السلام علیکم ایک سوال کا جواب چاہتا ھوں کہ ھمارے اکثر خطیب حضرات جمعہ کے خطاب میں تاخیر کرتے ھیں اگر نماز کا ٹائم 1.30پر مقرر ھوتا ھے لکین خطیب حضرات کبھی 10منٹ 15منٹ تاخیر کر لیتے ھے کیا یہ جائز ھے یا ظلم ھے؟
الجواب بعون رب العناد:
* * * * * * * * * * * * * * *
تحریر:حافظ ابوزھیر محمد یوسف بٹ ریاضی۔
* * * * * * * * * * * *
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد:
جمعہ کے دن جمعہ کی نماز ادا کرنے اور خطبہ سننے کے لئے مقتدی کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ خطیب کے ممنبر پر چڑھنے سے قبل ہی آجائیں:
دلیل:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح اہتمام کے ساتھ غسل کرتا ہے پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے، گویا اس نے انڈے سے خدا کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کے لیے نکل آتا ہے توفرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں۔[بخاری حدیث نمبر:881 ، صحیح مسلم850]۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقتدی کے لئے سنت ہے
اور أمام کے لیۓ تاخیر کرنا ہی سنت ہے
کیونکہ امام کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ لوگوں کے جمع ہونے کے بعد نکلے۔
کیونکہ نبی علیہ السلام صحابہ کے جمع ہونے کے بعد اپنے گھر سے تشریف لاتے تھے اور پہر ممبر پر چڑھتے تھے۔
اسے ثابت ہوا کہ امام کے لئے تاخیر کرنا ہی سنت ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے تھوڑی تاخیر کرتے یہاں تک کہ لوگ جمع ہوتے پہر جب لوگ جمع ہوتے تو آپ علیہ السلام اپنے حجرے سے نکلتے اور مسجد میں لوگوں کو سلام کرتے اسکے بعد ممبر پر چڑھتے اور لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر سلام کرتے پہر آپ علیہ السلام ممبر پر بیٹھتے تھے یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ آذان کھتے آذان کے بعد آپ علیہ السلام کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے تھے۔[زاد المعاد429/1].
.شیخ ذکریا انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ خطبہ دینے کے وقت تک نبی علیہ السلام اور خلفاء کی اتباع کرتے ہوئے تاخیر کرے۔
امام ماوردی رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ ۔ ۔ [أسنى المطالب266/1]۔
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مقتدیوں کے حق میں یہ سنت ہے کہ وہ جمعہ کے دن مسجد میں آنے میں جلدی کریں۔
اور امام کے لئے سنت کا طریقہ ہے کہ وہ خطبہ دینے کے وقت ہی نکلیں ، آج کل بعض ائمہ مساجد وقت سے پہلے ہی مسجد میں آتے ہیں پہر مسجد میں خطبہ کے وقت تک بیٹھے رہتے ہیں ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔[فتاوى نور على الدرب88/71]۔
بعض اوقات امام سے امامت یا خطابت کے لئے دیر ہوجائے یا وہ دیر کرے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
دلیل: نبی علیہ السلام سے غزوہ تبوک میں امامت کے لئے دیر ہوئی پہر جلیل القدر صحابی عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی نماز پرھائی ، انکی نماز شروع کرنے کے بعد نبی علیہ السلام تشریف لائے جب کہ نبی علیہ السلام کی ایک رکعت فوت ہوچکی تھی سلام پہیرنے کے بعد آپ علیہ السلام نے فوت شدہ نماز ہوری کی۔ ۔ ۔ ۔[فتاوى اللجنة الدائمة278/6]۔
اسے ثابت ہوا کہ امام کے تاخیر ہونے یا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اکثر اہل علم کی یہ رائے ہے کہ جمعہ کے دن خطیب کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ مقررہ وقت پر ہی منبر پرچڑھے اور خطبہ دے لیکن اگر کسی وجہ سے وہ بعض اوقات ممبر پر چڑھنے میں دیر کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
خطیب امام راتب ہی طرح ہوتا ہے اور بہت سی مساجد میں امام راتب ہی انکا خطیب ہوتا ہے
لھذا لوگوں کو چاھئے کہ وہ امام وخطیب کے آنے کا انتظار کرے اور کوئی جلد بازی نہ کرے۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام راتب کو اگر کسی وجہ سے مسجد میں آنے میں دیر ہوجائے تو اس صورت میں جماعت میں سے کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ امام کی اجازت کے بغیر امامت کرے۔
بعض اہل علم کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کسی نے امام کی اجازت کے بغیر نماز پڑھا لی تو اس صورت میں انکی نماز صحیح نہیں ہے ،اسلئے لوگوں کو چاھئے کہ وہ اس میں کسی قسم کا تساھل نہ کریں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [الملخص الفقهي جلد1 ص نمبر:201 ، 202].
