find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Wah Ladki jo roj Ek Gareeb ladke ke liye rotiyan chori karti thi.

Ehsas Kise kahte hai?
Kisi Gareeb ki madad karna hamara farz hai?
Gareeb Bache apna Shauk kaha se puri karte hai?
एहसास किसे कहते है, इस वाकया से समझे?
गरीब के बच्चे कैसे अपनी ज़िन्दगी गुजारते है?
वह लड़की जो रोज़ घर से रोटियां छुपा कर एक गरीब लड़के को खिलाने  जाती थी।

                   *احساس*
وہ ناشتہ کر رھی تھی. مگر اس کی نظر امی پر جمی ھوئی تھی. ادھر امی ذرا سی غافل ھوئی. ادھر اس نے ایک روٹی لپٹ کر اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی. وہ سمجھتی تھی کہ امی کو خبر نہیں ھوئی. مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ ماؤں کو ہر بات کی خبر ھوتی ھے. وہ سکول جانے کے لئے گھر سے باہر نکلی .اور پھر تعاقب شروع ھو گیا. تعاقب کرنے والا ایک آدمی تھا. وہ اپنے تعاقب سے بے خبر کندھوں پر سکول بیگ لٹکائے اچھلتی کودتی چلی جا رھی تھی. جب وہ سکول پہنچی تو,, دعا,,شروع ھو چکی تھی. وہ بھاگ کر دعا میں شامل ھو گئی. بھاگنے کی وجہ سے روٹی سرک کر اس کی جیب میں سے باہر جھانکنے لگی. اس کی سہیلیاں یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگیں. مگر وہ اپنا سر جھکائے، آنکھیں بند کیے پورےانہماک سے جانے کس کے لئے دعا مانگ رھی تھی. تعاقب کرنے والا اوٹ میں چھپا اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ھوئے تھا .دعا کے بعد وہ اپنی کلاس میں آ گئی .باقی وقت پڑھنے لکھنے میں گزرا .مگر اس نے روٹی نہیں کھائی. گھنٹی بجنے کے ساتھ ھی سکول سے چھٹی کا اعلان ھوا. تمام بچے باہر کی طرف لپکے. اب وہ بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی. مگر اس بار اس نے اپنا راستہ بدل لیا تھا. تعاقب کرنے والا اب بھی تعاقب جاری رکھے ھوئے تھا .پھر اس نے دیکھا .وہ بچی ایک جھونپڑی کے سامنے رکی .جھونپڑی کے باہر ایک بچہ منتظر نگاھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا. اس بچی نے اپنی پتلون کی جیب میں سے روٹی نکال کر اس بچے کے حوالے کر دی. بچے کی آنکھیں جگمگانے لگیں .اب وہ بے صبری سے نوالے چبا رہا تھا. بچی آگے بڑھ گئی. مگر تعاقب کرنے والے کے پاؤں پتھر ھو چکے تھے.وہ آوازوں کی باز گشت سن رہا تھا
جو کے اس کے بیوی نے صبح اس کو کھا تھا.
,,لگتا ھے کہ اپنی,, منی,,بیمار ھے...,,
,,کیوں...کیا ھوا ؟؟؟
,,اس کے پیٹ میں کیڑے ھیں...ناشتہ کرنے کے باوجود ایک روٹی اپنے ساتھ سکول لے کر جاتی ھے. وہ بھی چوری سے....,, یہ اس کی بیوی تھی.
,,کیا آپ کی بیٹی گھر سے کھانا کھا کر نہیں آتی؟؟
,,کیوں...کیا ھوا؟؟
,,روزانہ اس کی جیب میں ایک روٹی ھوتی ھے یہ کلاس ٹیچر تھی
وہ جب اپنے گھر میں داخل ھوا. تو اس کا سر فخر سے بلند تھا
اسے اپنی منی پر پیار آ رھا تھا
اتنی سے عمر میں اتنی بڑی سوچ غریب بچوں کے لئی احساس
,,ابو جی... ابو جی...,, کہتے ھوئے منی اس کی گود میں سوار ھو گئی.
,,کچھ پتا چلا...,, اس کی بیوی نے پوچھا.
ھاں....پیٹ میں کیڑا نہیں ھے.
درد دل کا مرض ھے
ابو کا دل بھر آیا .منی کچھ سمجھ نہیں پائی تھی...

اللہ ہم سب کو بھی احساس کرنے والا دل دے آمین....

Share:

Duniya me Khush Rahne ke liye Kuchh nasihatein.

