رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا یا ارسال کرنا اسکے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔
اور اسے متعلق تین اقوال منقول ہیں:
پہلی رائے:اس معاملے میں سنت یہ ہے کہ نماز ی رکوع سے اٹھنے کے بعد اپنا دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے۔
یہ رائے بعض علماء احناف اور امام ھیثمی شافعی کا ہے ، اسی رائے امام ابن حزم ، امام ابن باز ، اور امام ابن عثیمن رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔[حوالہ:بدائع الصنائع201/1]۔
امام طحاوی رحمہ اللہ بھی ہر قیام میں ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔[حاشية الطحطاوي ص: 172 ، المجموع417/3]۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نمازی کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ہر قیام میں کوع سے قبل یا رکوع کے بعد سینہ پر رکھے۔[المحلى29/3]۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نمازی کے لئے افضل طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ رکوع کے بعد اپنے سینے پر رکھیں اور یہی زیادہ افضل معلوم ہوتا ہے۔
دلیل کہ نبی علیہ السلام جب نماز میں قیام فرماتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینہ پر رکھتے تھے۔ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ اور یہی افضل ہے۔[مجموع فتاوى ابن باز11/30]۔
ادلہ:عن سهلِ بنِ سعدٍ السَّاعديِّ رَضِيَ اللهُ عَنْه، قال: ((كان النَّاسُ يؤمَرونَ أنْ يضَعَ الرَّجلُ اليدَ اليُمنى على ذراعِه اليُسرى في الصَّلاو.[رواه البخاري740].
دلیل نمبردو:عن أنسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْه قال: كان رسولُ اللهِ إذا قال: سمِعَ اللهُ لِمَن حمِدَه قام حتَّى نقولَ: إنَّه قد أوهَمَ.[رواه مسلم473]۔
وجہ استدلال:اس حدیث میں لفظ اوھم اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نبی علیہ السلام کا قیام رکوع کے بعد ویسا ہوتا تھا جیساکہ وہ رکوع سے پہلے قیام فرماتے۔
تیسری دلیل:کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد سدل یعنی آپ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ نیچے چھوڑے ہوں۔[فتاوى اللَّجنة الدَّائمة - المجموعة الأولی 366/6]۔
دوسری رائے:نمازی کو اختیار ہے چاھئے وہ ارسال کرے یا یا رکوع کے بعد ہاتھ باندھے کیونکہ دونوں ہی معاملے میں کوئی صریح حدیث موجود نہیں ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث سھل بن سعد کی شرح میں لکھتے ہیں:
كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في
الصلاة۔
کہ یہ حدیث مطلق نص ہے کہ نمازی اپنا دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے چاھئے رکوع سے پہلے ہو یا بعد میں اسکی کوئی قید نہیں ہے۔[إرشاد الفحول ص114_115]۔
علامہ محمد بن ھادی مدخلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنا یعنی حالت قیامت میں نبی علیہ السلام سے ثابت ہے اور یہ حدیث عام ہے رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں ہی اس میں شامل ہیں کیونکہ تخصیص کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے لھذا رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[شرح كتاب الصيام الدرس الثالث عشر والأخير]۔
شیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ بہت آسان ہے اس مسئلہ میں نہ نفی کوئی دلیل موجود ہے اور نہ اثبات کی۔
جن علماء نے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کو مستحب سمجھا ہے انہوں نے حدیث وائل حدیث عائشہ وغیرہ سے استدلال کیا ہے کہ اس قسم کی احادیث عام ہیں جوکہ عموم پر دلالت کرتی ہیں اور تخصیص کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
اور بعض لوگ عدم وضع کے قائل ہیں میں یہی کہوں گا کہ اس مسئلہ میں وسعت ہے چاھئے کوئی رکوع کے بعد ہاتھ باندھے یا ارسال کرے دنوں طریقوں کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے
میں رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کو بدعت یا گمراہی نہیں کہ سکتا۔[ماخوذ من درس الشيخ ،شريط:حكم التصوير].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اور ابن باز رحمہ اللہ نے وضع الیدین بعد الرکوع کو سنت قرار دیا ہے۔
انہوں حدیث سھل بن سعدجو کہ بخاری کی روایت ہے اور حدیث وائل بن حجر سے استدلال کیا ہے اور انہوں نے شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس قول کا رد کیا ہےکہ وضع الیدین بعد الرکوع بدعت ہے بلکہ ان کا یہ قول بلکل صحیح نہیں ہے۔[فتاوى نور على الدرب]۔
خلاصہ کلام:اس مسئلہ میں وسعت ہے دونوں طریقوں پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جو شخص بعد الرکوع ہاتھ باندھنے کو بدعت کہے وہ غلطی پر ہے۔
اللہ ہمیں قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
هذا ماعندي واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ:ابوزھیر محمد یوسف بٹ ریاضی۔
Showing posts with label rukoo ke bad hath bandhna ya arsaal karna kaisa hai. Show all posts
Showing posts with label rukoo ke bad hath bandhna ya arsaal karna kaisa hai. Show all posts
Rukoo ke Bad Hath Bandhna ya Arsaal Karna Kaisa hai?
Aashiyana-E-HaqeeqatSunday, May 20, 2018quran o sunnat ki Raushani me, rukoo ke bad hath bandhna ya arsaal karna kaisa hai
No comments