امام اگر کسی وجہ سے جمعہ کے دن آنے میں دیر کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ اوپر ابن قیم رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ نبی علیہ السلام اسوقت مسجد میں تشریف لاتے جب لوگ مسجد میں جمع ہوگئے ہوتے۔
اسے معلوم ہوا کہ امام کے لئے جائز ہے کہ وہ کبھی کبھار مسجد میں آنے میں دیر کرے
لیکن یہ بات یاد رکھے کہ امام کو چاھئے کہ مقررہ وقت پر آنے میں اکثر دیر نہ کرے ممکن ہے کہ اس وجہ سے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوجائے اسلئے بہتر یہی ہے کہ آنے میں دیر نہ کرے لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے بعض اوقات پانچ دس منٹ میں لیٹ ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں لوگوں کو چاھئے کہ وہ امام کے آنے کا انتظار کریں
اسی طرح اگر امام جمعہ کے دن نماز کو وقت مقررہ سے کچھ دیر بعد پڑھائے تو اس میں بھی کوئی حرج اور کوئی گناہ نہیں ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمعہ ادا کرنے وقت زوال کے بعد ہے اور نماز ظہر کے آخری وقت تک رہتا ہے ، اور جس نے جمعہ ظہر کے آخری وقت تک نماز جمعہ ادا کی اس نے نماز جمعہ اپنے وقت میں ہی ادا کردی۔[كتاب الام223/1].
امام بھوتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جمعہ کا وقت ظہر کے آخری وقت تک ہے۔[كشاف القناع26/2]۔
جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ نماز جمعہ کا آخری وقت عصر کی نماز کا وقت شروع ہونے تک ہے ، جس نے عصر نماز کے وقت کے داخل ہونے تک جمعہ نماز ادا کردی انکی نماز جمعہ ادا ہوگئی۔[المجموع للنووي جلد 4/ ص 377 ، 381 ، المحلى جلد4/ص نمبر:42 ، 45].
خلاص کلام: اسے معلوم ہوا کہ جمعہ نماز اول وقت میں ادا کرنا افضل اور اصوب ہے لیکن اگر امام کچھ منٹ تاخیر کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
امام کا دس منٹ پندرہ منٹ نماز جمعہ کے ادا کرنے میں تاخیر کرنے کو ظلم کہنا صحیح نہیں ہے
بلکہ امام خود مختار ہے وہ اگر کچھ منٹ تاخیر کرلے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
Showing posts with label juma ki namaj me akser log der se aate hai to kya ya jayez hai y zulm. Show all posts
Showing posts with label juma ki namaj me akser log der se aate hai to kya ya jayez hai y zulm. Show all posts
Khatib Juma Ki Namaj me Akser 10 ya 15 Minut Takhir kar Lete Hai Kya Yah Jayez Hai Ya Zulm
Aashiyana-E-HaqeeqatThursday, June 28, 2018juma ki namaj me akser log der se aate hai to kya ya jayez hai y zulm, quran o hadeeth ke Raushani me
No comments