فضیلت الشیخ محمد یوسف بٹ ریاضی صاحب حفظہ اللہ۔
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
میرا سوال ہے کہ کیا کسی میت کو دوسرے ملک سے اپنے ملک یا گاوں منتقل کرسکتے ہیں؟
قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرماویں۔
سائلہ:رافعہ بنت عبد اللطیف خان کراچی پاکستان۔
الجواب بعون رب العباد:
*********
تحریر:حافظ ابوزھیر محمد یوسف بٹ ریاضی۔
***********
حامدا ومصلیا اما بعد:
اس بارے میں افضل یہی ہے کہ انسان کی جس جگہ جس ملک میں موت واقع ہوجائے اسی جگہ اسے دفن کیا جائے اسی چیز کو اہل علم سلف وخلف نے افضل اور راجح قرار دیا ہے۔
علامہ ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں مستحب یہ ہے کہ جس جگہ انسان کی موت ہوجائے اسی جگہ اسے دفن کیا جائے، نبی علیہ السلام کے زمانے میں اسی پر عمل تھا ، اور اکثر اہل علم کی یہی رائے ہے ، اور اکثر ملکوں میں ایسا ہی کیا جاتا تھا۔[الأوسط516/5]۔
البتہ اگر کسی وجہ سے میت کو اپنے ملک کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ایسا کرنا بھی جائز ہے۔
اسی رائے کو جمہور اہل علم ائمہ احناف ، موالک اور حنابلہ نے اختیار کیا ہے۔[حاشية ابن عابدين426/6 ، 480 ، شرح مختصر خليل للخرشي133/2 ، كشاف القناع للبهوتي141/2].
ادلہ:
اثر:امام مالک ابو مصعب زھری کی روایت سے لاتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور سعید بن سعید کی موت عقیق میں ہوئی ، پہر انہیں مدینہ منورہ منتقل کیا گیا اور ان دونوں کو مدینہ میں دفن کیا گیا۔[الموطأ نمبر:977 ، العزلة والانفراد61]۔
علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔[الاستذكار57/3]۔
وجہ استدلال:اسے ثابت ہوا کہ ضرورت کے وقت میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرسکتے ہیں۔
اسوقت بہت سے صحابہ موجود تھے ، اور ایک کبار تابعین کی جماعت بھی موجود تھی لیکن کسی سے نکیر ثابت نہیں ہے۔
ممکن ہے کہ ان دونوں نے اپنے مرنے سے قبل اسکی وصیت کی ہو۔[الاستذكار58/3]۔
اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی موت کسی دوسرے ملک میں ہوجائے تو اس معاملے میں اصل یہی ہے کہ میت کو اپنے ملک منتقل کرسکتے ہیں کیونکہ منع کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔[عون المعبود للعظيم آبادي 39/9].
اوپر جو ادلہ گزرے ان سے اہل علم نے صرف ضرورت کے وقت جواز کا فتوی دیا ہے بصورت دیگر میت کو اس جگہ جہاں اسکی موت ہوئی منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میت کو بغیر کسی غرض صحیح کے منتقل کرنا جائز نہیں ہے ، یہ رائے امام اوزاعی اور امام ابن منذر رحمھا اللہ وغیرہ ہے۔
البتہ اگر اس میں کوئی مصلحت ہو تو اس صورت میں جائز ہے۔[المغني جلد3 ص نمبر:193، 194].
لجنہ دائمہ میں ہے کہ عملی سنت یہ کہ نبی علیہ السلام کے عہد مبارک میں میتوں کو اسی جگہ دفنایا جاتا جس جگہ انکی موت ہوتی اور اس زمانے میں شھداء کو اسی جگہ دفن کیا جاتا جس جگہ وہ شھید ہوتے۔
کسی صحیح حدیث اور نہ کسی صحیح اثر سے ثابت ہے کہ کسی صحابی کو منتقل کیا گیا ہو۔
اسلئے جمہور اہل علم کی یہی رائے ہے کہ میت کو بغیر کسی مصلحت یا کسی غرض صحیح کے بغیر منتقل کرنا جائز نہیں ہے ، اگر اس جگہ میت کی بے حرمتی یا میت کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو اس صورت میں اسے منتقل کرنا جائز ہے بصورت دیگر جائز نہیں ہے۔[فتاوى إسلاميةجلد2 ص نمبر:31 ، 32]۔
خلاصہ کلام:اس معاملے میں راجح اور افضل یہ ہے کہ میت کی جس جگہ موت ہوجائے اسی جگہ اسے دفن کیا جائے اور ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے میں کافی وقت درکار ہے
اور شریعت میں میت کو جلدی دفن کرنے کا حکم ہے اسلئے میت کو منتقل کرنا بغیر مجبوری اور مصلحت کے جائز نہیں ہے۔غ
ہاں اگر میت کے منتقل کرنے میں کوئی مصلحت ہو تو اس صورت میں منتقل کرنے میں جواز ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
Showing posts with label Maiyat. Show all posts
Showing posts with label Maiyat. Show all posts