*🌷اپنے بھائی کی ہر حال میں مدد کریں🌷*
✍ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
{{أنصر أخاك ظالما أو مظلوما}}
*"اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم"*
ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!
{أنصره إذا كان مظلوما، أفرايت إذا كان ظالما كيف أنصره}
*"جب وہ مظلوم ہوگا تب تو میں اس کی مدد کروں گا، لیکن جب وہ ظالم ہوگا تو آپ بتائیں کہ میں اس کی مدد کیسے کروں؟*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
{{تحجزه أو تمنعه من الظلم فإن ذلك نصره}}
*"تم اس کو ظلم سے روکو -یا منع کرو- یہی اس کی مدد کرنا ہے۔"*
(صحیح بخاری:6952)
*نوٹ:*
#مظلوم کی مدد کرنا ضروری ہے، وگرنہ پورا معاشرہ گناہ گار ٹھہرے گا۔
#جیسے مظلوم کی مدد کرنا شریعت میں مطلوب ہے ویسے ہی ظالم کی مدد کرنا بھی شریعت میں مطلوب ہے۔
#مظلوم کی مدد اس طرح ہوگی کہ اس کو ظالم کے ظلم وستم سے بچایا جائے، اس کو اس کا جائز حق دلایا جائے اور اس کے ساتھ عدل وانصاف کا معاملہ کرایا جائے۔
#ظالم کی مدد اس کو مظلوم پر ظلم وستم کرنے سے باز رکھ کر کی جائےگی۔
#ظالم کو ظلم سے روکنا اس کی مدد بایں طور ہوگی کہ وہ ایک بڑے گناہ کے ارتکاب سے بچ جائےگا، شریعت میں اس گناہ پر جو سخت وعید آئی ہے اس کا مستحق بننے سے بچ جائےگا، زندگی پر مرتب ہونے والے اس گناہ کے برے اثرات سے بچ جائےگا، دنیا اور آخرت میں اس گناہ کی مقرر شدہ سزائوں سے بچ جائےگا، مظلوم کی بد دعائوں سے بچ جائےگا، قیامت کے دن کی تاریکیوں سے اور اس دن کی مفلسی ودیوالیہ پن سے بچ جائےگا۔
#انسانیت اور بھائی چارگی کا تقاضا ہے کہ جہاں تک ہو سکے مظلوم کی تن من دھن سے اور اثر ورسوخ کے ذریعے ہر ممکن مدد کی جائے۔
#یہ بھی ایمان ہی کا تقاضا ہے کہ ظالم کو حسب استطاعت ظلم وزیادتی سے روکا جائے:
اگر استطاعت ہو تو ہاتھ سے یعنی طاقت وقوت کے زور پر روکنا چاہئے، نہیں تو زبان سے منع کرنا چاہئے اور قلم سے اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے، اور اگر یہ بھی نہیں تو کم از کم اس کے ظالمانہ عمل کو دل سے ضرور برا جاننا چاہئے۔
#اسلام ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور خیرخواہی کا دین ہے۔
#اللہ اپنے اس بندے کی ضرور مدد کرتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔
#اے اللہ! ملک شام کے مسلمانوں کی مدد فرما، اور دیگر مسلمانان عالم کو بھی بروقت ان کی مادی ومعنوی دونوں اعتبار سے امداد کرنے کی توفیق عطا فرما۔
*آپ کا بھائی:*
افتخار عالم مدنی
اسلامک گائڈینس سنٹر
جبیل سعودی عرب
Apne bhai ki her Halat Me Madad Karein.
Insaan Apne Din ko Fitno Se Kaise Bachaye.
🌷انسان اپنے دین کوفتنوں سے کیسےبچائے 🌷
الشیخ محمد صالح المنجد
صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ میں ابو ادریس خولانی سے حدیث موجود ہے بخاری کے لفظ یہ ہیں :
ابو ادریس خولانی نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر اور بھلائی کے متعلق سوال کرتے اور میں ان سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں میں اس میں واقع نہ ہو جاؤں تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر اور بھلائی دی تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جی ہاں اور اس میں فساد ہو گا میں نے کہا یہ دخن کیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسی قوم آۓ گی جو میرے طریقے کو چھوڑ کر دوسراطریقہ اختیا رکریں گے جسے تو جانے گا اور انکار کرے گا تو میں نے کہا کہ کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دینے والے ہوں گے جس نے ان کی مان لی وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان کے اوصاف بتائیں تو آپ نے فرمایا وہ ہم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں بات کریں گے میں نے کہا کہ اگر میں نے یہ دور پا لیا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا میں نے کہا کہ اگر امام اور جماعت نہ ہوئی تو ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : تو ان سب فرقوں سے علیحدگی اختیار کر اگرچہ تجھے درخت کی جڑ ہی کیوں نہ کھانی پڑے حتی کہ تجھے اس حالت میں موت آجائے ۔
تو یہ دور اور زمانہ اس دور کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر دور اور زمانے میں اور جگہ پر عام ہے عہد صحابہ سے لے کر جب عثمان رضی اللہ عنہ پر خروج اور فتنہ شروع ہوا ۔
اور فتنہ کے دور میں لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنے سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام طبری سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب بھی لوگوں کا امام نہ ہو اور لوگوں میں اختلاف اور جماعتیں ہوں تو شر میں پڑنے کے ڈر سے اگر طاقت رکھو تو فرقوں میں کسی کی پیروی نہ کرو اور سب سے علیحدگی اختیار کرو، تو جب بھی کوئی ایسی جماعت ملے جو حق پر ہو اس میں ملنا چاہۓ اور ان کے تعداد میں اضافہ اور حق پر ان کا تعاون کرنا چاہۓ کیونکہ یہ جو ذکر کیا گیا ہے وہ اس شخص اور وقت اور مسلمانوں کی جماعت کا ہے ۔
اور اللہ ہی توفیق بخشنے والا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمائے ۔ .