Sheikh Safik ka Apne Shagird Hatim ko nasihat.
Duniya me har ek ka Mahboob hota maine apna Mahboob nekiyon ko bana liya hai.
Duniya ki Maal o daulat ka lalach rakhne wala Sabse bewkoof insan hai.

ایک روز شیخ شفیق بلخیؒ نے اپنے شاگرد حاتمؒ سے پوچھا.. "حاتم! تم کتنے دنوں سے میرے ساتھ ہو..؟" 

حاتم نے کہا.. "بتیس برس سے.."

شیخ نے پوچھا.. "بتاؤ اتنے طویل عرصے میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا..؟"

حاتم نے کہا.. "صرف آٹھ مسئلے.."

شیخ نے کہا.. "انا للہ وانا الیہ راجعون.. میرے اوقات تیرے اوپر ضائع چلے گئے.. تُو نے صرف آٹھ مسئلےسیکھے..؟"

حاتم نے کہا.. "استادِ محترم!  زیادہ نہیں سیکھ سکا اور جھوٹ بھی نہیں بول سکتا.."

شیخ نے کہا.. "اچھا بتاؤ کیا سیکھا ہے..؟"

حاتمؒ نے کہا.. "میں نے مخلوق کو دیکھا تو معلوم ہوا ہر ایک کا محبوب ہوتا ہے قبر میں جانے تک.. جب بندہ قبر میں پہنچ جاتا ہے تو اپنے محبوب سے جدا ہو جاتا ہے.. اس لیے میں نے اپنا محبوب "نیکیوں" کو بنا لیا ہے کہ جب میں قبر میں جاؤں گا تو یہ میرا محبوب میرے ساتھ قبر میں رہے گا..

2: لوگوں کو دیکھا کہ کسی کے پاس قیمتی چیز ہے تو اسے سنبھال کر رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے.. پھر فرمانِ الہی پڑھا..

"جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے.. جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے.."
(سورۃ النحل آیت 96)

تو جو چیز مجھے قیمتی ہاتھ آئی اسے اللہ کی طرف پھیر دیا تا کہ اس کے پاس محفوظ ہو جائے جو کبھی ضائع نہ ہو..

3: میں نے خدا کے فرمان پر غور کیا..
"اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھا' جنت اسی کا ٹھکانہ ہو گا.."
(سورۃ النازعات آیت 40)

تو اپنے نفس کو بُرائیوں سے لگام دی.. خواہشاتِ نفسانی سے بچنے کی محنت کی , یہاں تک کہ میرا نفس اطاعتِ الٰہی پر جم گیا..

4: لوگوں کو دیکھا ہر ایک کا رجحان دنیاوی مال، حسب نسب، دنیاوی جاہ و منصب میں پایا.. ان امور میں غور کرنے سے یہ چیزیں ہیچ دکھائی دیں.. اُدھر فرمان الٰہی دیکھا..

"درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے.."
(سورۃ الحجرات آیت 13)

تو میں نے تقوٰی اختیار کیا تاکہ اللہ کے  ہاں عزت پاؤں..

5: لوگوں میں یہ بھی دیکھا کہ آپس میں گمانِ بد رکھتے ہیں، ایک دوسرے کو بُرا کہتے ہیں.. دوسری طرف اللہ کا فرمان دیکھا..

"دنیا کی زندگی میں ان کی بسر اوقات کی ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں.."
(سورۃ الزخرف آیت 32)

اس لیے میں حسد کو چھوڑ کر خلق سے کنارہ کر لیا اور یقین ہوا کہ قسمت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے.. خلق کی عداوت سے باز آگیا..

6: لوگوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے سرکشی اور کشت و خون کرتے ہیں.. اللہ کی طرف رجوع کیا تو فرمایا..

"درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو۔"
(سورۃ فاطر آیت 6)

اس بنا پر میں نے صرف اس اکیلے شیطان کو اپنا دشمن ٹھہرا لیا اور اس بات کی کوشش کی کہ اس سے بچتا رہوں..

7: لوگوں کو دیکھا پارہ نان (روٹی کے ٹکرے) پر اپنے نفس کو ذلیل کر رہے ہیں، ناجائز امور میں قدم رکھتے ہیں.. میں نے ارشادِ باری تعالٰی دیکھا..

"زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو.."
(سورۃ ہود آیت6)

پھر میں ان باتوں میں مشغول ہوا جو اللہ کے حقوق میرے ذمے ہیں.. اس رزق کی طلب ترک کی جو اللہ کے ذمے ہے..

