو تو بغیر وقت ضائع کیے فورًا شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرو ، کیونکہ عورت کے وجود سے بڑھ کر کوئی چیز مرد کی روح کو تیزی سے مدہوش نہیں کرتی یہاں تک کے مرد اپنے رب سے جدا ہوجاتا ہے اور عبادتِ الہٰی سے زیادہ اس عورت کو پوجنے لگتا ہے، اور یہ سب تلبیسِ ابلیس ( ابلیس کی مکاریاں ) ہے ۔

ما تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أضَرَّ علَى الرِّجالِ مِنَ النِّساءِ.
’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی دوسرا فتنہ نہیں چھوڑا ہے۔‘‘

الراوي : أسامة بن زيد | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري
الصفحة أو الرقم: 5096 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]
التخريج : أخرجه البخاري (5096)، ومسلم (
2740)

Share:

Shauhar ke Faut ho jane ya talaq dene par Shauhar ka walid Biwi ka Mehram hoga ya Na Mehram?

Kisi Aurat ka Shauhar ke faut ho Jane par Uska Sasur Mehram hoga ya Na Mehram?
Agar Shauhar Talaq de de to biwi ka Sasur Mehram hoga ya Na Mehram?

اسلام کی شہزادی
ایک عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو سسر محرم ہو گا یا نا محرم؟؟
سسر سے پردہ کرنا ہو گا یا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

جب کسی عورت سے عقد نکاح ہو جائے تو اس عورت پر سسر حرام ہوجاتا ہے ۔صرف عقد نکاح سے ہی حرمت ثابت ہوجاتی ہے اس لیے اگر کسی مرد نے عورت سے عقد نکاح کرلیا تو خاوند کا والد (یعنی عورت کا سسر) ا پنی بہو کا محرم بن جائے گا ۔ یہ حرمت برقرار رہتی ہے خواہ خاوند فوت ہو جائے یا اسے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دے، بیوی کا سسر اس کا محرم رہے گا، وہ اس کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہے، اس کے ساتھ سفر بھی کر سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اور اسی طرح عورت کے لیے خاوند کی دوسری بیوی سے بیٹے بھی محرم ہوں گے اورخاوند پر اس کی ساس بھی حرام ہوجائے گی۔

اسے  تحریم مصاہرت (یعنی سسرالی تحریم) کہتے ہیں اور اس بات کی دلیل کہ سسر کے لیے اس کی بہو حرام ہے مندرجہ ذیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"اور (تم پر حرام ہیں) تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں۔" النساء۔23۔

اور خاوند کے بیٹے کی والد کی بیوی حرمت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

"اور تم ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے۔" النساء۔22۔

اور دادماد پر اپنی ساس سے نکاح کی حرمت کی دلیل یہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

"اور (تم پر حرام ہے) تمہاری بیویوں کی مائیں۔"

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS