🕊🕊🕊
*🌐 حالات حاضرہ میں ہماری رہنمائی کرنے والی ایک چشم کشا تحریر ۔*
✍ مولانا عبدالماجد دریابادی ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب بعض منافقین کی شرارت سے امت کی سب سے بڑی مؤمنہ صدیقہ پر ایک نہایت گندی تہمت لگی اور اس کے چرچے پھیلے تو کلام مجید میں یہ دو آیتیں نازل ہوئیں۔
’’لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤمِنُونَ وَالْمُؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا وَقَالُوْا ھٰذَا اِفْک ٌمّبِیْنٌ‘‘(نور۔ع ۔۲)
جب تم لوگوں نے یہ گندی حکایت سنیں تھی تو مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنے لوگوں سے متعلق گمان نیک سے کام کیوں نہ لیا اور چھوٹتے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح افتراء ہے۔
وَلَوْ لا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَا یَکُوْنُ لَنَا اَنْ نَتَکَلَّمَ بِھٰذَا سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَان ٌعَظِیْم، یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِه أَبَدا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ(نور ۔ع ۲)
اور جب تمھارے کانوں تک یہ گندی حکایت پہنچی تھی اسی وقت تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کو ایسی بات منہ سے بھی نہ نکالنا چاہیے معاذ اللہ یہ تو بڑی سخت تہمت ہے.
اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو ایسی حرکت پھر ہرگز نہ کرنا۔
خبر کے گڑھنے کا ذکر نہیں، گڑھی ہوئی خبر کے صرف قبول کرنے اور بے سوچے سمجھے اس کے چرچے کرنے پر یہ ڈانٹ پڑرہی ہے، کسی مسلمان پر افتراء تو کوئی مسلمان کیوں کرنے لگا کسی افتراء کو قبول کرنا اور اس کی اشاعت میں معین ہونا بھی ہرگز کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ایسی نامعقول روایتوں اور حکایتوں کے سننے کے ساتھ ہی انھیں رد کردینا چاہیے اور کسی مسلمان کی عزت پر حملہ سن کر اسی وقت اس کے قبول کرنے سے صاف انکار کردینا چاہیے، وہ مسلمان کیسا جو دوسرے مسلمان کی دیانت پر، عزت پر، اخلاق پر حملہ ہوتے ہوئے دیکھے اور چپکا بیٹھا رہے یا یہ کہہ کر اپنا پیچھا چھڑالے کہ سنا ایسا ہی تھا اسے تو فورًا اس کی تردید کرنی چاہیے بغیر اس کے وہ مسلمان ہی کیسا؟ اور اس کا ایمان ہی کیا؟ .
آج دنیائے اسلام کے کسی گوشہ میں اس پر عمل ہے؟ پبلک جلسے ہوں یا گھروں کے اندر تخلیہ کی صحبتیں، اخبارات کے مقالات ہوں یا خانگی خطوط، کہاں یہی چرچے یہی تذکرے نہیں کہ فلاں لیڈر قوم کا روپیہ کھا گیا، فلاں لیڈر انگریزوں سے مل گیا، فلاں لیڈر نے ہندؤں سے رشوت لی، فلاں مولانا صاحب چھپے رستم نکلے، فلاں شاہ صاحب کی چوری پکڑی گئی، محلہ کے چودھری صاحب کے جوہر یوں کھل رہے ہیں، شہر کے قاضی صاحب کی یہ یہ حرکتیں ظاہر ہوئیں اس کا گھر جواریوں کا اڈا ہے، اس کے ہاں کی بہو بیٹیوں تک کی عزت کا ٹھیک نہیں؟ جہاں چار مسلمان جمع ہوئے نہ خدا کا ذکر نہ رسول کا تذکرہ، نہ موت کی یاد، نہ آخرت کی فکر، بس غیبتیں ہیں تو مسلمانوں کی، اور بدگوئیاں ہیں تو اپنے ہی بھائی بندوں کی. ایک ایک گھر کے پترے کھل رہے ہیں، اور دنیا جہاں کا کوئی عیب کوئی الزام ایسا نہیں جو خود مسلمانوں ہی کی زبان سے مسلمانوں پر نہ لگ رہا ہو! تہمتیں تراشنے والے مسلمان، ان پر یقین کرنے والے مسلمان، انھیں پھیلانے والے مسلمان، نتیجہ رنجشوں، مقدمہ بازیوں، فوجداریوں کی صورت میں روزانہ موجود، لیکن زبان کو چاٹ ایسی پڑی ہوئی ہے کہ ساری تکلیفیں گوارہ، لیکن ان چرچوں اور تذکروں سے ہاتھ اٹھانا ناممکن ہے۔