8: میں نے خلق کو دیکھا، ہر ایک کسی عارضی چیز پر بھروسہ کرتا ہے.. کوئی زمین پر بھروسہ کرتا ہے، کوئی اپنی تجارت پر، کوئی اپنے پیشے پر، کوئی بدن پر، کوئی ذہنی اور علمی صلاحیتوں پر بھروسہ کیے ہوئے ہے.. میں نے خدا کی طرف رجوع کیا.. یہ ارشاد دیکھا..

"جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے.."
(سورۃ طلاق آیت3)

تو میں نے اپنےخدا پر توکل کیا.. وہی مجھے کافی ہے.."

شیخ بلخیؒ نے فرمایا..
"اے میرے پیارے شاگرد حاتم! خدا تمہیں ان کی توفیق نصیب کرے.. میں نے قرآن کے علوم پر  مطالعہ کیا تو ان سب کی اصل جڑ انہی آٹھ مسائل کو پایا.. ان پر عمل کرنے والا گویا چاروں آسمانی کتابوں کا عامل ہوا.."

📚احیاء العلوم.. امام غزالیؒ@

Share:

Balo ka joora banakar Namaj padhna dururst nahi hai.

Balo ko gol karke Namaj padhna kaisa hai?
Balo ka joora banakar Namaj padhna kaisa hai?
*بالوں کو جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا*

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ:

’ وَلَا یَکُفُّ ثَوبَهٗ، وَ لَا شَعرَهٗ  ‘صحیح البخاری، بَابُ لاَ یَکُفُّ شَعَرًا،رقم:۸۱۵
’’ کوئی آدمی اپنے کپڑے اور بالوں کو اکٹھا نہ کرے۔‘‘

’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بسند جید مروی ہے، کہ ابو رافعt نے حسن بن علی کو دیکھا کہ وہ اپنی گدی پر بال باندھ کر نماز پڑھ رہے تھے ، تو انہوں نے کھول دیئے، اور کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم   سے سنا ہے، کہ ’’ یہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے:’ بَابٌ : اَلرَّجُلُ لَا یُصَلِّی عَاقِصًا شَعرَهٗ۔‘ فتح الباری:۲/۲۹۹

اس واقعے کا تعلق اگرچہ مَرد سے ہے، لیکن اصلاً شرعی احکام و مسائل میں مرد و زن سب برابر ہیں، اِلَّایہ کہ تخصیص کی کوئی دلیل ہو، جو یہاں نہیں ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ اس فعل کی ممانعت پر علماء کا اتفاق ہے۔ مگر یہ کراہت تنزیہی ہے۔ اگر کوئی شخص اس حالت میں نماز پڑھ لے۔ تو نماز درست ہو گی۔ البتہ یہ کام ہے مکروہ(ناپسندیدہ) عون المعبود: ۱/۲۴۶

’’فتح الباری‘‘میں ہے کہ ’ وَاتَّفَقُوا عَلٰی أَنَّهٗ لَا یُفسِدُ الصَّلَاةَ ‘ (۲/۲۹۶) ’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فعل ہذا سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

Share:

Kya Shadi Se pahle sex karne par Hamal giraya ja sakta hai?

Agar Koi Ladki Zina kar le aur hamila (Pregnant) ho jaye to kya Hamal giraya ja sakta hai?
Kuwari Ladki agar zina kar le to uski Sza kya hai?
#liv_in_relationship
#one_night_stand
लड़की जीना कर ली है, कुंवारी है जीना कर ली अब हामिला है गई है क्या इज़्ज़त बचाने के लिए यह हमल जाया कर सकते है।

لڑکی سے غلطی ہو گئی ہے کنواری ہے زنا کر لیا اب حاملہ ہو گئی ہے کیا عزت بچانے کی خاطر یہ حمل ضائع کروا سکتے ہیں ؟

*جواب تحریری

فقھاء کرام کی عمومی طور پر اسقاط حمل اور اس کے حکم اوراس سے پیدا ہونے والے مسائل میں بہت ساری جھود و اجتھادات پاۓ جاتےہیں ، لیکن انہوں نےغیرشرعی حمل میں تفاصیل کا اہتمام نہیں کیا ۔

اورہوسکتا ہے انہوں نے اسے نکاح صحیح سے ہونے والے حمل کے اسقاط کے تابع اوراس میں شریک ہی سمجھا ہو ، تواگر نکاح صحیح سے ہونے والے حمل کا اسقاط عمومی حالت میں حرام ہے توغیرشرعی طریقے سے ہونے والےحمل کی حرمت توبالاولی زیادہ اورشدید ہوگی ۔

اس لیے کہ غیرشرعی طریقے سے ہونے والے حمل کے اسقاط کومباح کرنے سے فحاشی اوررذیل کام کرنے کی تشجیع ہوگی اوراس کا راستہ کھلے گا ، اورشریعت اسلامیہ کے قواعد میں یہ شامل ہے کہ اسلام ہراس وسیلہ اورسبب کوبھی حرام کرتا ہے جوفحاشی اورگناہ کا با‏عث ہو مثلا بے پردگی اور مرد وعورت کا آپس میں اختلاط و میل جول وغیرہ ۔

اوراس پر مستزاد یہ کہ ایک ایسے پیدا ہونے والے بے گناہ بچے کوکسی دوسرے کے گناہ پر ذبح نہیں کیا جاۓ گا ۔

اورپھر اللہ سبحانہ وتعالی کا بھی فرمان ہے :

کوئی بھی کسی دوسرے کا بوجھـ نہیں اٹھاۓ گا الاسراء ( 15 ) ۔

اوریہ بھی معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےغامدی قبیلہ کی زنا سے حاملہ عورت کوواپس کردیا تھا کہ وہ ولادت کے بعد آۓ اورجب وہ ولادت کے بعد آئي تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے پھر دوبارہ واپس کردیا کہ اس بچے کودودھ پلا‎ؤ حتی کہ یہ کھانے پینے کے قابل ہوجاۓ اوردودھ چھوڑ دے ۔

جب وہ تیسری مرتبہ آئي تو بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا لھذا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کوایک صحابی کے سپرد کردیا اورپھر اسے رجم کا حکم دیا گیا تواس کے سینہ تک ایک گڑھا کھود کر لوگوں اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں :

حاملہ عورت کو وضع حمل سے قبل سنگسار نہیں کیا جاۓ گا چاہے وہ حمل زنا کا ہو یا زنا کے بغیر ۔ اسی پر علماء کا اتفاق ہے تا کہ اس کا بچہ قتل نہ ہو ، اور اسی طرح اگر اس کی حد کوڑے ہيں تو حمل کی حالت میں بھی اسےبالاجماع وضع حمل سے قبل کوڑے نہیں لگاۓ جائيں گے ۔

دیکھیں صحیح مسلم شرح نووی ( 11 / 202 ) ۔

اس واقعہ سے ہمیں شریعت اسلامیہ کا بچے کے بارہ میں اہتمام ظاہر ہوتا ہے اگرچہ وہ بچہ زنا سے ہی کیوں نہ ہو ، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کی حفاظت کے لیے اس کی ماں سے حد کو مؤخر کردیا تا کہ بچے کی زندگی کو خطرہ نہ پیدا ہو ۔

توکیا اس کے بعد بھی یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ شارع لوگوں کی خواہشات و شھوات اور غلط رغبات کو پورا کرنے کے لیے اسقاط حمل کے ساتھ بچوں کے قتل کو جائز قرار دے سکتا ہے ؟

اس پر ہم یہ اضافہ کرتے جائيں کہ جن لوگوں نے صحیح نکاح کی حالت میں ہونے والے حمل کے پہلے چالیس روز کے اندر اندر حمل کے اسقاط کی اجازت دی ہے انہوں نے مشروع رخصت کولیتے ہوۓ اس پر اجتھاد کیا ہے مثلا رمضان المبارک میں شر‏عی عذر والے کورخصت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے ، اوراسی طرح مسافر کے لیے رخصت ہے کہ وہ چار رکعتی نماز کوقصر کرے ۔

لیکن یہ بات تو شریعت میں مقرر شدہ ہے کہ معاصی اور گناہ کے لیے رخصتوں کا سہارا نہیں لیا جاسکتا ۔

امام قرافی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

معاصی اور گناہ رخصتوں کے لیے سبب نہيں بن سکتیں ، اسی لیے گناہ کرنے کے لیے جانے والا مسافر نماز قصر نہيں کرے گا اورنہ ہی وہ روزہ افطار کرے گا اس لیے کہ اس صورت میں سبب معصیت ہے لھذا رخصت پر عمل کرنا مناسب نہيں ۔

کیونکہ مکلف کواس کی رخصت دینا اس معصیت کی زیادتی اورتکثیر کا باعث بنے گی اوراس میں وسعت کی کوشش ہے ۔ الفروق ( 2 / 33 ) ۔

تواس طرح شریعت اسلامیہ کے قواعد زنا سے حاملہ عورت کو وہی رخصت نہيں دیتے جوکہ نکاح صحیح سے حاملہ عورت کوملتی ہیں تا کہ وہ اس معصیت اورگناہ پر معاون و ممد ثابت نہ ہو ، اورنہ ہی اس شنیع اور قبیح کام سےخلاصی حاصل کرنے کے راستے ہی آسان کرتی ہے ۔

اس حالت میں بچہ والدین کی ولایت بھی کھو بیٹھے گا اوراس کا کوئی ولی نہيں اس لیے کہ شریعت میں والد کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جس کا عورت کے ساتھ صحیح اورشرعی نکاح ہونےکی بنا پر بچہ پیدا ہو اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا بھی یہی معنی ہے :

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

( بچہ بستر والے کے لیے ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

تواس حالت میں اس بچے کا ولی حکمران ہوگا کیونکہ جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی حکمران ہوتا ہے ، اورحکمران کا تصرف مصلحت کے ساتھ منسلق ہے ، والدہ کی مصلحت کی حفاظت کی بنا پر بچے کی روح کوختم کرنے میں کوئی بھی مصلحت نہیں پائي جاتی ، اس لیے کہ اس میں اس قبیح اورشنیع فعل کرنے والی عورت کواس فعل کے کرنے پر ابھارنا ہے جوکہ صحیح نہیں ۔

اور زانی عورت جوکہ اس قبیح اور شنیع فعل کی مرتکب ہوئي ہے اس کا اسقاط حمل اس وقت کروانا ممکن ہے جب وہ صحیح اور سچی توبہ کرنے کا ارادہ کرے اور اسے بہت ہی شدید قسم کا خوف ہو جوکہ شریعیت اسلامیہ کا ایک بہت ہی سنہرا اصول اور قاعدہ ہے ۔

زنا اور لواطت

Share:

Surah Fatiha padhne ki fajilat.

Surah Fatiha ki fajilat ka byan
Surah Fatiha Ki fazilat quran Majeed me.
Surah Fatiha padhne ki fajilat.

*باب : سورۃ فاتحہ کی فضیلت کا بیان۔۔ فضائل آمین*

الحمد لله...
اس سورت کا سب سے زیادہ مشہور نام فاتحۃ الکتاب یا الفاتحہ ہے۔ فاتحہ ابتدا اور شروع کو کہتے ہیں ‘چونکہ ترتیب خطی میں یہ سورت قرآن مجید کے ابتداء میں ہے اسلئے اس کا نام فاتحہ رکھا گیا۔ فاتحہ کا معنی کھولنے والی کے بھی ہیں۔ چونکہ یہ سورت قرآن مجیدکے علوم بے پایاں کی چابی ہے ‘اس لئے بھی اسے فاتحہ کہا گیا۔ اس سورت کے اور بھی کئی نام ہیں مثلا ام الکتاب اور ام القرآن چنانچہ بخاری شریف میں ہے۔ سمیت ام الکتاب لانہ یبدا بکتابتھا فی المصاحف ویبدا بقراءتھا فی الصلوۃ سورہ فاتحہ کا نام ام الکتاب اس لئے رکھا گیا ہے کہ قرآن شریف کی کتابت کی ابتداءاسی سے ہوتی ہے اور نماز میں قرات بھی اسی سے شروع ہوتی ہے۔ ام القرآن اسے اس لئے بھی کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی اصل اور جملہ مقاصد قرآن پر مشتمل ہے۔ سارے قرآن شریفہ کا خلاصہ ہے یا یوں کہئے کہ سارا قرآن شریف اسی کی تفسیر ہے۔ اس سورہ شریفہ کا ایک نام السبع المثانی بھی ہے یعنی ایسی سات آیات جو بار بار دہرائی جاتی ہیں چونکہ سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں اور اسے نماز کی ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے اس لئے خوداللہ پاک نے قرآن شریف کی آیت شریفہ ( ولقد آتینا ک سبعا من المثانی و القرآن العظیم ) ( الحجر : 87 ) میں اس کا نام السبع المثانی اور القرآن العظیم رکھا ہے یعنی اے نبی! ہم نے آپ کو ایک ایسی سورت دی ہے جس میں سات آیات ہیں ( جو بار بار پڑھی جاتی ہیں ) اور جو عظمت و ثواب کی بڑائی کے لحاظ سے سارے قرآن شریف کے برابر ہے۔ چنانچہ امام رازی فرماتے ہیں کہ یہ وہ سورہ شریفہ ہے جس سے دس ہزار مسائل نکلتے ہیں ( تفسیر کبیر )

اس سورہ شریفہ کا نام ” الصلاۃ “ بھی ہے چنانچہ بروایت حضرت ابوہریرہ حدیث میں مذکور ہے کہ قسمت الصلاۃبینی وبین عبدی نصفین و لعبدی ما سال فاذا قال العبد الحمد للہ رب العا لمین قال اللہ حمدنی عبدی الحدیث ( مسلم ) یعنی اللہ پاک فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو اپنے درمیان اور اپنے بندے کے درمیان نصفانصف تقسیم کر دیا ہے اور میرے بندے کو وہ ملے گاجو اس نے مانگا۔ پس جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب بندہ الرحمن الرحیم کہتا ہے تو جواب میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بڑی ثنا بیان کی اور جب بندہ مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بڑی شان بیان کی اور جب بندہ ایاک نعبدو ایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ اس آیت کا نصف میرے لئے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے اور جو میرے بندے نے مانگا وہ اسے ملے گا آخر تک۔ اس حدیث میں نہایت صراحت کے ساتھ ” الصلاۃ “ سے سورہ فاتحہ کو مراد لیا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ نماز کی مکمل روح سورہ فاتحہ کے اندر مضمر ہے۔

حمد و ثنا ‘عہد و دعا یادآخرت و صراط مستقیم کی طلب ‘گمراہ فرقوں پر نشان دہی یہ تمام چیزیں اس سورہ شریفہ میں آگئی ہیں اور یہ تمام چیزیں نہ صرف نماز بلکہ پورے اسلام کی اور تمام قرآن کی روح ہیں۔ اس سورت شریف کو ” الصلوۃ “ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ صحت نماز کی بنیاد اسی سورۃ شریفہ کی قرات پر موقوف ہے اور نماز کی ہر ایک رکعت میں خواہ نماز فرض ہو یا سنت یا نفل ‘امام و مقتدی سب کے لئے اس سورہ شریفہ کا پڑھنا فرض ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے واضح ہے۔ عن عبادۃ بن الصامت قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لا صلوۃ لمن لم یقرابفاتحۃ الکتاب امام او غیر امام رواہ البیہقی فی الکتاب القراءۃ حضرت عبادہ بن صامت نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے وہ امام ہو یا مقتدی اس کی نماز نہیں ہوتی۔ ( تفسیر کے لئے قرآن شریف ثنائی ترجمہ کا ضمیمہ رضی اللہ عنہ 208والا مطالعہ کرو )

حضرت پیران پیر سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فان قراتھا فریضۃ وھی رکن تبطل الصلوۃ بترکھا ( غنیہ الطالبین ‘ رضی اللہ عنہ : 853 ) نماز میں اس سورہ فاتحہ کی قرات فرض ہے اور یہ اس کا ضروری رکن ہے جس کے ترک سے نماز باطل ہوجاتی ہے ‘تمام قرآن میں سے صرف اسی صورت کو نماز میں بطور رکن کے مقرر کیا گیا اور باقی قرات کے لئے اختیار دیا گیا کہ جہاں سے چاہو پڑھ لو اس کی وجہ یہ کہ سورہ فاتحہ پڑھنے میں آسان ‘مضمون میں جامع اور سارے قرآن کا خلاصہ اور ثواب میں سارے قرآن کے ختم کے برابر ہے۔ اتنے اوصاف والی قرآن کی کوئی دوسری سورت نہیں ہے۔ اس سورت کے ناموں میں سے سورہ الحمد اور سورۃ الحمدللہ رب العالمین بھی ہے۔ ( بخاری و دار قطنی ) اس لئے کہ اس میں اصولی طور پر خدائے تعالی کی تمام محامد مہمہ مذکور ہیں اور اس کو الشفاء و الرقیہ بھی کہا گیا ہے۔ سنن دارمی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ ہر بیماری کے لئے شفاءہے ( دارمی ‘ رضی اللہ عنہ 430 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک موقع پر ایک صحابی نے ایک سانپ ڈسے شخص پر اس سورہ سے دم جھاڑا کیا تھا تو اسے شفا ہوگئی تھی ( بخاری ) ان ناموں کے علاوہ اور بھی اس سورۃ شریفہ کے کئی ایک نام ہیں مثلاالکنز ( خزانہ ) الاساس بنیادی سورہ الکافیہ ( کافی وافی ) الشافیہ ( ہر بیماری کے لئے شفاء ) الوافیہ ( کافی وافی ) الشکر ( شکر ) الدعاء ( دعا ) تعلیم المسئلہ اللہ سے سوال کرنے کے آداب سکھانے والی سورت ) المنا جاۃ ( اللہ سے دعا ) التفویض ( جس میںبندہ اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دے ) اور بھی اس کے کئی ایک نام مذکور ہیں یہ وہ سورہ شریفہ ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اعطیت فاتحۃالکتاب من تحت العرش ( الحصن ) یعنی یہ وہ سورت ہے جسے میں عرش کے نیچے کے خزانوں میں سے دیا گیا ہوں جس کی مثال کوئی سورت نہ توریت میں نازل ہوئی نہ انجیل میں نہ زبور میں اور نہ قرآن میں یہی سبع مثانی ہے اور قرآن عظیم جو مجھے عطاہوئی ( دارمی، رضی اللہ عنہ : 430 ) ایسا ہی بخاری شریف کتاب التفسیر میں مروی ہے۔

سنن ابن ماجہ ومسند احمد ومستدرک حاکم میں حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضرت میرے بیٹے کو تکلیف ہے۔ آپ نے پو چھا کہ کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا کہ اسے آسیب ہے۔ آپ نے فرمایا، اسے میرے پاس لے آؤ چنانچہ وہ لے آیا تو آپ نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور اس پر سورۃ فاتحہ اور دیگر آیات سے دم کیا تو وہ لڑکا اٹھ کھڑا ہوا گویا کہ اسے کوئی بھی تکلیف نہ تھی۔ ( حصن حصین، رضی اللہ عنہ : 171 )

خلاصہ یہ کہ سورۃ فاتحہ ہر مرض کے لئے بطور دم کے استعمال کی جاسکتی ہے اور یقینا اس سے شفاحاصل ہوتی ہے مگر اعتقاد راسخ شرط اول ہے کہ بغیر اعتقاد صحیح وایمان باللہ کے کچھ بھی حاصل نہیں نیز اس سورۃ شریفہ میں اللہ ہی کی عبادت بندگی کرنے اور ہر قسم کی مدد اللہ ہی سے چاہنے کے بارے میں جو تعلیم دی گئی ہے اس پر بھی عمل وعقیدہ ضروری ہے۔ جو لوگ اللہ پاک کے ساتھ عبادت میں پیروں ، فقیروں، زندہ مردہ بزرگوں ، نبیوں ، رسولوں یا دیوی دیوتاؤں کو بھی شریک کرتے ہیں وہ سب اس سورہ شریفہ کی روشنی میں حقیقی طور پر اللہ وحدہ ، لاشریک لہ، کے ماننے والے اس پر ایمان وعقیدہ رکھنے والے نہیں قرار دئیے جاسکتے ، سچے ایمان والوں کا سچے دل سے اللہ کے سامنے یہ عہد ہونا چاہئے۔ ایاک نعبد وایاک نستعین یعنی اے اللہ ! ہم خاص تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ سچ کہا ہے

غیروں سے مدد مانگنی گر تجھ کو چاہئے
ایا ک نستعین زباں پر نہ لائیے

صراط مستقیم جس کا ذکر اس سورہ شریفہ میں کرتے ہوئے اس پر چلنے کی دعا ہر مومن مسلمان کو سکھلائی گئی ہے وہ عقائدحقہ اوراعمال صالحہ کے مجموعہ کا نام ہے جن کا رکن اعظم صرف خدائے واحد کو اپنا رب ومالک وپر وردگار جاننا اور صرف اسی کی عبادت کرنا ہے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی ذکر کیا کہ انہوں نے بحکم خدابنی اسرائیل سے کہا تھا۔ ان اللہ ربی وربکم فاعبدوہ ھذاصراط مستقیم یعنی بے شک اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے صرف اسی اکیلے کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ سورہ یسٓ شریف میں ہے۔ وان اعبدونی ھذا صراط مستقیم یعنی میری ہی عبادت کرنا یہی صراط مستقیم ہے، اسی طرح توحید الٰہی پر جمے رہنے اور شرک نہ کرنے، ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے، اولاد کو قتل نہ کرنے، ظاہر ی اور باطنی خواہش کے قریب تک نہ پھٹکنے، ناحق خون نہ کرنے ، ناپ تول کو پورا کرنے، یتیموں کے مال میں بے جاتصرف نہ کرنے عدل وانصاف کی بات کہنے اور عہد کے پورے کرنے کی تاکید شدید کے بعد فرمایا وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل ( الآیہ ) یعنی یہی میری سیدھی راہ ہے جس کی پیروی کرنی ہو گی۔ یہی ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ پاک کے انعامات کی بارش ہوئی جس سے انبیاءوصدیقین وشہداءوصالحین مراد ہیں۔ دین الٰہی میں جس کے ارکان اوپر بیان ہوئے کمی وزیادتی کرنے والوں کو مغضوب وضالین کہاگیاہے یہودی ونصاری ٰاسی لئے مغضوب وضالین قرار پائے کہ انہوں نے دین الٰہی میں کمی وبیشی کرکے سچے دین کا حلیہ بدل کر رکھ دیا پس صراط مستقیم پر چلنے کی اور اس پر قائم رہنے کی دعا کرنااور دین میں کمی بیشی کرنے والوں کی راہ سے بچے رہنے کی دعا مانگنا اس سورہ شریفہ کا یہی خلاصہ ہے۔

سورۃ فاتحہ کے ختم پر جہری نمازوں میں جہر سے یعنی بلند آواز سے اور سری نمازوں میں آہستہ آمین کہنا سنت رسول ہے۔ آمین ایسا مبارک لفظ ہے کہ ملت ابراہیمی کی ہر سہ شاخوں میں یعنی یہود ونصاریٰ اور اہل اسلام میںدعا کے موقع پر اس کا پکا رنا پایا جاتا ہے اور یہ عبادت گزارلوگوں میں قدیمی دستورہے آمین کا لفظ عبرانی الاصل ہے اس کا مطلب یہ کہ یا اللہ! جو دعاکی گئی ہے اسے قبول کرلے۔
احادیث صحیحہ سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ جہری نمازوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد لفظ آمین کو زور سے کہا کرتے تھے۔ بعض روایا ت میں یہاں تک ہے کہ اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کی آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بہت سے تابعین ، تبع تابعین، محدثین، ائمہ دین ، مجتہدین آمین بالجہر کے قائل وعامل ہیں۔ مگر تعجب ہے ان لوگوں پر جنہوں نے اس آمین بالجہر ہی کو وجہ نزاع بنا کر اہل اسلام میں پھوٹ ڈال رکھی ہے اور زیادہ تعجب ان علماءپر ہے جو حقیقت حال سے واقف ہونے کے باوجود جبکہ حضرت امام شافعی ، امام احمد بن حنبل، حضرت اما م مالک رحمۃ اللہ علیہم سب ہی آمین بالجہر کے قائل ہیں اپنے ماننے والوں کو آمین بالجہر کی نفرت سے نہیں رو کتے حالانکہ یہ چڑنا سنت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے نفرت کرنا ہے اور سنت رسول سے نفرت کرنا خود رسول پاک علیہ السلام سے نفرت کرنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں من رغب عن سنتی فلیس منی ( مشکٰوۃ ) یعنی جو میری سنت سے نفرت کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں یوں تو آمین بالجہر کے بارے میں بہت سی احادیث موجود ہیں مگر ہم صرف ایک ہی حدیث درج کرتے ہیں جس کی صحت پر دنیا جہان کے سارے محدثین کا اتفاق ہے۔ حضرت امام رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ بخاری، حضرت امام مسلم ، امام شافعی، امام داؤد ، امام ترمذی ، امام نسائی ، اما م بیہقی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین سب ہی نے طرق متعددہ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے، وہ حدیث یہ ہے۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذاامن الامام فامنوا فانہ من وافق تامینہ تامین الملائکۃ غفر لہ ماتقدم من ذنبہ قال ابن شھاب وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اٰمین ( مؤطاامام مالک )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو پس حقیقت یہ ہے کہ جس کی آمین کو فرشتوں کی آمین سے موافقت ہوگئی اس کے پہلے گناہ بخش دیئے گئے۔ امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی آمین کہا کرتے تھے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے استدلال کی صورت یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی آمین نہ سنے تو اسے اس کا علم نہیں ہوسکتا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کی آمین کو امام کی آمین سے وابستہ فرمایا ہے پس ظاہر ہوا کہ یہا ں امام اور مقتدی ہر دو کو آمین بالجہر ہی کے لئے ارشاد ہورہا ہے۔ ایک حدیث اور ملاحظہ ہو:

عن وائل ابن حجر قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قرا غیر المغضو ب علیہم ولا الضالین وقال اٰمین ومد بھا صوتہ ( رواہ الترمذی )
یعنی حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ نے جب غیر الغضوب علیھم ولا الضالین پڑھا تو آپ نے اس کے ختم پر آمین کہی اور اپنی آواز کو لفظ آمین کے ساتھ کھینچا۔ ( تلخیص الحبیر : 1 رضی اللہ عنہ : 89 ) میں رفع بھا صوتہ بھی آیا ہے یعنی آمین کے ساتھ آواز بلند کیا۔

خلاصہ یہ کہ آمین بالجہر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے آپ کی سنت پر عمل کر ناباعث خیر وبرکت ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرنا دونوں جہان میں ذلت ورسوائی کا موجب ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو سنت رسول پر زندہ رکھے اور اسی پر موت نصیب فرمائے آمین

مسلک سنت پہ اے سالک چلا جا بے دھڑک
جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS